You are currently viewing اردو ادب کی نامور ڈراما نگار خواتین

اردو ادب کی نامور ڈراما نگار خواتین

ثنا راعین (ثنا بانو محمد خضر)

ریسرچ اسکالر

آرٹی ایم ، ناگپور یونیورسٹی، ناگپور

اردو ادب کی نامور ڈراما نگار خواتین

ادب کے تمام اصناف میں جہاں مرد ادبا نے اپنی خدمات سے اہل علم و ادب کو سیراب کیا وہیں مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی کھڑی نظر آئیں۔ انھوں نے سماج و معاشرہ کا ہر طرح سے مشاہدہ کیا اور اصناف ادب کے ذریعہ ان مشاہدات سے اہل فن کو روشناس کراتی رہیں۔ خواتین اہل قلم نے اردو کی تمام اصناف سخن میں خاطرخواہ طبع آزمائی کی اور اس میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ جن میں حجاب علی امتیاز، نذر سجاد، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، رشید جہاں، ساجدہ زیدی،صالحہ عابد حسین، زاہدی زیدی، قدسیہ زیدی، پروین شاکر، جیلانی بانو، عطیہ پروین، ہاجرہ شکور، بانو سرتاج، امر تاپریتم، مسرور جہاں، صغریٰ مہدی، زہرہ نگار،انجم رہبر، واجدہ تبسم، رضیہ سجاد ظہیر، ڈاکٹررفیعہ شیخ عابدی، شکیلہ اختر ، مسعودہ حیات، جمیلہ بانو، نسیم مخموری،ملکہ نسیم، ڈاکٹر نسیم نکہت وغیرہ ممتاز نظر آتی ہیں۔ ان چند ناموں کے علاوہ بھی خواتین کی ایک کثیر تعداد موجود ہیں جنھوں نے اردو ادب میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔

خواتین نے اردو کی تمام اصناف سخن کے ساتھ ساتھ ڈراما نگاری میں بھی خاطر خواہ طبع آزمائی کی۔ جن خواتین نے اردو ڈراما نگاری کے میدان میں اہم کارنامے انجام دئے ان میں رشید جہاں، حجاب امتیاز علی، صالحہ عابد حسین، قدسیہ زیدی، عصمت چغتائی، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، آمنہ نازلی، جیلانی بانو، بلقیس ظفیر الحسن کا نام قابل ذکر ہیں۔ خواتین ڈرامہ نگاروںکے ڈراموں کا موضوع زیادہ تر خواتین کے ہی مسائل پرمبنی رہا ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اپنے مضمون ’’اردو ادب میں ڈراما نگارخواتین‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’اْردو ادب میں جس طرح خواتین افسانہ نگاروں، ناول نگاروں اور شاعرات نے اپنی مخصوص فکر ، جذبات اور احساسات کا اظہار منفردزبان اور اسلوب میں کیا اسی طرح ڈراما نگاری کے ضمن میں بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اردو میں خواتین ڈراما نگاروں کی ڈراما نگاری کا آغاز ڈاکٹر رشید جہاں سے ہوتا ہے۔ وہ دور اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا۔ زندگی کے ان موضوعات پر کھل کر گفتگو کی گئی جو اس سے پہلے نا گفتہ بہ تھے۔ خاص طور پر خواتین کے مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھا اور پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر رشید جہاں ،عصمت چغتائی ، آمنہ نازلی ، صدیقہ بیگم سیو ہاروی، صالحہ عابد حسین وغیرہ نے دیگر اصناف کے علاوہ فن ڈراما میں بھی کمال دکھایا۔ خاص طور پر رشید جہاں اور عصمت چغتائی نے اپنے اسلوب اور زبان کی ندرت سے خاص انفرادیت پیدا کی۔‘‘۱؎

اردو ادب میں خواتین نے جو ڈرامے رقم کئے وہ نہ صرف قارئین کے مابین بڑی حد تک مقبول ہوئے بلکہ ان ڈراموں کو اسٹیج پر پیش بھی کیا گیا۔ قدسیہ زیدی، صالحہ عابد حسین، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی وغیرہ نے ڈراموں کے لیے اسٹیج کی راہیں ہموار کیں اور اس صنف میں خاطر خواہ تجربے بھی کئے۔ ان تمام ڈراما نگاروں نے اسٹیج کی قدیم روایت میں رد و بدل کے لیے مشورے بھی دیئے۔

