پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
ہندستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
غیر ملکی جامعات میں اردو تدریس : صورت حال اور مستقبل کے امکانات
اردو موجودہ دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والی زبانوں میں سے ایک ہے ۲۰۱۸ کا اتھنالوگ ایڈیشن (2018Edition of Ethnologue Published by SIL) جسے ایس آئی ایل یعنی سمر انسٹی ٹیوٹ آف لنگویسٹک نے شائع کیا ،کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو گیارویں نمبر پر ہے۔2015 کے سروے کے مطابق انگلینڈ میں بولی جانے والی زبانوں میں اردو چوتھی پوزیشن پر ہے ۔ہندستان کے سینس 2011 کے مطابق ہندستان میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبانوں میں اردو ساتویں نمبر پرہے ۔ ایس آئی ایل کی تازہ ترین رپورٹ کے لحاظ خلیجی مماللک کے علاوہ اردو امریکہ ، انگلینڈ اور فرانس میں بہت تیزی سے مقبول ہونے والی زبان ہے ۔ایس آئی ایل نے یوروپی ممالک میں صرف فرانس کا ذکر کیا ہے لیکن فرانس کے علاوہ جرمنی بھی بڑا ملک ہے جہاں اردو کے شعرا و ادبا کی بڑی تعدا د ہے اور اردو بولنے والوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے ۔ گوگل کی اگر بات کریں تو اس میں دو طرح کے سروے رپورٹ ہیں ایک مطابق یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے ، جب گوگل یہ کہتا ہے تو اس میں بولی جانے والی زبان کے اعتبار سے بات کی گئی ہے جس میں ارد و اور ہندی دونوں کو شامل کیا گیا ہے کیونکہ بول چال کی زبان میں یہ دونوں زبانیں بہت قریب ہیں ۔ لیکن گوگل جب صرف اردو کی بات کرتا ہے تو کبھی اسے ساتویں نمبر پر کبھی اکیسویں نمبر پر رکھتا ہے ۔
کہاجاتا ہے کہ اردو، عربی کے بعددنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جس نے تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے دنیا کے طو ل و عرض کا سفر کیا ہے ۔ یعنی تہذیبی ہجرت کے لحاظ سے اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ یہ اردو والوں کے لیے باعث فخر ہے ۔ لیکن اس فخر و مباہات کاذکر اب تک ہم اس تزک و احتشام سے نہیں کر پائے ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔شاید اس معاملے میں خود ہم اپنی دور افتادہ تہذیبی وراثتوں سے یا تو واقف نہیں ہیں یا مزید تلاش و جستجو کی کوشش نہیں کرتے ۔ ورنہ اردو کے تلاطم خیز سمندر، اس کی موجوں کی طغیانی اور اس کی تہوں میں ابھی بھی بہت سے دُرِنایاب موجود ہیں ۔
بہر کیف ان اعداد شمار کے بعد ایک اور پہلو کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک افریقی جزیرہ جسے ہم چھوٹا ہندستان بھی کہتے ہیں اس کا نام ماریشس ہے ۔ یہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۳۳ فیصد حصہ مسلمان ہے ۔ماریشس میں زبان کی تدریس کا یہ نظام ہے کہ مذہب اور کلچر کے اعتبار سے انھیں ان کی تعلیم ان کی زبان میں دی جاتی ہے جیسے مسلمان کے لیے اردو ، ہندو کے لیے ہندی ، فرانسیسی کے لیے فرانسیسی کی تعلیم لازمی کی گئی ہے ۔ اس لحاظ سے دیار غیر میں ماریشس ایسی اردو کی بستی ہے جہاں ابتدائی سطح سے اعلیٰ تعلیم کی سطح تک ارود پڑھانے کا سرکاری طور پر نظم ہے ۔ اس کے علاوہ عرب ممالک میں صرف مصر ہی ایک ایسی اردو کی بستی ہے جہاں اردو کی تعلیم کئی جامعات میں ہوتی ہے ۔
ان اعداد و شمار کے بعد ذیل میں ان ممالک کی تفصیلات ملاحظہ کریں ۔ سب سے پہلے مشرق وسطیٰ کی بات کرتے ہیں ۔
مشرق وسطیٰ میں تاشقند ارود ۔ ہندی کا عظیم مرکز
مشرق وسطیٰ میں اردو کی تعلیم و تدریس کے لیے تاشقند ایک اہم مرکز ہے اس ادارے نے ابھی حال ہی میں اردو تعلیم کا اپنا پچھترواں جشن منایا ہے۔ یہاں بی ۔ اے کی سطح سے پی۔ایچ ۔ ڈی کی سطح تک کی تعلیم کا نظم ہے ۔ تاشقند ازبکستان کی راجدھانی ہے اس لیے اس شہر کو کئی اعتبار سےاہمیت اور شہرت حاصل ہے لیکن برصغیر کے لیے اس شہر کی ایک بڑی شناخت اردو کی تدریس سے بھی ہے کیونکہ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیزکے تحت1947 سے اس ادارے میں اردو۔ ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی بر قرار ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اردو کے طالب علموں کو ہندی اور ہندی کے طالب علموں کو اردو ایک مضمو ن کی حیثیت سے لازمی طور پر پڑھنا ہوتا ہے اس طرح اس ادارے سے وابستہ طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اکثر اساتذہ بھی دونوں زبانوں سے واقف ہوتے ہیں۔ اردو ہندستا ن کی قدیم زبان ہے جو ایک عرصے تک سرکاری زبان بھی رہی ہے اس کے بولنے والوں کو تعداد برصغیرمیں تقریباً تیس کروڑ سے زیادہ ہے ۔ اردوزبان میں ازبکستان بالخصوص مشرق وسطیٰ کے تہذیبی اور تمدنی عناصر کو نمایا ں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔اردو زبان میں کثرت سے مشرق وسطیٰ کی زبانوں اور علاقائی بولیوں کے الفاظ آج بھی موجود ہیں ۔
