You are currently viewing ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی

ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی

سید خادم رسول عینی

ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی ، منفرد لہجے کا شاعر

ڈاکٹر سید وحید کوثر دکن کے ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔آپ کا مجموعہء کلام عکس شفق نظر نواز ہوا۔
عکس شفق کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر اردو شاعری کی کئی اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔حمد، نعت، غزل، آزاد نظم ، معری’ نظم وغیرہ ۔
تبصرہ کی ابتدا حمد سے کرتے ہیں ۔آپ کے مجموعۂ کلام کے شروع میں دو حمد الہی ہیں ۔پہلی حمد میں ردیف ہے: تیرا اور قوافی ہیں : جلوہ ، قصیدہ دعوی’ وغیرہ ۔
یہ حمدیہ کلام دیکھ کے مجھے حسان الہند حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام یاد آگیا :
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
ڈاکٹر کوثر نے یہ حمدیہ کلام جس بحر میں کہا ہے اس بحر کا نام ہے:بحر کامل مثمن مزاحف مخبون محذوف اور اس کے افاعیل یوں ہیں : فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن۔
اس کلام میں ایک مصرع یوں ہے:
بخش دے اپنے کرم سے تو ہے رحمان و رحیم
اس کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلان
گویا شاعر محترم نے اس مصرع میں زحاف تسبیغ کا استعمال کیا ہے۔
مقطع کا ثانی یوں ہے:
ترا کوثر ہے فقط چاہنے والا تیرا
اس کے افاعیل ہیں ۔۔۔فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اس مصرع میں زحاف خبن کا استعمال ہوا ہے ۔
عکس شفق میں ایک اور حمدیہ کلام ہے جو بحر متقارب میں قلم بند کیا گیا ہے۔اس کلام میں کہیں زحاف قبض کا استعمال کیا گیا ہے تو کہیں زحاف حذف کا۔
مثلاً:
تجھی سے ہیں عالم میں سب رونقیں ۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعل۔۔۔۔بحر متقارب مث
من مزاحف محذوف
تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر
۔۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعول
بحر متقارب مثمن مزاحف مقبوض
ان‌ حمدیہ کلاموں میں مختلف زحافات کے استعمال سے آشکارا ہے کہ شاعر محترم کو علم عروض میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے،کیوں نہ ہو ؟ آپ ایک استاد شاعر ہیں ۔آپ نے شاعری کے سمندر میں نہ جانے کتنے گوہر آبدار بنائے ہیں ۔ان گوہر آبدار میں سے ایک عطا کوثر بھی ہیں جو آپ کے نامور شہزادے ہیں اور اپنے والد اور اپنے اسلاف کی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھانے کی سعیء کامل کر رہے ہیں ۔
خیر، اس حمدیہ کلام کا حاصل کلام شعر مجھے یہ لگا:
تجھ سے مانگیں ترے آگے ہی جھکائیں سر کو
اپنے بندوں سے ہے خاموش تقاضہ تیرا ۔
یہ شعر قرآن مجید کی آیت کا ترجمانی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قرآن میں ہے:
ایاک نعبد وایاک نستعین ۔
یعنی اے پرور دگار، ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد طلب کریں ۔
اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ۔کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک ‌مستحق عبادت نہیں ہوسکتا۔
اس شعر میں رد شرک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔
استعانت خواہ بالواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔حقیقی مستعان وہی ہے۔
بندہ کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کارکن دیکھے۔
کس قدر خوب صورتی سے ڈاکٹر کوثر نے قرآن کے ایک مضمون کو شعری سانچے میں ڈھالا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا کہ شاعر کا بہترین شعر وہ جو قرانی مفہوم پیش کرتا ہو۔ حالی کے قول کے مطابق بھی یہ شعر بہترین اشعار کے زمرے میں آتا ہے۔
عکس شفق میں تقریباً بیس نعتیہ کلام شامل ہیں ۔
ان کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس لطیف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
سے سرشار ہیں ۔بغیر عشق رسول کے نعت نگاری ممکن نہیں ۔عشق رسول پر مبنی ان کے چند اشعار
ملاحظہ فرمائیں:
جھاڑوں میں گزرگاہ سرکار یہ پلکوں سے
اشکوں سے قلم دھودوں ارمان نرالا ہے

