You are currently viewing اردو ادب میں تانیثیت کی بڑھتی لَے

اردو ادب میں تانیثیت کی بڑھتی لَے

 ڈاکٹر شبنم آرا

پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو (یوجی سی)

ذاکر نگر ، نئی دہلی110025

اردو ادب میں تانیثیت کی بڑھتی لَے

         اردو ادب میں تانیثیت ان معنوں میں کبھی بھی نہیں رہی جن معنوں میں اسے امریکہ اور یوروپی ملکوں مں مقبولیت حاصل ہوئی پھر بھی اردو ادب کی فکری تاریخ میں عورتوں کے جائز حقوق، ان کے مسائل، ان پر ہونے والے ظلم و تشدد اور ان کی حقیقی مجبوریوں کو سب سے پہلے نظم سے زیادہ نثری اد ب میں وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا۔ اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھانے والے ابتدا میں مرد دانشوراور مصلحین ہی تھے۔ ان دانشوروں کی تخلیقات میں عورتوں کے مسائل ضرور اجاگر کئے گئے لیکن ایک محدود پیمانے پر۔ ایک عورت کیا سوچتی ہے یا محسوس کرتی ہے، ان کی کیا خواہشیں ہیں، کون سے عوامل ان کی شخصیت کی تکمیل یا تخریب کا سبب بنتے ہیں ۔ ان نکات پر اس دور میں توجہ نہیں دی گئی۔ آج ہم تانیثیت کو جن معانی و مفاہیم کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں اس سے یہ دانشور کوسوں دور تھے۔ 1932میں ’’انگارے ‘‘کی اشاعت اور اس میں رشید جہاں کی شمولیت نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے ان تمام فرسودہ نظام اور جابرانہ طرز حکومت کی حد بندی کو توڑا اور عورت کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک نیا زاویہ پیش کیا۔ عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، صدیقہ بیگم، رضیہ سجاد ظہیر اور دوسری افسانہ نگاروں نے رشیدجہاںکی فکر سے متاثر ہوکر عورت کی حمایت میں لکھنا شروع کیا اور رشید جہاں کو اپنا پیش رو تسلیم کیا۔

         عصمت چغتائی نے رشید جہاں سے دو قدم آگے بڑھ کر حقیقت نگاری کا ایک نیا باب قائم کیا ۔ ان کی حقیقت نگاری کے ذریعہ عورت پہلی مرتبہ اپنے احساسات و جذبات، فطرت و نفسیات اور حقیقی رنگ و روپ میں اس طرح سامنے آئی کہ صرف مرد ہی کو نہیں عورت کو بھی تعجب ہوتا ہے کہ اس کا حقیقی روپ کیا ہے جس کی تفہیم سے وہ اب تک محروم تھی۔ قرۃ العین حیدر، جمیلہ ہاشمی، رضیہ فصیح احمد، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، بانو قدسیہ، صغرا مہدی اور دیگر خواتین نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعہ ہم عصر معاشرہ، پدرانہ سماج اور ان کے رویوں اوراقدار و نظریات کے خلاف احتجاج کیا، جس نے صدیوں سے عورت کو محکوم و کمزور ثابت کر رکھا ہے۔

         تحریک آزادی نسواں کی بیداری کے طفیل آج بے شمار خواتین بوسیدہ معاشرے کے حصار سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے خود بھی جد و جہد کر رہی ہیںاور دوسرے اہل سخن و اہل ذوق رکھنے والی ادیبہ و شاعرات کو بھی میدان جنگ میں آنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ اس ضمن میں وہ خواتین قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور فہم و دانا کے باوصف نہ صرف اپنے وجود کا احساس دلایا بلکہ اپنے اندر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے لگیں، جن کے اظہار پر اب تک پابندیاں عائد تھیں۔ ہندوستان میں جو خواتین کافی سرگرم ہیںاور نثر و نظم دونوں اصناف میں لکھ رہی ہیں، ان میں جیلانی بانو، صغرا مہدی، رفیعہ شبنم عابدی، بلقیس ظفیر الحسن، شکیلہ اختر، عذرا پروین ، ترنم ریاض، صادقہ نواب سحر، شہناز نبی، غزال ضیغم، آشا پربھات، شبنم عشائی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ خواتین اب کسی بھی معاملے میں سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کیا سوچتی ہیں، ان کی فکر کیا ہے، ان کی خواہشات ، ان کے مسائل ، ان کے دکھ درد، ان کی الجھنیں، مردانہ بالادستی کے تئیں ان کا نظریہ وغیرہ جیسے موضوعات پر وہ قلم اٹھا رہی ہیں اور ہر اس مقام پر شرکت اور مساوی حیثیت کی خواہش کا اظہار کر رہی ہیںجہاں مرد روز ازل سے ہی حاکم بنا بیٹھا ہے۔

