اسرار احمد خان
ریسرچ اسکالر یونی ورسٹی آف کشمیر سرینگر
ادبی تھیوری میں نو تاریخیت بطور کلامیہ:ایک مطالعہ
تھیوری علم کی توجہات/توضیحات/تشریحات کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ جبکہ تنقید عموماً کسی متن یا فن پارے کی عملی جانچ/پرکھ/پہچان کرنے کا نام ہے۔ ادبی تھیوری ادبیات کی مختلف اصناف پر مشتمل علم کی تعبیر کرتی ہے اور ادبی تنقید اسی تعبیر کی عملی شکل ہوتی ہے۔ تھیوری کی ایک تاریخ ہے ،مختلف زمانوں میں اس کے مختلف عقائد رہ چکے ہیں اور ہر نئی صبح اس کے لئے نئی شعاعیں لے آتی ہے۔ بلکہ گردشِ زمانہ کی طرح اس میں بھی تحرّک اور تبدّل ہوتا رہتا ہے جس سے معنیاتی جہات کو نت نئی سمتیں ملتی رہتی ہیں۔ مغرب میں خاص کر اس کی تاریخ زیادہ بدلائو کی متقاضی رہی ہے۔ وہاں کی ارضیت کے خمیر میں جس طرح تغیر ہے اسی طرح دوسرے علوم کی طرح تھیوری بھی تغیر و تبدل کی شکار ہوئی۔ یہ اثرات کبھی منفی کبھی مثبت تھے۔ بیسویں صدی میں خاص کر ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک ہی دہائی میں کم از کم دو یا دو سے زیادہ تنقیدی رویوںکے رجحانات ملتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے آس پاس تھیوری اپنا سفر طے کرتے کرتے نو تاریخیت تک پہنچ جاتی ہے۔
نو تاریخیت ادب اور تاریخ کی ہم رشتگی کی قائل ہے۔ یعنی ادب اپنے تخلیقی جبر میں تہذیبیات کے تابع ہے۔ کوئی ادبی فن پارہ تہذیب و ثقافت کے دائرہ سے باہر نہیں ہے۔ جب مصنف کسی صنف میں ادب خلق کرتا ہے تو وہ دراصل اُسی تہذیبی میراث کی حد میں رہ کر ہی اپنے نِکات کی توسیع کررہا ہوتا ہے۔ نو تاریخیوں کے نزدیک ادب آفاقی قدروںپر محتوی نہیں ہوتا بلکہ مخصوص زماں و مکاں کے تقاضوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ادب کو خود مختار نہیں مانتے۔ نئی تنقید اور رد تشکیل نے ادب میں پسِ منظر(Background) کی اہمیت کے بارے میں منفیت کا مظہرہ کیا تھا۔ اوروہ ادب کو اس کے پیش منظر(Fore ground) میں ہی رچا بسادیکھتے ہیں۔ نئی تنقید کے نزدیک ادب خود کفیل ہے اور فن پارہ اپنی تشریح و توضیح خود کرتا ہے لیکن نو تاریخیت نے اس مفروضے سے اختلاف کیا۔ بقول نیمہ پارونی:
“Broadly speaking new historicism and cultural materialism mark a shift in the discipline of English Literature from a period in which the primary focus of criticism was the lterary text to one in which the primary focus has been historical context.”(1)
نو تاریخیت کا افتراق بنیادی طور پر نئی تنقید کی مبادیات سے تھا۔ اُن کے نزدیک فن پارہ خودمختار، آزاد اور خود کفیل نہیں ہوسکتا ہے۔ ادب کے پیدا ہونے میں تاریخ اور ماضی کے علاوہ تہذیب اور ثقافت کی پرچھائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ بقول لوئی ٹائی سن:
“New Historicists, in construct don’t believe we have clear access to any but the most basic facts of history.”(2)
اب جب تاریخ کے بنیادی حقائق یا واقعات تک ہماری رسائی نہیں ہوسکتی ہے تو جو تاریخ ہم لکھتے ہیں وہ اس تاریخی واقعہ کی ترجمانی ہوگی۔ تاریخ کے بجائے ترجمانی پر بننے والے مباحثے ظاہرسی بات ہے ایک طرح کے کھلے پن(openness) کو جنم دیتے ہیں۔ اس وجہ سے تاریخ یک رخی نہ ہو کر کئی رخی ہوجاتی ہے۔ نو تاریخیت کا یہی ماننا ہے کہ تاریخ یک رخی نہیں ہوسکتی ہے۔
ناقدین نے نو تاریخیت کے بنیادی مفروضوں کو زیل نکات میں تقسیم کیا ہے ۔
۱۔ نو تاریخیت نے روایتی اندازِ نقد کو تج دیا۔ اُن کے مطابق ادب کو ترجمانی (Representation) کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یہ ترجمانی اس طور سے ہے کہ ادب اپنے زمانے اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے اور یہ عکاسی ترجمانی ہی ہے۔
۲۔ نو تاریخیت ٹھوس تاریخی واقعات سے اوپر اُٹھ کر انسانی مزاج سے صادر ہونے والے افعال اور اعمال کا مطالعہ بڑے انہماک سے کرتی ہے۔ یعنی اس کا زور اخباری خبروں سے زیادہ ان خبروں کے وجود پذیر ہونے والے وجوہات پر ہوتی ہے۔
۳۔ نو تاریخیت ادبی فن پاروں کو اُن کے سطحی موضوعاتی مزاج پر نہیں بلکہ اُن موضوعات کے پسِ منظر کو پرکھتی ہے۔
۴۔ نو تاریخیت آہستہ آہستہ نظر یاتی تنقید(Ideology Critique) کو تجزیاتی کلامیہ (Discourse Analysis) سے بدل دیتی ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نو تاریخیت ہر ممکنہ پہلو میں نئی تنقید کے اختلاف میں ہے۔ ردتشکیل کے مفروضات سے بھی مختلف ہے اور ہیٔت پسندی کی مبادیات سے اختلاف کرتی ہے۔ یہ دراصل اپنے پسِ منظریائی کائنات کو متن کے محدود سانچے میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے نزدیک متن، ہیٔت، مواد، مصنف، زبان، اندازِ بیان سب ایک پسِ منظر کے متقاضی ہیں جن کی بدولت ادب وجود میں آتا ہے۔ پسِ منظر میں تاریخ، تہذیب، سیاست اور ثقافت ہوتی ہے۔
نو تاریخیت میں البتہ ایک دقت یہ ہے اس میں من جملہ فرد/مصنف کی کوئی الگ حیثیت نہیں۔ یعنی اس کا انفراد معدوم ہوجاتا ہے۔
ارم ویسرنے نو تاریخیت کی مبادیات یوں گنوائی ہیں:
- That every expressive act is embodied in a network of material practices.
