You are currently viewing ہمارے قابلِ فخر شان چچا

ہمارے قابلِ فخر شان چچا

یمین الاسلام زبیری

خاکہ

ہمارے قابلِ فخر شان چچا

شان الحق حقّی صاحب کا نام ادبی حلقوں میں خوب جانا پہچانا ہے۔ اردو کے لیے ان کے کام ہی اتنے اور ایسے تھے کہ جو کوئی اردو میں کام کرتا ہے اس کی نگاہ سے وہ چھپے نہیں رہ سکتے تھے، بلکہ  چُھپے نہیں رہ سکتے ہیں۔ اگر لفظِ اردو کے معنیٰ لشکر ہیں تو وہ اردو کے صفِ اوّل کے علم برداروں میں گنے جاتے ہیں۔ اب انگریزی کا چلن خوب ہے اور اکثر اردو میں کام کرتے وقت انگریزی کے اُن الفاظ کی جو زبان پر چڑھ گئے ہیں اردو چاہیے ہوتی ہے، یا انگریزی پڑھتے وقت کسی لفظ کی اردو چاہیے ہو تو ان کی ترجمہ و مرتّب کردہ ’آکسفورڈ انگریزی اردو لغت،‘ جو ’کانسائز آکسفورڈ ڈکشنری‘  کا ترجمہ ہے، ہی ذہن میں آتی ہے جس سے حقّی صاحب نے اردو کے پرستاروں کا دل جیت لیا۔ یہ کوئی واحد انگریزی اردو لغت نہیں ہے، کچھ اور ایسی لغات بھی موجود تھیں اور ان کی کوشِشوں کو بھی سراہتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ آکسفورڈ والے اپنی انگریزی لغت، ’کانسائز آکسفورڈ ڈکشنری ،کے بارے میں کیا لکھتے ہیں: ’ کانسائز آکسفورڈ ڈکشنری دنیا کی مشہورترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہر گھر کی زینت کے طور پر  جانی جاتی ہے، گو حالیہ برسوں میں کئی اس کے مدِ مقابل آ چکے ہیں۔ اپنے پچھلے سات شماروں میں یہ ہر شعبئہ زندگی کے لاکھوں افراد تک پہنچ چکی ہے جو اس میں جامعیت اور سند دیکھتے ہیں۔‘

ایک اس کی بات کا اور میں ذکر ضرور کرنا چاہوں گا کہ، اس میں لغت نویسی کے جدید انداز اپنائے گئے ہیں؛ اس میں کس لفظ کے ساتھ کون سا حروفِ ربط، انگریزی میں پری پوزیشن، لگے گا خیال کر کے خوبی سے بتایا گیا ہے۔

یہاں میں نے حقّی صاحب کی اس لغت کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا کہ اس دور میں حقّی صاحب کا عام اردو بولنے والوں سے اگر وسیع  پیمانے پر کوئی رابطہ قائم ہوتا ہے تو وہ اس لغت کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں خود امریکہ میں اردو پڑھاتا رہا ہوں اور میں نے دیکھا کہ نئے اردو سیکھنے والے سب سے پہلے اس لغت کو لیتے ہیں، پہلے دن سے ہی کلاس میں اسے بغل میں دبائے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ لغت حقّی صاحب نے  دس سال (1993 سے 2003) میں مکمل کی تھی۔ کئی سال پاکستان میں اس پر کام کرتے رہے پھر جب کیناڈا آگئے تو اس کام میں بھی تیزی آگئی، کیونکہ اب وہ سبکدوش تھے اور ان کے پاس وقت تھا۔ اس لغت کا افتتاح 2003 میں کراچی میں ہوا تھا۔

 حقّی صاحب کی مرتب کردہ اور بھی لغات ہیں، جیسے فرہنگِ تلفظ جس میں ہرلفظ کا تلفظ اعراب سے واضع کیا گیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو بورڈ کی 22 جلدوں پر محیط ’لغتِ کبیر‘ کے بڑے حصّے کو مرتب کرنا ہے۔ اگر کہیں کہ، انہوں نے اس کی بنیاد رکھی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔  یہ ایک عظیم کام تھا جو انہوں نے جاں فشانی سے مکمل کیا۔

حقّی صاحب نے اردو لغتِ کبیر پر 18 سال کام کیا، حساب لگائیں تو جب انہوں نے کام شروع کیا ہوگا تو وہ کوئی چالیس برس کے جوان آدمی ہوں گے؛ اور وہ اس پر 1976 تک کام کرتے رہے کہ وہ سبکدوشی کی 60 کی عمر تک پہنچ گئے۔ اس کام کی انہیں تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ وہ سیکریٹری کی حیثیت میں کام کرتے تھے، اور ایسے جیسے انہیں اس کام سے عشق ہو۔  مشہور کالم نویس اور ادیب نصراللّہ خاں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ، حقّی صاحب صرف دو سو روپے کار الاوٗنس پر کام کرتے تھے۔ اپنے روزی کمانے کے کاموں کے ساتھ ساتھ اس میں بھی  تندہی سے لگے رہتے تھے؛ اتوار کو چھٹّی کے دن بھی اردو بورڈ کے دفتر جاتے تھے اور لغت کا کام کرتے تھے۔ اس بات کی توثیق جناب عقیل عباس بلگرامی، جو خود بھی اس لغت کے مدیر اعلیٰ رہے ہیں، نے بھی مجھ سے کی۔ عقیل صاحب  کے  بیان سے لگتا ہے کہ حقّی صاحب فرہاد تھے اور لغتِ کبیر جوئے شیر، جبکہ اردو شیریں۔  حقّی صاحب کو صرف ایک ہی فیض پہنچا اور وہ تھا اطمنان کا کہ انہوں نے زندگی میں کچھ کیا تو ہے۔

عقیل عباسی کہتے ہیں کہ، وہ اردو بورڈ کے لیے ’تاریک دن‘ تھا جس دن حقّی صاحب نے بورڈ کو چھوڑا ہے۔ ان کے بعد اور سیکریٹری آئے لیکن جس محنت اور لگن سے وہ کام کرتے تھے کسی اور نے نہیں کیا۔