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایئے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے

جذبہء عشق و محبت کو بڑھاکر دیکھیے
دل کے آءینے میں عکس رویے انور دیکھیے

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفیٰ کو نہ حاجت شفا کی ہے

جذبات مچل اٹھے جب ان کا نگر آیا
سجدے میں گریں نظریں محبوب کا در آیا

ہجر میں ان کے روتی ہیں آنکھیں مری
دل میں طوفاں نہاں ہے خدا کی قسم

عشق میں تپ کے ہوگیا کندن
دل کی بھٹی میں غم محمد کا

سمجھنا جس کا نہیں ہے مشکل کرامتوں کا میں جس کی قائل
جو تجھ کو کوثر ولی بنا دے
وہ جذب عشق رسول ہی ہے

جادہء عشق نبی میں دل مرا مہجور ہے
لمحہ لمحہ ان پہ مٹنا عشق کا دستور

عشق رسول سے لبریز یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس کا دل عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہے ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر عاشق رسول بھی ہیں اور آل رسول بھی ۔ایک آل رسول جب عشق رسول کے عنوانات کو شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس کو پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے
ڈاکٹر کوثر کے نعتیہ کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ ادراک ہوتا ہے کہ سیرت رسول پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔جابجا اشعار میں سیرت و کردار و عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر محترم کے علم و فضل کو داد و تحسین سے نوازیں
دے کے دشمن کو بھی دنیا میں دعائیں آقا
ہم کو انداز محبت کے سکھانے آئے
تا حشر جن کی مل نہ سکے گی مثال بھی
لاریب بے مثال ہیں اطوار مصطفیٰ
حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ہر سو تھی جہالت کی گھنگور گھٹا چھائی
خورشید عرب لےکر تنویر سحر آیا

استراحت کے لیے جز بوریا کچھ بھی نہیں
مالک کون و مکاں کا آپ بستر دیکہیے

آپ کے کردار اعلیٰ کی ضیا کے سامنے
کس قدر بے نور ہیں یہ ماہ و اختر دیکھیے

کفر غارت ہوگیا اور بجھ گئے آتش کدے
ہوگیا ہر ایک پر فضل خدا سرکار سے

یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جو مطالعہ میں وسعت رکھتا ہو ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر کے اشعار ان کی وسعت مطالعہ کے آءینہ دار ہیں
ڈاکٹر کوثر یقیناً ایک منفرد لہجے کے شاعر ہیں ۔آپ کا کلام میں لفظی خوبی بھی ہے اور معنوی حسن بھی، فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، لفظی صنعتوں کا جمال ہے اور معنوی صنعتوں کی رعنائی بھی۔
صنعتوں کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
صنعت تضاد:یہ وہ صنعت ہے جس کے ذریعہ شعر میں ایسے الفاظ لاءے جاءیں جن میں بہ اعتبار معنی ضد پاءی جاءے۔اس کو طباق بھی کہتے ہیں۔ایسی خوبی ڈاکٹر کوثر کے کلاموں کے کءی اشعار میں ملتی ہے۔
جیسے:
اس سے پڑھ کر نہیں پھر کوءی تعارف میرا
تو میرا مولیٰ و آقا میں ہوں بندہ تیرا
اس شعر میں میرا ، تیرا اور آقا، بندہ کے استعمال کی وجہ سے صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوگیا ہے ۔
تو حاکم ہے آقا ہے مخلوق کا
تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر
اس شعر میں اعلی’ ، ادنی’ اور ارفع ، صغیر حسن صنعت تضاد کے باعث ہیں ۔
کلمہء طیب کو بھی رتبہ ملا سرکار سے
ابتدا سرکار سے اور انتہا سرکار سے
اس شعر میں ابتدا اور انتہا دو متضاد الفاظ کے استعمال سے شعر کے حسن میں‌ اضافہ ہوگیا ہے۔
اک بار آکے خواب میں صورت دکھایءے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے۔
ایک مصرع میں صبح اور شام کا اجتماع شعر کی خوب صورتی کا باعث ہے۔
کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفی’ کو نہ حاجت شفا کی ہے
اس شعر میں بیمار اور شفا ایک دوسرے کی ضد ہیں

