You are currently viewing چکبست کی شاعری میں وطن کی خوشبو

چکبست کی شاعری میں وطن کی خوشبو

عطاء الرحمٰن

 یونیورسٹی آف دہلی

چکبست کی شاعری میں وطن کی خوشبو

پنڈت برج نرائن چکبست کا شمار اردو ادب کے صف اول کے شاعروں میں ہوتا ہے انہوں نے مختلف صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن وہ بنیادی طور پر ایک شاعر کی حیثیت سے زیادہ کامیاب ہوئے۔انہوں نے اپنی شاعری بالخصوص نظم نگاری کے ذریعے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا اور اپنی شاعری کو قوم کی اصلاح و فلاح کا ذریعہ بنایا اور حب الوطنی اور خود بیداری کا کام تامر انجام دیا۔جدید دور میں ان کا نام سر علامہ اقبال اور حسرت موہانی جیسے بلند و مرتبت شورہ کے ساتھ لیا جاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ انہیں قومی شاعر کا لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

چکبست کی کل شاعری تصنیفات میں ہمیں خوب الوطنی کا عکس جا بجا نظر آتا ہے ‌ انہیں اپنے وطن سے بے لوث عبث تھی۔مسلکی و قومی معاملات میں وہ ایک خالص ہندوستانی تھے ‌ انہوں نے اپنی نظم نگاری کے ذریعے نہ صرف حب الوطنی کے گیت گائے بلکہ ہندو مسلم اتحاد اور آزادی تحریک کی کھل کر حمایت کی۔ان کے سامنے اپنے وطن کی گنگا جمنی تہذیب کی قادری تھی۔انہوں نے خالی اور علامہ اقبال کی روش پر قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی کے ذریعے ہندوستانی نوجوان کی اصطلاح کی۔ان میں تعلیمی بیداری اصلاحی پہلو کا جذبہ اور وطن سے محبت کرنا سکھایا۔

انہوں نے بہت سی نظمیں لکھیں جن میں نوجوانوں کو قدم قدم پر بیدار کیا ان میں تعلیمی ذوق و شوق پیدا کرنے پر زور دیا نصف نوجوان لڑکوں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کی بھی کھل کر حمایت کی۔وہ تعلیم نسواں کے حامی تھے لیکن عورت کو رجم بنانے کے سخت خلاف تھے ‌ وہ مذہبی تعصب کی تنگ نظری اور بد اندیشی سے کوسوں دور تھے۔وہ تمام لوگوں کو آگے بڑھانے کی تلقین کرتے رہے تاکہ وطن ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے اور مسلکوں ملت کا ہر نوجوان خدمت میں پیش ہے پیش پیش رہے۔وہ اتحاد ملت کے زبردست قائل تھے ان کا مذہبی نقطہ نظر بھی اوروں سے جدا تھا۔ان کے یہاں مذہب ہی مذہب میں بھی افلا ہی پہلو نظر آتا ہے بڑا جو انسان سے محبت سکھاتا ہے۔

سودائے محبت میں انہی کے ہیں حامی             خودبینی سے خالی ہیں مذہب کے بھی حامی

عرفان کی خبر لاتی ہوں گوت باگرامی            ہر نفس کی منظور حقیقت میں غلامی

کچھ قوم کی پرواہ نفقہ کا ذمہ ہے                   ہوجائیں نجات اپنی تمنا ہے تو وہ

چکبست اپنی بیشتر نظموں میں وطن کو سنوارنے اور نکھارنے کا شور دیتے ہیں۔اور اخلاق و کردار کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ وطن کے سبھی لوگ تمام اختلافات کی دیوار ڈھا کر ایگزٹ ہوجائیں اور ملک کی خدمت کی ۔اس کا اظہار اپنی نظم میں اس طرح کرتے ہیں۔

واجب نہیں مذہب کے مسائل میں بھی حجۃ

بازیچہ اطفال ہیں ہفتاد و ملت

بس قابل تسلیم اسیں کیہ شریعت

جس دل میں ہو انسان کے لئے درد محبت

تہذیب پسنددیدا آفاق نہیں ہے

مذہبی ہی ملتی ہیں اخلاق نہیں ہے

تعلیم سے متعلق چکبست کا نظریہ یہ تھا کہ چکبست مکمل طور پر ہر ذوائب نظر سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کے ساتھ ہمہ تن کھڑے نظر آتے تھے۔چاہے وہ پنڈت موہن مال مدن موہن مالویہ کی تعلیمی تحریک ہو یا سرسیداحمدخان کی علی گڑھ تحریک انہوں نے تعلیم پر نہ نہر سال لبیک کہا بلکہ اس کی پرزور وکالت بھی کی اور اپنی نظموں کے ذریعے نئی نسل کو پیغام دینے کی کوشش کی ۔وہ عدم تعاون کی تحریک کے اس پہلو کی کھل کر مخالفت کرتے تھے جو طلباءکو اسکولوں و کالجوں تک جانے سے روکتا تھا کہتے ہیں:

چمن عمر ہمیشہ نہ رہے گا شاداب                  ہم میں باقی نہ رہے گی یہ جوانی کی شراب

نشے عالم میں ہروقت رہو تم غرقاب             شانے تعلیم ہی یہی ہیں تہذیب شباب

اے دل کو طبیعت کی روانی وہ ہے                ہی پیش آئے نشہ رہے گا جس میں جوا ہے

چکبست نے جدید تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا اور اس بات پر بھی عماد کیا کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے اپنے ملک و قوم کی خدمت کریں۔تعلیم سے دلی عبث کا اندازہ ان کی اس نظم سے بھی ہوتا ہے۔

دولت علم لی گئی اسی در سے دن رات

ہم نے سوچی ہے یہی نام اسی کی خیرات

بہ رضای برہمن کے حرم سے سادات

سب یہاں آپ پائینگے سرمائے تسکین

نمایندگی کا بھی احساس ہوتا ہے۔خصوصی عورتوں کی مبادی حقوق دینے کے معاملے میں اپنے احد سے بھی ایک دہائی آگے بڑھ جاتے ہیں۔انھوں نے نہ صرف ہندو مذہب میں بیوہ عورتوں کی شادی کی تائید کی تھی بلکہ ساتھی رسم پردہ کی بھی مخالفت کی اور تعلیم نسواں کی حمایت کی۔چک بس نے نوجوان لڑکوں کے ساتھ ان لڑکیوں کو بھی مخالف مخاطب کیا جو دنیا میں تعلیم سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا چاہتی ہیں۔مگر اس کے ساتھ انہیں ایک پیغام بھی دیا تو اپنی حیا غیرقومیں خاندانی عزت و آبرو کو ہرگز برباد نہ ہونے دیں۔کیونکہ ان کی آغوش میں ہندوستان کا مستقبل پرورش پارہا ہے۔وہ کہتے ہیں

کاوش کام پے مردوں کی نہ جانا ہرگز

داغ تعلیم میں اپنی نا لگانا ہرگز

جو بنا ھے ھمیں نمائش کھلونہ تم کو

ان کی خاطر سے یضرطن اٹھانا ہرگز

رخ سے پردہ کو اٹھانا تو بہت خوب کیا

پردہ ایشن کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز

تم کو قدرت نے بخشا ہے حیا کازیور

ملا سکا نہیں قارون کا خزانہ ہرگز

اپنے بچوں کی خبر قوم کی مردوں کو نہیں

یہ معصوم انہیں بھول نہ جانا ہرگز

ان کی تعلیم کا مکتب ہے تمہارا زانو

پاس مردوں کے ہیں ان کا ٹھکانا ہرگز

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی

یاد اس خرمن کی دل سے نہ بھلانا ہرگز

کس کے دل میں ہے وفا کس کی زبان ہے

نہں سنا ہے نہ سنوں گی یہ فسانہ ہرگز

پنڈت برج نارائن چکبست کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ لکیر کے فقیر نہیں تھے بلکہ ہمیں ان کے ہاں سماجی اصلاح کا منطقی طریقہ ملتا ہے جس میں مشرقی و مغربی تہذیب کے عناصر گلے ملے نظر آتے ہیں۔ان کا عقیدہ تھا کہ پرانی تہذیب سے جو کچھ بھی اچھی قدرے ملے اسے پوری طرح سمیٹ لینا چاہیے لیکن سے بھی نئی روشنی اور نئے تمدن سے بھی آنکھیں چار کرنا چاہیے۔ہماری مشرق و مغرب دونوں کا عکس ہونا چاہیے۔چک بسنے تہذیب کے قائل تھے لیکن اس بات کے مخالف تھے کہ ان کی قوم دوسری تہذیب کی پیروی کریں اور ان کے نقش قدم پر چلے۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ

ہمیں اپنا راستہ خود بنانا چاہیے۔                                              وہ حب وطن خون میں شامل نہیں رکھتے

