سلطانہ فاطمہ انصاری
ریسرچ اسکالر یونیور سٹی آف کوٹہ،کوٹہ( راجستھان)
ڈاکٹر نادرہ خاتون , نگراں
ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ آ رٹس گلر س کالج ،کوٹہ
یونیور سٹی آف کوٹہ،کوٹہ( راجستھان)
ادا جعفریؔ کی نظم نگاری
ترقی پسند تحریک کے زیراثر اردو ادب میںکئی اہم تبدیلیاںہوئی۔اس تحریک نے غورو فکر کے علاوہ نئے نئے نظریات وموضوعات کے لئے راہیں ہموار کی ۔جس سے اہل قلم حضرات بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے ۔ اردو ادب کے شعراء کے ساتھ شاعرات نے بھی اس تحریک کا اثر قبول کیا۔اس تحریک کے اثرسے اردو شعر و ادب کی دنیا میں خواتین نے اپنی انفرادیت کے باعث ایک خاص مرتبہ حاصل کیا۔ خواتین قلم کاروں نے روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی۔ ان قلم کاروں میں عصمت ؔچغتائی، قرۃالعین حیدرؔ، ممتاز شیریں ؔاور ادا جعفریؔ امتیاز حیثیت رکھتی ہیں۔جنہوںنے زندگی کی حقیقتوں کو اپنے انداز میں بیان کر اردو شعر و ادب کو نئے زاویوں سے تعارف کرایا۔
ان خواتین قلم کاروں میںادا جعفریؔ کو اردو شاعری کیــ’’خاتون اول‘‘ کہا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کی وسط دہائی کی اہم شعراء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ادا جعفریؔ اردو شاعری کے آسمان پر چاند کی طرح نمودار ہوئیں۔ ان کا شمار ترقی پسند مصنفین میں ہوتاہے۔ اپنی غیر معمولی صلاحیت و ذہانت سے انہوں نے دنیائے اردو میں اس وقت قدم رکھا جب خواتین کو اس میدان میں آنے کی اجازت
نہیں تھی۔
ادا جعفریؔ کا اصلی نام عزیز جہاں تھا۔ ۲۲ اگست ۱۹۲۴ء کو بدایوں( یوپی) میں پیدا ہوئی۔ تقسیم وطن کے بعد وہ پاکستان چلی گیٔ۔ وہی پر انہوں نے اپنی شاعری کو پروان چڑھایا۔ ان کا انتقال ۳ دسمبر ۲۰۱۵ء کو کراچی پاکستان میں ہوا۔ ادا جعفریؔ نے بہت کم عمر میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کا قلمی نام ادا بدایونیؔ تھا ۔ نورالحسن جعفری سے شادی کے بعد ادا جعفریؔ قلمی نام کے طور پر لکھنے لگی۔
روایتی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود بھی ان کی دلچسپی پڑھنے لکھنے میں تھی۔ اس دور میں قدامت پسند خاندانوں میںلڑکیوںکا زیادہ تر وقت امور خانہ داری سیکھنے میں بیتتا تھالیکن ذاتی شغف کے باعث موصوفہ جگر مرادآبادیؔؔ، فراق گورکھپوریؔ،اور اختر شیرانیؔ جیسے شعراء کے کلام مطالعہ میں منہمک رہتی تھیں۔ ادا جعفریؔ اقبالؔ سے سب سے زیادہ متاثر تھی۔ شعر وشاعری کی ابتدا کی تو شاعری میں اختر شیرانیؔ اور جفر علی خاں سے اصلاح لیتی تھیں۔
ادا جعفریؔؔ تخلیقی ذہن لیکر پیدا ہوئیں۔ انہوں نے پہلا شعر نو سال کی عمر میں لکھا۔ ان کی پہلی غزل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی۔ ان کی غزلوں میں رومانی انداز پایا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے غزلوں سے زیادہ نظم پر توجہ مرکوز کی۔
ادا جعفریؔ کی ابتدائی نظم میں مناظر فطرت کا بیان ملتا ہے۔ اپنی حویلی کی مبڈیر پر ایک دفعہ جب انہوں نے نارنگی کے بوٹوں سے لدی شاخیں دیکھی تو حیران رہ گئیں اور نارنگی کے خوبصورت شاخوں پر ایک نظم ـ’’شگوفہ‘‘ کے عنوان سے لکھیں۔ ایک بند ملاحظہ ہو:
آج سے پہلے بھی پھوٹے ہوںگے
یہ شگوفے یہ لجیلے لپنے
یہ بہاروں کے سجیلے سپنے
اسی شوخی اسی رعنائی سے
یہی لہجہ یہی لہجے کی کھنک
یہ سجاوٹ یہ سجاوٹ کی جھمک
یہ نگاہیں یہ نگاہوں کی جھجک
اسی معصوم وبرنا ئی سے
شگوہ بیگانہ نگاہی کا لیے
شاخ میں پہلے بھی پھوٹے ہوگے
یہ شگوفہ یہ لجیلے سپنے
( اداؔ جعفری شخصیت اور فن از شاہد حسن ص۔۹)
ادا جعفریؔ کا اولین مجموعہ ــ’’میںساز ڈھونڈتی رہی‘‘ ہے۔ اس مجموعہ میں شامل نظمیں ان کے جذبات و احساسات کی ترجمان نظر آتی ہے۔۔اداؔ کی زندگی کی حقیقتوں اور معنویت کو ان کی نظموں کے ذریعہ جیا جا سکتا ہے۔ان کی نظمیں میں حقیقت نگاری کی عکاسی ملتی ہے۔ان کی نظمیں زندگی کی حقیقتوں کو اپنے انداز میں بیان کر اردو شعر وادب کو نئے زاوئے سے تعارف کراتی ہیں۔ عورتوں کے جذبات و احساسات کے ساتھ عشق و محبت کے جذبات کا ذکر بھی ان کی نظموں میں ملتا ہے۔ادا جعفریؔ کی شاعری میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔سماجی و قومی مسائل ہو یا تانیثی انھوں نے حیات و کائنات کے مختلف مسائل کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔
ادا جعفریؔکے شاعری عصر حاضرکی ترجمان ہے۔ اپنے مخصوص نظریہ اور طرز احساس سے انہوں نے اپنے عہد کے موضو عات اور اسالیب کا عکس اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے قدیم روایت سے ہٹ کرجدید روش اختیار کی۔ اردو ادب میںکئی تحریک شروع ہوئی تو ادا جعفریؔ بھی دوسرے شعراء کی طرح ان سے متاثر ہوئیں مگر بازابطہ طور پر کسی تحریک سے جوڑی نہیں لیکن اداؔ نے اپنی شاعری میں ترقی پسند نظریات اور مو ضوعات کو اپنے مخصوص پیرائے میں ڈھال کر خواتیں کو جدید رجحانات سے مخاطب کیا۔ ــ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کا ایک منظم بند:
زندگی تیر ے لیے خواب سہی ،گیت سہی
نقرئی گیتوں کی ذرکار سجیلی کرنیں
نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں
زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں
تو کہاں سوچتی خوانوں کی سجل بانہوں میں
( اداؔ جعفری شخصیت اور فن از شاہد حسن ص۔۴۵)
اداؔ کی شاعری میں بیانہ اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا شاعری میںدرد کی دھیمی دھیمی کسک محسوس ہوتی ہے۔ ان کے زبان و بیان میںالفاظ کی صنعت گر ی نظر آتی ہے۔ اداؔ اپنے اشعار میں الفاظ کا استعمال بڑی چابک دستی سے کرتی ہیں۔
ادا جعفریؔ کے چھ مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میںـــ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘، ’’شہر درد‘‘، غزالاں تم تو واقف ہو‘‘، ساز سخن بہانہ ہے‘‘، حرف شناسائی‘‘، سفر باقی ہے‘‘ شعری کاوشوں میں شامل ہیں۔ اداؔ کی شاعری میں اقبالؔکا فکر،جگرؔکاتغزل، فانیؔ کا اسلوب بیان اور فیض احمد فیضؔکا رومانی انداز لفظوں کی ہم آہنگی ، ترنم اور غنا ئیت دیکھی جا سکتی ہیں۔ جو ان کی مجموعہ ’’غزالاں تم واقف ہو‘‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعہ کی بعض نظموں میں فیضؔ کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو:
آج کی رات کتنی تنہا ہے
ہم بھی تنہا ہیں،دل بھی تنہا ہے
قطرہ قطرہ بچھی ہے آنکھوں میں
درد کی آنچ روشنی کی طرح
اس مجموعہ میں شامل نظموںمیں نغمگی کے علاوہ نرم لب ولہجہ کی نرمی اور جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ انسانی جذبات اور رشتوں کی حسین اورپرکشش تصویر انکی شاعری میں صاف جھلکتی ہے۔ انسانی تعلقات، رشتوں کی محبت و تعلقات کااظہار ان کی نظم ’’دوسرا قدم ‘‘ میں صاف طور پر دیکھا جا سکتاہے۔ ادا جعفریؔ نے اپنی نظموں کے ذریعہ نئے اسلوب و لہجے اور نئے شعری تجربات و انداز بیان کو آگے بڑھایا ہے۔ عورتوں کے دکھ درد ان کی زندگی کے اتار چڑاؤ، ان کا مقام اور مرتبہ اپنی شاعری کے ذریعہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادا جعفریؔ اپنی خودنوشت سوانح ــ’’ جو رہی سو بے خبر رہی‘‘ میں اپنے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
ـــ’’شاعری اپنی سوانح عمری بھی ہوتی ہے اور عہد کے شب و روز کا منظر بھی۔
شعر وادب کی دنیا میں میں نے جو سفر شروع کیا تھا وہ شدید روایتی ماحول اور
قدامت پسند خاندانی پس منظر کی وجہ سے میرے لیے زیادہ ہی دشوار تھا اور
حوصلہ طلب تھا۔ عورت کے دکھ درد میں نے آنکھ کھولتے ہی دیکھے اور بہت
قریب سے دیکھے۔ عورت کا پہلا روپ جو میں نے سیکھا وہ میری ماں کا تھا۔
آندھیوں میں چراغ کی لو اونچی رکھنے والے ہاتھ مجھے یاد ہے۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقتباس کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اداؔ قدیم روایات سے باغی ہیں ۔ انہیں دقیانوسی خیالات ورثے میں ملے۔جو ان کی راہ میں دشواریاں پیدا کرتے ہیںاور وہ اپنی شاعری کے ذریعہ ان تمام دشواریوں کا مقابلہ اپنی شاعری میں ڈٹ کراور حوصلے کے ساتھ کرتی نظر آتی ہیں اور اپنے لیے ایک نئی راہ ہموار کرتی ہیں ۔ ان دشوار ترین گذر گاہوں کا مقابلہ کر ادب میں اپنا خاص مقام پیدا کرتی ہیں اور منزل مقصود کو حاصل کرتی ہیں۔
***