You are currently viewing پھر سال نیا آیا

پھر سال نیا آیا

ڈاکٹر شوکت محمود شوکت

پھر سال نیا آیا

پھر سال نیا آیا، پھر یاد تری آئی

بے تاب ہوا یہ دل، آنکھوں میں نمی آئی

انگشت بہ دنداں ہوں ، کیسی یہ گھڑی آئی

اب کے تو رویوں میں ، تلخی بھی بڑی آئی

پھر سال نیا آیا

اک کھیل کی صورت ہے، دنیا کا تماشا بھی

سمجھے نہ کوئی اب تو،اخلاص کی بھاشا بھی

دم توڑ گئی آخر، اک پیار کی آشا بھی

حالاتِ زمانہ پر، بے وجہ ہنسی آئی

پھر سال نیا آیا

دنیا میں نہیں کوئی، دکھ درد کے ماروں کا

قصہ نہ کوئی چھیڑے، بچھڑے ہوئے یاروں کا

ممکن ہی نہیں اب کے، جو ساتھ تھا پیاروں کا

اب اپنی حقیقت بھی ، خوابوں میں ڈھلی آئی

پھر سال نیا آیا

ہر لحظہ ستم دیکھے ، ہر لمحہ جفا دیکھی

ایسا ہی چلن دیکھا، ایسی ہی ہوا دیکھی

ہر چیز یہاں پائی ، لیکن نہ وفا دیکھی

سب لوگ ہوئے تنہا، کیسی یہ صدی آئی

پھر سال نیا آیا

کیا حال ہمارا ہے ؟ کیا تم کو بتائیں ہم

اب قصہ ء دردِ دل، کیا تم کو سنائیں ہم

سب بھولنے والوں کو، دیتے ہیں دعائیں ہم

پروان چڑھی نفرت ، الفت میں کمی آئی

پھر سال نیا آیا

Leave a Reply