You are currently viewing ’’یاد تنہا کبھی نہیں آتی“کافنی و فکری جائزہ

’’یاد تنہا کبھی نہیں آتی“کافنی و فکری جائزہ

محمد یاسین گنائی،پلوامہ

’’یاد تنہا کبھی نہیں آتی“کافنی و فکری جائزہ

         جنوبی کشمیر کی ایک ہونہار شاعرہ اور ضلع کلگام کی اکلوتی اردو شاعرہ شبینہ آرا پٹھان کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ایک طرف جموں کشمیر مرازکمراز اکادمی نے ان کو وسیع پیمانے پر پلیٹ فارم مہیا کیا اور وہ آئے روز سوشل میڈیا خصوصاً فیس بُک کی وساطت سے مشاعروں کا اہتمام اور ادبی شخصیات کا انٹرویو لیتی نظر آتی ہیں،لیکن کہانی کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ شبینہ آرا نے جے کے مراز کمراز اکادمی کی شہرت میں وہ چار چاند لگائے ہیں کہ عصر ِحاضر میں شبینہ اور اکادمی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ شبینہ کا شعری مجموعہ ” یاد تنہا کبھی نہیں آتی ” ان کی دو عدد نعت، اکاون غزلیات، اُنسٹھ آزاد و نثری نظموں اور چار عدد غزلوں کے متفرق اشعار کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ ایک بات جو میری طرح کچھ قارئین کو کوفت میں ڈال سکتی ہے کہ بڑی محنت اور چابک دستی سے تمام نظموں کے عنوانات اور غزلوں کا مصرع اولیٰ فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن ترتیب کے حوالے سے ایک غزل ایک نظم، دو غزلیں پھر تین نظمیں دے کر قاری کے ذہن میں جوفنی و فکری خیال پیدا ہونا چاہیے، وہ مشکل سے ہوپاتا ہے۔حمد،نعت ،نظم ، غزل اورآخر میں متفرقات کارواج ہمارے کلاسیکی شعرا سے عصر حاضر تک کے تمام بڑے شعراءکے مجموعہ کلام میں ملتا ہے۔

         بہر کیف زیرِ نظر مجموعہ ایک قابل مطالعہ شعری مجموعہ ہے اور اس کو پڑھ کر نہ صرف مزا آتا ہے بلکہ واقعی ایک منفرد شعری مزاج کو پڑھنے کااحساس بھی ہوتا ہے۔کتاب کی اشاعت کے بعد مصنف یا شاعر کو خود ہی چند خامیوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے، لیکن اس مجموعے میں اِملا، تذکیر و تانیث، واحد جمع اور پروف کی خامیاں نا کے برابر ہیں۔ شبینہ آرا ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ایک معلمہ بھی ہے، لہٰذا مولانا حالی کے ” مقدمہ شعر و شاعری” میں اچھے شاعر اور اچھے شعر کی خوبیوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور تفحصِ الفاظ کی مناسبت سے ان کے کلام میں گلدان، منسلک، طاقچوں، مقتل، یخ بستہ، یزیدیت، جھلسنا، پوٹلی، کشکول وغیرہ خوبصورت الفاظ اور کنجِ قفس، آسیبِ جفا،ریاست ِدل، تشہیرِ درد، حروفِ وداع، مطلعِ غم، خوفِ تنہائی، ناطقِ قرآن، عہدہِ خدائی، حرمتِ کشمیر جیسی تراکیب بھی ملتی ہیں۔ان کے کلام میں لفظ ” رتجگا” کچھ ایسی شان اورکثرت میں ملتا ہے جیسے میر کے کلام میں لفظ ” چاک گریباں ” کا ورد ملتا ہے۔ چند اشعار نمونے کے طور پر…..

ہے اعتراف کہ دار و رسن کے قابل ہوں

کہ رتجگوں کے تلے اب بھی خواب بنتی ہوں

رتجگا بے نیاز کیا جانے

نیند، شب اور خواب کی قیمت

شب گزیدہ ہے شبینہ اس پہ یوں ہنسنا نہیں

رتجگوں میں تو بھی اک دن مبتلا ہو جائے گا

شبینہ کی فکر و نظر میں ماں ایک اہم موضوع کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یوں تو کلاسیکی شاعری سے جدید شاعری تک ماں ایک خوبصورت اور دلکش موضوع کی حیثیت رکھتی ہے۔کبھی ماں کی ممتا بیان کی جاتی ہے اورکبھی تانیثی شعور کے تحت ماں بطور صنف ِنازک پیش کی جاتی ہے۔ نظم” جنت کی مالکن” میں ماں کی تکالیف کا ذکر کیا ہے اور اس بات کو ظاہر کیا ہے کہ ایک بچہ والدہ کی تکالیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا ہے۔ ماں کے حواکے سے چند اشعار

