You are currently viewing وفا ؔملک پوری کی صحافتی کارنامے

وفا ؔملک پوری کی صحافتی کارنامے

ڈاکٹرمحمد مجاہد حسین

اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ ٔ اردو ،

پورنیہ کالج ، پورنیہ(بہار) ۸۵۴۳۰۱

وفا ؔملک پوری کی صحافتی کارنامے

وفا ملک پوری ایک پر بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ پہلے عالم و فاضل ہیں، وہ شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی مفکر بھی ہیں اور معلم بھی، مصلح قوم بھی ہیں اور زبان اردو کے ہم نوا بھی اور خیر خواہ قوم بھی ۔ سیاستداں بھی ہیں اور رہنما بھی اور سب سے بڑھ کر وہ صحافی ہیں۔ وفا ملک پوری کو طالب علمی کے زمانے سے ہی اخبار بینی کا ذوق و شوق تھا۔ اسی آرزو نے آگے چل کر مدیر بننے کی آرزو پوری کی۔

وفا ملک پوری کی صحافتی زندگی کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلا دور ۱۹۵۲ء؁ سے ۱۹۵۵ء؁ تک اور دوسرا دور ۱۹۵۸ء؁ سے ۱۹۷۴ء؁ تک۔ پہلا دور ۱۹۵۲ء؁ سے ۱۹۵۵ء؁ تک :  اس دور سے قبل وفا ملک پوری کا صحافتی ذوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے ہیں:

’’ لکھنؤ سے ایک ادبی و مذہبی اخبار’ نظارہ ‘‘ ہفتہ وار نکلتا تھا۔ اب بھی نکلتا ہے ۔ اس کے مدیر شہیر جناب فضل نقوی ہیں۔ پہلے بھی وہی تھے بلکہ وہی اس کے بانی و مؤسس ہیں ۔ جو ہری محلہ میں اس کا دفتر ہے اسی محلہ میں اپنے برادر نسبتی کے ساتھ رہتے تھے۔ برادر محترم جناب فضل لکھنؤی کی جوانی کے زمانہ میں جو ’’نظارہ‘‘ نکلتا تھا ہفتہ بھر اس کے لئے اس کے قارئین یا مراقبہ میں بیٹھے رہتے یا ایڈیٹر کی میز کے چکر کاٹتے ۔ فضل بھائی بڑے بھائی کی طرح مجھ پر مہر بان تھے ۔ نظارہ میں میری نظم و نثر کے علاوہ ایڈیٹر کی میزمیں میرا خط جواب کے ساتھ چھاپتے رہتے ۔ ایڈیٹر کی میز اور مراقبہ نظارہ کا مستقل کالم تھا۔ بعد میں فضل بھائی نے ایک اور کالم کا اضافہ کیا۔ ’’پہچانو تو جانیں‘‘ یہ کالم بھی موضوف خود ہی مصور کے نام سے لکھا کرتے۔ اس کے جناب مصور نے بغیر کسی کا نام لئے اشارات و کنایات میں کتنے ہی قابل ذکر افراد کا حلیہ بنایا اور بگاڑا۔‘‘  (۱)

مندرجہ بالا اقتباس میں پتہ چلتا ہے کہ وفا ملک پوری کو اخبار بینی اور چھوٹے چھوٹے صحیفے لکھنے اور چھپوانے کا شوق ابتدا ہی سے رہا ۔ خود نوشت سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ ذوق شعرو سخن کی طرح میرا ذوق صحافت بھی لکھنؤ کے علمی ماحول کی دین ہے مجھے شروع ہی سے کتابیں پڑھنے سے زیادہ اردو اخبارات و رسائل پڑھنے کا کچھ زیادہ ہی شوق رہا ۔ اخبارات کی سرخیاں ، ذیلی عنوانات مجھے بہت اچھے لگتے ۔ خصوصاً اخبار نظارہ کا مراقبہ اور ایڈیٹر کی میز پڑھنے میں بڑا مزہ آتا ۔ مختلف مذہبی اور سماجی موضوعات پر چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے اور چھپوانے کا شو ق ابتداء سے رہا۔ جناب فضل نقوی مدظلہ مدیر ’’نظارہ ‘‘کی شفقت و محبت نے اسے اور بھی حوصلہ بخشا ۔‘‘  (۲)

ہر انسان کا شوق پورا ہو یا نہ ہو وفا ملک پوری کا شوق پوراہو گیا۔ بالآخر اگست ۱۹۵۲ء؁ سے صبح نو کااجرا کردیا۔ یہ شرف چونکہ پورنیہ کو حاصل ہوا اور اس کے اولین شماروںنے ہی اردو دوستوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔ وفا نے اس کام کو انجام دینے سے قبل اس کے نتیجے کی پرواہ نہیں کی اور بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق کے مصداق ثابت ہوا۔ وہ یوں رقمطراز ہیں:

’’ جب میںجامعہ جواریہ بنارس میں تکمیل علم کی منزل میں تھا میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ یہیں سے ضرور کوئی ادبی رسالہ نکالونگا خاص دوستوں سے مشورے بھی ہوچکے تھے ۔مگر ’’ مطلع صبح نو‘‘ کا شرف شاید پورنیہ کے  مقدر ہو چکا تھا۔ چنانچہ میںنے اپنے مستقبل سے بے فکر اور انجام کار سے بے پرواہ ہو کر اگست ۱۹۵۲ء؁ سے’’ صبح نو‘‘ نکالنا شروع کردیا اور اس کے اولین شماروں نے ہی اردو دوستوں کو اپنی طر ف متوجہ کرلیا۔ ‘‘  (۳)

