مظہر حسنین
ڈیجیٹل میڈیا اورمعاشرہ
دریافتوںکی د نیا میں انٹر نیٹ کی داستان منفرد ،حیرت انگیزاور دلچسپ ہے ۔یہ ورچوئل دنیا کی تخلیق کاایک بڑا انسانی کارنامہ ہے۔ اس دور میں مختلف آلات کے استعمال میں انٹر نیٹ لازمی شرط ہے ،اپنے ابتدائی عہد کے مقابلے اب یہ ہر کسی کی دسترس میں ہے۔ سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کمپیوٹر کے دونوں شعبے نت نئی نئی ترقی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔اس حقیقت سے بھی انکارناممکن ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات ہمارے معاشرے پر بہت گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ ماہرین تکنیک نے ان کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ ہماری روزمرہ کی سرگرمیاں تفریح طبع کے لئے ہوں یا تعلیم و تعلم کے لئے انہیں تکنیکی وسائل پر منحصر ہیں ۔ اس وقت دنیا کی مؤثر سمت شناسی ہماری سب سے اہم ضرورت بن گئی ہے ۔
ڈیجیٹل میڈیا، ڈیجیٹل آلات کے ذریعے ڈیجیٹل شکل میں رائے یا خیالات کے اظہارکا ایک طریقہ ہے۔ یہ مواد کی ترسیل اور تقسیم کا ایک تیز، آسان اور زیادہ پر اثر طریقہ ہے۔اس میںمتن، آڈیو، ویڈیو، اور گرافکس شامل ہیں، جو انٹرنیٹ یا دیگر ڈیجیٹل ذرائع جیسے ٹیلی ویژن یا ریڈیو کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ڈیجیٹل میڈیا مواد کو ڈیجیٹل آلات کے ذریعے تخلیق، تقسیم، اور تبدیل کیا جا سکتا ہے،یہ عمل اس کو روایتی میڈیا سے مختلف بناتا ہے۔
آج برق رفتاردنیا میں ہر کوئی بہت مصروف ہےاور وقت کی تنگی کا شکوہ اس کی زبان پر ہر وقت رہتا ہے ۔آج معلومات کی نہ صرف گنگا بہہ رہی ہے بلکہ وقت کے ساتھ اطلاعات کی یہ گنگا میلی بھی ہوتی جا رہی ہے ۔بہت سے افراد انٹر نیٹ پر بے شمار فرضی ، غلط اور جھوٹ پر مبنی باتیں ڈال رہے ہیں ۔ خودکو اپ ڈیٹ رکھنے ، تازہ خبروں سے باخبری یا تفریح کے ذریعہ سکون طلبی یہ وہ سارے عوامل ہیں جو آپ کےننھے اسمارٹ فون میں فراہم ہیں ۔ یہ حقیقت بھی روشن ہے کہ یہ دنیا ہر روز سو رنگ بدل رہی ہے ۔ہر روز نیا کچھ کرنے کے لئے سخت مقابلہ و محاذ آرائی ہے ۔انٹر نیٹ سے منسلک الیکٹرانک آلات مسلسل ہماری ضرورت کی معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ یہ صرف انٹرنیٹ تک ہی محدود نہیں ہیں ۔ بلکہ ڈیوائس کےا سٹوریج اور ڈرائیوز میں محفوظ تمام ایپلی کیشنز اور ملٹی میڈیا ہمیں ہر وقت مصروف رکھتے ہیں۔ ان آلات و تکنیک کا بے روک ٹوک استعمال معاشرے پر منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب کرتا ہے ۔ حصول علم کے لیے آغاز سے انٹرنیٹ ایک نعمت رہا ہے۔ڈیجیٹل میڈیا بچے کے سیکھنے کے عمل کو بڑھاتا ہے۔ یہ کئی معاملوں میں بچوں کے سیکھنے کے عمل میں زیادہ کار آمد ہے ۔ کورونا کے اس نازک وقت میں جب اسکول، کالج اور دفاتر بند ہوگئے ،ایسے میں تعلیمی سرگرمیوں، پیاروں کی خبر گیری اور بات چیت میں ڈیجیٹل ذرائع سے کس قدر مدد ملی۔اس دوران بلاگروں اور ولاگروں نے قارئین اور ناظرین پر اپنے اعتماد کو مضبوط کیا ۔سوشل میڈیا جیسے دیگر پلیٹ فارموں نے لوگوں کو عالمی سطح پر بات چیت کے قابل بنایا۔اس نے لوگوں کو سماجی مسائل کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی ترغیب دی، وہ بڑی تنظیموں اور شخصیات سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں جو لوگوں کی زندگی کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کورونا کے دنوں میں آن لائن خریداری نے بھی زور پکڑا ۔عملی سر گرمیوں کے محدود ہونے کے بعد آن لائن سرگرمیاں قبول کی گئیں ۔
