You are currently viewing مہمان اداریہ

مہمان اداریہ

رمیشا قمر

مہمان اداریہ

نئے عزائم کا سال

2023″ نیاسال شروع ہوچکا ہے ۔نئے سال کے لیے ہم سب کے نئے منصوبے ,نئے اصول اور نئے مقاصد ہوں گے۔اپنے مقاصد ومنصوبوں میں ایک مقصد یہ بھی شامل کرلیں کہ ہمیں اپنی زبان کی ترویج وترقی میں اپناحصہ ڈالنا ہے ۔اپنے حصے کا چراغ جلاکر اردو کی بزم کو روشن کرنا ہے ۔

   یوں تو اردو زبان کی شیرینی و لطافت کا ہر کوئی قائل ہے اور اردو سے محبت کے دعویدار بھی بہت ہیں مگر محبت کا دم بھرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ محبت جس سے کی جاتی ہے اس کی فکر ہوتی ہے۔ اس کا خیال ہوتا ہے۔ اس کے پھلنے پھولنے اور اسے پروان چڑھانےکا سامان کیا جاتا ہے ۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اردو  ہماری مادری زبان ہے اور اس سے ہمیں بہت محبت ہے مگر محبت کا ثبوت دینے کا جب وقت آتا ہے تو ہم اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں ۔اس کے حق میں کچھ کرنے کی بات تو الگ ,کچھ بول بھی نہیں پاتے جبکہ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان کو جس سے  محبت ہوتی ہے اس کے تحفظ اور بقا  کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور  اس بات کا جتن کرتا ہے  کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کا ساتھ کبھی نہ چھوٹے وہ  ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں ۔ مگر اردو زبان سے محبت کا دم بھرنے والوں کا حال بالکل مختلف ہے ۔ایک طرف محبت کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ خود تو اس کا ساتھ چھوڑ  ہی رہے ہیں  اپنے بچوں کو بھی اردو سے دور رکھ رہے ہیں۔انھیں

اردو کے بجائے دوسرے میڈیم میں تعلیم دلوارہے ہیں۔ ان کے اپنے اسکول بند ہو رہے ہیں اور وہ کھڑے ہو کر چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جو بچے کچے ان کے اپنے اسکول ہیں وہاں بھی اردو  تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کر رہےہیں ۔نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے والا نصاب نہیں بنا رہے ہیں ۔

    کیوں ہم اردو کو پسماندہ زبان سمجھ رہے ہیں؟ کیوں اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کر رہے ہیں ؟کیا ہم اپنے اسکولوں کا معیار تعلیم انگریزی اسکولوں کی طرح نہیں بناسکتے ؟کیا ہم جدید تکنالوجی کا استعمال اردو اسکولوں میں نہیں کرسکتے؟کیا ہمارے اساتذہ ہمارے بچوں کے رول ماڈل نہیں بن سکتے؟ خدارا محبت کا راگ الاپنے کے بجائے اپنی زبان کے لیے کچھ کریں ۔ کچھ سنجیدگی دکھائیں، کچھ ہاتھ پاؤں ماریں ، یاد رکھیں جو قوم اپنی

زبان کی حفاظت نہیں کرسکتی وہ مٹ جاتی ہے ۔اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہ پاتا۔

      لہذا ہمیں اس برس نئے عزم ، نئے جوش وجذبے ،نئی لگن ،اور نئی سوچ کے ساتھ آگے آنا ہے اور اپنی زبان کے تئیں محبت کا ثبوت دینا ہے ۔ ہم یہ طے کریں کہ اردو کو قومی و بین الاقوامی سطح پر فروغ دینا ہے اور اس کے پرچم کو ساری دنیا میں لہرانا ہے۔

   حسب دستور اور منشائے ” ترجیحات”کے پیش نظر اس شمارے میں بھی ہماری یہی کوشش رہی ہے کہ ہم اس کی  بین الاقوامیت کو قائم رکھ سکیں اور ہمارے قارئین و ناظرین تک اردو زبان وادب کے مختلف علاقوں میں جگمگانے والے رنگ پہنچ جائیں ۔آپ جان سکیں کہ اردو زبان وادب کے سلسلے میں کہاں کہاں کیا کیا ہو رہا ہے ۔اس زبان کے فروغ کے لیے بین الاقوامی سطح پر کس کس طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ کہاں کے اسکالر اردو زبان کی ترویج و ارتقا کے لیے کیا کر رہے ہیں ۔کدھر کیا لکھا جا رہا ہے ۔تحقیق کی صورت حال کیا ہے ۔ ہمیں کس کس صنف میں اور کیا کیا کرنے کی ضرورت ہے ۔

   زیر نظر شمارے کی فہرست سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ،” ترجیحات” کی ترجیحات کیا ہیں اور ہمارا یہ جریدہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہے۔  ہمارا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم نئی نسل کے ادیبوں کو زیادہ سے زیادہ مواقعے دیں تاکہ ان کا طرز اظہار بہتر اور موثر ہو سکے۔ ساتھ ہی ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں ۔   “ترجیحات “کو خوب سے خوب تر بنانے کی ذمے داری بھی نئی نسل کی ہے ۔کیوں کہ جس کی جتنی حصے داری اتنی اس کی ذمے داری ۔ ہماری نئی نسل خصوصاََ رسرچ اسکالر سے اپیل ہے کہ کلا سیکی و تدریسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان وادب کے نئے موضوعات ومسائل پر بھی قلم اٹھائیں اور اپنی تحریروں میں عصری حسیت کو بھی سمونے کی کوشش کریں ۔

  ہم اپنے قارئین سے یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس رسالے  میں شامل مضامین و تخلیقات پر کھل کر لکھیں ۔اپنی بے باکانہ رائے دیں ۔ اردو زبان وادب کے متعلق ہم سے سوال کریں ۔اس سے پررسالے میں شامل تحریروں کی قدر وقیمت کا اندازہ تو ہو گا ہی ان کی تنقیدی اور تفہیمی صلاحیتیں بھی فروغ پائیں گی ۔

      خدا کرے نئے سال میں آپ کو نئی نئی خوشیاں ملیں اور ہماری اردو زبان اتنی پھلے پھولے کہ دنیا اسے رشک سے دیکھے ۔

                                       ***

Leave a Reply