         جیلانی بانو اردو کی مشہور و معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انھوں نے عورت کو ایک الگ مخلوق ماننے کے بجائے اس مردانہ بالادستی والے معاشرے میں عام انسانوں کا ہی ایک حصہ تسلیم کیا ہے۔ یہ عورت دیگر تمام عورتوں کی طرح کمزور، لاچار اور ماتحت ہے۔ دوسری طرف وہ نہایت حساس، بیدار، بے باک اور سرکش بھی ہے۔ وہ اگر اس استحصالی معاشرے کی شکار ہوتی ہے تو باغی بن کر اس معاشرے سے بغاوت کے لیے بھی آمادہ ہوتی ہے۔ وہ عورتوں پر روا رکھنے جانے والے مظالم کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکتی بلکہ اس معاشرے اور نظام کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔ جیلانی بانو نے جاگیردانہ نظام کے استحصالی رویے کو اپنا موضوع بنایا اور اس نظام میں حویلیوں اور حویلیوں سے باہر کلبوں اور تھیٹروں میں عورتوں پر جو مظالم ڈھائے جاتے تھے اس کی ہو بہو تصویر کھینچی ہے۔ ان کی تحریریں کئی زاویے سے عورت کے ازلی غم و الم اور جبر و ستم کی بھرپور کہانی بیان کرتے ہیں۔

         صغرا مہدی نے بھی ادب خصوصاً فکشن کی دنیا میں ایک حساس ادیب کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ان کے اب تک پانچ ناول شائع ہو چکے ہیں جن میں تحریک آزادی نسواں کے اثرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ان ناولوں میں صغرا مہدی نے خارجی حقیقت کے بجائے داخلی حقیقت نگاری، جذبات نگاری اور تحلیل نفسی کو مرکز و محور بنایا ہے۔ ان کے ذہنی و جذباتی رویوں کے علاوہ مرد و عورت کے درمیان کے رشتوں کی شکست و ریخت، سماج میں عورت کی حیثیت کا المیہ اور عورت کی بدلتی ہوئی تصویر جیسے موضوعات و مسائل کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام مسائل و موضوعات کو بیان کرنے کے لیے انھوں نے مختلف تکنیک کا استعمال کیا ہے۔

         رفیعہ شبنم عابدی معدودے چند شاعرات میں اپنی نسائی فکر کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنی حساس طبیعت اور بیداری فکر کے طفیل عورت کی مظلومیت اس کے دکھ درد، اس کی الجھنیں، لاچاریوں اور مجبوریوں کو شعری پیکر دے کر بے نقاب کرنے کی کوششیں کی ہیں اور اپنے بے باکانہ اور باغیانہ لب و لہجے کے ذریعے عورت کو جینے کی ازلی خواہش کے ساتھ اپنے طور پر جینے اور فکر کرنے کے مطالبے پر زور دیا ہے۔ رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی شاعری میں عورت کی جن محرومیوں اور ناپسندیدگیوں کو شعری زبان عطاکرنے کے علاوہ جس تنہائی اور بے چارگی کا بار بار حوالہ دیا ہے، وہ اس کا وجودی

مسئلہ نہیں ہے۔ اپنی نظم ’’فریبی‘‘ (مجموعہ اگلی رت کے آنے تک) میں اس طرح کی علامتیں انھوں نے پیش کی ہیں:

                  تم آخر اسے کب تک

                  رسیوں میں جکڑ سکوگے یہ کھیل بہت ہو چکا

                  اب اسے آزاد کر دو

                  کیا تم نہیں جانتے کہ چناب کی لہریں

                  بندرابن کی گلیاں

                  کھجوراہو کی ساری تصویریں

                  ایلورا اجنتا کے غار

                  تاج محل

                  انارکلی

                  نور جہاں، رضیہ سلطانہ اور چاند بی بی کے مقبرے

                  سب ایک جل تھل دھرتی پر بنے ہیں

                  کسی صحرا میں نہیں

         رفیعہ شبنم عابدی نے اپنی اس نظم میں اشاریت کا سہار لے کر عورتوں کے جبر و استحصال کو جو صدیوں سے جار ی ہے اور آج بھی ان پر قابو پانا مشکل نظر آ رہا ہے جیسے مسئلوں کو بہت ہی اشارتی مصرعوں میں ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ چناب سے غالباً ہیر رانجھا، بندرابن کی گلیوں سے مراد گوپیاں اور کھجوراہوکی مورتوں میں عورت ذات پر جو جنسی زبردستیاں پتھروں میں پیش کی گئی ہیں، ایلورا اجنتا میں حسن کی بے باکانہ پیش کشی کی گئی ہے۔ تاج محل بھی ایک طرح کی بے کسی کی داستان ہے اور انارکلی جو اپنی محبت کی سزا کے لیے دیوار میں چن دی گئی، نور جہاں میں شیر افگن کے قتل کا واقعہ۔ یہ سب عورتوں کی مجبوریوں کی داستانیں ہیں جنھیں بڑے خوبصورت انداز میں احتجاجی آہنگ کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