رشید جہاں کو اردو ادب میں ہر طرح سے اولیت حاصل ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے زریں دور میں نہ صرف ادب کے نوک پلک سنوارنے کا کام کیا بلکہ انھوںنے نئے تجربے سے بھی اردو ادب کو بہرہ مند کیا۔ڈاکٹر رشید جہاں کمیونسٹ پارٹی کی ایک اہم رکن رہی تھیں۔ انھوں نے خواتین کے حقوق بالخصوص تعلیم نسواں کے سلسلہ میں فعالیت کا مظاہرہ کیا۔رشید جہاںنے اپنی تحریروں میں استبدادی نظام کے خلاف آواز بلند کی۔ انھوں نے جن کرداروں کو ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا وہ مرد سماج نہیں ہے بلکہ انھوں نے عورتوں کے کرداروں کے ذریعہ ہی ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ:

’’ مرحومہ نے تعلیم نسواں کے لیے کا لج میں جس خلوص اورا یثار سے کام کیا وہ نہایت قابل قدر ہے۔اس خدمت کو مسلمان خصوصاً خواتین کبھی نہیں بھول سکتیں۔ ان کی زندگی ہماری لڑکیوں اور عورتوں کے لیے قابل تقلید ہے۔‘‘۲؎

ڈاکٹر رشید جہاں نے اپنے افسانے اور ڈرامے میں خواتین کے مسائل اور تعلیم نسواں اور تہذیب نسواں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ سجاد ظہیر کی ایما پر رشید جہاں نے ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ انگارے میں ان کا  ایک افسانہ ’دہلی کی سیر‘‘ اور ایک ڈرامہ ’’پردے کے پیچھے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ان کی دونوں تحریروں نے ادبی حلقوں میں سوچ و فکر کی نئی راہیں ہموار کیں۔ رشید جہاں کی ڈرامہ نگاری پر قمر رئیس لکھتے ہیں کہ:

’’افسانے کے علاوہ رشید جہاں نے اردو ڈراما نگاری کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی انھیں ابتدا سے احساس تھا کہ زندگی کو بدلنے اور اس کے مسائل کے حل کی طرف عوام کی توجہ مبذول کرانے میں ڈرامہ کاایک اہم رول ادا کر سکتا ہے۔‘‘۳؎

رشید جہاں بنیادی طور پر پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھیں اس وجہ سے بھی انھیں خواتین کے معاملات سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جس کا انھوں نے اپنی کہانیوں میں بھر پور فائدہ اٹھا یا ہے اور خواتین کے مسائل کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں اور ڈرامے میں شدت پسند معاشرہ پر ایک چوٹ بھی کیا ہے جس میں عورتوں کو ہمیشہ دبا کر رکھا جاتا ہے۔ دین و ایمان کے نام پر خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ رشیدجہاں نے معمولی کرداروںکے ذریعہ بھی اہم مسائل کو بیان کرکے یہ بتایا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے مسائل کے بیان کے لیے بڑے کردار کا ہونا ضروری ہے۔ وہ عورت اورمرد کے درمیان مساویانہ رویہ کی علمبردار تھیں جس کا نمونہ ان کی تحریروں میں جابجا طور پر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ڈاکٹرنزہت عباسی اپنے مضمون’’اردو ادب کی ڈراما نگار خواتین‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’رشید جہاں ہندوستانی سماج میں انقلاب کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان کے ڈراموں میں ان کی اسی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ وطن پرستی عوام دوستی اور دردمندی کے احساسات نظر آتے ہیں۔ ان کے مشاہدے کی وسعت اور اظہار و بیان کی فطری بے ساختگی نے ان سے بے حد خوبصورت اور کچے مکالمے لکھوائے خاص طور پر عورت کے مسائل، اور ان کے احساسات و جذبات کا نسائی لہجے میں اظہار ملتا ہے۔ ہر جگہ ایک ترقی پسندانہ شعور واضح دکھائی دیتا ہے۔ ڈراموں کے مکالموں میں نسائیت کا احساس سماجی معنویت سے بھر پور ہوتا ہے۔ زندگی کی سچائیوں کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ مکالموں کی مدد سے عورتوں کی سوچ کو ایک کشمکش کا تاثر دینا خوب جانتی ہیں۔ پڑھنے والے کی توجہ پوری طرح مبذول کیے رکھتی ہیں۔ یہ کشمکش پڑھنے والے کے ذہن کو اجتماعی اور تہذیبی زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ اور اس کے اچھے برے پہلوؤں کو جو خاص طور پر عورتوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں حقیقی انداز سے پیش کرتی ہیں۔ رشید جہاں کے ڈراموں میں نسائی کردار اور لہجے کی مصورانہ پیش کش موجود ہے۔ زندہ اور تیز فقرے اشاروں اور کنائیوں کی مدد سے پوری صورتحال کو واضح کر دیتے ہیں۔‘‘۴؎

