ڈاکٹر معراج دین شیخ
(اسسٹنٹ پروفیسر (کنٹریکچول ) جنوبی کیمپس ، کشمیر یونیورسٹی )
کوثر رسول کی آزاد اور نثری نظموں کا مجموعہ ‘ ہوں’ : تجزیاتی مطالعہ
عورت تخلیق کی جوہری ہے اورتخلیق کےجوہر ِ اصل کو دنیا پرمنکشف کرنے میں اپنا خاص مقام رکھتی ہے۔ لفظ و معنی کی خوبصورت کائنات کی تشکیل میں عورت کا کلیدی کردار رہا ہے۔عورت نے ادب و سخن کو جہاں اپنی رنگینی سے وجود بخشا وہی زمانی تغیرات کے ساتھ حاشیے پردھکیلنے کے خلاف اپنا احتجاج بھی درج کیا ہے ۔ اردو ادب میں ابتدا سے نسائی آواز مستحکم رہی ہے اور اس روایت کے تسلسل میں جموں و کشمیر سے بانگِ تانیث میں بہت ساری خواتین شاعرات نے اپنی پہچان بنائی ۔جن میں عائشہ مستور، رخسانہ جبین، رخشندہ رشید، نسرین نقاش،پروین راجہ، شبنم عشائی، صاحبہ شہر یار، نکہت فاروق نظر، ترنم ریاض اور سلمی ریاض وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اکیسویں صدی کے مواصلاتی دنیا میں ادب کے بدلتے منظرنامے پر کشمیر سے ڈاکٹر کوثر رسول کی شاعری کی توانا آواز کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ کوثر رسول کی شعری کائنات کہیں معنوں میں کشمیر کی اردو نسائی شعری روایت سے افتراق و اضافے کا پتا دیتی ہے۔160 صفحات پر محیط آپ کےآزاد اور نثری نظموں کا پہلا مجموعہ “ہوں” 2022ء میں کتابی دنیا دہلی سےمنظر عام پر آیا ہے ۔ اس شعری مجموعے میں کُل 81 نظمیں ہیں ،جن میں ایک پُر اعتماد عورت؛ دنیا اور انسانی زندگی کے احساسات و تجربات کو خوبصورت شعری پیکر میں بیان کر رہی ہے ۔
کوثر رسول کی شاعری عورت کی شناخت کے اثبات سے شروع ہوتی ہے ۔” ہوں ” نظم سے شروع ہونے والا سفر دکھ درد کی اس پُر ملال کتھا سے پرےتو نہیں ہے جس سےخاص وقفے تک ارد وشاعری کی نسائی دنیا جوجھ رہی تھی لیکن اس میں اضمحلالی کیفیت سے گلو خلاصی کا مژدہ ضرور سنائی دیتا ہے ۔یہ اکیسویں صدی کی باحوصلہ عورت کی “ہوں ” ہے جس نےاپنی صلاحیتوں سے دنیا کو زیر بار کیا ہے ۔ قدیم ادب و شاعری کے صفحات میں حاشیے پہ نقش ، استحصالی قوتوں سےنبردآزما ؛یہ عورت زندگی کے مرکزی کردار میں ڈھل چکی ہے ۔ یہ شعورِ ذات کے سبق سے مالامال اپنی کامیاب پہچان بنانے والی عورت ہے۔جوناانصافی پر مزاحمت کی روداد ہے ۔ یہ مرد اساس معاشرے کی اس منافقت کو برداشت نہیں کرتی جس میں عورت کےحوالے سےقول و فعل میں تضاد پایا جا تاہے ۔ ان کی شاعری کا متن باذوق قاری سے سوالی ہیں :
کیا واقعی میں آزاد ہوں ؟
مجھے ان ایوانوں سے دبی دبی ہنسی کی
آوازیں آتی سنائی دے رہی ہیں؟
مور کے پنکھ سچے ہیں یا
اس کے پاؤں کی بدصورتی
یہ کیسا معمہ ہے!
اُف!
