ڈاکٹر شمشاد علی
صوبائی صدرراجستھان اردو لیکچررس ایسوسی ایشن
چوروراجستھان
ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی
راجستھان کی ادبی فضائوں میں گونجتی ایک صدائے باز گشت
راجستھان میں اردوزبان وادب کی شمع روشن کرنے میں ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی صاحب کانام سرِ فہرست ہے۔جس بے باکی اورجانفشانی سے انہوں نے اُردو کی ترقی اور ترویج کا بیڑا اُٹھایا، اس کے فروغ میں اپنا خونِ جگر صرف کیا وہ اپنے آپ میں ایک بے مثل نظیر ہے،جسے آنے والی صدیاں بھی فراموش نہیں کرپائیں گی،ان کی رگ رگ میں اُردو محبت کا خون رواں دواں تھا۔ذات اور مذہب کی فصیلوں سے بالا تر ہوکر انہوں نے زبان وادب کی خدمات انجام دیں،وہ ایک عظیم المرتبت ہستی کے مالک تھے اور زبان سے انہیں اتنی محبت تھی کہ ضعیفی اورناتوانی کے عالم میں بھی اپنے آپ کو زبان وادب کی آبیاری میں وقف کر رکھاتھا۔نہ کھانے کا وقت مقررہے اور نہ ہی گھروالوں کی فکر یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ دل سے نکلی ہوئی صدا ہے جو بے ساختہ لبوں پر آگئی ہے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پرنہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
مجھے اپنی زندگی میں ان سے فیض یاب ہونے کا بڑا موقع فراہم ہوااور یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے اور نظروں سے نہارا ہے ۔نگاہِ حق نے قریب سے مشاہدہ کیاہے اوراسی مشاہدے نے مجھے یہ سب کہنے کا حق دیاہے۔بہرحال عثمانی صاحب کا نام آسمانِ ادب میں ایک درخشندہ ستارے کی مانند اپنی ضیاء سے فضاکو پُرنورکر رہا ہے ۔وہ حوصلہ شکنی میں نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے۔ان کے درسے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں لوٹا،وہ زبان وادب کے ایک انمول خزانے کی مانند تھے،اگر راجستھان میں اُردو زبان و ادب کے حوالے سے میں یہ کہوں کہ وہ ایک چلتی پھرتی انسائکلوپیڈیا تھے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ راجستھان کی ادبی تاریخ پر انہیں اس قدر عبورحاصل تھا کہ دیگر زبانوں کے ریسرچ اسکولرس بھی ان سے مستفیض ہونے کے لئے ان کے دولت کدے پر آتے اور خلوصِ دل سے وہ ان کی رہنمائی کرتے حالیؔ،داغؔ اوربہزاد لکھنویؔ جیسے اہم شعراء بھی آپ کے اصلاف کے کاشانہ پر تشریف لا چکے ہیں۔ ان کی تحریرکردہ کتابوں کے مطالعہ کے بغیر تحقیق نامکمل مانی جاتی ہے ان کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس سے قبل کہ میں ان کاذکر کروں اس تاریخی پس منظر کی طرف آپ کو لے جانا چاہوں گا جس کے ذکر سے ان کی عظمت دوبالا ہوجائے گی عثمانی صاحب کے اسلاف تقریباً سات سو برسوں سے علم وادب کی آبیاری میں ایک ماہِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان کا خاندانی سلسلہ مولانا احترام الدین شاغلؔ،مولوی سلیم الدین تسلیمؔ،قاضی امین الدین اور شیخ دانیال سے ہوتاہوا خلیفہ ٔ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتاہے ۔یہ ذکر اس لئے نا گزیر ہے کہ تقسیمِ وطن اور تشکیلِ راجستھان کے بعد اُردو زبان وادب پر تاریکی کی فضا چھاگئی تھی،اردو زبان اپنے خاتمہ کی دہلیز پر تھی تو عثمانی صاحب ایسے نازک وقت پر زبان کے محافظ اور امین بن کر سامنے آئے۔ اوراس کے تحفظ کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی اور انہوں نے ڈگری کالج میں اپنا مضمون بھی تبدیل کرکے اردولے لیاتھا یہ ان کی اردوسے والہانہ محبت کی ایک بہترین نظیر ہے۔
