ڈاکٹرمعین الدین شاہینؔ
ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج، اجمیر(راجستھان
پروفیسر حمیداللہ خاں عرشیؔ
حمیداللہ خاں عرشیؔ کے احوال وآثار پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا احترام الدین احمدشاغلؔ رقم طرا ز ہیں کہ :
’’عرشی ؔتخلص، محمدحمیداللہ خاں نام، نسباً یوسف زئی افغان، والدِ بزرگوار کانام سبحان خاں تھا۔ وطن جے پور۔ میر حیدر حسن زکیؔ ویکتاؔ سے تلمذ تھا۔ اُن کی خدمت میں خط کی مشق کرنے کوحاضرہواکرتے تھے ، اسی سلسلے میں شعروسخن کاشوق ہوا تو انہیں سے تلمذ اختیار کیا۔
شخصیت : باوجودیہ کہ آپ کے خاندان میں علم کافقدان تھا مگر آپ نے اپنے شوق سے پڑھا۔ مہاراجہ اورینٹل کالج جے پور سے منشی فاضل پاس کیا۔ پھرانگریزی تعلیم حاصل کرکے ایم-اے کیا ۔ عربی کی استعداد معقول بھی حاصل کی ۔ ذوقِ کتب بینی سے مبلغ علم بہت بلندکردیا۔ گورنمنٹ کالج اجمیرمیں پرشین پروفیسر ہوگئے ۔ نہایت نیک نام زندگی بہت عشرت سے بسر کی ۔ اجمیرمیں آنریری مجسٹریٹ بھی رہے …پنشن لینے کے کچھ عرصہ بعد جے پور آگئے تھے اور یہیں مستقل طورپرسکونت پذیرتھے۔‘‘
(’’تذکرہ شعرائے جے پور‘‘مرتب مولانا احترام الدین احمدشاغلؔ، ص ۳۳۱، ۳۳۲، ناشر انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ، ۱۹۵۸ء)
مولاناشاغلؔ نے اگرچہ مذکورہ اقتباسات میں عرشیؔ سے متعلق اہم معلومات فراہم کرائی ہیں لیکن وہ اس وضاحت سے قاصر رہے کہ عرشیؔ کی ولادت کب اور کہاں ہوئی۔ ہوسکتا ہے انہوں نے بھی راقم الحروف کی طرح ہی اس سلسلے میں تگ ودو اور پیش رفت کی ہو لیکن کوئی کارآمد حوالہ ہمدست نہیں ہواہو۔ گورنمنٹ کالج اجمیر کی میگزین کے شماروں میں عرشیؔ سے متعلق اردو اور انگریزی میں مضامین شائع ہوئے لیکن اُن کی ولادت کے سلسلے میں وہاں بھی سناٹا اور خاموشی دکھائی دیتی ہے ۔
عرشیؔ کی سندی تعلیم کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے مولانا شاغلؔ نے انہیں منشی فاضل اور ایم-اے کا سند یافتہ بتایا ہے لیکن گورنمنٹ کالج اجمیرکی میگزین کے شماروں میں اُن کے نام کے ساتھ ایل-ٹی، ایچ-پی اور ایچ-اے کا اضافہ بھی دیکھاجاسکتاہے۔ عرشیؔ نے اپنی تعلیم ختم کی تو انہیں روزگار کی فکر ہوئی ۔ انہیں دنوں ۱۹۱۲ء میں خان بہادر سید عبدالوحید چشتی (پروفیسر شعبۂ فارسی) گورنمنٹ کالج اجمیرکا تقرر میئوکالج، اجمیر میں ہوجانے پر شعبۂ فارسی کی پروفیسر شب کے تحت ۱۹۱۳ء میں حمیداللہ خاں عرشیؔ کاتقرر عمل میں آیا۔ انہوں نے اس عہدے پر فائز رہتے ہوئے ۲۹ برسوں تک اپنی خدمات انجام دیں اور بالآخریکم جون ۱۹۴۲ء کو اس عہدے سے سبکدو ش ہوکر پنشن یاب ہوئے ۔
