محمد ارشد کسانہ
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ، یونی ورسٹی آف دہلی
پریم چند کے افسانے اور تحریک آزادی ٔ ہند
۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے ہندستان پر باقاعدگی سے حکومت کرنی شروع کی ۔ آہستہ آہستہ وہ پورے ہندستان پر قابض ہوگئے ۔ انگریزوں کا مقصد ہندستان کو آباد کرنا نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے برباد کرنا تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بے رحمی سے حکومت کی ۔ ہندستانی عوام بے سہارا اور مجبور تھی اس لئے کمزور کہلائی ۔ انگریزوں نے اسی چیز کا فائدہ اٹھایا اور ان کو غلام بنا لیا ۔ انگریزوں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ہندستانی عوام نے ذہنی طور پر یہ غلامی قبول کر لی ۔ جس کا صاف مطلب بنتا تھا کہ اب انگریزوں کے قبضے سے ہندستان کو چھڑانا آسان نہیں رہا ۔ ایسے میں چند باشعور اور پڑھے لکھے لوگ سامنے آئے اور انہوں نے کوششیں کی کہ عوام سے متعلق ہر شعبے میں تحریک آزادی کا جذبہ بھرا جائے تاکہ عوام کے اندر اتحاد اور جذبہ ٔ آزادی پیدا ہوجائے اور جدوجہد آزادی کے لئے میدان میں آئیں ۔ ان شعبوں میں سب سے اہم کردار ادب کا تھا ۔
پریم چند کا تعلق ادب سے تھا ۔ ان کے سامنے دو مقصد تھے ، ایک سماج کی ترقی اور دوسرا ملک کی آزادی ۔ ان دونوں مقاصد کے تحت انہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھا ۔ اور پھر آگے وہ اسی راستے پر ڈٹے رہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شمس الحق عثمانی لکھتے ہیں :
’’ پریم چند نے ایک جانب تو وطن دوستی کی کوکھ سے جنم لینے والے موضوعات
کو افسانوں کا روپ دیا اور دوسری جانب جہادِ آزادی میں مصروف عہد کے
متعد د انسانی رویوں کو اپنے افسانوں میں اجاگر کیا ہے ۔ ‘‘
(محب وطن پریم چند اور دیگر مضامین ، ڈاکٹر شمس الحق عثمانی ، ۱۹۸۹، ص ۳۲ )
حالانکہ نچلے اور دیہی سماج کی پسماندہ حالت کی طرف انہوں نے زیادہ توجہ دی لیکن انگریزوں کے مظالم اور ہندستانی عوام کی غلامی بھی ان کو پریشان رکھے ہوئے تھی۔سوز وطن کے دیپاچے میں وہ ادب پر حب الوطنی کے اثرات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
’’یہ چند کہانیاںاس اثر کا آغاز ہیں اور یقین ہے کہ جوں جوں ہمارے خیال
رفیع ہوتے جائیں گے ۔ اسی رنگ کے لٹریچر کو روز افزوں فروغ ہوتا جائے
گا ۔ ہمارے ملک کو ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے جو نئی نسل کے جگر پر حب ِ
وطن کی عظمت کا نقشہ جمائیں ۔ ‘‘
جدو جہد آزادی کا جذبہ انہوں نے ناول اور افسانہ دونوں اصناف کے ذریعے عام کیا۔ جہاں تک افسانوں کی بات ہے تو پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ سوزِ وطن ‘‘ جذبہ ٔ آزادی سے سرشار تھا۔ اس کے لگ بھگ تمام افسانے وطن پرستی اور قومی آزادی کے ترجمان ہیں۔ اس مجموعے میں شامل ان کا ایک افسانہ ’’ دنیا کا سب سے انمول رتن ‘‘ کی ایک عبارت ملاحظہ ہو :
’’ وہ آخری قطرۂ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے دنیا کی سب سے بیش
قیمتی شے ہے ‘‘
( افسانہ : دنیا کا سب سے انمول رتن )
