You are currently viewing پڑھ کے دیکھتے ہیں

پڑھ کے دیکھتے ہیں

ڈاکٹر شاہد جمیل

 بہارانڈیا

پڑھ کے دیکھتے ہیں

          ڈاکٹر رمیشا قمر نے حسن و سلیقے سے اہم شخصیات سے گفتگو کی اور مفید و راہنما باتوں کو یکجا کرکے قارئین سے ساجھا کیا ہے۔ یہ ایک اچھا عمل اور مانندِ شمعِ فروزاں ہے۔ سب سے پہلے میں یہ اعتراف و اعلان کرتا ہوں کہ انٹرویوز کے مطالعے سے میرے علم و آگہی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا اور یہ مجموعہ نہ صرف قابلِ مطالعہ ہے بلکہ ذاتی لائبریری کی زینت میں چار چاند لگانے والا ہے۔

 ڈاکٹر رمیشا قمر نے اپنی وہبی و اکتسابی صلاحیتوں اور حکمتِ عملی کو بروئے کار لاکر بہت جلد اہم ادبی شخصیات کا اعتماد و تعاون حاصل کرلیا ہے۔ وہ قارئین سے داد و تحسین وصول کررہی ہیں۔ حصولِ اعزاز و انعام کا سلسلہ جاری ہے اور ادبی سرگرمیوں میں بھی موصوفہ سرگرم عمل ہیں۔ یہ باتیں ادب اور ڈاکٹر رمیشا قمر کے لئے خوش آئند اور نافع ہیں۔

 اِس مجموعے نے ڈاکٹر رمیشا قمر کے سابقہ مجموعہ ‘اُردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں’ سے وابستہ سرور بخش یادوں کو تازہ کردیا۔ اُس مجموعے میں 23 صفحات پر محیط دیباچے کے ساتھ بہترین کہانیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ سبھی افسانے پڑھے ہوئے تھے۔ پھر بھی میں نے اُنھیں پڑھا تھا کہ اعلی ادب کا بار بار مطالعہ نئی نئی دریافت کی سرخوشی بخشتا ہے۔

 ڈاکٹر رمیشا قمر کو اہم شخصیات سے رابطے اور رشتے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں قبل از وقت یہ گیان پراپت ہوگیا کہ سال میں دو تین کتابوں کی اشاعت سے بہتر دو تین برسوں میں ایک دو کتابیں شائع کرانا ہے تاکہ ہر کتاب کی خوب خوب پذیرائی ہو اور ناقدینِ ادب بھی اُسے ذخیرہ ٔادب میں اضافہ تسلیم کریں۔

 ڈاکٹر رمیشا قمر کا تازہ مجموعۂ انٹرویوز (بات کرکے دیکھتے ہیں) نے مجھے نہ صرف ترجیحی بنیاد پر دعوتِ مطالعے دیا بلکہ تحریری اظہارِ خیال کے لئے بھی مجبور کر دیا۔ اچھی کتاب کی پہلی اور سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ قاری کو پڑھنے اور اہالیانِ نظر و ناقدینِ ادب کو لکھنے پر مجبور کردے۔ اِس ضمن میں، میں یہ کہنا نہیں چاہتا کہ بیشتر مصنّف/مرتّب/مدیر نے ”پڑھوانے” اور ”لکھوانے” کی ذمّہ داری اپنے ہی کندھوں پر ڈال رکھی ہے کہ اُن کا مقصد جیتے جی شہرت و مقبولیت حاصل کرلینا ہے۔

 یہ بھی واضح کردوں کہ ‘بات کرکے دیکھتے ہیں’ کی چند خصوصیات کا ذکر میرا مطمحِ نظر ہے۔

 اِس مجموعے کا عنوان ‘بات کرکے دیکھتے ہیں’ جاذبِ توجّہ ہے، جو مشہورِ زمانہ غزل کے ایک مصرعے سے ماخوذ ہے۔ یہ مرتب کے ویژن کا عکّاس ہے۔ اِس عنوان کی مٹھّی میں بلیغ اشارے ہیں۔

