ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی
کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔
یوسف صفی کے ڈراموں میں نسوانی مسائل
لفظ ’’ ڈراما‘‘ در حقیقت یونانی لفظ ’’ڈراو‘‘ سے مشتق ہے جس کے یونانی زبان میں معنی عمل کے ہوتے ہیں۔ یونانی زبان سے ڈرامے کا لفظ انگریزی میں منتقل ہوا اور پھر انگریزی سے اس لفظ کو اردو نے اختیار کرلیا۔ اردو میں ڈرامے کے لفظ استعمال سے قبل عام طور پر اسٹیج پر پیش کیے جانے والے قصے کے لیے تمثیل کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ ہندوستانی زبانوں میں جن قصوں اور کہانیوں کو اسٹیج پر پیش کیا جاتا تھا اس کے لیے سنسکرت کا لفظ ’’ناٹک‘‘ کا رواج عام ہوا۔
تمام عالمی ادب میں ڈرامہ واحد صنف ادب ہے جو تمام اصناف سے نہ صرف جداگانہ ہے بلکہ سب سے ممتاز منفرد اور دلچسپ صنف ادب ہے دنیا کی بہت سی زبانوں اور ممالک میں ڈرامانے الگ الگ وقت میں پرورش پائی اور اپنے وقت و حالات کے مطابق ترقی کے راستوں کو بھی ہموار کیا، خصوصاً یوروپی ادب میں ڈراما نے ترقی کی خاص منزلیں طے کی ہیں۔ ادیبوں اور فنکاروں نے ادبی معیار پر اسے ایک خاص بلند مقام عطا کیا۔ نیا روپ دیا، نئی سمتوں سے روشناس کروایا۔ غرض یہ کہ یوروپ میں ڈراما نے کافی ترقی کی ہے اور اسے بلند مقام حاصل ہے مختلف یوروپین زبانوں میں ڈراما ادب کی ممتاز ترین صنف تسلیم کیا جاتا ہے۔
سابق صدر شعبۂ فارسی یونی ورسٹی آف راجستھان جے پور ہندوستان میں ڈرامے کی ارتقاء کے متعلق ڈاکٹر روشن کاظمی لکھتے ہیں:
’’ اردو ڈرامے کی ابتدأ آزادی کی تحریک سے پہلے ہوئی اور اس کے خال و خط واضح ہونا شروع ہوگئے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب ہمیں مکمل آزادی حاصل ہوگئی تب اردو ڈراما اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ اگر چہ یہ ایک طویل مدت ہے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ اردو ڈراما اپنی منزل خود تلاش کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ ‘‘
(اردو ڈراما آزادی سے قبل، ڈاکٹر فاحانہ، 2002ء ص:10)
اردو کے مشہور ـڈراما نگاروں میں مہدی حسن، احسن لکھنوی بیتاب بریلوی اور طالب بنارسی بڑیا ہمیت کے حامل ہیں۔ جن کے بعد آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج، رونق بنارسی مرزا نظیر بیگ حکیم احمد شجاع، مرزا محمد ہادی رسوا اور ظفر علی خان کے نام لیے جاتے ہیں۔ جن کے بعد عابد حسین اشتیاق حسین پروفیسر محمد مجیب، عبدالغفار مدھولی، منجو قمر، ڈاکٹر محمد حسن اور کرشن چند جیسے تخلیق کاروں نے ڈرامے کی روایت کو فروغ دیا۔
آزادی کے بعد جب لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل عمل میں آئی تو متحدہ آندھراپردیش میں ڈراما نگار بھی پیدا ہوئے۔ بالخصوص حیدرآباد میں ڈاکٹر محمد عبدالرزاق فاروقی، شاردا موتی، اظہر افسر وغیرہ نے اس صنف کو مقبول بنایا تو رائل سیما میں ڈاکٹر کریم رومانی، موسیٰ میاں، نذیر احمد رہبرؔ، شیخ جانی باشا اور یوسف صفیؔ نے اس صنف پر خاص توجہ دی۔
