You are currently viewing آغاحشرؔ کاشمیری بحیثیت شاعر : ایک تعارف          

آغاحشرؔ کاشمیری بحیثیت شاعر : ایک تعارف          

محمد ریحان خان

مہمد جلال نگر، شاہ جہاں پور

                        آغاحشرؔ کاشمیری بحیثیت شاعر : ایک تعارف

تلخیص مقالہ

         آغاحشر ؔکاشمیری  ایک قادر الکلام اور بدیہہ گو شاعر ہیں، انہوں نے نظم ، غزل، قطعہ ، مرثیہ اور رباعی  وغیرہ تمام اصناف سخن پر طنع آزمائی کی ہے لیکن دیوان کسی وجہ سے مدون نہ ہو سکا ہے۔ اگر ان کی ذاتی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے تو ان کی شاعری کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کی غزلوں میں تغزل کاری، نفسیاتی پہلو،مکالماتی انداز بیان،  دل لگی اور دل فریبی کے جذبات نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں میں،تاریخ اسلام اورسیرت نبوی ، پیغام خودی  اور روح عصر کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ نظمیں ’’شکریہ یورب‘‘ اور’’ موج زمزم‘‘ ہیں جو بدیہہ گوئی اور قادر الکلامی میں الہام کے درجے کو پہنچی ہوئی ہیں۔ شکریہ یورپ  احساسات وجذبات اور دین وملت  کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ زبان وبیان اورمضامین کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ جس کی تمثیل اردو شاعری میں تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے۔ موج زمزم کوئی الگ تصنیف نہیں ہے بلکہ شکریہ یورپ کی ایک کڑی ہے۔ اس پوری نظم میں خودی کا  نام تو نہیں لیا گیا ہے لیکن ہر ہر شعر میں خودی کا ایک ایسا والہانہ تصور ہے جو عزم واستقلال  اور خود شناسی اور خود اعتمادی فراہم کرتا ہے۔ ان  دو نظموںکے علاوہ اس مقالے میں ان کی  دیگر نظموںکے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

آغاحشرؔ کاشمیری بحیثیت شاعر ۔ ایک تعارف   

         آغا حشر ؔکاشمیری کا نام اردو ادب میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ ہمہ گیرشخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت شعلہ نوا خطیب ومقرر، ڈرامہ نگاری کے میدان میں اردو کے شیکسپییر، اچھے بدیہہ گو اور قادر الکلام شاعر، مناظر وانشاپردار، فلم ساز اور مزاح نگار تھے۔ وہ عالم ہونے کا کا دعوی تو نہ کرتے تھے مگر اس امیدان میں بھی ان کے علوم و معارف کا دائرہ خاصا وسیع تھا اور ساتھ ہی اسلامی امور پر حسب موقع اپنی رائے کا بے با کانہ اظہار کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ عصری تقاضوں کی نبض پر گرفت رکھی اور ایک دور اندیش شخص کی طرح وقت وحالات کو ساتھ لیکر چلے۔ آغا حشر کاشمیری کی شخصیت ایسی متنوع صلاحیتوں کا حسین ودلکش امتزاج تھی جو ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔

         آغاحشر شاہ کاشمیری جن کے افراد خاندان کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاںسے ان کا خاندان نقل مکانی کرکے بنارس میں قیام پذیرہوگیا تھا۔ جس کو صبح بنارس کی دلکشی ودلفریبی نے ایسا گرویدہ کیا کہ  وہ یہیں کا ہوکے رہ گیا تھا۔ اسی خاندان میں ۱۳/۱۴ اپریل۱۸۷۹ء کی درمیانی شب میں آغا شاہ کی ولادت ہوئی، جو بعد میں آغا حشرؔ کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی تعلیم وتربیت گھر پر دینی ماحول میں ہوئی اور انگریزی تعلیم کی تحصیل جے نرائن مشن اسکول میں۔ ابتدا سے ہی شاعری کا ذوق پیدا ہو گیا تھا، بعد میں ڈراما نویسی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مین نام پیدا کیا۔ آغاحشر کے ڈراموں کی لمبی فہرست ہے۔ اس طویل سفر  کے مابین زندگی میں کئی نشیب وفراز آئے مگر آغاحشر نے ڈراما نگاری کے فن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