عرشیؔ صاحب کی سبکدوشی کے موقع پر اُن کے اعزاز میں شایان شان تقریبات کاانعقاد کیاگیا جہاں کالج کے اساتذہ وطلبہ نے اُن سے متعلق تقریری اور تحریری طورپر اظہارِ خیال کیا۔ چونکہ عرشی ؔ کا شمار ہر دلعزیز شخصیات میں ہوتاتھا تاہم گورنمنٹ کالج کی میگزین بابت یکم مارچ ۱۹۴۲ء میں ایڈیٹوریل ریویو کے زیر عنوان یہ تحریرکیاگیاکہ :
’’مولوی حمیداللہ خاں یوسف زئی امسال یکم جون کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ چونکہ اُن کی سبکدوشی گرمی کی تعطیلات میں ہوگی اس لئے ہم انہیں ۲۷؍اپریل کوخداحافظ کہہ دیں گے۔ انہوں نے اس ادارے میں اپنی ۲۹ سالہ خدمات انجام دی ہیں۔ اُن کی شخصیت نہایت متاثرکن ہے ۔ انہوں نے اس ادارے کے لوگوں کے ساتھ اہل خانہ جیسا سلوک کیا۔ اُن کاتقرر ۱۹۱۳ء میں اس کالج کے پروفیسر شعبۂ فارسی کے طورپرہواتھا۔ تب سے آج تک طلبہ کی رہبری اور رہنمائی کافریضہ انہو ں نے انجام دیا۔ انہوں نے کالج ہاسٹل کاسپرنٹنڈنٹ رہتے ہوئے طلبہ کے ساتھ پدرانہ سلوک کیاجس کے لئے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ وہ مہذب، مؤدب، مخلص اور بااخلاق انسان ہیں۔ آپ کے تعلقات خاندانِ مغلیہ اور نوابین اودھ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد سے نہایت خوشگوار رہے ہیں۔ آپ بے حد شیریں اور نفیس اردو بول کرسب کو اپناگرویدہ بنالیتے ہیں، اور آزادانہ طورپر ہرمکتبۂ فکر کے حضرات کے ساتھ نہایت شائستگی سے پیش آتے ہیں۔ آپ کے چہرے پر ہمیشہ تبسم کی لکیریں دوڑتی رہتی ہیں۔ اردو اور فارسی تہذیب کی نمائندگی آپ کی شخصیت کے نمایاں اور روشن پہلو ئوں میں شمار ہے ۔
آپ اپنے شاندار ماضی اور اس کے تہذیبی رکھ رکھائو نیز ادب وآداب کالحاظ رکھتے ہیں۔ مولوی صاحب کی تعریف وتوصیف چند الفاظ یاجملوں میں ادا نہیں ہوسکتی۔ آپ ایک زندہ دل اور بذلہ سنج شخص ہیں۔ لطیفہ گوئی اور لطیفہ سازی میں مہارت رکھتے ہیں ، لیکن ہنسی مذاق کے دوران بھی تہذیبی روایت اور اقدار کادامن نہیں چھوڑتے ہیں ۔ کبھی کبھار وہ لطیفہ گوئی کے دوران خود کونشانۂ ہدف بنالیتے ہیں۔ جولوگ اُن سے ملاقات کرتے ہیں وہ خوشی خوشی لوٹتے ہیں۔ آپ ہررنگ میں خود کوڈھالنے کاہنر جانتے ہیں تاہم کالے ، ہرے اور گلابی پاپوش انہیں مرغوب ہیں۔ ہرقوم وملت سے تعلق رکھنے والے حضرات کااحترام کرتے ہیں۔ اپنے رفقائے کار کے ساتھ آپ کاسلوک ہمیشہ برادرانہ اور مشفقانہ ہوتا ہے ، اپنے طلبہ سے اُن کی پدرانہ شفقت جگ ظاہر ہے ہی ، اُن کی تعلیم تربیت اورکیریئر کے لئے ہمیشہ متفکر رہتے ہیں۔ یہ ایسے اوصاف ہیں جن کے سبب مولوی حمیداللہ خاں یوسف زئی کو پسند کیاجاتاہے۔