رشید جہاں نے ’’ پردے کے پیچھے‘‘، ’’عو رت ‘‘ ’’بچوں کا خون‘‘، ’’نفرت‘‘، ’’پڑوسی‘‘، ’’گوشئہ عافیت‘‘، ’’ہندوستانی‘‘، ’’کانٹے والا‘‘، ’’مرد عورت‘‘ جیسے بہترین ڈرامہ تحریر کیے ہیں ۔ رشید جہاں کی تحریروں میں ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے نسوانی کرداروں کی اکثرت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رشید جہاں اس وقت کی فرسودہ رسموں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے جھنجھلاہٹ کا شکار تھی جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے کردار اسی کھو کھلے سماج سے مستعار لیا ہے بھارتی، صدیقہ بیگم، چنیا، محمدی بیگم کی زبانی وہ سب کہلوایا جو اس وقت نا کوئی سننا چاہتا تھا اور نا ہی کہنا چاہتا تھا۔ رشید جہاں نے اس وقت جس ہمت سے ڈٹ کر مخالفت کا سامنا کیا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ وہ پریم چند سے کافی متاثر تھیں۔ پریم چند کے نسوانی کردار ایثار و فا کی پیکر ہے اس کے بر عکس رشید جہاں نے اپنے نسوانی کرداروں کو اپنے حق کے لیے بو لنا سکھایا مرد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جینا سکھایا۔الغرض اردو میں بہت سی خواتین تخلیق کار ایسی ہوئیں جنھوں نے براہ راست نہ صرف رشید جہاں کی تحریروں سے استفادہ کیا بلکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادب میں منفرد مقام حاصل کیا۔

صالحہ عابد حسین اردو کے ان معدودے چند قلمکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو کے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ یہاں ایسا بھی نہیں تھا کہ بس لکھنا ہی لکھنا تھا چاہے جیسا بھی ہو۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا کمال سے کمال تک کے حد کے لیے لکھا۔ صالحہ عابد حسین نے سوانح، ناول، ڈرامے اور ادب اطفال کے میدان میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ صالحہ عابد حسین خود کہتی ہیں کہ: ’’لکھنا میری زندگی کی سب سے بڑی مسرت بھی ہے اور مقصد بھی۔‘‘ جب فنکار کے پاس صرف نام و نمود حاصل کرنے کا مقصد نہ ہو تو وہ جو بھی خدمات انجام دیتا ہے اس میں تصنع جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لہٰذا صالحہ عابد حسین نے لکھنے کے فن کو ہی مسرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا اور مقصد بھی۔ اس مقصد میں وہ بلا تامل عدیم المثال حد تک کامیاب رہیں۔ صالحہ عابد حسین نے اپنے افسانوی ادب میں ہندوستانی معاشرہ کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ وہ ادب میں کسی خاص رنگ و نسل اور مذہب کی قائل ہرگز نہ تھی جو ان کی تحریروں میں جابجا طور پر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔

صالحہ عابد حسین نے آٹھ  ناول لکھے، جن میں عذرا (1941ء)، آتش خاموش (1953ء)، راہ عمل (1963ء)، قطرہ سے گہر ہونے تک (1957ء)، یادوں کے چراغ (1966ء)، اپنی اپنی صلیب (1972ء)، الجھی ڈور (1972ء)، گوری سوئے سیج پر (1978ء) اور ساتواں آنگن (1984ء) شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعوں میں نراس میں آس (1968ء)، درد و درماں (1977ء )، تین چہرے تین آوازیں (1986ء)، ساز ہستی، نونگے (1959ء)، ڈراموں کے مجموعوں میں ساز ہستی (1940ء، عفت (1946ء)، زندگی کے کھیل (1963ء) شامل ہیں۔ نقشِ اول (1939ء) کے نام سے کہانیوں اور ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ صالحہ عابد حسین نے انیس کے مرثیے (جلد اول 1977ء، جلد سوم 1980ء) دو جلدوں میں مرتب کیے۔ ان کے علاوہ سلک گوہر مذہبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بھی کئی کتابیں لکھیں، جن میں حالی (1983ء)، بڑا مزا اس ملاپ میں ہے، امتحان (1952ء)، بنیادی حق (ڈرامے) وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ ان کے کیے گئے تراجم میں کثرت میں وحدت (از گاندھی)، باپو (بچوں کے لیے، 1968ء)، مجمدار: بڑا پاپی (بچوں کے لیے، 1971ء ) شامل ہیں۔ رہِ نوردِ شوق (1979ء، ناشر: لبرٹی آرٹ پریس دہلی) اور سفر زندگی کے لیے سوز و ساز (1982ء) بھی تحریر کیا۔ سلسلہ روز و شب کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی جسے اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق’’ نقش اول‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’نقش اول میںان قصوں کا تعلق زیادہ تر ہماری تہذیب و معاشرت گھر یلوزندگی سے ہے انسان کی زندگی ایسے بہت سے حالات سے بھری پڑی ہے جن میں قصوںاور افسانوں کے لئے کافی سامان موجود ہیں۔نظر اور تخیل شرط ہے اور اس کے ساتھ بیان کا سلیقہ بیگم عابد حسین میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ بعض قصے بہت پردرد بھی ہیں اور بعض قصوں کی زبان اور بیان سادہ اور دل کش ہے۔کہیں کہیں ظرافت کی چاشنی بھی ہے۔ بعض قصے بہت پرلطف ہیں جیسے ’’آنکھ کا ڈاکٹر‘‘ اور ’’شادی‘‘ وغیرہ اور بعض جگہ ہماری پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکّر بھی ہو جاتی ہے اور ان کا تقابل بڑا لطف دیتا ہے۔ـ‘‘ ۵؎

صالحہ عابد حسین نے اپنے ڈراموں میں اپنی مہارت اور دانشوری سے کرداروں کو ان کی فطری تقاضوں کے ساتھ پیش کیا ہے اور گو وہ کسی وقت بھی اس سے غافل نہیں رہی ہیں کہ اپنے بنیادی مقصد میں ان سے کام لینا ہے لیکن انھوں نے ہر کردار کو اس کا موقع دیا ہے کہ وہ اپنی انفرادی افتاد طبع کے ساتھ کہانی کے پیچ در پیچ عمل میں داخل ہو۔ صالحہ عابد حسین کے اسٹیج ڈراموں کے قصوں کا مواد اور ان کے کرداروں کی سیرتیں ہماری سیرتوں سے اس حد تک مشابہ ہیں کہ ہم ان میں اپنے اردگرد کے لوگوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔ ایک کامیاب ڈراما نگار کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان کے ڈراموں کے کرداروں میں جمود نہیں بلکہ ارتقاء ہو اور صالحہ عابد حسین کے ڈراموں کے کرداروں میں زندگی کی حرارت اور گرمی ہے۔ بقول احتشام حسین:

 ’’ صالحہ بیگم کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے مکاملوں کی برجستگی اور طرز ادا کی خوبی نے ان کو واعظ اور ناصح ہونے سے بچالیا اور ان کو موجود ہ اردو ادب کی ایک نامور شہزادہ بنا دیا۔‘‘۶؎