 ‘پیش لفظ’ کے توسط سے مصنف/مرتب، قاری کو مطالعے کے لئے اُکساتا اور اپنے علم و آگہی اور دانشوری سے متاثر و مرعوب بھی کرتا ہے۔ ڈاکٹر رمیشا قمر نے بھی اِس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 ”انٹرویو کسی بھی شعبے سے وابستہ اہم اور قابلِ قدر شخصیات سے متعلق ایسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے جو عام طور پر اس کی یا اس پر لکھی گئیں تحریروں سے حاصل نہیں ہوپاتیں۔ انٹرویو کا فن ایک بہت ہی نازک اور مشکل فن ہے۔۔۔۔ کسی کے باطن سے رازہائے سربستہ کو باہر نکال لانا کوئی آسان کام نہیں۔۔۔۔ کامیاب انٹرویو کے لئے ضروری ہے کہ جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے اس کے متعلق مکمل جانکاری ہو۔ سوالات اس طرح بنائے جائیں کہ اس شخص کے ظاہر و باطن دونوں پہلو پوری طرح اُبھر کر سامنے آ سکیں۔ اور وہ اس کو آمادہ کرسکیں کہ وہ ان باتوں کو بھی بتا سکے جنھیں وہ چھپاتا رہا ہو۔۔۔۔”

         اس کے علاوہ مجموعے میں شامل شخصیات کے مقام و مرتبے کے ذکر کے ساتھ یہ جانکاری بھی دی گئی ہے کہ کس طرح انٹرویو لیا گیا ہے۔ لیکن دانستہ یا نادانستہ اس بات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ انٹرویو مراسلاتی ہے یا ریکارڈیڈ یا روبرو لیا گیا ہے۔ لیکن دورانِ مطالعہ یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ تمام انٹرویوز مراسلاتی ہیں۔

 ڈاکٹر رمیشا قمر بے حد ذہین ہیں۔ اُنھوں نے اپنے منصوبے کی کارگر حکمتِ عملی بنائی۔ پہلا انٹرویو منفرد و ممتاز فکشن نگار، غضنفر سے لیا اور اس کی اشاعت کثیرالمطالعہ ‘ثالث’، مونگیر میں کروائی۔ غیر معمولی پذیرائی نے ان کے حوصلے کو پر اور اڑان کے لئے قوتِ پرواز عطا کردی۔ موصوفہ نے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے ان میں سلام بن رزاق، نورالحسنین، عبدالصمد، غضنفر، صغیر افراہیم، طارق چھتاری، اقبال حسن آزاد، سیّد محمد اشرف، محمد حمید شاہد، حافظ کرناٹکی، خواجہ محمد اکرام الدین اور الطاف یوسف زئی شامل ہیں۔ شخصیات کے انتخاب میں موصوفہ کی پسند، رسائی اور حکمتِ عملی کا بڑا دخل ہے۔

 اِس مجموعے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ڈاکٹر رمیشا قمر نے گفتگو کو ایڈیٹ کرکے اِس طرح پیش کیا ہے، جس سے قاری کو لگے کہ اُنھوں نے دوبدو باتیں کی ہیں۔ موصوفہ نے اپنے قول ”کسی کے باطن سے رازہائے سربستہ کو باہر نکال لانا کوئی آسان کام نہیں۔” کو ایک چیلنج کی طرح پیشِ نظر رکھا۔ پروفیسر عبدالصمد نے بھی اعتراف کیا ہے:

 ”رمیشا قمر آپ نے جس ذہانت اور محنت سے اپنے سوالوں کو ترتیب دیا ہے اس کے جوابات سے لکھنے والے یا انٹرویو دینے والے کا مافی الضمیر بہت حد تک سامنے آجاتا ہے۔” (صفحہ 61)

اِس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ عبدالصمد کو یہ اعتراف کرنا پڑا:

 ”چھ ماہ میں، میں نے ناول (دوگز زمین) مکمل کرلیا۔۔۔۔ میں ناول ”دوگز زمین” کو تاریخی ناول نہیں کہہ سکتا۔ یہ خالص فکشن ہے۔”

 سلام بن رزاق نے بھی قبول کیا:

 ”میں نے ادبی سفر کی ابتدا تو شاعری سے شروع کی تھی لیکن مجھے بہت جلد محسوس ہوگیا کہ میں اپنی بات شاعری کے مقابلے میں فکشن کے ذریعے بہتر طور پر پیش کر سکتا ہوں۔۔۔۔ مجھے اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ میں نے ناول نہیں لکھا” (صفحہ 16 اور 23)

 ”افسانہ تو عموما” ایک ہی بیٹھ میں لکھ لیتا ہوں، اور کچھ دن تک اسے ہاتھ نہیں لگاتا کہ وہ میرے ذہن سے اتر جائے۔ بعد میں جب میں اسے پڑھتا ہوں تو وہ نظریں بڑی بیمروّت ہوتی ہیں اور جو تبدیلیاں مجھے کرنی ہوتی ہیں وہ میں کرلیتا ہوں۔” (صفحہ 29)

