You are currently viewing انیس سو سینتالیس کے بعد اردو نظم

انیس سو سینتالیس کے بعد اردو نظم

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاوید

پروفیسر و  صدر شعبۂ اُردو،شیواجی کالج ہنگولی

۱۹۴۷کے بعد اردو نظم

۱۹۴۷ میں حصولِ آزادی اور تقسیم ہند کے عہد آفریں واقعات کے بعد سیاسی، معاشی اورفکری زندگی میں ایک نیا اور اہم موڑ آیا اور کچھ نئے عالمی مسائل سے بھی ہمارے ادیب دو چار ہوئے۔اردو شاعری اور ادب کا نئے حالات و حادثات سے متاثر ہونا ناگریز تھا کیونکہ نئے ادب اور زندگی کا باہم رشتہ مسلم اور مستحکم ہے۔ جہاں تک موجودہ نظم کا تعلق ہے، اس میں مواد اور ہیئت ہر اعتبار سے ترقیوں اور تبدیلیوں کے نئے امکانات ظہور میں آنے لگے ہیں۔ اس تفصیل میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں کہ اردو نظم نگاروں نے ان امکانات سے کہاں تک فائدہ اٹھایا تقسیم ہند کا دور انتشار تخریب، ہر اس خوف، مایوسی اور تباہی کا دور تھا، اس پر آشوب دور نے اردواد بیوں اور شاعروں کے احساس و فکر پر گہرے اور دوررس اثرات مرتسم کیے۔ ملک بھر میں سیاسی حالات اور معاشی مشکلات نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا، نئے دور کی سنگین حقیقتوں نے ان کے خوابوں کے آئینہ خانے چکنا چور کر دیے اور وہ مایوسی اور نا امیدی کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ انہیں آزادی کا سورج اندھیروں کی گھٹاؤں میں چھپا ہوا نظر آیا، چنانچہ مایوی اور آرزوؤں کی شکست کا یہ رجحان اس دور کی نظموں پر غالب نظر آتا ہے۔ ملکی سیاسیات کے علاوہ معاشرتی موضوعات بھی شعراء کے دامن فکر کو کھینچتے رہے اور بی نظموں میں معاشرتی رجحان بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

جہاں تک یورپی شعر وادب کی تحریکات اور رجحانات کا تعلق ہے ۔۱۹۴۷کے بعد اردو نظم ان کے اثرات کو قبول کرتی رہی ہے حالانکہ تاثر پذیری کا یہ عمل زیادہ واضح اور نمایاں نہیں ہے۔ کئی نظم نگارا یسے بھی ہیں جو ایک بنے بنائے راستہ پر چل رہے ہیں اور فکر وفن کی نئی راہیں ہموار کرنے کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں۔کہ تقسیم کے بعد نئے نظم نگاروں میں کوئی بڑی اور ہمہ گیر شخصیت پیدا نہ ہوسکی جواردو نظم کوفی اور فکری اعتبار سے نئی بلندیوں سے آشنا کرتی اور آج بھی ہمیں ایک عہد آفریں شاعر کا انتظار ہے تا ہم نے نظم نگاروں میں گئی نظم نگار اپنی تخلیقی مساعی پورے خلوص اور لگن کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت ایسے ہیں جو تقسیم سے پہلے بھی نمایاں طور پر لکھتے رہے ہیں اور اب بھی بعضوں کا جذبہ تخلیق گھنا نہیں ہے۔ ان میں د سلام مچھلی شہری، شاد عارفی، راجہ مہدی علی خاں، ضیا جالندھری، منور جالندھری منیب الرحمن، ادا بدایونی علی جواد زیدی، تصدق حسین خالد، رفعت سروش، مسعود حسین خاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اردو شاعری خاص کر اردو نظم فکر و احساس اور اظہار و بیان کے نئے امکانات تلاش کرنے کی ایک فطری ضرورت کا احساس کرنے لگی ہے اور ساتھ ہی غالباً پہلی بار شعوری طور پر اپنی آزاد تخلیقی حیثیت منوانے کی جدو جہد کر رہی ہے واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری اپنی پیدائش کے زمانے سے ہی مسلسل طور پر یا تو بدیسی روایات کے تلے دبی رہی ہے یا مختلف ادوار میں مروجہ تصورات اور اصناف کی غلام بنی رہی۔

نئی نظم کے علمبر دار اس حقیقت سے آگاہ معلوم ہوتے ہیں کہ اردو شاعری اظہار و بیان کے روایتی سانچوں اور سماجی اداروں یا ادبی تحریکوں کی طرف سے عاید کئے گئے افکار وخیالات کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکی ہے، اس لیے وہ روایتی اسالیب بیان کو فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کا شدید احساس رکھتے ہیں کہ اردو شاعری کا پرانا ذخیرہ الفاظ، اس کی تشبیہیں، استعارے اور علامتیں کثرت استعمال سے اپنی معنویت اور جاذبیت کھو بیٹھی ہیں۔ اس لیے نئے عہد میں شاعر اپنے نئے اور انوکھے شعری تجربات کے اظہار کے لیے نئی زبان، نئے استعارے اور نئی علامتیں تخلیق کرنے کی فطری ضرورت سے دو چار ہے نئی شاعری کا موضوع چونکہ انسانی روح کا داخلی بحران اور اضطراب ہے، اس لیے اس کے پیرایہ اظہار میں روایتی نفاست اور شیرینی کی تلاش بے کار ہے۔ اس کے اسلوب میں تختی اور اضطراب ہے، یہ تحریری اسلوب ہے اور گہرا داخلی آہنگ رکھتا ہے۔