 صالحہ عابد حسین نے مکالمے، اشخاص قصہ کے مرتبے اور عمر کے لحاظ سے لکھے ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کے بیان میں مزید دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔صالحہ عابد حسین ایک بلند ہمت عالی ظرف ہمدرد خاتون تھیںاور وہ اپنے ڈراموں میں بھی ایسے ہی نسوانی کردار تخلیق کرتی ہیں جوبلند ہمتی،عالی ظرف،ایثارمادر وطن،علم دوستی کا درس دیتے نظر آتی ہیں۔ ’’نقش اول ‘‘میں شامل ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ سے صالحہ عابد حسین نے کچھ اور ڈرامے لکھے ا سے ڈراموں کے مجموعہ ’’ زندگی کے کھیل‘‘ کے نام سے۱۹۴۱ء میںشائع کرایا۔ اس میں ان کے چھ ڈرامے الٹا منتر،شادی،رشتہ، امتحان،انشاء، اش لیبے دش، آنکھ کا ڈاکٹر وغیرو شامل ہیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ صالحہ عابد حسین کے ناولوں اور افسانوں کی طرح ان کے ڈراموں اور خاص طور سے اسٹیج ڈراموں میںمتوسط طبقے کے گھریلو معاشرت اور زندگی کے المیہ، کئی کئی شوخیاں جو زندگی کا ہی حصہ ہے ان کو پیش کرنے میں امتیاز رکھتی ہے۔ان کے ڈراموں کے مو ضوعات بھی گنے چنے ہی ہوا کرتے ہیں۔ان کے ڈراموں میں گھریلو زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال ،سماجی ماحول،طبقاتی نظام اور سماج کے تضادپر بھی صالحہ عابد حسین بحث کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے اسٹیج ڈراموں میں کرداروں کے ظاہری خوبی کی بجائے باطنی خوبیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ انسانی صورت کے بجائے سیرت کو ترجیح دیتی ہیں اور اخلاقیات کو ہی سہی اور غلط کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔

اردو ادب میں بطور خاص ادب اطفال میں قدسیہ زیدی نے ناقابل فراموش حد تک اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں بہت سی تحریروں کا اردو میں ترجمہ کیا اور بعض انگریزی و دیگر زبانوں کے ڈراموں کو اردو میں منتقل کرکے اس کو اسٹیج بھی کروایا۔ ان کا ماننا تھا کہ ادب کا فروغ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک نئی نسل کو بیدار نہ کیا جائے اور ان کے لیے ادب میں دلچسپی نہ پیدا کی جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اس سمت میں منہمک رکھا اور ادب اطفال کے لیے عدیم المثال تحریریں و تراجم رقم کیے۔ بقول مالک رام :

’’قدسیہ بیگم نے محسوس کیا کہ ہمارے ہاں نہ ایسے موزوں ڈرامے ہیں جنھیں عوام کی تفریح کیلئے پیش کیا جا سکے نہ عوامی ٹھیٹر کا کوئی ایسا تصور ہے جس سے ظاہر ہو سکے کہ عام آدمی کیا چاہتا ہے اور اسے کس طرح کی دل لگی کا سامان پسند ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ٹھیک ڈراموں کا انتخاب نہ ہو۔ جن کی زبان روز مرہ کی قریب اور سامع کے فہم اور مذاق کے مطابق ہو اور پھر ان ڈراموں کو کھیلا ایسے طریقے پر جائے کہ وہ ہمارے معاشرہ سادہ اور بے تکلف فضا کی عکاسی کر سکے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے یہاں ناپید تھی۔ نہ مناسب ڈرامے موجود تھے نہ مناسب ٹھیٹر۔‘‘۷؎

یقینا قدسیہ زیدی نے بے مثال حد تک اردو میں ڈرامہ کے لیے راہیں ہموار کیں اور ناظرین کی توجہ اسٹیج کی جانب مبذول کرانے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ انھوں نے کالیداس کی ’شکنتلا‘ جیسی عالمی شہرت یافتہ تصنیف کو اردو میں ڈرامہ کا جامہ پہنایا۔ قدسیہ زیدی نے امتیاز علی تاج کے کئی مزاحیہ کہانیوں کو ڈراموں کے پیراہن سے آراستہ کیا اور اسٹیج کے زیور میں رچا بسا کر نونہالوں کے لیے پیش کیا۔ انھوں نے ڈرامے کے فروغ کے لیے بہت ساری قربانیاں بھی دیں۔ آل احمد سرور کے مطابق:

’’ ہندوستانی ٹھیٹر کے ذریعے سے وہ (قدسیہ زیدی) ہندوستانی ڈراما کے معیار کو بلند کرنا چاہتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ہندستان میں مغرب کے تجربوں کی اندھی تقلید مضر ہوگی بلکہ ہمیں ڈراما کے لیے ایسے فارم کو اپنانا ہو گا جس کی روح ہندستانی ہو اور جس میں ہماری روایات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہو۔ اس غرض سے انھوں نے سنسکرت کے شاہکاروں کے ترجمے کی طرف توجہ کی۔ ہندستانی تھٹیر کا مقصد ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تربیت تھی جو محض تفریحی کام نہ کریں بلکہ ایک طرف ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہوں اور دوسری طرف اس فن کے لیے اپنا سارا وقت دے سکیں۔ ہر بڑے کام میں بنیادی منزلیں نہایت صبر آزما ہوتی ہیں۔ انھوں نے جس تن دہی ، انہماک، جوش اور جذ بے سے کچھ نہیں سے بہت کچھ تک کے مرحلے طے کیے۔ اس کا پورا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے کسی قومی کام کے لیے نہ صرف اپنے آپ کو وقف کر دیا ہو۔‘‘۸؎

قدسیہ زیدی ان چند بے مثال خواتین میں سے ہیں جن کی ادبی خدمات کو اردو ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ قدسیہ زیدی۲۳دسمبر۱۹۱۴ء کو دلی میں پیدا ہوئیں، جہاں ان دنوں ان کے والد عبداللہ صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ ان کا اصلی نام ’’امتہ القدوس ‘‘تھا۔ جب یہ کالج میں پہنچیں تو نام کی طوالت کے باعث اسا تذہ اور طلبا سب انھیں سہولت کی وجہ سے ـ’’امتل ‘‘ کہہ کر پکارنے لگے، لہٰذا انھوں نے اپنا نام بدل کر قدسیہ کر لیا۔ قدسیہ دو ڈھائی سال کی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آٹھ نو برس بعد خان بہادر عبداللہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے بعد قدسیہ اپنی بڑی بہن زبیدہ اور ان کے شوہر احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری کے ساتھ رہنے لگیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ وہ خواتین کے کینیڈ کالج کی طالبہ تھیں، جہاں سے انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ قدسیہ کو کتابوں اورتعلیم سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ وہ تھرڈ ڈویزن میں پاس ہونے پر بھی فخر کا اظہار کرتی تھیں اور وہ قہقہے لگا کر سنایا کرتیں کہ ہم نے کبھی امتحان تھرڈ کلاس سے زیادہ نمبروں میں پاس ہی کر کے نہ دیا۔عصمت چغتائی ایک جگہ قدسیہ زیدی سے متعلق لکھتی ہیں:

’’ مجھے چہرہ دیکھ کر انسان کو جاننے میں بڑا لطف آتا ہے۔ قدسیہ کو دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے پل صراط یاد آجاتا تھا، بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ دھار دار۔ سوائے سچائی کے کچھ نہ گزر پائے۔ ‘‘ ۹؎

قدسیہ زیدی اپنی ذہانت کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ قدسیہ زیدی نے البسن اوربرنارڈشا کے ڈراموں کے تر جمے کا از سرنو آغاز کیا۔ان انگریزی ڈراموں سے اردو میں بیش بہا اضا فہ ہوا ۔ان کا رجحان پھر سنسکرت کی طرف ہوا انھوں نے سنسکرت کے ڈراموں کو بھی اردو اور ہندی میں ترجمے کیے۔تاہم انھوں نے خود طبع زاد ڈرامے نہیں لکھے لیکن وہ اس کے باوجود ڈراموں کے اجزائے ترکیبی، ڈراموں کے نازک لمحات ، مکالموں کے درمیان پیچ و خم سے بخوبی واقف تھیں۔ اردو میں ڈراموں کا شعور کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے غیر زبانوں کے اردو تر جمے کرنے کی ضرورت محسوس کیں۔ اطہر پر و یز لکھتے ہیں:

 ’’بہتوں کو کہتے سنا ہے کہ کام عبادت ہے۔لیکن قدسیہ آپا کو سچ مچ عبادت کرتے دیکھا ہے۔وہ بڑے خشوع و خضوع سے عبادت کرتی تھیں۔ ان کی فطری سادگی اور شخصی پا کیزگی ، تقدس پیدا کر دیتی تھیںـ۔ وہ محض کسی کام کواپنے ذمے لیتی تھیں، انھیں تو دھن سوار ہو جاتی تھی۔ پھر وہ نہ دن دیکھتی تھیں نہ رات۔ سردی دیکھتی تھیں نہ گرمی۔ وہ تو کام میں لگ جاتی تھیں۔ ہر چیز سے بے خبر۔ اور جب تک اسے ختم نہ کرلیتی تھیں، چین سے نہ بیٹھتی تھیں۔‘‘۱۰؎