ساری مخلوق پر آپ کا ہے کرم
کیا فلک کیا زمیں سید المرسلیں
اس شعر میں زمین اور فلک کی اجتماعیت بہت لطف دے گئی۔
ان کے در سے فاصلوں کو قربتیں حاصل ہوئیں
پھر مدینہ سے بتاؤ عرش کتنا دور ہے
اس شعر میں فاصوں ، قربتیں کے سبب صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوا
صنعت تلمیح:
صنعت تلمیح اسے کہتے ہیں کہ مجموعہء الفاظ کے ذریعہ کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا جاءے۔صنعت تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے ۔اس صنعت کے ذریعہ کسی مکمل واقعہ کو ایک شعر کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔
جیسے:
آپ کا سایہ اور ثانی دونوں یہاں
ہم نے دیکھا نہیں سید المرسلیں

کل کائنات میں نہیں جس کی کوئی مثال
صناع دوجہاں کا وہ صناع ہیں حضور
تخلیق کائنات کا منشا حضور ہیں
عظمت عظیم تر مرے خیر الورا کی ہے
ہاں قربت نبی سے علی کیا سے کیا ہوا
یعنی ابو تراب سے شیر خدا ہوا
عکس شفق میں ڈاکٹر کوثر کا ایک نادر و نایاب کلام ، معنویت سے بھر پور، شعریت کے حسن سے مزین نظر سے گزرا۔
اس کلام کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :
حق بھی رطب اللساں ہے خدا کی قسم
تم سا کوئی کہاں ہے خدا کی قسم

حسن یوسف مقید فقط ذات تک
تم سے روشن جہاں ہے خدا کی قسم

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ان کے دامن کے سایے میں ڈھونڈو سدا
رحمت بیکراں ہے خدا کی قسم

کوثر بے نوا‌ ، فکر عقبی’ عبث
حامیء بےکساں ہے خدا کی قسم
پورا کلام مطلع سے مقطع تک صنعت تلمیح و صنعت اقتباس سے مزین ہے۔سیرت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے حوالے سے مختلف واقعات کو ایک ہی شعر کے اندر مکمل وضاحت کے ساتھ پیش
کردینا ڈاکٹر کوثر کی خصوصیت ہے ۔اس کلام میں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لاثانی ہونے کا ذکر ہے تو کسی شعر میں آپ کے سایہ نہ ہونے کا بیان ،کسی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہا گیا ہے تو کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے اوصاف سے متصف بتایا گیا ہے ۔کسی شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالمین کہا گیا ہے تو کہیں حامی ء بےکساں ۔
ڈاکٹر کوثر کا یہ کلام فصاحت و بلاغت کا گنجینہ ہے۔آپ کے اس کلام میں صنعتوں کے حسن و جمال کی فراوانی ہے ۔ صنعت اقتباس اور صنعت تلمیح کی جلوہ گری ہے۔
ڈاکٹر کوثر کے‌ اس کلام کا ہر مصرع / شعر جملہء خبریہ پر مبنی ہے ۔آپ نے ہر شعر میں خدا کی قسم کھائی ہے۔آخر خدا کی قسم کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آئیے اس موضوع پر کچھ بلاغتی گفتگو کرتے ہیں۔
فائدہ خبر کی تین صورتیں ہیں :
١.خبر ابتدائی
٢.خبر طلبی
٣.خبر انکاری
١.خبر ابتدائی وہ خبر ہے جس میں مضمون کسی بھی قسم کی تاکید کے بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں اگر تاکید کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ حشو ہوگا اور اہل تنقید کے نزدیک عیب کلام کا باعث ہوگا ۔جیسے : کل نفس ذاءقۃ الموت یعنی ہر متنفس کے لیے موت ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ۔اس لیے اس جملے کے ساتھ کلمہء تاکید لگانے کی ضرورت نہیں۔