جلنے نہ پائے دھوپ میں بکھرا ہوا وجود

ماں کی دعا نے سایہ دیوار کر دیا

بچا رہی ہے اندھیرے سے ہم کو ماں کی دعا

جھلستی دھوپ میں سایہ کیے شجر بھی وہی

ہمیں تو ماں سے مقدر ملا وراثت میں

اِدھر بھی درد کا صحرا عیاں اُدھر بھی وہی

تانیثی شعور کی باریک مگر تیزگام جھلکیں بھی ان کے کلام میں ملتی ہیں۔ ان کے تانیثی شعور میں پروین شاکر کی جھلک ملتی ہے، البتہ فرق واضح نظر آتا ہے کہ شبینہ کے انداز میں حقیقت اور عملی تجربات کے برعکس تخیل اور رسمی انداز ملتا ہے جبکہ پروین شاکر کے کلام میں یہ شعور اپنے تمام تر گھاﺅ اور تجربات کی شکل میں ملتا ہے۔ چند اشعار

میرا کردار غائب ہورہا ہے

نکالی جارہی ہوں داستان سے

میں عورت ذات ہوں قسمت سے مجھ کو

سدا ملتی رہی نقل مکانی

جلتے صحرا میں پانیوں کی طرح

اب بھی اپنوں میں اجنبی ہوں میں

کانٹوں سی بیٹیوں کو تحفے میں

پتھروں کا لباس بانٹوں گی

پھر بچھڑتے وقت سب چیزوں کا بٹوارہ ہوا

ساری خوشیاں آپ کی اور غم ہمارے رہ گئے

نہ اب ہوگی کبھی شامِ غریباں

نہ جانے کب مرا خیمہ جلا ہے

رثائی ادب میں مرثیہ نگاری اورنوحہ خوانی دو اہم اصناف ہیں۔ شبینہ نے اہل بیت رسول کی شجاعت و بہادری کا تذکرہ کیا ہے اور کربلا میں یذیدی فوج کے ذریعے شہدائے کربلا کے ساتھ کیے جانے والے انسانیت سوز اور انانیت پرست مظالم کا بھی ذکر کیا ہے۔ چند اشعار

بے بسی کی شام کو جب مختصر لکھنا پڑا

درد کے صحرا میں شامِ کربلا لکھتی رہی

زینب کی بے بسی تھی ہر اک موڑ پر عیاں

دربار اک ریا کا تھا، زندان اور شام

آل نبی پہ بار مصائب یہی تو تھے

نیلا ب و دشت تشنگی، پیکان اور شام

آو حسینِ وقت کو آواز دیں سبھی

ہرجا یزیدیت کو بھی رسوا کیا کریں

کسی فرد کا مادی طور پر امیر ہونا یا غریب ہونا انسانیت کی پہچان نہیں ہے، بلکہ مادی طور پر مستحکم شخص اگر غربت، مفلسی، بے روزگاری اور مفلوک حال لوگوں کی عکاسی اور ان کے حقوق کی آواز بلند کرے اور ان کی بازیابی کے لیے لڑنا ہی اصل انسانیت کی پہچان ہے۔ ترقی پسند تحریک کا خاتمہ اگر چہ 1956 میں ہوچکا ہے،لیکن عملی طور پر آج کے ادب میں بھی ترقی پسند خیالات یا نیا ادب کے حوالے سے نظریات ملتے ہیں۔ شبینہ نے بھی موجودہ مسائل خصوصاً بے روزگاری، غریبی وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ چند اشعار

جانے کس قید میں یہ آدم ہے

بستیوں میں کہیں پہ غار نہیں

آدھی بستی کو ہجر نے مارا

اور آدھی کو روزگار نہیں

آج لکھیے گا چاہے کل لکھیے

مسئلوں کا کوئی تو حل لکھیے

فن کی بات کریں تو غزل میں بنیادی اجزاءکے ساتھ ساتھ عام فہم بحروں کا بھی خیال رکھنا لازمی ہے لیکن شاعر کا کمال اس میں ہوتا ہے کہ کن نئے تجربات کی پیش رفت کی ہے اورغالب کی طرح جدت طرازی میں سو فیصد مختلف راہ نکالنا نہ سہی مگر ادب کو ہر دن، ہر ادیب یا شاعر اور ہر کتاب سے آگے کی راہ ملے نہ کہ پرانی پگڈنڈیوں پر چلتے رہنے میں کامیابی ہے اور نہ مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence) میں طرہ امتیاز حاصل کرنے میں کامیابی ہے۔ بہرحال شبینہ نے اپنی بساط اور تجربات کی بنیاد پر کچھ نئے تجربات بھی ضرور کیے ہیں۔ مطلع میں ذوالقوافی کا اہتمام واانتظام یوں کیا ہے….