کالج کے طلبہ نے یہ پیش کش کی ہے کہ وہ مولوی صاحب کی سبکدوشی کے موقع پرمارچ کے ماہ میں اُن کے شایانِ شان الوداعیہ تقریب آراستہ کریں گے ۔ ہم مولوی صاحب کی ہمیشہ صحت یابی، تندرستی، سلامتی اور مسرت وشادمانی کے لئے دعاگو ہیں۔ اور کالج کے اساتذہ وتلامذہ کی جانب سے انہیں نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ کالج کے اسٹاف کی یہ دلی خواہش ہے کہ مولوی صاحب کی ایک قلمی تصویر بنواکر کالج میں آویزاں کی جائے تاکہ وہ سدا ہماری یادوں میں رچے بسے رہیں۔‘‘ (’’دی گورنمنٹ کالج میگزین‘‘،گورنمنٹ کالج اجمیر، ص ۱، بابت یکم مارچ ۱۹۴۲ء ) مذکورہ تحریرسے یہ واضح ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کالج ،اجمیرکے طلبہ نے مارچ ۱۹۴۲ء میں عرشیؔ سے متعلق ایک الوداعیہ تقریب کے انعقاد کی پیش کش کی تھی، لہٰذا یہ تقریب اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق انعقاد پذیر ہوئی جس میں طلبہ نے عرشیؔ صاحب سے متعلق اپنے جذبات واحساسات کااظہار کیا۔ اسی تقریب میں طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بی-اے فائنل کے طالبِ علم سیدمحمدشفیع چشتی انجمؔ نے اپنامختصر وجامع مضمون بعنوان ’’مولانا حمیداللہ خاں صاحب یوسف زئی‘‘ پیش کیا جوبعدازاں کالج میگزین میں بھی شائع ہوا۔ چونکہ اس مضمون میں بعض ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو دیگرحوالوں سے موصول نہیں ہوتیں تاہم اس مضمون کی تلخیص یہاں پیش کی جارہی ہے :
’’گورنمنٹ کالج اجمیرسے مولانا حمیداللہ خاں یوسف زئی کے ریٹائرہوجانے سے کالج میں ایک ایسی علم دوست ہستی کی کمی واقع ہوئی جو کبھی نہیں بھلائی جاسکتی۔ کالج کے اساتذہ اور طلبہ کاخوشگوار فرض ہے کہ آپ جیسے کامل استاد پرنازاں ہوں۔ وہ ایک جامع حیثیت شخص ہیں۔ عربی اور فارسی کے جیدعالم ہونے کے علاوہ اردو زبان پر اُن کی وسیع نظر ہے ۔ اعلیٰ درجے کے نثار ہیں اور شعر بھی خوب کہتے ہیں ۔ عرشیؔ تخلص فرماتے ہیں۔ آپ طلبہ میں ایسا ذوق وتجسس پیداکردیتے ہیں کہ وہ اپنا رستہ خود نکال لیتے ہیں۔ آپ کی تحریر اور تقریر عاشقانِ علم وادب کے لئے نمونہ ہوتی ہے ۔ لفظوں کی تلاش یا نئے الفاظ بنانے میں کمال رکھتے ہیں۔ لفظ ایسے جلداور موزوں بناتے ہیں کہ گویا ان کے دماغ سے الفاظ ڈھلتے چلے آرہے ہیں۔باتیں کرتے وقت ان کی زبان کی روانی اور ان کے موزوں اور مرصع الفاظ کی نشست سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بے تکلف گفتگو بھی ادبی تحریر سے کم دلآویز نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا جیسی عظیم الشان شخصیت اس قحط الرجال کے زمانہ میں خدائے تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت عظمیٰ ہے ۔ قدرت نے وہ ذہانت وفراست عطاکی ہے کہ جو کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے ۔ طبیعت میں بے ساختگی اور روانی کایہ عالم ہے کہ گو ایک بڑا دریا ہے کہ جس میں موجوں کا سلسلہ منقطع ہی نہیں ہوتا۔ ادب، فلسفہ، تاریخ،جغرافیہ ،اسلام اور دیگرعلوم میں انہیں کامل دسترس حاصل ہے ۔ مولاناکے وہ نوٹس جوطلبہ کو کالج میں لکھائے ہیں ، معلومات کی انسائیکلوپیڈیامعلوم ہوتے ہیں۔ موقع ومحل کی مناسبت سے برجستہ مصرعہ یاشعر پڑھ کر طلبہ کے دل ودماغ کو حاضروتروتازہ رکھنا مولاناکامخصوص طریقۂ تعلیم ہے ۔ اس سے طالب علم کونہ صرف درسی کتابوں سے بلکہ بڑے بڑے ادیبوں(کذا)کے کلام کااشتیاق پیدا ہوجاتا ہے اور اعلیٰ قسم کا ادبی ذوق دل ودماغ کوروشن کردیتا ہے ۔ بڑے بڑے اہم پیچیدہ حقائق اور ادق مسائل کوبڑی خوبصورتی اور سلاست سے مؤثر، دل نشیں اور قریب الفہم بنادیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولاناحمیداللہ خاں صاحب ایسی جلیل القدر اور یگانۂ روزگار ہستی ہیں کہ جن کی شاگردی کاشرف حاصل ہو نا خدائے تعالیٰ کی ایسی نعمتِ غیر مترقبہ ہے جس پر جتنابھی ناز کیاجائے کم ہے ۔ ہمارے لئے مولانا کی صحبت آغوشِ ادب سے کم نہ تھی ۔‘‘
(’’دی گورنمنٹ کالج میگزین‘‘،گورنمنٹ کالج اجمیر، ص ۷، بابت یکم مارچ ۱۹۴۳ء )
سیدمحمدشفیع چشتی انجمؔ کی زیرنظرتحریرکہیں نہ کہیں مرزا فرحت اللہ بیگ کی انشاء پردازی سے متاثر معلوم ہوتی ہے کیونکہ انجمؔ نے بھی ’’نذیراحمدکی کہانی : کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ جیسا ہی اسلوب اور اندازِ تخاطب اختیار کیا ہے ۔ اس معلومات افزا مضمون میں انجمؔ مزید رقمطراز ہیں کہ
’’آگرہ یونیورسٹی کے امتحان میں اردو کاشامل ہونامولانا ہی کی کوشش، ایثار اور قربانیوں کارہینِ منت ہے۔ مولانا کی دیگر ادبی خدمات اور ادب پروری کے ساتھ ساتھ مولانا کی یہ خدمت بھی اردو ادب میں بڑی قدر وقیمت سے دیکھی جائے گی۔
جامعہ عثمانیہ کی تعلیمی کونسل میں جب مسئلہ پیش ہوا کہ آزادکے بعداردو ادب کی کرسی کس کو دی جائے تو بالاتفاق یہ طے ہوا کہ بجز مولانا حمیداللہ خاں کے اور کوئی اس کا اہل نہیں ہے ۔
مولانا کے مزاج میں سادگی اور استغنا ہے ۔ جاہ وحشمت کے طالب نہیں ہیں ۔ آپ بڑے متواضع اور خلیق انسان ہیں۔ آپ جس سادگی، خلوص اور محبت سے پیش آتے ہیں اُس کی قدروقیمت صرف وہی جان سکتے ہیں جن کا اُن سے واسطہ پڑا ہے ۔آپ کسی کوناراض نہیں ہونے دیتے۔ خود خوش رہتے ہیں اور اوروں کوبھی خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ خوب باتیں کرتے ہیں او رہنستے ہیں اور ہنساتے ہیں ۔ مولانا میں اُس خلوص اور محبت کی بو آتی ہے جسکے قصے ہم نے بزرگوں سے سنے ہیں ۔ مولانا ایک زبردست عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عابد، متقی اور پرہیز گار بھی ہیں۔ آپ فقراء اور بزرگانِ دین سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں یہ ذوقی چیز ہے اسے علم وفضل سے کوئی واسطہ نہیں ۔ شعرائے متصوفین سے آپ کو قلبی لگائو ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جس بزرگ ہستی کے متعلق یہ سطر یں لکھ رہے ہیں ، ایک ایسی جلیل القدر اورنادرالوجود ہستی ہے جونایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے ۔ کالج کے تمام اساتذہ اس جوہرقابل کو آنکھوں میں جگہ دیتے ہیں ۔ مولانا کاکالج میں ہونا طلبہ کے لئے شفقت پدری سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ مولاناہم سے ایسے وقت میں جداہوئے ہیں جبکہ ہمیں ان کی سخت ضرورت تھی۔‘‘
(’’دی گورنمنٹ کالج میگزین‘‘،ایضا!، ص ۸ )
جیساکہ بیان کیاجاچکا ہے کہ بقولِ شاغلؔ مرحوم عرشیؔ کو میرحیدر حسن زکیؔ ویکتا ؔ سے تلمذ تھا۔ واضح ہو کہ میرحیدر حسن بذاتِ خود اُن قابل قدر شخصیات میں شامل تھے جنہیں علم وادب میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ عرشیؔ نے اپنی تعلیم وتربیت کے دوران جے پور میں میرحیدرحسن زکیؔ کی سرپرستی میں عمدہ عمدہ تخلیقات پیش کرنا شروع کردیاتھا ۔ اس لئے رفتہ رفتہ اُن کی ادبی پہچان قائم ہونے لگی۔ مولاناشاغلؔ نے یہ لکھاہے کہ انہیں بہ مشکل تمام عرشیؔ کے صرف مندرجہ ذیل اشعار میسر آئے ہیں ؎
اور سب کچھ تو ہے اے گردشِ دوراں ہونا
کبھی ممکن نہیں صبحِ شبِ ہجراں ہونا
گو نہیں شوقِ شکار اُن کو مگر کیا کیجے
دل کو خود ہی ہدفِ ناوکِ مژگاں ہونا
تم نہ چاہو تو ہے دشوار، اگر تم چاہو
کچھ بھی مشکل نہیں، مشکل میری آساں ہونا
واضح ہوکہ راقم الحروف کوعرشیؔ کاکلام بزبانِ فارسی واردو موصول ہوا جسے ہدیۂ قارئین کیاجارہا ہے ، ملاحظہ فرمائیے ؎
غزل فارسی
جلوۂ محمل نشینے درد بودہ دل مرا
جاں پئے جاناں برفت و دل پئے محمل مرا
غازۂ لولاک افزودہ جمالِ عارضش
شمع حسنش عالم آرا گشتہ در محفل مرا
بیکسی بیچارگی تعبیر خواب ہستیم
یاس وحرماں دور دور انداخت از ساحل مرا
بستیگہارا کشود از دستِ تو اندر جہاں
دستی از رحمت کشا شد کار ہا مشکل مرا
اے کہ خاکِ پائے تو درمانِ دردِ بیکساں
کن مداوائے کہ دروے ہست اندر دل مرا
ہمچو قمری طوق در گردن نہادہ عالمے
ہمچولالہ داغہا افتادہ اندر دل مرا
زلف عنبر بوئے تو آشفتہ گرداند دلم
تیغِ ابروئے تو دارد خستہ وبسمل مرا
عرش نازد از خرامِ ناز تو اے نازنیں
بخت عرشیؔ چوں نہ نازد گر شوی حاصل مرا
غزل اردو
خطر ہے برق کا ڈر باغباں کا
خدا حافظ ہمارے آشیاں کا
نہیں شکوہ جفائے آسماں کا
