You are currently viewing ناول کی ہیئت اور مختلف مفکرین

ناول کی ہیئت اور مختلف مفکرین

ڈاکٹر محمد نورالحق

شعبۂ اردو

بریلی کالج، بریلی

 

ناول کی ہیئت اور مختلف مفکرین

ناول کی ہیئت کے تعلق سے مختلف مفکرین نے الگ الگ رائیں قائم کی ہیں۔ کسی نے ناول کو عہد جدید کا رزمیہ کہا ہے تو کسی نے عہد جدید کی انتشاری کیفیت کو سامنے رکھ کر اس فن پر گفتگو کی ہے۔ ناول اپنی وسعت کے اعتبار سے بھی تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ وسعت میں بکھراؤ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور گٹھے ہوئے ناول بہت مشکل سے سامنے آپاتے ہیں۔ مثلاً لوکاچ کے نقطۂ نظر کو دیکھیں۔

لوکاچ عہد رزمیہ کی جمالیاتی احساس سے زیادہ متاثر معلوم ہوتا ہے۔ اس کی نظر میں عہد رزمیہ اور اس کی فنکاران تخلیقات سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رزمیہ (ناول) سے بہت اعلی درجہ کی ہیں ۔ کیونکہ عہد رزمی کی تخصیص اس کی خود یقینی  کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں زندگی اور روح کا تصور یکساں ہے۔ اس معنی میں کہ انسان کی شخصیت اور اس کی تخلیق میں ایک مضبوط اورٹوں رشتہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ناول کی ہیئت Homelessness کی ایک ماورائی اظہار ہے۔ ناول ایک ایسے وقت کی رزمیہ ہے جس کے لئے تکمیلیت (اور اسلئے دنیا کی نمایاں یکسانیت اور انسانی مضبوطی اور انسان اور اس کی تخلیق کا ٹھوس رشتہ ) صرف ایک مسئلہ اور ایک آرزوبن کر رہ گیا ہے۔ لوکاج ناول کو ادبی صنف میں مسائلی صنف مانتا ہے کیونکہ جس دنیا نے اسے ایجاد کیا وہ اپنی ساری بناوٹ (Structure) میں مسائلی ہے۔

” The novel is problematic in double sense! first it expresses the problematic character of both the structure. And the man of its age; second and as a result, its made of expression, its whole structure is full of unaccomplishable task or problems.”

(1 Page 24 Recontructing aesthetics. FEREN FEHER)

لوکاچ دراصل ناول کی تنقیدین کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتا بلکہ صرف تاریخی فلسفہ کو سامنے رکھ کر ہی ڈون ’کونگزوٹ‘ سے لے کر اپنے زمانے تک کے ناولوں میں کوئی قانونی حل تلاش نہیں کر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نقادلوکاچ کو انتہا پسند مصنف کہتے ہیں ۔ خود مارکسی نقادوں میں بریخت اور بنجامین نے لوکاچ کے نظرئے سے اختلاف کیا ہے۔ لوکاچ نے بورژوا دور میں ناول کے ہیرو کی شخصیت کے ٹوٹنے بکھرنے پر زور دیا ہے۔ جوا دھوراپن اور عملی زندگی میں عام انسان کو بے قرار کئے ہوئے ہے اسی کی تکمیل کی کوشش بورژوا ناول میں نظر آتی ہے۔  اسی لئے لوکاچ نے انیسویں صدی کے مال کو اس بکھری ہوئی ادھوری شخصیت کی تکمیل کی تلاش قرار دیا تھا۔ اور انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی ابتدا کی یورو کی حقیقت پسندی کو ناول کیلئے مثالی نظر آیا۔ لوکاچ کے نظر بیناول پر حسن نے کچھ اس طرح سے تبصرہ کیا ہے۔

’’گویا کہ لوکاچ کے دور تک آتے آتے فن سے عموما اور ناول سے خصوصا سا ہی حقیقت کی عکاسی کا مطالبہ کیا جانے لگا اور ٹالسٹائی، ڈکنس ٹامس مان وغیرہ کے طرز کی ساتی عکاسی کو مثالی قرار دیا جانے لگا۔ یہی نہیں لوکاچ نے ایک قدم آگے بڑھا کر ……………………………… فن سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ انحطاط پذیر بورژودا سماج کی تین اور مایوسی کی عکاسی کرنے کے علاوہ اس معاشرے اور نظام اقدار کی کچھ اس طرح تنقید کر لے کہ اس کے مثبت امکانات کی طرف اشارہ ہو‘‘۔ (۲ صف۳۵۵- ۳۵۴مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ ناول کی ہے ہیئتی اور بورژوائی کردار پر فرینک فیبر (FERENC FEHER) کچھ اس طرح رقمطراز ہیں۔

” The novels ‘formlessness’ and ‘Prosaic” character corresponds structurally to the formless and chaotic progress through which bourgeois society annihilated the first island of realised human substanee while also generating a major  development of the powers of the species. Thus the only novel expresses the stage in human emancipitation not only in its content. In notions of collectivety structured by its categories, but also in its form.”