آپ نے مسلسل محنت و ریاضت سے تاریخِ ادب اردو کی ان کڑیوں کو تلاش کیا ہے جو آج تک مؤرخینِ ادب کی نظروں سے گم گشتہ تھیں،ملک کی آزادی کے بعد اُبھرنے والے صفِ اول کے ادیبوں میں ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی کا شمار ہوتاہے۔1952 سے شروع ہوا ان کی تحریری کاوشوں کا سلسلہ بحیاتِ قید تک جاری و ساری رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے صوبہ راجستھان میں اردو زبان وادب کی فضا ہموار ہونے لگی اتناہی نہیں عثمانی صاحب وہ پہلے واحد شخص ہیں جنہوں نے راجستھان سے متعلق اپنا تحقیقی مقالہ ’’راجستھان میں اردو زبان وادب کے لئے غیر مسلم حضرات کی خدمات ‘‘مرتب کیا جو تحقیق کی عمارت میں میل کا پتھر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسا نایاب اور اہم موضوع تھاجو ہمیشہ زاویۂ خمول میں رہالیکن عثمانی صاحب کی وسیع القلبی اور وسیع النظری نے ان غیر مسلم حضرات کو منظرِ عام پر لانے کا فریضہ انجام دیا اورراجستھان میں سندی تحقیق کی ایک نئی سمت مقررکی، دوسری طرف ان کی تصنیف’’ ہندی ادب میں مسلمان ادیبوںکا حصہ‘‘تخلیق کی جو ایک مستند اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے عثمانی صاحب کو راجستھان میں تحقیق کا پیش رو کہنا برحق ہے۔
بابائے اُردوعثمانی صاحب کی تحقیقی کاوشیں لائق صد تحسین ہیں ۔اردو زبان و ادب آپ کی نگارشات سے لبریز ہے آپ کی متعدد تصانیف ریسرچ اسکالرس کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہیں۔’’راجستھان میں اُردو زبان و ادب 1857تک‘‘ مشرقی راجپوتانہ کے قدیم ادبی مراکز الور،بھرتپور،اور دھولپور،’’اُردو ناٹک اودھ سے راجپوتانہ تک‘‘ اوردیگر تصانیف کی تخلیق میں اپنی لیاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔صوبہ کے مختلف مقامات کی سیر اور تحقیق کران معلومات کو منظرِعام پرلانا جو گمنامی اور ظلمت کے ڈھیر میں دبی ہوئی تھی مثلاً راجستھان کا اولین صاحبِ دیوان شاعر ’’راجستھان کی اولین تنقیدی کتاب،راجستھان کا اولین ناٹک نگار اور راجستھان کی اولین نثری تصنیف وغیرہ کا منظرِعام پر آنا آپ ہی کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے۔ان تصانیف کی روشنی میں ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی کی ہمہ گیراور انتہائی باوقار شخصیت کو بہ آسانی دیکھاجاسکتاہے۔جنہوں نے خطۂ راجستھان میں اردوزبان وادب کی داغ بیل ڈال کر آنے والی نسلوں کے لئے راہ ہموار کی،ان کی دوررس نگاہوںمیں ادبی ماحول کا عکس صاف دکھائی دے رہاتھا۔ذاتی ایثار وقربانیوںاورنامساعد حالات میں اُردو ادب و تحقیق کا جو پودہ لگایاتھا آج وہ تناور درخت کی شکل میں سایہ ا فگن ہے۔علم و ادب کے ہزاروں قافلے اور راہِ ادب کے مسافر اس کے سایہ سے مستفیض ہوکر اپنی منزلوں کی طرف گامزن ہیں۔راجستھان میں تحقیق کا وہ کونسا گروہ ہے جو عثمانی صاحب کی دکھائی راہ پر اپنے قدموں کو نہیں بڑھارہاہے۔کون ہے جو ان کی ادبی کاوشات کا منکر ہوسکتاہے۔شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہرخطہ میں زبان و ادب کے ارتقاء میں آپ نے پوری توجہ ہی نہیں دی بلکہ عملی طور پر بڑی شدت سے کام بھی کیا،سیکر میں تو آپ نے اپنی ذاتی ترقی اورمفاد کو ترک کرکے اردو کے سچے خیرخواہ بنے تھے اور سُکھاڑیا یونیورسٹی اُدے پور میںاردو لکچررکے عہدے کو ٹھکرادیاتھا،اس لئے کہ سیکرمیں اردو کو زندہ رکھنا تھا، اوراسی وجہ سے آج وہاں کے کالج میں اردو زندہ و جاوید ہے۔ورنہ اُردواپنے زوال کے عنقریب تھی۔چوروکے گورمنٹ کالج میں بھی اُردو کھلوانے میں آپ کا گراں قدرکردار رہا۔ ایسے اردو کے شیدائی صدیوں میں جنم لیتے ہیں جو جانفشانی اور جنون کی حد تک زبان کی ترقی،ترویج اوراس کے فروغ میں اپنے آپ کو منہمک کرلیتے ہیں۔عمر کے آخری دور اور علالت کی حالت میں بھی زبان وادب کے لئے رہنمائی میں لگے رہے اور خصوصی طور سے راجستھان کے ریسرچ اسکالرس کیلئے مشعلِ راہ بن کر اپنے فریضہ کو بخوبی انجام دیتے رہے۔آپ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہی راجستھان یونیورسٹی جے پورنے آپ کو ریسرچ کے لئے بطور گائڈ مقرر کیاتھا۔آپ راجستھان اردو اکادمی کے سکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے ، اکیڈمی کے سابق چیئرمین انعام الحق نے بھی راجستھان کی ادبی تاریخ کو منظرِعام پرلانے والے مؤرخین و محققین میں ڈاکٹر عثمانی صاحب کا نام سرِفہرست بتاتے ہوئے لکھاہے کہ وہ یقینا اس سمت کے دشت پیما قافلے کے صفِ اول کے تیزگام مسافرہیں۔آپ تحقیقی مشاغل ،درس و تدریس اور تعلیمِ نسواں میں ہمیشہ ہمہ تن مصروف رہے
