محمد سلمان
ریسرچ اسکالر ،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
ابن صفی بحیثیت مصلح سماج
(غیر جاسوسی نثر کی روشنی میں)
ادیب اور شاعر بہت حساس ہوا کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کو جس گہرائی سے دیکھ لیتے ہیں اور محسوس کرلیتے ہیں ایک عام انسان عموماً وہاں تک نہیں پہنچ پاتا۔
ابن صفی بحیثیت ادیب معاشرے کا بہت گہرا شعور رکھتے تھے۔ دنیا انھیں جاسوسی ناول نگار کے طور پر جانتی ہے اور انھوں نے جاسوسی ناول نگاری کا آغاز ایک مقصد کے تحت کیا تھا اور وہ مقصد کہیں نہ کہیں معاشرے کی اصلاح سے ہی وابستہ ہے۔ کیوں کہ انھوں نے جس غرض سے ناول نگاری کاآغاز کیا وہ تھا فحش لٹریچر کے سیلاب کے آگے ایک بند باندھنا اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ۔ تاہم ان کی جو غیرجاسوسی نثر ہے جو کہ موضوعِ بحث ہے اس میں بھی ان کا مقصدی ذہن واضح طور پر دکھتا ہے اور اس میں بھی جابجا معاشرے کی اصلاح کا پیغام پوشیدہ ہے۔
معاشرے کی اصلاح یہ اتنا وسیع اور جامع موضوع ہے کہ یہ امر مشکل ہے کہ ایک اچھا اور بڑا ادیب اس سے اپنا دامن بچاپائے۔ ہاں کچھ ایسے ادیب اور شاعر بھی ہواکرتے ہیں جو خاص نظریہ رکھنے والے رومان پرست ہوتے ہیں جن کے یہاں صرف اور صرف انفرادیت ہی ہوا کرتی ہے۔ تاہم یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ رومانوی انفرادیت میں بھی کہیں نہ کہیں سماج پس منظر میں اپنا رول ادا کرتا ہے۔ علامہ اقبال کا فلسفہ خودی لے لیجیے جو کہ انفرادی تعمیر و ترقی کی بات کرتا ہے لیکن اس کا تتمہ اور تکملہ فلسفہ بے خودی ہے جو کہ اجتماعیت سے عبارت ہے ؎
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
اقبال کا یہ فلسفہ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے اور جس طرح اقبال نے اہم مقصد کے تحت اپنے خاص پیغام کی ترسیل کے لیے شاعری کی اور اپنی الگ شناخت قائم کی۔ اسی طرح ابن صفی نے بھی خاص مقصد کے تحت اپنی
تحریر پیش کی اور اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔
ابن صفی نے سماج میں پل رہے بہت سارے مسائل کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔ ان مسائل کو کہیں انھوں نے طنزو مزاح کے پیرائے میں بیان کیا ہے تو کہیں سخت اور جھنجھوڑنے والاانداز بھی اپنایا ہے۔ طنز و مزاح کے تعلق سے انھوں نے یہ کہا کہ طنز و مزاح میری کمزوری اور مجبوری ہے کیوں کہ ڈنڈے سے لوگوں کی اصلاح نہیں کرسکتا۔انسانی فطرت کی کج روی اس کے تناقصات اور غریب طبقے کے اقتصادی،جذباتی، نفسیاتی، معاشرتی استحصال نے ابن صفی کی طنز نگاری کی فکری صلاحیت کو نہ صرف متحرک کیا بلکہ اسے چمکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے طنزیہ اسلوب میں اتنی تندی اور تیزی تو نہیں تاہم ان کا طنز اپنے ہدف پر پورا اترتا ہے۔ ان کی تحریروں میں اس کی بیشتر مثالیں مل جاتی ہیں۔ انھوں نے معاشرے کی طبقاتی تقسیم ریاکاری، فریب سماجی ڈھانچے پر طنز کی کاری ضرب لگائی ہے۔
مغربی تہذیب کے تئیں غلامانہ نظریہ رکھنے والوں پر اپنے افسانہ’’ایک رات‘‘ میں زبردست طنز کیا ہے اور اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مغربی تہذیب کے تئیں غلامانہ سوچ نے سماجی اقدار کو بری طرح سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سماج کی پہلی اینٹ میاں بیوی کے محبت بھرے بھروسے مند اور مضبوط رشتے پر ہی رکھی جاتی ہے۔ اگریہ پہلی اینٹ صحیح نہ رکھی جائے تو اچھے معاشرے کی تشکیل بہت بہت مشکل ہے؎