(3 Page 26 Reconstructing aesthetics)

ناول کی دنیا چاہے جتنی بھی شکست و ریخت کی دنیا ہواس کی ہیئت میں شکست وریخت کی صورتحال کو قبولیت نہیں مل سکتی۔ کیونکہ کوئی بھی معاشرہ تمام تر انتشاری اور نراجی کیفیت کے باوجود اپنے اندر ایک داخلی نظم و ضبط اور اتحاد رکھتا ہے ۔ ج کا مکمل ادراک ایک فنکار کیلئے ضروری ہے ناول کی دنیا میں ذات اور خار بھی دنیا کی دوئی(Duality) ضرور نمایاں رہتی ہے۔ لیکن فرد کی تجسیم کے ذر یعے جماعت کی تجسیم کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ وین گینٹ ڈوروتھی (Van ghent dorothy) لکھتا ہے کہ

“The process of the novel is to individualize As with other art forms, what it has to say that is of collective value is said by inference from individual concrete things.”

(Page 4 English novel form & function)

لیکن جو لوگ یہ تسلیم کر چکے ہوتے ہیں کہ ناول ایسے سماج میں پیدا ہوا ہے جس میں جماعت کی گز ممکن نہیں ۔ انکی بناوٹ جماعتی نوعیت کی نہیں ہوسکتی انہیں تسلیم کر لینے میں تامل نہیں ہوتا ہے کہ ناول صرف فردکی آواز ہے۔ جس کا ماحول شکست و ریخت کا شکار ہے اور جو دم گھونٹ دینے والی تہائی کوجنم دیتے ہیں ۔ اس سے یہ مفروضہ آسانی سے قائم ہو جا تا ہے کہ  ناول کے مواد اور ہیئت دونوں کا شکست در یخت کا شکار ہونا قدرتی بات ہے۔ یہ مفروض نظر یکی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جس سے ادب میں بے معنویت کی تحریک کی داغ بیل بھی پڑتی ہے۔ عارف عبدالمتین اس فنی بے راہ روی کو سماجی نقطۂ نظر سے گھناؤنا جرم قرار دیتے ہیں کیونکہ ’یہ فن کا مقدس لبادہ اوڑھ کر عوام کے دل و دماغ پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک مذموم سعی ہے‘ ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ

”وہ سی جو انہیں عملا باور کراتی ہے کہ زندگی ایک مجہول شئے ہے، انسان اور معاشرہ انفرادی اور اجتماعی اکائیاں نہیں بلکہ چھوٹے بڑے جیت، بے وضع اور بے روپ الجھاؤ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کوکھ سے جنم لینے والامن بھی اصل مجہولایت، بے جہتی ہے چستی اور بے روپ پن کا مظہر ہونا چاہئے کہ اسی میں ان کی عظمت کا راز مضمر ہے‘‘۔

(صف ۱۸۵ امکانات)

چنانچہ سماج اگر بدنظمی  کا نخچیر ہوبھی تو ان کا منصب اس بدنظمی  کو پیش کر کے اسے دور کرنا ہے نہ کہ خود بدنظمی کا شکار ہو جانا۔ کیونکہ ایک بے ترتیب شئے کی دوسری شئے کی بے ترتیبی کی عکاسی پر کیونکر قادر ہوسکتی ہے اسکی مثال آئینہ سے دی جاسکتی ہے کہ آئینہ انسان کو چہرے کی بے ترتیبی دکھا کر اسے درست کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ خود کئی ٹکڑے ٹکڑے ہو تو انسان کی بہتر تھی کو بڑھا دیا۔ لہذا بے ترتیبی کی عکاسی کرنے والے کا آئینہ کی طرح بذات خودمرتب وسالم ہونا بے حد ضروری ہے۔

ہیئت اور ناول نگاری کے سلسلے میں ہنری جیمس کا ذکر چکا ہے۔ ہنری جیمس پہلا ناول نگار ہے جس نے ناول نگاری کے سلسلے میں ہیئت کی بحث اٹھائی ۔ اسکے نظر می بایست یا احساس ہیئت سے قبل تناول نگاری کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ملتی بلک فنی نقطۂ نظر سے تنقید اس کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ اس نے اپنے احساس ہیئت کی خودبھی تشرت کی ہے اور دوسرے ناول نگاروں پر تنقید بھی کی ہے ۔ وہ ناول کی عضوی وحدت پر زور دیتا ہے۔ لیون ایڈل نے لکھا ہے کہ

James insisted that his subject dèctate its structure and why he believed he could thus achieve an “Organic” novel.

(1 Page 216 Six American Novelists of the Twenteeth Century)

دراصل ہنری جیمس کو سب سے زیادہ اہمیت ناول کو ایک آسان اور غیر تربیت یافتہ ہیئت (Underplained form) سے اٹھاکرادبی فنکاری کا ایک پیچیدہ شکل یا نمونہ بنانے کی حیثیت سے ہے۔ کیونکہ ناول کو آسان فن سمجھنے کی وجہ سے دوسرے فنون کے مقابلے میں پست درجہ کافن سمجھا جاتا تھا۔ ہنری جیمس نے اس کی شعوری کوشش کی کہ شاعری کی طرح ناول میں ابہام پیدا کی جائے جس فن میں پیچیدگی آجائے۔ اس کا اس نے کئی جگہوں پر انکشاف بھی کیا ہے۔ Leon Edal لکھتا ہے کہ

“james revaled on more than one occasion how he deliberately sought ambiguity so that his reader would imagine his own ” horror ” – on The theory that a nightmare is more frighteming to the person who