ماہنامہ’’ صبح نو ‘‘بہار کا ایک ادبی اور معیاری رسالہ ہے جس نے ادبی حلقوں میں اپنا ایک خاص مقام بنالیا۔ وفا ملک پوری کے رفقاء میں ایک رفیق کلام حیدری تھے۔ جب’’ صبح نو‘‘ نکلے ہوئے دو یا تین مہینے ہوئے تھے کہ کلام حیدری پورنیہ کالج میں اردو لکچرر بن کر آگئے اور ان سے ہر اتوار علمی و ادبی مشورے ہوتے تھے۔ جس سے صبح نو کے فروغ میں فال نیک ثابت ہوئے۔ جب ’’صبح نو ‘‘نے اپنا دو ڈھائی سالہ عرصہ جس صورتحال میں گزارا اس کی تفصیل وفا ملک پوری کی زبانی سنئے وہ رقمطراز ہیں:

’’انہی دنوں پورنیہ کے ادبی ماحول میں حسن اتفاق سے ایک نعمت غیر مترقبہ بھی نازل ہوئی یعنی صبح نو کے اجراء کے دو تین مہینے بعد ہی جناب کلام حیدری پورنیہ ڈگری کالج میں اردو کے لکچرر بحال ہو کر آگئے ۔ میںنے اسے صبح نو کے لئے فال نیک سمجھا۔ میرا ایسا سمجھنا بالکل حق بجانب تھا۔ کلام حیدری میرے رفیق خیر طریق اور صبح نو کے ابھرتے ہوئے سورج ثابت ہوئے۔ موصوف اپنے دورانِ قیام میں تقریباً ہر ہفتہ کی سہ پہرکو اپنے سفر سے پورنیہ سیٹی آجاتے اور پیر کے دن صبح واپس ہو تے۔ اسی طرح ان کا اتوار کا شانۂ وفا میں علمی و ادبی گفتگو ، ’’ صبح نو‘‘ کے لئے صلاح و مشورہ اور مضامین کی ترتیب و انتخاب و غیرہ میں گزر جاتا۔

صبح نو جہانگیر پریس کشن گنج میں کتابت و طباعت کے مرحلہ سے گزرتا رہا کچھ مہینے یا تقریباً ایک سال کے بعد اس کی کتابت و طباعت کو بہتر بنانے کے خیال سے ہم نے مرکز طباعت بد ل دیا۔ اب اس ماہنامہ کی کتابت و طباعت حمیدیہ برنی پریس لہریا سرائے میں ہونے لگی۔ یہاں مجھ کو اردو کے دومخلص معاون بھی مل گئے ۔ دربھنگہ کے مشہور شاعر وامق دیورونی اور اس وقت کے جواں سال اہل قلم شمیم صیفی (جو فی الوقت ضلع جج کے اہم عہدہ پر فائز ہیں) اس طرح گویا لہریا سرائے صبح نو کا برانچ آفس ہوگیا۔ پھر بھی مجھے مہینے میں ایک دو بار وہاں جانا ہی پڑتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کتابت و طباعت اور کاغذ وغیرہ کے اخراجات میں روز افزوں اضافہ بھی ہونے لگا اور یہ صورتحال میرے لئے لمحۂ فکریہ بن گئی۔‘‘   (۴)

 وفا ملک پوری کی مصروفیت بڑھ گئی ۔ ایک طرف اسکول کی ملازمت تھی اور پورنیہ دربھنگہ کا چکر تھا تو دوسری طرف جیب و دامن کی تنگی تھی ۔ ذرائع وسائل کی کمیابی تھی۔ اردو دوستوں کی سرد مہری نے اور ہمت کو چور کردیا ۔ بالآخر تھک کر صبح نو کی اشاعت بند کر دی۔ اس کے باوجود دوبارہ صبح نو کے اجراء کرنے کی آرزو دل میںموجیں مار رہی ہیں۔ وہ یوں رقمطراز ہیں:

اسکول کی ملازمت پورنیہ دربھنگہ کا چکر ، اپنے جیب کی تنگی ، ذرائع وسائل کی کمیابی تھی ، اردو دوستوں کی سردمہری ۔ غرض صورتحال کچھ ایسی ہوگئی کہ میں کسی طرح اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہا اور ناقابل بیان زحمتوں اور نقصانات کے بعد اس وقت صبح نو کو بند کردینا پڑا ۔ یہ حادثہ ۱۹۵۷ء؁ کا یہ حادثہ ہے اس وقت میرے دل پر جو گزارا وہ دل ہی جانتا ہے۔میرے نزدیک اس غم کا شدید اثر ہوا۔

افسوس کی بات ہے کہ وفا ملک پوری کے کتب خانہ میں ۱۹۵۲ء؁ سے ۵۵-۱۹۵۴ء؁ تک کے رسالے نایاب ہیں۔ ان کے پرانے دوستوں سے رابطہ قائم کیا ۔ لیکن صبح نو کا ابتدائی پرچہ عنقا نظر آیا ۔ یہاں تک کہ اردو و گورنمنٹ لائبریری اور خدا بخش اورینٹل اردو لائبریری پٹنہ میں بھی اس دور کے نسخے نہیں مل سکے ۔