اس کے علاوہ ’’ سوزِ وطن ‘‘ کے باقی افسانے ’’ یہی میرا وطن ہے ‘‘ ، ’’ شیخ مخمور ‘‘ ، ’’ عشق دنیا اور خوب وطن ‘‘ ملک کی سچی محبت کے جذبے سے لبریز ہیں، یہ مجموعہ حکومت کو برداشت نہیں ہوا تو اسے ضبط کر کے آگ کے حوالے کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی پریم چند پر یہ پابندی لگادی گئی کہ وہ اپنی کوئی بھی تحریر محکمہ کے افسران کی منظوری کے بغیر شائع نہیں کرائیں گے۔ پریم چند اس وقت نواب رائے کے نام سے لکھتے تھے جب ان پر پابندی لگادی گئی تو انہوں نے اب پریم چند کے فرضی نام سے لکھنا شروع کردیا اور اسی نام سے شہرت پائی ۔
اسی دور میں گاندھی جی نے تحریک آزادی کی جدو جہد میں ایک اہم مقام بنا لیا تھا ۔ پریم چند ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ اپنی بیس سالہ سرکاری ملازمت کو چھوڑ کر بالکل آزاد ہوگئے ۔ اس کے بعد ہی انہوں نے تحریک آزادی کی جدوجہد کے متعلق باقاعدہ لکھنا شروع کیا ۔ پریم اس عہد میں آزادی کے لیے اس قدر دیوانے ہوگئے تھے کہ ان کے اندر سے باقی تمام خواہشات ختم ہوگئی تھیں ۔ ان کی آپ بیتی سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
میری تمنائیں بہت محدود ہیں ۔ اس وقت سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ
ہم اپنی جنگ ِ آزادی میں کامیاب ہوں ۔ میں دولت و شہرت کا خواہش
مند نہیں ہوں ، کھانے کو بھی مل جاتا ہے ، موٹر اور بنگلے کی مجھے ہوس نہیں ہے ۔
ہاں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ دوچار بلند پایہ تصنیفیں چھوڑ جائوں لیکن ان کا
مقصد بھی حصول آزادی ہی ہو ۔ ‘‘
( نقوش آپ بیتی نمبر ، ص ۲۰۸ )
مندرجہ ذیل جدوجہد آزادی کے حوالے سے ان کے چند افسانے پیش کئے جاتے ہیں ۔
افسانہ ’’ آشیاں برباد ‘‘ میں خواتین کی جدوجہد آزادی کو پیش کیا گیا ہے ۔ اس افسانے کا اہم کردار’ مرولا‘ہے جس کا بیٹا ، شوہر اور ماں آزادی کی لڑائی میں مارے جا چکے ہیں مگر اس کے باوجود وہ جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔ پریم چند گاندھی جی کی تحریکِ عدم تعاون سے بہت متاثر تھے ۔ اس تحریک کو پیش کرنے کے لئے انہوں نے افسانہ ’’ لال فیتہ ‘‘ لکھا ۔ اس افسانے میں رام بلاس اپنی زمین جائیداد گروی رکھ کر اپنے بیٹے ہری بلاس کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے ۔ ہری بلاس کافی ذہین تھا اس لیے بہت جلد تعلیم حاصل کر کے ملازم لگ جاتا ہے ۔ وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ایماندار بھی تھا اس لیے انگریزی حکومت کے سامنے کبھی جھک نہیں پایا ۔یہی وجہ تھی کہ حکومت کی طرف سے اس کو نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ آخرکار وہ خاموشی سے خود استعفادے دیتا ہے اور واپس گائوں میں بس جاتا ہے ۔اس استعفے کا ایک مطلب یہ بنتا تھا کہ ہری بلاس کے والد کی سب قربانیاں ضائع ہوگئیں مگر ہری بلاس نے صبر کیا ۔ بعد میں ان کی ایمانداری اور کردار کو دیکھ کر وہ شخص کافی متاثر ہوا جس نے اس کی زمین جائیداد کو اپنے پاس گروی رکھا تھا ۔ اور اسی وجہ سے اس شخص نے رام بلاس کی ساری زمین جائیداد واپس لٹا دی ۔ہری بلاس کا کردار عدم تعاون کی عکاسی کرتا ہے ۔یہ افسانہ قاری کو گاندھی جی کے نظریات اور تحریک کی طرف متوجہ اور اس میں شرکت پر آمادہ کرتا ہے۔ عدم تعاون کے حوالے سے ان کا افسانہ ’’لاگ ڈانٹ‘‘ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ افسانہ تحریک عدم تعاون کو برائے راست موضوع بناتا ہے ۔ افسانے کا کردار بیچن چودھری ایک جگہ سوراج کی شرح ان الفاظ میں کرتا ہے :