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی جائے تو بلندیوں تک دیوار ٹیڑھی ہی جائے گی۔ سماج کی پہلی اینٹ جس رشتے پر رکھی جاتی ہے۔ مغرب میں وہ رشتہ پامال ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف خاندانی نظام برباد ہوگیا بلکہ پورا سماج جنسی کج روی کا شکار ہوچکا ہے۔ مغربی تہذیب کے اسیروں اور غلاموں پر ابن صفی نے چوٹ کی ہے۔ وہ مغربی تہذیب جس کے تئیں حکیم الامت علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا تھا؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے کا ناپائیدار ہوگا
اس افسانے میں ابن صفی نے اس خان کا واقعہ پیش کیا ہے جو مغربی تہذیب کا پروردہ ہے اور اپنی اسپینیئل ولائتی کتیا کو دیسی کتے سے بچاتا ہے۔دیسی کتا جو اس کتیا سے ملنے کے لیے خان کے باغیچے میں بار بار کود کے آجاتا ہے۔ خان اپنے نوکر نصیرا کی مدد سے اس کتے کو جان سے ماردیتا ہے۔ اسی وقت اس کی جوان بیٹی کسی نامحرم کے ساتھ دیر رات گھر میں داخل ہوتی ہے۔ خان غصہ ہونے کے بجائے دانت نکال دیئے اس نامحرم سے مصافحہ کرتا ہے۔ افسانہ کا یہ اقتباس دیکھئے:
’’ نصیرا نے رائفل سیدھی کرلی۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خان بہادر صاحب کہیں گے۔ ابے مار ۔ مگر خان صاحب قدر جھک کر ہاتھ ملاتے وقت صرف دانت نکال دیئے‘‘ 1؎
ان سطور نے پوری کہانی کے اصل پیغام کو بہت حد تک واضح کردیا۔ جنسی کج روی، توکل و قناعت سے عاری جذبہ، کرپشن، جھوٹ، چور بازاری اور رشوت خوری، انسانی عظمت کا پاس نہ رکھنا، فکری تضاد، بے اعتدالی، غلط عقائد و نظریات کا متحمل ہوناان سارے مسائل پر اپنی تحریروں میں کہیں نہ کہیںابن صفی نے روشنی ڈالی ہے۔’’دیوانے کی ڈائری کے چند اوراق‘‘ ان کی ایسی ہی ایک تحریر ہے۔ جس میں سماج میں پھیلی جنسی کج روی کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے دیگر سماجی اور سیاسی مسائل پربھی روشنی ڈالی ہے۔ عورتوں کو بھی تعلیم دی جائے بالخصوص دینی تعلیم اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
’’دیوانے کی ڈائری کے چند اوراق‘‘ یہ قاضی عبدالغفار کی زمانہ مشہور ناول ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ کی پیروڈی ہے۔ قاضی عبدالغفار نے اس میں نفسیاتی پہلوؤں کی کشائی کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کتنی اہم ہے اور یہ مسلم حقیقت ہے کہ اعلیٰ کردار کی تشکیل کا انحصار تربیت پر ہے اور اچھے اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں اعلیٰ کردار کے متحمل لوگ ہی کلیدی رول ادا کرتے ہیں اور تربیت ایک عملی شکل ہے تعلیم کی اور اسی سے علم و عمل کا ربط باہم مستحکم ہوتا ہے۔ کردار کے تعلق سے اقبال نے کیا خوب کیا ہے؎
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
کردار اچھا نہیں تو علم و ہنر، بلند خیالات و افکار سب بے کار ہے۔اعلیٰ کردار کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ جنسی کج روی جیسی غلاظت سے پاک ہو۔ ’’دیوانے کی ڈائری کے چند اوراق‘‘ میںجنسی کج روی پر ابن صفی نے بہت جھنجھوڑے والے انداز میں بحث کی ہے۔ اس حوالے سے ابن صفی کا یہ جملہ دیکھئے۔
’’ــ۔۔۔۔محلے کے چھوکرے جو اسے ایک رات کے لیے بہن بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، قہقہے لگارہے ہیں۔۔۔‘‘2؎
ادب اور شائستگی کے پیرائے میں کتنی بڑی بات کہہ دی۔ اس جملے کی تفسیر کچھ یوں ہے۔
’’۔۔۔پرانی مسجد کے پیش امام صاحب دانت پیس کر اس سے پوچھ رہے ہیں۔ حرافہ بتاتی کیوں نہیں کہ کس کا ہے؟
دل چاہا کہ جھلا کر کہہ دوں’’تمہارا ہے۔۔۔ہوگا کسی سالے کا۔ اس سے کیا غرض ۔ بہرحال ۔ کہتے کیوں نہیں ہمارا ہے۔ ہم اس دنیا کے سارے حرامیوں کے باپ ہیں۔ کہو کہو۔ ڈرو نہیں۔ دیکھ رہے ہو سنو سنو!