         آغاحشرؔکاشمیری کو اردو ادب میں ڈرامانگاری کی صف اول میں تو جگہ دی جاتی ہے لیکن ان کی شاعرانہ عظمت کو فراموش کردیا جاتاہے۔ حالاں کہ ان کی ڈرامانگاری میں یہ بات مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ صف اول کے ڈرامانگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے اور ایسا لگتا ہے کہ ڈرامانگاری اور شاعری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک مقام پر آل حمد سرورؔ نے بھی ان کی شاعرانہ فکروفن کا اعتراف اس طرح کیا ہے کہ’’ شکریہ پورپ‘‘ اور’’  موج زمزم‘‘ کا لکھنے ولا اول درجہ کا شاعر نہ سہی اچھا شاعر ضرور ہے۔

         آغاحشرؔ کاشمیری دوران طالب علمی میں ہی شعر گوئی کی طرف راغب ہوگئے تھے۔ شعری ذوق حشر کے مزاج میں فطری طور پر رچا بسا تھا۔ فارسی میں فاضلانہ استعداد کے مالک تھے اور عربی بھی بہت اچھی جانتے تھے ،جس نے ان کی شاعری کو  اور جلا بخشی۔ آغاحشرؔ بہت جلدی شعر کہتے تھے، ان کاشعر پڑھنے کا انداز بہت دل آویز تھا۔ شاعری کے شروعاتی زمانے میں آغاحشر ؔنے پہلے جناب حافظ مقبول احمد صاحب کوکبؔ سے شرف تلمذ کیا تھا۔ پھرکچھ دنوں کے بعد بنارس کے مسلم الثبوت استاد اور ماہر علم عروض مرزا محمد حسن فائزؔ بنارسی سے اصلاح لی، جو اس وقت کے بہت اچھے شاعر تھے۔ حالانکہ شاعری کی اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دنوںتک نہ چل سکا لیکن آغاحشر تاعمر ان کا بڑے ادب و احترام سے نام لیتے رہے۔ تمام اصناف سخن پر عبور حاصل تھا لیکن غزلوں اور نظموں میں ان کا پایہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے خیام کی رباعیات کا ترجمہ بھی کیا تھا لیکن وہ ادھورہ رہ گیا ہے۔

         آغاحشرؔ ایک خوش فکر اور خوش مزاج شاعر تھے، وہ اپنی غزلوں میں بہت ہی ؑعظیم المرتبت غزل گو شاعر کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔جب انہوں نے غزل گوئی شروع کی تو اس وقت داغ دہلوی کا زمانہ تھا۔ جس کو اردو غزل کے عروج وارتقا کادور کہا جاتا ہے۔آغاحشرؔ  کے ہم وطن اقبال داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کرچکے تھے۔آغاحشر کی بے باک طبیعت اپنے آپ کو نہیں روک پائی اور دھیرے دھیرے انہوں نے بھی داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کر لی۔اس کی وجہ سے ان کی غزلوں میں داغ دہلوی کی صاف جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اوربعد میں اس جھلک سے ہٹ کر بھی غزل گوئی کی ہے۔جس میں حسن وجمال کی پیکرتراشی، فرقت وجدائی کی کلفت، ہجرت وعلاحدگی کی واویلہ کاری، الفت ومحبت کےمضامین، معاملہ بندی اور رعایات لفظی اور معنوی وغیرہ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ کریں؛