(dreams it. ” 2 Page 213 Ibed )

ہنری جیمس ہیئت کو ناول کی ساری جزئیات کو اپنی گرفت میں رکھنے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس نے بھی ہیئت کی تشر سے نہیں کی ہے ) لیکن اس کی صفت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’ہیئت ناول کو اس بے بس لفاظی کی گڈ مڈ سے بچاتی ہے جو بے مزه شیر گرم پوٹین میٹھی (دودھ، انڈا اور بریڈ سے بنی میٹھی چیز) کے سمندر میں ہمیں تیرنے کیلئے مجبور کرتا ہے۔ اور یہ کہ ہیئت ان کی تنزلی کی شرمندگی سے بچاتی ہے۔

“Form alone takes, and hold and preserves, substance.- saves it from the welter of helpless verbiage that we swim in as in a sea of tasteless lepid pudding, and that makes one ashamed of an art capable of such degradations.”

(3 Page 246 the letter of Herny James II Ed, labbook)

ہنری ناول کو دوسرے عضوی تنظیم کی طرح زندہ اور سلسل چیز سمجھتا ہے اور جس تناسب میں ہی زندہ رہتا ہے اسی تناسب میں پایا جاتا ہے۔ اس کا ہر حصہ دورے حصہ سے مر بوط ونسلک رہتا ہے۔

“A novel is a living thing, all one and continuous, Like any other organism, and in proportion as it lives will it be found, I think that in each of the parts there is something of each of the other parts.”

(4 Page 15 the art of fiction – James)

ہنری نیمس کے احساس ہیئت کا اندازہ اسکے فل بیر کے ناول مادام بویری پردی گئی رائے سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ہم لوگ مادام بویری کو اس کی موضوع کی وجہ سے نہیں پڑھتے کیونکہ اس میں کوئی قابل تعریف یا شائستہ چیز پیش نہیں کی گئی ہے بلکہ اس میں صرف تشفی بخش طور پر نمائش (Exibition) کے نازیبا عناصر کو ایک مکمل نا قابل فراموش ہیئت (Unsarpassable form) عطا کیا گیا ہے۔ اس کی ہیئت اپنے نظریہ کی روح کی مناسبت سے دلچسپ بھی ہے اور تحرک و فعال بھی ۔ اپنی مناسبت سے بہت ہی قریب ہے اور اپنی زندگی کا جزو لاینفک ہے ۔ ہم لوگ اس کی میت کو اپنے سفر کے آغاز سے ہی پاتے ہیں ۔ اس کی ہیئت صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے موزوں اورمکمل ہے ۔ فلابیئر  کی تخلیق ایک کلاسک ہے۔ یہ تخلیق ایک آئیڈیل یا مثالی تخلیق ہے۔ چونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس طرح کے عمل سے باطنی حسن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ’مادام بویری‘ کی ہیئت کی تعریف کے ساتھ ساتھ وہ ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جس سے اس کے جینیس کو دھکہ لگتا ہے۔ مثلاً

“We in england ignore consideration of form and style ‘because the novel is prepondently cultivated among us by women, in other words by a sex ever grace fully, comfortably, enviably unconscious (It would be too much to call them even suspicion) of the requirements of the form. “

( Page – 25 The art of geroge eliot) W.J.HARVEY

ہنری جیمس کے اس طرح کے تبصرے کو HARVEY بکواس کرنے سے تعبیر کرتا ہے۔ ہاروی کے خیال میں بہتری عام طور پر اپنی باتیں نزاکت اور باریکی سے پیش کرتا ہے اور اپنے لئے حیرت انگیز بھی ہے لیکن دوسرے کے لئے بہت سخت الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ٹالسٹائی اور دستوگی کے بارے میں اس طرح اپنے خیال کو پیش کرتا ہے

Tolstio and Dostoevsky are fluid puddings, though not, because the amount of thepir own mind………………but there are all sorts of things to be said of them, and in particuler that we see how great a vice is their lack of composition, their defiance of economy and architecture………

( 2 Page 246 The letter of Henry James)

تاہم ہنری جیمس کی ہیئت کی تکنیک و اصول کی اہمیت کا انداہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعد کے اکثر ناول نگار جن میں Verginia Woolf, James Joyce, Joseph Contrad, Dorothy Richardson وغیرہ شامل ہیں، نے ہنری کے تکنیک اور جمالیاتی نظریات کو اخذ کیا اور اسے آگے بڑھایا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہنری جیمس کی ہیئت ناول نگاری کے سلسلے میں حرف آخر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وقتی طور پر جیمس نے لوگوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کر لیا تھا ۔ ایڈون موئر (Edwin Muir) کی رائے ہے کہ ’ہنری جیمس نہ تو پہلے کے ناول کی ہیئتوں کوتکمیلیت بخشتا ہے اور نہ ہی ناول کے فن میں کوئی اضافہ کرتا ہے۔ وقتی طور پر یہ لوگ ضرور اسے ناول کے فن اور تکنیک میں حرف آخر سمجھ بیٹھے تھے لیکن وقت کے ساتھی ہی وہ بھی روایت میں شامل ہوکر اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اسلئے ہنری اور اس کے ناول کو اشتقاق یا ایک نئے شاخ (Off shoot) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کی اس نئی شاخ (Off shoot) کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ہیئت اور ناول نگاری کے سلسلے میں پرسی لبک (Percy Lubbok) کی کتاب کرافٹ آف فکشن (Craft of Ficiton) کو کافی اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ناول میں ہیئت پر زور دینے والا یہ پہلا نقاد ہے۔ اس نے ناول کے ہر پہلو کو لے کر سیر حاصل بحث کی ہے اور ہیئت کی بہتری کے لیے نکات بھی بتائے ہیں۔ پرسی ناول کے فن میں پیچیدگی اور مشکل پسندی کا رسیا ہے۔ لیکن ایک معنی میں اپنے آپ کو بہت محدود کر لیتا ہے، کیونکہ ناول کی بہترین ہیئت کے لیے صرف ہنری جیمس کی ہیئت کو مثالی (Ideal) بنا لیتا ہے۔