 ۱۹۴۷ کے بعد زندگی اور ماحول میں تیزی سے تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں موجودہ صدی کے آغاز سے سائنس کی برق رفتار ترقی نے ملکوں کے درمیان وقت اور فاصلہ کی دیواروں کو گرانا شروع کیا تھا اور اس صدی کے اپنے نصف تک پہنچتے پہنچتے دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا، یورپی ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جارحانہ پیش قدمی سے ایشیا کے ممالک تیزی سے متاثر ہونے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ یورپی تہذیب و فکر نے بھی مشرق کے لوگوں کو مسحور کیا اور پھر ہندوستان میں لگ بھگ ایک صدی تک انگریزی اقتدار کی موجودگی میں ہندوستانی ذہن اور زیادہ تیزی اور گہرائی سے متاثر ہوا، اور تبدیلی کی یہ رفتار بیسویں صدی میں اور زیادہ شدت اختیار کر گئی نئی تہذیب اپنے ساتھ نئے خیالات وتصورات لائی۔ یہ مادی تہذیب تھی اور ہندوستان میں صدیوں کے تہذیبی تصورات پر جو دہی، اخلاقی قومی قدروں کی پیداوار تھے کاری ضربیں لگاتی چلی گئی، ۱۹۴۷تک قومی بیداری کی بتدریج نشو ونما کے باوجود یورپی خیالات و طرز زندگی کی یہاں برا براندھی تقلید ہوتی رہی لیکن آزادی وطن کے بعد فرد کے شعور نے ایک نئی کروٹ لی اور وہ محاسبہ کرنے لگا کہ وہ کہاں کھڑا ہے، اس نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔

 یہ صحیح ہے کہ ہمارا ملک ابھی صنعتی ترقی میں پیچھے ہے، ابھی ملک کا بیشتر حصہ زراعت پر دارومدار رکھتا ہے اس لیے صنعتی اور مشینی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اس شدت اور جسامت کے ساتھ یہاں موجود نہیں، جس شدت اور جسامت کے ساتھ یورپی ممالک میں ہیں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عالمی مشینی زندگی کا Impact یہاں کی زندگی پر بھی ہے اور یہاں کی زندگی نئی نئی تبدیلیاں قبول کر رہی ہے جن سے شاعروں کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ ہمارے شاعروں کے یہاں تنہائی اور بے چارگی کا احساس مصنوعی نہیں۔ بلکہ اصلی ہے اور جوں جوں میکانکی تہذیب فروغ پائے گی،انسانی تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور انسان کی اجنبیت اور تنہائی بڑھے گی۔ اس عہد میں بین الاقوامی سطح پر بھی زندگی انتشار اور اختلال کی شکار ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے تباہ کن اثرات ابھی مٹنے بھی نہ پائے کہ تیسری عالمگیر جنگ کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

 تنہائی کا یہ احساس نئی نظموں کا ایک بنیادی احساس ہے اس لیے نظم نگاروں کے یہاں یہ احساس مختلف شکلوں میں نمودار ہورہا ہے۔ یہاں پر یہ خدشہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس احساس کی تکرار موضوع کی ایک رنگی اور یکسانیت کا باعث نہ ہوگی۔

نئی شاعری کی ایک موضوعاتی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ گاؤں سے شہر کی طرف آرہی ہے۔اور شہری زندگی جو کثرت کا ر، عدیم الفرصتی اور بے مروتی سے عبارت ہے اور جگمگاتے ریستورانوں، کلبوں اور سینما گھروں میں متحرک نظر آتی ہے اس کا محبوب موضوع بنتا جارہا ہے علاوہ ازیں چند اور موضوعات بھی ابھر رہے ہیں مثلاً احساس مرگ اور خواہش مرگ، تبدیلی کی آرزو، یہ موضوعات نئے ذہن کے عین مطابق ہیں۔ نئے شاعروں میں جن کے یہاں یہ موضوعات اور رجحانات واضح ہورہے ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں وزیر آغا محمد علوی، قاضی سلیم، کمار پاشی، بلراج کومل، بشر نواز، شہر یار، شہاب جعفری عمیق حنفی، انیس ناگی ظفر اقبال، جیلانی کامران اور دوسرے۔

مختصر یہ کہ نئی اردو نظم موجودہ دور میں جس سرعت کے ساتھ عالمی تحریکوں،ادبی نظریوں اور نئے اسالیب سے ہم آہنگ ہوتی جارہی ہے۔وہ اس کے مستقبل کے امکانات کے لیے فال نیک ہے۔

حوالہ جاتی کتب

۱۔   جدید اردو نظم اور یورپی اثرات،از، پروفیسر حامدی کاشمیری

۲۔جدید اردو تنظیم نظریہ اور عمل،از، پروفیسر عقیل احمد صدیقی

۳۔ آزادی سے قبل اردو نظم کا سماجیاتی مطالعہ ، از،پر وفیسر ممتاز جہاں صدیقی

۴۔ اردو شاعری پر ایک نظر

۵۔ جدید اردو شاعری

Leave a Reply