 لگاوٹ کی نظر سے تو نے کیوں دیکھا کہ اسن دن سے

  مری  آنکھیں رہا  کرتی ہیں  دل کی  پاسبانی   میں

 محبت  کا  فسانہ  کہہ  رہا ہے  ایک  ایک   آنسو

نہ جانے کب سنی آنکھوں نے  دل کی داستاں تم سے

کتنی  گھٹائیں  آئیں   برس   کے   نکل  گئیں

    آنسو  مرے   نہ   تھمے  تم   سے   چھوٹ   کے

         آغاحشرؔ کاشمیری نے اپنی نظموں میں فکروخیال کے اعلی نمونے پیش کئے ہیں۔انہوں نے انظموں کے حوالے سے قوم کی بدحالی اور بے علمی کا احساس کرتے ہوئے اسے عظمت رفتہ کی یاد دلائی ہے۔ حالانکہ الطاف حسین حالیؔ قوم مسلم کی خستہ حالی اور بے علمی اکا اعتراف ان سے قبل کرچکے ہیں۔ شبلیؔ ابتدا میں تو عشق وعاشقی کی شاعری کیا کرتے ہیں لیکن بعد میں ان کی عشقیہ شاعری کی جگہ قومی شاعری نے لی ہے۔ اسی زمانے میں علامہ اقبال نے قوم مسلم کو بر انگیختہ کرنے کے لئے نہایت ولولہ انگیز نظمیں لکھیں ہیں۔ جن فکری روش کو آغا حشرؔ کے پیش روں نے قوم مسلم کی فلاح ونجات کے لئے آگے بڑھایا تھا اسی روش کو آغاحشرؔ کاشمیری نے بھی اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی مشہور نظمــ ’’ صدائے غیب۱۹۰۹ء ‘‘ کے ذریعے اپنی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک نسخہ دیا ہے کہ زندگی کو کامیاب بنائو اگر یہ کامیاب ہے تو سب کچھ کامیاب ہےاور اگر یہ ناکام ہے تو سب کچھ ناکام ہے۔یہاں ہم ان کے ترقی پسندانہ خیالات کو دیکھ سکتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:

  جس راہ میں ہیں ٹھوکریں وہ راہ اے انساں نہ چل

جرم وگنہ کے بوجھ سے ورنہ گرے گا منھ کے بل

چھائی ہے ظلمت ہر طرف، اندھا نہ بن، اب بھی سنبھل

   ا یمان  کا  فانوس  لے ، اس  میں  جلا  شمع  عمل

  مڑ، دوڑ،بھاگ ،آ اس طرف، طاقت ابھی ہے پائوں میں

   آرام، عزت، زندگی  سب ہے  خدا کی چھائوں میں

         آ غاحشر نے اسی نظم میں ایک فلسفیانہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو یہ کہنے والے ان نام نہاد ملائوں کی گھڑی ہوی باتوں پر قطعا دھیان نہ دو جن کو انہوں نے اختراع کرلیا ہے یہ سب تنگ نظری اور احمقانہ فعل ہے ان سب باتوں کو پس پشت ڈال کر اپنے اندر ایک منفرد شناخت پیدا کرو جوتمہیں افعال اور اعمال کے انتخاب میں مدد دے۔ایک مکمل انسان بنو اور انسانیت کی قدر کرنا سیکھو ،کھائو، پیواور خوش ہوکر زندگی گزارو۔ اشعار ملاحظہ ہوں:

 تقسیم  اجزائے  عمل،  یعنی  یہ کر  او ر  وہ  نہ کر

 اک  احمقانہ  فعل  ہے ،  یا  تنگ  ظرف  نظر

    اے  ہستی  شوریدہ  سر،  ان  رایوں کو غرقاب کر

  کھا ،  پی،  پہن  خوش  رہ  مگر  تبیعت آداب کر

         آغاحشرنے اس بات پر خاصا زور دیا ہے کہ اے ا نساں اپنے عقل وخرد ، تدبر وتفکر، چشم وگوش کے طرئہ امتیاز اورتخلیقی کنہ وحقیقت کی غایت کی شناسائی کر،تیرے جسم میں جب تک جان رہے تجھ کو اپنے مقاصد اورا ہداف کو آگے بڑھا ناہے کیونکہ اللہ تعالی نے تجھ میں وہ صلاحیت وقابلیت پیداکی ہے جس کی اگر تو درست طریقے سے معارفت حاصل کر لے تو بڑی سے بڑی منزلوں کو فتح کرسکتاہے ۔ اشعار ملاحظہ کریں:

   پوشیدہ  تیری  ذات  میں  ہے  جلوہ  ہائے  لاتعد

مانگ  اپنے  دل سے  روشنی  اور ڈھونڈ فرق نیک وبد

احساس و نطق  وچشم  وگوش، ان سب کی غایت کو سمج

 بھیجا ہے کیوں، آیا  ہے کیوں،منشائے قدرت کو سمجھ

         اور یہی نہیں بلکہ جب آغاحشرؔ کاشمیری ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر جاتے ہیں وہاں ان کی طاقت وقوت اور شجاعت وبہادری سے متاثر ہوکر وہیںفی البدیہ ۱۹۱۰ء میں’’ ٹیپوسلطان‘‘ نام کی ایک معنی خیز نظم تحریر کرتے ہوئے اپنی قادری الکلا می اور بدیہہ گوئی کا بہترین ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ جو ان کی شاعری پر مہا رت اور دسترس کا ثبوت فراہم کرتی  ہے  کہ ٹیپو سلطان وہ ایسے انسان تھے جو ایران کے کیقباد باشاہ کے جیسی شان وشوکت ،جلال و حشمت اور جمشید بادشاہ کے طرح شاہانہ سطوت ودبدبہ رکھتے تھے نہ صرف یہ کہ وہ بہادر انسان تھے بلکہ وہ اسلام کے ایک سچے علمبردار بھی تھے۔ اور وہ اتنے بہادر اور عظیم انسان تھے کہ آج بھی ان کی تربت سے یہ صدا آرہی ہے زندگی اصل میں عزت کی زندگی ہے ذلت کی زندگی سے بہتر موت ہے۔ اشعار ملاحظہ کریں:

   شکو ہ  کیقبادی،  سطوت  جم  دفن  اس  میں

دکن  کی  خاک کا فر زند  اعظم  دفن اس  میں

 غلاف قبر  میں  اسلام  کی شمشیر  پنہاں  ہے

شجاعت  کی  مجسم  خوچکا ں تصویر پنہاں ہے

  ابھی تک آرہی ہے یہ صدا تربت کے  سینے سے

 گر ذلت کا جینا ہو، تو موت اچھی ہے جینے سے

         آغاحشرؔ کاشمیری مشرقی قوم وملت کے حامی اور اس کی تہذیب وثقافت کے دلدادہ تھے۔ مغربی اقوام وملل کے مخالٖف اور اس کے آداب ومراسم، تہذیب وثقافت کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ملک ووطن اور قوم وملت کے لئے ان کا دل د ھڑکتا رہتا تھا۔ وہ اپنی قوم کی سماجی وروحانی، فکری ونظری، حکومتی وسیاسی اور دینی ومذہبی زبوں حالی کا بخوبی علم رکھتے تھے۔ اس کے بارے انہوں نے تحریری طور پر اپنے نظریات پیش کئے ہیں۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظرایات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کی نظموں میںــــ’’شکریہ پورپ اور موج زمزم‘‘ نایاب نظمیں ہیں۔ آغاحشر کاشمیری نے لاہور کے قیام کے دوران شمس العلماء حکیم فقیر چشتی کے حکم کی عرضداشت پر کچھ گھنٹوں میں’’ شکریہ پورپ‘‘ فی البد یہہ طور پر پیش کی ہے۔’’ شکریہ پورپ‘‘ کو۲۱/مارچ ۱۹۱۳ء میں انجمن حمایت الاسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں پیش کیا گیا تھا، جس کا دیباچہ خواجہ حسن نظامی نے لکھا تھا۔ اسی دن شائع ہوئی اور فروخت ہوگئی ۔ اس نظم کے شروعات میں اسلام کی آمد کے بعدجو تبدیلیاں قوم مسلم میں واقع ہوئیں  ہیں  ان کو پیش کیا  گیاہےاورقوم کے خفتہ احساس وشعور کو بیدار کیا گیا ہے اورعظمت رفتہ کی یاد دلائی گئی ہے ۔ غرناطہ اور بغداد کی تبا ہی وبربادی سے درس عبرت  دیا گیا ہے ۔ ا ن رہنمائوں کے کارناموں سے سبق لینے کو کہا گیا جنہوں نے اپنے عہد میں شاہانہ سطوت وجلال اور فاتحانہ کرو فر کے ساتھ امور خلافت کو انجام دیاہے۔ اورقوم مسلم کو بار بار اس بات سے آگاہ کیا گیا ہےکہ دنیا تمہاری بیداری کی منتظر ہے خواب غفلت سے بیدار ہوکر  اپنے مقاصدکا دروازہ کھولواورزمانےکے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر چلنا  سیکھو۔ آغا حشر نے مشرقی  تہذیب وثقافت کو خاکستر کرنے کا دوش مغرب کو دیا ہےکہ اس کے نت نئے حربے وہتکنڈے کے سب مشرق اپنے امتیازات سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ وہ کہتے ہیں تیرے فلسفے کا عالم یہ کے جس کی وجہ سے  انسانیت ننگی ہوچکی ہے اس طور پر کہ اس میں روحانی اقدار کا فقدان ہے۔ جب آغاحشر مناجات والے اشعار پڑھنا شروع کرتے ہیں تو حاضرین  کے قلوب واذہان بے خودی اور اضطرابی میں مستغرق ہوجاتے ہیں اور ہر چہار اطراف سے آمین آمین کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔نظم (شکریہ یورپ )  ملاحظہ ہو:

مدتوں سے نغمئہ توحید محو خواب تھا

ساز ہستی مسلماں تشنئہ مضراب تھا

وہ پیام آخری ، اسلام  جس کا نام تھا

وہ ظہور صدق جو پر وردئہ الہام تھا

وہ تجلئی حقیقت جو ضلالت سوز تھی

گرمئی قلب محمد سے تپش ندوز تھی

روشنی دنیا کو دی جس مہر عالمتاب نے

رنگ  فطرت دھودیا جس نور  کے سیلاب نے

ظلمت آگیئں خلقت انساں کو بینا کردیا

سنگ ریزے کو جلا دے کر نگینہ کردیا

شعلے پیدا کردئے خاکسترے افسردہ میں

زندگی کی لہر دوڑادی حیات مردہ میں

شورش ہنگامہ آرا ، آب وگل میں ڈال دی

شور بادل کا، تڑپ بجلی کی، ڈال دی

ایک ہلچل پڑگئی جذبات زنگ آلود میں

آگ سی گویا لگادی تودئہ بارود میں

بارہا نالید وگفت ، اے قوم ما بیدار شو

حصئہ خود از حریفاں گیر وگرم کار شو

پر زغوغا شد جہاں شورم ہفت اختر گذاشت

پنبہ در گوشی چرا ،   بر خیز، کاب از سر گذاشت

حرف نسیاں ہیبت غرناطہ وبغداد شد

باز برخواں آں سبق،گو خلق را ازیاد شد

سطوت فاروق بنما،شیوئہ حیدر بگیر

تاج از کسریستاں و باج از قیصر بگیر

حال واستقبال ہر دو حاصل تدبیر تست

ہاںبجہد آمادہ شو، دردست تو تعمیر تست

آج ان ذروں کو بھی ناز اپنی تابانی پہ ہے

تیرے درکا نقش سجدہ جن کی پیشانی پہ ہے

منتظر نطارے ہیں چشم خمار آلود کھول

اٹھ  ،کلیدن فتح بن  ، قفل در مقصود کھول

اے خوشا غفلت! جو ممنون اثر کچھ بھی نہیں

کان نے سب کچھ سنا، دل کو خبر کچھ بھی نہیں

پھر بھی ننگ زندگی آسودہ خواری رہا

سونے والے پر وہ خواب گراں طاری رہا

اے زمین یورپ! اے مقراض پراہن نواز

اے حریف ایشا!  اے شعلئہ خرمن نواز

چارہ سازی تیری بنیاد افگن کا شانہ ہے

تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے

اشک حسرت زاسے چشم حریت نمناک ہے

خونچکاں روداداقوام گریباں چاک ہے

صرف تصنیف ستم فلسفہ دانی تیری

آدمیت سوز ہے تہذیب حیوانی تری

عظمت دیرینہ نالاں ہے ترے برتائو سے

دحل گیا حسن قدامت خون کے چھڑ کائو سے

جلوہ گاہ شوکت مشرق کو سونا کردیا

جنت دنیا کو دوزخ کا نمونہ کردیا

اٹھ رہا ہے شور غم خاکسترے پامال سے

کہہ رہا ہے ایشا  رو  کر زبان حال سے

بر مزارے ماغریباں نے چراغے نے گلے

نے پرے پروانہ سوزد،  نے سرایدبلبلے

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے

بادلو ہٹ جاو، دے دو راہ جانے کے لئے

اے دعا!  ہاں عرض لر عرش الہی تھام کے

اے خدا! اب  پھیر دے رخ گردش ایام کے

صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سرے پیکار ہیں

وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں

ڈھونڈتے ہیں اب مداوا  شوزش غم کے لئے

کر رہے ہیں زخم دل فریاد مرہم کے لئے

رحم کر  اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا

ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا

خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے

آئے ہیں اب تیرے درپر ہاتھ پھیلائے ہوئے

خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں

کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی  امت میں ہیں

حق پرستوں کی  اگر کی تونے دل جوئی نہیں

طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

         آغاحشر کاشمیری کی  یہ نطم نہایت ہی بصیرت افروز ہونے کے ساتھ ایمان افروز بھی ہے۔ندرت خیال اور جدت فکر کا دل پذیر نمونہ بھی ہے۔ اس کاپس منظر تارییخی ہے۔ ایشیا خاص طور پرمسلم اقتدار کے جمود  اورغنودگی کے تعطل کو توڑنے کے لئے آغاحشر نے تفکروتدبر کی ایسی طوفانی یلغار کی ہے جو ایک چوٹ کھائے ہوئے سچے دل کی  پکار ہے۔ فنی اعتبار سے یہ شاعر کی قادر الکلامی اوربدیہہ گوئی کا ایسا گراں بہا سرسرمایہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے۔

         دوسری مشہور زمانہ نظم ’’ موج زمزم‘‘ ہے۔جس  کو   جون ۱۹۱۷میں’’ حمایت الاسلام‘‘ کے سالانہ جلسہ میں

یش کیا گیا ہے۔اس میں آغا حشر کاشمیری نے توحید کے شاعر کی خودی ومستی ، اسلامی تاریخ اور سیرت نبوی کی طرف پرمغز اشارے کئے ہیں۔  نظم ’’موج زمزم ‘‘ ملاحظہ ہو:

آسماں ہے محفل ہستی میں مے خانہ مرا

کہکشاں میری صراحی چاند پیمانہ مرا

ہر نفس سے  بربط گیتی پہ ہوں مضراب زن

اضطراب برق ہے اک رقص مستانہ مرا

ساغر ہستی میں ہوں میں ارتعاش موج نور

جلوہ زار زندگی ہے مجھ سے مے خانہ مرا

بارش مستی کے جلووں سے ہے فردوس آفریں

ہے شراب نور سے شاداب ویرانہ مرا

نکہت صہبائے مستی سے ہے تعمیر حیات

دہر میں  اک  موج  رنگ وبو ہے کاشانہ مرا

دوات صبح قدم ہوں مایہ شام حدوث

گلشن جنت تو اے رضواں ہے بیعانہ مرا

جرعہ جام مئے گل رنگ ہے ایک ایک حرف

بزم گن کو مست دیتا ہے افسانہ مرا

شعلہ آشام محبت ز آتش دیرینہ ام

ساقیم در یثرب وخم خانہ اش در سینہ ام

جلوہ پرورد چراغ خلوت الہام ہوں

میں امانت دار سوز سینئہ اسلام ہوں

ہے بھری جس میں شراب خندئہ صبح ازل

میں کف روح القدس پر وہ چھلکتا جام ہوں

ظلمت ہستی چرا لائی ہے جیب نور سے

دولت گم کردئہ چرخ زمرد فام ہوں

میری عظمت کی کہانی ہے حدیث کائنات

حاصل افسانئہ اوراق صبح و شام ہوں

میرے دم سے  عنبر آگئیں ہے مشام روزگار

دہر میں نکہت فروش طرہ الہام ہوں

لے کے آیا ہوں نوید کوثر آشامی یہاں

ساقئی خم خانہ بطحا کا میں پیغام ہوں

آتجھے بھی مست کردوں نغمہ ہائے عشق سے

سن کہ گل بانگِ نوا پردازی ایام ہوں

می طپد صد جلوئہ شاداب در جانم ہنوز

تشنئہ ذوق تماشا ہست طوفانم ہنوز

آج اس کی آستاں بوسی کا مجھ کو  ناز ہے

آسماں محفل میں جس کی فرش پا انداز ہے

میں غلام اس کا ہوں جس آقا کا نام پر جلال

دفتر کونین کا سر رشتئہ آغاز ہے

اے مہ یثرب! سنا دے مزدئہ لا تقنطوا

بے کسئی شرم عصیاں گوش بر آواز ہے

تو پیام آخری ، قرآں کلام آخری

اک تتمہ  اور اک شرح کتاب راز ہے

ہے بھری دریوزئہ رخ سے ترے کشکول طور

شعلئہ سینا گدائے جلوہ گاہ ناز ہے

کس قدر نظارہ پرور جلوئہ معراج  تھا

آج تک شوق لقا میں چشم انجم باز ہے

ہے دل جبریل شوق ہم عنانی کا شہید

دامن زخم تمنا جادئہ پرواز ہے

برق حسن تو ہمیں ساماں زخشک وتر گذاشت

از متاع شوق در دل مشت خاکستر گذاشت