ارود اور ہندی زبان کی تدریس اور تعلیم کے لیے سب سے پہلے یہ ادارہ قیام میں آیا لیکن پہلے اس ادارے کا نام ”ترکستان انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز“ تھا جہاں اردو ۔ ہندی کے علاوہ کئی اورمشرقی زبانیں پڑھائی جانی شروع ہوئیں ۔ بعد میں 1991 میں ا س ادارے کا نام تبدیل ہو کر’’ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز‘‘ رکھا گیا ۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ تہذیبی،لسانی اور اقتصادی اعتبار سے جن ممالک سے نزدیک رہا ہے ان کی تہذیب و تمدن کو زبان کے ذریعے سیکھا اورسیکھا یاجائے۔ چنانچہ اس ادارے نے محنت و مشقت سے ایشیائی ممالک میں اپنی ایک شناخت قائم کی اوربہت تیزی یہ ادارہ ایشیا اور یووپ کے ممالک میں پہچانا جانے لگا ۔ مجموعی طور پر اردو ۔ ہندی زبان کی تعلیم و تدریس کی وجہ سے ہمارے لیے یہ ادارہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔
اس ادارے سے اردو اور ہندی کی کئی نامی گرامی شخصیات وابستہ رہی ہیں ۔ ابھی پروفیسر الفت محب صاحبہ اس شعبے کی صدر ہیں ۔ان کے علاوہ اساتذہ میں ڈاکٹر سراج الدین نورمتوف،ڈاکٹر محیا عبد الرحمانوا، ڈاکٹر لولا مکتوبہ،موجودوہ صادیقوا، سلیمانوامعمورا ، شارا حمیدوامخلصہ، کمالہ ارگا شوا اور محترمہ تماارا خوجائیوا صاحبہ بہت ہی اخلاص اور محنت و مشقت سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ا ن اساتذہ میں بہت سے ایسے ہیں جن کے مضامین ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔زیادہ تر اساتذہ پی ایچ ڈی کے علاوہ ڈی لٹ کی بھی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ ازبکستا ن میں تدریس کا ایک ایسا انوکھا نظام بھی ہے جسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی ۔یہاں اساتذہ سبکدوش نہیں ہوتے ۔ سبکدوشی کے بعد بھی یہ جب تک چاہیں تدریس سےوابستہ رہ سکتے ہیں ۔ فی الوقت محترمہ تمارا صاحبہ ہیں جو تقریباً اسی سال کی نفیس خاتون ہیں وہ اب بھی بڑی سنجیدگی سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ، عمر کے اس حصے میں بھی جس طرح ان کوچاق وچوبند دیکھا وہ قابل رشک ہے ۔اسی طرح محترمہ حمیدوامخلصہ بھی سبکدوشی کے بعد بھی وقت کی پابندی کےساتھ انسٹی ٹیوٹ آتی ہیں اور کلاسیں لیتی ہیں ۔دوسری قابل ستائش بات یہ ہے کہ تمام اساتذہ بڑے خلوص اور دوستانہ ماحول میں ایک ساتھ رہتے ہیں ، کسی کے چہرے پر کسی کے لیے کوئی شکن نہیں دیکھا ، سب ایک دوست کی طرح ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ساتھ مل کر انسٹی ٹیوٹ کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ طلبہ وطالبات کی بھی بڑی تعداد ہے ۔
اس ادراے سے جہاں تک اردو کی تعلیم کے امکانات کی بات کریں تو ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہماری جانب سے اور اس ادارے کی جانب سے کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔ آ ج کے دور میں بین الاقوامی سطح پر جب تک دیگر تعلیمی اداروں سے معاہدے نہ ہوں اس وقت تک زبان کی تعلیم کے فروغ کے امکانات محدود رہتے ہیں ۔ اب تک ہندستان کی چند جامعات سے ہی اس کے معاہدے ہیں جن میں جے این یو ، ڈی یو اور حال ہی میں اردو یونیورسٹی حیدر آباد سے اس کا معاہدہ ہوا ہے ۔حالانکہ حکومت ہند کی جانب سے اس ادراے کے طلبہ و طالبات کوبڑی تعداد میں وظیفے دئے جاتے ہیں جن میں اردو کے طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں۔ ایک اہم بات جس کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتاہوں وہ یہ ہے کہ یہاں پی ایچ ڈی اور ایم کے مقالے ازبیکی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔ ازبیکی زبان میں لکھے جانے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ازبک جاننے والے اردو ادب سے واقف ہوتے رہتے ہیں لیکن نقصان یہ ہے کہ اردو کے طلبہ کی زباندانی کی صلاحیت کم رہتی ہے ۔
مصر اردو کی تابناک سرزمین
اردو کی نئی بستیوں کا جب بھی ذکر آتا ہے اکثر ہم یوروپ و امریکہ سے اس کی ابتدا کرتے ہیں اور اسی پر بات ختم بھی ہوتی ہے۔یہ سچ ہےکہ اردو کی دیگر بستیوں سے پہلے یوروپ وامریکہ میں اردو پہنچی اور یہاں کے ادیب وشاعر یقیناً قابل مبارکباد ہیں جو اردو زبان و تہذیب کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اردو کی کئی اہم بستیاں ہیں جن تک ہماری رسائی کم ہوئی ہے اور ان کو اس طرح نہیں سراہا گیا جتنا کہ وہ مستحق ہیں ۔ان بستیوں میں مصر سر فہرست ہے جہاں اردو کی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف اور اردو سے عربی میں ترجمے کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے ۔ ہم اردو والوں نے یہاں کے ادیبوں اور اساتذہ کی خدمات کو نظر انداز کیا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دانستہ ایسا ہوا ہے شاید روابط کی کمی کے سبب اردو دنیا میں بالخصوص مصر کو متعارف کرانے میں ہم اردو والوں سے کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔مصر اگر چہ افریقہ بر اعظم کا حصہ ہے لیکن یہاں کی تہذیب پورے طور پر عربی تہذیب ہے، بلکہ اس کی تہذیب خود اپنے آپ میں مایہ ناز ہے ۔عربی زبان کا ملک ہونے کے باوصف اس ملک نے دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی آبیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اردو کی تدریس اور ریسرچ کے حوالے سے مصر کے اہل اردو کابڑا کام ہے ۔ انھوں نے اردو زبان کی تعلیم کے ذریعے بر صغیر سے تہذیبی روابط کو بحال کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔
مصر میں اردو کے طلبہ واساتذہ کی تعداد کو دیکھیں یا اردو تصنیف و تالیف کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ، طلبہ وطالبات اردو کی تعلیم و تدریس میں مصروف عمل ہیں ۔ کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اور پی۔ایچ ڈی کی سند کے حصول تک کا سفر اردو کے لیے فال نیک ہے ۔ مصر میں فی الوقت طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی تعداد سیکڑوں میں ہے ۔جن یونیورسٹیز میں ارود کی تعلیم کا باضابطہ نظم ہے ان میں ازہر یونیورسٹی کے دو شعبے (لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ الگ)عین شمس یونیورسٹی ، قاہرہ یونیورسٹی ، اسکندریہ یونیورسٹی، طنطایونیورسٹی اور منصورہ یونیورسٹی کے نام قابل ذکر ہیں۔ازہر یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو برائے خواتین اور ازہر یونیورسٹی کا لڑکوں کے لیے شعبۂ اردو ، عین شمس یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی میں سنجیدہ موضوعات پرتحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں ۔
مصر میں اردو کی تاریخ کی ایک صدی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن اس کےکارنامے حروف زریں سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ہمارے محترم دوست ڈاکٹر پروفیسر یوسف عامر ، وائس چانسلر ازہر یونیورسٹی جو بنیادی طور پر اردو کے پروفیسر ہیں ،سے اس سلسلے میں ہماری اکثر گفتگو ہوئی ہے انھوں نے مجھے مصر میں اردو کی تاریخ کے حوالے سے چند اہم موڑ کی نشاندہی کی اسی کے ساتھ ڈاکٹر پروفیسرابراہیم محمد ابراہیم ، ڈاکٹر احمد القاضی اور ڈاکٹر جلال السعید الحفناوی کے مضامین سے مصر میں اردو زبان کی نشو ونما اور ارتقا کا علم ہوا۔ ابھی میرے سامنے ڈاکٹر ابراہیم کا مضمون ہے جو عربی زبان میں ہے ۔ میں نے اپنے مصری شاگرد مصطفیٰ علاءالدین کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر ابرہیم کا یہ مضمون کافی طویل اور مفید مطلب ہے لیکن کچھ اقتباسات کا مفہوم اس طرح ہے ’’ سنہ1930ء میں بڑی تعداد میں ہندوپاک کے لوگ مصر تشریف لائے۔ یہ لوگ اردوزبان اچھی طرح سمجھتے اور بولتے تھے۔ اور ان میں ہندوستانی ابو سعید العربی کا نام قابل ذکر ہے، جنھوں نے پہلی بار اردو زبان کا رسالہ (جہان اسلامی) کے نام سے قاہرہ سے شائع کیا ۔ اسی سال 1930ء میں ایک ہفتہ واری اخبار نکلا جس کےمدیر محمود احمد عرفانی تھے ۔ اس اخبار کے اجراء میں ان کے بھائی محمد ابراھیم علی عرفانی نے بھی مکمل تعاون دیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔اردو زبان کی تدریس مصری یونیورسٹیوں ،تعلیمی اداروں میں پچھلےاسی(80) سال سے چل رہی ہے ۔ مصری حکومت نے مشرقی زبانوں کی تعلیم وتدریس پر بیسویں صدی کے نصف اول ہی سے توجہ دینی شروع کر دی تھی تدریس کے سلسلے کا آغاز سنہ1939ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے معہد اللغات الشرقیہ (اورینٹل لینگویج انسٹی ٹیوٹ)میں ہوا۔ جولائی سنہ1952ء کے بعد مصری حکومت نے اردو زبان میں ریڈیونشریات کا آغاز کیا تاکہ اس کے ذریعہ ہندوپاک کے ساتھ مصر کے دوستانہ تعلقات استوار رہیں۔ یہ پروگرام شام 6 بجے سے 8 بجے تک قاہرہ کے وقت کے مطابق ” ریڈیو قاہرہ “سے نشر کیا جاتا ہے۔‘‘( پروفیسر ابرہیم محمد ابراہیم کے مضمون سے ماخوذ)
قاہرہ کے بعد ازہر یونیورسٹی ، عین شمس یونیورسٹی اور دیگرجامعات میں اردو درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ جلد ہی مصر کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی اردو کے شعبے قائم ہونے والے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اردو پڑھنے پڑھانے والے موجود ہیں لیکن ابھی تک شاید ہند و پاک کی یونیورسٹیز سے ان کا باضابطہ کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ جس کے تحت طلبہ و اساتذہ ایک دوسرے ملک میں تعلیم اور تحقیق کے لیے آ،جا ،سکیں ۔البتہ ہندستانی حکومت کے وظیفے موجود ہیں ۔ کئی طلبہ و طالبات ہندستان میں ان وظائف پر تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ جامعات کے مابین باضابطہ معاہدے کے لیے ہندستان کی جانب سے پہل کی ضرورت ہےاور خود مصری جامعات کو بھی اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔
مصر میں اردو کے آغاز کی تاریخ ستر برسوں(70) پر محیط ہےلیکن ابھی تک صرف چند احباب نے ہی ہند وپاک کی جانب رخ کیا اور یہاں سے فراغت کے بعد اردو کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ قاہر ہ میں جن اساتذہ نے جامعہ ازہر سے اردو میں بی ۔اے کرنے کے بعد پاکستان سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ان میں ایھاب حفظی عز العرب، ابراہیم محمد ابرہیم اور جنھوں نے ہندستان سے پی ایچ ڈی کی ان میں احمد القاضی اور یوسف عامر صاحبان ہیں ۔ فی الوقت میری نگرانی میں ایک مصری طالب علم مصطفیٰ علاءالدین پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ ازہر یونیورسٹی کے کئی طالب علموں سے اس سفر میں ملاقات ہوئی جو ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے ہندستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ۔ پروفیسر ابرہیم محمد ابراہیم کے علاوہ یہ چاروں اساتذہ کئی بار ہندستان کے بڑے سیمناروں کے لیے مدعو کیے گئے۔ اس ناچیز نے پروفیسر جلال الحفناوی اور پروفیسر احمد القاضی کو دو عالمی سیمناروں میں مدعو کیا تھا ، انھوں نے میری دعوت قبول کرکے ہمارے سیمنار کو بامقصد بنایا۔ پروفیسر یوسف عامر کی ضیافت کا وہ شرف تو حاصل نہ ہوسکا لیکن انھوں نے میری دعوت پر جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں لیکچرز دیے۔ ڈاکٹر رانیا فوزی سےبھی پہلی ملاقات پروفیسر یوسف عامر کے ہمراہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہوئی اورگزشتہ سال ڈاکٹر مروہ لطفی کو لکھنؤ کےلیے زحمت دی تھی۔ڈاکٹر بسنت محمد شکری اس سال ایوان غالب، نئی دہلی کی دعوت پر ہندستان آئی تھیں۔ان کے علاوہ مصر کے دیگراساتذہ جیسے ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی ، ڈاکٹر رباب محمد ، ڈاکٹر ایناس عبد العزیز وغیرہ سے شوشل میڈیا کے ذریعے میرا تعارف تو تھا لیکن براہ راست ملاقات اس سفر میں ہوئی۔اساتذہ کے علاوہ بہت سے طالب علموں سے میں شو شل میڈیا کے ذریعے ہی رابطے میں رہا ۔ ڈاکٹر ابرہیم محمد ابرہیم صاحب سے میری پہلی ملاقات فیصل آباد ، پاکستان کے ایک بین الاقوامی سیمنار میں ہوئی تھی ۔جن اساتذہ کا ابھی ذکر ہواہے اس کے علاوہ بھی کئی نامور اساتذہ مصر کی مختلف یونیورسٹیز میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں جن سے اس سفر میں پہلی بار ملاقات ہوئی ۔یہ تمام سینئر اساتذہ کئی درجن کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ انھوں نے زیادہ تر اردو کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ۔ڈاکٹر یوسف عامر کی کتاب’’جدید عربی اردو شاعری کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہندستان کے معروف ادارے انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہوکرکافی مقبول ہوئی ۔ مصر میں حکومت کا ایک ادارہ ’قومی سینٹر برائے ترجمہ‘ ہے جہاں سے اردو کی مترجمہ سیکڑوں کتابیں شائع ہوئی ہیں جس کے سبب اردو عالم عرب سے رو برو ہورہی ہے۔جن اساتذہ کی کتابیں اس ادارے سے شائع ہوئی ہیں ان میں پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم ، پروفیسر یوسف عامر، پروفیسر جلا ل الحفناوی، پروفیسراحمد القاضی وغیرہ اہم ہیں ۔اس کے علاوہ جامعہ ازہر کے شعبۂ اردو سے سالانہ رسالہ بھی نکلتا ہے جو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں ہوتاہے۔
اردو کے مصر ی اساتذہ سے ملنے اور مجموعی طور پر اردو کے شعبوں کے دورے کے بعد ایک کمی کا احساس ہوا جس کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے محسوس ہوا کہ اردو کے اساتذہ اور طلبہ اکثر آپس میں عربی زبان میں ہی باتیں کرتے ہیں ۔ اگر اساتذہ اس جانب متوجہ ہوں اور ایسی کوشش کریں کہ کم از کم شعبے میں تمام اساتذہ اور طلبہ وطالبات اردو میں ہی باتیں کریں تو اردو کی تفہیم اور تدریس میں مزید تیزی آئے گی ۔ گاہے بگاہے ان شعبوں میں قومی اور بین الاقوامی سیمنار بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن سیمنار کی زبان اکثرعربی ہوتی ہے اگر یہ تمام سرگرمیاں اردو زبان میں ہوں تو اردو کا رواج زیادہ ہوگا جو نئے طالب علموں کے لیے مفید بھی ہوگا۔ دوسری بات جس کا خصوصی طور پر میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ مصر کے اساتذہ کی زیادہ تر تصانیف اور ریسر چ اسکالر کے مقالے عربی زبان میں ہیں ۔ اگر یہ اپنی تحریریں اردو میں لکھیں اور ہند وپاک کے رسائل میں شائع ہوں تو یہ خود بخود بر صغیر اور اردو کی دوسری بستیوں میں متعارف ہوں گے۔اردو کے مہجری ادیب ہر جگہ اپنی تخلیقات کے سبب جانے جاتے ہیں ۔ مصر کے اساتذہ میں بھی بخوبی تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ اس جانب بھی متوجہ ہوں ۔مجموعی طور پر میں اہل مصر اور حکومت مصر کو ہدیہ ٔ تبریک پیش کرتا ہوں کہ وہ بر صغیر کی زبان وتہذیب کو پروان چڑھانے کی دل سے کوشش کر رہے ہیں ۔
جاپان کی جامعات میں اردو
جاپان بھی اردو کا بڑ ا گہورا ہے یہاں اردو کی تعلیم کا سلسلہ سو برس پر محیط ہے ۔ ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو تدریس کے سو برس پورے ہونے پر2010 میں جشن صد سالہ منایا تھا ۔ جاپان میں تین اہم یونیورسٹیز ہیں جہاں ایم ۔ اے کی سطح تک کی تدریس کا نظم ہے ان میں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز جس کا قیام 1908 میں عمل میں آیا ۔ اس کا نام پہلے ٹوکیو اسکول مف فارن لیگویجیز تھا جو بعد میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اس یونیورسٹی میں ’’ ہندستانی شعبہ ‘‘ کھولا گیا جس میں اردو ۔ ہندی کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن 1947 میں تقسیم ملک کے بعد اس شعبے کا نام بدل کر شعبہ ٴ اردو رکھا گیا ۔یہاں بی ۔اے سے ایم۔ اے کی سطح تک کی تعلیم کا نظم ہے ۔