مجھے رونا ہے ابنائے زماں کا
اٹھاتی ہے نئے ہر روز فتنے
زمیں کرنے لگی کام آسماں کا
ریا سے رندی ومستی ہے بہتر
بجا ارشاد ہے پیرِ مُغاں کا
کلیسا میں، حرم میں ، بتکدے میں
نہیں کوئی بھی مجھ بے خانماں کا
مقدر شیخ لے پہنچا حرم میں
یہاں تو قصد تھا کوئے بُتاں کا
عدُو پر پہلے خنجر آزمالو
ارادہ ہے جو میرے امتحاں کا
قفس میں اے اسیرانِ قفس تم
نہ پوچھو حال مجھ بے آشیاں کا
اگر گریہ یہی، نالے یہی ہیں
خدا حافظ زمین وآسماں کا
سلاست گم فقط لفاظیاں ہیں
خدا حافظ ہے اب اردو زباں کا
کہیں کیوں کر نہ مجھ کو لوگ عرشیؔ
کہ ہوں جاروب کش اُس آستاں کا
غزل گوئی سے قطع نظرعرشیؔ کونظم نگاری میں بھی قدرت حاصل تھی ۔ اِس ضمن میں اُن کی ایک بلاعنوان نظم تعلیمی حلقوں میں خاصی مشہور ہے ۔ جوگورنمنٹ کالج ،اجمیرکی صدسالہ تقریب ( ۱۹۳۶ء) کے موقع پر تخلیق ہوئی تھی ، اس نظم کے تمام مصرعے ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہیں کہ بیانیہ اسلوب کی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ یہ نظم اگرچہ ایک تعلیمی ادارے کی تعریف میں تخلیق ہوئی ہے لیکن اس میں فارسی اور اردو قصیدہ نگاری کاسا اندازِ بیان جلوہ نما ہے ، ذیل کے اشعارکے حوالے سے اس امرکی بخوبی عکاسی ہوتی ہے : ؎
دامنِ دل کھینچتی ہے آج کالج کی بہار
ہیں مواسا جس کے یاں پر جلوہ فرما بے شمار
ہے مبارک ایسی قابل ہستیوں کا اجتماع
جن کی عظمت سے ہوا ہے جشِ کالج شاندار
پیارے کالج عہدِ صد سالہ کی تو تصویر ہے
تجھ میں رنگت حکمت وسائنس کی ہے آشکار
رُخ تیری تصویر کا اٹھارہ سو چھتیس میں
بن گیا اجمیر کی صورت گری کا شاہکار
سن میلادی اور اب اُنّیس سو سینتیس میں
جشن صد سالہ ہوا ہے کار فرما نامدار
تیری چوکھٹ پر فدا ہوتا ہے ہر پیر و جواں
راجپوتانہ میں تو ہے درس گاہِ با وقار
تیری گویائی سے ہیں گویا زبانیں خلق کی
تیرے لکچر سے بہت سے بن گئے ہیں لیکچرار
کچھ ہمیں بھی داستاں سو سال پہلے کی سنا
جب نہ تھی دشوار اتنی زندگی کی کارزار
تیرے ابرِ فیض سے سرسبز کشتِ زندگی
ہو رہے ہیں تجھ سے مالامال سب اغیار و یار
تیرے پہلو میں رواں ہے چشمۂ آبِ حیات
زندگی پائی ہے جس نے اس کو چکھّا ایک بار
تجھ پہ لہراتا رہے جھنڈا حکومت کا سدا
جیسے ہو بالِ ہُما زیبِ کُلاہِ تاجدار
خسروِ علم و ہنر ! نکہتِ تیرا دربار ہو
اِس میں گنگا فیض کی بہتی رہے لیل ونہار
تیرے گہوارے میں پائیں پرورش چھوٹے بڑے
دل سے عرشیؔ کے نکلتی ہے دعا یہ بار بار
یہ نظم اپنے موضوع ومفہوم کے لحاظ سے اتنی مقبول ہوئی تھی کہ اس کے انگریزی، ہندی اور سنسکرت زبانوں میں بھی تراجم کیے گئے تھے۔ قصیدہ گوئی کی جلوہ سامانی عرشیؔ کی اُس تخلیق میں بھی موجود ہے ۔ جو ۱۹۳۵ء میں جارج ففتھ اور اُن کی بیگم کی سلور جوبلی کے موقع پر ایک شاندار مشاعرے میں پڑھی گئی تھی ، اُس کے صرف تین چار اشعار ملاحظہ فرمالیجئے : ؎
