You are currently viewing خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کا شعری جہان

خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کا شعری جہان

ندیم احمد انصاری

شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کا شعری جہان

         خواجہ عزیز الحس مجذوبؔصاحبِ دیوان شاعر ہیں، پہلے حسنؔ تخلص کرتے تھے، پھر مجذوبؔہو گئے۔ حمد، مناجات، نعت، مرثیہ، غزل ، نظم مختلف اصناف میںطبع آزمائی کی۔کلام میں لطافت، متانت، روانی، معنی آفرینی، فکر و تخیل سبھی کچھ موجود ہے، لیکن سب سے بڑی خوبی روحانیت و عرفان ہے۔  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے دامن گرفتہ اور خلیفہ و مجاز تھے، اور شیخ کے یہاںممتاز مقام تھا۔ حضرت تھانوی کے تقریباً دو سو خلفا ہوئے، سبھی مجذوبؔ کا عارفانہ کلام درد و محبت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ آج بھی مشائخِ سلوک کے یہاں عموماً اور سلسلۂ تھانوی میں خصوصاً مجذوبؔکا کلام انتہائی مقبول ہے۔

قدر مجذوبؔ کی خاصانِ خدا سے پوچھو

شہرۂ عام تو اک قسم کی رسوائی ہے

         مجذوبؔ کی تاریخِ ولادت ۱۲؍جون ۱۸۸۴ء اور تاریخِ وفات ۱۷؍اگست ۱۹۴۴ء ہے۔وطنِ اصلی بھرت پور، قصبہ ندبئی اور وطنِ ثانی اُورئی، ضلع جالون ہے۔اعلیٰ تعلیم علی گڑھ کالج میں حاصل کی ۔سات برس ڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر فائز رہے،پھر تنخواہ کی کمی کے ساتھ محکمۂ تعلیم میں تبادلہ کروا لیا۔ اولاً مکاتبِ اسلامیہ کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے، پھرانگریزی اسکولوں کے انسپکٹر آف اسکولز(یوپی) مقررہوئے اور پنشن پاکر سبک دوش ہوئے۔

         شوکت تھانوی نے ’شیش محل‘ میں مجذوبؔ کا خاکہ ان الفاظ میںکھینچا ہے:

خواجہ صاحب ڈپٹی کلکٹر تھے۔ سود کی ڈگری دینے کے بجائے محکمۂ تعلیمات میں منتقل ہو جانا پسند کیا اور اب تک اسی محکمے میں ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ سے عشق کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں اور حضرت مولانا مدظلہ کی توجہ نے ڈپٹی کلکٹر کو آدمی ہی نہیں، بلکہ مسلمان بنا دیا ہے۔ شعر خوب کہتے اور نہایت کیف کے ساتھ پڑھتے ہیں، شعر پڑھتے ہوئے ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہیں۔ صرف زبان سے ہی نہیں سارے جسم سے شعر پڑھتے ہیں، نہ داد لینے کا ہوش ہوتا ہے، نہ داد کی رسید دینے کا۔ خود ہی جس شعر کو جی چاہتا ہے پچاس دفعہ پڑھ جاتے ہیں اور جس شعر کو جی چاہتا ہے، ایک ہی مرتبہ پڑھ کر رہ جاتے ہیں۔۔۔بہت ہی عمدہ کہتے ہیں، مگر کسی غزل میں ڈھائی سو اشعار سے کم نہیں کہتے اور پھر انتخاب نہیں کر سکتے، کہتے چلے جاتے ہیں اور پھر کہہ چکنے کے بعد سناتے چلے جاتے ہیں۔ اشعار کے ان انباروںمیں اچھے برے سب ہی قسم کے شعر ہوتے ہیں، مگر اچھے زیادہ اور معمولی کم۔

         اُردو زبان و ادب کے خدمت گاروں نے مجذوبؔ پر کماحقہ توجہ نہیں دی،اب تک ان کی حیات و خدمات اور ان کی نظم و نثر پر کوئی مبسوط کام نہیں ہوا، ہاںشوکت تھانوی نے ایک خاکہ لکھا، علامہ سید سلیمان ندوی نےایک مضمون لکھا، مولانا معین الدین احمد ردولوی نے ایک بسیط مضمون ان کی شاعری پر لکھا، محمدرضا انصاری نے محمد طفیل کی فرمائش پر ماہ نامہ نقوش کے لیے ایک تحریر لکھی۔’ذکرِ مجذوب مرتبہ پروفیسر احمد سعید ‘میں قدرے تفصیل ملتی ہے، لیکن کمیت کے اعتبار سے یہ ناکافی ہے۔ مجذوبؔ کا کلام ان کی وصیت کے مطابق اولاً’کلامِ مجذوب‘ کے نام سے شائع ہوا اور پھر ’کشکولِ مجذوب‘ کے نام سے مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اب یہی ان کا کُل شعری جہان ہے، جو عرفان و محبت سے پُر ہے۔

