You are currently viewing ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ـ’’ابن الوقت‘‘ میں تہذیبی اور سیاسی کشمکش

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ـ’’ابن الوقت‘‘ میں تہذیبی اور سیاسی کشمکش

محمد اظہار انصاری

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ـ’’ابن الوقت‘‘ میں تہذیبی اور سیاسی کشمکش

1857ء کا انقلابی دور ہندوستانی تاریخ میں مختلف تبدیلیوں اور کشمکش سے عبارت ہے۔اس انقلاب کے بعد ہندوستان میں غیر ملکی سامراجی اقتدار قائم ہوا ۔نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کو سب سے زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ۔ایسے گرِدابی حالات میںایک ایسے ناخدا کی ضرورت در پیش آئی جو اپنے اصلاحی مشن کے ساتھ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار و عظمت کو بحال کر کے ان کی ڈوبتی نیّا کو پار لگا سکے۔قدرت نے سر سید احمد خاں کی صورت میں ایک مصلحِ قوم کو پیدا کیا۔اس سلسلے میںان کی اصلاحی تحریک سب سے زیادہ کار آمد اور مؤثر ثابت ہوئی۔

ان کی اس تحریک کے زیرِاثرجہاں بہت سی معاشی و تعلیمی اصلاحات کا کام لیا گیا وہیں اردو زبان و ادب کی عظیم خدمات انجام دی گئیں ۔ادبی حوالے سے بہت سی اصناف وجود میں آئیں ،انہیں اصناف میںایک ’’ناول ‘‘بھی ہے۔اسی صنف کے ساتھ اردو ادب میں حقیقت نگاری کا آغاز ہوتا ہے اور پہلی بار کسی مخصوص نقطئہ ِنگاہ سے زندگی کی سچی تصویر کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس سے قبل اردو ادب پر داستانوں کے فرضی قصیّ کہانیوں کا غلبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

اردو میں ناول نگاری کا موجد ڈپٹی نذیر احمدکو کہا جاتا ہے اور ان کی ناول نگاری کا محرک سر سیداحمد خاں کی اصلاحی تحریک ہے۔اس تحریک کے زیرِ اثر انھوںنے مقصدی اور اصلاحی نوعیت کے سات ناول خلق کیے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

ِمرآۃالعروس(۱۸۶۹ء)،بنات النعش(۱۸۷۲ء)،توبۃ النصوح (۱۸۷۴ء)، فسانٔہ مبتلا(۱۸۸۵ء)، ابن الوقت(۱۸۸۸ء)،ایامیٰ(۱۸۹۱ء) اور رویائے صادقہ(۱۸۹۴ء)۔

نذیر احمد کے ناولوں کے موضوعات انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں پروان چڑھنے والے مسلم متوسط طبقے کی معاشرت ،اس کے داخلی تضادات و خارجی اثرات اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ ہیں۔

سبھی ناولوں میں ’’ابن الوقت ‘‘ایک ایسا ناول ہے جو اپنے موضوع اور فن کی بنیاد پر دوسرے ناولوں سے قدرے مختلف ہے۔۱۸۸۸ء میں یہ ناول اپنے دور کی جیتی جاگتی تصویروں کا ایک بہترین البم ہے جس میں اس دورکی سیاسی و معاشرتی کشمکش اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ عکس ریز ہوگئے ہیں۔

۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد سر سید نے مسلمانوں کو جدیدمغرِبی علوم سے فیضیاب ہونے کی صلاح دی تھی اور اس ضمن میں لوگوں نے اپنے اپنے طور پر فائدہ بھی اٹھایا ،لیکن اسی دوران سماج واضح طور پر تین طبقوں میں بٹ گیاتھا۔