سید یوسف صفی (آمد: یکم/ جون 1945ء، رخصت : 11/ستمبر2019ء) کا نام اہم اور ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ صفیؔ کا وطن کڈپہ ہے صفی کو بچپن ہی سے فوٹوگرافی شاعری اور ڈراما نگاری سے فطری لگاؤ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اس فطری ذوق کی آبیاری کے لیے ریلوے کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور بنگلور سے کڈپہ چلے آئے۔ یہاں 1977ء میں جب اردو کلچرل اینڈ لٹریری اسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا تو یوسف صفی ہی اس انجمن کے روح و رواں اور اس کے بانیوں میں سب سے اہم شمار کیے گئے اس انجمن کے زیر اہتمام آج بھی جہاں ادبی محفلوں اور مشاعروں کا انعقاد عمل میں آتا ہے وہی ڈرامے بھی اسٹیج کیے جاتے ہیں۔ یوسف صفی شاعر بھی ہیں اور ڈراما نگار بھی ان کے لکھے ہوئے ڈرامے کٹھ پتلی، جلتے ارمان، گھر سنسار، آخری چراغ، بٹوارہ، خواب پتھر میں کاش کہ بھوکے سائے، آبرو، کرفیو روشنی کے پھول۔
شیر ٹیپو سلطان ، کل کی دھوپ، دودِ چراغ، پدم شری، انقلاب 1857ء ، مجنون شاہ، دفینہ اور فیض کے نام ہیں۔ یہ سارے ڈرامے زبان و بیان اور فکروفن کے لحاظ سے ادبی ڈرامے ہیں۔ ان میں کئی ڈرامے اسٹیج ہوکر کافی مقبول ہوئے ہیں۔ یوسف صفی ایک ڈراما نگار ہونے کے ساتھ اداکار اور ہدایت کار بھی ہیں ڈرامے کو اسٹیج پرپیش کرنے کے فن سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ یوسف صفی ایک سچے فنکار ہیں۔ اس ضمن میں سابق صدر شعبہ اردو ادونی آرٹس کالج کرنول نقاد و محقق ڈاکٹر وحید کوثر رقم طراز ہیں:
’’ یوسف صفی ایک ایسے فنکار ہیں ۔ فن کار پیدا ہوتے ہیں۔ اور ذوق و شوق ان کی رہنمائی کرتا ہے وہ عمل کے میدان میں پہلے آتے ہیں اور پھر اکتساب کا راستہ خود بہ خود ہموار ہوجاتا ہے فن کار کی دھن ان کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے۔ وہی ان کی شناخت بھی قائم کرتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یوسف صفی کی شناخت آج ایک ادبی ڈراما نگار کی ہے۔‘‘
(دبستان اپریل 19تا مارچ 20، مدیر ڈاکٹر اقبال خسرو قادری، ص:74)
یوسف صفی کی ادبی و ثقافتی خدمات کے اعتراف میں ضلعی اور ریاستی سطح پر کئی ایوارڈ حاصل کیے۔اردو اکیڈمی آندھراپردیش نے انھیں باوقار کارنامۂ حیات اعزاز ’’ڈاکٹر عبدالحق ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ اور ان کے تقریباً اٹھارہ ڈرامے اسٹیج کیے جاچکے ہیں۔ ٹیپو سلطان ان کا آخری ڈراما تھا جو بے حد کامیاب رہا۔
یوسف صفی کے ڈراموں کے مکالموں میں اکثر زنجیر کی سی کیفیت نظر آتی ہے مکالمے اثر انگیز اور حسب مرتبہ ہیں۔ ان میں روانی بھی ہے اور برجستگی بھی وہ کرداروں کے ذریعہ منطق اور نفسیات کو پیش کرتے ہوئے پلاٹ کو اسٹیج کرتے ہوئے قصے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
تاریخ کے کرداروں کو آج کی تہذیب میں تلاش کرنا اور ان سے سبق حاصل کرنا ان مقاصد کو ذہن میں رکھ کر یوسف صفی نے کرداروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے ڈرامے ادب برائے زندگی کا مقصد لیے ہوئے ہوتے ہیں۔
