ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردوشیواجی کالج اعظم کالونی ہنگولی، مہاراشٹر
ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی کی غزل گوئی
اکیسویں صدی اردو ادب کے لئے خسارے کی صدی ثابت ہوئیں ہیں کیونکہ اس صدی کے ربع اول میں اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ناجانے کتنے ہی عظیم ہستیاں اپنے خالق حقیقی سے جاملی ان میں سے ایک عظیم ہستی کا نام ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی ہے۔ فہیم احمد صدیقی صاحب ۲۱/اپریل ۲۰۲۱ءکواس دنیاسے رخصت ہوگئے اور اپنے پیچھے چھوڑگئے ایک عظیم سرمایہ ۔سرمایہ غزل۔آپ کا تعلق مراٹھواڑہ کے عظیم شہر ناندیڑسے تھا،آپ علاقے مہاراشٹرکے درخشاں ستارہ تھے۔موصوف نے اردو زبان وادب کو جو سرمائے سخن دیا ہے وہ لعل و گوہرسے کسی طرح سے بھی کم نہیں ہیں۔آپ بنیادی طور پراردو غزل کے ممتاز شاعر تھے آپ نے اردو اد ب میں خصوصاََجو شعری تعاون دیا ہے وہ بے حد قابل تعریف ہے۔ان کے غزلوں کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بلاکی روانی و سادگی ملتی ہے وہ کہتے ہیں:
عزیزوں مجھ سے میرا حال پوچھتے کیا ہو
میں اپنے آپ سے عرصہ ہوا ملا ہی نہیں
پھر کڑی دھوپ درختوں کے گھنے سائے ہیں
آپ کی یاد کے اسباب نکل آئے ہیں
تمام اپنا اثاثہ لٹا دیا ہم نے
تمہارے درد کی دولت مگر بچالی ہے
فہیم احمد صدیقی کی شاعری اردو ادب کامیاب شاعری کہلانے کے لائق ہے ان کی غزلیں پڑھنے سے ہمارے قارئین مانوس شعری فضاء سے ہی واقف نہیں ہوتے بلکہ ان کی شعری فضاء سے گزر کرتجربے کی نئی دنیاسے آشنا بھی ہوتے ہیں ۔ آپ کی شاعری دل کی دنیا کی شاعری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسانی زندگی تجربہ اور حقیقی دنیا دونوں روشن ہے ۔وہ پتھر دل کو موم بنانے کی قوت رکھتی ہے ،اور سنگ تراش آذر کا جذبہ بھی ۔ اسی کے ساتھ موصوف کی غزلوں میں جذبہ اور شوخی کاحسین امتزاج بھی ہے اور قید حیات کی سختیاں بھی۔جس کے مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ شاعر اپنے تجربے کوہی نہیں بلکہ ہر عام و خاص کے احساسات وجذبات کوعیاں کررہا ہیں۔جو بیک وقت اپنا گہرا اثر ہر قاری کے ذہن و دل پر مرتب کرتی ہے اس کی ایک وجہ ان کی غزلوں میں پائی جانے والی غنائیت اورموسیقیت ہے۔یہ غنائیت اور موسیقیت سے بھری غزلوں کے چند اشعاردیکھئے کتنے نمایاں نظرآتے ہیں۔
جلوہ گری کو مجھ میں تڑپتی رہی حیات
وہ سنگ ہوں جسے کوئی آذر نہیں ملا
رستوں کی نیند اُڑ گئی قدموں کی چاپ سے
مجھ کو تمام رات مرا گھر نہیں ملا
مہک بدن میں ہے چہرے پہ ان کے لالی ہے
گلوں نے آپ سے جینے کی یہ ادا لی ہے
فہیم احمد صدیقی کے غزلوں میں کہیں تغزل نظر آتا ہے تو کہیں شوخی و رنگینی ۔ لہٰذاکہیں پر ان کی غزلوں میں غم انگیز فضاء نظرآتی ہے تو کہیں پر غم زندگی کا تصورنمایاں نظر آتا ہے۔آپ نے زندگی کے گہرے تجربے و مشاہدے سے جو کچھ محسوس کیا اسے رقم کرتے چلے گئے۔ موصوف دلفریب ماحول کو بڑی آسانی سے لفظیات کے ڈھانچے میں پرودینے کا ہنر رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے پروفیسرعبدالعزیز صاحب نے کہا تھا کہ ‘‘فہیم کی غزل کو موجودہ عہد کے کسی بھی معتبر شاعر کی غزل کے مقابل رکھا جاسکتا ہے۔’’ تاہم جب ہم ان کی غزلوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں شائستگی ، لطافت ،حسن و جمال ، گہرائی وغنائیت واضح نظر آتی ہے ۔فہیم احمد صدیقی نے اپنے غزلوں میں بعض مقامات پرمیرؔ کی طرح سوز وگداز، دردو کرب اورزندگی کی محرومی کے متعددمثالیں پیش کردی ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی ملاحظہ ہو۔
ہمارا دل ہے یہ دہلی سے مختلف ہے بہت
یہ ایک بار جو اجڑا تو پھر بسا ہی نہیں
ہمارا حال ہم ہی جانتے ہیں
کوئی اس حال میں جی کر دکھائے
اب وہ آشفتہ سری ہے نہ وہ بیگانہ روی
ایسے جینے سے تو بہتر مرا مرجانا تھا
بہرکیف فہیم احمد صدیقی عہدجدید کے نمایاں شاعر ہے۔آپ کی غزلوں میں ترنم ، سلاست،روانی ، غنائیت ، شائستگی ، شگوفتگی، حسن و جمال اور غم زندگی کے نشیب و فرازگویا سبھی کچھ اس میں موجود ہے جو ان کی اپنی انفرادیت کا غمازی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی غزلوں کی خصوصیات بھی عیاں کرتے ہیں۔بالیقین ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فہیم احمد صدیقی پورے اردو دنیاکے نمایاں غزل گو شاعرہے جنھوں نے اپنی غزلوں کے ذریعہ جدید دور کو نئی ہم آہنگی ہی عطا نہیں کی بلکہ اردو کی آبرویعنی غزل جیسی نازک صنف سخن کو نئی جلا بخشی ہے ۔ لہٰذاان کی غزلیں محض اردو شاعری کی ہی نہیں بلکہ اردو ادب کی بھی زینت ہیں۔
***
بہت اچھا تحقیقی مجلہ ہے ابھی مکمل تو نہیں پڑھا مگر چند ادبی شذرے پڑھے جو بےمثال تھے، کیا اس کی طرف کوٸی مضمون چھپنے کے لیے بھیجا جا سکتا ہے