٢.خبر طلبی وہ خبر ہے جس میں مضمون ایک متردد شخص کے سامنے تاکیدی کلمات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ اردو میں تاکیدی کلمات یہ ہیں: بیشک، ضرور،ہر گز, قسم‌،زنہار،
اصلا” ،بالیقیں وغیرہ
قرآن میں کئی مقامات پر رب کریم نے قسم یاد فرمائی ہے ، جیسے والضحی’ ، والیل اذا سجی’ وغیرہ۔جب ہم ان قسم والی آیتوں کی تفسیر پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن حالات میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں ، ان حالات کا تقاضہ تھا کہ کلمہء تاکید کا استعمال کیا جائے۔اس لیے قرآن نے کبھی سرکار کی رہگزر کی قسم کھائی تو کبھی چڑھتے دن کی اور کبھی رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔ مثال کے طور پر: سورہء والضحی’ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہیں آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے ۔اس کے جواب میں رب کی آیت نازل ہوئی کہ تمہارے رب نے نہ تمھیں چھوڑا نہ تمہیں ناپسند کیا ۔چونکہ کفار نے چیلنج کیا تھا اس لیے اس جملے سے پہلے کلمہء تاکید آیا؛
والضحی’ والیل اذا سجی’.

قرآن میں کلمہء تاکید کے استعمال کی چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
انا‌ انزلنہ فی لیلۃالقدر۔۔۔۔۔بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔۔۔۔بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا
ولسوف یعطیک ربک فترضی۔۔۔۔اور بے شک قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں اتنا ‌دےگا کہ تم راضی ہوجاوگے۔
ان سعیکم لشتی۔۔۔۔بیشک تمھاری کوشش مختلف ہے
قد افلح من ذکھا۔۔۔۔۔بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا
لقد خلقنا الانسان فی کبد۔۔۔۔۔بےشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا
ھل اتک حدیث الغاشیۃ۔۔۔۔۔بیشک تمھارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائےگی
انہ یعلم الجھر وما یخفی۔۔۔۔۔بیشک وہ جانتا ہے ہر کھلے اور چھپے کو
٣.خبر انکاری وہ خبر ہے جس میں مضمون منکر حکم کے سامنے ایک مؤکد وجوبی یا چند موکدات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا مشہور و معروف شعر ہے:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں تاکید کے لیے دو بار رب کی قسم کھائی گئی کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں حیات نبی کے منکرین پیدا ہوگئے تھے اور اعلیٰ حضرت نے ان منکرین کو جواب نثر میں بھی دیااور نظم میں بھی ۔اس قسم کے جوابوں کی ایک مثال یہ ہے:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
قرآن میں بلاغت کے اس قرینے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
والسماء والطارق۔۔۔۔آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی
والفجر ولیال عشر والشفع والوتر والیل اذا یسر۔۔۔۔۔اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب چل دے
لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذاالبلد ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو

والشمس وضحہا والقمر اذا تلہا والنھار اذا جلھا۔۔۔۔۔سورج اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے اور دن کی جب اسے چمکائے۔
والیل اذا یغشی والنھار اذا تجلی وما خلق الذکر والانثی۔۔۔۔۔اور رات کی قسم جب چھاءے اور دن کی جب چمکے اور اس کی جس نے نر و مادہ بنائے۔
والتین والزیتون وطور سینین وھذاالبلد الا مین۔۔۔۔۔انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی
والعصر ۔۔۔۔ اس زمانہ محبوب کی قسم
زیر تبصرہ کلام میں ڈاکٹر کوثر نے جو مضامین پیش کیے ہیں وہ سب اہل سنت کے عقائد پر مبنی ہیں ۔آج کے دور میں ان عقائد حقہ کے منکرین جابجا منڈلا رہے ہیں ۔اور کئی افراد ایسے ہیں جو ان معاملات میں تردد کے شکار ہیں ۔
کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی کا انکار کرتا ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالمیں ہونے پر اعتراض ہے۔کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر تردد ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل ہونے پر شک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان مخالفین کو معقول جواب دینے کی غرض سے ڈاکٹر کوثر نے اپنے اشعار میں اہل سنت کے عقاید کلمہء تاکید ،خدا کی قسم کے ساتھ پیش کیے تاکہ متردد کے تردد کا خاتمہ ہو اور منکر کو کرارا جواب ملے۔جب شاعر خدا کی قسم کھا کر کوئی جملہ باندھتا ہے تو وہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور اس میں مزید مضبوطی اور مقناطیسیت ہوتی ہے اور شاعر کے پاس اشعار میں پیش کیے دعووں کے دلائل بھی موجود رہتے ہیں ۔تبھی تو رب کی قسم کھائی جارہی ہے:
رب کی قسم کہ آپ سا کوءی نہیں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ سے روشن جہاں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ نور ہیں ۔رب کی قسم کہ آپ کا سایہ نہیں تھا۔رب کی قسم آپ حق کے اوصاف سے متصف ہیں ۔رب کی قسم آپ رحمت عالمیں ہیں ۔رب کی قسم آپ شافع محشر ہیں ۔
عکس شفق کے ایک نعتیہ کلام میں ڈاکٹر کوثر کا ایک شعر یوں ہے:
نہ رضا ہیں نہ تو حسان ہیں حضرت کوثر
پھر بھی دربار میں اشعار سنانے آئے
اس شعر سے یہ آشکارا ہوا کہ
نعت نگاری میں ڈاکٹر کوثر اعلی’ حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے متاثر ہیں ۔
علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے دیوان حدائق بخشش میں ایک کلام ایسا بھی ہے جس کی ردیف ہے : کی قسم ۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
ان اشعار میں اعلیٰ حضرت نے جن مضامین کو پیش کیا ہے انہیں ثابت کرنے کے لیے آپ نے قلمی جہاد کیا تھا ۔کچھ افراد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہا اور آپ کی بے مثلیت پر تردد کا اظہار کیا ۔اس لیے ان افراد کے باطل عقائد کی تردید کرتے ہوئی کلمہء تاکید کے ساتھ اعلی’ حضرت نے کہا:
ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات روز روشن کی طرح‌ عیاں ہوگئی کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں فصاحت بھی ہے بلاغت بھی ، صنعت طباق بھی ہے اور صنعت ترصیع بھی ، صنعت تلمیح بھی ہے اور صنعت اقتباس بھی ، ندرت خیالی بھی ہے اور الفاظ کے تراکیب کی عمدگی بھی ، علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی پیروی بھی ہے اور سنت الٰہیہ کا اظہاریہ بھی۔
ڈاکٹر کوثر کی غزلوں کا مطالعہ کیا۔ اشعار سے بہت متاثر ہوا۔آپ کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدت انگیزی بھی۔غم ذات کا بیان بھی ہے اور غم کائنات کا بھی۔رنگ تغزل بھی ہے اور نعت رنگ بھی۔رومانیت بھی ہے اور رنگ تصوف بھی ۔ رجاءیت کی تلقین بھی ہے اور یاس و امید بھی ۔تشبیہات و استعارات بھی ہیں اور علامات بھی ۔حسن معنویت بھی ہے اور تراکیب الفاظ کی عمدگی بھی ۔
رومانیت پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
غرور حسن کو دینے کیا شکست مگر
ادا پہ ان کی اک اک دل کو ہار آیا ہے
ملا ہے پھر سے دوانے کو عشق کا ساماں
کلی کلی پہ چمن کا نکھار آیا ہے
جو نہ ان سے بتا سکا کوثر
اب بھی دل کی وہ بات باقی ہے
کیا حسیں ہے ان کی یادوں کا سلسلہ بھی
لگتا ہے مجھ کو ایسا دل سے برات نکلی
اس کا خیال دل سے مرے ہے لگا ہوا
کوثر نصیب مجھ کو یہ گلزار ہے تو بس
لیکے دل پھر گئے ہیں وہ ہم سے
سلسلہ آج بھی یہ جاری ہے
اک حسن پسندیدہ کو محبوب کہا ہے
ہر برگ گل تازہ کو مکتوب کہا ہے
رخسار شفق زار کو معتوب کہا ہے
لالے کو ترے حسن کا مغلوب کہا ہے
تمھیں خود پتہ چلے گا کہ تمھارا حسن کیا ہے
ذرا آکے آءینے کے کبھی روبرو تو دیکھو
آپ نے اپنے کلاموں میں اصلاحی مضامین خوب قلم بند کیے ہیں ۔کہیں ذکر ہے عزم و استقلال کا تو کہیں تدابیر کا۔
نمونہ کے طور پر شعر/ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کبھی منزل نہیں مل پائیگی آسانی سے
عزم کی راہ میں جب ایک بھی پتھر ہوگا
وہ منزل کا پہلے تعین تو کرلیں
سفر یوں خلاؤں کا اچھا نہیں ہے
بدل سکا نہیں کوئی جہاں میں ان کو آج تک
اصول جن کا ٹھوس ہے ارادہ استوار ہے۔
ملک میں پیار کے اخوت کے
آج قحط الرجال آیا ہے
محبت مروت اخوت صداقت
بہت خوشنما ہیں یہ کہنے پرانے
آپ نے اشعار کے ذریعہ غم کائنات کا بھی بیان کیا ہے اور اپنے دل کی بات دل کے باہر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نمونہ کے طور پر شعر / چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دھوپ میں نفرتوں کی اے کوثر
پاس کس کے وفا شعاری ہے
رجاءیت اور امید پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