عقیل صاحب اور شایان حقّی نے  بتایا کہ، حقّی صاحب پر تین مقالے لکھے جاچکے ہیں  ایک پنجاب یونیورسٹی، لاہور، کے  محمد  اجمل ندیم  نے  لکھا ہے؛ دوسرا نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد، کی سیّدہ وردہ زہرا نے؛ اور تیسرا جی سی یونیورسٹی، لاہور کی سارہ خالد کا ہے۔ حقّی صاحب پر دو پی ایچ ڈی بھی ہوئی ہیں ایک میاں عاطف بٹ ، لاہور، ’حقّی صاحب بطور لغت نویس ،‘ دوسرا ڈ ا کٹر عرفان شاہ، کراچی، ’حقّی صاحب شخصیت اور فن ۔‘

حقی صاحب 15 ستمبر 1917 کو دہلی، غیر منقسم ہندوستان، میں   پیدا ہوئے تھے، اور 87 سال کی عمر میں کیناڈا کے شہر ٹورنٹو میں 11 اکتوبر، 2005، کو ان کی رحلت پھپڑوں کے سرطان سے ہوئی، حق مغفرت فرمائے۔ میں نے انہیں بچپن سے دیکھا لیکن مجھے کبھی ان کی شدید علالت کی خبر یاد نہیں، عام بیماریاں تو سب کے ساتھ لگی رہتی ہیں، سرطان آخری عمر میں ہوا تھا۔ ان کے بیٹے عدنان سے بات ہو رہی تھی وہ بتاتے ہیں کہ مانٹریال میں اپنے بھارت کے دورے کے بعد حقّی صاحب کسی کو بتا رہے تھے، بھارت میں ان سے کسی نے پوچھا کہ، “ان کی صحت کا راز کیا ہے؟” تو حقّی صاحب نے جواب دیا، “چودہ برس کی عمر سے سگریٹ پی رہا ہوں، نہ کبھی کوئی باقاعدہ ورزش کی، نہ کھانے پینے سونے اُٹھنے کے اوقات میں کوئی پابندی رکھی، غرض یہ کہ حفظانِ صحت کے تمام اُصولوں کی خلاف ورزی کی اور اُس کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ کام کیا۔ یہاں تک کہ ہفتے اور اتوار کو بھی صرف کام ہی کیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میری اچھی صحت کا کیا راز ہوسکتا ہے؟” یعنی یہ گتھی ہی ہے، اُس وقت بھی ان کی عمر یقیناً اسّی برس سے اوپر ہوگی؛ ان کی بہت سی تصویریں ہیں جن میں وہ پائپ پیتے نظر آتے ہیں۔ عدنان کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں اس کا ایک جواب آیا؛ عدنان نے اسی وقت کہا کہ، “ابّا آپ کی صحت کا راز اس میں ہے آپ نے ساری عمر وہ کام کیا جو آپ کی مرضی کا تھا۔” یقیناً ہم میں سے بہت سے صرف اسی وجہ سے نا خوش گزر جاتے ہیں کہ انہیں ان کے رجحان کے مطابق زندگی گزارنے کو نہیں ملتی۔ ویسے ان کے بیٹے عدنان بتاتے ہیں کہ، وہ اکثر شام کو عدنان کے بچّوں کو لے کر قریبی پارک میں پیدل چلے جاتے تھے اور وہاں کچھ دیر ٹہلا کرتے تھے۔

حقّی صاحب کی تصنیفات کوئی ساٹھ سے زیادہ ہیں اور زیادہ تر میں گہری باتیں ہیں، افسانہ، ترجمہ، تحقیق، شاعری کی تقریباً ہر صنف، تاریخ گوئی، غالب کی تشریح، انتخابِ کلامِ ظفر، اور تنقید ، گہری باتیں لیے مضامین کتنے ہیں پتا نہیں۔ ان کی یہ تصانیف اردو کے ادیب، شاعر اور محقّقین کی دلچسپی کی ہوں گی، یعنی دقیق ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف پروفیسروں اور محقّقین کے لیے ہی لکھا۔ انہوں نے عام عوام کے لیے بہت کچھ چھوڑا ہے۔ ان کے سہل لکھے کے نمونے یوٹیوب پر خوب موجود ہیں اور ان کے دیکھنے والوں کی تعداد سے پتا چلتا ہے کہ کتنے مقبول ہیں۔ یہاں میں ایک ایسی ہی کلپ کا ذکر کروں گا جس میں ضیا محی الدین ’ایک لفظ درد‘ پڑھتے ہیں، جو اردو میں مذکر اور مونث کے مسائل پر ہے، حقّی صاحب کی حسِ مزاح کا پتا چلتا ہے، ہنسی روکے نہیں رکتی۔ اس کے علاوہ حقّی صاحب نے بچّوں کے لیے بھی بہت کچھ نظموں کی شکل میں چھوڑا ہے، جسے چھوٹی جماعتوں کے اردو کے اساتذہ خوب استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کی کتاب ’نظمیں، پہیلیاں اور نثر پارے‘ سی ڈی کے ساتھ دستیاب ہے۔

حقّی صاحب اردو کے ان پہلوئوں پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھے جن پر آج کے اردو لکھنے والوں، خاص کر شاعروں کی توّجہ جاتی ہی نہیں۔ میرا اشارہ ان کے امیر خسرو کی تقلید میں بنائی گئی کہہ مکرنیوں کی طرف ہے۔ ان کی پہیلیوں کی کتاب کا نام بھی ’نذرِ خسرو‘ ہے۔ یہاں  دو تین میں نمونے کی لکھے دیتا ہوں۔

–دیکھیں کتاب کو کیسے بوجھیں: سیکھنے والا بولتا جائے؛ سکھانے والا چپ۔

–اب منہ میں آتے پانی کو روکیں کہ گلاب جامن آرہی ہے: ڈبکی کھا کر آئی نکل؛ دیکھ کے نیّت جائے پھسل

–اور نئے زمانے کے کھیل ہاکی کو کیسے لیا ہے: ایک میدان میں لڑتے دیکھے لکڑی باز کرارے؛ لپکیں جھپکیں بھڑ جائیں، پر ایک کو ایک نہ مارے۔