یہ ہے نورالحسنین کا تخلیقی رویّہ۔

 ”میں اس وقت تک نہیں لکھتا جب تک لکھنے کی میری بھوک شدید نہیں ہوتی۔۔۔۔ مجھے لکھنے کی پیاس لگتی ہے، مجھے تخلیق کی بھوک ستاتی ہے۔۔۔۔ زندگی کے خارجی دباؤ اور داخلی تناؤ میری تخلیقی بھوک پیاس کو تیز کرتے ہیں اور میں لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔۔۔۔ میں یہ بھی کوشش کرتا ہوں کہ جملے چست درست تو ہوں ہی، خوبصورت اور بلیغ بھی ہوجائیں۔ اور لفظوں کے اچھے انتخاب اور مناسب ترتیب سے حسن بھی تخلیق ہوجائے۔۔۔۔ وسیلۂ اظہار کو فطری ہونے کے ساتھ ساتھ شستہ، برجستہ اور شگفتہ بھی ہونا چاہئے۔۔۔۔ خوبصورت کمیونیکیشن کے نئے نئے طریقے سوچتا رہتا ہوں اور جتن کرتا رہتا ہوں کہ وہ صرف بیان نہ لگے بلکہ تصویر بن جائے۔ صوت و صدا سرتال میں ڈھل جائے۔”

         یہ ہے غضنفر کا تخلیقی رویّہ۔ (صفحہ 73، 78 اور 81)

 ”شاید اسی ذہنی کش مکش کو تخلیقی کرب یا تخلیقی Urge کہتے ہیں۔ میں اس کرب سے ہر افسانے میں گزرا ہوں۔ مجھ پر یہ کیفیت کبھی کبھی طاری ہوتی ہے، اسی لئے میں بہت کم لکھ پاتا ہوں۔”

         یہ ہے طارق چھتاری کا تخلیقی رویّہ۔ (صفحہ 120)

 سبھی انٹرویوز یقینا” قارئین کے علم و دانش میں اضافہ کریں گے۔ ریسرچ اسکالروں کے لئے تو یہ علم و آگہی کا انمول خزانہ ثابت ہوگا۔

          اِن انٹرویوز کا اختصاصی پہلو یہ بھی ہے کہ سبھی شخصیات نے دل کھول کر گفتگو کی ہیں، جس کا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ تخلیق کار کی نجی زندگی کی مخفی و اہم باتوں کے ساتھ ان کے تخلیقی رویّے بھی جگ ظاہر ہوگئے ہیں۔ لہٰذا قارئین کو یہ مجموعہ مایوس نہیں کرے گا۔ شوقِ مطالعہ کو انگیز کرنے کے لئے میں چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:

 ”انعامات کا کوئی رول نہیں ہوتا، اصل چیز آپ کی تخلیق اور آپ کا ویژن ہوتا ہے۔ وہ اگر ایسی ہے کہ آپ کا نام لیتے ہی قاری کے ذہن میں آپ کی دو تین تخلیقات آجائیں، یہی سب سے بڑا اعزاز ہے۔”

یہ ہیں انعامات و اعزازات کے سلسلے میں سلام بن رزاق کے حقیقت سے لبریز خیالات۔ (صفحہ 22)

 ”ادب کے نام پر زیادہ تر غیر ادبی تحریریں پیش کی جا رہی ہیں اور اسے اس حد تک عام کردیا گیا ہے کہ ادب عامیانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے سطحی شہرت پانے کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ ادب کے نام پر کچھ بھی پیش کرکے نام کمانے اور نمایاں ہونے کی ہوڑ سی لگ گئی ہے۔”

یہ ہیں ادب اور ادیب کے متعلق غضنفر کے بیباک خیالات۔ (صفحہ 85)

 ”علامت کا تعلق معنی سے ہوتا ہے اور تجرید کا ہئیت سے۔ جن افسانوں میں موضوع کے لحاظ سے ایک سے زیادہ معنی پیدا ہوجاتے ہیں وہ علامتی افسانے ہیں اور جن افسانوں میں فنی نقطۂ نظر سے اکہرے بیانیہ اور ہئیت کی تشکیل کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کیا گیا ہو انھیں تجریدی افسانے کہا جاتا ہے۔”