’’ اپنے گھر کا بنا ہوا گاڑھا پہنو ، عدالتوں کو ترک کرو ، نشے بازی چھوڑو ، اپنے
لڑکوں کو دھرم کرم سکھائو ، میل سے رہو ۔۔۔۔ بس یہی سوراج ہے جو لوگ کہتے
ہیں سوراج کے لیے خون کی ندی بہے گی ، وہ پاگل ہیں !‘‘
( افسانہ : لاگ ڈانٹ)
اسی طرح افسانہ ’’ ڈامل کا قیدی‘‘خاص طور پر عدم تشدد کی تحریک کا نمائندہ افسانہ ہے ۔آزادی کو حاصل کرنے کے لئے اس وقت ایک ساتھ دو رحجان چل رہے تھے ایک تشدد کا اور دوسرا عدم تشدد کا ۔ پریم چند پہلے عدم تشدد کی راہ پر چل رہے تھے مگر ایک وقت ایسا آیا جب انھیں عدم تشدد پر شبہ ہونے لگااور وہ تشدد کی طرف متوجہ ہونے لگے ۔ اسی کشمکش کے حوالے سے ان کا افسانہ ’’ قاتل ‘‘ ایک عمدہ مثال ہے ۔ اس افسانے میں ایک ماں اور بیٹے کی کشمکش دکھائی گئی ہے ۔ مقصد دونوں کا آزادی ہے مگر راستے الگ الگ ہیں ۔ افسانہ ’’ جلوس ‘‘ بھی سیاسی شعور کی عمدہ مثال ہے ۔ اس افسانے میں پولیس کانگریسی جلوس کو روکنے کے لئے ان پر لاٹھیاں چلاتی ہے ۔ اس کو دیکھ کر پورے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور یہ دیکھ کر پولیس پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اس افسانے کے ذریعے انہوں نے جدو جہد آزادی میں اتحاد کی طاقت اور اہمیت کو بیان کیا۔ افسانہ’’ ستی‘‘ اس لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس ایک افسانے کے ذریعے پریم چند نے دو نشانے لگائے ہیں۔ ایک طرف وہ عورت کو بہادر ی کا سبق دیتے ہیں تو دوسری طرف عورت کو بہادر پیش کر کے مردوں کو جنگ ِ آزادی کے لیے اکسانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس افسانے میں چنتا نامی ایک عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ چنتا کی ماں بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھی اس لیے اس کی پرورش اس کے والد نے کی ۔ اس کا باپ ایک بہادر سپاہی تھا جس کی زیادہ تر زندگی میدان جنگ میں گزری تھی اور میدان ِ جنگ میں ہی وہ شہید ہوگئے تھے ۔ باپ کی شہادت کے بعد چنتا بھی ظلم کے خلاف لڑنے کی ٹھان لیتی ہے ۔ اپنی بہادری کی وجہ سے وہ بہت جلد سردار بن جاتی ہے ۔ اور یہی وہ
بہادری کا جذبہ تھا جس نے اسے کبھی جھکنے نہیں دیا اور آخر کار خودکشی کر لیتی ہے ۔اس افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ تم میرے رتن سنگھ نہیں ۔ میرا رتن سنگھ سچا سورما تھا ۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے ،
اپنے نکمے جسم کو بچانے کے لیے ۔ اپنے دھرم ترک نہ کر سکتا تھا ۔ میں جس جواں
مرد کے قدموں پر نثار ہوچکی تھی وہ دیوتائوں کی بہشت میں رونق افروز ہے ۔ رتن
سنگھ کو بدنام مت کرو ۔ وہ بہادر راجپوت تھا ۔ میدان ِ جنگ سے بھاگنے والا بزدل
نہیں ‘‘