میرے پاؤں میں یہ کیسی ان دیکھی بیڑیاں ہیں ؟
آپ نظم ‘ماڈرن وومن’میں مرد اساس سماجی مقتدرہ سے پوچھتی ہے کہ اگر میں شانہ بہ شانہ زندگی کی ہر مشکل میں برابر کھڑی ہو ں تو مجھ سے میری شناخت کیوں مانگی جاتی ہے؟کوثر کی شاعری میں ابھرنے والی عورت کا تاریخی شعور پختہ ہےاس لیے وہ دلائل کے ساتھ اپنے ہونے کا برملا اعلان کرتی بلکہ اسے منواتی ہے اور اس حوالے سے آپ کی نظم ‘میں ناری ہوں ‘ خاص طور پر قابل ِقرات ہے ۔ کوثر رسول کے یہاں مشرق اور مغرب کےتانیثی نظریےکے تحت عورت ذات کے بُعد کونہ صرف محسوس کیا جاسکتا بلکہ علمی سطح پر تقابل بھی کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے شعری متن میں ایسی عورت کی تشکیل ہوتی ہے جو مشرقی تہذیب کی نمائندہ ہے ۔ مغرب کے ریڈیکل فیمنزم کے برعکس اس عورت میں مرد کے ہمراہ قدم بڑھانے کی آرزو ہے ۔ وہ مرد کی مخلص ساتھی اور اس کی ہم رکاب ہونا چاہتی ہے جس کی اپنی مکمل پہچان ہو ۔ تانیثی تھیوری کے حوالےسے پروفیسرعتیق اللہ لکھتے ہیں :
“ادب میں تانیث کا موقف اُس عورت کو deconstructکرنا ہے جو اپنی ذات ہی سے بے خبر نہیں تھی بلکہ اس سماجی تہذیبی منظر نامے سے بھی نابلد تھی جس کے جبر نے اُسےمہجول حقیقت میں بدل کر رکھ دیا تھا ۔”
درج بالانظریے کے تناظر میں کوثر رسول کی شاعری مختلف معنیاتی جہات کا پتا دیتی ہے ۔ نظم ‘بے عنوان متن’ سے مکالمے پر فاضل قاری پر یہ واضح ہوتا ہے کہ عورت کے متن پر مرد کی اجارہ داری ملفوف معنی ہرگز پہنانہیں سکتی ہے کیوں کہ مابعد جدیدیت نےطاقت کو بے نقاب کیا ہے اور قاری کو ادب کی تفہیم کے نئے زاویے سکھائے ہیں ۔ جو عورت کی کامیابی کے ایک نئے دور کا پتا دیتی ہے جس میں وہ کسی بھی قدغن کے بغیراپنے آپ کو تسلیم کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔
کوثر رسول کا شعری کینوس اگرچہ عورت اساسیت کے اردو گرد گھومتا ہے لیکن اس میں زندگی کے دکھ درد اور خوشی سمیت سب کچھ سمٹ آیا ہے ۔ ان کی شاعری انسانی زندگی کے ماہ و سال کو جذبات و احساسات کی خوبصورت البم میں سجانے سے عبارت ہے۔ آپ بچپن کی خوبصورت یادوں کوسمیٹتی ہے ۔ رومان کی باریک لہریں اور کچھ ادھوری خواہشوں کی کسک بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ ان کے یہاں زمانی تقابل کے تناظر میں وقت کی رفتار کو جانچنے اور پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے۔آپ جدید دنیا کی رفتار سے خوش ضرور ہے لیکن بچپن کی اس آگہی کو تسلیم نہیں کرتی جو انسانی زندگی کے اس خوبصورت دور کو دردِ بے دوا بنا دے ۔آپ کی شاعری اور اس قبیل کی نظمیں جدید دنیا کے المیہ کو بیان کرتی ہے اورانسان کو درپیش بے شمار مسائل و مشکلات کو قارئین پر واضح کرتی ہے ۔ بشیر منظر رقمطراز ہیں :
“کوثررسول کا مجموعہ کلام ‘ہوں’ اردو شاعری میں یہ صحت مند اضافہ ہے ،اُن کی نظمیں آج کے دور کی نظمیں ہیں ۔ ان کی نظمیں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ انسانی ذہن کی پرواز کو کسی طرح کی کوئی قدغن روک نہیں سکتی ۔ اُن کی نظم ایک ایسا پرندہ ہے جو پنکھوں کو ٹوٹنے کا ماتم نہیں مناتا بلکہ تکلیف کو اپنی طاقت بنا کر اور اونچا اڑانے کی تگ و دو کرتا ہے ۔ اُن کی نظم ایک ایسا تیراک ہے جو تنکے کے سہارے ساحل سے جالگنے کا ہنر جانتا ہے ۔” 1؎
معاصر دنیا کی گوناگوں تناظرات میں ماحولیاتی بیانہ کے توسط سے نظم’ پائی کا پیڑ’ معنیات کے ان گنت تہوں کو وا کرتی ہے۔ جس سے آشکار ہوتا ہے کہ شاعرہ کے یہاں زندگی کی دوڑ میں یادوں کی امانت کا پاس و لحاظ ہے اور ماحولیاتی توازن کو بکھیرنے میں زمانے کی ترقی کیسے پسماندہ دکھائی دیتی ہے:
اور اب سنا ہے کہ وہاں کوئی پیڑ نہیں ہے
سڑک کشادہ کرنے اور فلائی اُوور کی
بلندی کی خاطر
اس بونے پیڑ نے خود کو خوش خوشی زمیں
بوس کر دیا ہے
اور اب پائی کا آسیب ہماری یادوں کے
جزیروں میں بھٹکتا رہاہے
شاعری امکان در امکان کا سفر ہے اور اس حوالے سے کوثر رسول کی شاعری معاصر زندگی کی آگاہی اور شعور کی طویل مسافت کو طے کرتی ہے ۔ آپ کی شاعری انسانی الجھنوں میں سلجھاؤ کے ذہنی سفر کی عکاسی کرتی ہے ۔ یہاں ٹھہراؤ نہیں بلکہ جہد مسلسل کا سبق ملتا ہے ۔ ان کی نظمیں انسانی نفسیات کی گرہ کشائی پر عامل ہے۔ آپ تھکن میں بھی تجربات کرنے سے گریزاں نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سیکھنے کے وژن کی داعی ہے ۔ زبان کی سطح پرکوثر رسول کی شاعری کامیاب نظر آتی ہے ۔ آپ نےموقع و محل کی مناسبت سے اپنی نظموں میں سنسکرت ، ہندی اور انگریزی الفاظ کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ کوثر رسول اپنا شعری سفر یوں ہی جاری رکھتی ہیں تو ہمیں مستقبل قریب میں ایک کامیاب شاعرہ نظر آئے گی ۔
حوالہ جات
1: عتیق اللہ ،بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب، صفحہ نمبر106
2:بشیر منظر،ہوں کا سفر ،کتابی دنیا ، دہلی، صفحہ نمبر13،14، 2022
- MEHRAJ DIN SHIEKH
DEPARTMENT OF URDU, SOUTH CAMPUS, UNIVERSITY OF KASHMIR
9596476531