تنہائیاں، یہ درد جگر اور، تیری یاد

خاموشیاں، چراغ سحر اور تیری یاد

اسی طرح ایک غزل میں مومن کی طرح آدھے سے زیادہ مصرع بطور ردیف و قافیہ استعمال کیا ہے۔

میرے خوابوں میں آجاو، مجھے کچھ بات کرنی ہے

کبھی آنکھوں میں آجاو مجھے کچھ بات کرنی ہے

شبینہ نے صنعت تلمیح، تکرار ،مراة النظیر، تضادوغیرہ کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ چند مثالیں

شہر کنعان میں یوسف کو ابھی خطرہ ہے

بھائی باقی ہیں وہاں اور کنواں باقی ہے

( تلمیح)

خاک ہوں اور خاک ہونا ہے

خاک کو خاک میں ہی سونا ہے

( تکرار )

پھول، ثمر، چڑیا سب چھوٹے

پیڑ کو پھر سے تنہا لکھنا

(مراةالنظیر )

ایک شاعر میں انسانیت اور حب الوطنی کا جذبہ ہونا چاہیے کیونکہ شاعر کوئی عام انسان نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے عہد کا راوی اور اپنے وطن کا سفیر بھی ہوتا ہے۔وہ اپنے ہم وطنوں کو وطن کی عظمت بخوبی سمجھا سکتا ہے. شبینہ کے زیر نظر شعری مجموعہ میں وطن کی یاد، اہل وطن کی یاد، اپنے وطن کی فضائیں، رونکیں، صبحیں اور شامیں بھی ملتی ہیں۔ چند اشعار

جھلس رہا ہے کڑی دھوپ میں چمن میرا

میں کیا کروں کہ صبا دسترس سے باہر ہے

ہم اسی جنت میں دوزخ جی رہے ہیں آج تک

کیا پتہ کس کے لیے محشر بپا ہوجائے گا

کس نے ہمارے شہر کو کوفہ بنا دیا؟

میرا سوال بس اسی شہرِ وفا سے ہے

آبرو، پاکیزگی اپنی جگہ

حرمتِ کشمیر ہے الجھی ہوئی

اچھی شاعری میں جہاں اچھے موضوع اور اچھے خیال کی اہمیت ہوتی ہے، وہاں خوبصورت، فصیح و بلیغ لفظیات اور تراکیب بھی معنی رکھتے ہیں۔جہاں تک حالی کے مطالعہ کائینات کی بات ہے تو اس صلاح پر بھی پوری اُترتی نظر آرہی ہے۔ ان کی نظم” مجھے زنجیر مل جاتی” میں رتن سنگھ کے افسانہ ” من کا طوطا” کا خیال ملتا ہے۔ رتن سنگھ کا” من کا طوطا” اور شبینہ کا” دل کا پرندہ” دونوں آزاد ہیں، دونوں انسان کے قابو میں نہیں ہیں،من کا طوطا رات کو نکلتا ہے اور صبح سویرے کوئی حادثہ کرکے واپس قالب میں آجاتا ہے، جبکہ شبینہ کا پرندہ نئے پیڑوں کی نئی شاخوں پر جھومتا رہتا ہے۔ چند اشعار

میری جھکتی نگاہوں میں

کہ تو اک طایر آزاد

ہر پل گھومتا کیوں ہے

نئے پیڑوں کی شاخوں پر

تو سیدھے جھومتا کیوں ہے

اگر درویش دل میرا

کسی شب ٹوٹ کر

کوئی دعا کرتا

مجھے زنجیر مل جاتی

تجھے میں قید کر لیتی

زیرِ نظر مجموعہ میں کل اکاون غزلیات ملتی ہیں، جن میں موضوعاتی تنوع جابجا ملتا ہے۔ غزلوں کا ایک خاص حصہ شاعرہ کے درد و غم، پریشانی، فکر ِذات و ذکر کائینات، داستان ِموت و حیات، وصل و جدائی پر محیط ہے۔کبھی وقت سے مخاطب ہو کر اپنی پریشانی بیان کرتی ہے، تو کبھی کتاب اور زندگی کو ہم کلام کراتی ہے اور بات غم و الم کی ہوتی ہے۔ غم کو میر کی میراث نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر انسان میں کسی نہ کسی بات کا، کسی چیز، کسی رشتے کا، کسی دنیاوی خواہش کے پورا نہ ہونے کا، اپنوں کے بے وفا ہونے اور رشتوں کی کدورت کا غم ضرور ملتا ہے۔ غم و الم دراصل ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہے اور انسان کیسے ان سے نبھا کرتا ہے، یہ الگ بات ہے۔چند اشعار۔۔

میرے وقت! تو بھی ہے رقص میں

کبھی گھنگھروں کو اتار دے

میری کتاب کا عنوان زندگی ہے مگر

اداس سب کے اوراق، باب آزردہ

خواب کی تعبیر الجھی ہوئی

نیند کی جاگیر ہے الجھی ہوئی

داغ جگر سے آنکھ کا کاجل بنا دیا

میں اپنی داستاں کی اداکار ہوگئی

کوئی مرکز کوئی مدار نہیں

سانس لینے پہ اختیار نہیں

ساری دنیا سے دور رہ کر بھی

کیا غموں سے فرار ممکن ہے؟

میرے اوراق دیمک کھا گئے ہیں

کہ میں بھولی ہوئی اک داستاں ہوں

غزلوں کی طرح درجنوں نظموں میں بھی درد و غم، جدائی اور پریشانی کا ذکر ملتا ہے. ایک نظم(193)میں شاعری کو محبت کی تفسیر قرار دیا ہے لیکن ستم ظریفہ یہ ہے کہ ان دنوں شاعری بھی زنگ آلود ہے۔ ” کوئی کاندھا نہیں میسر ہے” میں اپنائیت کی کمی کا اظہار کیا ہے اور یہاں بھی غم کی شدت ملتی ہے۔ ” معتبر قاتل” میں دوست کو اپنی نظموں

