
شمع فاطمہ
ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو،گاندھی فیض عام کالج،شاہجہاں پور، اتر پردیش
نگراں: پروفیسر تجمل حسین
پروفیسر قمر رئیس: اردو ادب کا درخشاں ستارہ
پروفیسر قمر ریئس کا نام اردو ادب کے افق پر ایک چمکتے ہوے ستارے کی مانند ہے،جنہوں نے اپنے علم ،فہم ،بصیرت تحقیق تنقید اور تدریس سے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ان کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کو صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ اسے سمجھا ،برتا اور اس پر گہرائی سے سوچا۔ان کی شخصیت ہم جہت تھی،وہ محقق بھی تھے،بلند پایا نقاد بھی ،استاد بھی اور منتظم بھی۔ان کی علمی تربیت نے انہیں اردو ادب کے مختلف گوشوں پر غور کرنے کا موقع دیا،اور یہی سبب ہے کہ ان کی تحریروں میں بے حد تنوع،گہرائی اور بصیرت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی شخصیت کا حسن یہ ہے کہ وہ جس بھی علاقے میں گئے اپنی شناخت ،اثر اور مقام وہیں چھوڑ گئے ۔اردو تنقید کے بارے میں ان کی گہری بصیرت،ادب سے وابستگی اور بطور استاد ان کی دیانت ، خلوص و اخلاص ایسے پہلو ہیں جن پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔قمر رئیس کی زندگی کا مطالعہ ہمیں اردو ادب کی ترقی کے نہ صرف ایک پہلو سے آگاہ کرتا ہے بلکہ ایک ایسی شخصیت سے بھی آ شنا کرواتاہے جس نے ہمیشہ اصول ،تحقیق اور فکری گہرائی کو اپنا شعار بنایا،وہ صرف ایک ادیب یا نقاد ہی نہیں تھے بلکہ ایک دانشور رہنما تھے،جن کی تحریروں نے نسلوں کو متاثر کیا۔وہ ایک ایسے نقاد تھے جنہوں نے ادب کو نہ صرف جمالیات یا اظہار کے نقطئہ نظر سے دیکھا ، بلکہ اس کے سماجی ،ثقافتی اور فکری پہلوئوں کو بھی اجاگر کیا۔ ان کی تخلیقات اردو ادب کے لیے رہنما کا کام کرتی ہیں۔ان کی گفتگو ہو یا تحریر ،علم،تہذیب اور وقار کے عناصر ہر جگہ نمایاں ہیں ۔
شخصیت انگریزی لفظ personality کا اردو تبادل ہے،یہ لفظ لا طینی زبان کے لفظpersona سے مشتک ہے جس کے معنی ’’بناوٹی روپ‘‘ کے ہیں ۔لفظ persona کا استعمال قدیم یونانی ڈراموں میں ہوتا تھا۔persona شخصیت کے اس اندرونی روئیہ کو کہتے ہیں جس میںکسی شخص کے ظاہری اور باطینی کردار اور روئیوں کو اس شخصیت سے تعبیر کیا جائے۔اس کی شکل و صورت ،بات کر نے کا انداز ،طور طریقہ اور زندگی میں دوسروں پر جو اس کے اثرات مرتبب ہوتے ہیں ،اس کے سبب اس کی شناخت بنتی ہے۔شخصیت کے متعلق ماہر ین نفسیات نے متعدد آرا و خیالات پیش کیے ہیں مثلاً ظاہری اور باطینی روئیہ کا نام ہی شخصیت ہے۔
قمر ریئس کی شخصیت علم نفسیات کے اس ذیل میں آتی ہے جس زمرہ کے لوگ مضبوط جسمانی ساخت اور قدرِفربہ ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے خاندان سے محبت کرتے ہیں،دوست احباب پر بھروسہ کرتے ہیںاور ان میں معاشرتی احساس اور ملنساری صفات پائی جاتی ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قمر رئیس نہایت تعلق خاطر اور دلی وابستگی رکھنے اور خلوص و محبت کرنے والے انسان تھے۔خارجی اور داخلی صفات کے زاوئیہ سے اگر ان کی شخصیت پر نگاہ ڈالی جاے تب بھی ان کی یہی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ نگار عظیم نے قمر رئیس کی شکل و شمایئل اس طرح پیش کیے ہیں:
’’دراز قد،مناسب اعضاء،دلکش خدوخال،مسکرانے کا انداز بڑاپرکشش،ماتھے پر پڑی ہوی بالوںکی ایک باغی لٹ جسے وہ ہر دومنٹ کے وقفے سے پیچھے کرتے ہیں اور وہ ہر تیسرے منٹ اپنی جگہ جواپس آ جاتی ہے کہ گویا پیشانی کو چومتے رہنا ہی اس کا واحد
مقصد ہو۔مزاج میں خوش اطواری،طبعیت میں خود داری ،چال میں خود اعتمادی،ظاہر و باطن یکساں،سیدھے سچے،بے غرض محسن یہ ہیں فن شناس تنقید نگار پروفیسر قمر ریئس جو یقینا صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز رہے ہونگے قمر ریئس صاحب بڑی ہی پر کشش اورپر ُ وقار شخصیت کے مالک ہیں۔‘‘۱؎
شخصیت کوئی بھی ہو اس کی تعمیر و تربیت میں اس کے خاندان،گھریلو ماحول اور ان حالات و کیفات کا واضح حصّہ ہوتا ہے جن میں اس کی ابتدائی نشو نما ہوتی ہے۔اپنے عہد کے عظیم المرتبت اور مشہور و معروف نقاد پروفیسر قمر رئیس نے 21جولائی 1932 کو اپنے آبائی مکان واقع محلہ احمد پورہ ،شاہجہاںپور میں آنکھیں کھولیں۔آپ کا اصل نام مصاحب علی خاں ہے گھر میں چھکن کہہ کر بلائے جاتے تھے۔بقول ڈاکٹر مسرت جہاں:
’’مصاحب علی خاں کی عرفیت چھکن ہے۔انکے گھر والے انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔خاندان میں بھی وہ اسی نام سے معروف ہیں شاہجہاںپورکے بزرگ باسی آج بھی پروفیسر قمر رئیس کو’’چھکن ‘‘ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ‘‘۲؎
قمر رئیس کے وا لدِمحترم جناب عبدل العلی خاں ،ایک زمیدار ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب وکیل بھی تھے۔آمدنی معقول سے بھی زیادہ تھی لہٰذا آرام و آسائش کی ہر شے گھر میں موجود تھی۔ان کی والدہ محترمہ مختار بیگم اہلِ سادات سے تھیں۔ان کے بڑے بھائی جناب مبارک علی خاں شمیمؔاپنے دور کے ایک معتبر و ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی دسترت رکھتے ہیں ۔قمر صاحب نے چونکہ گھر سے ہی ادبی ماحول پایا تھا،اس لیے علم و عمل میں بے مثال شخصیت تھے، اور اسی علمی و ادبی ماحول میں مصاحب علی خاں ،قمر رئیس کا بچپن پروان چڑھنے لگا ۔ان کے والد ایک خود ساز انسان تھے وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیمی سہولتیں دینے کے خواہش مند تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا ایک بیٹا وکالت پاس کرے اور اسے خاندانی پیشے کے طور پراختیار کرے۔قمر رئیس نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ماسٹر سری رام سے حاصل کی۔جب اسکول جانے کی عمر ہوئی توشاہجہاںپور کے مشن ہائی اسکول میںداخلہ ہوا اس کے بعدآگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ان کو لکھنئوبھیج دیا گیا۔وہاں پر ایک سال مقیم رہے اور ۹ویں جماعت پاس کی۔