آن لائن پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کی بات آتی ہے، تو یہ بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں جیسے سرچ انجن آپٹمائزیشن، سوشل میڈیا مارکیٹنگ، اور ای میل مارکیٹنگ کا فائدہ اٹھا کر ڈیجیٹل طور پر کیا جا سکتا ہے۔انٹرنیٹ بامعاوضہ اشتہارات کے ذریعے آپ کے کاروبار کو آن لائن فروغ دینے کا فائدہ فراہم کرتا ہے۔اس کی بڑی مثالیں گوگل ایڈسنس ، یوٹیوب ، انسٹاگرام اور فیس بک صفحات پر اشتہارات کے ذریعہ پروڈکٹ کی مارکیٹنگ وغیرہ ہیں ۔انفارمیشن ٹکنالوجی کی تکنیک نے یوں تو زندگی کے ہر شعبے پر اپنے اثرات چھوڑے اور اپنی اہمیت کو واضح کیا ،لیکن ذرائع ابلاغ کی رُو سےیہ معلومات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔اس لئے صحافت اور ابلاغ عامہ کے شعبے میں ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسابقتی اور تیز رفتار دنیا میں، نیوز ایجنسیوں اور نشریاتی اداروں ، نیوز چینلوں، آن لائن ریڈیو خدمات،یا پھر یوٹیوب چینلوںکوزیادہ کوریج حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔اخبارات کو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ ‘اپنے طریقے میں نہایت احمقانہ عمل ہے۔کیونکہ اخبارات کی چھپائی کے لئے بہت ساری پیپر شیٹ یا رول کی ضرورت ہو تی ہے جو درختوں سےبنائے جاتے ہیں اور پرنٹنگ کے عمل میں سیاہی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، یہ سب صرف پچھلے دن کی خبریں فراہم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔تاہم ڈیجیٹل میڈیا کی پیشرفت سے اس کے کام کرنے پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ کیوںاب بھی ہم کل کی خبریں اخبار میںپڑ ھیں ؟جب ہر لمحہ تازی اور اپ ڈیٹڈ خبریں دیکھ سکتے ہیں یا اپنے اسمارٹ فون پر حاصل کر سکتے ہیں؟ایسا سوچنے والوں کا یہ ذاتی خیال ہو سکتا ہے ،کیونکہ اخبارات کی اہمیت آج بھی برقرار ہے ۔
ڈیجیٹل میڈیا، تکنیکی ترقی اور انسانی ترقی میں ایک ناگزیر متحرک کرنے والی شئے کے کردار میں رہا ہے۔ کیونکہ یہ ہماری دلچسپی کے مطابق ہمارا انتخاب ہے۔معاشرے پر ڈیجیٹل میڈیا کے کئی منفی پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔یہاں تک کہ ماہر ین نے اس کو لت تسلیم کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں موبائل آلات کی لت، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، جیسے فیس بک، انسٹاگرام کی لت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ان کا زیادہ استعمال خالی پن کی علامات کا باعث بنتا ہے جیسے کہ انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے پر غصہ، تناؤ اور افسردگی کا احساس۔ یعنی اس کی لت والے افراد انٹرنیٹ سے دوری کے نتیجے میں شدیدتناؤ میں مبتلا ہو تے ہیں ۔