پھر بھی ٹوٹی نہ تری آس ترے در سے حبیب
لاکھ امید کے جھانسوں کو ہے باطل باندھا

خوابوں کو اندھیروں کے سمندر میں نہ پھینکو
سورج نیا پھوٹےگا تمناءے سحر سے

ایک تم سا رقیب کیا چھوٹا
میرے کتنے رقیب جاگے ہیں
ڈاکٹر کوثر کے مجموعہء کلام کو پڑھنے سے اس کا ادراک ہوتا ہے کہ آپ غزل کے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرکے جدت کی راہ پر گامزن ہیں ۔اس انداز کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جوہر فکر دھنک بن کے نکھر آئیگا
تم روایات غزل گوئی سے ہٹ کر دیکھو

جیسے ہی نشہ اترا شراب کہن کا آج
میں نے نئے نظام کا ساغر اٹھا لیا

ہر نئی بات زمانے کے قلم سے نکلی
تو کہ فرسودہ روایات کی تحریر نہ دیکھ

ڈاکٹر کوثر ایک عاشق رسول ہیں ۔آپ نعت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دریا میں ڈوب کر نعتیں کہتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ جب آپ غزل کہتے ہیں غزل کے اشعار میں بھی نعت کا رنگ آجاتا ہے۔
نعت رنگ سے مزین غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نظر ادھر بھی کیجیے حضور پیار سے کبھی
تمھارا کوثر حقیر کب سے اشک بار ہے

مشتاق دید کے لیے لازم ہے تاب دید
بے وجہ کیوں کرے کوئی ہنگامہ طور کا

جب سے ان کی متاع محبت ملی
یوں سمجھنے لگا ہوں حکومت ملی

اس کو کیا ہو ضرورت کسی چیز کی
جس کو دنیا میں اک تیری الفت ملی

جب تصور میں در یار نظر آتا ہے
ہم وہیں اپنا سر عجز جھکا لیتے ہیں

ہے میر کارواں سے وابستگی ضروری
راہوں میں لٹ گئے وہ بچھڑے جو کارواں سے

جب بھی محفل میں ترا نام لیا جاتا ہے
دل مرا اور بھی بے تاب ہوا جاتا ہے
کوثر نہ چھوڑ ان کی محبتوں کا راستہ
آنکھیں اگر چہ تجھ کو دکھلا رہی ہیں دھوپ
یہ ایک علامتی شعر ہے۔ دھوپ سے مراد ہے گمراہی، رکاوٹ، کفر، بد عقیدگی، بد نیتی، بری صحبت وغیرہ۔
غرض یہ کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں خوبیء علامات بھی ہے اور تشبیہات و استعارات کا حسن و جمال بھی۔
روایت کی رعنائی بھی اور جدت کا اجالا بھی ۔
***

Leave a Reply