1950میں جی ایف کالج میں داخلہ لیااور یہیں سے اپنی پڑھائی میں دلچسپی لینا شروع کی۔حالاں کہ جدید تعلیم کاسلسلہ تونوبرس کی عمر سے ہی شروع ہو چکا تھا،مگر اچھی تربیت،کتابیں،اساتذہ انہیں گاندھی فیضِ عام کالج میں میسر ہوئے ،اور ان کے مستقبل کے کردار، افعال و اعمال کا پورا خاکہ اسی زمانے میں تیار ہوا۔قمر رئیس کے عزیز دوست عصمت اللہ خاں ان کی پرکشش شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’گاندھی فیضِ عام کالج جو شاہجہاںپور کا پہلا ڈگری کال ہے،میں مصاحب علی خاں اور میرا ساتھ رہااس عرصہ میں درجنوں لڑکوں کی موجودگی میںاگر میں کسی کو اپنا دوست بناسکا تو وہ مصاحب علی تھے۔اس کی وجہ مصاحب علی خاں کی پرکشش شخصیت تھی۔عام لڑکوں کے مقابلے میں یہ لڑکا مجھےہمیشہ مختلف اور منفرد نظر آیا۔متین ،سنجیدہ،شائیستہ ذہین اورپر خلوص۔‘‘ ۳؎
قمر رئیس طالبِ علمی میں اپنے استاد ادیب اور عالِم پروفیسر عبدالسمیع نکہت سے بہت متاثر تھے ۔ان کی تعلیم و تربیت کے زیرِاثرموصوف کا مزاج نہایت سنجیدہ اور ادبی مطالعے کی طرف مائیل ہوا ،اور ان کے شعری ادراک اور زوقِ شعری کی تربیت شہر کی شاعرانہ محفلوں میںخود بہ خود ہو رہی تھیں۔زمانہ طفلی سے عہدِ جوانی میں قدم رکھتے ہوئے قمر صاحب کی علمی و ادبی صلاحیت اور شخصیت کی خوبیاں نکھرنے لگی۔وہ اپنے دوست احباب ،اساتذہ اور علاقے میں کافی مقبول ہو گئے تھے۔
۲۵۹۱میں آگر ہ یونیورسٹی سے بی ایے اور لکھنو یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ایل ایل بی پورا ہوتے ہی اپنے والد کی خواہش کا احترام کیااور شاہجہاںپور میں ہی قمر رئیس نے وکالت شروع کر دی ان کے وکالت کے پیشے پر روشنی ڈالتے ہوے قمر رئیس کے عزیز دوست عصمت اللہ خاں یوں لکھتے ہیں:
’’مصاحب علی خاں سے پہلے بھی میں نے بہت سے وکیل دیکھےتھے مگر اس سج دھج کا کاہے کو دیکھا تھا ۔ماتھے پر پڑی ہوئی زلفوں کی ایک آوارہ لٹ،چال میں ایک متوالی لہر ،گنگناتے ہوئے سےہونٹ اور نجانے خلا میں کیا چیز ڈھونڈھتی ہوئی لڑکھڑاتی نگاہیں۔مصاحب علی اور میرے ایک مشترکہ دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت موکل کا چہرا مہرہ ،چال چلن ،بات چیت اور حسب نسب دیکھ کر مقدمہ ہاتھ میں لیتے ہیں لیکن جس زمانے میں شعر گوئی کی طرف طبیعت زیادہ مائل ہوتی ہے ۔ تو کوئی نیا مقدمہ ہاتھ میں لینا تو درکنار پرانے مقدموں کی تاریخوں پر کچہری کا رخ بھی نہیں کرتے۔‘‘۴؎
قمر صاحب نے وکالت کی تعلیم تو حاصل کی لیکن ان کی بیش بہا دلچسپی اردو ادب ،تنقید و تحقیق اور درس و تدریس میںتھی ، اس لئے انہوں نے وکالت کا پیشہ ترک کر کے علمی وادبی میدان کو اپنایا۔موصوف کا رجحان تخلیقی اور علمی کاموں کی طرف زیادہ تھاجو کہ ان کے بعد کے کاموں سے با خوبی ظاہر ہوتا ہے۔ در اصل یہ پیشہ ان کے مزاج سے کسی طور پر بھی میل نہیں کھاتا تھا ان کا خلوص اور خوش وصفی اس حد تک تھی کہ اپنے موکل سے فیس وصول نہیں کرتے۔بلکہ ان کے حالات سے متاثر ہو کر خود اپنی طرف سے کچھ دے کر رخصت کرتے۔ ان کو وکالت سے کمائے گئے پیسوں سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ ان کو لگتا تھا کہ یہ سب روپیہ و پیسہ ان غریب کسانوں و مزدوروں کی جیبوں سے آتا ہے،جن کے پاس اپنا تن ڈھانکنے کے لئے میلے کچیلے کپڑوں کے علاوہ کچھ میسر نہیں تھا۔لہٰذا ان حالات میں ان کے لیے اس پیشے کو جاری رکھنا ممکن نہ تھا ۔بقول رتن سنگھ:
’’انہیں کسی طرح یہ گوارانہیں تھا کہ ان غریب کسانوں کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے اپنے لیے سکھ اور آرام کی زندگی خریدیں۔ ‘‘۵؎
اس ضمن میں موصوف کے بڑے بھائی مبارک شمیم صاحب لکھتے ہیں:
’’وکالت میں ان کا دل کا نہیں لگتا تھا ۔کہتے وکیل غریبوں کو لوٹتے ہیں۔ان کی مصیبتوں سے بے جا فائدہ اٹھاتےہیں۔ ‘‘۶؎
وکالت کے زمانے میں قمر صاحب کو لکھنو کی بہت یاد آتی تھی کیونکہ لکھنئو میں ان کو ذہنی ساخت ملتی تھی۔چونکہ اس وقت لکھنو کا ادبی ماحول خاصہ شباب پر تھا ،حسن و عشق کے آمور کے واسطے بھی فضا سازگار تھی۔اقبال مجید ،احمد جمال پاشا،رتن سنگھ جیسے ادبی دوستوں کی صحبتوں نے ان محافل کو مزید رنگِ جاویدانی عطا کیا۔ قمر رئیس خود لکھتے ہیں’’ان کی دوستی اور ادب دوستی میں ایک طرح کی گرویدگی اور کیف و سرور تھا۔محمد حسن ہمارے مرشدِاول تھے اس زمانے میں اس شہرنگاں کی فضا بھی بہت رومان پرور تھی۔‘‘
قمر رئیس نے اپنے خاندان سے اخلاقی ومذہبی اور علم و دوستی کے تمام تر اسباق پڑھے تھے ،اور ان کے ایجابی و تعمیری اثرات بھی قبول کیے ۔پریکٹس کے دوران ہی ۵۵۹۱ میں انہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم۔اے کیا اور وکالت ترک کرکے علی گڑھ آگئے،اور ۶۵۹۱ میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی زیرِنگرانی’’پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار‘‘کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔قمر صاحب نے جب پریم چند کے موضوع کا انتخاب کیا تھا تو اس وقت پریم چند پر اردو میں پی ایچ ڈی کا کوئی کام نہیں ہوا تھا اس لئے انہیں اپنے اس تحقیقی کام میں خود ہی رہنمائی کرنی پڑی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں ان سبھی حالاتو ں کا خود مشاہدہ کیا تھا ،جو کہ پریم چند کی تحریروں میں موجود تھے۔گاؤں کی زندگی ،غریبوں،مزدوروں اور پسماندہ طبقوں کی طرزِ زندگی اور ان پرساہو کاروں،امیدواروں،پنڈتوں کے مظالم۔ان سبھی تجربوں کی شہادت خود قمر رئیس اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں نے نجی زندگی میں خود اپنی آنکھوں سے ان غریب کسانوں کودیکھا تھا جن کے خد وخال پریم چند کے کرداروں سے ملتے جلتےتھے۔میرے اپنے چچا کندھے پر ہل اٹھا کر کھیتوں کو جایا کرتےاس لیے پریم چند کے کرداروں کے مسائل کا تجزیہ کرنے میں قدرِ آسانی ہوئی۔‘‘۷؎
اس ضمن میں خوشنودہ نیلوفر بھی اپنی کتاب میں تحریر کرتی ہیں:
’’قمر رئیس جس علاقے میں پلے بڑھے تھے وہ ایسے ہی کاشتکارپسماندہ عوام سے بھرا ہوا تھا۔انہیں میں سے قمر رئیس کے دوست احباب بھی تھے جن کے مسئلوں مصیبتوں کو انہوں نے نہ صرف آنکھوں سے دیکھا تھا بلکہ خود بھی محسوس کیا ۔اس بستی میں زیادہ ترباشندے کسان تھے جو کھیتی باڑی کرتے تھے اس لیے کھیتوں کھلیانوں باغات سبھی کچھ قمر رئیس کے تجربوں کی ضمانت تھے۔‘‘۸؎
پریم چند کا مطالعہ ،قمر رئیس کی ذہنیت اور تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بے انتہا معاون ثابت ہوا۔پریم چند کی فہم و تفہیم کے عمیق نقائش سے ان کے لئے تحقیق کی نئی راہیں غامزن ہویں۔اس دوران علی گڑھ میں ڈاکٹر محمد حسن،خلیل الرحٰمن اعظمی،معین احسن جزبی،خورشید الاسلام جیسے ادیب اور دوستوں کی صحبتیں میسر ہویں،تو قمر رئیس کی تحقیقی وتنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پوری طرح آبداری حاصل ہوئی۔یہ کتاب پریم چند کے مطالعے میں ایک سنگِ میل ثابت ہوئی ۔قمر صاحب کی تقرری کے زمانے میںشعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں صرف تین اساتذہ موجود تھے ،صدر شعبہ اردو خواجہ احمد فاروقی کے علاوہ ڈاکٹر قمر رئیس ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ۔قمر صاحب زیادہ وقت شعبہ اردو میں صرف کرتے تھے ۔ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے سبب،ڈپلومہ کورسز کا انچارج بنایا گیا ۔۰۶۹۱ میں روس سے کچھ طالبِ علم اردو پڑھنے کے غرض سے ہندستان آئے تھے۔موصوف نے انہیں بہت محنت سے پڑھایا اس لئے جب وہ اپنے ملک واپس گئے تو انہوں نے وہاں ان کی بیحد تعریف کی جس کے سبب روسی حکومت نے انہیں پروفیسر کی حیثیت سے بلایا ۔روس کے قیام کے دوران آپ نے بہت کام کیا ۔پہلے تو ازبیک زبان سیکھی،اور پھر ازبیک زبان کی شاعری اور بہت سے ناولوں کا اردو زبان میں ترجمہ کیاپھر وہاں کی اشاعت کمیٹی میں داخل ہوے۔اور اسی دوران علامہ اقبال،راجیندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کو ازبیکی زبان میں ترجمہ کر انہیں ارددو ادب سے روشناس کرایا۔ان کی ایسی ہی جہتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر نصیر احمد لکھتے ہیں :
’’قمر رئیس ایک ہم جہت شخصیت کے مالک ہیں۔وہ ایک استاد بھی ہیں اور محقق بھی ایک نثر نگار بھی ہیں اور شاعر بھی۔ان میں ایک زبردست تنظیمی صلاحیت ہے۔شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سےانہوں نے جو کارہائے انجام دیے ہیں۔وہ پروفیسر قمر رئیس کےعلاوہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئے۔دو بار صدر شعبہ رہےان کے زمانے میں شعبہ میں ادبی علمی سرگرمیاں اپنے شباب پرتھیں۔۔۔۔انہوں نے حکومت ہند کی طرف سے ازبیکستا ن میں ہندستانی کلچرل سینٹر کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔اردو کے کسی استاد کو ایسا اعزاز پہلی بار ملا ہے جب حکومتِ ہندنے بیرونی ملک کے لئے اس کی خدمات حاصل کی ہوں۔‘‘