ہم سب نے سنا ہے کہ کس طرح کمپیوٹر یا گیمنگ کنسول پر گیمز کھیلنے سے ہماری بینائی کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہم کس طرح ویب سائٹس پر پیغامات چیک کرنے اور سوشل فیڈ کے عادی بن چکے ہیں۔نئی نسل کے بچے اپنی نشوونما کے آغاز میں ہی انٹرنیٹ سے جڑے آلات سے رابطے میں رہتے ہیں اور ٹیکنالوجیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، اس سے یقینی طور پر ان کی علمی نشوونما پر نمایاں منفی اثر ات پڑتے ہیں۔ ایسے میں بچوں میں پڑھنے کی صلاحیت میں کمی، تجزیاتی سوچ میں کمی،اور چیزوں کو یاد رکھنے میں ناکامی، توجہ کے دورانیے میں کمی اور کچھ نیا سیکھنے میں سستی کی شکایات دیکھنے میں آئی ہیں ۔ جس کے لئے ہمیں آگاہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ کورونا کے دوران بچوں کو تعلیم یا کلاس کے بہانے موبائل سے چپکنے کا زیادہ موقع ملا، جس کی وجہ سے اب بہت سے افراد کی شکایات یہ ہیں کہ ان کا بچہ موبائل سے الگ ہونا ہی نہیں چاہتا۔
موبائل کے سبب بچے پڑھائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہےہیں ، ان میں چڑ چڑا پن، غصہ تو پیدا ہی ہورہا لیکن اس سے زیادہ خطر ہ ان کی بینائی کو ہے ۔انٹرنیٹ پر تقریباً لامحدود معلومات دستیاب ہیں۔ تخمینہ یہ ہے کہ چار بڑی کمپنیاں (گوگل، ایمیزون، مائیکروسافٹ، اور فیس بک) روزانہ ہزاروں جی بی ڈیٹا ٹرانسفر کرتے ہیں ۔اس لئے انٹر نیٹ پر معلومات کے متلاشی شخص کو جب ایک ہی موضوع پر مختلف قسم کی معلومات کا سامنا کرنا پڑتا تووہ الجھن کاشکار ہو جاتا ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا نے تفریح کے ہزارطریقے فراہم کیے ہیں۔لہٰذا زندگی کا اچھا اصول حقیقی اور مجازی زندگی کے درمیان صحت مند توازن برقرار رکھنا ہے، ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہاسے مؤثر طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔
ڈیجیٹل یا جدید میڈیاہر روز نئی روشنی اور نئی منزل کی مانند میڈیا بھی نئی کروٹیں لے رہا ہے ۔بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ میڈیا کی نئی ٹکنالوجیزکے انقلاب کو نیوفلیکس نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ جبکہ اس کے کئی منفی پہلو ہیں ،مثلا ً ثقافتی مایوسی وغیرہ ۔
سماجیات کی رُو سے میڈیا کے چار اہم پہلو جدیدمیڈیا کی آمد، میڈیا کی ملکیت اور کنٹرول کے مسائل، میڈیا کی عالمگیریت اور میڈیا میں خبروں کے انتخاب اور پیش کش ہیں ۔جدیدمیڈیا ایک اصطلاح ہے جس میں موجودہ میڈیا کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ نئی ڈیجیٹل کمیونی کیشن ٹکنالوجیز کی ترقی شامل ہے۔جیسے پرسنل کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ ۔لوگ جدید میڈیا کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اس میں نسلی، طبقاتی اور صنفی تقسیم پائی جاتی ہے۔
جیمس کارنفورڈ اور کیون رابنس (۱۹۹۹) کا کہنا ہے کہ جدید میڈیا دراصل اتنا نیا نہیں ہےبلکہ اس میں قدیم و جدید کے عناصر کا خوبصورت امتز اج موجود ہے ۔کارنفورڈاور رابنس نے اسے مزید واضح کیا ہے، ڈیجیٹل میڈیا کا انٹرایکٹو پہلو خاص طور پر نیا نہیں ہے، کیونکہ لوگ کئی سالوں سے اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اس تعلق سے باتیں کرتے آئے ہیں۔اس جدید میڈیا میں سب سے اہم خبروں کی برق رفتار ترسیل ہے،جس سے – معلومات اورخبروں تک حقیقی وقت میں رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