جو مجذوبؔ کا ہے کلامِ محبت    وہ دنیا کو ہے اک پیامِ محبت

         کشکولِ مجذوبؔ کا آغازحسبِ روایت حمدِ باری تعالیٰ سے ہوتا ہے، پہلی حمد میں۳۷؍ اور دوسری میں۹؍ اشعار ہیں۔ پہلی میں مجذوبؔ تخلص آیا ہے اور دوسرے میں حسنؔ۔

دونوں جہان کا دُکھڑا مجذوبؔ رو چکا ہے           اب آگے فضل کرنا یا رب ہے کام تیرا

*

حسنؔ اوپر تِرے فریاد لایا نفسِ سرکش کی          مدد چاہے بھلا کس سے تِرا بندہ سوا تیرے

         نعْت:

         کشکولِ مجذوبؔ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجذوب نے نعتیں بھی کہی ہیں، متفرق اشعار کے علاوہ ان کی پانچ مستقل نعتیںاس مجموعے میں شامل ہیں۔ پہلی نعت۲۸(اٹھائیس)، دوسری۴۵(پینتالیس)، تیسری۱۷(سترہ)، چوتھی۲۰(بیس)، اور پانچویں۱۵ (پندرہ) اشعار پر مشتمل ہے۔ان نعتوں میں والہانہ عشقِ رسول کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔

         دو شعر ملاحظہ فرمائیں:

موتی بکھیرے میں نے مزارِ حضور پر     ہر قطرہ اشک کا درِمنثور ہو گیا

*

مدینہ جاؤں پھر آؤں مدینہ پھر جاؤں     تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

         غزَل:

         مجذوبؔ اصلاً غزل کے شاعر ہیں۔ کشکولِ مجذوب میں ان کی غزلوں کا مکمل دیوان موجود ہے،اس میں تقریباً ڈیڑھ سو غزلیں شامل ہیں۔یہ غزلیں کیا ہیں، سراپا سلوک و معرفت کا منظوم بیانیہ ہیں۔ان میں عشق و محبت ہے، لیکن حقیقی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہر تمنّا دل سے رخصت ہو گئی          اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

*

ناچیز ہیں پھر بھی ہیں بڑی چیز مگر ہم     دیتے ہیں کسی ہستیِ مطلق کی خبر ہم

*

یہ ہوا ثابت بوقتِ امتحانِ دردِ دل       دردِ دل سمجھے تھے جس کو تھا گمانِ دردِ دل

*

محبت کے بدلے محبت ستم ہے          نہ لے اُف نہ لے انتقامِ محبت

جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے        تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا

*

جو دامن تر ہے تیرا پاک دامانوں سے بہتر ہے      گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہے آستیں ساقی

*

بس ایک بجلی سی پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے    اور اب جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے

*

ہے شوق و ضبطِ شوق میں دن رات کشمکش         دل مجھ کو میں ہوں دل کو پریشاں کیے ہوئے

*

مشکلیں عاشق کو ہیں بس قبل از دیوانگی            کچھ دنوں غم سہہ لیا پھر عمر بھر مسرور ہے

*

گُم گشتۂ حیرت کوئی مجھ سا بھی نہیں ہے           میں خود ہوں کہیں دل ہے کہیں ہوش کہیں ہے

*

جیتے ہیں اب نہ مرتے ہیں اپنی خوشی سے ہم       اچھا ہوا کہ چھوٹ گئے فکر ہی سے ہم

نظم:

         مجذوبؔ نے متعدد نظمیںبھی کہی، موضوعات عنوانات سے واضح ہیں: (۱) تمنائے مجذوبؔ بہ لقائے محبوب (۲)مدحتِ شیخ (۳)پنشن(۴) تنبیہِ غافل از مجذوبِؔ عاقل (۵)سوال و جواب: صوفی و مجذوب (۶)حیات بعد الممات (۷)حقیقتِ نفس (۸)طریقۂ اصلاح (۹)فریبِ خوابِ ہستی (۱۰)صدائے مجذوبؔ: دعائے طالبین بہ درگاہِ رب العالمین (۱۱)دعوات السالکین برائے رجوع الی الصادقین (۱۲)تمکین بعد التلوین (سفرتھانہ بھون) (۱۳)اشک ہائے عقیدت(۱۴)حقائق و بصائر(۱۵)نئی روشنی (۱۶)نظم بہ موقع شکار کاٹھہ (۱۷)برسات کی آمد (۱۸)تہذیبِ نو (۱۹)دلیرانہ نظم (۲۰)نعرۂ جاں باز (۲۱)اصلی گھر مع درسِ عبرت (۲۲)پیغامِ بیداری (۲۳)اسلامی نظم (۲۴)ترانۂ مسلم (۲۵)مسٹر اور ملا کی نوک جھونک ملقب بہٖ نمک دان ظرافت (۲۶)مکافاتِ خرافات (۲۷)مسلم کی بیداری(۲۸)ہمارا جھنڈا (۲۹)نفیرِ غیب (مولانا ظہور الحسنؒکی فرمائش پر دو ازدہ تسبیح کے ہر چہار اذکار کے متعلق دس دس بند تصنیف فرمائے تھے، اسی کا تاریخی نام نفیرِ غیب ہے) (۳۰)ایک طویل نظم بعنوان’فغانِ بیوہ‘ ہے،عنوان تلے یہ شعر مرقوم ہے:

فغانِ بیوہ بہ یادِ شوہر بوقتِ تقریبِ عقدِ دختر

جو اس کو سن لے وہی ہو مضطر کسی کا کتنا ہی دل ہو پتھر

         منظوم مکاتیب:

          مجذوبؔ نے بعض مظوم مکاتیب بھی رقم فرمائے۔ مفتی جمیل احمد تھانویؒ نے۴۵؍ اشعار پر مشتمل ایک خط مجذوبؔکو ارسال کیا تو عدم فرصت کے باوجود منظوم جواب دیتے ہوئے رقم فرمایا:

فرصتِ فکرِ شعر ہے معدوم

مختصر سی یہ عرض ہے مرقوم

         اس میںکُل ۳۳؍ اشعار ہیں، ہر دو اُردو شعر کے بعد فارسی میں یہ شعر دُہرایا گیا ہے۔

کار کن کار بگذر از گفتار

اندریں راہ کار باید کار

         مفتی موصوف نے ہی ۱۸؍ اشعار پر مشتمل ایک اور منظوم مکتوب بھیجا، اس کے جواب میں مجذوبؔ نے اسی فارسی شعر کو دہراتے ہوئے کُل ۸۴؍اشعار تصنیف فرمائے۔

         مرثیہ:

         مجذوبؔ نے مرثیےمیں بھی طبع آزمائی کی، کشکولِ مجذوب میںچودہ اشعار پر مشتمل ایک مرثیہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ پر اور چار مرثیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی وفات پر لکھے ہوئے موجود ہیں۔ آخرالذکر مرثیوں میں اشعار کی تعداد حسبِ ذیل ہے: (۱)پہلا مرثیہ:۵۰؍ شعر (۲)دوسرا مرثیہ: ۵؍شعر (۳)تیسرا مرثیہ:۶؍ شعر (۴)چوتھا مرثیہ:۵۰؍ شعر۔

         حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مرثیے کا ایک شعرملاحظہ ہو:

بپا شورِ قیامت ہے جو ہر سُو کس کا ماتم ہے          ہے پیدا کس کی خاطر ہر گلو سے نالۂ صور آج

         حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مرثیے کا ایک شعرملاحظہ ہو:

یہ کس نے جہاں سے گزر کر جہاں میں           قیامت سے پہلے قیامت بپا کی

         اسلامی سہرا:

         شمس الحسن تھانوی کے نکاح کے موقع پر ان کی والدہ نے مجذوبؔسے اصرار کیا کہ وہ ان کے فرزند کے لیے سہرا لکھیں، اس فرمائش و اصرار پر انھوں نے ۵۴؍اشعار پر مشتمل سہرا لکھا۔ ۱۹؍شعر حسنِ معنوی اور ۳۵؍شعر حسنِ ظاہری پر مشتمل ہیں۔دو مطلعوں کے ساتھ ۲۲؍اشعار پر مشتمل ایک نظم بعنوان ’مبارک بادی مظہرِ تاریخِ شادی‘ بھی لکھی ہے۔

         سہرے کا آخری شعر اس طرح ہے:

مبارک ہو تجھے نوشاہ سہرا علم و تقوے کا                   سرِ مجذوبؔ دیوانے کو ہے دیوانہ پن سہرا

         مجذوبؔ کا یہ کُل شعری جہان ہے، جو دستیاب ہے، محققین کو چاہیے یہ ان کا مطالعہ کر کے ادب میں خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کا مقام متعین کریں۔

***

Leave a Reply