صفیؔ نے خواتین کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اور ان کے مسائل کی جانب اشارے کیے ہیں پھر بھی۔ صاف ظاہر ہورہا ہے نسوانی کردار کم ہیں اور جو ہیں ان کے ذریعہ اہم نسوانی مسائل کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
یوسف صفی کے ڈراموں کا فنی نکتۂ نظر سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اردو ڈرامے کے فرسودہ اور روانی موضوعات سے انحراف کرکے انسانی زندگی کی حقیقتوں کا اظہار ایک مسلسل دل نشین قصے کی شکل میں کیا ہے۔ اور معاشرے میں نسوانی مسائل کی عقدہ کشائی بھی کی ہے۔ اسی موضوع کے تحت مجھے یوسف صفی کے ڈراموں میں پیش کیے گئے چند اہم نسوانی کرداروں اور ان کے مسائل کا ایک مختصر سا جائزہ لینا مقصود ہے۔ یوسف صفی کے ڈراموں میں پیش کیے گئے تقریبا تمام نسوانی کردار اپنی جگہ مسائل کی نمائندگی کررہے ہیں۔ صفی نے ان کرداروں کو محض فیشن کے طور پر یا ڈراما کی تصویر میں شوخ، رنگ بھرنے کے لیے نہیں تراشا ہے بلکہ نسوانی فطرت کی خوبیاں ہی نہین بعض خامیوں کو بھی فنی محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ڈرامہ ’’پدم شری‘‘ انسانی رشتوں کی ایسی ہی الجھی ہوئی ڈور پر مبنی سماجی ڈراما ہے۔ جس
میں صفی نے تمام کردار الگ الگ خاندانوں اور الگ الگ پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کو ایک خاندان کے افراد کی طرح پیش کیا ہے۔
اس ڈرامے میں نرملا کا کردار مرکزی نہ ہوتے ہوئے بھی شخصیت کے بہت سے پہلو کو سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ رمضانی میاں سے آزادی اور آزادی کی وضاحت کرتی ہے۔ صفی نے یہاں نسوانی وصف خاص کو درشایا ہے:
نرملا: صبح صبح لوگ اپنے پیدا کرنے والے کے دھیان میں لگ جاتے ہیں مگر تم…؟
رمضانی میاں : (آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر) اس کی یاد سے غافل نہیں ہوں پہلے اسے سجدہ کرتاہوں بعد ریاض پر بیٹھ جاتا ہوں۔ یہ ریاض کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔
نرملا: بچوں کا کھیل دل میں خوشی جگاتا ہے اور تمہارا یہ فن… دھڑکنیں تیز کردیتا ہے۔ اور تمہاری آواز۔
اس ڈرامے کے مرکزی کردار یعنی گیان پرکاش اور نرملا کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جیسے کوئی نام دینا مشکل ہے یہ ایک معتبر نازک بے لوث اور حساس رشتہ ہے۔ صفیؔ صاحب نے اس احساس کردار کے جذبات کو مکالمہ نگاری کے ذریعہ حق ادا کیا ہے۔
پرکاش: چند ہی سانسیں بچی ہیں۔ ساتھ گزارنے دو… نرملا! میں تمہارا مجرم ہوں… تمہارا حق نہ دے سکا۔… آہ
نرملا: آپ نے کیا کچھ نہیں دیا مجھے… آپ نے سہارا دیا اپنوں جیسا سلوک میرے ساتھ کیا اور مجھے وہ پیار ملا جس کی تمنا ہر عورت کرتی ہے۔
پرکاش: (نرملا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے) میری آتما پر بوجھ ہے تمھیں اپنا نام نہ دے سکا۔
نرملا:ساتھ رکھا مجھے یہ کیا کم ہے؟
پرکاش: رشتے کی چادر… ! کاش!