اوّل طبقہ مغرِبی مقلدین کا تھاجو مغربی علوم اور تہذیب کی تقلید میں اس قدر غرق ہوا کہ وہ اپنے مذہبی امتیازات تک کوکھو بیٹھااور ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے لگا تھا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جو مغربی علوم و فنون کی تقلید تو کرنا چاہتا تھا مگر اپنی تہذیبی روایات کوبھی برقرار رکھنے کا خواہش مند تھا۔تیسرا طبقہ قدامت پرستوں کا تھاجو کسی بھی حال میں اپنی تہذیب سے انحراف کا روادار نہ تھا اور نہ ہی وہ مغربی علوم و فنون کا حامی تھا۔

ان تینوں طبقوں کے مابین باہمی تصادم کا جو نقشہ اس ناول میں ملتا ہے وہی اس عہد کی تہذیبی اور سیاسی کشمکش ہے۔

یہ ناول مغربی تہذیب کی حد سے زیادہ تقلیدکرنے کے خلاف ایک صدائے احتجاج بلند کرتاہے جو اس ناول کے دو کرداروں’’ ابن الوقت ‘‘اور’’حجۃلاسلام‘‘کے ذریعے عیاں ہوتاہے۔ابن الوقت اس ناول کا اہم کردار ہے جو ایک دیندار گھرانے کا فرد ہونے کے باوجود مغربی علوم اور تہذیب و معاشرت کی تقلید میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ اپنی تہذیب اور عقائد کو پسِ پشت ڈال کر ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔اس کی مثال اس کوّے کی ہے جو ہنس کی چال چلتا ہے اور خود اپنی چال بھول جاتا ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی کتاب ’’سر سید اور ان کے نامور رفقاء ‘‘ میںناول ’’ابن الوقت ‘‘کے متعلق لکھتے ہیں:

’’نذیر احمد کا دور (جیسا کہ ظاہر ہے)عبور اور تداخل کا دور تھا اور ابن الوقت اس دورِ تداخل کے عام افکار اور عام شکوک و اوہام کا شفاف آئینہ ہے جس میں اس عصر کی ذہنی کشمکشوں کا پورا پورا واضح نقشہ روشن ہو کر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔’’ابن الوقت ‘‘میں اس وقت کی سیاسی فضا کے مناظر اپنی پوری جزئیات سمیت معرضِ تحریر میں آگئے ہیں۔انگریزوں کے خیالات ،رعایا کے احساسات،سیاسیات و مذہب کے نئے نئے تصورات اور ان کے زیرِ اثر ہندوستانیوں کے نئے نئے تہذیبی اور مجلسی رجحانات،ان سب موضوعوں کو گفتگو اور مکالمے کی صورت میں بڑی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔‘‘ (ص: ۲۳۰)۔

اس ناول کا اصل موضوع انگریزی اور ہندوستانی تہذیب کی باہمی کشمکش ہے ۔سیاسی ،مذہبی،معاشی اور سماجی خیالات بھی پیش ِنظر ہیں مگر ان کی حیثیت ضمنی ہے۔اس ضمن میں اشفاق احمد اعظمی اپنی کتاب ’’نذیر احمد، شخصیت اور کارنامے‘‘میں لکھتے ہیں:

’’  ’’ابن الوقت‘‘مغربی اور مشرقی تہذیب کے مابین کشمکش کی کہانی ہے۔سیاست و مذہب سے اس کا تعلق ضمنی ہے۔‘‘  (ص:۲۲۲)

اس ناول کے خالق’’ ڈپٹی نذیر احمد‘‘ اور کردار’’ ابن الوقت‘‘ دونوں مسلمانوں کی خیر خواہی و بھلائی کے دلدادہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نذیر احمد ابن الوقت کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں ۔جبکہ نذیر احمد کا تعلق اس طبقے سے ہے جو اپنی پرانی تہذیب و تمدن اور مذہب کے معاملے میں کسی بھی طرح کی مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیںلیکن دوسری طرف ابن الوقت قوم کی ترقی کے لیے ہر طرح کی تہذیبی اور مذہبی بندشوں کو توڑنے کے لیے تیا ر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نذیر احمد ابن الوقت کی تبدیلیِ وضع پر مذاق کی حد تک ہی کچھ کہتے ہیں ،وہ اس پر کفر کا فتوی صادر نہیں کرتے۔