ہندستان کے مقابلے اس ادارے کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے ۔ یہاں مستقل پاکستان سے اردو کے اساتذہ تدریس کے لیے جاپانی حکومت کی جانب سے بلائے جاتے ہیں ۔ اس وقت یہاں پروفیسر ہیروشی ہاگیتا صدر ہیں یہ جاپانی زبان میں اردو کا ایک رسالہ بھی نکلالتے ہیں۔ ان سے ہماری کئی بار کی ملاقات ہے ۔ ان کے علاوہ اس شعبے میں پروفیسر اسادا اور پروفیسر مامیاکین ساکو اور ایک پاکستانی استاد ہیں ۔ میرے مشورے سے انھوں نے حال میں اپنے رفیق کار ڈاکٹر مامیاکین ساکو کو جے این یو سے باضابطہ معاہدے کے لیے بھیجا تھا جو الحمد اللہ ہوگیا اور دونوں جانب سے طلبہ و استاتذہ کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔اس شعبے سے منسلک پروفیسر اسادا اور پروفیسر سوزوکی تاکشی کا اہم نام ہے ۔
پروفیسر آرگامو کو جاپان میں ’’ اردو کا بابائے ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اردو تدریس اور اردو زبان کے فروغ میں ان کی کوششوں کا بڑا اہم رول رہاہے ۔ حالانکہ جاپان میں اردو تدریس کی ابتدا کے حوالے سے ہندستان کے انقلابی رہنما مولوی بر کت اللہ کا نام سر فہرست ہے ۔وہ 1908 میں جاپان گئے اور انھوں نے ہی وہاں اردو تدریس کی بنیاد ڈالی ۔جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبہ ہندوستانی کے اولین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے۔اس کے بعد ٹوکیو سے ہی فارغ ارددو کے طالب علم ریچی گامو یہاں استاد مقرر ہوئے اور وہ باضابطہ اردو کے پروفیسر بنائے گئے ۔ ان کی کوششوں سے اردو کی تدریس نے کافی ترقی کی ۔ انھوں نے ہند و پاک کے ادیبوں سے رابطے بھی کیے ان میں پرو فیسر نور الحسن کا نام اہم ہے ۔ ان دونوں نے مل کر اردو بول چال کی درسی کتاب تیار کی جو آ ج بھی نصاب میں شامل ہے ۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے بعد اوساکا یونیورسٹی اور دائیتو بنکا یونیورسٹی کا نام آتا ہے ۔ یہاں بھی اردو بی۔اے اور ایم۔اے کی سطح تک پڑھائی جاتی ہے ۔اوساکا میں اردو 1921 سے اردو تدریس کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 1921 میں اوساکا اسکول آف فارن لینگویجز کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر 1944 میں کالج بنا اور 1945 میں اس نے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔ اس شعبے سے منسلک اساتذہ میں پروفیسر ہیروشی کان کاگایا،پروفیسر تسونیو ہماگچی، پروفیسر میتسومورا استاد پروفیسر سویامانے اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں ۔ دائیتو بنکا یونیورسٹی کے اساتذہ میں ایک اہم نام پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہے۔ یہ اب سبکدوش ہوچکے ہیں یہ بہت نفیس اردو بولتے ہیں اور اردو میں اچھی شاعری کرتے ہیں اور غالب کےکلام کو لحن سے جاپانی انداز میں پڑھتے ہیں ۔ اسکے علاوہ جاپانی ادارہ برائے بین الاقوامی تعاون جائیکا کا تربیتی مرکز ہے جہاں اردو کی ثانوی سطح کی تدریس کا انتظام ہے ۔
مجموعی طور پر جاپان جیسے ملک میں اردو کی تدریس کا انتظام ہے مگر زیادہ تر یونیورسٹیز میں طلبہ و و طالبات کی تعداد بی۔اے میں زیادہ سے زیادہ بیس اور ایم۔اے میں پانچ یا چھ ہوتی ہے ۔ان یونیورسٹیز سے پاکستان کے تعلقات زیاد ہ۔ بہتر ہیں اور جاپانی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو پاکستان کی زبان ہے اس لیے وہ زیادہ تر معاہدے پاکستان کی جامعات سے کرتے ہیں ۔ ہندستان کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو چاہیے کہ ان سے اردو کے نام کے حوالے سے رابطہ قائم کریں ۔
ماریشس میں اردو کی تدریس
ماریشس کو ہم چھوٹا ہندستان کہتے ہیں اس لیے کہ یہاں کی آابادی کا ایک بڑا حصہ ہندستانی مہاجرین کی ہے اسی لیے یہاں کی تہذیب و تمدن میں ہندستانی خوشبو موجود ہے اور بڑی تعداد میں اردو بولنے والے ہیں ۔ ماریشس میں اردو تدریس کی کے سلسلے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں اسکولوں میں اردو تدریس کا نظم ہے۔ ماریشس میں اردو کے ایک ادیب فاروق رجل نے وہاں کی منسٹری کی ایک رپورٹ مجھے بھیجی ہے جس کے مطابق وہاں اسکولوں میں معلمین کی تعداد 254 ہے ۔اردو کی اعلٰی ٰ تعلیم کے لیے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ ہے جس کی بنیاد اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1970 میں رکھی تھی ۔ 1974 سے یہاں اردو تعلیم کا نظم ہوا۔یہاں کئی ہندستانی زبانیں جیسے ارود ، ہندی ، تمل، تلگو، مراٹھی وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں ۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں بی۔اے اور ایم ۔اے کی سطح کی تعلیم ہوتی ہے ۔ لیکن جس طرح اسکولوں میں اردو تدریس کا انتطام ہے۔ اعلٰیٰ اردو تدریس کے لیے صرف یہی ایک داراہ ہے جہاں بی۔اے۔ میں تو تقریباً بیس طلبہ وطالبات ہوتے ہیں مگر ایم۔ اے کی سطح پر طالب علموں کی تعداد بہت کم رہ جاتی ہے ۔ اس ادراے کے پیلے انچارج قاسم ہیرا تھے اس کے بع اس قافلے میں عنیات حسین عیدن شامل ہوئے جو ماریشس میں اردو کے بڑے ادیب ہیں انھو ں نے ناول ، افسانہ ، ڈرامے لکھے ۔ان کے علاوہ صابر گوردڑ، اعجاز رحمت علی، آصف علی محمد ، سکینہ ، زینب ، نازیہ اور مہرین کا نام ہے ۔