عثمانی صاحب ایک علمی و ادبی خانوادے کے جانشین تھے۔ ترقی پسندتحریک کے ابتداء کے دور میں ہی آپ برٹش بھارت کے صوبۂ راجستھا ن کے شہر جے پور میں پیداہوئے تھے۔آپ کو ذوقِ علم زبان و ادب قدرت سے ودیعت تھا۔ آپ نہ صرف ذہین و فطین تھے بلکہ ادب کے ہرگوشے میں اپنی ذہانت و فطانت کا لوہابھی منوایاہے صوبہ میں سمینار،مناظرے ،مشاعرے کے ذریعہ ایک ادبی ماحول بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں،تووہیں دوسری طرف تبصرے،تقریظیں،تلخیص اور تنقید سے ادب پارے کو نکھارنے کاکام بھی کیا،تحقیق کے لئے موادجو آج فراہم ہے وہ عثمانی صاحب کو میسر نہیں تھا انہیں راجستھان سے باہر کی خاک چھاننی پڑی تھی،نشیب و فراز کے دور سے گذرنا پڑاتھا۔محنت اور ریاضت سے وہ کارنامے انجام دیئے جو آج تحقیق کرنے والوں کے لئے مشعلِ راہ بن کر ان کی رہنمائی کر رہے ہیں اسی لئے ڈاکٹر عثمانی صاحب کو راجستھان میں تحقیق کا پیش رو کہنا حق بجانب ہے۔
راجستھان میں تحقیق کی ایک واحد کہنہ مشق شخصیت جنہیں آنے والی کئی صدیو ں تک فراموش نہیں کیا جا سکتاایسی نایاب اور نامور ہستی کے متلاشی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں کیونکہ جس تن دہی سے اُردوزبان وادب کی خدمات انجام دی تھیں وہ انہی کا کارہائے نمایاں ہے جس عرق ریزی سے راجستھان کے ادبی ماحول کو پرواز دیکر توانائی بخشی ، وہ انہی کا حق ہے۔اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ ان کی خوابگاہ درس گاہ میں تبدیل ہوگئی تھی،آپ راجستھان کے ایک مشہور و معروف محقق ،ناقد،مؤرخ ،ادیب،مصنف اور ان سب سے بڑھ کر ایک مخلص انسان جس نے بلا تفریق ذات ومذہب اپنے ادبی فریضے کو بخوبی انجام دے کر اس دارِ فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیااور باقی رہ گئی ان کی حسین یادیں ،مخلص مزاج،ان کا اندازِ گفتگواور ان کا وہ جذبۂ خدمتِ زبان وادب جو ہرکسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔اس لئے کہ ان کا مطالعہ وسیع تھاقوتِ حافظہ اور قوتِ گویائی سے اللہ نے انہیں خوب نوازا تھا۔
راجستھان میںRPSC کی جانب سے منعقد ہونے والے مقابلہ ذاتی امتحانات میں متواتر آپ کے خانوادے کی علمی و ادبی شخصیات سے متعلق سوالات پوچھے جاتے رہے ہیںجس کی تازہ مثال اکتوبر ۲۰۲۱ء میں اسسٹنٹ پروفیسر کے امتحان میں آپ کے والدِ مرحوم مولانا احترام الدین شاغل سے متعلق سوال آیا تھااور اس سے گذشتہ امتحان میں تذکرہ شعرائے جے پور سے متعلق سوال پوچھا گیاتھاجو آپ کے خانوادے کی علمی و تعلیمی اہمیت کو واضح کرتاہے۔
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ راجستھا ن میں اُردوزبان و ادب کی تحقیق کی جو شمع ڈاکٹر ابو الفیض عثمانی نے روشن کی تھی وہ متواتر جاری و ساری ہے اور اسی شمع کی روشنی میں اردو کے ہزاروں پروانے فیضیاب ہوکر صوبے کے مختلف خطوں میں تحقیق کی روشنی کو پھیلارہے۔
ہیں،ان سے مستفد ہورہے ہیں،ان کی ادبی کاوشیں ایک روشن مینار کی حیثیت سے تحقیق کرنے والوں کی رہنمائی کررہی ہے آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کے ادبی کارنامے ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گے اور ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ایسی عظیم المرتبت ہستی جس نے اپنے آپ کو اردو کے لئے وقف کردیا تھا،آج آسمانِ ادب پر کہکشاں کی مانند اپنی چمک دمک بکھیر رہ ہیں ۔صدیاںگذرجاتی ہیں تب کہیں ایسی شخصیت نمودار ہوتی ہے ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
***