یوسف صفی کے نسوانی کرداروں میں نرملا ایک یادگار کردار ہے دنیا ایسے کرداروں سے خالی بھی نہیں ہے۔
’’شیر دکن‘‘ ٹیپو سلطان صفی صاحب کا لکھا ہوا آخری ڈراما ہے جو بڑی کامیابی کے ساتھ اسٹیج کیا گیا۔ اس ڈرامے میں تین نسوانی کردار ہیں روشن سلطانہ بیگم رقیہ بانو، ملکہ زمانی مادر سلطانہ۔
سلطان کی دونوں بیویوں ’’روشن سلطانہ اور رقیہ بانو میں جو یگانگت اور قربانی کا جذبہ دکھایا گیا ہے نسوانی فطرت اور جبلت کے خلاف محسوس ہوتا ہے۔ یوسف صفی کے ذہن میں شاید یہ بات رہی ہو کہ خاص اور قوی جذبے کے تحت نسوانی فطرت کے اس پہلو سے استثنیٰ بھی ممکن ہوسکتا ہے یہ گفتگو ملاحظہ فرمائیں:
رقیہ بانو: ہم پر احسان کا بوجھ نہ ڈالیں۔ یہ ؔآپ ہی کا حق ہے۔ اپنا حق ہم پر قربان نہ کریں۔
روشن سلطانہ: ملکہ زمانی مادا سلطان ہم سے ناراض ہوجائیں گی! ہمیں کانٹوں میں نہ گھسیٹیں۔
مصنف کا خیال کچھ بھی ہو لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انسانی جبلتوں سے مفر ممکن نہیں یہ بات بھی نسوانی فطرت کے مغائر ہے ایسے مکالمے کچھ عجیب سا تاثر دیتے ہیں۔
رقیہ بانو: (چونک کر آنکھیں کھولتی ہیں۔ روشن سلطانہ بیگم کو دیکھتے ہی مسند سے اٹھتی ہیں) زینت زمانی روشن سلطانہ بیگم چودھویں کا چاند ہمارے آسمان پر!
روشن سلانہ (مسند پر بیٹھ کر رقیہ بانو کو اپنے برابر بٹھالیتی ہے)
محل سرا میں ایک ہی چاند ہے… اور وہ چاند آپ بانو رقیہ بیگم ہیں۔
رقیہ بانو: ہم تو چاند کا اتارا ہیں۔ اصلی چاند تو آپ ہی ہیں ۔
بظاہر نسوانی فطرت کے خلاف نظر آنے والے جن نکات کی نشان دہی کی گئی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ڈرامے میں ایک نیا رنگ بھرنے والے دو تین مناظر کو صفیؔ کے شاعرانہ تخیل کی پرواز کا نام دیا جاسکتا ہے ظاہر ہے کہ اس میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔
مادر سلطانہ ملکہ زمانی بیگم کا کردار خاص اہمیت رکھتا ہے۔ سخت آزمائش کی گھڑی میں بھی اپنے عزیز لخت جگر ٹیپو سلطان کو ہمت و شجاعت اور عزم و عمل کا پیکر بناتی نظر آتی ہیں۔
ملکہ زمانی خدا ترس لوگوں کی دعائیں سوکھے کو بھی ہرا کردیتی ہیں۔ یہ وقت امتحان کا ہے، خیال رہے سلطان کا حوصلہ متزلزل نہ ہونے پائے۔
سلطان : (فخریہ لہجے میں) آپ کا فرزند طوفانوں کا پلا ہے کبھی اپنے حوصلے کو آلودہ نہ ہونے دے گا، اطمینان رکھیں۔
ملکہ زمانی: ہمیں ناز ہے کہ ہم نے شیر دل سلطان کو جنم دیا ہے۔
مادر سلطان ملکہ زمانی شاہانہ وقار حوصلہ مندی اور دور اندیش بھی ہیں وہ ناموس سلطانی کی حفاظت کے لیے اہتائی اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