اک سکوت یاس تھا دنیائے ظلمت کار میں

سو رہی تھی صبح آغوش شب پندار میں

تونے آکر شب پرستان چمن کے واسطے

کی  سحر پیدا گلستان خزاں آثار میں

بہہ گیا سوئے فنا خود اپنی طغیانی میں کٖفر

آگیا سیلاب موج رشتئہ زنار میں

کعبہ  وحدت  کے آگے جھک گئی تعمیر شرک

ہوگئے بے تاب سجدے جبئہ دیوار میں

روح نے خالق سے کی تجدید  پیمان الست

نغمئہ ماضی ہوا پیدا شکستہ تار میں

دل کی کھیتی لہلہا اٹھی تری تکبیر سے

تھا نہاں طوفاں شادابی لب گفتار میں

پر تو  رخ سے ترے اے نو بہار کائنات

شمع گل روشن ہے ہر ویراں سرائے خار میں

تا بہ دور آخری از دست تو ساغر گرفت

ایں کہن مے خانہ  را کیفیت دیگر گرفت

اے کہ حج عاشقاں  طوف تجلی گاہ تو

صبح خنداں شب یثرب رخ دل خواہ تو

شعلہ از خاک کویت برد و مہرش کرد نام

در جبین چرخ تابد سجدئہ در گاہ تو

ذرہ ہایش حسن یوسف قیمت خود گفتہ اند

ہے! چہ ارزاں است جلوہ در تجلی گاہ تو

سطوت توحید نقد شرک را قیمت شکست

سکہ زد بر  قلب کثرت ضرب الا الللہ تو

شوکت موسئی علم دار  ورود   پر جلال

ؑعظمت عیسی نقیب موکب ذی جاہ تو

قدسیاں را علم  اول  قصہ ذکر جمیل

خاکیاں را  درس آخر ذات  حق آگاہ تو

دہر  را نقش کف  پایت  طراز زندگی

نبض گیتی را  رمِ خوں موج  گرد   راہ  تو

یک  شعاع  انداختی  و ہستیم پر  نور شد

ذرہ  ام  بالید و حیرت  خانہ صد طور شد

الصلوٰہ اے ما تہی دستاں محشر را کفیل!

السلام  اے یوم  پرسش حسبنا  نعم  الوکیل!

الصلوٰہ  اے درد عصیاں را دوائے جاں نوا!

السلام  اے آتش جاں را نویدِ سلسبیل!

الصلوٰہ  اے از تو روشن بزم  توریت وزبور!

السلام  اے از  گلشن  جیب موسیٰ  و خلیل!

الصلوٰہ اے  آیہ تقدیس را  برہان صدق

السلام  اے  نسخئہ  توحید  را  شرح جلیل!

الصلوٰہ  اے طر قواگویاں  بہ راہت  قدسیاں!

ا لسلام  اے  مر وحہ جنباں   بہ  بزمت جبرئیل!

الصلوٰہ  اے محو شوقت  خستگانِ  شرق  وغرب!

السلام   اے در فرقت گریہ  ہائے گنگ  ونیل

الصلوٰہ  اے چشم  مہرت  بند گیم  را  صلہ  !

السلام   اے کیف دردت  عشق  را جر جمیل!