         پدرسری سماج نے عورتوں پر جو حد بندیاں صدیوں سے عائد کر رکھی ہیں ان حد بندیوں کا گہرا اور دیر پا اثر تخلیق کار کے احساسات و جذبات کے اظہار میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان حصاروں اور جکڑبندیوں نے شاعرات کو اظہار کے معاملے میں نہایت ہی محتاط بنا دیا تھا ۔ اس لیے کبھی کبھی شاعرہ اپنی محرومیوں اور جبر کا ذکر یوں کرتی ہیں:

میرے قدموں تلے جنت ہوئی تعمیر مگر

میری قسمت تیرے ہاتھوں کی لکیروں میں رہی

وہ صداقت ہوں جو دریائوں پہ تحریر ہوئی

نوک نیزہ پہ سجی ظلم کے تیروں میں رہی لیکن رفتہ رفتہ شاعرہ ان حصاروں پر دھاوا بول کر اس زمیں پر قدم جما لیتی ہے جو مرد حضرات کی بلا شرکت غیرے ملکیت تھی۔ زبان و بیان اور موضوعات کے اعتبار سے یہ شاعری ایک طرح سے اعلان جنگ ہے۔ اپنی نظم ’’فیصلہ‘‘میں یوں ہوتی ہیں:

                  وہ شخص جو رشتوں کی پہچان نہیں رکھتا

                  جذبات کے زخموں کا عرفان نہیں رکھتا

                  دل ٹوٹنے جڑنے کا کچھ گیان نہیں رکھتا

                  خود اپنی محبت پر ایمان نہیں رکھتا

                  ’’وہ دور رہے مجھ سے‘‘

                  ہاں بس یہی اچھا ہے

                  اب کے یہی سوچا ہے

                  یہ آنکھ مچولی، میں

                  کھیلوں بھی تو کیوں کھیلوں

                  دکھ درد جدائی کے

                  جھلیوں بھی تو کیوں جھیلوں

یا پھر دوسری نظم:

                  آج بربریت نے

                  نفرت نے

                  سرزمین سورت نے

                  مرد کی شقاوت نے

                  آئینہ دکھایا ہے

                  نیند سے جگایا ہے

         اس طرح رفیعہ شبنم عابدی کی شاعری میں جدید عورت اپنی حسی اور جذباتی نسائیت کے ساتھ خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی تلخ محرومیوں اور زندگی کے کڑوے تجربوں کے خلاف احتجاج پر آمادہ ہوتی ہے اور ہر حال میں اب وہ معاشرے کے حصار سے آزادی چاہتی ہے جس سے اب تک وہ گھری ہوئی تھی:

                  غلط کیا کہ اعتبار تیرا میں نے کیا

                  اور اعتبار بھی دیوانہ وار میں نے کیا

                  خطا یہ کی کہ تیرے لوٹنے کی آس میں

                  تمام عمر تیرا انتظار میں نے کیا

         جدید عورت اب مردوں کے ان جھوٹے چونچلوں سے باخبر و آشنا ہو چکی ہے۔ اب وہ مرد کے بہلائوں میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جس طرح عورتیں شوہر یا محبوب کے انتظار میں اپنی زندگیاں وقف کر دیتی  تھیںکیوں کہ وہ ان کا مزاجی خدا تھا۔ ہمارے مرد اساس معاشرے میں عورتوں کی ذہنی پرورش ہی اس انداز میں کی جاتی تھی کہ مرد حاکم ہے ، وہ آقا ہے ، سات خون ا س کے لیے معاف ہیں۔ اس کے تمام زیبا و نازیبا حرکات و سکنات کی قدر کرنی چاہیے اور اسی سے چمٹے رہنے ہی میں عورت کی خوشنودی ہے۔ لیکن بیداری زمانہ کے طفیل جدید عورت کے اندر ان فرسودہ پرستش سے انحراف کرنے کا جذبہ بیدار ہوااور اس نے مرد کی بے اعتنائیوں، بے وفائیوں اور فریبوں کا اسیر ہونے کے بجائے کھلی آنکھوں سے دنیا کا نظارہ کرنے کی جسارت کی اور بلا جھجھک یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ یہ میری خطا تھی یہ میری بھول تھی کہ تمہارے انتظار میں ، میں اپنی خوشگوار زندگی سے محروم رہ گئی۔