عام طور سے مصنفین کا ذہن کسی ایک ہی طرف چلتا ہے، مثلاً یا اعلیٰ ادب کی طرف یا بچّوں کے لیے۔ لیکن جب کوئی آدمی اتنا دقیق بھی اور اتنا سہل بھی لکھ ڈالے جیسا کہ حقّی صاحب کر گئے تو اِس سے اُس کی مختلف نوعیت کے موضوعات پر توجّہ اور نگاہ ڈالنے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اتنا تنوع جب ہم دیکھتے ہیں توایک بات یہ ذہن میں آتی  ہے اوریہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عام ذہن بالکل نہیں تھے۔ اس سے ان کے اردو کی خدمت کے جذبے کا بھی پتا چلتا ہے۔

وہ اردو اور انگریزی میں اعلیٰ پائے کی مہارت رکھتے تھے؛ فارسی خوب جانتے تھے؛ عربی سے بھی واقف تھے۔ اس کے علاوہ وہ ہندی بھی پڑھ لکھ لیتے تھے؛ انہیں سنسکرت بھی آتی تھی۔ اس میں کچھ حیرت کی بات نہیں، یہ وہ زبانیں ہیں جنہیں تقسیم سے پہلے والے ہندوستان کا تقریباً ہر پڑھا لکھا آدمی کم زیادہ جانتا ہی تھا۔ جناب افتخار عارف  ایک مصاحبہ میں بتاتے ہیں کہ حقّی صاحب سات زبانیں جانتے تھے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون کون سی۔ البتہ ایک اور ذریعے سے پتا چلتا ہے کہ چھ جو اوپر دی گئی ہیں ان کے علاوہ وہ ترکی بھی جانتے تھے۔ حقّی صاحب ان زبانوں سے کیسے فیض اٹھاتے تھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ انسانوں میں مدعا سمجھنے سمجھانے کے لیے زبان کے استعمال سے بہت متاثر تھے اور اسی پر تحقیق میں لگ گئے۔ لیکن ان کا ایک جملہ یہ بھول جانے کے باوجود کہ ’نکتئہ راز‘ کے کس مضمون میں پڑھا تھا نہیں بھولتا، وہ لکھتے ہیں، “زبان ایک ناقص ذریعہ اظہار ہے۔” میں بھی جب بولتے وقت، بات سمجھانے کے لیے ہاتھ چلانے لگتا ہوں تو یہ جملہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ جوش ملیح  آبادی بھی ایک یوٹیوب کلپ میں کہتے ہیں کہ، جو وہ کہنا چاہتے تھے اکثر وہ وہ نہ کہہ پائے۔

میرا یہ کوئی تحقیقی مضمون نہیں ہے، لیکن جب شان چچا پر لکھ ہی رہا ہوں تو ان کے رومن اردو کے بارے میں خیالات پر بھی ایک دو سطریں ہوجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رومن اردو اب تک کہیں بھی مناسب طریقے پر رائج نہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ رومن اردو کو سب ہی انگریزی والے تختہ سے لکھنا شروع کردیتے ہیں اور ہر شخص ایک الگ طرز کا ماہر ہے۔ ایک بہت بڑی وجہ اردو ٹائپ کا نہ ہونا بھی رومن اردو کے فروغ میں حصّہ دار رہا ہے۔ اس وقت ریختہ سب سے بڑی ویبگاہ ہے جو رومن اردو کو بھی اہمیت دے رہی ہے؛ ہوسکتا ہے کہ اس سے پاکستان و بھارت میں  فاصلے کم ہوجائیں۔ پاکستان کے کچھ اخبارات بھی تجربات کر رہے ہیں۔ حقّی صاحب رومن اردو کے حق میں نہیں تھے، لیکن حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے اس پر کام کیے جانے پر ضرور ذور دیتے تھے۔ اپریل تا جون 1961 کے اردو نامہ کے شمارے میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ، رومن اردو استعمال میں ہے اور رومن حروف ساری دنیا میں استعمال ہوتے ہیں تو اس پر توجہ دینی چاہیے ہے۔ انہوں نے اسی رسالے کے صفحہ 81 پر  انگریزی حروف کا کیا استعمال ہونا چاہیے تجویز کیا ہے۔  انگریز اور نگریزی کے بارے میں تو ان کا یہ شعر ضرور روشنی ڈالتا ہے۔

وائے طلسمِ نقشِ فرنگ

بھول گیا اردو بھی میں

حقّی صاحب نے فلموں کی طرف کچھ زیادہ توجّہ نہیں دی پھر بھی ایک فلم کے لیے ایک گانا ضرور لکھا۔ یہ فلم تھی ’لاکھوں فسانے‘ اور گانے کا مکھڑا تھا ’کیا کوئی سمجھے کیا کوئی جانے؛ دنیا میں ایسے لاکھ فسانے۔‘ یہ فلم 1961 میں جاری ہوئی تھی، اس نے کوئی بہت زیادہ نہیں کمایا۔ اس کے ہیرو درپن اور ہیروئین سوزی ڈینیل تھیں۔ اس وقت اس فلم کے بارے میں گوگل پر بھی بہت کم ملتا ہے، سب سے زیادہ معلومت مجھے یو ٹیوب پر موجود اس کڑی میں ملی:

https://www.youtube.com/watch?v=9ZaIpvd1EBs

حقّٰی صاحب کی  غزلیں بہت اعلیٰ پائے کے گانے والوں نے گائی ہیں۔ ان میں شامل ہیں  مہدی حسن، ناہید اختر،  ایم کلیم،