تاجدارِ ذی حشم، شاہنشہِ گردوں ختم
جملہ سلطانانِ عالم، بردرش مثل خدم
ہز میجسٹی جارج پنجم قیصرِ اقلیمِ ہند
فیض اُو در ہند آمد، مایۂ لطف وکرم
نو بہارِ گلشنِ دولت گلِ باغِ جہاں
مہر دنیائے معارف، ماہِ دنیائے حکم
میکند عرشیؔ دعا، ہموارہ از قلبِ صمیم
چرخ بادا چاکرش، اقبال ودولت سر بخم
شعر گوئی کے علاوہ حمیداللہ عرشیؔ کومیدانِ نثر میں بھی مستقل کتابوں اور مضامین ومقالات کے پیش نظر قدر ومنزلت کی نگاہوں سے دیکھاگیا۔ اُن کے چند ایسے مضامین گورنمنٹ کالج ، اجمیرکی میگزین میں شائع ہوئے جو دعوتِ فکروعمل دیتے ہیں، اس بابت یہ مثالیں قابلِ تعریف ہیں :
(۱) اردو زبان کی ارتقائی منزلیں مشمولہ گورنمنٹ کالج ، اجمیرمیگزین ،دسمبر ۱۹۳۲ء
(۲) دُوئی کے دلفریب نظاروں کی حقیقت مشمولہ ایضاً، اکتوبر ۱۹۳۴ء
(۳) ایک تندرستی ہزار نعمت مشمولہ ایضاً دسمبر ۱۹۳۷ء
(۴) اردو زبان کے لسانیات پرایک نظر مشمولہ سوینئر ۱۹۳۶ء گورنمنٹ کالج اجمیر، سینچری میگزین
مذکورہ مضامین کے عنوانات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حمیداللہ خاں عرشیؔ کی لسانیات میں خاصی دلچسپی تھی۔ لسانیات کے علاوہ ترجمہ نگاری اور تذکرہ نویسی بھی آپ کے مشاغل میں شمار رہے۔ اس سلسلے میں اُن کی مشہور کتابیں ’’کلام الملوک‘‘ اور ’’لسان ومطالعۂ لسان‘‘ اپنے موضوع ومفاہیم کے پیش نظرآج بھی اہمیت وافادیت کی حامل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں یونیورسٹیز کے نصاب میں بھی شامل رہیں۔ ’’لسان ومطالعۂ لسان‘‘ ۱۹۲۱ء میں انڈین پریس، الٰہ آباد سے شائع ہوئی تھی ۔ مولانا احترام الدین شاغلؔ نے سہواً اس کاعنوان ’’لسان ومطالعۂ زبان‘‘ ۱؎ تحریرکیا ہے۔ یہ کتاب انگریزی کے ماہرلسانیات پروفیسر ڈبلیو-ڈی-ہوٹنی کی کتاب کاترجمہ ہے جسے پروفیسر عرشیؔ نے طلبہ کی تعلیمی ضرورتوں کے لئے پیش کیا۔ اس کتاب کے متعلق سید محمد شفیع چشتی انجم نے لکھا ہے کہ : (۱۔ ’’تذکرہ شعرائے جے پور‘‘،ص ۳۳۲)
’’اُن کی کتاب لسان ومطالعۂ لسان ایک حدتک ان کی وسعت نظری ، تجربۂ علمی اور عرق ریزی کی شاہد ہے۔ اس میں جو زرّیں اصول ’’لسان ‘‘ و ’’نکات ِ لسان‘‘ بیان کیے گئے ہیں وہ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے مشعلِ ہدایت کاحکم رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زبانِ اردو کو اس قسم کی جامع کتاب کی سخت ضرورت تھی ۔ یہ مولانا کی اردو کے ساتھ ایسی بیش بہا خدمت ہے جو کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی ۔‘‘