         رفیعہ شبنم عابدی نے ان تمام بوسیدہ اور دقیانوسی خیالات و نظریات کا بائیکاٹ کیا اور اپنے دلیرانہ اور بے باکانہ انداز میں مردانہ بالادستی والے معاشرے سے عورتوں کی مظلومیت کے خلاف بلند بانگ آواز بلند کی اور عورت کو باغی اور سرکش کے روپ میں پیش کرکے ان تمام ظلم و زبردستیوں ، فریبوں اور پینتروں سے باخبر دکھانے کی کوشش کی جن سے اب تک وہ جوجھ رہی تھی۔ آج کی جدید عورت مردوں کے ان تمام چونچلوں سے بخوبی واقف ہے ۔ کیوں کہ آج تک مردوں نے عورتوں کو انھیں فریبوں اور چونچلوں کے شکنجے میں جکڑے رکھا اور نت نئے حربے استعمال کرکے اس کی خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کا خون کرتا رہا۔ لیکن بیداری زمانہ کے طفیل حساس اور دور اندیش عورتوں نے ان تمام حربوں کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی اور اپنی بصیرت اور فہم و دانا کے باعث ان تمام مرد مرکوز ذہنیت کا پردہ فاش کیا۔

         بلقیس ظفیر الحسن ایک ہمہ جہت اور توانا شخصیت کا نام ہے، جنھوں نے مرد مرکوز معاشرے سے بغاوت کا اعلان کیا ہے اور اپنی تخلیقات میں جینے کی ازلی خواہش کے ساتھ اپنے طور پر جینے اور سوچنے کا برملا اظہار کیا ہے۔ بلقیس ظفر الحسن نے اپنے شعری مجموعے ’’گیلا ایندھن‘‘میں متعدد نظموں مثلاً ’ہائوس وائف‘ ، ’سمان‘ ، ’وھیل چیئر‘ میں بیٹھی زندگی اور ’خربوزہ اور چھری‘ ، ’ھن لباس لکم و انتم لباس لہن‘ ، ’جہنم‘ ، ’نئی عورت کا ترانہ‘ ، ’مجھ سے دوستی کروگے‘ وغیرہ جیسی نظموں میں پابندیوں اور بندشوں میں گھری عورت کو پیش کیا ہے اور جگہ جگہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ خدا نے دونوں کو یکساں سرفراز کیا اور دونوں کو ایک دوسرے کے لیے بنایا لیکن مرد ’’مجازی خدا‘‘کا بورڈ لے کر ہمیشہ احساس برتری کا دعویٰ کرتا رہا ہے اور عورت کی حق تلفی کرنے پہ سینہ تانے کھڑا رہتا ہے۔’’ مجھ سے دوستی کروگے‘‘ میں عورت کی الگ شناخت ابھرتی ہے اور یہ احساس دلاتی

ہے کہ یہ میرا ظرف ہے کہ تمہیں بڑا مان رہی ہوں جب کہ میرے وجود سے ہی تمہاری مکمل شناخت ہے۔

                  جو کرنے پر اتر آئے کوئی، کیا کر نہیں سکتا

                  یقینا، میں بھی کر سکتی ہوں تم سے، بے وفائی

                  کج ادائی

                  حقارت طنز اور دشنام، سب کچھ

                  تمہارے ہی دیے سکے۔۔۔۔۔۔تمہارے منھ پر میں بھی مار سکتی ہوں

                  مجھے نادان یا کمزور مت سمجھو

                  جو کرنے پر اتر آئے کوئی۔۔۔۔۔۔۔ کیا کر نہیں سکتا

                  مگر کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔دکھ دے کہ تم کو

                  کوئی سکھ پانا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا

                  مجھے نیچا دکھانے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے ہو تم

                  ایک بار مجھ سے دوستی بھی کرکے دیکھو

                  خسارے میں نہیں پائوگے اپنے آپ کو۔۔۔۔۔۔ وعدہ رہا

                  کیوں دوستی مجھ سے کروگے

         مرد کے مساوی عورت کو بھی خدا نے دل، دماغ، ذہن، عقل، صلاحیت و قوت سے سرفراز کیا ہے لیکن روز ازل سے ہی اس کو دبایا جاتا رہا۔ ہر سطح پر اس کو ہیچ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں لہذا عورت کے اندر کی وہ تمام صلاحیتیں جو خدا نے اسے ودیعت کی تھیں وہ ابھر کر سامنے نہیں آ سکیں۔ اس لیے مصنفہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں یعنی ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ دونوں کا رشتہ حاکم و محکوم کا نہیں ہے بلکہ رفیق کار کا ہے پھر یہ بڑا چھوٹا اونچ نیچ اور بر تر اور کم تر کی تفریق کیوں۔ خدا نے دونوں کی تخلیق یکساں کی ہے۔ اس لیے معاشرے میں دونوں کو ہر سطح پر مساوی برتری حاصل ہونی چاہیے۔ بلقیس ظفیر الحسن کے ہی الفاظ میں:

                  تمہاری طرح ایک انسان میں بھی ہوں

                  مجھے بھی زندگی جینے کا حق اتنا ہی ہے جتنا تمہیں ہے

                  تمہاری طرح میں بھی نفرتوں اور چاہتوں سے

                                             روز ملتی ہوں

                  وہ دکھ ہو یا کہ سکھ، مجھ پر بھی ویسے ہی گزرتا ہے

                  جدا ہے ساخت جسموں کی مگر دونوں کے جسموں میں

                                                      (لہو تو ایک جیسا ہے)

                  تمہاری طرح ایک انسا ن ہوں

                  وہ پالتو بلی نہیں، بستر میں تم اسے سلاکر

                  جس کی ’خرخر‘سے بہت محظوظ ہوتے ہو

                  تمہاری طرح مجھ کو بھی خدا نے۔۔۔۔۔۔اک وجود اپنا دیا ہے

                  کسی کم تر خدا کی خلق کردہ کیوں سمجھتے ہو

                  تمہارا جو خدا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہی میرا بھی خدا ہے

                  تمہاری وضع کردہ زندگی جیتی رہوں

                                    کیوں چاہتے ہو

                  مجھے محفوظ رکھنے کا بہانہ مت تراشو

                                    شکریہ

                  مجھ کو حفاظت اپنی کرنی آ گئی ہے

                  مجھے بھی زندگی جینے کا حق اتنا ہی ہے

                  جتنا تمہیں ہے

         اب یہاں عورت مجبور، لاچار و محتاج نہیں ہے بلکہ پوری قوت و توانائی کے ساتھ مرد مرکزی معاشرے سے بغاوت کا اعلان کر رہی ہے۔ وہ نہ ہی معاشی طور پر مجبور ہے کہ اپنی زندگی کا بار اٹھانے کے لیے مرد کے مزید جبر و استحصال کو برداشت کرتی رہے اور نہ ہی ذہنی اور عقلی سطح پر مرد سے کم تر ہے بلکہ شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے مساوی کندھے سے کندھا ملا کر اپنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اپنی زندگی اپنے طور پر کرنے پر مصر ہے۔

         بلقیس ظفیر الحسن کے بیشتر کلام میں عورتوں کے مساوی حقوق کے لیے ایک تڑپ ہے، بے چینی ہے۔ وہ مساوات جس سے آج تک عورت کو محروم رکھا گیا۔ سماج نے مرد کو ہر طرح کی آزادی فراہم کی لیکن عورت کو مساوی حقوق سے محروم رکھا۔ مرد کے ہر جرم اور ہر گناہ کو روا سمجھا گیا مگر عورت سے اس کی پاکیزگی کی ضمانت طلب کی گئی۔ مرد کی نصف بہتر ہوتے ہوئے بھی اسے اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا اور دوسرے درجے کی شے سمجھ کر اس کے جسم کو محض تسکین کا ذریعہ سمجھا گیا۔ عورت سے ہر دور میں اس کی وفا اور تقدس کا ثبوت مانگا گیا اسے کہیں سیتا بن کر اگنی پریکشا دینی پڑی کہیں وفا کے نام پرستی ہونا پڑا مگر ان امتحانات سے گزرنے کے بعد بھی وہ سماج میں اس مقام کو حاصل نہیں کر سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس کی عمدہ مثال ان کی نظم