مہناز، اخلاق احمد، رجب علی، استاد رئیس، نہال عبدالللہ اور  ٹینا ثانی۔

حقّی صاحب نے اردو اور دیوناگری ٹائپ کرنا کیناڈا میں سیکھا تھا۔  کیناڈا کے آنند صاحب (ان کا  تعارف نیچے آئے گا)  بتاتے ہیں کہ، جب انہیں پتا چلا کہ حقّی صاحب آکسفورڈ لغت کے مکمل کرنے میں انگریزی تو ٹائپ کرتے ہیں لیکن اردو ہاتھ سے لکھتے ہیں تو آنند صاحب نے ان کے کمپیوٹر پر اردو ٹائپ کا مشہور ’ان   پیج‘ پروگرام لاکر دیا تھا۔ اسی طرح دیوناگری ٹائپ کرنے کا پروگرام بھی ان کے کمپیوٹر پر چڑھا دیا۔ آنند صاحب کا کہنا ہے کہ حقّی صاحب نے کمال کیا کہ ان دونوں پروگراموں پر بہت جلدی عبور حاصل کر لیا۔ اس وقت ان کی عمر کوئی 83 برس رہی ہوگی۔ ان کے بیٹے شایان کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر جب سے پاکستان آیا ہے وہ استعمال کر رہے تھے۔ میں یہاں اپنا تجربہ بتائوں گا، میں بزنس رکارڈر، پاکستان کا صفِ اول کا تجارتی اخبار، میں کام کرتا تھا۔ وہاں کمپیوٹر ’85 کے لگ بھگ لگا تھا، بڑے بڑے ڈبوں جیسے کمپیوٹر تھے اور انہیں صرف آپریٹر ہی چلا سکتے تھے۔ اس لیے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ حقّی صاحب کے دفتر میں کمپیوٹر تو ہوگا اور کوئی اس کا چلانے والا بھی ہوگا۔ لغتِ کبیر پر فہمیدہ ریاض کا مضمون ریختہ پر ہے اس میں کمپیوٹر آپریٹر کا ذکر ہے جو اکاونٹینٹ تھا۔ فہمیدہ صاحبہ کا مضمون پڑھنے کا ہے۔ حقّی صاحب کی کتابیں کچھ کاتبوں کی لکھی ہوئی ہیں اور کچھ کمپیوٹر سے۔ اردو ٹائپ گو دوسری زبانوں کے ٹائپ کے مقابلے میں دیر میں آیا، یہ مرزا جمیل احمد صاحب کا کارنامہ تھا انہوں نے 1981 میں یہ ٹائپ ’نوری نستعلیق‘ کے نام سے متعارف کرایا۔ جمیل صاحب کے کارنامے کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔

جناب آنند جو ہندی/انگریزی کے کہنہ مشق لکھیک ہیں اور کیناڈا ریڈیو سے بھی پروگرام کرتے رہے ہیں، ان سے حقّی صاحب کی بہت گاڑھی چھنتی تھی، اور انہوں نے حقیقت یہ ہے کہ حقّی صاحب سے خدمت کی حد تک دوستی نباہی۔ انہوں نے حقّی صاحب کے ہندی اور اردو ٹائپ سیکھنے کے علاوہ اور بہت سی باتیں بھی حلقئہ اربابِ ذوق، ورجینیا، امریکہ، کی حقّی صاحب پر نشست میں بتائی تھیں۔ آنند صاحب بتاتے ہیں کہ حقّی صاحب کو جب کمپیوٹر پر کچھ مسئلہ ہوتا تو وہ آنند صاحب کو فون کرتے، اور آنند صاحب ہمیشہ جا کر ان کی مدد کرتے تھے۔

حقّی صاحب نے جب آنکھ کھولی تو اپنے گھر کو زبانوں سے محبت کرتے پایا۔ اُن کے والد احتشام الدین حقّی، وفات 1945، علیگڈھ سے عربی فارسی میں ایم اے تھے، اور ماہرِ لسانیات تھے، حافظ شیرازی کے کلام کے مترجم تھے اور نظام حیدرآباد دکن نے انہیں اپنی ’لغتِ کبیر‘  کا مدیر چنا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ، پسر بھی صاحبِ میراثِ پدر کے مصادق لغت نویسی میں کامل رہا۔ ڈپٹی نذیر احمد، وفات 3 مئی، 1912 جو اردو کی خدمت کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کے پر نانا تھے۔

شان الحق حقّی صاحب خود علیگڈھ سے بی اے تھے، اور سینٹ اسٹیفینسن کالج، دہلی، سے انگریزی ادب میں ایم اے تھے؛ 1955 میں لندن میں ذرائع ابلاغ کا کورس بھی مکمل کیا تھا۔ عملی زندگی میں ادب ہی اوڑھنا بچھونا رہا۔ روزی روٹی بھی انہوں نے تخلیقی کاموں کے کرتے ہی کمائی۔

بات ہو رہی تھی حقّی صاحب کی مختلف زبانوں میں دلچسپی کی۔ انہوں نے دوسری زبانوں سے ایک ایک گوہر کو چن کر اردو میں ترجمہ کر کے اردو کے عام قاری تک پہنچانے کی سعی کی۔ یہ ایک بڑا کام ہے اور ان کی کتاب ’درپن درپن‘ میں محفوظ ہے۔  اسی طرح انہوں نے اپنی غزلوں کو ایک صفحہ ہندی ایک اردو، خود کمپیوٹر پر  ٹائپ کرکے کتاب تیار کی تھی جس کا نام انہوں نے ’نوائے ساز شکن‘ رکھا  تھا۔ یہ ان کی آخری کتاب تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا کلام ہندی پڑھنے والوں کی دسترس میں ضرور ہو۔ یہ کتاب آنند صاحب نے لکھنئو میں چھپوائی تھی، ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خاصی بکی بھی اور انہوں نے خود بھارت کے بہت سے کتب خانوں کو بھی بھجوائی۔ درپن درپن، ریختہ کی وبگاہ پر موجود ہے۔ حقّی صاحب کی انگریزی کی تحریروں کے بارے میں کچھ پتا نہیں، یقیناً ہوں گی، ان کے پسر عدنان کا کہنا ہے کہ آخری دنوں میں وہ اپنی غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے۔ لیکن یہ پتا نہیں کہ وہ ادھورا کام اب کہاں ہے۔

شان الحق حقّی صاحب میرے والد کے بہت ہی عزیز دوستوں میں سے تھے۔ انہوں نے میرے والد امین الاسلام زبیری صاحب کا ذکر اپنی سوانح میں کیا ہے، اور میرے والد کی قبر کا کتبئہ تاریخ بھی انہوں نے لکھا ہے، جو کچھ یوں تھا: روئے امیں زیرِ زمین، روحِ امیں بالا نشیں، سن 1401ھ۔ وہ ایک اچھے خطاط بھی تھے، اور انہوں نے یہ کتبہ اپنے ہاتھ سے خطاطی کر کے ہمیں دیا تھا، کہ اس نمونے پر بنے گا۔