 اور غزلوں کا دشمن قرار دیا ہے۔ ” اے موت ذرا مہلت دے دے” میں اس سانس کو لینے کے لیے مہلت مانگی جارہی ہے جس پر زندگی اٹکی ہے۔ ” ہوں شب گزیدہ جنم جنم سے” میں زندگی کا موازنہ بستر کی سلوٹوں سے کیا ہے۔ ” پیش خیمہ ” میں ریت کی شکل میں دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ ” مشقت” میں سانس لینے اور زندگی جینے کو بھی مشقت قرار دیا ہے۔.” طلسمی قصے” میں جہاں خوابوں کا ذکر ہے،وہاں” تمہاری خاطر“ میں نااُمیدی ملتی ہے۔”سانحہ“میں بھی جدائی، درد و غم کا سانحہ نظر آتا ہے. ” میں تو موسم کی ہم سفر بھی نہیں ” میں خزان زاد برگِ بے کس سے خود کی تشبیہ دی ہے۔ اور کہا ہے کہ میری طرح خزاں کے پتے کہاں برف، سردی اور دیگر مصیبتوں کو برداشت کریں گے اور موسم بہار میں نمودار ہوں گے۔’ دیمک” بطور استعارہ ہتھیار استعمال کیا ہے اور جو دیمک آج شاعرہ کا ہاتھ چاٹ رہا ہے تو کل محبوب کا درودیوار بھی چاٹ سکتا ہے. ” فرشتو” میں نکیر و منکیر سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مجھ پر گویا صنف نازک کے نازک کاندھوں پر پہلے ہی طرح طرح کے بوجھ ہیں اور تم ذرا دیر نیچے اتر کر بوجھ ہلکا کردوں. دوسری طرف نظم ” کوئی کاندھا نہیں میسر ہے”میں پہلی نظم کے بالکل متضاد خیال پیش کیا ہے کہ غموں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کوئی کاندھا، کوئی آسرا نہیں ہے۔ ایک بلا عنوان نظم میں اپنا تجربہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ثمردار سایہ کی تلاش میں زیادہ محنت لگتی ہے اورایسا سفر بہت کٹھن بھی ہوتا ہے ۔ ”تکلیف” بھی غم کی ایک شکل ہے اور صحرا جہاں چرند پرند پانی اور زندگی کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے وہاں خدانخواستہ اگر کبھی سفر کے دوران تیز آندھی کے سبب قدموں کے نشان مٹ جائے تو یہ بھی تکلف اور موت کی علامت ہوتی ہے. ” تم ہی راستہ ہو تم ہی منزل ہو” میں ہم سفر کو ہی رہبر، رازدار، دل کا بادشاہ قرار دیا ہے. ” ” مجھے احساس ہے ” کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں اللّٰہ

تعالیٰ کی عظمت و شان بیان کی ہے اور دوسرے حصے میں اپنی بدقسمتی کا ذکر کیا ہے۔نمونے کے طور پر چند اشعار

شاعری ہی محبت کی تفسیر تھی اب وہ تفسیر بھی زنگ آلود ہے(ص:193)

کبھی کبھی جبمیں اپنے بسترکی سلوٹوں پہ نظر جھکا کریہ سوچتی ہوں

کہ یہ بھی میرے نصیب کی ہر شکن کی طرحاُلجھ اُلجھ کے اُلجھ چکی ہیں(ص:56)

میرے ہاتھوں کی دیمکیں اک دندر تیرا چاٹنے نہ لگ جائیں

اس سے پہلے کوئی مداوا کر(ص:165)

کوئی سازش پنپ رہی ہے کہیںکوئی دیوار بن رہی ہے کہیں

مجھ کو دیوار میں نہ چنوادیںمیں محبت کا نام لیتی ہوں(ص:175)

         زیر نظر شعری مجموعہ میں نظمیہ اشعار کے حوالے سے ایک بڑامگر پر مغز حصہ تانیثی رجحان، حقیقت نگاری، منظر نگاری، تقابلی و موازناتی انداز، استعارہ، تشبیہ، علامت نگاری وغیرہ پرمشتمل ہے۔ نظم ” آپریشن تھیٹر ” میں حقیقت نگاری اور پیکرتراشی ملتی ہے۔ ”یاد تنہا کبھی نہیں آتی “ جس سے کتاب کا عنوان بھی منتخب کیا گیا ہے کی قرات سے محسوس ہوتا ہے کہ 1990 میں منظر عام پر آنی والی کتاب” مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی “ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔”اور کہانی کی یوں ابتدا ہو گئی “میں تلمیحات کا اثر سر چڑھ کر بول رہا ہے، اس میں تاریخی انداز میں تسلسل کے ساتھ حضرت آدم سے حضرت امام حسین تک مسلمانوں کے عروج و زوال کا ذکر کیا ہے۔ آدم کی ولادت، قابیل کا ہابیل کے ہاتھوں قتل،حضرت محمد کی ولادت اور دنیا میں نور کا پرتو، امن و استحکام اور حضرت امام حسین کی شہادت کو اشاروں و کنایوں سے بیان کیا ہے۔ یوں نظم سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں تا قیامت ظالم و مظلوم،اندھیرے اوراُجالے کی جنگ جاری رہے گی۔نظم” Finder View” میں منظر نگاری کی عمدہ مثال ملتی ہے، ” بدنصیبی ” میں استعارات کی شکل میں کلی اور بھیڑ بمعنی صنف نازک اور درندہ صفت انسانوں کا ذکر کیا ہے۔ ضحاک ”ایک علامتی نظم ہے، ضحاک دماغ کھانے کا شوقین ہے مگر شبینہ سوال کرتی ہے کہ ایسے دماغ کابچنا یا بچانا کیا معنی یا فائدہ رکھتا ہے جب اس کا صحیح استعمال ہی نہ کیا جائے۔ چند اشعار

