You are currently viewing بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں

بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں

محمودہ قریشی

 آگرہ۔

“بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں۔”

ناظم گنگناتے ہو7ئے بابوجی کے کمرے میں داخل ہوا ۔اور  بابوجی کی کرسی کے پاس رکھی چھوٹی سی دراز میں   پڑی اپنی   بائک  کی چابی نکال کر جانے لگا   ۔

بابوجی نے اسے روکتے ہوئے کہا ۔

“بیٹا مجھے ذرا بینک تو لے کر  چل میرے اکاؤنٹ    میں  کچھ پیسہ ہوگا تو نکال کر تیری ماں کودے دیتا ہوں۔تیری ماں کہہ رہی تھی گھر میں جو کچھ تھاسب ختم ہو چکا ہے ۔پتہ نہیں کب کس چیز کی ضرورت نکل آئے ۔

“تو مجھے لے چلے گا بینک “۔؟۔

بابوجی نے فکر مند لہجے میں ناظم سے کہا۔

“میرا  کچھ بھروسہ تو ہے  نہیں ۔”

“پتہ نہیں کب چل دوں کم از  کم تیری ماں کے پاس پیسہ تو ہوگا !۔

ناظم نے ایک دم کندھوں کو اُچکاتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو  ڈگڈگی کی طرح ہلاتے ہوئے جواب دیا ۔

“بابوجی میں تمہیں کہاں گھسیٹ گھسیٹ کر لے کر جاؤں گا ۔”

پھر کچھ دیر  خاموشی کے بعد

    اپنے اس  جھنوجلاتے ہوئے رویے پر کنٹرول کیا   اور بہت اطمینان کے ساتھ بابوجی  کی کرسی کے پاس بیٹھتے ہوئے نہایت ہی خلوص   کے ساتھ  کہا ۔

“بابوجی!ایک کام کروں تم مجھے اپنی بینک کی پاس بک دے دو میں خود ہی پیسے  نکال کر آپ کو  لا کر دے  دوں گا ۔”

بابوجی حیرت  سے   کہتے ہیں ۔

“بیٹا کیا وہ تمہیں پیسے دے دینگے ؟۔

کیا تجھ سے میرے دستخط کرنا آتے ہیں ؟

ناظم کی باتوں کا بابوجی پر اثر ہو رہا تھا جسے دیکھ کر ناظم  بے قرار  ہو گیا  اور بھروسے  مند لہجے میں بابوجی کو اطمینان دلایا ۔

“ہاں۔۔۔۔ہاں بابوجی میں سب کر لوں گا ۔”تم بس پاس بک دے دو۔”

باپ بیٹے کی گفتگو کو  کان لگا کر ماں کچن  سے ہی  بڑی توجہ کے ساتھ   سن رہی تھی ۔معاملہ بنتا دیکھ ماں  جھجنلاتے  ہوئے آئی اور بابوجی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ۔

“نہیں ۔۔نہیں ۔آپ اس نالائک  کو اپنی بینک کی کتاب نہیں دینا ۔اس کی کیا ہے یہ تو سب کھا پی کر اُڑا دے گا ۔

ویسے ہی  پچھلے تین سالوں سے   کرونا اور لاک ڈاؤن نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ اب اس کام چور   کو بینک کا راستہ اور دیکھا رہے ہو ۔؟

بابوجی نے اپنی عادت کے مطابق  ماں سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی

“اری کیوں بڑ بڑا رہی ہے ۔

مجھ بوڑے کو کیا بینک تک تو لے کر جائے گی ؟ ۔”

اگر یہ   ہمارا کام نہیں کرے گا تو کون  کرے گا ۔؟

تب ہی زینت کالج سے واپس آئی اور ماں  بابوجی کی لڑائی دیکھ کر سمجھ گئی ضرور ناظم نے آج پھر کوئی فرمائش ظاہر  کر دی ہوگی ۔

 وہ  فریج میں سے  پانی کی بوتل نکالتے ہوئے  کہنے لگی ۔

بابوجی کیا ہوا ۔؟

بابوجی نے پوی بات زینت کو سمجھائی اور   اپنے خدشات  سے بھی آگاہ کیا۔ زینت نے بابوجی کی ہمت باندھتے ہوئے کہا ۔

 “بابوجی  میں  لے کر چلتی ہوں آپ کو بینک ۔!!