یہ اس حرافہ کی چیخیں نہیں، یہ کنواری زمین کی چیخیں ہیں۔ جو درد زہ میں مبتلا ہے اور جس کے بطن سے انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔۔۔‘‘3؎
دل چاہا کہ جھلا کر کہہ دوں ’’تمہارا ہے‘‘۔ جھنجھلاہٹ اور تمہارا ہے کے پیچھے جو نفسیاتی پہلو اور سماجی عوامل کارفرما ہیں وہ واقعی قابل غور ہیں۔ مزید ان سطروں پر نظر ڈالیئے ۔ سنوسنو ! یہ اس حرافہ کی چیخیں نہیں یہ کنواری زمین کی چیخیں ہیں جو دردزہ میں مبتلا ہے اور جس کے بطن سے انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔ ان سطور پر غور کیجیے ابن صفی کہنا کیا چاہتے ہیں؟؟ زمین کی چیخیں سے مراد یہ کہ یہ صرف کریم کی کنواری لڑکی کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سماج کا مسئلہ ہے اور اگر اس کا کوئی تدارک نہ کیا گیا تو کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
جنسی کج روی کے تعلق سے سماج کی بے اعتدالی پر اپنی ایک تحریر ’’تجسس ناک‘‘ میں بھی روشنی ڈالی ہے اور معصوم سے بچے کے ذہن میں اٹھنے والے بے شمار سوالات کے ذریعہ سماج پر چوٹ کرتے ہیں کہ اصل مجرم کون ہے ۔ غلطیاں کہاں ہورہی ہیں اور یہ سماج کدھرجارہا ہے؟
بحیثیت مصلح سماج کے ابن صفی نے مختلف پہلوؤں سے سماج کے مختلف طبقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر نفسیات کے حوالے سے مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ ’’ہپّی مراد‘‘ ان کی ایک ایسی تحریر ہے جو سماج کی بے اعتدالی پر سخت طنز کرتی ہے۔ یہ ایک ایسے ہی نوجوان کی سرگزشت ہے جو مختلف حالات سے گزرکے نفسیاتی آزمائش سے ہوکر ہپّی بن جاتا ہے اور اس کہانی میں یہی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ناشکری اور بے صبری کی وجہ سے ایک اچھا گھرانہ اجڑ جاتا ہے۔ اس کہانی کے ذریعے ابن صفی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنی حیثیت پر قانع ہوں اور صبر و شکر اور توکل کا مظاہرہ کریں۔ کیوں کہ بے صبری اور ناشکری ہی کرپشن کو بڑھاوا دیتی ہے اور پھر یہ معاشرے کے لیے فساد بگاڑ اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں اور پھر اس سے معاشرے میں کرپشن، گھوٹالہ اور رشوت خوری کا بازار گرم ہوتا ہے۔ نیز اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قوم کو نصیحت کرنے والے واعظین مسائل کے تعلق سے صرف اور صرف زبانی جمع خرچ کررہے ہیں عملی اقدام کچھ بھی نہیں اور نہ ہی وہ سماج کے مسائل کو اس باریکی سے دیکھ پارہے ہیں۔
ایک اچھے سماج کے لیے یہ بھی لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ فکری تضاد سے پاک ہو اور’’ احب لغیرک ما تحب لنفسک‘‘ کی تفسیرہو’’ حقوق و فرائض‘‘ طنز و مزاح کے پیرائے میں سماج کے تضادات کا کچا چٹھا کھولنے والی ابن صفی کی ایک ایسی تحریرہے جس میں انھوں نے لوگوں کے فکری تضاد پر بحث کی ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہی سوچ اور یہی نظریہ ہے کہ ان کے حقوق انھیں ملیں۔ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے۔ ان کی عزت کی جائے۔ تاہم یہ لازمی نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھائیں اور اپنے فرائض ٹھیک سے ادا کریں اور وہ بھی ویسا ہی رویہ اختیار کریں جیسا وہ دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔ یہ سماج کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ حقوق و فرائض کے تعلق سے ابن صفی نے لوگوں کو آئینہ دیکھایا ہے اور دعوت فکر دی ہے کہ سماج میں ایسا کیوں ہورہا ہے؟