حقّی صاحب کو فنونِ لطیفہ سے خاص دلچسپی تھی۔ شایان حقّی نے بتایا کہ موسیقی اور مصوّری سے حقّی صاحب کی خوب دلچسپی تھی۔ان کے سب ہی بچّوں کو ہارمونیم خوب آتا تھا۔ ہارمونیم حقّی صاحب کے عزیز دوست شریف الحسن صاحب ان کے ہاں چھوڑ گئے تھے، جسے سیکھ کر سب نے حق ادا کردیا۔ ہم ان کے ہاں جاتے تھے تو ان کے بیٹے ہمیں ہارمونیم پر کچھ نہ کچھ سناتے تھے۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عدنان حقّی تو بہت اچھا گا بھی لیتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں، لیکن اس طرف ان کی توجّہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ عدنان کا کہنا ہے کہ حقّی صاحب بھی اس ہارمونیم کو بجایا کرتے تھے اور کبھی گنگناتے بھی تھے۔ میں نے ویسے خود انہیں کبھی گاتے ہوئے نہیں سنا، وہ اپنا کلام بھی تحت الفظ ہی پڑھا کرتے تھے۔ عدنان بتاتے ہیں کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں تو اپنا کلام ترنم سے پڑھا کرتے تھے لیکن پاکستان آ کر بس تحت اللفظ ہی پڑھا۔ ایک زمانے میں وہ رنگ اور برش سب ہی کچھ لائے اور کچھ تصاویر بھی بنائیں تھیں۔ جہاں تک سننے کا تعلق ہے وہ غزلیں اور سنجیدہ شاعری، اور پائے کی موسیقی شوق سے سنتے تھے، لیکن فلمی گانے سننے کا انہیں کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ محرّم میں اچھے مرثیہ  خوانوں  کو سننے بھی جاتے تھے۔  ان کے جیکب لائین والے گھر پر  مشاعروں کے  علاوہ موسیقی کی محافل بھی جمتی تھیں، کچھ  اچھے گانے والے جو وہاں آئے ان کے نام یہ ہیں، عمرائو بندو خاں،  نہال عبداللّہ،  اور ریشما۔

 حقّی صاحب کا ہمارے ہاں آنا جانا تھا اس لیے ہم نے جب سے آنکھ کھولی انہیں دیکھا۔ ہم سب بہن بھائی انہیں شان چچا کہا کرتے تھے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بہت شفقت کا رویہ رکھتے تھے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ، آپ نے انہیں دیکھا تو کیسا پایا؟ تو میرا جواب یہی ہوگا کہ، میں نے انہیں بہت زیادہ وضعدار پایا۔ یعنی جیسے وہ پہلے دن ملے تھے ہمیشہ ویسے ہی ملتے رہے۔ یہ ان کی وضعداری تھی کہ میرے والد کے انتقال کے بعد وہ ہمارے  ہاں سال میں ایک یا دو بار سلمیٰ خالہ کے ساتھ ضرور چکّر لگاتے۔ دوسری بات وہ سب کا لحاظ بہت کرتے تھے، اور اگر کوئی ان کے سامنے بے تکی یا بے منطق بات بھی کرتا تو اس کی بات سنتے، اور اس کا دل رکھتے ہوئے جواب دیتے، یہ میرا آنکھوں دیکھا ہے۔

یہاں میں سلمیٰ خالہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سلمیٰ خالہ کی ہماری والدہ سے بڑی اچھی دوستی بہناپے کے درجے کو پہنچی ہوئی تھی۔ میرے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک بار اِنہیں چچّی کہنے پر ٹوکا تھا اور کہا کہ، خالہ کہا کرو اس لیے میں انہیں یہاں خالہ ہی لکھ رہا ہوں ورنہ ہم انہیں ان کی  پیٹھ پیچھے شان چچّی کہا کرتے تھے، ایک وجہ یہ بھی تھی ایک سلمیٰ خالہ اور بھی تھیں۔  جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ہم حقّی خاندان سے بچپن سے واقف تھے، اور ہمارا ان کےہاں آنا جانا ہوتا ہی رہتا تھا۔ ان کی مورس کار میں ہم پکنکوں پر بھی گئے۔ سلمیٰ خالہ کو ان کے بچّے امّاں کہتے تھے، اور وہ شان چچا کو ابّا کہتے تھے۔ وہ بڑی ملنسار تھیں اور ہمیں کبھی لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم کسی تکلّف والی جگہ آ گئے ہیں۔ سلمیٰ خالہ سبکدوش ہونے تک معلمہ رہیں۔ اپنی پیشاورانہ مصروفیات کے باوجود وہ گھر کو خوب رکھتی تھیں۔ وہ سب سے الگ الگ بات کرتیں، اور مزاج پوچھتی تھیں۔ انہوں نے بی اے کوئین میری کالج، دہلی، سے کیا تھا اورعلیگڑھ سے ایم اے اردو کیا، اور اس کے بعد علیگڑھ یونیورسٹی میں ہی پڑھانے لگیں تھیں۔ پھر بٹوارا ہو گیا اور انہیں وہ عظیم درسگاہ چھوڑنی پڑی اور لاہور ہوتے ہوئے کراچی آ گئیں۔ کراچی میں وہ گورنمنٹ کالج فار ومن، فریئر روڈ، میں لکچرار ہو گئیں اور پھر اپنی سبکدوشی تک  وہیں رہیں۔ وہ اپنی شاگردوں میں بہت مقبول تھیں۔ ان کی سبکدوشی کے کچھ عرصہ بعد حقّی صاحب اور وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عدنان حقّی کے ہاں مانٹریال، کیناڈا منتقل ہوگئے تھے، آخری ایّام کچھ صحت کے مسائل کے ساتھ گزرے وہ اپنے انتقال، پہلی اکتوبر 2003، تک وہیں رہیں۔ انا للہ وانا اللّہ راجعون۔ حقّی صاحب نے اس موقع پر تاریخ خاتونِ نور سیما لکھی جو ایک  بیت میں کچھ ایسے تھی