کب معصوم کلیوں کو وہ سبپیروں کے نیچے روندلیںیہ خبر ہر بار سُرخی بن گئی

کس طرح گلچیں بھیڑیوں نےباغ کی معصوم کلیوں کو مسل کے رکھ دیا(ص:123)

دماغ کھانے کی بھوک ان کینہ مٹ سکی ہے نہ مٹ سکے گیچلو دماغوں کو بیچ ڈالیں

تبھی رو کچھ پل رہیں گے زندہدماغ تو بچ نہیں سکیں گےچلوں سروں کو ہی لاج رکھ لیں(ص:126)

تانیثیت کی تحریک نے خواتین قلمکاروں کے لیے کم از کم یہ تو سمجھایا ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے خود ہی آواز بلند کرنا سکھیں،کیونکہ مرد اساس معاشرے میں بہت کم مرد آپ کے حقوق کی آواز بلند کرنے میں دلچسپی دکھائیں گے۔عورت جو زمانہ قدیم سے ہی قید وبند کی زندگی گزاررہی تھی اور وہ اپنی تکالیف ظاہر کرنے تک کی اہل نہیں تھیں،اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے لڑنا تو دور کی بات ہے۔عصرحاضر میں کسی حدتک دینی اور دنیاوی لحاظ سے مرداور عورت کسی حد برابری کی سطح پر آچکے ہیں۔تانیثی تحریک کا مقصد یہی ہے کہ صنفِ نازک کے مسائل مختلف سطحوں پر نظر آتے ہیں،لہٰذا ان مسائل کو حل کرنے اور ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تانیثیت کی مختلف جہتوں پر مثلاً آزاد خیال اور روشن خیال تانیثیت،شدت پسند اور ترقی پسند تانیثیت،مادیت پرست تانیثیت اورسوشلسٹ تانیثیت،سماجی ومعاشی تانیثیت وغیرہ کے حوالے سے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین قلمکاروں نے بھی بہترین کام کیا ہے۔تانیثیت کی ان مروجہ جہتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے شبینہ نے بھی مختلف مسائل کی طرف اشاروں،کنایوں ،علامتوں اور اعلاناً ذکر کیاہے۔انہوں نے نظمLady Working میں ایک ملازم پیشہ عورت کی کہانی بیان کی ہے، کہ گھر اور دفتر کی مصروفیات کے باوجود بھی مرد ان کو کسی کھاتے میں نہیں رکھتے ہیں۔ایک ملازم پیشہ خاتون کی زندگی گھر اور دفتر میں سمٹ کر رہ جاتی ہے، پھر بھی وہاں اور یہاں احساس کمتری کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ تخلیق ” ایک موازناتی نظم ہے جس میں مردوں اور عورتوں کی عقل کا موازنہ کیا گیا ہے، اگرچہ طنزیہ انداز میں مرد کو عقلمند قرار دیا ہے لیکن اشاروں اشاروں میں انہیں احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ تم اتنے عقل مند ہونے کے باوجود کس منہ سے کہتے ہو کہ جاہل اور کم عقل عورت نے ہمیں بہکایا ہے۔ ایک کم عقل کیسے کسی عقل مند کو بہکا سکتی ہے۔” یہی اک داغ” میں ڈرامائی انداز اپنایا ہے، جہاں ایک لڑکی شادی کے زیورات اجلوانے کے بعد نئے زیورات پہنتی ہے، کیا ایک بدقسمت، بد نصیب اور تقدیر کا مارا اپنی بد نصیبی اجلوانے کے بعد اپنے داغ مٹا سکتا ہے۔ ”سرشام” میں کمال کی منظر نگاری اور دلکش علامت نگاری ملتی ہے، ایک نڈر انسان ظلمات اور اندھیرے کا سامنا کرنے چاندی کا لباس پہن کر نکل تو جاتا ہے لیکن سورج کی تیز روشنی کے سبب چاندنی لباس کا دبدبہ ختم ہوجاتا ہے، جب انسان کی قسمت خراب ہوتی ہے تو بد دعا کے سبب بارش بھی بند ہوجاتی ہے اور اس حادثے کے سبب ریت پر لکھے خوبصورت مناظر بھی برقرار رہتے ہیں اور یوں ان تمام پریشانیوں کو دیکھ کر آنکھیں خودکشی کرنے لگ جاتی ہیں. “دعائیں تو کرتی ہوں میں بے تحاشا”میں قرآن و سنت کی تفسیر بیان کی ہے کہ دعا کی قبولیت کی شرط دل کا پگھلنا اور آنکھوں سے آنسووں