پروفیسر قمر رئیس نے لکھنو کے قیام کے دوران شعر کہنا شروع کر دیا تھا اس وقت آپ قمر نعمانی کے نام سے لکھتے تھے۔دورانِ وکالت طغیانی محبت کے بعد ان کی شادی شہر کی ایک معزز خاتون رئیس بانو سے ہوئی،شادی کے بعد قمر نعمانی قمر رئیس ہو گئے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیشتر خواتین شادی کے بعد اپنے شوہر کا نام استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔لیکن قمر رئیس وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کا نام استعمال کر نہ صرف اپنی محبت کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ بیوی ہی نصفِ بہتر ہے۔اس ذضمن میں فاروق ارگلی صاحب لکھتے ہیں:
’’ رئیس بانو مصاحب علی کی شریکِ حیات بن گئیں۔مصاحب علی کا عشق اتنا گہرا تھا کہ اپنا نام بدل کر رئیس بانو کے قمر بن گئے،یعنی قمر رئیس۔عام طور پر شادی کے بعد خواتین اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ لیتی ہیں لیکن یہ دنیا کی پہلی اور شاید آخری مثالہے کہ ایک شوہر نے بیوی کے نام کو اپنی شخصیت کی پہچان بنایا ہو۔‘‘۱۰؎
ان کی شخصیت میں علم،دوستی،انکساری اور انسانی محبت کابے مثال امتزاج ملتا ہے۔وہ ہمیشہ خلوص نیت سے علم کی خدمات کرتے اور دوسروں کے خیالات کا احترام کرتے تھے۔ان کی گفتگو میںشائیستگی،طرزِعمل میں وقاراور روئیہ میں خالص انسانی دوستی کا رنگ جھلکتا ہے۔علمی وقار کے ساتھ ساتھ ان میں نرم دلی ،شفقت اور حسنِ سلوک نمایاں تھے۔عزیز دوست رتن سنگھ ان کی شخصیت کے پہلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ ’قمر رئیس کی شخصیت جتنی جازب نظر ہے ،دل کے بھی وہ اتنےخوبصورت ہیں۔دوستوں کے لئے بیلی،یاراور ہمدرد۔نہ رتبہ کا زعم نہ قابلیت کا رعب۔ہر ایک سے برابری کی سطح پر انسان کی سطح پر ملتے ہیں۔مزاج میں بڑا اعتدال ہے،سنجیدگی ہے۔اس احساس ِتوازن نے ان کی شخصیت کو بنایا ،سنوارا اور نکھارا ہے‘‘۔۱۱؎
قمر رئیس کی شخصیت ہم گیر تھی،طلبہ،ساتھی،اساتذہ اور ادیبوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ عزت و احترام پر مبنی ہوتا ۔وہ اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے اور علمی مکالمے میں وسعتِ نظر کا مظاہرہ کرتے۔تنظیمی صلاحیت،دیانت داری اور فکری یکسوئی ان کے اوصاف حمیدہ میں شامل تھے،جس کی جھلک ان کی ادبی تدریسی اور تحقیقی خدمات نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ان کا کردار نئی نسل کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ڈاکٹر تنویر احمد علوی لکھتے ہیں:
’’قمر صاحب کی شخصیت پر میں نے کوئی نقاب نہیں دیکھا ہےان کی کتاب زندگی میں شاید ایسا کوئی باب نہیںجسے’’حسنِ فریب‘‘ کا عنوان دیا جا سکے’’فریبِ حسن ‘‘ الگ بات رہی۔قمر صاحب کی کامیابی ہی کا نہیں کارکردگی کا نشان بھی بہت بلند ہے۔‘‘۲۱؎