اس سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں پہلی بار ابن الوقت’’ نوبل ‘‘کے ساتھ میز کرسی پر کھانا کھا رہا ہے:

’’نوبل صاحب کا اشارہ پاتے ہی مقابل کی کرسی پر ڈٹ ہی تو گیا اور یہ اس کی عیسائیت کا نہیں بلکہ انگریزیت کا گویا اصطباغ تھا۔۔۔۔اس دن کھانے کے بعد کوئی اس کا منہ دیکھتا تو ضرور پھبتی کہتا کہ چہرہ ہے یا دیوالی کا کلھیا‘‘

(ابن الوقت، ص: ۷۲۔۷۳)

انگریزی طرز طعام کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے کو بھی ناپسند کرتے ہیں اور مذہب کی رو سے اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ جیساکہ کردار’’ حجۃالاسلام ‘‘ کے الفاظ سے ظاہرہوتا ہے؛

’’مجھ پر خدا نخواستہ ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اپنے گھر کا رزق ِ طیّب چھوڑ کر تمہارا مشتبہ پھیکا،بِسانداکھانا کھائوں‘‘

وہ دور ایسا تھا جس میںبعض لوگ انگریزی لباس اختیار کرنا باعثِ فخروافتخار سمجھتے تھے لیکن نذیر احمد اس کے سخت مخالف نظر آتے ہیں،وہ ’’ حجۃالاسلام ‘‘کے ذریعے اس لباس کو کراہیت کی نظر سے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں تین طرح کے جواز پیش کرتے ہیں؛اوّل تو انگریزی لباس آرام دہ نہیں ہے،دوم یہ کہ انگریزی تہذیب بار باراس لباس کی تبدیلی کی متقاضی ہے اور سوم یہ کہ آرام دہ نہ ہونے کی وجہ سے طہارت میں دشواری پیش آتی ہے۔

اس وقت کے انگریز مقلدین میں ایک اور خاص بات جو زیرِ غور ہے وہ انگریزوں کی طرح فضول خرچی کا شوق پالنا، ان کی طرح بنگلے،سواریاں،لباس اور ڈنر وغیرہ پر بے جا خرچ کرکے نام کماناہے ۔نذیر احمد اس فضول خرچی کو ہندوستانیوں کے لیے جائز قرار نہیں دیتے اور اس کا مضحکہ کچھ اس طرح اڑاتے ہیں:

’’ابن الوقت نے خرچ کا ڈوبا کھول دیا تھا جس نسبت سے اس کی آمدنی بڑھی تھی اگر اسی نسبت سے خرچ بھی بڑھتا تو چندا حرج کی بات نہ تھی۔اس پر اس نے لیٹنے کے ساتھ چادر کے باہر پائوں پھیلا دیے۔۔۔۔بچہ کو انگریز بننے کی دھن میں اتنی بھی خبر نہ تھی کہ سر پر کتنا قرض لدا چلا جا رہا ہے۔‘‘

(ابن الوقت، ص: ۱۸۴-۱۸۵)

انگلستان میں نشأۃِثانیہ اور صنعتی انقلاب کے بعد اس قدر تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ ہر چیز کوعقلی اور سائنسی بنیاد پر پرکھا جانے لگا۔ اس کا سب سے زیادہ اثرڈپٹی نذیر احمد کے کردار ’’ابن الوقت ‘‘ پر دیکھا جا سکتا ہے جوہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔یہاں تک کہ تقدیر اور شیطان کے ہونے کا بھی انکار کرتا ہے ،کہتا ہے’’میں تقدیر کا بالکل قائل نہیںاور شیطان طوفان کو بھی مانتا وانتا نہیں‘‘۔

