You are currently viewing پروفیسر صاحب علی کا علمی و ادبی سرمایہ: ایک تعارف

پروفیسر صاحب علی کا علمی و ادبی سرمایہ: ایک تعارف

ندیم احمد انصاری

الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

پروفیسر صاحب علی کا علمی و ادبی سرمایہ: ایک تعارف

پروفیسر صاحب علی مرحوم-ہر دل عزیز استاذ، شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی کے سربراہ – کی خدمات میں شعبے کی ترقی اور مختلف النوع سرگرمیوں کا حصہ زیادہ اور اس کے بالمقابل قلمی خدمات کا حصہ کم ہے۔ آپ کی خدمات کا مفصل جایزہ لینا آپ سے وابستہ اساتذہ اور طلبہ کا اخلاقی فریضہ ہے۔ زبان و ادب کی لائن سے جو خدمات انھوں نے اپنی حیاتِ مستعار میں انجام دیں،اس کے گہرے نقوش آج بھی موجود ہیں، ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔اس مختصر مقالے میں موصوف کے علمی سرمایے کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ موصوف نے (ہماری اطلاع کے مطابق ) کُل گیارہ کتابیں یادگار چھوڑیں، انھیں درجِ ذیل تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ تحقیق و تنقید، ترتیب اور ترجمہ ۔

تحقیق و تنقید

(۱) اردو فکشن کا مطالعہ (۲۰۰۶ء)

اس کتاب کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ناول اور افسانہ۔ اس کےبیش تر مشمولات پروفیسر صاحب علی کے زمانۂ طالبِ علمی کے لکھے ہوئے اور اردو کے مؤقر رسائل و اخبار میں شایع ہو چکے ہیں۔علاوہ ازیں چند ریڈیائی تقریریں ہیں اور کچھ مضامین ایم اے اور نیٹ (Net) کی تیاری کرنے والے طلبہ کے لیے لکھے گئے ہیں۔ چند مقالے ایسے ہیں جو قومی سمینار میں پڑھے گئے ۔ تمام مضامین کی حیثیت تنقیدی اور تجزیاتی ہے۔

(۲)گلدستہ پیامِ یار:ایک مطالعہ(سالِ اشاعت درج نہیں)

ادبی تاریخ نگاری میں گلدستوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ماضی میں جب کہ طباعت کا مرحلہ دشوار اور ذرائعِ ابلاغ کی کمی تھی اور ادبی حلقوں میں شعری نشستیں منعقد کی جاتی تھیں، ان میں شعرا اپنا کلام پیش کرتے تھے، ان شعری نشستوں کو عام کرنے کی غرض سے ’گلدستہ‘ کا رواج ہوا،اس میں شعری نشستوں میں پڑھے جانے والے کلام کا انتخاب اور شاعر کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا تھا۔ اس سے تاریخِ ادب کی نامعلوم کڑیوں کو ملانے میں مدد ملتی ہے۔ پروفیسر صاحب علی نے ایم فل میں تحقیق کے لیے ڈاکٹر علی خان کی زیرِ نگرانی ’گلدستہ پیامِ یار: ایک مطالعہ‘ کو موضوع بنایا اور پھر اسسے کتابی صورت میں شائع کیا ۔ اس میں چار ابواب ہیں:(۱)طرحی مشاعرے کی روایت (۲)گلدستۂ پیامِ یار (۳)پیامِ یار کے شعری مشمولات (۴)پیامِ یار کے نثری مشمولات۔

(۳)ریاض خیرآبادی کی صحافت(۲۰۲۰ء)

ریاض خیرآبادی (قصبہ خیرآباد، ضلع سیتا پور، یو پی) اردو کے ایک اہم شاعر اور خمریاتی ادب کے عظیم نمایندے ہیں۔انھیں خمریہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ صحافت سے بھی ان کا گہرا تعلق رہا، لیکن ان کی صحافتی خدمات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ پروفیسر صاحب علی نے پی ایچ ڈی میں تحقیق کے لیے اس موضوع کا انتخاب کیا تھااور موصوف کے انتقال سے چند ہفتوں قبل یہ مقالہ ایک ضخیم کتاب کی صورت میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر سامنے آیا تھا۔کتاب کے درجِ ذیل چھے ابواب ہیں: (باب-۱) ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہندوستان کے حالات؛ اس میں تین ذیلی عنوانات ہیں؛ سیاسی اور سماجی حالات، سرسید کے اصلاحی کارنامے، ادبی ماحول (باب-۲)ریاض خیرآبادی کی حیات (باب-۳)۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی سے قبل اردو صحافت (باب-۴)ریاض خیرآبادی کے اخبارات (الفi) ریاض الاخبار: اجرا و تعارف، خبریں، اداریے، مضامین، تبصرے، شعری مشمولات(الفii)فتنۂ عطر فتنہ؛ پس منظر، اجرا و تعارف، اہم شُرکا، طنز و ظرافت، خبریں اور کارٹون (ب) روزانہ: (i)روزانہ تارِ برقی؛ تار برقی سے قبل اردو روزنامے، محرکات، اجرا و تعارف، معاصر روزنامے (ii) صلحِ کُل؛ پس منظر، اجرا و تعارف، معاصر روزنامے (باب-۵)ریاض خیرآبادی کے گل دستے (i) گُل کدۂ ریاض؛ اجرا و تعارف، مشمولات، اہم شُرکا (ii) گُل چیں؛ پس منظر، اجرا و تعارف، مشمولات اور اہم شرکا (۶) خلاصۂ کلام۔