وفا ملک پوری کی صحافت کا دوسرا دور ۱۹۵۸ء؁ سے شروع ہوتا ہے اور ۱۹۷۴ء؁ کو اختتام پر پہونچنا ہے اس دور کو صبح نو کی نشاۃ ثانیہ کا دور کہا جاتا ہے۔ وفا ملک پوری کے د ل و دماغ میں صبح نو کے دوبارہ اجرا کا ذوق پچھلے دو تین سالوں سے موجیں ماررہا تھا اور مشاہدہ ، تجربہ اور انجام کار ان کے پیش نظر تھا۔ وہ سفینۂ صحافت کو کوسی ندی کی پیچدار لہروں سے نکال کر گنگا کے بہائو پر ڈال دینا چاہتے تھے۔ وہ پورنیہ کی سرزمین میں تنہا نظر آتے تھے۔ وہ معمولی سہارے کا منتظر تھے ۔ بالآخر زاد و راحلہ سے بے پروا ہوکر پٹنہ عظیم آباد کے لئے رخت سفر باندھ لیا ۔ یہان بعض اقوال دوبارہ نقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ خود لکھتے ہیں:

’’ پچھلے دو تین برس کا مشاہدہ ، تجربہ اور انجام کار میرے پیش نظر تھا ۔ مجھے احساس تھا کہ فلمی ،جاسوسی، جنسی اور رومانی رسالوں کی بھیڑ میں ایک علمی و ادبی ماہنامہ کے ذریعہ صحت مندی اعلیٰ سطحی ادب اور معیاری و اخلاقی ادب پیش کرنا کتنا گھاٹے کا سودا ہے ۔ میں اس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ ہوا کے رخ پر چلنا جتنا آسان اور سود مند ہے اس کے خلاف روش اختیار کرنا اتنا ہی دشوار مرحلہ ہے۔ مگر تجھے میری شوریدہ سری نے پہلے ہی ناشناس مصلحت بنادیاتھا۔ میں جانتا تھا کہ مخالف ہوا ہے طوفان ہے۔ یہ ایں ہمہ مجھے بھی ضد تھی اور میں سفینۂ صحافت کو کوسی ندی کی پیچدار لہروں سے نکال کر گنگا کے بہائو میں ڈال دینا چاہتا تھا۔

پورنیہ کی روانگی کے وقت وہاں کے علم دوست احباب ادبی و سماجی اداروں اور وفا نوازوںنے اپنے الوداعی جلسوں، اپنی پرتاثیر تقریروں

اور نظموں میں میرے ناچیز ادبی سماجی اور قومی و ملی خدمات کا برملا اظہارو اعتراف کیا۔ اس وقت شدت سے یہ احساس ہو ا کہ یہی خلوص و محبت کے پیکر ، بے لوث و بے ریا لوگ وہ ہیں جن کی وجہ سے    ؎

مدت ہوئی کہ بھول گیا اپنے گھر کو میں

اور جب پٹنہ پہنچا تو تلاش جادئہ صبح نو جستجو ئے منزل مقصود تک ایسے ایسے شجر سایہ دار ملے جنہوںنے اپنی ساغر نوازیوں سے راہِ ادب و صحافت کے اس مسافر و مہاجر کو ہر گام ایک نیا حوصلہ اور ہر منزل پر آگے بڑھنے کا ایک نیا عزم عطا کیا۔‘‘   (۵)

صبح نو نے جس قدر شہرت و مقبولیت کا تاج پہنا اور دن بہ دن ترقی رفتار میں بلندی پر پہنچا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ یہ زبان غم آفندی یہ اعلان کرتا ہوا    ؎

ہر شعاع تیز گام صبح نو                 لے کے آئی ہے پیامِ صبح نو

عہد ظلمت کے گلے تک آگئی            کھینچ کے تیغ بے نیام صبح نو

 پھر علامہ جمیل مظہری مرحوم نے یہ پیشن گوئی فرمائی     ؎

تجلیاں صبح نو کی کہتی ہیں دوپہر ہوگی دن چڑھے گا

یہ دھوپ جس طرح بڑھتی جاتی ہے حوصلہ بھی یوں ہی بڑھے گا(۶)

بقول وفا ملک پوری

 ’’ اور یہ دھوپ جس طرح بڑھتی رہی میرا حوصلہ بھی اتنا ہی بڑھتا رہا اور میںنے بقول کلام حیدری سالہا سال پھٹے حال رہ کر صبح نو کو زندہ کیا اور صحتمند رکھا۔ ۱۹۵۲ء؁ سے جو نظام صبح نو شروع ہوا تھا وہ دو تین سال کے درمیانی وقفہ کو چھوڑ کر۱۹۷۴ء؁ تک جاری رہا۔ تقریباً بیس سال کی طویل مدت تک کسی علمی و ادبی جریدہ کا ہر طرح کا علاقائی بندشوں، سیاسی پاسداریوں، جدید و قدیم کے پیچیدگیوں اور ہر طرح سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت انجام دینا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘‘  (۷)

وفا ملک پوری نے صبح نو کے دوبارہ اجراء سے مسرت اور شادمانی کا اظہار ہی نہیں اور دوستوں اور معاونین کا شکریہ ادا کیا ۔ ان کی ناامیدی میں امید کی پہلی کرن آگئی فروری کا شمار ہ شائع ہوتے ہی لوگوںنے ہاتھوں ہاتھ لے لیا ۔ خود لکھتے ہیں:

’’صبح نو فروری کا شمارہ شائع ہوتے ہی  ہاتھوں ہاتھ نکل گیا، اردو کے شیدائیوں اور علم و ادب کے شائقین نے جس طرح اس کی پذیرائی کی ہے اور شرف قبولیت بخشا ہے وہ ارکان ادارہ کے لئے بہت زیادہ ہمیت افزائی کا باعث ہے اور اب ہم مستقبل کی طرف سے بڑی حد تک مطمئن ہیں اور اپنے ایسے باعمل اردو دو ستوں کے شکر گزار ہیں جنہوںنے صرف تعریفی خطوط پر اکتفا نہیں کی ہے۔ بلکہ ’’صبح نو ‘‘کا پہلا شمارہ پاتے ہی اس کی سالانہ قیمت ار سال کی ہے۔ اس کے لئے خریدار بنائے ہیں اور اس کی توسیع و اشاعت کے لئے اپنی مخلصانہ جدو جہد کا آغاز فرمایا ہے ۔ ہم اردو کے ایسے باعمل دوستوں کو اردو کا معاون سمجھتے ہیں اور ایسے معاونین اردو کا ایک مرتبہ اور دلی شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘   (۸)

وفا ملک پوری’’صبح نو‘‘ کی ترقی و توسیع پر امید نظر آتے ہیں اور دل و جان سے اس کی صحیح اشاعت کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوںنے ہمیشہ وقت کی پابندی کا پاس رکھا ہے وہ خود لکھتے ہیں:

’’ صبح نو کی نشاۃ ثانیہ کے بعد دو شمارے منظر عام پر آچکے ہیں اور اب یہ تیسرا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہر ماہ کی پہلی صبح ’’صبح نو‘‘ اپنے شائقین تک پہنچ جائے اور خدا کا شکر ہے شمارہ ہماری خواہش کے مطابق بالکل وقت سے شائع ہو۔‘‘   (۹)

وفا ملک پوری نے ’’صبح نو‘‘ کے ذریعہ ایک صحت مند ادب کی خدمت کی ہے چونکہ اس دور میں لوگ اکثر و بیشتر فلمی اور افسانوی جریدوں کے شوقین تھے لیکن کوئی بھی وقتی جریدہ اپنی آب و تاب بجلی کی طرح دکھا کر غائب ہو جاتا ہے اور یہ ایک مخصوص دائرہ میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے ۔ لیکن صحت مند اور پاکیزہ ادب کے خواہش مند ہمیشہ ادبی ، علمی اور معیاری ادب کو پسند کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ اس لئے وفا ملک پوری یہ قول لکھنے پر مجبور ہیں :

’’مگر جو لوگ علم دوست ہیں اردو ادب کے سچّے پریمی ہیں اور جن کو اپنے فرض کا احساس ہے وہ ہمارے ادارے کے ساتھ مخلصانہ عملی تعاون کرتے ہیں۔ ‘‘   (۱۰)

وفا ملک پوری کو اپنے رسالے کی مقبولیت میں خاطر خواہ کامیابی ملتی رہی اور اس کے سچے اور مخلص قارئین دل و جان سے پڑھتے رہے ۔ اس وقت صبح کا مستقبل انہیں پائندہ و تابندہ نظر آنے لگا اس سلسلے میں وہ روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ صبح نو کے ساتھ اردو کے سچے پریمیوں ، عملی ہمدردوں اور مخلص دوستوں کی توجہ اور دلچسپی جس رفتار سے بڑھتی جارہی ہے اور اس کی ترقی و پائیداری کے جو وسائل و ذرائع پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ ان سے صبح نو کے تابندہ اور پائندہ مستقبل کا یقین ہو چلا ہے۔ ‘‘  (۱۱)

وفا ملک پوری نے اپنے رسالے کو وقیع اور جامع الکمالات بنانے کے لئے اچھے اور باکمال نقادوں، محققوں اور ادیبوں کو فن اظہار کا موقع دیا ایک شمارہ میں جب بیک وقت کئی ادباء و تنقید نگار، مقالہ نویس اور شعراء جن کا اپنا ایک مخصوص مقام ہے شامل کرنا نہایت اہم ہے اس سلسلے میں وہ یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں:

’’ تازہ شمارہ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اپنی مندرجات کی وجہ سے نہایت اہم اور وقیع ہے اور اپنے سابقہ تینوں شماروں سے نمبر لے گیا۔ ایک علمی رسالہ کے کسی ایک شمارہ میں فصیح الدین بلخی ؔجیسے محقق ، احتشام حسین اور راشدؔ جیسے نقاد جمیل ؔمظہری اور بسمل ؔعظیم آبادی جیسے عظیم شاعر اور مفکر اور ان کے علاوہ رضا ؔنقوی ، اخترؔ قادری حسن عظیم آبادی ، ایازؔ جھانسوی، ساحر بلخیؔ ، خاورؔ نوری ، دانشؔ نو شروی وغیرہ جیسے اہل قلم کا جمع ہوجانا رسالہ کو وقیع بنانے کے لئے کافی ہے۔‘‘   (۱۲)

وفا ملک پوری نے صحافتی زندگی کے دوسرے دور میں دل و جان سے ادب کی خدمت میں لگ گئے۔ ’’صبح نو‘‘ کے ذریعے ادب کی خوب اشاعت کی اور بصیرت افروز مضامین ، غزلوں ، نظموں ، تنقیدی مقالوں اور تحقیقی مقالوں سے عوام کو روشناس کرتے رہے ۔ اس بڑے کام کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے ۔ گرچہ ہوا کے رخ پر چلنا کمال نہیں سمجھتے بلکہ ہوا کے مخالف سمت میں چل کر اپنی منزل طے کرنا باعث کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں:

’’وقت اور ماحول کو اپنے موافق بنانا اور ہوا کے رخ کو موڑ دینا ہم نے اس کے لئے بھی اپنی جرأتوں کو آزمایا اور اپنے حوصلوں کو اکسایا ۔ ہم کامیاب ہوئے یا نہیں اس کا فیصلہ آئندہ پر چھوڑ یئے اس لئے کہ شکست و فتح تو نصیبوں سے ہے مگر ہم مطمئن ہیں کہ مقابلہ تو دل ناتواںنے خوب کیا۔‘‘  (۱۳)