جبکہ اسی ناول میں ’’ حجۃالاسلام ‘‘کا کردار اس کے برعکس ہے۔وہ مذہب میں عقل کی دخل اندازی بے جا تصور کرتا ہے اور ابن الوقت کی تمام باتوں کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دینے کی کوشش کرتا ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نذیر احمد کو ابن الوقت کے عقلی نظریے سے اختلاف ہے اور مذہب میں عقل کی دخل اندازی گوارا نہیں۔شاید اسی وجہ سے انھوں نے عقل اور مذہب کے عنوان سے الگ الگ باب قائم کیے ہیںاور اپنے موقف کا اظہار کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:

’’اب دین کی سرحد میں آگے بڑھنا چاہتے ہو تو چراغ ِعقل کو گل کرواور آفتاب ِجہاںتاب وحی کو اپنا راہ نما قرار دو‘‘

(ابن الوقت، ص: ۱۷۰)

جبکہ ابن الوقت کسی طرح کے غیر فطری باتوں کا قائل نظر نہیں آتا اور پورے ناول میں وہ’’ حجۃالاسلام ‘‘کی دلیلوں سے نہ تو متفق نظر آتا ہے اور نہ ہی مطمئن۔

دراصل یہیں وہ کشمکش ہے جسے نذیر احمد نے ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

ناول کا آخری حصہ سیاسی کشمکش کا غماز ہے۔چونکہ یہ ناول ۱۸۸۸ء میں لکھا گیاتھا، اس سے تین سال قبل ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آچکا تھا ۔حکومت کے ساتھ اس پارٹی کے مطالبے اور امکانات بڑھتے جا رہے تھے۔ہندوستانیوں کے لیے یہ ایک خوش آیند قدم تھا مگرمعاشرے میں’’ حجۃالاسلام ‘‘ جیسے لوگ بھی تھے جو کانگریس اور انگریزی دانوںکے بڑھتے ہوئے مطالبات کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ابن الوقت جب کہتا ہے:

’’وہ وقت قریب آلگا ہے کہ اس ملک میں سول سروس کا امتحان ہوا کرے گا۔کسی ملکی خدمت کے لیے انگریزوں کی تخصیص باقی نہ رہے گی جیسی کہ اب ہے۔واسرائے کی کونسل میں برابر کے ہندوستانی ہوں گے اور کوئی قانونی بِدون ان کے اصلاح کے پاس نہ ہوگا۔‘‘

(ابن الوقت، ص: ۳۰۱)

اس بات پر ’’ حجۃالاسلام ‘‘ بھڑک جاتا ہے اور ہندوستانیوں کی کم اہلی کا رونا روتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتا ہے

’’صلاحیت تو اگر سچ پوچھو خانہ داری کی نہیں اور حوصلے دیکھو تو ملک گیری کے۔‘‘

اس ناول میں گرچہ’’ حجۃالاسلام ‘‘جدید علوم سے بہرہ ورہے تاہم حکومت ِوقت کے رعب اور اپنے احساسِ کمتری کے حصار سے باہر نہیں آ پاتا۔لہٰذاسیاسی معاملات میں بودانظر آتا ہے جبکہ ابن الوقت کا کردار اس معاملے میں زیادہ بے باک اور روشن ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ’’ابن الوقت ‘‘اس دور کے ہندوستانی تہذیب کا آئینہ ہے جب ایک تہذیب شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہورہی تھی تو دوسری تہذیب اپنے بال و پر کھول کراپنے قدم جمانے کی تگ و دو کر رہی تھی۔چناچہ اس تہذیبی تصادم اور کشمکش کے زیراثر معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔جسے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول کے کرداروں کے ذریعے سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔یہ تینوں ہندوستانی طبقے اپنی اپنی دلیلوں کے ساتھ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیںمگر نتیجہ کچھ حاصل نہیںہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کردار ایک زوال پذیر تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

Md Izahar Ansari

30-G,BHEL Township,

Sector-17,Noida,U.P

mob:7320836823

٭٭٭

Leave a Reply