بتائے کب چلنا ہے آپ کو ؟۔”

زینت کی بات سن کر  ماں اور ناظم دونوں وہاں سے چلے گئے۔

بابوجی نے زینت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔

“تو لے چلے گی بیٹا مجھے بینک ۔؟

 چل بیٹا آج ہی ہو آتے  ہیں ۔میں مر مرا گیا تو تیری ماں مجھے کوستی رہے گی ۔”

زینت نے کندھے اُچکاتے ہوئے جواب دیا ۔

ابھی تو بابوجی کافی وقت ہو گیا ہے ۔بینک میں لنچ ٹائم چل رہا ہوگا ۔

لکین  بابوجی کو  اداس  ہوتے  ہوئے دیکھ زینت نے  رضا مندی ظاہر کر دی اور  کہا ۔

“اچھا چلتے ہیں  چلوں ٹھیک ہے بابوجی  میں ابھی چینج کرکے آتی ہوں ۔”

زینت چینج کرکے ماں کے پاس کچن میں جا کر ماں  کو  پوری بات سمجھاتی   ہے۔ اور  وہ کھانا آ کر کھائے گی یہ  کہہ کر نکل جاتی ہے۔  ماں روکتی رہ جاتی ہے “بیٹا لڑکیاں بینک میں نہیں جایا کرتی۔”

 لکین ماں چلاتی  ہی رہ گئی  زینت نے ایک نہ سنی ۔

زینت بہت اہترام کے ساتھ بابوجی کو رکشہ میں بیٹھا کر بینک لے کر پہنچ گئی ۔دونوں باپ بیٹی بینک پہنچ گئے گیٹ پر  داخل ہوتے ہی  واچ مین نے سینی ٹائز چھڑکا۔ زینت نے  بابوجی کو ایک طرف سوفے پر  بیٹھا کر خود  لائن میں لگ کر  کاونٹر سے  معلوم کیا کہ   بابوجی کا اکاونٹ تو لین دین نہ ہونے کے سبب  بند ہو چکا ہے ۔منیجر نے زینت  کو بتایا   کہ آپ۔ کے ۔وائی۔سی ۔پوری کرا لیجئے اس کےبعد ہی آپ یہ   اکاونٹ پھر سے شروع کرا سکتی   ہیں ۔اور  اس کے بعد   پیسے  بھی نکال سکتی ہیں۔

  زینت نے وہی کاونٹر نمبر ایک سے  کے ۔وائی۔سی ۔فارم  لے کر  خود بھر  کر جمع کرا دیا  ۔اور بابوجی کے ساتھ گھر واپس آ گئی  ۔

بابوجی نے زینت سے کہا ۔

“بیٹا بینک والوں نے پیسے نہیں دیے ۔؟ “

زینت نے بابوجی  کو سمجھایا ۔

“نہیں بابوجی آج کچھ کمی تھی اکاؤنٹ میں  ۔آپ کا اکاونٹ بہت وقت سے لین دین نہ ہونے کے سبب بند ہو گیا ہے ۔کل تک چالو ہو جائے گا۔”

کل آپ   پیسے نکال سکتے ہیں  ۔

بابوجی نے گھر پہنچ کر چار پائی پر لیٹتے ہوئے زینت سے کہا ۔

“نہیں بیٹا  اب طاقت نہیں ۔

آج تو میرے پیروں کا پورا دم ہی  نکل گیا ۔ اب  کل نہیں  جا سکتا  زینت ۔

آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جب آپ کی ضرورت ہوگی تب میں آپ کو لینے آ جاؤنگی ۔اب آپ آرام کیجئے ۔”

زینت نے بابوجی کے پیر سیدھے کیے اور  انھیں چادر سے ڈھک کر ماں کی کچن میں مدد کرانے چلی گئی ۔

زینت دو دن تک بینک کے چکّر لگاتی رہی لکین بینک میں اس کو  کبھی اس  کاونٹر پر بھیجا جاتا تو کبھی دوسرے کاونٹر پر ۔لکین کچھ  کام نہیں بن رہا ۔

بینک کے منیجر کو زینت پر شک ہو گیا  اس نے  زینت کو بلایا   اور کہا ؟

“یہ پاس بک آپ کی ہے  ۔؟ “

“جی نہیں سر ۔”زینت نے جواب دیا ۔

” لاؤ دیکھاؤں اپنے سامنے رکھے سِسٹم پر اکاؤنٹ نمبر ڈال کر  اس نے چیک کیا ۔اور زینت کو گھورتے ہوئے کہا

 اور اس پر یہ  بار کوڈ کیوں نہیں ہے ۔؟ کافی پرانی لگ رہی ہے ۔”

“سر وہ دراصل یہ پاس بک  میری نہیں ہے ۔یہ میرے ۔….با….”