آخری الفاظ نکلتے ہیں آگ کی لپیٹ چنتا کے سر کے اوپر جا پہنچی ۔ پھر ایک لمحے
میں وہ حسن کی مورت ، وہ اعلیٰ بہادری کی پجارن ، وہ سچی ستی آگ میں جل کر بھسم
ہوگئی ۔
رتن سنگھ خاموشی سے مبہوت کھڑا ہوا ، یہ درد ناک نظارہ دیکھتا رہا ۔ پھر یکایک
ایک آہ ِ سرد بھرکر اسی چتا میں کود پڑا ۔ ‘‘
( افسانہ : ستی)
افسانہ ’’ آخری تحفہ ‘‘ سودیشی تحریک کے زیر ِ اثرلکھا گیا ہے ۔ اس افسانے میں ایک محبوبہ اپنے عاشق سے ولایتی ساڑی کی فرمائش کرتی ہے ۔ امر ناتھ ( عاشق ) چھپ چھپا کر ایک دوکان سے ساڑی خرید کر باہر نکلتا ہے ۔ یہیں دیوی جی امرناتھ کو اس عمل پر شرمندہ کرتی ہے ۔ دیوی جی کی باتوں نے امرناتھ کو بہت متاثر کیا ۔ اس افسانے کے ذریعے پریم چند نے خواتین کو یہ سبق دیا ہے کہ آپ گھر بیٹھ کر ہی سودیشی تحریک میں حصہ لے سکتی ہیں ، یعنی اگر وہ مردوں کو ولایتی سامان سے دور رکھیں گی تو یہ کام دونوں کے لیے آسان ہوجائے گا ۔ افسانہ ’’ جیل ‘‘ تین نوجوان طالب علم وشومبھر ، آنند اور روپ متی کے کرداروں پر مشتمل ہے ۔ اس افسانے کے ذریعے پریم چند نے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کو جدو جہد ِ آزادی میں حصہ لینے پر آمادہ کیا ہے ۔ یہ افسانہ ۱۹۳۰ء میں لکھا گیا تھا اور ۱۹۳۰ء کا سال جدوجہد آزادی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔اس سال ملک کے کونے کونے میں ہندستانیوں نے مل کر آزادی کا عہد کیا تھا ۔
پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے نہ صرف مرد ذات بلکہ عورت ذات کو بھی جدو جہد آزادی کی طرف آمادہ کیا ۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں بے شمار افسانہ نگاروں کے نام درج ہیں مگر جو رتبہ پریم چند کے حصے میں آیا وہ کوئی بھی حاصل نہیں کر پایا اور نہ ہی شاید کوئی حاصل کر پائے گا ۔ تحریک آزادی کے حوالے سے جتنے افسانے پریم چند نے لکھے اتنے کوئی بھی نہیں لکھ پایا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آزادی کا جو جذبہ پریم چند کے اندر تھا وہ اور کسی کے پاس نہ تھا ۔ ان کا نظریہ مستقل اور صاف تھا اسی لیے اس موضوع کے حوالے سے ان کے ہاں باقاعدگی نظر آتی ہے ۔ ڈاکٹر شمس الحق عثمانی اس حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’ پریم چند کے افسانوی ادب کے نقش ِ اول : ’’ سوز ِ وطن ‘‘ ( ۱۹۰۸) میں شامل
افسانوں سے ، افسانہ ’’ قاتل کی ماں ‘‘ (۱۹۳۶) تک کے متعدد افسانوں کی
تفہیم سے یہ بات آئینہ ہوجاتی ہے کہ پریم چند نے اپنے افسانوں کے ایک
حاوی حصے میں جذبہ زندہ و متحرک لہو کی مانند ، از ابتدا تا انتہا جاری و ساری ہے ‘‘
( محب وطن پریم چند اور دیگر مضامین ، ڈاکٹر شمس الحق عثمانی ، ۱۹۸۹، ص ۷۴)
اس کے علاوہ’’ عجیب ہولی ، ’’ قاتل کی ماں‘ ‘،’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘،’’ یہ میری مادر وطن ہے‘‘ ، ’’ سمر یاترا‘‘ ، ’’ فراق اور وصال‘‘ وغیرہ جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے ان کے اہم افسانے ہیں ۔
مختصر یہ کہ پریم چندجدوجہد آزادی میں ’’ سوزِ وطن ‘‘ کے ذریعے شامل ہوئے اور آخری عمر تک قلم کے ذریعے جہاد کرتے رہے ۔
***