ایک اچھے سماج کو وجود میں لانے کے لیے یہ بھی لازمی ہوجاتا ہے کہ لوگوں میں انسانیت کے تئیں احترام کا جذبہ ہو۔ وہ انسانی عظمت کا پاس رکھنا جانتے ہوں۔ اپنے مرکزی کرداروں کے ذریعہ ابن صفی نے اپنی تحریروں میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں اسے پیش کیا ہے۔ اپنے ایک ناول ’’معزز کھوپڑی‘‘ میں ناول کے ہیرو کے ذریعہ ان الفاظ میں ایک بڑے سردار کو اس کے دربار میں انسانیت کا درس دیتے ہیں:
’’۔۔۔ایرج بولا لیکن ہم کملا کی انسانیت کی یہ توہین ہرگز نہیں برداشت کرسکتے۔ ہم مردوں کا بھی احترام کرتے ہیں۔ بہادر سردار اپنا پیر اس کھوپڑی پر سے ہٹا لو!‘‘ 4؎
انسانی عظمت کا پاس رکھنا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے اور اچھے معاشرے کی تشکیل میں اعلیٰ ظرف انسان بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ابن صفی صحیح عقائد و نظریات کے متحمل صاف ستھرے اور توہم پرستی سے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے۔ وہ معاشرے میں رائج غلط عقائد و نظریات کے سخت مخالف تھے۔ اس تعلق سے ان کا لکھا ہوا ایک اصلاحی ناول ’’تزک دوپیازی‘‘ ہے جس میں مذہب کی آڑ میں ہورہے غلط کاموں کو طشت از بام کیا گیا ہے اور اس میں عوام کی سادہ لوحی، ان کی توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی اور جھوٹے درویشوں اور جعلی پیروں کی جعل سازی کو دکھایا ہے۔ اس ناول کا یہ اقتباس دیکھئے :
’’ایک دیہاتی ہکلا ہکلاکر کہنے لگا کہ اس کی بھی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ نسترن بانوتڑ سے بولی ’’پیر سائیںکو خواب میں ہدایت ہوئی تھی کہ شہید میاں رجب شاہ کی قبر پر مٹی چڑھادیں کیوں کہ تین سوسال میں قبر زمین کے برابر ہوگئی ہے۔ میاں رجب شاہ تین سو سال پہلے شہید ہوئے تھے اور یہیں دفن کیے گئے تھے۔ یہ جگہ ہم کو خواب میں دکھائی گئی اور تم تینوں بھی موجود تھے۔تم ہی نے بتایا تھا کہ شہید میاں اس جگہ دفن ہیں!‘‘
دیہاتیوں نے لٹھ زمین پر ڈال دیئے اور جھک جھک کر میرے ہاتھ چومنے لگے اور میں ایک بار پھر اس عورت کی نادرالوجود کھوپڑی کا قائل ہوگیا۔‘‘ 5؎
کس طرح جعلی درویش مذہب کے نام پر فریب دے کر سادہ لوح اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنا شکار بنالیتے ہیں۔ ادیب اپنے دور کا مصور بھی ہوتا ہے اور رہبرو رہنما بھی۔ابن صفی اپنے دور کی مصوری بھی کی اور رہبری ورہنمائی بھی۔ اپنے دور کے سماجی رنگ سے اپنی تحریروں کو سجایا اور مصوری کا فریضہ نبھاتے ہوئے انسانیت کو آئینہ دکھایا اور جیسا کہ سماج فی الواقع موجود ہے اس کو ویسا ہی دکھانے کی کوشش کی اور جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے بہت حد تک ان تمام اوصاف حمیدہ اور خصائل مدیحہ جو معاشرے کے لیے ضروری ہیں ان کو پیش کرنے کی سعی کی ہے اور بہت باریک بینی سے ان سارے مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو ایک مثالی معاشرہ بننے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور جو سماج میں فی الواقع رائج ہیں۔
حوالہ جات :
1۔اقبال،محمد عارف ،مرتب، میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟،ابن صفی، فرید بک ڈپو، اشاعت اول پریل 2014،ص:213
2۔ایضاً،ص:63
3۔ایضاً،ص:62
4۔ اقبال، محمد عارف ،مرتب،پرنس چلی،ابن صفی ، فرید بک ڈپو، اشاعت اول، اگست 2011 ،ص:156
5۔ایضاً،ص:368,369
Md Salman
Room No: 268, kaveri Hostel
Jawaharlal Nehru, University, New Delhi.67
Email: salmanfalahi1435@gmail.com
Mob: 9971639527