¿  کی لڑی جاری ہونا ہے، لیکن ہر انسان کی طرح شبینہ کو اللہ تعالیٰ جو غفور الرحیم ہے وہ پتھر دل انسان کا دل بھی موم بنا سکتا ہے اور اپنے معجزات سے بدکار و گناہ گار انسان کے دل کو بھی صاف و شفاف کرسکتا ہے اور اسلامی تواریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ “اس زمین پر آ” میں ایک طرف ترقی پسندی اور دوسری طرف تانیثیت نظر آتی ہے، کیونکہ شاعرہ اللہ تعالیٰ سے جو مختار کل ہے سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ تیری اس زمین پر سب خدا بن بیٹھے ہیں۔ “منجمد” بھی ایک تانیثی شعور والی نظم ہے اور شاعرہ مرد اساس معاشرے میں رہتے رہتے اور ان کے مظالم سہتے سہتے منجمد ہوچکی ہے اور اب وہ کسی کی باتوں میں آنی والی نہیں ہے اور نہ پگھلنے والی ہے بلکہ مظالم ڈھانے والوں کو ہی منجمد کرسکتی ہے۔ اس نظم میں مشرق کے مقابلے میں مغربی طرز کا تانیثی شعور ملتا ہے۔

کیسے ممکن ہے اے مرے خالقعقل ودانش کے اس مجسمے کوکوئی حوا حقیر بہکائے(ص:132)

میری تاثیر گلیشیر جیسی ہے مجھے چھونے کی غلطی مت کرناکہ میں پگھل نہیں سکتی

پرہاںترے ہاتھ اور تیرا وجودسب منجمد ہوجائے گا(ص:189)

         زیر نظر شعری مجموعہ کے فنی لوازمات کی بات کریں تو شاعرہ نے عام فہم ردیف و قافیہ کے ساتھ کچھ نئے، انوکھے اور حیران کن قافیہ بھی استعمال کیے ہیں،جیسے قرآن،دیوان،زندان،پیکان؛غلاموں،امتحانوں،

میزبانوں،جہانوں،تعبیر،جاگیر،زنجیر،کشمیر؛سہیلی،اکیلی،چنبیلی،پہیلی؛ستارے،اشارے،کنارے،سہارے،

گزارے وغیرہ۔ انہوں مردف کے ساتھ کچھ غیر مردف غزلیں بھی موزوں کی ہیں جیسے۔۔

کسی راجا کی اک معزول رانی

یہی تو ہے میری پوری کہانی

میری آنکھوں میں کالے زرد حلقے

تمہارے ہجر کی اعلیٰ نشانی

 نظم”“ میں بارہ ماہ کا طرز اختیار کیا ہے، بارہ ماسہ میں اگرچہ محبوب کی جدائی میں بارہ مہینوں کا کرب بیان کیا جاتا ہے لیکن شاعرہ نے ایسی کیفیت بیان کی ہے کہ وہ مختلف پیکروں میں محبوب کے سامنے اور محبوب کی خاطر پیش خدمت رہنا چاہتی ہے۔ چند اشعار

کہ چاند بن کر میں تیرے آنگن

کے سب اندھیرے نگل ہی لوں گی

میں خواب بن کر جو تیری نیندوں

کی سلطنت میں عیاں رہوں گی

کہ صبح بن کر چمکتے سورج کی روشنی میں

عیاں رہوں گی

 شبینہ نے شعری اصناف کی خوبیوں کے حوالے سے بھی اشعار موزوں کیے ہیں اور نہ صرف نظم اور مرثیہ بلکہ غزل اور کے اجزاءکو بڑی خوبصورتی سے زندگی کے اجزاءسے تشبیہ دی ہے۔ چند اشعار…

ہجر کے مرثیے بہت لکھے

اب مرے نام کی غزل لکھیے

تیری غزلوں سے دوستی کولوں؟

اپنی نظموں کی میں سہیلی ہوں

کہو تو دل کے مراثی میں لکھ کے بھیجوں گی

انیس بن کے دکھاوں، دبیر ہو جاوں؟

         اتنا ہی نہیں نظم ” زندگانی مری” میں غزل کے اجزاءکو بڑی خوبی سے جسم کے اجزاءکے ساتھ مناسبت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں میر، جداگانہ، استعارہ، تشبیہ، رمز و کنایہ،تجنیس، ابہام، مطلع، مقطع،بیت الغزل وغیرہ اصطلاحات کی مدد سے اپنی بات ایک نرالے انداز میں قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔

عمر کی داستاں کا خلاصہ بھی ہےاس کا مطلع غممیری تاریک قسمت کا عنوان ہے

میر کی اور مریزندگی کا یہی باب بیت الغزلدرد کے سلسلے سے جڑا سلسلہ

جس کے مقطع کے زنداں میںسمٹی ہوئی میں وہ تخلیق ہوںجس کا انجام ہےختم شد ختم شد

         یوں زیر نظر شعری مجموعہ اکاون غزلیات اور اُنسٹھ نظموں پر مشتمل ایک اہم شعری گلدستہ ہے، لیکن اس میں مذہبی شاعری کے حوالے سے چند اشعار میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان بیان کی ہے اوردو نعتیں اور چند اشعار میں اہلِ بیتِ رسول خصوصاً واقعہ کربلا کی شان و عظمت بیان کی ہے۔گویا ان کی فکری سوچ میں کہیں نہ کہیں اہلِ بیتِ رسول اور شہدائے کربلا کی عظمت کا احساس ضرور ہے اور ایسا ہر مسلمان شاعر وادیب کی تخلیقات میں ہونا چاہیے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

مری نگاہ میں مکہ ہے اور مدینہ ہے

یہی متاع جہاں ہے، مرا خزینہ ہے

طواف گنبد خضرا ہی جزو ایماں ہے

تمام چاند ستاروں کا یہ قرینہ ہے

زہے قسمت زمین والو محمد کو تو دیکھا ہے

وگرنہ منتظر کتنے ہیں اب تک دو جہانوں میں

نظموں کی بات کریں تو شبنم عشائی کی راہ پر چلتے ہوئے آزاد اور نثری نظموں کو اپنایا ہے جبکہ غزلیات میں ان کا اندازموت کے ذکر کے حوالے سے کسی حد تک شہزادی کلثوم سے جاملتا ہے۔کلثوم اور شبینہ کے کلام میں موت وزیست کے حوالے سے یکسانیت تو ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ کلثوم کے ہاں موت کا ذکر تمام تر گہرائی کے ساتھ ملتا ہے اور شبینہ کے یہاں کسی حد تک سطحی انداز ملتا ہے۔کلثوم کے کلام سے محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے حضرت عزرائیل سے کڑے لمحات کی مہلت مانگ کر آخری اشعار موزوں کیے ہوں،لیکن شبینہ کے یہاں ایسی حقیقت نگاری اور پیکر تراشی کم ملتی ہے۔یہاں موت سے فرار کا تذکرہ ملتا ہے،موت سے بچ نکلنے کی راہیں تلاش کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک مثبت سوچ کے تحت ہر آن جینے کی تمنا ظاہر کی گئی ہے۔

شہزادی کلثوم کے چند اشعار

کہہ گیا دو ہچکیوں میں عمر بھر کی داستان

مرنے والے واہ! کیا کہنا تری تقریر کا

موت کو پاس سمجھتے ہیں تمہارے شیدا

دور اندیش ہیں جو تکیے میں کفن رکھتے ہیں

کب کائیناتِ دہر میں رہنا ہے دمبدم

گھر کیا بنائیں قبر کی تعمیر چاہیے

شبینہ کے نظموں کا ایک بڑا حصّہ موت کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ ” ڈرپوک ” میں قبر کے عذاب کے خوف سے مرنے کے نام سے ہی ڈر محسوس لگتا ہے، ” اجل کیا ہے” میں اجل اور حیات جاوداں کا تذکرہ کیا ہے اور موت اور زندگی پر بحث کی ہے، ” ضد” میں موت کی ضد نظر آتی ہے، ” بزدلی” میں انسان کی بے بسی کا رونا رویا ہے کہ جب نیند کی گولیوں سے بھی آرام نہیں ملتا ہے تو انسان خودکشی کرنا چاہتا ہے مگر میری طرح بزدل انسان موت کو گلے لگانے سے ڈرتے ہیں، احساس ” میں علامت نگاری اور تلمیح کا استعمال کرکے محبت کا نام انارکلی رکھا ہے اور ہر انارکلی کو محبت کی سزا زندہ دیوار میں چنوانا رکھا ہوتا ہے۔ ” جب موت کی آہٹ سن لوں گی” میں بھی موت کا ذکر عالی الشان انداز میں کیا ہے، اور خوشگوار موت کی امید کی ہے۔ “تمہارے پاس آوں گی” میں ایک بے جان شے یعنی پنکھے سے مخاطب ہوتی ہے کہ تو میرے تمام رازوں کا واقف کار بن چکا ہے اور اب میں تم سے لپٹ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہوں، تاکہ میرے راز دفن ہوجائیں۔اس میں تجسیم کاری کی عمدہ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔چند اشعار۔۔

ایک لمحے کا مہماں ہوں کہنا اسے

ایک پل کیلئے وہ اگر آسکے

دار ورسن سے رابطہ میرا نہ تھا مگر

کیا کیجئے کہ موت وفادار ہوگئی

موت کے سا ز کی روانی میں

یاس بیچوں گی آس بانٹوں گی

          شبینہ آرا کے زیر نظر شعری مجموعہ “یاد تنہا کبھی نہیں آتی” میں جن مثبت چیزوں کی طرف نظر پڑتی ہے، ان میں پیکر تراشی اور تجیسم کاری کے انمول اشارے ملتے ہیں۔دوم علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات براہ راست ملتے ہیں، ایک طرف اقبال کی شاہکار نظم”ایک آرزو” کا جواب مختصر مگر جامع انداز میں دیا ہے۔اقبال دنیا کے شور گل سے دور پہاڑ کے دمن میں امن وسکون کی زندگی گزارنا چاہتے تھے ،لیکن شبینہ کا ماننا ہے کہ اگر وہاں بھی سکون نہ ملے تو انسان کیا کرے گا، کیونکہ حقیقت میں دنیا سکون و اطمینان کی جگہ نہیں ہے۔