ترتیب

(۴)مبادیاتِ عروض(۱۹۹۶ء)

کتاب کا موضوع عنوان سے ظاہر ہے، اس کتاب میں علمِ عروض کو آسان اور عام فہم طریقے سے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی اور کتاب کو حسبِ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: (پہلا حصہ) عروض کی مبادیات (دوسرا حصہ) ہندی پنگل کی مبادیات (تیسرا حصہ) قواعدِ تقطیع (چوتھا حصہ) اوزانِ بحورِ مستعملہ مع امثلہ۔

(۵) قرۃ العین حیدر: شخصیت اور فن (۲۰۰۸ء)

قرۃ العین حیدر کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان کی شخصیت اور فن کا اجمالی جایزہ لینے کی غرض سے ۲۰۰۸ء میں شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی میں دو روزہ قومی سمینار منعقد کیا گیا، اس سمینار میں پڑھے گئے مقالات کو اِس کتاب میں شایع کیا گیا ہے۔کتاب میں کُل بیس مضامین شامل ہیں، پہلے حصے میں شامل مقالات؍مضامین میں عینی آپا کی شخصیت اور دوسرے حصے میں فکر و فن کو گفتگو کا موضوع بنایا گیا ہے۔

(۶) ترقی پسند تحریک اور بمبئی (۲۰۱۰ء)

ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ قلم کاروں کی ایک بڑی تعداد عروس البلاد میں موجود رہی۔ مارچ۲۰۰۸ء میں شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی میں ایک قومی سمینار منعقد کیا گیا، اس سمینار میں پڑھے گئے مقالات کو اس کتاب میں شایع کیا گیا ہے۔ بہ قول مرتب ’اس کتاب کی ترتیب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ترقی پسند تحریک کے حوالے سے شہرِ ممبئی کی جو خدمات ہیں، اس کا مختلف زاویوں سے جایزہ لیا جائے۔ ۔۔ کتاب میں شامل بیش تر مقالے ان شخصیات کے ہیں جو کسی نہ کسی سطح پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے ہیں، یا انھوں نے ترقی پسند ادبا و شعرا کی سرگرمیوں کا چشم دید مشاہدہ کیا ہے، چند ایک مقالے ریسرچ پر بھی مبنی ہیں، لیکن ان کا موضوع ممبئی میں ترقی پسند قلم کاروں کی عملی زندگی اور سماجی و ثقافتی روداد ہے‘۔

(۷) رانی کیتکی کی کہانی (۲۰۱۱ء)

انشاء اللہ خاں انشا کی تصنیف ’رانی کیتکی کی کہانی‘ اردو کی اولین اور لسانی اعتبار سے بے مثل تصنیف ہے۔انشاؔ نے اس کے ذریعے اردو کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کتاب کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں اہمیت حاصل ہے۔ انشاؔ نے اپنے دعوے کے مطابق اس مختصر داستان میں اردو اور ہندی کے علاوہ کسی اور زبان کے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا ہے۔ پروفیسر صاحب علی نے طلبہ کی نصابی ضرورت کے پیشِ نظر اس کتاب کو جدید ترتیب کے ساتھ شایع کیا اور آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ بھی شامل کر دی۔

(۸) عربی اور اُردو کے لسانی و ادبی روابط (۲۰۱۳ء)

 کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عموماً عربی، فارسی اور اردو کے یکساں رسم الخط کی بنا پر ایک شعبے کے صدرکو دوسرے شعبے کا بھی نگراں متعین کر دیا جاتا ہے،ممبئی یونی ورسٹی میں پروفیسر صاحب علی سے بھی اس نوع کی خدمات لی گئیں۔ وہ ایک مدت تک ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے کارگذار صدر رہے۔یہ کتاب اسی زمانے میں مذکورہ بالا عنوان کے تحت منعقدہ سمینار کے مقالوں پر مشتمل ہے، البتہ کتاب میں شامل چند مقالے ایسے ہیں جو سمینار میں نہیں پڑھے گئے تھے ، مگر کتاب کے موضوع کی مناسبت سے انھیں شاملِ کتاب کر لیا گیا ہے۔