’’خربوزہ اور چھری‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

                  چھری خربوزے پر گرے، یا خربوزہ چھری پر

                  چھری کا کبھی کچھ نہیں بگڑتا

                  جو کٹ جاتا ہے وہ خربوزہ ہوتا ہے

                  چھری پہلے کی طرح تیز اور چمک دار

                  دوسرے خربوزے کو چیرنے کو تیار

                  گلی سے گزرتے ہوئے غنڈے نے

                  سیٹی ماری تھی اس پر

                  سیتا اب گھر سے باہر نہیں نکلتی۔۔۔۔مناہی ہے

                  پڑوسی کی تاک جھانک پر۔۔۔۔۔ بھابھی کو میکے پہنچا آئے بھیا

                                                      ریپ کیے جانے پر

                  ساوتری خود کشی کرکے مر گئی

                  ہاں ۔۔۔۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر

                  کٹنا تو خربوزے کو ہی ہوگا

                  مگر کیا عورت اور خربوزے میں کوئی فرق نہیں؟

         بلقیس ظفیر الحسن نے اس نظم میں عورت کی بے بسی کا نوحہ بیان کیا ہے۔ کیوں کہ ہمار ے معاشرے میں ہر سطح پر عورت کو ہی قربان ہونا پڑتا ہے اور مرد ہر معاملے میں بچ نکلتاہے۔ لیکن بلقیس ظفیر الحسن نے ان تمام سماجی قیود و ضابطے اور خیالات و جذبات کے اظہار کی بے باکی کوجو صرف مرد حضرات کے ہی حدود و اختیار میں تھے اور ان جذبات و خیالات کے اظہار پر خواتین کے لیے ایک خفیہ سماجی سینسر Censorتھا ۔ بلقیس نے اس سینسر شپ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی۔

دن رات بے کلی سے چلو جان تو چھٹی

جینا تیرے بغیر بہت دل پہ شاق تھا

         جدید عورت پہلے کے مقابلے میں زیادہ محتاط، سمجھدار، ہوشیار سرد و گم زمانہ اور اس کے پینتروں سے اچھی طرح باخبر ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مرد اور عورت کی جنگ میں کوئی بنیادی ٹکرائو نہیں ہے۔ ٹکرائو ہے تو صرف برابری کے حقوق کا۔ انسان کہلانے کی مستحق اور مرد کے ساتھ بھی میدان عمل میں برابر کی حصہ داری میں رہنے کا عزم اور یہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب مرد عورت کو پوری ایمانداری کے ساتھ شعبہ ہائے زندگی میں مساوی شمولیت دے۔ اس کو ہم سفر اور ہم خیال تسلیم کرے تبھی

 اس کی حیثیت میں سدھار ممکن ہو سکے گا۔

         ہم عصر شاعرات میں شہناز نبی اور عذرا پروین کی نظموں میں اس رویے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ شہناز نبی اپنی نظم ’’بھیڑیں‘‘ میں طنزیہ لب و لہجے میں اپنے غصے کا اظہار کرتی ہیں:

’’اک چراگاہ ۔۔۔سو چراگاہیں ۔۔۔ کون ان ریوڑوں سے گھبرائے۔۔۔ پڑ گئیں کم زمینیں اپنی تو ۔۔۔ کچھ سفر کچھ حضر کا شغل رہے ۔۔۔ کچھ نئی بستیوں سے ربط بڑھے ۔۔۔ ان کو آزاد کون کرتا ہے ۔۔۔یہ بہت مطمئن ہیں تھوڑے میں ۔۔۔ اک ذرا سا گھما پھرا لائو ۔۔۔ کچھ ادھر کچھ ادھر چرالائو ۔۔۔ بھیڑیں معصوم بے ضرر سی ہیں ۔۔۔ جس طرف ہانک دو چلی جائیں۔

         یا پھر ان کی دوسری نظم جس کا عنوان ہے ’’تینتیس فیصد‘‘ میں یوں گویا ہوتی ہیں:

                  بہت پہلے کسی نے چاہا تھا

                  پرچم بنے آنچل

                  سو اب تینتیس فیصد پرچموں سے

                  آسمان روشن

                  مگر کس سمت مڑنا ہے

                  کہاں پر کتنا اڑنا ہے

                  یہ ایسا راز ہے

                  جس کو سمجھ نہ پائے گا کوئی

                  کسی کھمبے سے لگ جائو

                  کسی چھت پر ٹھہر جائو

                  تو شاید کوچہ آفات کے کچھ بھید کھل پائیں

                  ابھی لامرکزی ہونے میں باقی ہیں کئی صدیاں

                  جنھیں اپنے لیے

                  اپنی طرح طے کرنی ہیں سمتیں

                  نگلنے کو انھیں بیتاب ہیں کچھ خشمگیں شعلے

                  سررا ہے۔۔۔!

         شہناز نبی کی شاعری میں عورت بڑے دھیمے لہجے میں مرد اساس معاشرے سے ہم کلام ہوتی ہے اور اس بات کا انکشاف

کرتی ہے کہ تجھ کو اپنے دل میں بسانے سے پہلے میں تیری اصلیت کو سمجھنے میں چوک گئی اور تجھ میں ایک دوست ، ہمدرد اور

غمگسار صفت انسان کو تلاش کرنے لگی۔ ملاحظہ کیجئے کہ شہناز نبی کی نظم ، شعر شور انگیز کیا کہتی ہے:

                  شعر شور انگیز

                  بیاض دل میں تجھ کو نقش کرنے سے ذرا پہلے

                  نہ سوچا تھا کہ تو کس بحر میں ہے

                  کیا زمیں تیری

                  عروضی موشگافی کی ضرورت ہی نہیں سمجھی

                  نہ یہ دیکھا کہ ہے آہنگ کتنا

                  اور یہاں کیسا

                  تو اورہے نہ سرقہ ہے

                  تو جیسا ہے تو جس کا ہے

                  اتاراہو بہو میں نے

                  اگر کچھ جرم ہے میرا تو بس اتنا

                  کہ تجھ میں اپنے معنی رکھ کے پڑھتی رہتی ہوں اکثر

                  اے میرے شش جہت

                  اے شعر شور انگیز

                  ممکن ہو

                  تو میرے ذوق شعری پر

                  کبھی تو ناز کر لینا

         عذرا پروین، معاصر اردو شاعری کا ایک منور اسم ہے۔ عذرا پروین شعر و نثر میں اپنی بے طرح حساسیت اور شائستہ بے باکی کا تخلیقی اظہار یہ بن رہی ہیں۔ اس میں سفاکی کے نغمے، نوحے سبھی شامل ہیں۔ عذرا نے آج کی عورت کے سماجی اور جنسی مسائل کو اپنے وزن سے دیکھا، سوچا اور پھر لکھا ہے۔ ان کے تجربے اور مشاہدے کے مطابق :

’’سماج میں ایک عام عورت کا جو Status ہے وہی ادب میں بھی خواتین پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ادب اپنے کلچر ، اپنے سسٹم اور اپنے سماج کا عکاس ہوتا ہے۔ عموماً جیسا نسائی Mental Statusسماج میں جائز یا روا رکھا گیا اتنے ہی Statusکی گونج آپ کو عموماً خواتین کے اردو ادب میں سوچوں اور رفتار میں ملے گی۔۔۔Exceptions کو چھوڑ کر کیوں کہ وہ تو بہر طور کسی نہ کسی طرح آدھی زندہ زمین میں گڑی آدھی باہر اپنے تخلیقی تیور اور اظہار کے باغی سرمائے کی وجہ سے ٹکی ہوئی ہیں۔ سماج ہو یا ادب جب جب عورت اپنے دستخط پراور وجود کے اقرار پر مصر ہوتی ہے ۔ عموماً مرد اساس معاشرے کے ٹھیکیداروں کو یہ سب سننے ، برداشت کرنے کی عادت ورثے میں نہیں ملی ہوتی ہے۔ ایسی تمام جنگوں کے رخ اس طرح موڑ دیے جاتے ہیں جیسے کے جدید تر تہذیب کے شاطر مشاقوں نے کیا ہے۔ وہ 24 گھنٹے فیشن چینل پر ہو یا مشاعرے کے اسٹیج پر اردو کی نسائی نمائندگی کے نام پر عورت کے اس کیٹ واک سے لے کر مرد اساس تہذیب کے اس Cat Walkکی اندرونی روئیداد بے حد کریہہ اور گھنائونی ہے۔ ‘‘  ۱؎

(عذرا پروین، مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیبوں کے مسائل، ص157)

         عذرا پروین کا مرد اساس معاشرہ و تہذیب سے یہ Assertion کہ اگر ہم عورت سے مردانہ سوسائٹی عالمی ادب کی تخلیق کی Demandکرے تو کیا یہ ممکن ہے؟ عالمی ادب کے لیے عالمی ویژن چاہیے۔ عالمی کلچر اور عالمی بیداری چاہیے، عالمی حسیت اور عالمی ادراک چاہیے۔ جب کہ ہمارے عام اردو کی عورت کو تو یہ بتایا گیا کہ ہمارا عالم مرد ہیں، ہمارا عالم گھر ہے، بچے ہیں اور سوچنے کی ہمیں نہ فرصت ہے اور نہ تربیت۔

’’بڑے ادب کی تخلیق میں ہی تو مسئلہ ہے ورنہ لکھنے والیوں کی ایک لمبی قطار آج بھی موجود ہے۔ افسانہ ، شاعری، تنقید کہیں بھی دیکھئے مگر آپ ہم جس آفاقی Vision کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں کیا بڑے ادب کی تخلیق کے لیے جو بڑا ویژن اور بڑی ذہنی تیاری اور ذہنی تربیت ، بڑا مطالعہ چاہیے۔ وہ عموما ً ہماری عام اردو کی عورت کے پاس ہوتا ہے؟ ادب کی تخلیق سے پہلے جو ضروری Mental Processہے جو ذہنی ارتقا ہے جو ضروری ہوم ورک ہے اردو کی عورت پر وہ دروازے بند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ Unwantedڈیمانڈ سے بھرے Unwantedمرد اساس معاشرے میں طرح طرح کے اندھاکردینے والے خیرہ کن گلیمر سے نبٹنے والے مدافعانہ تیور ہماری مشرق کی عورت کے تربیتی نظام میں شامل ہیں؟ کیا ہماری عورت میں وہ توانائی پنپنے دی گئی ہے یا سپردگی یا صلح جوئی کو اس کا اکلوتا اور واحد حسن قرار دے کر وٹامن اس عورت کو اس کثرت سے دیا گیا کہ کثرت وٹامن ہی مسائل کا کینسر بن گیا۔‘‘۱؎