“جائے پہلے جاکر اس کی پوری جانچ کرائے اور ۔ ہاں سب سے پہلے آپ کے ۔وائی ۔سی ۔فارم بھریے ۔”منیجر نے زینت کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ۔

منیجر نے بینک کے  سبھی  اکاؤنٹس کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ۔

دیکھئے یہ  لڑکی کسی بزرگ کے اکاونٹ سے پیسے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔معلوم نہیں کیا معاملہ ہے آپ سب  اچھے سے چیک کیجئے گا “۔

اور بینک میں موجود سب ہی سٹاف کو چوکنّا رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا۔”

  اس لڑکی پر  کڑی نگاہ رکھنی ہے ۔  جب یہ لڑکی پیسے نکالتی  ہے  تو اس کی پوری تحقیق کرنے کے بعد ہی اس کو پیسے دیجئے گا۔ اگر کچھ بھی گڑبڑی نظر آتی ہے فورناً گرفتار کروائے گا ۔”

زینت نے دوبارہ آدھار کارڈ ,فوٹو ,آئی  ,ڈی ,فون , نمبر درجہ کر  ۔کے ۔وائی ۔سی ۔فارم بھر کر جمع کرا دیا ۔ اور گھر واپس آ گئی ۔

دوسری  صبح جب زینت بینک مین داخل ہوئی تو سبھی کی    نظریں زینت پر تھی ۔

وہ ٹاکن لے کر لائن میں لگ گئی  ۔کچھ دیر بعد وہ اپنے پیچھے لگے ہوئے شخص سے کچھ بات چیت کرکے   لائن میں   سے نکل گئی  اور بابوجی کو لے کر دوبارہ بینک میں داخل ہوتی ہے ۔اب منیجر کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے ۔کہ ضرور یہ لڑکی اپنی گروہ لے کر آئی ہے ۔ اور یہ اولڈ مین کون ہے ؟ ۔شاید یہ پوری ماسٹر مائنڈ  سے مشن کو کامیاب کرنا چاہتی ہے ۔   زینت کا نمبر آتے  ہی    اکاونٹس نے اس سے  سگنیچر کرنے کو کہا  ۔ وہ بابوجی کو آگے کر دیتی ہے ۔۔بابوجی اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے پین پکڑ کر اپنے پورے دستخط کر دیتے ہیں ۔جب اکاؤنٹس دستخط کرا رہی تھی   جو کہ  ایک خاتون ہی  تھی بابوجی سے پوچھتی ہے۔

 “یہ لڑکی کون ہے ۔”؟

“کہئی یہ آپ  کو ڈرا  دھمکا کر تو پیسے نہیں نکلوا رہی ہے۔ ؟”

بابوجی  نے مُسکراتے ہوئے کہا ۔

” نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔یہ میری خاص بیٹی  ہی ہے ۔!!!

اکاؤنٹس یہ سن کر چوک گئی  اور اس کے آنکھوں سے آنسو جھر جھر گرنے لگے  ۔

“واقعی یہ آپ کی بیٹی ہے بابا ۔”

اس نے  بابوجی اور زینت سے مافی مانگتے ہوئے کہا ۔

 “معاف  کیجئے بابوجی  ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی  پورا سٹاف اس لڑکی کو چور سمجھ رہے  تھے ۔

 بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں  بابا۔”

بینک منیجر بھی جو یہ سب اپنے سی ۔سی ۔ٹی ۔وی ۔کیمرے میں سے  دیکھ رہا تھا یہ کہتے ہوئے باہر  آ گیا   ۔

“بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں بابا ۔”

بابوجی نے زینت کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔

“ہاں بیٹا بیٹیاں بیٹوں سے اچھی ہوتی ہیں ۔”

***

Leave a Reply