’’جنوری ۱۹۵۹ء؁ سے دسمبر ۱۹۵۹ء؁ تک ہم نے صبح نو کے ۶۰۸ صفحات میں علم و ادب کے گراں مایہ ذخیرے پیش کئے کم و بیش چالیس بلند پایہ نظمیں ، ایک سو سے زیادہ غزلیں، چالیس بصیرت افروز مقالے اور مضامین اور ۳۶؍ مضامین ، سنجیدہ اور اصلاحی افسانے وخاکے اور ان کے علاوہ انہیں صفحات میں ’’ شعاعیں‘‘ بے وقت علمی ، ادبی اور ثقافتی حالات حاضرہ پر روشنی ڈالی گئی۔ صبح نو کے حلقہ مطالعہ سے صاحبان جزو نظر کے قیمتی افکار و آراء پیش کئے گئے ۔ نئے پرانے ادیبوں اور شاعروں کی تصویروں کی اشاعت کے ساتھ ان کے مختصر تعارف کا فرض بھی ادا کیا گیا۔‘‘  (۱۴)

صبح نو کی آبیاری اور پابندی سے شائع کرنا ان کا اب نصب العین بن چکا تھا۔ انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی ملتی رہی۔ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں پیش آئیں۔ لیکن ان کے عزم و ارادے جو فرہاد کے عزم سے کم نہیں اپنی ایک الگ دنیا صحافت میں قائم کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ چنانچہ مدیر’’ صبح نو‘‘ ایک اداریے میں یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں:

’’پچھلے دس سال تک ہم جتنی پابندی اور جس معیار کے ساتھ صبح نو نکالتے رہے ہیں اب دنیائے صحافت میں یہ چیز ایک مثال بن رہی ہے ۔ ہماری راہ میں کئی بار کئی رکاوٹیں پیدا ہوئیں جہاں عزم و ارادہ بھی جواب دے دیتا ہے مگر ہم نے جادئہ پیمائی کے جنون سے ہمیشہ اپنی گرمی رفتار سے راستے کے کانٹوں کو جلا کر پیچھے آنے والے کاروانوں کے لئے آسانیاں مہیا کردیں۔

                           خارہا از اثر گری رفتارم سوخت                  منتسے ہر قدم راہ و دانست را (۱۵)

جوں جوں ان کی عمر میں اضافہ ہوتا گیا ، ان کا تجربہ اور بالغ النظری میں اضافہ ہوتا رہا۔ ذوق شعرو سخن میں دلچسپی کافی بڑھ گئی۔ ان کی غزلوں میں کلاسکیت بڑھتی گئی ۔ مزاج ایسا بن گیا کہ ہر واقعہ کو شاعرانہ انداز میں بیان کرنے لگے۔ جس سے اپنے اداریے میں شعر کو پیش کرنا مقدم سمجھا پہلے وہ پہلی کرن اور شعاعیں دو عنوان سے اداریے لکھتے تھے ۔ بعد میں وہ راہ سخن اور شعاعیں دو عنوانوں میں اداریے لکھنے لگے۔ مگر ہر واقعہ کو شعر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ایسا کرنا ان کا حسن کلام ہی نہیں دانشمندی کی علامت ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ اردو کا معاملہ اور اردو والوں کے مطالبہ اتنے دنوں سے معرض التوا میں پڑا ہوا کیوںہے؟ پر اداریہ لکھتے ہیں:

’’ اردو کا معاملہ اور اردو والوں کا مطالبہ اتنے دنوں سے معرض التوا میں پڑا ہوا ہے کہ اب جب کبھی ان کی تجدید ہوتی ہے تو ایسا گمان ہوتا ہے جیسے از سر نو کئی مطالعہ پیش کیا جارہاہے ۔ ایک طویل عرصہ کے بعد آج کل پھر اردوکے مطالعہ میں ایک اور زندگی کے آثار نظر آرہے ہیںاور اس کے حامی نہ صرف یہ کہ تجویزیں پاس کررہے ہیں بلکہ کہیں کہیں عملاً اقدامات اور پرامن احتجاج کے لئے پر جوش آواز یں بھی سنی جارہی ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی صدائے بازگشت ایوان حکومت میں کہاں تک اثر انداز ہوگی۔ یہ اردو کے جو مطالبات ہیں وہ حق بجانت ہیں اس میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں ۔ قانونی اعتبار سے بھی اور عام لسانی حیثیت سے بھی اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر حکومت کو فوری توجہ دینی چاہئے تھی مگر اب تک یہ عالم ہے کہ  :   ؎

یاں لب پہ لاکھ لکاھ سخن اضطراب ہیں

واں اک خاموشی تیری سب کے جواب میں

بڑی انتظار اور صبر و تحمل کے بعد یہ نتیجہ آتا ہے کہ جب تک اردو والے متحد ہو کر اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے تیار نہ ہوجائیں اس وقت تک کوئی بات سامنے نہ آئے گی۔ اس عزم میں اردو کے لئے دوستی ، اردو کے لئے دشمنی سبھی کچھ چاہئے ۔ ہمیں یہ ثابت کردینا چاہئے کہ اگر حکومت اب بھی ہمارے مطالبات کی نوعیت نہسیاسی ہیں اور نہ مذہبی ۔ یہ ایک لسانی ضرورت ہے اور اسے جلد سے جلد پورا ہونا چاہئے اردو والوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ   ؎  بے نیت و پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا۔  جب تک ہمارا زبانی احتجاج عملی اقدام سے ہم آہنگ نہیں ہوتا ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوسکتے۔ اردو کے شیدائیوں کو ضرورت ہے وہ حکومت کے مزاج کو سمجھیں اور وقت کے نبض کو پہچانیں اور یہ دیکھیں کہ اردو کے لئے اب تک کس نے کیاکیاہے؟ اپنے طور پر شدت کے ساتھ بس یہی ایک پیمانہ بنانے کی ضرورت ہے کہ اردو کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے؟ اور جواب تک اردو کے مطالبات کو نظر انداز کرتے اور وعدئہ فردا پر ٹالتے رہے ہیں ان سے صاف طور پر کہہ دیں کہ :  ؎