(’’دی گورنمنٹ کالج میگزین‘‘، اجمیر،ص ۸، بابت مارچ ۱۹۴۳ء )
’’کلام الملوک‘‘ کی طباعت ۱۹۳۲ء میں مسلم یونیورسٹی پریس، علی گڈھ کے زیر اہتمام عمل میں آئی تھی ۔ اس کتاب میں سلاطینِ تیموریہ کے شہزادگان کاکلام یکجاکیاگیاہے۔ آخرمیں متعلقہ شعرائے کرام کے مختصر سوانحی حالات بھی سپردِ قلم کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب حوالہ جاتی مواد میں امتیازی اہمیت کی حامل ہے ۔ عرشیؔ مرحوم کی دیگر کتابوں کے متعلق مولاناشاغلؔ نے یہ لکھا ہے کہ ’’غیرمطبوعہ یقینا متعدد کتابیں ہوں گی۔ مگر آپ کے ورثاء کی باہمی مقدمہ بازی نے خداجانے اُن کاکیاحشر کیا۔‘‘ ( ’’تذکرہ شعرائے جے پور‘‘،ص ۳۳۲)
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’’جائزہ زبانِ اردو ،حصہ اول-ریاست ہائے راجپوتانہ‘‘ میں مذکورہ دونوں کتابوں کے سنینِ اشاعت کے سلسلے میں سہوسے کام لیا ہے ۔ انہوں نے ’’لسان و مطالعۂ لسان‘‘ کاسن طباعت ۱۹۲۸ء ۳؎ اور ’’کلام الملوک‘‘ کا ۱۹۳۱ء ۴؎ لکھاہے۔ علاوہ ازیں عرشیؔ سے انہوں نے ایک اور کتاب بعنوان ’’قواعدِ اردو‘‘مطبوعہ ۱۹۳۴ء ۵؎ کومنسوب کیا ہے لیکن یہ کتاب ہمدست نہیں ہوئی۔ دیگر کسی حوالے سے بھی اس کتاب کی طباعت کاعلم نہیں ہوتا۔ عرشی ؔ پر لکھے گئے مضامین بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔
(۳۔ ’’جائزہ زبان اردو‘‘مولوی عبدالحق، ص ۳۲۲، انجمن ترقی اردو (ہند)دہلی ۱۹۴۰ء،
۴۔ ایضاً، ص ۳۲۳، ۵۔ ایضاً )
حمیداللہ عرشیؔ کے کسی قدر حالات اگرچہ مولانا احترام الدین شاغلؔ نے اپنے تذکرے میں مرقوم کیے ہیں لیکن اُن کے ذکرمیں غلط بیانیاں اور فروگذاشتیں بھی کم نہیں ہیں تاہم عرشیؔ کی وفات کے سلسلے میں انہوں نے لکھا ہے کہ :’’جے پور میں ۲۶؍دسمبر ۱۹۲۱ء کووفات پائی اور مولانا ضیاء الدین کے گورستان میں سپردِ خاک ہوئے۔‘‘ ۱؎
(’’تذکرہ شعرائے جے پور‘‘،ص ۳۳۲)
واضح ہوکہ عرشیؔ یکم جون ۱۹۴۲ء کوگورنمنٹ کالج ، اجمیر کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے اور گورنمنٹ کالج ،اجمیرکی میگزین اپریل ۱۹۴۷ء سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ حمیداللہ خاں عرشیؔ کے نام سے ’’والی بال ٹرافی‘‘ ۲؎ منسوب کی گئی تھی ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ عرشیؔ کاانتقال ۱۹۲۱ء میں نہیں ہواتھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو۔ گورنمنٹ کالج ،اجمیر کے پرانے ریکارڈ اور دستاویزات کی ورق گردانی ان دنوں راقم کی خصوصی توجہ کامرکز ہے اگرکوئی مستند حوالہ اس بابت دستیاب ہوتا ہے تو اُسے آئندہ کسی تحریرمیں جگہ دی جائے گی ۔
(۲۔ ’’دی گورنمنٹ کالج میگزین‘‘، اجمیر،ص ۲۱، بابت اپریل ۱۹۴۷ء )
***