مصاحب علی بنام قمر رئیس ،کی شخصیت میں رومانی پہلونہایت پر لطف مگر دقیق انداز میں نمایاں ہیں۔اگر چہ وہ ایک ماہرِنقاد اور سنجیدہ علمی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں،لیکن ان کے اندر جزبہ احساس اور حسن و جمال کی محبت بھی پوری شدت سے پائی جاتی ہے۔ اور طبیعت میں ایک ایسا توازن تھا ،جہاں عقل اور دل ایک ساتھ ہم آہنگ نظر آتے تھے ۔گفتگو میں ہمیشہ نرمی ،برتائو میں وقار اور رشتوں میں محبت کا عنصر تھا۔انہوں نے انسانی رشتوں کو محض رسمی طور پر قائم نہیں رکھا بلکہ دل کی گہرائیوں سے ان سے جڑے تھے ۔موصوف کے لکھنے کا انداز،تنقیدی تخلیقات خاص طور پر ادبی شخصیات پر پرُجوش مضامین،ایک خاص رومانوی لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ایسا لہجہ جس نے نہ صرف شخصیت کی خوبصورتی کو اجاگر کیا بلکہ قاری کے دل کو بھی چھو لیا۔بقول عصمت اللہ خاں :
’’مصاحب علی کی شخصیت کا رومانی پہلو اس کے دور جوانی پر پوری طرح محیط نظرآتا تھا عام طور پر ایسے مزاج اور رجحان کے حامل افراداکثر وبیشتر حالات کے نشیب و فراز میں غلطاں و پیچاں نظر آتے ہیں اور آخرکار زندگی کے کسی مرحلے میں پہنچ کرشدید قسم کی یاسیت اور مجہولیت کاشکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔لیکن مصاحب علی کا معاملہ اس کے بلکل برعکس رہا ہے ۔اس کی شخصیت کے رومانویت سے عملی،فکری اورتخلیقی صلاحیتوں کے سوتے پھوٹے ہیں ‘‘۔۱۳؎
اردو کی کلاسکی شاعری خصوصاََ غزل کی روایت سے قمر رئیس کو خاص لگائو تھا ۔غالب،میر،مومن،،فانی جیسے شاعر ان کے پسندیدہ تھے اور انہوں نے ان کی نظموں میں چھپے جزباتی اور رومانی پہلوں کو بہت باریک بینی سے محسوس کیا اور ان کی تعریف کی ۔ان کے مطالعے اور تنقیدی انداز میںجمالیاتی اور رومانی جزبات بھی نمایاںہیں۔
پروفیسر قمر رئیس کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی غیر معمولی تدریسی صلاحیت تھی۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں طویل عرصہ تک پڑھایا اور بہت سے طلبا کو علمی اور تحقیقی شعبوںمیں آگے بڑھنے کی ترغیب دی ۔ان کی تربیت یافتہ نسل آج خود اردو تحقیق و تنقیدمیں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے جوکہ ان کی علمی میراث کی توسیع ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر سلمٰی شاہین لکھتی ہیں:
’’دہلی یونیورسٹی جیسی قدیم اور مشہور دانشگاہ میں وہ کم و بیش گزشتہ چالیس سال سے درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں سیکڑوں کی تعداد میں ان کے طلبہ ء اس ادارہ سے فارغ ہو کرزندگی کے مختلف شعبوں اور مختلف شہروں میں منصبی خدمات پرمامور ہیں۔جن میں سے کچھ نے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی ناموری حاصل کی ہے۔‘‘
ان کی زندگی نظم و ضبط،دیانت اور علم کے لئے وقف تھی۔وہ ایک ایسے استاد تھے،جنہوں نے اپنے طلبہ میںمطالعہ کا شوق،تحقیق میں دلچسپی اور تنقید کا جزبہ پیدا کیا۔ان کی مجالس میں بیٹھنا ایک علمی تجربہ تھا۔جہاں صرف کتابوں کے بارے میں نہیں بلکہ زندگی کی حقیقتوں ،تہذیب معاشرت اور فکری ترقی کے بارے میںبھی گفتگوہوتی تھی۔خوشنودہ نیلوفر تحریر کرتی ہیں:
’’ ڈاکٹر قمر رئیس کی شخصیت ایک استاد کی حیثیت سے بھی بڑی قد آوررہی ہے۔۔۔۔۔انہوں نے نہ صرف طلبہ کے کیرئیر کی فکر کی بلکہ انفرادی طور پر بھی انہیں اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ اردو زبان وادب کی خدمت انجام دینے کے لائیق بنانے کی پوری کوشش کرتےرہے۔انہوں نے تحقیق و تنقید اور فکشن کے علاوہ انفرادی زندگی کےتمام معاملات کے تجربے بھی اپنے طلبہ میں بے تکلفی سے بانٹے اورانہیں مستقبل کی خاطرذہنی طور پر پختہ کرنے کی کوشش کی۔وہ اپنے شاگردوں کی خاطر صرف ایک استاد ہی نہیں بلکہ دوست مشفق اورخضرِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘۵۱؎
پروفیسر قمر رئیس کی علمی خدمات کو بے شمارقومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازہ گیا لیکن ان کے لئے سب سے بڑا اعزاز ان کے طلبہ اور قارئین کا اعتماد تھا جنہوں نے ان کی ہر تحریر کو غور سے پڑھا اور اس سے سبق حاصل کیا۔ ان کی شخصیت نہ صرف اردو ادب کے لئے باعثِ فخر تھی بلکہ وہ انسانیت ،رواداری اور علم دوستی کی زندہ مثال بھی تھی۔ان کی تخلیقات اور خدمات اردو ادب کے افق پر ہمیشہ روشن چراغ کی طرح چمکتی رہیں گیں۔
حوالہ جات:
۱؎ نگار عظیم’’ایک شفاف شخصیت‘‘ مشمولہ ’’قمر رئیس ایک زندگی‘‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۱۷۱
۲؎ ڈاکٹر مسرت جہاں’’قمر رئیس کی علمی و ادبی خدمات:تنقیدی جائزہ ‘‘سلور لائین پرنٹرس‘حیدرآباد،ء۲۰۰۴،ص:۴
۳ ؎ عصمت اللہ خاں’مصاحب علی خاں بنام قمر رئیس‘مشمولہ ’قمر رئیس ایک زندگی‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین ،تخلیق کار پبلشرز ،نئی دہلی ،۱۹۹۸،ص:۲۹
۴؎ ایضاً،ص:۳۰
۵؎ رتن سنگھ ’’مکمل شخصیت کی ادھوری کہانی‘‘ مشمولہ’’قمر رئیس ایک زندگی‘‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۷۳
۶؎ مبارک شمیم’’ؔ،قمر رئیس کا عہدِطفلی ماحول اور مشغلے ‘‘مشمولہ ’’قمر رئیس ایک زندگی‘‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۲۶۔۲۵
۷؎ قمر رئیس کا تصدیق نامہ خوشنودہ نیلوفر کے نام ،بتاریخ۱۵مئی۲۰۰۴مشمولہ’’ قمر رئیس علمی و ادبی شناخت‘‘خوشنودہ نیلوفرء۲۰۰۷،ص:۳۳
۸؎ ایضاً،ص:۳۳
۹؎ پروفیسر نصیر احمد ’ہمارے قمر صاحب‘مشمولہ ’قمر رئیس ایک زندگی‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۱۵۴
۰؎۱ فاروق ارگلی’چمنستانِ اردو کا گل ہزارہ:قمر رئیس‘دو ماہی سہیل قمر رئیس نمبر، جلد۵،شمارہ:۴ جنوری تا اپریل،ء۲۰۱۷،ص:۲۷
۱۱؎ رتن سنگھ ’مکمل شخصیت کی ادھوری کہانی‘مشمولہ ’قمر رئیس ایک زندگی‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،۱۹۹۸ص:۷۷
۲۱؎ ڈاکٹر تنویر احمد علوی’چالیس سالہ دوستی کے اجالے‘مشمولہ ’’قمر رئیس ایک زندگی‘‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۴۶
۳؎۱ عصمت اللہ خاں’مصاحب علی بنام قمر رئیس‘مشمولہ ’قمر رئیس ایک زندگی‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۳۱
۴؎۱ ڈاکٹر سلمٰی شاہین’عرض مرتب‘ مشمولہ ’قمر رئیس ایک زندگی‘مرتبہ ڈاکٹر سلمٰی شاہین،تخلیق کار پبلشرز،نئی دہلی،ء۱۹۹۸،ص:۱۳