ایک ناول کو ایک مخصوص ہیئت کافی سمجھتا ہے اسے مش زندگی کی تصویشیا سے تعبیر نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک زندگی  میں ایک آہنگ ضرور ہے لیکن جو زندگی ہم جیتے ہیں اور جو تھیکرے اور جیمس کے ناولوں میں پاتے ہیں ان میں فرق ہے۔ ناول تخیل کی  ایک نئی دنیا کو پیش کرتا اوا ہے کبھی کبھی کچھ ناولوں میں دنیا کی عجائبات کو اس طرح پیش کر دیا جاتا ہے کہ ہم ان میں کھو جاتے ہیں اور ناول کی تشکیل یا اس کی ہیئت کو بھول جاتے ہیں کہ ناول کے اندرون ناول نگار نے کیا اور تخلیق کی ہے۔ ناول میں ہیئت، ڈیزائن اور تشکیل کو ضرور دیکھنا چاہئے۔ یہی ہیئت کا مقصد ہے۔ اس میں جو عناصر کارفرما ہوتے ہیں ان میں ناول نگار کار مجان ، موضوع کا انتخاب اور اس کے تخیل کا طریقہ (Manner of imagination) وغیرہ کافی اہم ہیں۔

لبک ناول کی بہترین ہیئت کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نقطۂ نظر(Point of view) کو دیتا ہے۔ فنکار کے نقطۂ نظر اور موضوع کی طرف اس کا رجحان پر ہی ہیئت کا انحصار ہے۔ ناول کی تشکیل میں بہت سارے مختلف تم کے جزوی حقیقتیں جوملی طور پر آنکھوں کو لکڑی یا پتھر کی طرح مختلف ومتاز دکھائی دیتی ہیں شامل ہوتی ہیں ۔ انہیں اچھی طرح سمجھنا کہ آخر نہیں کیوں اچھی طرح استعمال کیا جارہا ہے تبھی ان کا میں استعمال ہوسکتا ہے اور کتاب کے اختتام پر ایک مکمل مربوط ، اور قابل تعریف تخلیق دماغ میں بنی رہ سکتی ہے۔ اگر آنکھوں کو ہیئت نامکمل معلوم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موضوع کا کہیں نہ ہیں اور کسی نہ کسی طرح نامکمل اظہار ہوا ہے۔ جس سے کہانی کو نقصان پہنچا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ موضوع کے ساتھ ناول نگار کا رویہ نہیں رہا ہو پھر اپنے ارتقا کے راستے سے الگ ہٹ گیا ہو۔ یھی ممکن ہے کہ موضوع ہی بے ثمر ہو ۔ مواد کے سارے لوازمات سے ناآشنا شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص دیوار کی تعمیر میں مٹی، لکڑی ، اور پتھر کا استعمال تو کرتا ہے مگر ان تینوں کی وسعت سے ناواقف ہوتا ہے جو کسی ناول میں صرف زندگی ، خیالات اور کہانیوں کو تعریف کی نظروں سے دیکھتا ہے وہ در اصل معما نہیں ہوتا ۔ فنکار کو چاہئے کہ وہ اپنے راستے کی بلندی کو مدنظر رکھے۔

لیک ایک ناول سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ایک زیادہ بہتر ،زیادہ یے ، زیادہ رکھیں اور زیادہ طاقتور زندگی کو پیش کرے اچھی ساخت والے ناول اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے ناول میں موضوع اور ہیئت اس طرح ضم ہو جاتے ہیں کہ انہیں الگ نہی کیا جا سکتا اس طرح کی تخلیق میں مواد کو ہیئت سے اس طرح ملا دیا جاتا ہے کہ ہیئت تمام مواد کا اظہار کر دیتی ہے۔ بہترین ہیئت وہی ہے جو اپنے موضوع کو بہترین ڈھنگ سے پیش کر دے۔ فسانے میں اس کے سوا ہیئت کی کوئی اور تعریف نہیں ہے۔

“The best form is that which makes the most of its subject – there is no other definition of the meaning of from in fiction.”