وفائے عہد دم نزع اے جزاک اللہ

اب آپ جائیے آجائے گا قرار مجھے(۱۶)

وفا ملک پوری ہر ایک مسئلہ کو آسان اور عام فہم زبان میں ادا کرتے ہیں لیکن طبیعت کی شگفتگی نے انداز بیان میں شعر کا دامن نہیں چھوڑا۔ عبارت کو دلکش اور رنگین بنانے کے لئے وہ جگہ بہ جگہ اشعار سے کام لیتے رہے لا محالہ ان کی زبان پر کسی نہ کسی مستند شاعر کا شعر ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے اور اپنے مطلب کی ادائیگی میں اس سے کام لے لیتے ہیں۔ ہر اچھے صحافی کی یہ خوبی رہی ہے کہ مطلب کی ادائیگی آسان اور صاف لفظوں میں ہو۔ سادگی و صفائی کے ساتھ اس کااظہار ہو۔

مندرجہ با لا اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وفا ملک پوری کی عبارت نہایت سہل اور عام فہم زبان کی غماز ہے ۔

وفا ملک پوری ایک حساس اور حقیقت پسند صحافی ہیں ۔ انہوںنے ہر بات شدت سے محسوس کیاہے اور حقیقت کو ہمیشہ منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں صحافتی زندگی میں جن جن دشواریوں سے گزرنا پڑا ہے اس کو اخلاص کے ساتھ واضح کردیا ہے ، ان کے بیان میں جو خلوص اور سادگی و صفائی ہے وہ قابل غور ہے ۔ اس میںجو کشش اور دلآویزی ہے وہ دوسرے صحافی سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کا اپنا ایک اسلوب ہے ، ایک نیا اسٹائل ہے اور اشعار کے استعمال نے عبارت میں حسن اور رعنائی پیدا کردی ہے ۔ اس لئے وہ ۱۹۶۵ء؁ میںدل کی پریشانی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔

’’ ہم نے ادب اردو کی خدمت کے جذبات کے پیش نظر جب ’’صبح ‘‘ کا اجراء کیا تو اس سے پہلے نہ کوئی نقشہ یا منصوبہ بنایا نہ اس کے وسائل و ذرائع کی فراہمی کے لئے کسی ریاستی یا ضلعی پیمانہ پر کوئی مہم چلائی نہ کسی مذہبی یا سیاسی یا ثقافتی جماعت سے کوئی رشتہ ناتا جوڑا ، نہ کسی ازم کی جماعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالا اور نہ انگلیوں پر نفع و نقصان کا حساب لگایا ۔ بس یہ سوچا کہ بہار سے اردو کا کوئی معیاری جریدہ نکلنا چاہئے کہ یہاں کا صحافتی جمود ٹوٹے (واضح رہے کہ یہ بات ۱۹۵۲ء؁ کی ہے جب کہ ماہنامہ ندیم مرحوم کے بعد بہار کے صحافتی دنیا میں ایک جمود اور خلاء کے سوا کچھ نہ تھا) اور پھر سودو زیاں کی فکر کئے بغیر ہم اس آگ میں بے خطر کود پڑے اور علمی و ادبی مراکز سے دور دراز مقام پورنیہ سے ’’صبح نو‘‘ کا اجراء کردیا۔ اس طرح کتابت و طباعت کا کام دربھنگہ میں ہوتا تھا اور اشاعت پورنیہ سے ہورہی تھی۔ اس طرح دوسال سے کچھ زیادہ ہی عرصہ تک پرچہ نکلتا رہا اورا س اثنا میں صرف یہ ہوا کہ کچھ اپنے رفیقہ حیات کے زیورات کے سہارے ہمیں صرف سولہ سترہ سو روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا، اور ہم نے ۱۹۵۷ء؁ میں پورنیہ سیٹی اسکول کی نوکری چھوڑی وہاں سے باحسرت و یاس استعفیٰ دیا ، وطن کا آرام اور متعلقین کا ساتھ چھوڑا، عزم محکم کو ہم سفر بنایا، صعوبات سفر کو گلے لگایا اور بغیر کسی مستحکم سہارے کے پٹنہ آگئے اور جب سے یہ ماہناہ جو آپ کے پیش نگاہ ہے ایک معیار و وقار اور اعتدال پسندی و سایہ روی کے ساتھ نکل رہا ہے:    ؎

نظام دہر نے کیا کیانہ کروٹیں بدلیں

مگر ہم ایک ہی پہلو سے بے قرار رہے

اور اب جبکہ علمی ، ادبی ، اخلاقی اور سماجی قدریں وقت کی تیرگی اور ماحول کی تاریکی میں بھٹکتی پھر رہی ہیں ہم علم و ادب اور فن و آگہی کے اس چراغ کی لو کو کچھ اور بڑھانا اپنے صحافتی اخلاص کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ اب چاہے اس کے لئے ہمیں اپنا کچھ خون ِ دل ہی کیوں نہ جلانا پڑے۔‘‘  (۱۷)

