ریاض اکبر۔ برسبین آسٹریلیا۔
گئی دھوپ کی چھایا
یوں تو ملتا ہوں تری یاد سے اب بھی لیکن
سرسری بات پرایوں کی طرح ہوتی ہے
گھر سے آفس کو کسی بس کے سفر میں جیسے
کوئی آ بیٹھے مرے پاس، اتر جائے کہیں
یا کسی اجنبی دوکان سے کافی لی ہو
یاد ہے جھیل پہ جب پاس تھے ہم تم دونوں
اور ڈوبی تھی شفق چاند نکل آیا تھا
شہر کے ملگجی خاکوں کے ابھاروں میں جہاں
بھرتے جاتے تھے دریچوں میں کئی رنگ کے رنگ
سوچتا ہوں کہ اسی طور کی شاموں کی طرح
سوچ کے رنگ بدل جاتے ہیں دھیرے دھیرے
ساتھ بیتی ہوئی شاموں کو برس بیت گئے
اب تعلق نہ کوئی ترکِ تعلق باقی
اک کہانی ہے کہ آغاز ہے انجام نہیں
وہ جو کھودے تھے درختوں پہ ترے نام کے حرف
حرف باقی ہیں مگر ان میں ترا نام نہیں
***