میانہ سردار: قندقیں کافی گہری ہیں۔ بس اس میں پانی بھرنا باقی ہے۔
ملکہ زمانی: (ہاتھ نفی میں اٹھاتی ہوئی)نہیں… ان میں پانی نہیں بارود بچھا دی جائے۔
میانہ سردار: (پریشان ہوتے ہوئے) بارود؟ ملکہ زمانی؟ یہ کیسا حکم ہے؟ یہ حکم تباہی کا باعث ہوگا کوئی زندہ نہ بچ پائے گا۔
ملکہ زمانی: سلطان کے ناموس پر حرف نہیں آئے گا۔ یہی کافی ہے۔
اس ڈرامے میں سلطان کی نجی زندگی اور لطیف انسانی جذبات و احساسات کی تصویر کشی قابل داد ہے۔ لیکن کہیں کہیں ایسا ضرور لگتا ہے کہ مصنف نے چند ایسے پہلو بھی پیش کیے ہیں جو نسوانی فطرت کے منافی ہیں۔
ڈرامہ ’’فیض کے نام‘‘ یوسف صفی کا خراج تحسین ہے۔ فیض کے لیے اس ڈرامے میں حسنہ ایک نسوانی کردار ہے۔ جو ایک تعلیم یافتہ باشعور مہذب خاتون ہے جو زندگی سماج شعر و ادب کے بارے میں اپنا ایک الگ زاویہ نظر رکھتی ہے۔
انور فہیم: حزن وملال کی تیرگی مستقل ہوجائے تو آرزو کی کرن کہاں سے پھوٹے گی۔
فیضی: اندھیروں اور اجالوں کا کھیل تو ازل سے جاری ہے۔ کبھی کوئی مغلوب ہوا تو کبھی کوئی اور لیکن ایک دن سب کھوجائے گا۔ ہم اس عہد میں بھی زندہ تھے جہاں اختیار کے نام پرصرف محرومیاں تھیں۔
حسنہ : جب انسان کی سوچ اور اقدار ہی بیمار ہونے لگیں تو اختیار اور حق کی مجبوری رقص وحشت میں تبدیل ہوجائے گی۔
ڈراما ’’دفینہ‘‘ میں صنف نازک کے دو پہلو پیش کیے گئے ہیں ایک کردار مرد کو جنم دینے عورت یعنی ماں کی تمثیل ہے اور دوسرا کردار مرد کی بائیں پھسلی یعنی بیوی کی تمثیل ہے۔ یوسف صفی نے ان کرداروں کے ذریعہ کئی نازک اور انتہائی حساس پہلوؤں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ پہلا مکالمہ عورت کے ایک پہلو یعنی ماں کی تمثیل کی زبانی ہے اور دوسرا مکالمہ بیوی کی تمثیل کی زبانی ہے۔
عورت: (ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے) خود فریبی ہے… وجود کی اصل رشتے ہوتے ہیں اور رشتوں کا انکار وجود کا انکار ہے۔
عورت: جھوٹ کہتے ہو! تم مجھے بھلا نہیں سکتے! میں تمھاری ازلی تنہائی کی ساتھی تمھاری نامکمل ذات کی تکمیل ہوں۔
دونوں کرداروں کے مکالمے بھی بہت اہم ہیں اور ڈرامے کے مرکزی خیال کو اجاگر کرتے ہیں۔۔
ڈراما ’’آبرو‘‘ یہ ایک علامتی ڈرامہ ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک لڑکی ہے جو امن اور محبت کی علامت ہے۔ وہ اس ڈرامے میں کبھی کس کی بیٹی شانتی، کے روپ میں سامنے آتی ہے تو کبھی کسی کی بہن دلجیت کور، کسی کی بیوی نکہت اور کسی کی منگیتر گریسیا بن کر سارے ڈرامے کی جان بن جاتی ہے۔ ڈرامے کے مرکزی خیال کو یوسف صفی نے علامتی کردار کے مکالمے کے طور پر پیش کیا ہے۔:
میں… شانتی ہوں، دلجیت کور ہوں، نکہت جہاں ہوں! گریسیاں ہوں کون ہوں؟ میں کیوں ہوں؟ کس کے لیے ہوں۔ یہی سوال مجھے در در بھٹکا رہا ہے۔
میں… لوٹ آؤں گی! لوٹ آؤں گی! اس دن جب انسانیت، بھائی چارہ، شانتی اور پریم کی کرنوں سے اپنی دھرتی مہک اٹھے گی۔ وعدہ کرتی ہوں۔ میں لوٹ آؤں گی ! لوٹ آؤں گی ! لوٹ آؤں گی۔
سماج کی بے راہ روی ظلم، جبر و استحصال، جیسی تمام لعنتوں کے خلاف آواز بلند کرنے والا یہ نسوانی کردار اپنی شخصیت کے ہر پہلو کے مسائل اور وسیلے سے کہانی کے موضوع اور مرکزی خیال پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ڈراما ’’انقلاب 1857‘‘ میں زینت محل ایک اہم نسوانی کردار ہے جسمیں صفی نے زینت محل کے کردار کو تین پہلوؤں میں پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے کبھی وہ اپنے شوہر کا اخلاقی سہارا بنتی ہے تو کبھی ماں کے روپ میں اپنے صاحب زادے بخت کو حوصلہ دے رہی ہیں تو کبھی ملکہ ہونے کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
زینت محل: قدموں میں آئی ہوئی حکمرانی کو بڑھ کر سینے سے لگایا جانا چاہیے یہ فرار کی راہ کیسی؟
بہادر شاہ : یہ فرار کی راہ نہیں حقیقت کا اعتراف ہے اب اللہ ہی مالک ہے۔ وہی ہم سے حق ادا کرائے گا۔
زینت محل: آج بے شمار جاں نثار عالم پناہ کے ایک اشارے پر اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں کیا یہ اللہ کی مدد نہیں؟
بہادر شاہ : ہمیں ایسے مشیروں کی بھی حاجت ہے جو ہماری رعایا کے دکھ درد جاننے اور راحت رسائی میں ہماری مدد کریں۔
زینت محل: شہزادہ جوان بخت کیا عالم پناہ کے حکم کے تابع نہیں۔
ڈراما ’’دودِ چراغ‘‘ کو انقلاب 1857‘‘ کا ہی تسلسل کہا جاسکتا ہے۔ اس ڈرامے کے مرکزی کردار بہادر شاہ ظفر کے علاوہ کئی ذیلی کردار بھی ہیں اور تاریخی پس منظر میں کردار نگاری اور مکالموں کا رنگ تبدیل ہوگیا ہے۔
انقلاب 1857 کی زینت محل با حوصلہ اور پر امید ہے تو دودِ چراغ کی زینت محل ناکامیوں اور محرومیوں کا شکار نظر آتی ہیں۔
زینت محل: لاچاری اور بے بسی کی میزان پر خدا ترسی تولی نہیں جاتی عالم پناہ۔
ظفرؔ : جو میسر ہے اس سے بھی دست برداری چاہتی ہیں اور کیا کیا کھونا چاہتی ہیں؟ تخت و تاج چھوٹا وطن چھوٹا اولاد مقتول ہوئی اور اب؟
زینت محل: (چونک کر اپنے آنسو پوچھتے ہوئے) روز بدلتے حالاتنے سارے وجود کو دہلا دیا ہے۔ کفر وضلالت کے کلمات آپ ہی آپ زبان سے نکل آئے ہیں (اٹھتی ہیں اور بیٹے کو جگانے لگتی ہیں) شہزادے… مرزا جواں بخت اٹھیے۔
یوسف صفی کا یہ کمال ہے انہوں نے زینت محل کے دو متضاد پہلو کو پیش کیا ہے۔ انقلاب 1857 میں دہلی کی زینت محل