(عذرا پروین، مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیبوں کے مسائل، ص157)

         یقینا ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی عورت کو سپردگی اور صلح جوئی کے علاوہ دیگر چیزوں سے اس کا رشتہ کاٹ دیا جا تا ہے اور اس میں ہی اس کی بھلائی اور سماج میں گزارے کی صورت اسے بتایاجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس سے اعلیٰ ادب یا کسی بھی علوم و فنون کی توقع ناممکن ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں نے ہماری شاعرات کو بھی بے انتہا متاثر کیا ہے اور وہ اپنے قلم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس بصیرت کو عام کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کر رہی ہیں جو اس صدی کی دین ہیں۔

ان کی ایک نظم ہے ’’میں اور ہی کوئی ہندسہ ہوں‘‘۔

         میں اب کوئی نیا حادثہ ہوں ۔۔۔میں اور ہی کوئی ہندسہ ہوں۔۔۔ تمہارے پہلو میں کل سے اب تک جو اک بہ صورت صفر، صفر تھی، وہ میں نہیں تھی۔۔۔ وہ میں نہیں ہوں ۔۔۔ جو تجھ میں تیرے سفر کی دھن تھی ۔۔۔ وہ خود مسافر نہ ہو کے بس تیری رہ گزر تھی ۔۔۔ وہ میں نہیں تھی ۔۔۔ وہ میں نہیں ہوں ۔۔۔ سنو تذبذب کی برف پگھلی۔۔۔میں اک نسچت اڑان ہوں ۔۔۔ اب ۔۔۔ جو اک انسچت ۔۔۔ اگر مگر تھی ۔۔۔میں وہ نہیں تھی ۔۔۔ میں وہ نہیں ہوں ۔۔۔ میں اب نیا کوئی حادثہ ہوں ۔۔۔ میں اب نئی کوئی انتہا ہوں ۔۔۔ میں اور ہی کوئی ہندسہ ہوں۔

         ترنم ریاض بھی عہد حاضر کی ایک حساس ادیبہ کی شکل میں اپنی شناخت قائم کر چکی ہیں اور ناول، افسانہ اور شاعری کے ذریعے عورت کے دکھ درد اور اس کے مسائل کے خلاف آوازیں بلندکیں ہیں اور عورت کی نفسیات اور اس کے نازک جذبات و احساسات کو نوک قلم پر لانے کی کوششیں کیںہیں۔ ان کی ایک نظم ملاحظہ ہو:

                  نامحرم

                  اس کے ہر مو سے لپٹا ہوگا اک سانپ

                  دلکش آنکھیں اس کی

                  داغی جائیں گی

                  انگاروں پر ہوگا اس کا نرم بدن

                  ایسے جرم کے بعد

                  رحم کی کیا ہوگی امید اسے

                  حالانکہ ہر دل کا مالک اللہ ہے

                  اس کے جان اور جسم کا ہے مختار کوئی محرم اس کا

                  اس کو ایک نا محرم اچھا لگتا ہے

                                             (ترنم ریاض)

         اردو ادب میںتانیثیت کی بڑھتی لے کے حوالے سے مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ رشید جہاں نے اردو ادب میں جس تحریک آزادی نسواں کی داغ بیل ڈالی تھی اردو شعر و ادب ان کے انھیں رہنما خطوط پر چل کر نئے افق کی تلاش میں سرگرداں رہا اور تحریک آزادی نسواں کی فکر کو اردو ادب میں پروان چڑھنے کا موقع دستیاب ہوا۔ اس سمت میں آگے چل کر خواتین فکشن نگار اور شاعرات نے اس کی مزید آبیاری کی اور رنگ و روغن عطا کیا۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ تانیثیت کی بڑھتی لے فکشن سے زیادہ توانا شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ خصوصاً بیسویں صدی کی شاعرات اپنے احساسات، تجربات اور مشاہدات کو لفظوں کا جامہ پہنا رہی ہیں اور رفتہ رفتہ اپنی شناخت کی تلاش میں کوشاں ہیں اور خود کو مرد سے الگ ایک اکائی یا وحدت کے روپ میں دیکھنے لگیں ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ فکشن اور شاعری کے نگارخانہ میں اپنی ذات اور وجدان کے حوالے سے اپنی پہچان بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔

***

Leave a Reply