یہاں بی۔اے اور ایم ۔اے میں ایک پیپر کے طور پر طلبہ مقالہ لکھتے ہیں جس کو دیکھنے کے لیے ہندستان یا پاکستان سے بیرونی ممتحن کے طور پر بلایا جاتا ہے ۔ ایک دہائی قبل آئی سی سی آر کی جانب سے اردو کے اساتذہ بھیجے جاتے تھے مگر اب یہ سلسلہ شاید اہل ماریشس کی تساہلی کے سبب بند ہوگیا ہے ۔ میں بھی دو سال اس ادارے میں بیرونی ممتحن کے طور پر خدمات انجام دی ہیں ۔ میں نے یہاں کے اساتذہ کو اس جنب متوجہ کیا مگر اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے ۔
ترکی میں اردو کی تدریس
اردو تدریس کے لحاظ سے ترکی اردو کی ایک اہم بستی ہے ۔ ترکی میں اردو تدریس کے سو سال مکمل ہوچکے ہیں اور 2015 میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو نے اردو تدریس کا جشن صد سالہ منایا جس میں دنیا بھر سے سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی تھی۔ استنبول میں تین بڑی یونیورسٹیز میں اردو پڑھائی جاتی ہے ان میں استنبول یونیورسٹی،انقرہ یونیورسٹی اور سلجوق یونیورسٹی ،( قونیا )ہیں ۔ اردو تدریس کا سلسلہ سب سے پہلے انقرہ یونیورسٹی میں 1956 سے شروع ہوا۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں بڑی مدد کی اور اپنے ملک سے ڈاکٹر داؤد رہبر کو یہاں اردو تدریس کے لیے بھیجا انھوں نے اردو کورسیز کو مرتب کیا اس طرح یہ شعبہ ترقی کرتا گیا ۔ اردو کے پہلے ترک استاد شوکت بولو ہیں ان کی شبکدوشی کے بعد ڈاکٹر سلمی بینلی نے انقرہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کا عہدہ سنبھالا۔ اس درمیان پاکستان سے کئی اردو کے اساتذہ جاتے رہے ۔ فی الوقت یہاں ڈاکٹر گلسرین ہالی جی اوز کان، ڈاکٹر آسمان بیلن اوز جان اور ایمیل سیلیم اردو کی استاد ہیں ۔ یہاں بی۔اے، ایم ۔اے اور پی ایچ ڈی کی سطح تک اردو کی تعلیم کا نظم ہے ۔ لیکن یہاں بھی پی ایچ ڈی کے مقالے ترکی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔
سلجوق یونیورسٹی جو قونیا میں واقع ہے یہاں بھی اردو کا بڑا شعبہ ہے جو ڈاکٹر ایرکن ترکمان کی کوششوں سے 1985 میں قائم ہوا۔یہاں بھی ایم ا۔ اے تک کی تعلیم کا نظم ہے اس شعبے میں اردو کے طلبہ وطالبات کی خاطر کواہ تعداد ہے ،۔ یہاں بھی ایم کے مقالے ترکی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔ یہاں کے اساتذہ میں ڈاکٹر نوریے بلک، ڈاکٹر درمش بلغور، ڈاکٹر خاقان قیومجو،۔ ڈاکٹر رجب درگن کے نام اہم ہیں ۔
ترکی میں اردو کا تیسرا اور سب سے بڑا شعبہ استنبول یونیورسٹی میں قائم ہے جو 1974 میں قائم ہوا ۔ یہاں بی۔اے۔، ایم ۔اے اور پی۔ایچ۔ ڈی تک کی تعلیم ہوتی ہے ۔ ترکی میں سب سے فعال یہی شعبہٴ اردو ہے ۔ یہاں کے نامی گرامی پروفیسر خیل طوق آر ہیں جو اردو کے اچھے نثر نگار اور شاعر بھی ہیں انھوں پچاس سے زائد کتب کو تصنیف اور ترجمہ کیا ہے ۔ ان کے علاوہ پروفیسر جلال سوئیدان، ڈاکٹر کارداش ذکائی اور حخدیجہ گورگن اس شعبے سے وابستی ہیں ۔ ایک ہندستانی استاد کو ڈاکٹڑ راشد کو ذاتی طور پر رکھا گیا ہے ۔ اس شعبے نے تحقیق، تنقید اور شاعری کی سمت میں بڑے کام کیے ہیں ۔ یہاں اکثر و بیشتر ادبی سیمناروں کا بھی انعقاد کیا جاتا رہا ہے ۔
مجموعی طور پر ترکی میں اردو کی اعلیٰ سطح پر اردو کی تدریس بڑے پیمانے پر ہورہی ہے ۔ یہاں مختلف أصناف نثر و نظم پر سوسے زائد پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاچکے ہیں ۔کچھ مقالے جستہ جستہ شائع بھی ہوئے ہیں جن سے کم از کم ترکی جاننے والے مستفید ضرور ہوئے ہیں۔ ان۔ تمام یونیورسٹیز سے حکومت پاکستان کے گہرے روابط ہیں ۔ ہندستان کو بھی ان سے روابط پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان اساتذہ کے لیے مشکل یہ ہے کہ یہاں اردو بولنے کا رواج کم ہے اسی لیے زیادہ تر یہ اپنی زبان میں باتیں کرتے ہیں اسی لیے کچھ اساتذہ بہت روانی سے اردو نہیں بول پاتے ۔ لیکن مقام شکر ہے کہ اردو کی تدریس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
یوروپی ممالک میں اردو کی تدریس
یوروپی ممالک میں اردو کی تدریس کے لحاظ سے سب سے پہلے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کا نام سامنے آتا ہے ۔ یہاں کا شعبہٴ اردو کرسٹینا اوسٹر ہلڈ کی وجہ سے بہت مشہور ہوا کیونکہ کرسٹینا ایک پڑھی لکھی خاتوں ہیں ، وہ خالص لب ولہجے میں بہت نفیس اردو بولتی ہیں ۔ انھوں نے ہند و پاک کے علاوہ کئی ممالک میں اردو کے سیمناروں میں شرکت کی ہے ۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں بی۔اے اور ایم۔اے سطح کی تعلیم ہوتی ہے ۔ لیکن اب ط؛بہ و طالبات کی تعداد کم ہوگئی ہے ۔ اس ادراے کو پاکستانی حکومت نے اقبال چئیر دے رکھا ہے جس کے تحت پاکستان سے اکثر اردو کے پروفیسران وہاں جاتے ہیں ۔ ابھی کئی برسوں سے یہ چئیر خالی ہے ۔