لبیک کا خیال ہے کہ ایسافروضہ ہرگز قایم نہیں کرنا چاہئے کہ فنکار یاتخلیق کار اپنے موضوع کے مفہوم سے جذباتی طور پراتنا متاثر ہوجاتا ہے کہ وہ ہیئت کے مجروح حسن کو بھول جاتاہے۔ حالانکہ ایسی جیست کے لیے  یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی جگہ نہیں۔ لیکن ناول نگار کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ایک صنعت کار (Craftsman) ہے۔

لبیک کی طرح دوسرے ناقدین کی رائے کو بھی دیکھتے چلیں جو ہیئت اور ناول نگاری کے سلسلے میں اہمیت رکھتے ہیں۔

ای۔ ایم فاسٹر کے خیال میں شاعری اور ڈرامے کے برخلاف ناول کی کوئی اپنی متعین شعریات نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ناول ایک،اسینجی  قطعہ (Spongy treat) کی طرح ہے اور ادبی اصناف میں سب سے زیادہ ہے ہیئت ہے اسلئے قدرتی بات ہے کہ کوئی بھی ادبی تقاعدہ اس کیلئے موزوں نہیں ہوسکتا۔ ناول کی خاصیت یہ ہے کہ ناول نگار ہم سے اپنے کرداروں کے تعلق باتیں کر سکتا ہے، ان کے ذریعے کرسکتا ہے اور میں ان کی آپس کی باتیں سنے کے قابل بناسکتا ہے۔ ساتھ ہی ناول نگار اپنے اور اپنے کرداروں کے تحت الشعور کاعلم بھی رکھتا ہے اور اچھی طرح سے ان کی تصویر بھی پیش کر سکتا ہے۔ لیکن فاسٹر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ‘Aspect of the novel میں ہیئت کے عنوان سے بحث نہیں کی ہے بلکہ پڑن  اور آہنگ کو ہیئت کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ پھر بھی اس کے نظریۂ ہیئت سے اس پر روشنی پڑتی ہے کہ ناول نگاری میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ ادب برائے ادب کے عنوان سے ایک خطبہ میں وہ کہتا ہے کہ

” And form is as important today when the human race is trying to ride the whirtwind, as it ever was in those lees agitating days …………… and the discovery of science were made slowly, slowly. form is not Tradition. It alters Form generation to generation. Artist always seek a new technique and will continue to do so as long as their work excites them. But form of some kind is imperative. It is the surface crust of the internal harmony, It is the outward evidance of order.”

(2 Page 73 Tradition in Modern novel theory)

فاسٹر ہیئت کو کوئی دائی شے نہیں کہتا بلکہ ہیئت وقت زمانے اور مواد کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ناول کو ادبی اصناف میں سب سے زیادہ ہے ہیئت تسلیم کرنے کے باوجودوہ ناول میں ہیئت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اور ناول کی ہیئت میں بہتری اور تبدیلی چاہتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ فیلڈنگ سے بیٹ(Bennet) تک ناول میں موضوعات کا زبردست تنوع کے باوجود ہیئت میں کوئی تبدیلی نظرنہیں آتی۔ وہ ناول کی ہیئت کو ایک پکچر گیلری (Picture Gallery) سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس میں مناظر اور واقعات گیلری  کی تصویروں اور کھڑکیوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں لیکن گیلری نہیں بدلتی اسی طرح ناول کے مواد تو متعدد اقسام کے ملتے ہیں لیکن ہیئت وہی کی وہی ہے۔ لیکن ورجینیا وولف کی تنقید کے باوجود کہ وہ ناول نگار سے زیادہ شاعرہ معلوم ہوتی ہے، اس کی ہیئتی تجربے کی سراہنا کرتے ہوئے ناول کی ہیئت میں بہتری کی پیشین گوئی کرا ہے۔ ملاحطہ ہو۔

یاه

“English fiction, despite the variety of its content has made little innovation in form between the days of feilding and Bennett. It might be compared to a picture gallery……….. The pictures and the windows are infinite in number, so that every variety of experience seems assured, and yet there is one factor that never varies: namely the gallery itself, the gallery is always the same, and the reader always has the feeling that he is pacing along it, under the conditions of time and space that regulates his daily life. Virginia Woolf would do away with the sense of pacing. The pictures and windows may remian if they can – indeed the portraits must remain – but she wants to destroy the Gallery in which they are embedded and in its place build-build what? some thing more rhythmical. Jacob’s room suggests a spiral whirling down to a point, Mrs Dallowy a cathedral.”

(1 page 73-74 Tradition in modern Novel theory)

جون کیر تھرس (John Carruthers) نے بھی اپنی کتاب ” Scheherazade‘‘ یا ’’ Future of the Novel‘ میں ہیئت اور ناول نگاری کی بحث اٹھائی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ناول میں ہیئت ضروری ہونی چاہئے کیونکہ زندگی کی ایک ہیئت ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انیسویں صدی کی مادہ پرستی کی مقصدیت سے انکار کا زمانہ ختم ہو چکا ہے ہمیں عضویاتی مقصد ( Organic purpose) میں یقین کرنا چاہئے کہ جس طرح زندگی میں آہنگ ( Pattern) ہے اسی طرح ناول میں بھی آہنگ ہونی چاہئے ۔ مستقبل کا ناول نگار آج کے اس غلط یقین کو توڑ ڈالے گا کہ زندگی میں چیزوں کی تکمیلیت ہے۔ اس لئے ان میں تکمیلیت حاصل کرنا ایک حسین دھوکہ ہے۔ اس کا یقین اس میں ہوگا کہ اپنی تخلیق کونامیاتی آہنگ میں تشکیل کرتے ہوئے وہ زندگی کے طریقے پر ہی عمل کر رہا ہے۔ اور جن کسی اٹھی ہوئی چیزوں کو بنارہا ہے ان میں اسی طرح کی حقیقت اور سچائی شامل ہے۔ جو اس کے چاروں طرف کی دنیا میں پیچیدہ اور غیر مصنوعی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اور وہ ان ہی چیزوں کا انکشاف کر رہا ہے جو موجود ہیں ۔ کیر تھری کے اس نظر ی کی تنقید کرتے ہوئے ایڈون موur (Edwin Muir) نے لکھا ہے کہ کیر تھرس ناول کے قوانین و ضوابطے کے بجائے کائنات کا ایک فلسفیان تصور پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے فلسفیانہ تصور ناول نگار کے لئے کام کی چیزیں ہیں لیکن اس سے ناول کے قوانین ہیں ترتیب دئے جاسکتے۔