وفا ؔملک پوری ایثار و قربانی کا مجسمہ ہیں۔ انہوںنے زبان و ادب کی خدمت کیلئے اپنی ملازمت ۱۹۵۷ء؁ میں چھوڑدی۔ وہ ہمت و استقلال کے پہاڑ ہیں لیکن زمانے کی گردش نے ساغر و سینہ کو ہلا دیا۔ انہیں دردناک دور ابتلا سے گزرنا پڑا۔ ۱۹۶۶ء؁ سے ۱۹۶۹ء؁ کے درمیان کئی بارحادثات و واقعات سے دو چار ہونا پڑا۔ چوری ہوئی ، زیورات غائب ہوئے ، گھر میں آگ لگ گئی ۔ ان کے مشفق بزرگ خسر صاحب کا انتقال ہوا۔ ۱۹۶۶ء؁ کی بات ہے اور اس کے چند سالوں بعد ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ان پر رنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ سید کاظم صاحب کا انتقال نومبر ۱۹۶۹ء؁ میں ہوگیا۔ ابھی چھ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کی رفیقۂ حیات کا انتقال پر ملا ل ہوگیا۔ وہ بے یارو مددگار تنہائی کا سانس لے رہے تھے۔ ان شدید جذبات کا اظہار جن لفظوں میں کیا ہے وہ زیر غور ہے وہ خود راقم الحروف ہیں:

’’ ۱۹۶۶ء؁ سے ۱۹۶۹ء؁ تک کے تین چار سال میرے لئے انتہائی امتحانی دور گزرے ہیں۔ زبردست چوریان یکے بعد دیگرے ہوتی رہیں۔ قیمتی سامان اور بچے کھچے زیورات غائب ہوئے ۔ میرا گھر حادثۂ آتش زدگی سے دوچار ہوا ۔ میرے سب سے مشفق برزگ اور خسر حیدر حسین صاحب کا جنہوںنے میری بہت سی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے کر مجھے صبح نو نکالنے اور اسے جاری رکھنے کا حوصلہ دیا تھا ۔ صرف چند دنوں کی بیماری میں ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء؁ کو انتقال ہوگیا اور اس کے بعد تو گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ میری تخلیق و تہذیب کا مرکز مربیہ ومعلمہ ادب و تہذیب سکھانے والی اور میری گھٹی میں اردو شعرو سخن کی آبیاری کرنے والی میری ماں کا سایہ بھی اگست ۱۹۶۸ء؁ میں میرے سر سے اٹھ گیا۔ میں اس کاروانِ الم کو صبر و ثبات کے ساھ جھیلتا رہا ۔ ان حالات مین بھی میںنے صبح نو پر آنچ نہ آنے دی۔ ہر چند کہ غم و الم کی پیہم جھٹکوں نے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر دکھ دیا ۔تاہم اس دور ابتلاء میں بھی اپنی متاع زیست سے غافل نہیں رہا ۔

                           ’’خوشادلے کہ بہ اندوہ محتشم گردد‘‘

انہیں دنوں میری اہلیہ زاہدہ بیگم کی علالت کا سلسلہ بھی طول پکڑتا گیا۔ ہمارے خسر معظم سید کاظم حسین صاحب سابق مشرقی پاکستان سے ترک ملازمت کرکے پورنیہ آگئے اور وہ بھی بیمار رہنے لگے۔ نومبر ۱۹۶۹ء؁ کی ابتدائی تاریخوں میں جبکہ میں صبح نو کا تازہ شمارہ چھپوانے میں مصروف تھا۔ دفعتاً ایک تار کے ذریعہ مجھے ناظم حسین صاحب کے انتقال کی خبر ملی ، میں فوراً پورنیہ روانہ ہوگیا۔ کاظم حسین صاحب سپرد خاک ہوچکے تھے اورباپ کے غم میں مبتلا اس کی بیٹی اپنی باری کا انتظار کررہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے یہ ٹیلی گرام میری رفیقۂ حیات نے دلوایا ہو کہ میں اس کی حیات کی آخری گھڑیوں میں ان سے قریب رہوں ۔ کہ میں تو تنظیم گلستاں کی دھن میں خود اپنے نشیمن کو بھول بیٹھا تھا۔

میری درد والم کی شریک نے جو نیکی و شرافت کا مجسمہ تھی جس نے کبھی اپنے شوق اور پسند کی مجھے کوئی فرمائش نہیں کی نہ ہی کبھی میری بے اعتنائی کا کوئی شکوہ کیا ۔ تاہم اس کا بدلہ مجھ سے اس طرح لیا کہ دائمی بے رخی اختیار کی۔ ابھی چھ دن پہلے اپنے والد کا انتقال ہوا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ بیٹی دوسری دنیا میں سب سے پہلے اپنے باپ سے ملنے کی مشتاق تھی۔ ۸ ؍ اور ۹؍ نومبر کی درمیانی رات مرحومہ کی زندگی کی آخری وقت تک ہوش و حواس قائم تھے۔ رات ڈھلتے ہی نبض کی رفتار بگڑنے لگی اور زبان لڑکھڑانے لگی اور اس پردہ دار محبت و وفا نے اپنی آنکھیں موند لیں اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی ’’ خون شدد م زردر دو بداماں نمی رسد‘‘ دوسرے دن اپنے بال بچوں اور دوسرے عزیزوں اور سوگواروںکی موجودگی میں گھر سے بالکل قریب مسجد کے پہلو میں آم کے ایک درخت سایہ دار کے نیچے تدفین عمل میںآئی ۔

جس شاخ پر چمن میں بنایا تھا آشیاں

بجلی گری اسی کا سہارا لئے ہوئے (۱۸)