بانوئے پاک باطن از دودمانِ حقّی

سلمائے حور سیرت، خاتونِ نور سیما

شان چچا اور سلمیٰ خالہ ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے تھے، وہ چچا زاد تھے۔ یقیناً ان کے درمیان رومان ضرور رہا ہوگا، اور جو قسمیں کھائی گئی ہونگی انہیں دونوں نے خوب نبھایا۔ سلمیٰ خالہ نے اپنے مرتّب کردہ رسالے ’گلدستئہ نگارش‘ میں خاصی تفصیل سے لکھا ہے کہ ان کی زندگی حقّی صاحب کے ساتھ کیسی گزری، بچپن اور علیگڑھ سے لے کر کراچی تک۔ اس رسالے میں کیناڈا قید نہیں ہوسکا کیونکہ یہ 1972 میں حقّی صاحب کی کتاب ’نکتئہ راز‘ کی تقریب رونمائی کے وقت چَھپا تھا۔ اب یہ ریختہ کی ویبگاہ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم سلمیٰ خالہ نے کچھ مضامین بھی لکھے تھے یا نہیں، لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ میں بہت چھوٹا تھا تو میرے والد اور سلمیٰ خالہ کا ریڈیو پاکستان کراچی پر ایک دلچسپ مباحثہ ہوا تھا جو میں نے سنا تھا، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں کہ موضوع کیا تھا۔

کراچی میں حقّی خاندان جو میں جانتا ہوں تین جگہوں پر رہا، وہ پہلے بہائینڈ جیکب لائین میں رہتے تھے، پھر ناظم آباد نمبر چار میں انہوں نے اپنا نیا مکان’ شعاعِ ساز‘ بنایا، اور آخر میں ڈفینس سوسائٹی میں رہتے تھے؛ اس کے بعد کیناڈا چلے گئے تھے۔ وہیں دونوں میاں بیوی کا انتقال ہوا اور ان کی آخری آرام گاہیں بھی وہیں ہیں؛ انا للّہ وانّا الیہ راجعون خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔ ان کے پانچ بیٹے سلمان، عمران، عرفان، شایان اور عدنان اور ایک بیٹی تزئین تھیں جنہیں زیبا بھی کہا جاتا تھا۔ تزئین کا انتقال ہوچکا ہے، اور تین بیٹے ماشااللّہ اچھی صحتوں کے ساتھ کیناڈا میں ہیں، شایان برطانیہ میں، اور سب سے بڑے سلمان کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ان کے 5 پوتے، چار  پوتیاں، تین نواسے، ایک  نواسی، دو  پر نواسے اور ایک پر نواسی  ہے۔ دعا ہے کہ چمن ان کا یوں ہی ہرا بھرا رہے۔ یہ سارے ہی بچّے خوب کر رہے ہیں ان میں سب سے بڑے فیضان ہیں جو اپنے دادا کی راہ پر چل رہے ہیں اور فلم اور اشتہار کی دنیا سے منسلک ہیں۔ شان چچا کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے بّچوں کے بچّے اردو میں اچھے ہوں۔ جب مانٹریال میں تھے تو عدنان کی بیٹی شانیہ کو باقاعدہ اردو پڑھایا کرتے تھے، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔

شان چچا کے گھر کوئی ایک جانور خاص کر کتّا ہمیشہ ہی رہا کرتا تھا۔ یہ ان کا زندگی سے محبت کا ثبوت تھا۔ ان کے فرزندان سے پوچھا تو انہوں نے کچھ کتّوں کے نام بتائے ہیں، زنگی، بجلی، ظلمی، رانی، لوسی، میگی، موتی وغیرہ۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں کتے ، بلیاں، مرغیاں، خرگوش، طوطے، وغیرہ سبھی بیک وقت پلے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کے ہاں ایک بار ایک توتا جسے عرف عام میں ’لو برڈ‘ یا ’پیراکیٹ‘ یا ’آسٹریلین‘  کہا جاتا ہے، دیکھا تھا، اور وہ فلم ’کم سپٹمبر‘ کی مشہور دھن اپنی چونچ سے بجاتا تھا۔

حقّی صاحب جیسے لوگ روز روز نہیں   پیدا ہوتے؛ مشتاق احمد یوسفی  نے اُن کے بارے میں کہا تھا، ’اب ایسے سانچے بننا بند ہوگئے ہیں۔‘ حقّی صاحب کی خدمات کے صلے میں پاکستانی قوم نے انہیں تمغئہ قائدِ اعظم اور ستارئہ امتیاز عنایت کیا۔ اسلام آباد کی ایک سڑک ان کے نام رکھی گئی ’ادارئہ فروغ اردو زبان، کراچی‘ میں ’گوشئہ حقّی‘ بنا دیا گیا ہے جہاں ان کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔  یہاں میں اس بات کا ذکر ضرور کروں گا کہ صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے ان کے  جانے کے بعد  ان پر محافل نہیں کیں، نہ کچھ لکھا؛ اس کی غالباً وجہ حقّی صاحب کا اپنا، نہ  ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا،  والا رویّہ تھا۔ جمیل الدین عالی صاحب پہلے ادیب تھے جنہوں نے حقّی صاحب پر جنگ اخبار میں اپنا مضمون لکھا۔