ایڈون موئر کے خیال میں ناول کی بہترین ہیئت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ناول نگار فلسفیانہ طور پر زندگی کی ہم آہنگی کو مد نظر رکھے بلکہ وہ زندگی کو بے رنگ تصور کرتے ہوئے بھی ایک بہتر نیق پیش کر سکتا ہے۔

“He may write a novel structurally good, imaginning that life is chao, tals and one structurally fals thinking it an order.”

(1 Page 12 The structure of the novel)

مائم (Maugham) ناول کی ڈرامائی ہیئت کی وکالت کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ناول کو بہترین ہیئت عطا کرنے میں ایک ناول نگارکو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پربھی مفصل روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے مطابق کہانی میں ڈرانے کی طرح آغاز وسط اور اختتامیہ ہی نہیں بلکہ واقعات کو بھی ڈرامائی واقعات کے ضوابط کی طرح پیش کرنا چاہئے ۔ ڈرامائی انداز میں بیانیہ سے ابتدا کرتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچ جانے کے بعد اختتام یا انجام تک پہونچنا چاہئے ۔ کہانی ایک خاص نکتہ پر شروع ہو اورخصوص نکتہ پر ہی ختم ہو ۔ کہانی کو کسی دوسری ڈگر پنہیں بھٹکنے دینا چاہئے ۔ ایک اچھے منظم پلاٹ سے موضوع (Theme) کو بالکل چپا کئے رہنا چاہئے۔ ناول نگار کے لئے ایک متعین ہہیئت کا احساس رکھنا ضروری ہے ۔ اور ناول کو ایک مکمل کہانی بنانے کیلئے جمالیایی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی  محنت و مشقت سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ مائم ” A writers note book” میں لکھتا ہے کہ

“I want a stroy to have form, and I don’t see how you can give It unless you can bring it to a conclusion that leaves no legitimate room for questioning.

But ever if you could bring yourself, leave the reader in the air you don’t want to leave yourself up in the air with him.”

(2 Page 96-97 tradition in Modern novel theory)

ساتھ ہی مائم یہ بھی جانتا ہے کہ جس طرح قیمتی سے قیمتی پتھر بھی بغیر کسی خرابی یا کمزوری کے نہیں ہوتا اسی طرح ناول کی ہیئت میں بھی کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے۔ کسی بھی ناول نگار کے لئے تقر یبای امکان ہے کہ وہ اپنی تخلیق کی ہیئت میں Perfection حاصل کرلے کیونکہ ناول مختصر افسانہیں ہے۔ دیوار اینڈ پہیں کی طرح طویل ہو سکتا ہے اور کارمن کی طرح مختصر۔ پھر یہ کہ اول میں بہت سارے واقعات کو بیان کرناپڑتا ہے ۔ جن میں سے کچھ کو وقت کے مطابق ایک دوسرے سے الگ کرنا ہوتا ہے اورتخلیق کا توازن برقرار رکھنے کے لئے اس میں بچہ کاری (جسے مائم Bridging کہتا ہے) کرنی پڑتی ہے۔ جسے کچھ ناول نگار لاپروائی سے کرتے ہیں اور کچھ تو نظر انداز کر دیتے ہیں اس سے خلیق اکتا دینے والی (Tedious) ہو جاتی ہے اور ناول کی ہیئت متاثر ہوتی ہوئی ناموافق معلوم ہونے لگتی ہے۔

مائم کے خیال میں زمانے کا وقت فیشن بھی ناول کی ہیئت کو متاثر کرتا ہے۔ ناول نگار اپنے زمانے کا حساس فنکار ہونے کی وجہ سے فیشن سے متاثر ہو جاتا ہے اور اپنی تخلیق میں ایسے عناصر کوٹھونس دیتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ہی بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثلا انیسویں صدی کے ناول میں مناظر کی بہترین تفصیل پیش کرنا ایک فیشن تھا جس سے ، دکانوں ، مکانوں ، طلوع آفتاب ، غروب آفتاب، راتوں میں ستاروں کی جھل مل، تار یک جنگل اور برفیلے پہاڑوں اور چٹانوں وغیرہ کی غیر ضروری تفصیلات ناول میں در آ کر ناول کی ساخت کو کمزور کر دیتی تھیں ۔ مانئم کے ہی لفظوں میں

“Many were in themeselves beautiful, but they were irrelevant: it took writers a long time to discover that a discription of scenery, however expressed poetically observed and admirably expressed, was futile unless it was necessary, that is unless it help the author to get on with his story or told the reader something it behooved him to knwo about the person who took part in it. This is an adventitious imperfection in the novel.”