- That Literary and non-Literary “Texts” circulate inseparabley.(3)
نو تاریخیت ادب کو مادیت کے تحت ایک جبریہ عمل مانتی ہیں ۔یعنی ادیب کی اپنی آزادی نہیں۔ ادب /فن پارہ/متن خود مختار نہیں ہوتا۔ اور ادبی اور غیر ادبی متون میں کوئی افتراق نہیں۔ دونوں کی بساط ایک دوسرے سے پیوست ہے۔
نو تاریخیت بطور کلامیہ اگرچہ اسٹیفن گرین ہلاٹ کی کاوشوں سے ادبی افق پر ظاہر ہوئی لیکن اس کے پسِ پردہ جو اثرات ہیں وہ مختلف شعبہ حے علم سے پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر کلفرڈ گیرٹز کا ’’بشریاتی مطالعہ‘‘(۱۹۷۳ء) ’’سزا کے طریقے کار‘‘ مشل فوکو(۱۹۷۷ء) اور ’’نظریاتی بالادستی کے حیلے‘‘ لوئی آلھتیوسو(۱۹۷۱ء)۔ اس لیے نو تاریخیت ادبی تنقید، تاریخی بشریات ،جدید علم تاریخ نگاری اور نظامِ قوت کی آمیزش ہے۔ ان اثرات سے نو تاریخیت بطور کلامیہ اپنی بنیادیں مستحکم کرتی ہے۔ جس میں زیادہ اہمیت پسِ منظر میں پیش آنے والے تہذیبی، تاریخی اور ثقافتی واقعات کو حاصل ہے۔
دیگر مابعد جدید نظریوں کی طرح نو تاریخیت بھی مادے کی اہمیت کو مسلم قرار دیتی ہے۔ اس کی افادیت کو ظہور میں لانے کے لیے مخصوص قسم کی اصطلاحیں بھی استعمال کرتی ہیں۔ بقول ارم ویسر:
“Circulation, negotiation, exchange – these and other marketplace metaphors characterize New Historicists, working vocabulary, as if to suggest the ways capitalism envelops not just the test but also the critic.”(4)
’’نئی تاریخیت کے بنیادی نکتے صرف دو ہیں۔ اوّل یہ کہ کسی فن پارے کا مصنف اپنے زمانے کے اقتدار طبقے کے خلاف کوئی موقف اختیار کرتا نظر آتا ہے کہ نہیں؟ یعنی کیا مصنف اپنے زمانے کی سرمایہ دار اور غیر انقلاب پسند طاقتوں کی رایوں کا محکوم تھا یا اپنی آزاد رائے بھی رکھتا تھا؟ اور دوسرا یہ کہ کیا مصنف نے یہ رویہ شعوری طور پر اختیار کیا ہے یا مصنف کے ارادے کے بغیر یہ رویہ اس کے فن پارے میں جھلکتا ہے؟ نئی تاریخیت کسی فن پارے کو اپنے زمانے کا پابند لیکن جدید تصورات کا حامل قرار دینا چاہتی ہے‘‘۔(۵)
نو تاریخیت کے ضمن میں ایک بات ذہن نشیں کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ ان کا بنیادی اختلاف نئی تنقید کے ساتھ تھا لیکن مغربی سرزمین سے پیدا ہونے والے اس نظریے کی مبادیات میں روح بیزاری اور مادّیت کی مرکزیت ایک ناگزیر حقیقت ہے جس کی طرف توجہ کرنا اشد ضروری ہے۔ اس میں یہ مغالطہ نہ ہو کہ یہ آفاقی اقدار کی تھیوری ہے جو کہیں بھی کسی بھی طرح سے اٹل اور سچ ہے!
حوالہ جات
- Neema Parvini 2018 “New Historicism and Cultural Materialism” In A companion to Literary theory Ed. David Richter.238 Wiley Blackwell.
- Louis Tyson Literary theory today P.283
- Aram Vesser New Historicism Introducation P.xi
- Ibid Introx. P.xiv
- متن کی قرأت ،مرتب،صغیر افراہیم،علی گڑھ یونی ورسٹی پریس،۲۰۰۷،ص:۲۳
***