حقّی صاحب اور میرے والد میں بے لوث دوستی تھی۔  دونوں کے خاندانوں میں بھی ایسا ہی تھا، میل جول کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جب میں  پیدا ہوا تو میرے والد نے حقّی صاحب سے کہا کوئی نام بتائیں، وہ کسی عرب سے مل رہے تھے تو اس سے ذکر کیا، اس نے کہا امین کے بیٹے کا نام یمین رکھ دو۔ میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو میری والدہ نے شان چچا سے کہا کہ کوئی تاریخی نام بتائیں، انہوں نے ایک نام بتایا، مجتبیٰ ثمین الاسلام زبیری، لیکن ان کے نام بتانے سے پہلے ہم طے کر چکے تھے کہ بیٹے کا نام ربیع رکھیں گے، البتہ میں نے اس کا عقیقہ حقّی صاحب کے نام پر کیا۔ انہوں نے جو اس پر محنت کی ہم اس کے شکرگزار رہیں گے۔ مجھ سے چھوٹے بھائی سیف کئی سال تک سلمان بھائی کے ساتھ این اے بخاری اشتہاری کمپنی میں کام کرتے رہے۔ سلمان بھائی ہی سیف کو وہاں لے گئے تھے۔ اسی طرح میرے بڑے بھائی انیس ٹھیک دس سال تک حقّی صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے عدنان کے ساتھ مانٹریال، کیناڈا، میں پرانی کاروں کی فروخت کا کام کرتے رہے۔ انیس بھائی ہمیشہ عدنان کی محنت و قابلیت اور خلوص کی تعریف کرتے تھے۔ عدنان مانٹریال سے ٹورنٹو منتقل ہو گئے تو یہ ساتھ چھوٹا۔ میرے ایک دوست نے انگریزی کا اخبار ’دی فائنینس ڈیلی‘ نکالا تو مجھے ایڈیٹر لیا۔ ایک دن ٹی وی کے لیے اس کے اشتہار پر کام کرنے والے آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ یونائٹڈ ایڈورٹائزرز سے آئے ہیں۔ تب مجھے پتا چلا کہ اس کا اشتہار شان چچا بنا رہے تھے، اور انہوں نے یہ جملہ دیا تھا، ’ریڈ اِٹ، یو نیڈ اِٹ۔‘عجب اتفاقات تھے۔ ہم سب کے اب بھی بہت اچھے تعلقات ہیں اور ہم سب واٹس ایپ پر ایک گروپ ’حلقئہ ارباب‘ میں ساتھ  ہیں۔

شایان بتاتے ہیں، شان چچا نے ستمبر 1977 میں ٹی وی سے سبکدوش ہو کر اپنے دوست سلطان محمود صاحب کی کمپنی  یونائیٹڈ ایڈورٹایزنگ میں بحیثیت کریئٹِو ڈائریکٹڑ کے کام کرنا شروع کیا- یونائیٹڈ مالی زبوں حالی کا شکار تھی شان چچا کے آتے ہی اُس میں بہتری آنی شروع ہوگئی تھی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے لیے  شان چچا کے تخلیق کردہ  جِنگل، ’اے خدا میرے ابو سلامت رہیں‘ پر یونائٹڈ کو 12 کروڑ روپے کا اشتہاری بجٹ مل گیا تھا۔

حقّی صاحب اپنی بھول جانے کی وجہ سے مشہور تھے۔ انہیں اس بات کا احساس بھی تھا اور شاید اسی لیے انہوں نے ایک نظم ’بھائی بھلکڑ‘ لکھی تھی۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بعض لوگ اس وجہ سے بھلکّڑ ہوجاتے ہیں کیوں کے ان کے ذہن میں معلومات بہت زیادہ جمع رہتی ہے، ایسے لوگ روز مرّہ کے کاموں میں بھول دکھانے لگتے ہیں۔ آنند صاحب کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، حقّی صاحب اکثر شام کو ان کے گھر چلے جاتے تھے۔ واپس بس سے آتے تھے، تو اگر آنند صاحب کچھ کتابیں انہیں دیتے تو وہ بس میں ہی بھول جایا کرتے تھے۔ ایک دو بار کے بعد آنند صاحب پھر انہیں اپنی گاڑی میں چھوڑنے لگے تھے۔ یہاں بہت نہیں لیکن کچھ واقعات جو میرے والد اور بھائی کے ذاتی مشاہدے میں آئے وہ ضرور لکھنا چاہوں گا۔

میرے بھائی سیف بیان کرتے ہیں، وہ ایک بار ہمارے امّی بابا کو لے کر کہیں جا رہے تھے کہ ناظم آباد  کی پیٹرول پمپ چورنگی کے پاس دیکھا کہ ایک واکسہال کار کی ڈگی پر ایک بریف کیس رکھا چلا جا رہا ہے۔ بابا نے کہا، ہو نہ ہو یہ شان صاحب ہیں۔ جب قریب جا کر دیکھا تو وہی تھے۔

شان چچا پی ٹی وی سیلز آفس،شفیع کورٹس، میں کلب روڈ پر، کراچی جیمخانہ کے عقب میں کام کرتے تھے۔ یہ میرے والد کے دفتر، امریکن ایمبیسی، عبداللّہ ہارون روڈ، جہاں وہ یو ایس آئی ایس کے چیف ایڈیٹر تھے، سے بہت قریب تھا۔ وہ اکثر دوپہر کے کھانے کے وقت شان چچا کے پاس چلے جاتے تھے۔ ایک بار جو گئے تو دیکھا کہ شان چچا کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ میرے والد نے پوچھا   کہ، کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔ تو انہوں نے بتایا کہ، چپراسی والی گھنٹی اِدھر اُدھر ہوگئی ہے، اسے بلانا ہے کہ وہ آکے  ڈھونڈ  دے۔

ایک آخری لطیفہ اور بیان کرنے دیں۔ ایک بار ہمارے والد شان چچا کی گاڑی میں کچھ شعرا کے ساتھ رات کے وقت، غالباً مشاعرے سے، آ رہے تھے۔ بیٹھے ہوئے اصحاب میں کوئی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ گاڑی ایک بس کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی۔ کچھ عرصہ گزر گیا اور وہ لوگ بحث میں الجھے رہے کہ ایک آدمی آیا اس نے پوچھا، کیوں کھڑے ہیں، جب اسے بتایا کہ، بس چلے تو چلیں۔  اِس پر اُس نے بتایا کہ، یہ بس کہیں نہیں جانے کی کیونکہ یہ اینٹوں پر کھڑی ہے۔

شان چچا اور ہمارے بابا بہت بے تکلف دوست تھے۔ ایک بات مجھے نہیں بھولتی وہ یہ کہ ایک بار شان چچا کی ڈفنس رہائش گاہ پر ایک چھوٹا سا مشاعرہ تھا، میں بھی والدین کے ساتھ گیا ہوا تھا، بحیثیت ڈرائیور، مشاعرہ ختم ہونے پر شان چچا نے اپنی تین چار کتابوں کا بنڈل سب کو ہی بانٹا، میرے والد کو نہیں دیا۔ جب انہوں نے مانگا تو حقّی صاحب نے برجستہ سوال کیا، آپ نے کبھی میری کوئی کتاب خریدی؟ بعد میں انہیں کتابیں دے تو دی تھیں ، البتہ اس دن  میں نے تہیّا کیا کہ میں شان چچا کی کتابیں ضرور خریدوں گا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی مرتّب کردہ ’فرہنگِ تلفظ‘ آئی تو میں نے اردو بازار سے خریدی اور وہ ایک تقریب میں تھے تو میں وہاں پہنچ گیا، انہیں دکھائی، وہ بہت خوش ہوئے اور اپنے دستخط سے مجھے نوازا۔ وہ اب میرا گویا سرمایہ ہے۔