(1 Page 98 Ibed)

ہیئت کی کمزوری کی دوسری وجہ مائم کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں کافی طوالت ہوتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کبھی کبھی کوئی ناول نگار ایک ناول کو کئی سال تک لکھتارہتا ہے۔ اس وقفہ میں اس کی قوت اینجا ختم بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذہن سے قاری کا خیال نکل جائے اور وہ اسے اپنی کہانی کا ایک لازمی جزو نہ  بنا سکے۔ (اس کی مثال ہمارے یہاں سرشار کے فسانہ آزاد سے دی جاسکتی ہے ) قدیمی  زمانے میں ناول کے قارئین کیفیت کی بجائے کھیت میں پی لیتے بھی تھے تا کہ ان کا پیسہ وصول ہو جائے ۔ لین ناول میں بہت سارے ایسے قصہ ٹھونس دیئے جاتے تھے جس کا اصل کہانی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا۔

اشاعت کا مسئلہ بھی ناول کی ہے ہیئتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اشاعتی ادارے اپنے رسالے وغیرہ میں کچھ حصے کو پر کرنے کیلئے مخصوص طوالت کا ہی مواد چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے ناول نگاروں کی سانس جلدی نہیں چھوتی تھی۔ اس قسط وار طریقے نے ناول نگاروں مثل ڈکنسؔ تھیکرےؔ اورٹرولپؔ وغیرہ کوبھی پریشان کیا۔ اس کی وجہ سے ناول نگاری کو اپنے مرکزی موضوع اور نہ ہی ہیئت کی تشنگی کو بچا سکے بلکہ بہت سارے غیرضروری واقعات ان میں شامل ہوگئے۔ ان مشکلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مائم ناولوں کی ہے ہیئتی پر قائم کرنے کی بجائے تشفی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں اس پر غور کرتا ہوں کتنی ساری رکاوٹوں کا اسے سامنا کرناپڑتا ہے، کتنے چھے ہوئے خطرات کو اسے نظر انداز کرنا پڑتا ہے تو میں بڑے ناول نگاروں کی ہیئت کی ناتکمیلیت (Imperfections) پرتعجب نہیں ہوتا بلکہ میں تو حیران ہوں کہ وتی شامل ہیں اس سے زیادہ ہیں ہیں۔

باوجود اس کے کہ مائمؔ مانتا ہے کہ ناول میں ہیئت کی تکمیل نا قابل تحصیل ہے تاہم اس کا یہ یقین ہے کہ ناول میں ممکنہ طور پر فنکارانہ اور بامعنی ہیئت ہونی چاہئے ۔ دراصل وہ فرانسیسیوں کے احساس ہیئت سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ ہنری جیمس کی پر زور اور ایمانداران وکالت و حمایت کے باوجود ناول نگاروں پر ہیئت کے مر یہ تصور پر کوئی اثر نہیں پڑنے پر وہ نالاں بھی ہے۔ ہائم کے لفظوں میں

Our great novel are shapeless and unwelay …………………………………… and this laxity of construction, this haphazard conduct of a rambling story, this wandring in and out of curious characters who have nothing much to do with the theme, have given them a peculiar sense of reality………………. the sermon that hernry James preached to the English on form of the novel…………….little affected their practice………………………. they feel that when the outhor has fixed upon his material a wilful shape life has slipped through his fingers.”

(1 page 99 – 100 Ibed)

جیمس کیری ( James Cary) بھی ناول کی ہیئت پر زور ڈالتا ہے اس کے نزدیک ناول اپنی ساخت کی بے ضابطگی اور بے قاعدگی کے باوجود ہے ہی نہیں ہوتا۔ وہ فرانسیسیوں کے احساس ہیئت سے صرف متاثر ہی نہیں ہے بلکہ دوسر ناول نگاروں کو مشورہ بھی دیتا ہے کہ انہیں چاہئے کہ فرانسی احساس ہیئت اور عہد وکٹوری کی تخیل کی ذرخیزی میں پیوند کاری کریں ۔ اس کا خیال ہے کہ ناول کسی بھی حالت میں وہ صنف نہیں جسے فلسفیانہ مظاہر کے لئے استعمال کیا جائے ۔ وہ ناول میں ایک ہی بنیادی نقط نظر کو پیش کرنے پر ہے کیونکہ موضوع کے اجتماع اور مواد کی بے جا طوالت سے ناول کی ساخت میں کمزوری آتی ہے۔

“A novel can not possess a fine form unless it deals with one basic theme and that, too, in its wholeness.”

(2 Page 140 Great novelists on the novel)

کیری کہتا ہے کہ فنکار آفاقی سے پتھر سے حاصل کرتا ہے لیکن والی جس میں وہ اپنے فقط نظر، فلسفه زندگی، اور موضوع و غیره کامل طور پر ادراک کر لیتا ہے تو اپنے آپ کو اپنی دنیا میں مقید کر لیتا ہے جسے فلابیر نے (Ivory tower) کا نام دیا ہے ۔ ناول نگار کے زندگی کے نظرئے کوئی دوسرے گہرے تجربے سے دھندلا یا بگڑنا نہیں چاہئے۔