مشرقی برلن میں برلن یونیورسٹی میں اردو تدریس کا سلسلہ بہت قدیم تھا لیکن اتحاد کے بعد یہ سلسلہ موجود نہیں ۔ اب برلن میں ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھی اردو کی تدریس ہوتی ہے لیکن یہاں ابتدائی اور بی۔اے کی سطح تک کی تعلیم ہوتی ہے ۔ابھی سرور غزالی اس شعبے سے جڑے ہوئے ہیں ، یہاں کے طالب علم جز وقتی اردو کورس کے لیے معاہدے کے تحت جے این یو آتے رہتے ہیں ۔اسی شہر میں ’’فری یونیورسٹی ‘‘ بھی ہے جہاں ابتدائی سطح کی اردو تدریس ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ برلن میں ائر فورٹ میں بھی اردو کا شعبہ تھا جو اب بند ہوگیا ہے یہاں جناب عارف نقوی برسوں تک جڑے رہے ۔ اس کے علاوہ بھی جرمنی میں کئی یونیورسٹی ہیں جہاں اردو کی تدریس کا انتطام طلبہ کے مطالبے پر ہوتی ہے لیکن اعلیٰ تعلیم نہیں ہوتی۔ جرمنی میں برلن کے جزوقتی لیکچر شپ ہیمبرگ، بون،ٹوٹنگن، میونح، ورتز برگ، مائنز میں قائم ہے۔ ہالینڈ میں لائیڈن یونیورسٹی میں اضافی مضمون کے طور پر اردو کی تدریس کا نظم ہے ۔ اسی طرح ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں خود اختیاری مضمون کے طور پر اردو تدریس کا نظم ہے ۔ سوئٹزرلینڈ کی برن یونیورسٹی میں ایم ۔ اے کی سطح تک اردو تدریس کا نظم ہے ۔ اس یونیورسٹی سے مشہور مستشرق اشپرینگر وابستہ رہے ہیں ۔وارسا یونیورسٹی پولینڈ میں ایم ۔اے تک کی تعلیم ہوتی ہے ۔ یہاں ہندستانی شعبے کے تحت اردو کی تدریس کا نظم ہے ۔ پولینڈ کی دوسری یونیورسٹی آدام میکویز یونیورسٹی میں بھی اردو بطور غیر ملکی زبان پڑھائی جاتی ہے ۔اوسلو یونیورسٹی ناروے میں شعبہ ٴ مشرقی علوم کے تحت عربی ، فارسی ، سنسکرت کے ساتھ اردو کی بھی تدریس ہوتی ہے ۔
یوروپ کے ممالک میں فرانس کا نام اردو رتدریس کے لیے اہم ہے گارسین دتاسی نے 1828فرانس میں اردو تدریس کی بنیاد ڈالی ۔گارسیں دتاسی وہی اہم مستشرق کانام ہے جن کی تحقیقات کو آج بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ فرانس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار لینویج اینڈ سویلائزیشن جس میں اعلٰی ٰ سطح کی اردو تدریس ہوتی ہے ۔ فرانس میں اردو بولنے والے کی اچھی تعداد ہے اسی لیے کئی اردو کی تنظیمیں بھی موجود ہیں ۔
یونیورسٹی اورینٹل انسٹی ٹیوٹ ، (نیپلز اٹلی) یہ بہت قدیم تعلیمی ادارہ ہے اس کا قیام اٹھارہویں صدی میں ہوا لیکن پہلے اس کا نام ایشیائی علوم کا شاہی مدرسہ جسے Real Collegio Asiatieo تھا پھر اس کا نام اورینٹل اسنٹی ٹیوٹ ہوااس کے بعد انسٹی ٹیوٹ سپریر اورینٹل ہوا اور آخر میں یونیورسٹی اورینٹل انسٹی ٹیوٹ ہوا۔ اس ادارے میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا نظم ہے ۔ یہا ں پی ایچ ڈی کی سطح تک اردو پڑھائی جاتی ہے ۔اس یونیورسٹی میں کئی اہم تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ۔
روم میں ازمیو یعنی institute Italiano Pero Ed Esttremo Oriente ایک نیم سرکاری ادارہ ہے ۔ اس ادارے میں دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ اردو کی تدریس کا اعلیٰ نظام ہے جہاں تین سالہ کورس کے تحت اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ اس ادارے کی دو شاخین بھی ہیں ایک میلان میں اور دوسرا تیور ن میں ۔ چارلس یونیورسٹی ۔ پراگ ۔ چیک ریپبلک ۔ میں 1942 سے اردو کی تدریس کا عمل شروع ہوا۔ پروفیسر ونسنس پورزگا کا شمار اردو تدریس کے پیش نہاد مستشرق میں ہوتا ہے ۔ کارولین یونیورسٹی ( پراگ۔چیک جمہوریہ ) میں بھی اردو تدریس کا نظم ہے پروفیسر یان مارک کا اہم نام اس یونیورسٹی سے جڑا ہوا ہے ۔انھوں نے پراگ یونیورسٹی سے اقبالیات پر پی ایچ ڈی کی ہے ۔
یوروپی ممالک کی ان جامعات میں اردو کے اہم موضوعات پر کئی قابل قدر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں اور کئی مستشرقوں نے اردو کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔ان یونیورسٹیز کی اردو خدمات پر کسی ادارے کی مدد سے تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دیار غیر میں اردو کی تدریس اور تعلیم کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے گئے ہیں ان کو اردو تدریس کی تاریخ میں محفوظ کیا جاسکے ۔
برطانیہ میں اردو کی تدریس
برطانیہ میں ارود کے فروغ کی کہانی عام طور پر بر صغیر پر برطانوی تسلط سے شروع ہوتی ہے ۔ لیکن برطانیہ میں اردو تدریس اور تحقیق کی تاریخ اس سے پہلے کی ہے حالانکہ برطانیہ میں اردو درس و تدریس کا سلسلہ یورپ کے کئی ممالک کے بعد شروع ہوتا ہے مگر برطانیہ نے اردو زبان و ادب اور تدریس میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل قدر ہیں ۔خود ہندستان میں فورٹ ولیم کالج بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو برطانوی کوششوں کا نتیجہ تھا لیکن خود برطانیہ کے مختلف شہروں میں کئی جامعات اور کالجز ہیں جو اردو کی درس و تدریس میں آج بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔برطانیہ میں ان کی تعداد بہت ہے لیکن یہاں ہم چند اہم جامعات کا ذکر کرتے ہیں ۔