جدید میڈیا جمہوریت اور ثقافتی زندگی میں خاص طور پر عام شرکا ء کا دائرہ وسیع کرتا ہے۔ ان کاخیال ہے کہ در اصل انٹرنیٹ پر طاقتور میڈیا کمپنیوں کی ایک چھوٹی تعداد کا غلبہ ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ اس پرسماج کے اشرافیہ اور طاقتور افراد کا کنٹرول ہے۔کران کے مطابق۳۱؍مقبول ترین خبروں اور تفریحی ویب سائٹوں کا تعلق بڑے میڈیا کارپوریٹ گھرانوں سے ہے۔
انٹرنیٹ کمرشلائزیشن نے پرائیویسی کے خطرات و خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے والی بہت سی کمپنیاں اب صارفین کی نگرانی میں مشغول ہو کران کا ڈیٹا بھی فروخت کرنے لگی ہیں۔
نئی ڈیجیٹل ٹکنالوجیز، جیسے کوکیز ، ممکنہ سامعین کو مزید ہدف بنانے کے لیے صارفین کے ذریعے تیار کردہ ڈیٹا کو ٹریک اور مانیٹر کر سکتی ہیں، اس طرح کمپنی کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ ثقافتی مایوسی کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ میڈیا وسائل کی بڑھتی ہوئی اقسام ، خاص طور پر ڈیجیٹل ٹیلی ویژن کی وجہ سے میڈیا کے معیارات میں گراوٹ آئی ہے۔ڈیوڈ ہاروے نے مشورہ دیا کہ جہاں ڈیجیٹل ٹی وی نے چینلوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کیا ہے، وہیں اس نے مقبول اور روایتی ثقافت کو بھی ختم کر دیا ہے۔بیشتر چینل غیر معیاری ،عام اورسستے طریقے سے تیار کردہ مواد سے بھرے ہوئے ہیں، جو تخلیقی صلاحیتوں یا انفرادیت سے خالی کلچر تشکیل دے رہےہیں۔
سماجیات میں میڈیا کے چار اہم پہلو جدیدمیڈیا کی آمد، میڈیا کی ملکیت اور کنٹرول کے مسائل، میڈیا کی عالمگیریت اور میڈیا میں خبروں کے انتخاب اور پیش کش ہیں ۔جدید میڈیا کے سماجیاتی مطالعے میں ہم اس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر جدید میڈیا کیا ہے ؟
میڈیا کے ترسیلی نظام میں گزشتہ ۳۰برسوں میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے اوربڑی بڑی تبدیلیا ں آئیں۔ یہ سینکڑوں چینلوں پر مبنی ہائی ڈیفینیشن ڈیجیٹل ٹی وی کے روپ میں ہمارے پاس موجود ہے۔
نیا میڈیا ڈیجیٹل کمیونی کیشن ٹکنالوجیز کی نئی شکلوں کی تخلیق کی نشاندہی کرتا ہے۔ جیسے پرسنل کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ۔ اس نے مواصلات کو نئے روپ ورنگ سے آہنگ اور متحرک کیا ہے۔ جیسے متن کی شکل میں پیغام رسانی، تصویر وں کی ترسیل اور ویڈیو تشہیر وغیرہ ، موجود عہد میں جدید میڈیا نے تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کو ایک بالکل منفر د و مختلف ماحول عطا کیا ہے ۔جسے دنیا بھر میں گلوبل تکنیکی ترقی کے طور پر قبول کیا گیا ہے ۔ اس کی حیرت انگیزیاں اور دلفریبیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں ۔ لہٰذا اس کی رسائی کی ساتھ اس کے عام ہونے میں وقت نہیں لگا۔ اس نے تین دہائیوں کی قلیل مدت میں ترقی کے ایسے جادو ئی جوہر دکھائےجو ناقابل یقین اور حیرت زدہ کرنے والے ہیں ۔نئے میڈیا کی چھ بڑی خصوصیات ڈیجیٹل،انٹرایکٹو،ہائپر ٹیکسچوئل،عالمی سطح پر نیٹ ورک،مجازی اورنقلی ہیں ۔