ان اقتباس کی روشنی میں جب ہم ان کے آلائم و مصائب کی گہرائیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وفا ملک پوری کی زندگی کس کرب و بلا میں گزری ہے۔ اب وہ مصائب و آلائم کا مجسمہ بن گئے پھر بھی ہمت و استقلال کے پیکر صبح نو کی خدمت میں مصروف رہے۔ کبھی پٹنہ سے پورنیہ آنا ، پھر پورنیہ سے پٹنہ منتقل ہونا گویا تگ و دو کا سلسلہ ان کو لگا رہا۔ ان کی غیر موجودگی میں علیم اللہ حالیؔ ادارت کا کام انجام دیتے رہے۔

اسی اثناء میں ان کی دوسری شادی پو رنیہ سیٹی کے رسول پور گائوں میں سید اسماعیل صاحب کی صاحب زادی رقیہ بیگم سے ہوگئی۔ وہ ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔ جب انسان عمر رسیدہ ہوتا ہے تو ان کا حرص جوان ہونے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اردو زبان کی بقا و ترقی کا حرص لئے ہر ممکن کوشاں رہے۔ و فا ملک پوری نے زبان اردو کی ترقی کے لئے اپنی ہر طرح کی قربانی دینے کو تیاررہا کرتے تھے۔ چنانچہ ستمبر ۱۹۷۱ء؁ میں ایک ادارے میں دماغی عزم و ہمت کا اظہار کس خلوص سے کرتے ہیں وہ قابل غور ہے ۔ وہ خود رقمطراز ہیں:

’’ ہمیں سب سے پہلے اپنی زبان کی بقا کے لئے اپنے سے عہد کرنا ہے کہ ہم اسے ہر حال میں زندہ و توانا رکھیں گے یہ ہماری ایسی متاع عزیز ہے جسے کوئی ہم سے چھین نہیں سکتا۔ ہاں ہم خود ا سے غفلت سے گنوا سکتے ہیں۔ اگر اسے زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے تو پھر اس فرض کو ہمیں ہر حال میں پورا کرنا ہے۔‘‘   (۱۹)

وفا ملک پوری صحافتی زندگی کے دوسرے دور میں نئے اور پرانے ادیب و شعراء کا منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے رہے ۔ دریں اثناء جگر نمبر، علی عباس حسینی نمبر ، نذر امام نمبر اور آزادی نمبر وغیرہ بھی نکالتے رہے۔ ان نمبروں کا شائع کروانا کوئی معمولی کام نہیں ہے، بلکہ وفا ملک پوری کا تنقیدی شعور اور بالغ نظری کا کمال وسیع المطالعہ ، تجربہ کاری اور جانفشانی کا کمال ہے ۔ وہ صحت مند ادب کے معمار ہیں۔ ایک اچھے صحافی ہیں جو جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ ان میں موجود ہیں۔ نذر امام نمبر ۱۵۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں وفا ملک پوری نے دل کے زخموں پر پھوہارکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے سامنے والے اور چاہنے والے کے  درد و غم کا کسی حد تک مداوا بھی کیا ہے۔ چنانچہ۱۹۷۲ء؁ کے ایک اداریہ میں یوں رقمطراز ہیں:

’’ ہم نے ۱۵۰؍ صفحات پر مشتمل یہ نمبر پیش کرکے نہ صرف یہ کہ اپنے دل کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ قارئین صبح نو بالخصوص نذرامام مرحوم کے ماننے اور چاہنے والوں کے درد و غم کا کسی حد تک مداوا بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک صاحب فکر و فن کے اعتراف کمال کا فرض بھی ادا کیا ہے۔‘‘  (۲۰)

نامساعد حالات کی بناپر وفا ملک پوری نے صحافت کا کام چھوڑ دیا اور علیم اللہ حالیؔ کے حوالے کرکے پورنیہ آگئے۔

 حوالہ جات

(۱)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،  ص: ۱۱

(۲)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،  ص:۲۴

(۳)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،  ص: ۲۴

(۴)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،   ص : ۲۶

(۵)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،   ص: ۲۷

(۶)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،  ص: ۲۸

(۷)  خود نوشت سوانح عمری ، مصنف: وفا ملک پوری،  ص:  ۲۸

(۸)  صبح نو، مارچ ۱۹۵۸ء؁ ، مدیر وفا ملک پوری ،      ص:  ۲

(۹)  صبح نو ، ماہ اپریل ۱۹۵۸ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری ،  ص :  ۲

(۱۰)   صبح نو، ماہ اپریل ۱۹۵۸ء؁  مدیر وفا ملک پوری،  ص:  ۲

(۱۱)  صبح نو، ماہ جولائی  ۱۹۵۸ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،  ص:  ۲

(۱۲)  صبح نو، ماہ مئی  ۱۹۵۸ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،   ص :  ۲

(۱۳)  صبح نو ، ماہ مئی ۱۹۵۸ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،  ص :  ۲

(۱۴)  صبح نو، ماہ دسمبر ۱۹۵۹ء؁،  مدیر وفا ملک پوری،   ص:  ۲

(۱۵)  صبح نو،  ماہ جنوری ۱۹۶۴ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،  ص: ۲

(۱۶)  صبح نو،  ماہ جون ۱۹۶۶ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،  ص:  ۲

(۱۷)  صبح نو،  ماہ دسمبر  ۱۹۶۷ء؁ ،  مدیر وفا ملک پوری،  ص:  ۲

(۱۸)  خودنوشت سوانح عمری، مصنف: وفا ملک پوری،   ص : ۲۱

(۱۹)  صبح نو ، ماہ ستمبر ۱۹۷۱ء؁،  مدیر وفا ملک پوری،      ص:  ۲

(۲۰)  صبح نو ، نذر امام نمبر، مدیر وفا ملک پوری ۱۹۷۲ء؁  ص:  ۲۸

***

Leave a Reply