(۹) ممبئی کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان: شاعر، ادیب اور مترجم (۲۰۱۳ء)

۱۲؍مارچ ۱۹۵۴ء کو نئی دہلی میں ’ساہتیہ اکادمی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ ابتداے قیام سے ہی اکیڈمی مختلف النوع ادبی خدمات اور ملک کی دو درجن نمایندہ زبانوں میں سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ ۱۹۵۵ء سے اکیڈمی کی جانب سے ادبی کتابوں پر انعام کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ ترجمے پر انعام کا سلسلہ ۱۹۸۹ء سے جاری ہوا ۔ متذکرہ کتاب سمینار کے مقالوں پر مشتمل ہے، البتہ چند دیگر مضامین بھی موضوع کی مناسبت سے شامل کر لیے گئے ہیں۔ بہ قول مرتب ’ کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ ایک مضمون خود صاحبِ اعزاز شخصیت کا اپنے فن اور اپنے تخلیقی رویے سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا مضمون انعام یافتگان کے فن پاروں کے تنقیدی جایزے پر مشتمل ہے ۔۔۔جاں نثار اختر کی کوئی تحریر ایسی نہیں مل سکی جس میں انھوں نے اپنے تخلیقی سفر اور فنّی محرکات کے تعلق سے اظہارِ خیال کیا ہو، لہٰذا ان کے فکر و فن پر معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کے مضمون پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اسی طرح مترجمین میں ساجد رشید اور خالد اگاسکر کی بھی کوئی تحریر دست یاب نہ ہو سکی، لہٰذا یہاں بھی اسی طریقے کا اعادہ کیا گیا ہے‘۔

ترجمہ

پروفیسر صاحب علی نے ممبئی یونیورسٹی سے منسلک ہونے کے بعد شعبۂ مراٹھی کے زیرِ اہتمام سرٹفکیٹ اور ڈپلوما کورس کیا تھا۔ اس دوران انھیں مراٹھی ادب اور اردو میں مراٹھی ترجمے کے مطالعے کا موقع ملااور انھوں نے دو مراٹھی کتابیں اردو میں ترجمہ کرکے شایع کیں۔

(۱۰) کوّوں کا اسکول(۲۰۰۴ء)

یہ کتاب پرلھاد کیشو اَترے عُرف آچاریہ اَترے کی مراٹھی کتاب ’کاوڑیانچی شاڑا‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔اس میں بچّوں کے لیے لکھی گئی چھوٹی چھوٹی بیس کہانیاں شامل ہیں۔ پروفیسر یونس اگاسکر کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’ڈاکٹر صاحب علی کی کاوش قابلِ داد ہے کہ انھوں نے نہ صرف اصل زبان سے ترجمہ کیا، بلکہ آچاریہ اترے کی نثر کے بہاو اور رِدم کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے مراٹھی پن کے ساتھ اردو کے محاورے کو اس طرح آمیز کیا ہے کہ اصل کا ذایقہ اور ترجمے کی بو باس دونوں برقرار ہیں اور زبان بھی نامانوس نہیں معلوم ہوتی۔‘

(۱۱) پھول اور بچّے(۲۰۰۵ء)

یہ کتاب بھی آچاریہ اَترے کی مراٹھی تصنیف ’پھولے اڑیں مولے‘ کا اردو ترجمہ ہے، اس میں چھوٹی چھوٹی کُل اٹھارہ کہانیاں ہیں۔ زبان سادہ اور سلیس ہے۔ بچوں کی خاطر کیے گئے اس ترجمے کو بھی غیر مانوس الفاظ سے دور رکھنے کی سعی کی گئی ہے۔ بہ قول پروفیسر عبد الستار دلوی: ’ڈاکٹر صاحب علی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ شاید انھوں نے پہلی بار مراٹھی سے بچّوں کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔۔۔ (انھوں) نے اس بچّوں کے شہ کار ادب کو اردو میں ترجمہ کرکے ادبی، تہذیبی و تعلیمی خدمت انجام دی اور یہ بہت بڑی بات ہے‘۔

یہ پروفیسر صاحب علی کا کُل مطبوعہ قلمی، علمی و ادبی سرمایہ ہے، اس پر محققین کو تفصیل سے گفتگو کرنی چاہیے۔

***

Leave a Reply