نیوفلیکس کا خیال ہے کہ جدید میڈیا عام طور پرسماج کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معلومات تک آسان اور وسیع پیمانے پر رسائی فراہم کرتا ہے، نئے سوشل نیٹ ورکس کی تخلیق کی اجازت دیتا ہے، صارفین کی پسند میں اضافہ کرتا ہے، جمہوریت کی بقا میں معاون ہے، اور ای کامرس انقلاب کا آغاز کرتا ہے۔دوسری طرف ثقافتی مایوسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے میڈیا کے مثبت اثرات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور اس کی خرابیاں اور خامیاں بھی بہت واضح ہیں۔ ان میںانٹرنیٹ پر کارپوریٹ کنٹرول، صارفین کی نگرانی، میڈیا کا گرتا ہوا معیار اور ضابطے کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔حالیہ دہائیوں میں دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کی ملکیت اور کنٹرول کرنے والی کمپنیوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔۱۹۸۰ء کی دہائی میںامریکہ کی ۵۰ ؍کارپوریشن نیوز میڈیا کو کنٹرول کرتی تھیں،لیکن رفتہ رفتہ اس میں کمی آتی گئی ۔چند ایک کے پاس تاریخی طور پر برطانوی اخبارات کی ملکیت ہے۔ مثال کے طور پر۱۹۳۰ء کی دہائی میں برطانیہ میں فروخت ہونے والے ہر دو قومی اور مقامی روزناموں میں سے تقریباً ایک چار افراد کی ملکیت تھی۔میڈیا ریفارم کولیشن کی رپورسےپتہ چلتا ہے کہ آج محض تین کمپنیاں برطانیہ کی قومی اخبار کی مارکیٹ پر ۹۰؍فیصدحاوی ہیں۔فری مین نے میڈیا گلوبلائزیشن کو ‘عالمی سطح پر میڈیا کی پیداوار، تقسیم اور استعمال کے طور پر بیان کیا ہے، جس سے ثقافتی طور پر نظریات کے تبادلے اور پھیلاؤ میں سہولت ہو۔عالمی میڈیا میں بنیادی طور پر ابلاغ عامہ کی تمام شکلیں شامل ہوتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ٹیلیویژن، اخبارات، ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ تک سب کی رسائی ممکن ہوتی ہے ۔سماج میں عالمگیریت کا سب سے زیادہ گہرا اثر ثقافت پر پڑا ہے۔ ثقافتی عالمگیریت سے مراد پوری دنیا میں مختلف ثقافتی اقدار، نظریات، رویوں اور مصنوعات سےاتفاق اور تبادلہ ہے۔ اس نے معاشرے کے تقریباً ہر پہلو کی نوعیت بدل دی ہے۔مثلاًنقل مکانی کے نمونے،کھانے ، کھانے کی عادات،کھیل کود، سیر و تفریح اورعالمی شعور وغیرہ ۔روایات سے انحراف ا یک ایسا عمل ہے جہاں لوگ فعال طور پر اپنے روایتی اقدارکے نظام اور سماجی اصولوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔اس میں مذہبی عقائد، شادی کے مراحل ، صنفی کردار وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ مختلف طرز زندگی اور سوچنے کےطریقوں کے سامنے آنے کا نتیجہ ہے، جو عالمگیریت کا براہ راست اثر ہے۔عالمی سطح پر لوگ جرائم، دہشت گردی، قدرتی آفات وغیرہ جیسے خطرات سے بہت زیادہ آگاہ ہیں۔ اس کے منفی اور مثبت دونوں اثرات ہوتے ہیں۔ یہ کئی طرح کے ذہنی و نفسیاتی امراض کا باعث بنتے ہیں ۔ جدید میڈیا کے سماجیاتی پہلو کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین نے اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے کہ مین اسٹریم میڈیا پر اشرافیہ طبقہ کے مالکان، متوسط طبقے کے صحافیوں اور بر سر اقتدار لوگوں کے خیالات کا غلبہ ہے، جو سب اپنے اپنے عالمی نظریات پیش کرتے ہیں اور اپنے اپنے معاشی مفادات کی پیروی کرتے ہیں۔
***