         یہ ہیں طارق چھتاری کے وضاحتی خیالات۔ (صفحہ 123)

 اگر میں تمام انٹرویوز پر گفتگو کروں گا تو قارئین کے لئے اس کا مطالعہ ایک چیلنج بن جائے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ عہدِ حاضر کے بیشتر فیس بُک احباب اہم اور پُر مغز تخلیق کا مطالعہ طائرانہ نگاہوں سے کرتے اور بربنائے تعلقات مثبت کمنٹس بھی درج کر دیتے ہیں۔ آپ بھی خوش اور میری جان بھی بچ گئی کے مصداق۔

 المختصر سبھی انٹرویوز قابلِ مطالعہ اور علم و آگہی میں اضافے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رمیشا قمر کو گفتگو میں ایسی شخصیات کا بھی انتخاب کرنا چاہئے، جو گدڑی کے لعل ہیں۔ گروہ بندی نے جنھیں گوشہ نشین بنا دیا ہے۔ رجوع کرنے پر جو فورا” سے پیش تر اپنی رضامندی نہیں دیں گے۔ اس میں ایک جوکھم بھی ہے کہ ان کی باتوں کو دیانت داری سے منظرِ عام پر لانا بھی آسان نہیں ہوگا۔

 ڈاکٹر رمیشا قمر کا مطالعہ وسیع ہے۔ وہ اپنی تحاریر سے اہم شخصیات کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیتوں سے متصف ہیں۔ انھوں نے اپنے حسنِ اخلاق اور اعلی تخلیقی صلاحیتوں سے احباب و اہم شخصیات کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ سوالات داغتے وقت ان کا رویّہ منکسرانہ و ملتجیانہ ہوتا ہے لیکن وہ چبھتے سوالوں سے پرہیز نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ ایک انٹرویور کو شخصیت سے قطعی مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے سوالات سے علم و دانش اور آگہی کے ساتھ بیباکی بھی منعکس ہونا چاہئے۔ نیز اس میں جوابات سے سوالات پیدا کرنے کا ہنر بدرجۂ اتم ہو۔ قارئین اور ناظرین کو شُبہ نہ ہو کہ یہ انٹرویو میچ فکسنگ جیسا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر رمیشا قمر میں مذکورہ صفاتِ عالیہ موجود ہیں۔ جس کا مربّی نامور فکشن نگار، غضنفر صاحب ہوں، اُسے مقامِ محمود تک پہنچنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

 میں اپنی باتوں کو ڈاکٹر رمیشا قمر کے طرز گفتگو اور بیباکانہ لب و لہجے کی مثالوں پر ختم کرتا ہوں۔ ملاحظہ کیجئے:

 ’’حسنین صاحب ہماری جو نئی نسل ہے، وہ ادب تو تخلیق کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے وہ بہت عجلت میں ہے اسی لئے بعض لکھنے والوں کی تحریروں میں زبان و بیان کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں ہماری نئی نسل ایسا کیوں کر رہی ہے اور اس سے بچنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ صرف نئی نسل ہی نہیں بلکہ بعض سینئر کے یہاں بھی یہی صورت حال ہے اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے” (صفحہ 38)

 ’’آپ (پروفیسر عبدالصمد) نے ساہتہ اکادمی ایوارڈ کے حصول کے لئے کیا کیا۔۔۔۔ اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ ایوارڈ یوں ہی نہیں ملتا، اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے یا کچھ کروانا پڑتا ہے” (صفحہ 43)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ”طارق صاحب سوشل میڈیا پر آج کل ہر کوئی عظیم شاعر اور بلند پایہ ادیب بن گیا ہے۔ کیا یہ صورت حال ادب کے لئے موزوں ہے۔۔۔۔ اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ گروہ بندیاں ہی ایوارڈ اعزازات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ یہ بات کس حد تک درست ہے۔”

 ڈاکٹر رمیشا قمر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ دعا دیتا ہوں کہ وہ راہنما اصولوں کو بروئے کار لاکر ذخیرہ ٔادب میں گرانقدر اضافے کرتی رہیں۔

 مجموعہ پروف کی غلطیوں سے پاک ہے۔ طباعت دیدہ زیب اور کاغذ عمدہ ہے۔ عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی نے اس مجموعے کو بڑی نفاست سے شائع کیا ہے۔ لیکن دلکش کور پر کسی اور کی تصویر لگاکر قارئین کو خوش گمانی میں مبتلا بھی کردیا۔

٭٭٭

Leave a Reply