بے   نوایانہ   بہ  درگاہِ  تو   سر  افگندہ  ایم

یا    بران  و  یا بہ خواں  تو خواجہ  مابندہ  ایم

اے  خدا  دے  زورِ دست  خالد  وحیدرہمیں

پھر  الٹنا  ہے  صف کفر  ودر خیبر   ہمیں

مست  تھی   جس  کے  نشہ  سے روح سلمان وبلال

ہاں  پلا دے پھر وہی  صہبائے  کیف آور ہمیں

دل صنم  خانہ بنا  ہے  یاد  ہے  غیر اللہ سے

بت  بھی   اب  کہنے   لگے  مسلم  نما کافر ہمیں

المد د   اے  نعرئہ   اللہ  اکبر  المد

بت  کدے  کو  پھر بنا نا ہے  خدا کا گھر  ہمیں

تیری   رحمت  دیتی  جاتی  ہو   تسلی  ساتھ ساتھ

لے  چلے  جب  شرمساری  جانب  محشر  ہمیں

ڈگمگاتے  ہیں گرے جاتے ہیں تیرے  ناتواں

اے تری رحمت کے  صدقے تھام لے  بڑھ کر ہمیں

تیرے در کو چھوڑ کر ہم  بے نوا جائیں کہاں

یا  بتا دے اور کوئی  اپنے  جیسا  گھر ہمیںمیں

دوسروں  کو  زور  زر دے  عیش دے آرام دے

اور ہمیں  اس  دولت دنیا   سے   صرف اسلام دے

         آغاحشر نے اس نظم میں فکروخیال کی بلندیاں، باریک اسرار ورموز، تشبیہات  کی ندرتیں، استعارات کی جدت طرازی،الفاظ و تراکیب کی نت نئی بندشیں، عقل وفراست میں رقت پیدا کرنے والے مضامین، کلام کی آرائش میں آہنگ کاری،شگفتہ بیانی اور جوشی و سرمستی کی علامات نظر آتی ہیں۔

         آغاحشر کاشمیری نے اپنے ڈراموں میں بھی شاعری سے کام لیا ہے۔جب ہم ڈراموں کے اولین نقوش دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پیش روں ڈرامانگاروں نے بھی  شاعری  کے ذریعے ڈرامے کو عوام الناس تک مقبول بنا نے کے لئے یہ قدم اٹھایا تھا۔اردو کے ڈرامے ابتدا ہی سے منظوم لکھے جاتے رہے ہیں۔امانت کا اندر سبھا ابتدا سے لیکر آخر تک منظوم ہے۔ پھر طالب بناری، حسینی میاں ظریف،بزرگ لاہوری کے ڈرامے تو خالص تجارتی تھے لیکن اشعار کا طلسم یہاں  بھی نہیں ٹوٹتا ہے۔اور انیسویں صدی میں احسن، بیتاب، محشر، کاظم کےدور  میں بھی شاعری ڈرامے کا اہم جز تھی اورشاعری کے بغیر ڈرامے کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ہر مکالے کے بعد اشعار آتے تھے۔ اور اکثر مکالے قافیہ کی بندش میں ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں آغاحشر نے بھی اپنے ڈراموں میں شاعری کو استعمال کرکے ڈرامے کو بام عروج پرپہنچادیا تھا۔انہوں نے ڈرامائی شاعری میں بیشتر مسدس مکالے ترتیب دئے ہیں۔اور انہیں بحور واوزان کا ستعمال کیا ہے جن میں رجزیہ پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان کو ہندی زبان پر بھی کافی مہارت حاصل تھی۔ اپنے ناٹکوں کے لیے انہوں نے جو بھجن، گیت اور چھند رچے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔انہوں نے قطعہ، رباعی، مرثیہ، غزل اور نظم میں طبع آزمائی کی ہے۔ اگرآغاحشر کاشمیری کی ذاتی زندگی کا سراغ لگانا ہے تو ان کی شاعری کا مطالعہ کرنا ضروی ہے ان کی ذاتی زندگی کا نچوڑ، مسائل وآلام، پیچ وخم، کیف وسرور کا عالم، عہد شباب کی انگڑائیاں اور دلفریبی  و دل لگی کے جذبات وغیرہ ان کی شاعری میں ہی نظر آتے ہیں۔  وہ ایک اچھے شاعر ہیں۔اس بات کا ثبوت ان کا شعری  زخیرہ فراہم کرتا ہے۔  یہ ان کے عمل میں ذیلی حیثیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ فکرو فن کے امتیازی اوصاف سے متصف ہے۔ غزلوں میں تغزل کی فراوانی کے پہلو بہ پہلو نفسیاتی رنگ اور مکالماتی انداز بیاں انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے تو نظموں میں سوزدروں کی کارفرمائی اور روح عصر کی ترجمانی عظمت فراہم کرتی ہے۔

Leave a Reply