گو حوصلہ رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے

چکبست کے یہاں اصلاحی پہلواورحب الوطنی کاجزبہ ہرجگہ کارفرماہے۔انہوں نے ہراس چیز سے نوجوانوں کو منع کیا جوان کی تر‍قی کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ خواہ وہ تعلیم وتربیت کا مسلہ ہویامال ودولت کا۔ مال ودولت سےمتعلق چکبست کانظریہ متوازن ہے۔ وہ دولت کومزدوری سمجھتے ہیں لیکن ان کی مناسب تقسیم کے قائل نہیں۔ان کےخیال میں زر ہونا چاہیے اوردولت اس لیے بھی نہیں کمانی چاہیے کہ اس کا مظاہرہ کیا جائے۔ وہ قوم کومشورہ دیتے ہیں کہ زندگی میں دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ جو لوگ مالدار ہیں انہیں چاہیئے کہ دوسروں کی مدد کریں۔ اس سلسلے میں دوبند ملاحظہ کیجئے:

کہتے تھے برا زرکو سخن سنج پرانے

ان لوگوں کےہمراہ گئےان کے زمانے

وہ فلسفہ علم وادب اب ہیں فسانے

بدلا ہےنیارنگ زمانے کی ہوانے

دولت سے ہےاب زیست کاشانئہ تہذیب

کہتے ہیں اسےشمع جلوہ خانئہ  تہذیب

چکبست کی شاعری خصوصی طورپروطنی شاعری سےڈوبی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری مجاہدین آزادی کوجذباتی تحریک دیتی ہے۔خصوصا جنگ آزادی کی تین دہائی میں چکبست کی نظمیں مسلسل وطن پرستی کےگیتوں اورراگوں سےپرنظرآتی ہیں۔فوج کے نوجوانوں کی ہمت افزائی اورملک کی خدمت میں پوری طرح تیاررہنےوالےافرادکے نام پنڈت برج نرائن نےکچھ ایسےاشعاربھی کہے ہیں جو آج بھی ہمارےلیےدرس وعبرت اورسبق آموزہیں۔

ساحل ہند سےجـرّاروطن جاتے ہیں

کچھ نئی شان سےجانبازکہن جاتےہیں

ان کی رگ رگ میں ہیں پیوست شجاعت کے چلن

ان کا میدان ہی ان کےلیے ماں کا دامن

جس گھڑی معرکئہ جنگ میں ہوتیغ علم

سورما لڑتے ہیں اس طرح پکار سےعالم

یاظفریاب تمہیں دیکھ کے دل ہوبشاس

آئےیاسوئےوطن خون میں ڈوبی ہوئی لاش

مادرقوم کا ہے اپنے سپوتوں سے پیام

خطّہ ہند کااس جنگ میں روشن رہے نام

چکبست کی شعری دنیامختلف موضوعات کےگرد گھومتی ہےلیکن ان سبھی موضوعات کاتعلق وطن اوربیداری قوم تک محدود ہے۔ ان کے یہاں حسن وعشق کےافسانےبہت کم ملتےہیں۔ان کی شاعری کاخاص مقصدوطن کوبیدار کرنا ہے۔انہیں اپنےوطن کا ہرذرّہ دیوتا نظرآتاہے۔ان کی نظر میں وطن کے رکھوالےوطن کےدرخشندہ ستارے ہیں۔حب الوطنی اس حدتک سرایت کرچکی ہےکہ وہ کہتے ہیں اس خاک سےاٹھیں گےاس خاک میں ملیں گے۔ کبھی ملک کی حالت دیکھ کرغم میں ڈوب جاتے ہیں۔تو کبھی نصیحت کے ذریعے قوم کوجھنجھوڑتےہیں اور امید سے دامن بھرلیتے ہیں اوراس طرح خوشی کااظہار کرتے ہیں:

اور ہی رنگ پہ ہے پیارگلشن

سیرکےواسطےآتےہیں عزیزان وطن

فرش آنکھیں لیےبیٹھےہیں جوانان چمن

دل میں طوفان طرب لب پہ عبت کے سخن

کون ہے آج جوامن بزم میں مسرورنہیں

روم سرشاربھی کھیچ آئےتوکوئی دورنہیں

‏غرض یہ کہاجاسکتاہےکہ چکبست کی شاعری وطن کی خوشبو سےمعطرہے۔ جس کی مہک آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ جس کا ثبوت ان کی نظمیں ہیں۔

***

Leave a Reply