اقبال کے اشعار

دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا

ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

شبینہ کا شعر

ساری دنیا سے دور رہ کر بھی

کیا غموں سے فرار ممکن ہے؟

اقبال نے نظم “شکوہ” میں اللہ تعالیٰ سے مخالف ہوکر شکایت کا دفتر کھول دیا تھا اور اس پر عالموں کی ایک جماعت شاعر مشرق کے خلاف ہوگئی تھی۔ دوسری طرف شبینہ نے شکوہ کا انداز اپنی نظم “زم زم” میں اپنایا ہے. وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ کیا تمام معجزات صرف مردوں کے لیے ہیں.

اقبال کے اشعار

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور وقصور

اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدہ حور(شکوہ)

شبینہ کے اشعار

تم نے زم زم دیا ہے بیٹے کواور ماں آج تک رہی پیاسی

اُس کی خاطر تمہاری رحمت کیوںآج تک جوش میں نہیں آئی

بس یہ شکوہ ہے یہ شکایت ہے(زم زم،ص:134)

” تمہاری عقل کا جادو سوار ہے تم پر“ میں اگرچہ محبوب کی جدائی کا غم بھی ہے لیکن موازنہ عقل و دل میں علامہ اقبال کی یاد تازہ ہوتی ہے۔علامہ اقبال کی نظم”عقل ودل“سے چند اشعار

راز ہستی کو تو سمجھتی ہے

اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

ہے تجھے واسطہ مظاہرہ سے

اور باطن سے آشنا ہوں میں

عقل ودل کی کرشمہ سازی اور کارگزاری کے حوالے سے شبینہ کے چند اشعار

نہ میرے دل میں کوئی ٹیس ہی اٹھے گی کبھی

نہ دل کا باغ اداسی سے سوکھ جائے گا

تمہاری عقل کا جادو سوار ہے تم پر

میرا خیال ہے دل سے بھی مشورہ کر لو

تیسری اہم چیز جو شبینہ کے کلام میں ملتی ہے اور جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ ان کے نادر خیالات ہیں۔ شاعری میں عمدہ خیالات اور پرُ کیف خیالات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اچھے خیالات سے ہی بڑے شاعر کی پہچان ہوتی ہے۔ شبینہ کبھی سونا اجلوانے کے طرز پر تقدیر اور داغ اجلوانے کی بات کرتی ہے۔ اسی طرح ریگستان میں قدموں کے نشانات جو آگے اور پیچھے ہوتے ہیں، ان کی اہمیت واضح کرتی ہے، ایک نظم میں عورت کو کم عقل اور مرد کو عقلمند کہتی ہے اور سوال اٹھایا کہ کیسے ایک کم عقل کسی عقلمند کو بہکا سکتی ہے۔ اسی طرح درجنوں نئے نئے خیالات

 جن میں ندت بھی ہے اور اپنائیت بھی، کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ان کے کلام میں درجنوں نایاب و کمیاب اضافتیں ملتی ہے۔ کچھ اضافتوں سے حیرت ہوتی ہے کہ ایک نوجوان شاعرہ کے پاس اتنے مطالعے کی وسعت کیسے ہوسکتی ہے اور پورا مجموعہ ایک انتخاب نظر آتا ہے۔ چند اضافتیںیوں ہیں”صحرا کی پیاس،

یادوں کے دشت،ہجر کے آسیب،ہجر کے مرثیے،دل کے آنگن،دار کی حقدار،آنکھ کا کاجل“وغیرہ وغیرہ۔ پانچویں خوبی یہ ملتی ہے کہ وہ موت کا ذکر بار بار کرتی ہے لیکن اس میں ایک امید، آس اور مثبت سوچ نظر آتی ہے۔

 وہ محبوب سے جدائی اور بے وفائی کا اظہار تو کرتی ہے لیکن ملال کے بدلے ایک تعمیری سوچ نظر آتی ہے۔

         منجملہ راقم الحروف نے “جموں و کشمیر کی شاعرات” نامی کتاب میں اس خوبصورت شاعرہ کا ذکر کرکے بجا طور پرایک اچھا کام کیا ہے اور دل خوش ہوتا ہے کہ جنوبی کشمیر میں لل دید اور حبہ خاتون کے بعد کوئی ایسی شاعرہ پیدا ہوئی ہے جن کے کلام میں میر کا غم ہونے کے باوجود سودا کی مثبت سوچ بھی ہے، جن کے کلام میں لل دید اور حبہ خاتون جیسا تانیثی شعور ہے لیکن پروین شاکر جیسی خوشبودار شاعری بھی ہے۔

***

Leave a Reply