خود کیری کے ناول کی ہیئت کی وضاحت وراحت کے خلاف The appropriate form’ کے مصنف Barbara Hardy’ نے جب اعتراف کیا کہ اس کے ناول کی ہیئت میں وضاحت (Explicitness) ہے تو گیری نے ناول کو موزوں ہیئت عطا نہ کر پانے کے لئے ناول نگار کی رقوں کی تشرت کرتے ہوئے لکھا کہ

’’دوسرے شکایت کرتے ہیں کہ میں بنیادی خیال کو زیادہ واضح نہیں بناتا۔ یہ ہر مصنف کی پریشانی (Dilemma) ہے۔ آپ کی ہیئت آپ کا مفہوم ہے اور آپ کا مفہوم ہیئت کو تعین کرتا ہے۔ لیکن جو کچھ بھی آپ کہنا چاہتے ہیں اور پیغام دینا چاہتے ہیں وہ حقیقت ہے جس میں حقیقت کے ساتھ جذبہ یا احساس بھی شامل ہے۔ حقیقی دنیا کا پیچیدہ تجربہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اسکیم کو بہت زیادہ واضح کر دیتے ہیں تومحض خاکہ (Framework) نظرآتا ہے او تخلیق مردہ ہو جاتی ہے۔ اور اگر آپ بہت گہرائی (Thoroghly) سے چھپاتے ہیں تو تخلیق میں کوئی معنی نہیں رہ جاتا۔ اس لئے اس میں بہیئت بھی نہیں ہوتی۔ اسے Mess کہنا چاہئے۔

۱صنف ۲۰۔۱۱۹( Tradition in Modern novel)

کیری کہتا ہے کہ ہیئت کا بہت زیادہ خیال رکھنے سے قارئین کے نزدیک تخلیق کی اہمیت ختم ہونے جیسی لگتی ہے۔

باوجود اس کے کہ میری ایک دم گٹھے اور کسے ہوئے ہیئت کے خلاف ہے وہ ناول کی ہے میتی کی مخالفت کرتا ہے وہ ہیئت اور جذباتی مواد کے فنکارانہ مرکب کا قائل ہے۔ ایک مضمون جس کا عنوان ہے ’’The way a novel gets written“ ہے میں لکھتا ہے کہ ناول کی ہیئت سے منسلک دو بڑے مسائل ہیں ۔ پہلی مشکل ایک فنی تخلیق میں دنیا کے ایک یتی تصور کی تلاش اور تلی ہے، ناول نگار کے زندگی کے ہیئتی نظرئے سے مراد اس کا معنی ہے جو عام فہم ہونا چاہئے ۔ جسے قاری آسانی سے سمجھ سکے ساتھ ہی اسے حقیقی زندگی کی پیچیدگیوں کے معاملے میں غیرحقیق نہیں معلوم ہونا چا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ دنیا کے میتی تصور کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اسے تخلیق کو نصو بہ بند کرنا پڑتا ہے جس میں کردار اور واقعات مل کر مر بوط تجربے کا حصہ بنتے ہیں ۔ اس طرح ان سے بیان کو حقیقی زندگی کی قوت عطا کرنی پڑتی ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ناول نگاری میں ہیئت کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ناول زندگی کی پیش کش سے عبارت ہے تو ہیئت اس پیش کش کے طریقہ کار ( تکنیک اصول کو متعین کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بغیر طریقہ کار کے زندگی کی پیش کش ممکن نہیں ۔ طریقہ کار کی خولی یا خرابی کا نتصار پیش کرنے والے کے اوپر ہے۔ پیش کرنے والا فنکار بھی ہوسکتا ہے اور مفکر بھی لیکن ناول کا فن ان دونوں کا امتزاج چاہتا ہے۔ اگر ان دونوں میں حسین امتزاج پیدا ہو تو ناول نگاری آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ ان دونوں کے درمیان اگر کوئی خلیج حائل ہوتی ہے تو یا تو اول فن کے تکنیک و اصول اور آلات کا معمہ بن جاتا ہے یا پھر فلسفہ کا پروپیگنڈا۔ ناول میں فلسفہ کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر شعبہ کا غلبہ ایک ہی وقت میں یکساں طور پرنہ زندگی میں ہوتا ہے اور نہ ہی ادب میں ۔ بلک مختلف اوقات ، زمانے ،ساج، اور تہذیب میں مختلف طور پر ہوتا ہے۔ اسی طرح ناول کے تکنیک ، اصول اور آلات بھی یکساں نہیں رہے بلکہ وقت کی تبد یلی شعور کی ترقی اور مواد کے مطابق لائے جاتے ہیں تا کہ ان کویح طریقے سے پیش کیا جا سکے۔ لیکن کبھی فیشن بھی ضرورت بھی جذبہ اور بھی مواد کی پیچیدگی ناول نگار کو اپنے راستے سے ہٹادیتے ہیں اور ناول نگار ناول کے بجائے کچھ اور پیش کر دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نقادوں میں ہیئت اور ناول نگاری کو لے کر اتفاق رائے نہیں ملتی بلکہ مختلف نقا مختلف طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک نقاد ناول کی شکلی یا ہے میتی کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فلاں ناول کی ہیئت قابل اعتراض ہے تو دوسرا نقاد کہتا ہے کہ اگر ناول میں دوسری اچھی خوبیاں ہیں تو اس کی ہیئت غیراہم ہو جاتی ہے۔ یہ مباحثہ بھی ختم ہونے والا ہے۔

***

Leave a Reply