برطانیہ کی مختلف کی یونیورسٹیز میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا نظم ہے ویسے ابتدائی سطح پر اردو کی تدریس بیشتر یونیورسٹیز اور کالجز میں موجود ہے ۔اس کی وجہ یہ ہےکہ برطانیہ میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو چوتھے نمبر پر ۔ برطانیہ کے کئی شہروں میں تو مقامی لوگوں سے بھی زیادہ تعداد مہاجرین کی ہے اس لیے اردو تدریس کا نظام کسی نہ کسی طور پر وہاں موجودہے ۔ لندن کے علاوہ مانچیسٹر ، شیفلڈ ، برمنگھم اور کئی جگہ اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں لندن یونیورسٹی کا اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز(SOAS) کانام بہت اہم کیونکہ اس وابستہ کئی مستشرقوں نے اردو تحقیق و تصنیف کے سمت میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں 1859 سے اردو کی تعلیم کا آغاز ہوا ، کیمبرج یونیورسٹی میں 1832 سے اردو کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ،رائل ملٹری اکیڈمی میں 1861 سے اردو کی تدریس ہورہی ہے ۔ ان کے علاوہ کنگز کالج لندن ، چیلٹھنم کالج برطانیہ، ٹرنٹی کالج ڈبلن، رائل ملٹری اکیڈمی ولوچ، ایٹن کالج ، ایڈن برگ یونیورسٹی اسکاٹ لینڈ،یونیورسٹی آف ڈرہم ، برمنگھم یونیورسٹی وغیرہ میں بھی اردوکی تدریس ہورہی ہے ۔
امریکہ میں اردو
امریکہ کی کئی ریاستوں میں اردو کی تدریس کا نظم ہے لیکن زیادہ تر جامعات میں اردو بی۔اے لیول تک پڑھائی جاتی ہے ۔ جن جامعات میں اردو موجود ہے ان میں سے اہم جامعات کے نام اس طرح ہیں ۔ورجینیا یونیوورسٹی، یونیورسٹی آف پینن سلوانیا، یونیورسٹی آف شکاگو،آک لینڈ یونیورسٹی،برکلے یونیورسٹی ،کارنل یونیورسٹی ،پورٹ لینڈ یونیورسٹی ،ہارورڈ یونیورسٹی ،ڈیوک یونیورسٹی ، براون یونیورسٹی، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا، نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف مینی سوٹا، یونیورسٹی آف کولوراڈو، بوسٹن یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف اوتاہ،کولمبیا یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی ، اوہیو یونیورسٹی،یونیورسٹی آف لوا، جان ہاپکنس یونیورسٹی، یونیورسٹی آف میشی گن، نیو یارک یونیورسٹی، پرنسٹن یونیورسٹی،یلے یونیورسٹی۔
امریکہ کے علاوہ کناڈا میں بھی اردو کی ابتدائی تدریس ہوتی ہے جن جامعات میں اردو موجود ہے وہ یہ ہیں ۔کناڈ ا میں میکگل یونیورسٹی ، برٹش کولمبیا یونیورسٹی ، ٹورنٹو یونیورسٹی میں بھی اردو تدریس کا نظم ہے
افریقہ میں اردو کی تدریس
افریقی ممالک میں ارود کے تدریس کے حوالے سے جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) کا ذکر ضروری ہے ۔جواہانسبرگ میں اُردو بولنے والوں کی اچھی تعداد موجود ہے ۔ یونیورسٹی آف ڈربن ویسٹ ویل میں شعبہ اُردو، فارسی اور عربی ہے جہاں بی ۔اے تک اُردو بطور اختیاری مضمون پڑھائی جاتی ہے ۔ایم ۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی بھی اُردو میں کر سکتے ہیں ۔
بنگلہ دیش میں اردو کی تدریس
بنگلہ دیش میں یوں تو اردو کی تدریس کا سلسلہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں 1921سے ہی شروع ہوتا ہے جہاں ایک ہی شعبے میں اردو ، عربی اور فارسی کی تدریس کو نظم تھا ۔ اس شعبے کو خاطر خواہ ترقی ملی لیکن ملک کی آزادی کے وقت یہ نشیب و۔ فراز کا شکار ہوتا ہے ۔ لیکن یہ سلسلہ نہیں ختم ہوا۔2007 میں طالب علموں کی تعداد بڑھتی گئی تو اردو کو الگ شعبے طور پر ڈھاکہ یونیورسٹی نے منظوری دی اور اب یہ اردو کاایک بڑا شعبہ ہے جس میں 9 اردو کے اساتذہ ہیں ۔یہ سارے اساتذہ بنگالی ہی ہیں ۔ ابھی حال میں ہندستان کی حکومت کی جانب سے اس یونیورسٹی میں اردو کے استاد کو بھیجنے کی بات چلی ہے ۔ممکن ہے بہت جلد کوئی ہندستانی استاد وہاں مقرر ہوں۔ یہاں ایم۔اے اور پی ڈی کی سطح تک کی تعلیم کا نظم ہے ۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرح راج شاہی یونیورسٹی میں بھی پی ایچ ڈی کی سطح تک کا نظم ہے یہاں 1962 سے اردو کی تدریس کا سلسلہ ہے لیکن پہلے یہ لیکویجیز ڈیپارٹمنٹ کے تحت تھا جس میں کئی غیر ملکی زبانیں پڑھائی جاتی تھی ابھی حال ہی میں 2018 میں یہ خود مختار اردو شعبے کے طور پر بحال ہوا ہے ۔ یہاں بھی اساتذہ کی تعداد تقریباً نو ہے ۔
حاصل مطالعہ :
مجموعی طور پرغیر ملکی جامعات میں اردو کی تدریس اور صورتحال اطمینان بخش ہے ۔لیکن تحقیق کی صورت حال چند ممالک میں ہی بہتر ہے ۔ اس تعارفی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ :
• بیشتر ممالک میں جہاں اردو میں پی ایچ ڈی کرائی جارہی ہے وہاں کے مقالوں کی زبان ان کی ملک کی ہے ۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اردو ادب سے روشناس ہوں گے ۔لیکن ان اساتذہ میں اردو بولنے کی استعداد کم رہتی ہے کیونکہ ان کی تحریری زبان اردو ہے مگر بولنے کی زبان ان کی اپنی ہے ۔
• اگر غیر ملکی جامعات کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی آمد و رفت اور تربیتی پروگرام کو کچھ نظم ہو تو ان ممالک میں اردو کے فروغ کے امکانات بہت روشن ہیں ۔
• ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے روابط بحال کیے جائیں اور ان کی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔
• اور جس حد تک ممکن ہو ان کو کتابیں مہیا کرائی جائیں کیونکہ ان کی لائبریوں میں بہت کم کتابیں موجود ہیں خاص نئے لکھنے والوں کی کتابیں تو بالکل ہی نہیں ہیں۔
ان تمام کمی و بیشی کے باوجود اردو کے لیے یہ فال نیک ہے کہ اردو دنیا کی مختلف ممالک میں پڑھائی جارہی ہے ۔
***