حقّی صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز حکومتِ (غیر منقسم) ہندوستان  کے لیے بحیثیت مترجم  اور براڈکاسٹ مانیٹر کے شروع کیا۔ وہ اگست1947 میں پاکستان آگئے تھے۔  پہلے لاہور رکے، کچھ عرصہ رہے پھر کراچی آگئے۔  کراچی میں وہ محکمئہ اطلاعات و نشریات میں  ڈپٹی  ڈائریکٹر  محکمئہ اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی حکومت پاکستان رہے۔ اور رکن سابق انفارمیشن سروس آف پاکستان رہے۔ ملازمت کے آخری دس سال نیابت پر پی ٹی وی میں جنرل مینیجر سیلز رہے، پھر ڈائرکٹر سیلز کی ترقّی کو منع کرکے جنرل مینیجر سیلز ہی رہنا پسند کیا، اور اسی سے سبکدوش ہوئے؛ ڈائرکٹر سیلز کے رتبے کے لیے اسلام آباد جا کر رہنا پڑتا، وہ کراچی ہی میں رہنا پسند کرتے تھے، سبکدوش ہو کر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے انہوں نے یونائٹڈ ایڈورٹائذر  کے ساتھ کام شروع کیا۔

حقّی صاحب کی چند تصانیف و تالیفات یہ ہیں: ’انتخابِ ظفر‘، ’انجان راہی‘ (ترجمہ امریکی ناول)، ’تارِ پیراہن‘ (نظیں) ’دل کی زبان‘(نظمیں) ، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے‘(نظمیں)، ’نکتئہ راز‘ (تنقیدی مقالات)، ’فرہنگِ تلفظ (لغت)، ’آپس کی باتیں‘، ’افسانہ در افسانہ‘ (خود نوشت سوانح)، ’حرفِ دل رس‘، ’آکسفورڈ انگریزی اردو لغت‘، اور ’شاخسانے‘۔ وہ 1950 سے 1968 تک ’ماہِ نو‘ کراچی کے مدیر اعلیٰ رہے۔ اس رسالے کے بہت سے شمارے ریختہ کی وبگاہ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ پاکستان آرٹس کونسل، کراچی، کی مجلسِ انتظامیہ کے رکن بھی رہے۔

شان چچا کی دیکھ بھال ان کے سب ہی بچّوں اور بہوئوں نے کی۔ وہ عدنان کے ہاں رہتے تھے تو انہیں اللّہ  نے ماں باپ کی خدمت کا موقع زیادہ دیا۔ اللّہ ان سب کو اس بات کا اجر دے۔

شان چچا کے آخری دن اسپتال میں گزرے، وہ ایک عرصے سے پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ اس عالم میں بھی انہیں اپنے کام کے ختم کرنے کا خیال تھا۔ شایان بتاتے ہیں کہ انہیں درد کی دوا دی جاتی تھی، ایک دن شایان کی بیگم، جو ڈاکٹر ہیں،  سے انہوں سے کہا کہ،  یہ دوا لینا انہیں پسند نہیں ۔ ان کی بہو نے کہا، کہ وہ اسے لیں اس سے فائدہ ہی ہوگا۔ اگلے دن جب وہ آئیں تو شان چچا نے کہا کہ، ’آج نیند بھی اچھی آئی اور میں نے کام بھی زیادہ کیا۔‘ ان کے لیے خود اپنی صحت سے زیادہ کام اہم تھا تو انہوں نے کبھی اس طرف توجّہ نہیں دی۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے یقیناً ان کا کام انہیں زندہ رکھے ہوئے تھا، لیکن آخر کب تک۔ مرنا تو برحق ہے، صرف ایک بہانہ چاہیے۔ ان کے آخری وقت میں ان کے بیٹے شایان ان کے ساتھ تھے اور انہیں علاج والے وارڈ سے لاعلاج والے وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ شایان نے  ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کہا کہ، ’اس معاملے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔‘ اس پر شان چچا نے کہا، انہیں افسوس رہے گا کہ جو کام لغت کا وہ کر  رہے ہیں وہ ادھورا رہ جائے گا۔

میری کوئی بساط نہیں کہ میں حقّی صاحب یا اور کسی دانشور کے کام پر تنقید کروں۔ یہاں البتہ جو میں نے حقّی صاحب کو پڑھ کر سمجھا وہ چند سطروں میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

حقّی صاحب کا تمام انسانوں کو یکساں سمجھنا اس شعر سے واضع ہے،

بیر ہی رکھتا مجھ سے صنم

ہوتا گر ہندو بھی میں

ہم ایک دوسرے پر الزام لگانے سے باز نہیں آتے؛ غلطی کسی کی ہو اور سزا کسی کو ملتی ہے۔ مجھے تو ان کا یہ شعر نوحہ  ہی لگتا ہے:

نہیں ہے چشمِ فطرت میں کوئی پھول

زمیں کی کوکھ کا جا یا حرامی

اللّہ ہماری قوم کو حقّی صاحب اور ان جیسے دانشور عنایت کرتا رہا ہے۔ اب ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی خاص وجہ تعلیم کے شعبے سے لاپرواہی ہے۔ نومبر 2022 کی  پاکستان  میں تعلیم پر روداد  پڑھ کر رونا آتا ہے کہ تعلیم کا یہ حال ہے۔ ہمارے کتنے ہونہار ٹائروں میں پنکچر لگا رہے ہیں کہ گھر میں چراغ جلتا رہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ رہبروں کا کیا دھرا ہے، اگر ایسا ہے تو رہبروں کا کیا معیار ہوگا۔ حقّی صاحب کہہ گئے ہیں:

سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی

چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی

***

Leave a Reply