صبروتحمل کا پیکر اور قدم بقدم اپنے شوہر کا حوصلہ بڑھاتی ہوئی نظر ؔآتی ہیں۔ لیکن رنگون کی زینت محل انقلاب سے دود چراغ تک کے سفر میں مسلسل پریشانیوں وگرگوں ماحول اور نامساعد حالات نے زینت محل سے وہ صبر وتحمل چھین لیا ہے اب یہ کردارخوف و ہراس اور یاس و ناامیدی کے دائرے میں قید نظر آتی ہے۔
ڈراما ’’خواب پتھر میں‘‘ ’’ماہ رخ‘‘ ایک نسوانی کردار ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ ماہ رخ کا شوہر عیسیٰ آفندی، ایران کا رہنا والا ہے ماہر فن تعمیرات ہے مالی آسودگی سے محرومی کے باوجود ماہ رخ کو اپنے شوہر کی مکمل توجہ حاصل تھی۔ شاہ جہاں کی دعوت پر عیسیٰ آفندی تاج محل کی تعمیری کے لیے ہندوستان آتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اپنی محبوب بیوی کے لیے خوب صورت محل تعمیر کریں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے ہنر اپنے فن سے بھی عشق ہے۔ اس کش مکش میں وہ ا پنی محبوب بیوی کو بھی وقت نہیں دے پاتا۔ اس طرح ماہ رخ ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔
ڈراما نگار نے یہاں ماہ رخ کے کردار کے ذریعہ چاہنے والی چاہے جانے کی تمنا رکھنے والی شوہر کی کامیابی کی متمنی ایک مشرقی عورت کے جذبات کی تصویر کشی کی ہے۔
ماہ رخ: ہمارا وہ حسین خواب نقش بر آب تو نہیں۔
عیسیٰ : ہر گز نہیں… اس خواب کی تکمیل تک ہمیں زندہ رہنا ہوگا۔ ماہ رخ… زندہ رہنا ہوگا۔
ماہ رخ: میری خوشی میری تسکین، تاج محل کی تکمیل میں پوشیدہ ہے وعدہ کیجیے کہ محبت کی یادگار تکمیل پاکر رہے گی۔
عیسیٰ : تمھاری تمنا پوری ہوکر رہے گی۔
ماہ رخ: میری روح بے چین رہے گی۔
عیسیٰ : تمھاری حسن کا غماز تاج محل۔ اس کے ایک ایک نقش سے تمھارے لمس کا احساس جاگے گا وعدہ کرتا ہوں … ماہ رخ وعدہ؟
ڈراما نگار نے عورت کے فطری احساسات کے پس منظر کی مکمل ترجمانی کی ہے۔
زینت محل،ماہ رخ، روشن سلطانہ، رقیہ بیگم، نرملا، حسنہ جیسے کرداروں کو ڈراما نگار نے بڑے سلیقے کے ساتھ تراشا ہے۔ اور ہر کردار اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یوسف صفی کے ڈراموں میں نسوانی کردار کو یوں ہی نہیں پیش کیا ہے بلکہ ڈرامے کے ہر نسوانی کردار کے ذریعے اس کے مسائل اور حل پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے۔ یعنی تصویر کے دو رخ کو پیش کیا ہے۔ یوسف صفی کے ڈراموں کامطالعہ کرنے والے خود ان ڈراموں کی خوبیوں پر انھیں داد وتحسین سے نوازیں گے۔
کتابیات:
1۔ کل کی دھوپ ڈرامے،ازیوسف صفی،2007ء
2۔ دودِ چراغ،ڈرامے،ازیوسف صفی،2008ء
3 ۔دفینہ،ڈرامے،از،یوسف صفی،2011ء
4۔ شیر دکن ٹیپو سلطان،ڈرامے،از،یوسف صفی،2015ء
5۔ اردو ڈراما آزادی سے قبل از،ڈاکٹرفرحانہ،2002ء