بہر حال ڈرامہ نگاری کے باب میں قدسیہ زیدی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے اردو ادب کی جس طرح بے لوث ہوکر خدمت کی ہے اس کی نظیر بہت کم ہی سامنے آتی ہے۔

عصمت چغتائی اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ عصمت کو اردو ادب میں ان کی بے باکی اور سماج کے ناسور پر نشتر چلانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے ادب کے ذریعہ سماج کے لیے وہ کارنامہ انجام دیا جو ڈاکٹر مریض کے کسی زخم خوردہ اعضا کے ساتھ کرتا ہے۔ عصمت نے بلا تامل سماج کے زخم خوردہ اعضا پر جراحی کی جس کے لیے انھیں سماجی و مذہبی اور مہذب طبقہ کے لبادہ میں ملبوس ٹھیکہ داروں کی جانب سے لعن طعن کا سامنا بھی کرنا پڑا اور فحش نگار ہونے کے الزامات سے بھی دو چار ہونا پڑا۔ عصمت چغتائی نے اردو فکشن میں بڑا نام پیدا کیا۔ اپنی تحریروں کا بہترین موضوع مسلمان گھرانوں کے متوسط طبقہ کو بنایا اور بغیر کسی نتیجہ کے پروا کئے جراحت شروع کردی۔  بقول پروفیسرصغیر افراہیم: ’’عصمت چغتائی اردو افسانہ نگاری میں جو طرِز تحریر اور موضوعات و مسائل لے کر آئیں وہ ایک نئے عنوان کی چیز تھی۔ عورت کی زندگی اور اس کے جنسی مسائل کو یوں تو پہلے بھی بہت سے افسانہ نگاروں نے برتا تھا لیکن ان افسانوں اور عصمت کے افسانوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عصمت نے ان مسائل کو عورت ہی کے نگاہ سے دیکھا ہے۔‘‘

عصمت کی اس بے باکی اور جراحت کے تعلق سے آج بھی لوگ دو جماعتوں میں منقسم ہیں۔ ایک جماعت وہ ہے جو ہر حالت میں عصمت کی پزیرائی کرتے ہوئے ان کی خدمات کا معترف ہے۔ دوسری جماعت وہ ہے جو ان پر لعن طعن کرنے اور ان کو ہر دم الزامات کے زیور سے آراستہ کرتی نظر آتی ہے۔ راقم السطور کا بھی تعلق ان دو جماعتوں میں سے پہلی جماعت میں سے ہے، جو عصمت کے مداحوں اور معترفین میں سے ہیں۔ آل احمد سرور عصمت کے متعلق لکھتے ہیں:

’’عصمت نے ہندوستان کے متوسط طبقے اور مسلمانوں کے شریف خاندانوں کی بھول بھلیاں کو جس جرأت اور بے باکی سے بے نقاب کیا ہے ان میں کوئی ان کا شریک نہیں، وہ ایک باغی ذہن ، ایک شوخ عورت کی طاقت لسانی، ایک فنکار کی بے لاگ اور بے رحم نظر رکھتی ہیں۔۔۔۔۔ان کے یہاں، ڈرامائی کیفیت، قصہ پن، کردار نگاری، مکالموں کی نفاست اور خوبصورتی نمایاں ہیں مگر انھوں نے جو گھریلو محاورہ ، جاندارر چی ہوئی زبان استعمال کی ہے۔ اس کی جدید افسانوی ادب میں کوئی اور نظیر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ عصمت کے اسلوب میں ایک ایسا زور اور جوش ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ ان کی جگہ ہمارے افسانوی ادب میں محفوظ ہے۔‘‘۱۱؎

عصمت نے اپنی تخلیقات کا عنوان خواتین اور ان کے مسائل کو بنایا۔ جس میں وہ ید طولی رکھتی تھیں۔ انھوں نے خواتین کو درپیش مسائل کو جس خوبی کے ساتھ کرداروں کے ذریعہ برتا ہے وہ آج تک کسی دوسرے تخلیق کار کے بس کی بات ثابت نہیں ہوسکی ہے۔  حامد رضا صدیقی لکھتے ہیں:

’’عصمت چغتائی نے بطور خاص مسائل نسواں، آزادی نسواں حقوق نسواں اور ان کے مختلف مسائل اور خواہشات کا بیان کثرت سے کیا ہے۔ عورت ان کے تمام موضوعات کا مرکزو محور ہے۔ خود عصمت نے اس کا اظہار بارہا کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں کہتی ہیں: میں نے زیادہ تر عورتوں کے مسائل پر لکھا ہے۔ عورتیں جو چھابڑی لگاتی ہیں، پیشہ کرتی ہیں فلم ایکٹرس جب ہم فلم بناتے تھے تو ان میں کام کرنے کے لیے فلم ایکٹرس آتی تھیں، مجھے ان سے ان گنت کہانیاں ملیں۔‘‘۱۲؎

 ترقی پسند ادیبوں میں عصمت چغتائی کی حیثیت نہ صرف موضوع اور بیانیہ کی جدت کے اعتبار سے مضبوط ہے بلکہ دیگر فکشن نگاروں سے وہ قدرے مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ان کو بیانیہ پر جو قدرت حاصل ہے اس سبب زبان و بیان پر مکمل دسترس کا بڑا دخل رہا ہے۔ عصمت چغتائی کے نثر پارے اپنے اندر بے ساختی اور برجستگی کو سموئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے موضوع اور کردار کا انتخاب اپنے ارد گرد کے ماحول سے کیا ہے جس میں انھوں نے بصیرت کے بھر پور جوہر دکھائے ہیں۔ڈاکٹر نزہت عباسی عصمت چغتائی کے مختلف ڈراموں کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’ڈراما شیطان مختلف کرداروں کے باہمی تضادات اور کشمکش کو سامنے لاتا ہے۔ خواہ مخواہ میں زندگی ایک عام انداز کی تصویر کشی ہے۔ تصویریں انسانی نفسیات کو سامنے رکھ کر تحریر کیا گیا جس میں سعیدہ کے کردار کی ذہنی و نفسیاتی گرہوں کو عصمت چغتائی نے کامیابی سے پیش کیا ہے۔ دلہن کیسی ہے اور شاعت اعمال‘ ان کے مزاحیہ ڈرامے ہیں جن میں معاشرے کے کرداروں کی نفسیاتی عدم مطابقت کا ذکر ہے۔ دھانی با نکپن عصمت چغتائی کا مشہور ڈراما ہے۔ جس میں آزادی سے کچھ عرصے قبل ہونے والی سیاست اور ہندو مسلم فسادات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ فسادات اور آزادی کے بارے میں عصمت کا نقطہ نظر ترقی پسندی کے مخصوص نظریے کا عکاس ہے۔ انتخاب، سانپ ، بنے، اور ڈھیٹ میں انھوں نے جدید ہندوستانی ماڈرن لڑکیوں کی نفسیاتی نشو نما پر مختلف انداز سے نظر ڈالی ہے۔ ان کی فطرت کے ان گوشوں کو بے نقاب کیا ہے جو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔‘‘۱۳؎

یقینا عصمت چغتائی نے جس بے باکی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر دور دور تک ہمیں نظر نہیں آتی ۔ عصمت اپنے اسلوب اور بیان کے لیے خود اول تھیں اور خود ہی آخر۔عصمت چغتائی کو گرچہ فکشن میں ید طولی حاصل ہے لیکن انھوں نے ڈراما نگاری کے میدان میں خاصہ طبع آزمائی کی۔ انھوں نے ڈراما نگاری کے میدان میں جارج برنارڈ شا کو اپنا آئیڈیل بنایا اوران سے متاثر ہوکر ڈراما نگاری کا آغاز کیا۔عصمت کے ڈراموں میں بھی افسانوی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں اور ڈراموں میں جو بات عام ہے وہ دونوںہی اصناف میں موضوع کی یکسانیت، جن موضوعات کو انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں اختیار کیا، ڈراموں میں بھی وہ انھیں موضوعات کے قریب تر رہیں۔ محققین و ناقدین موضوع کی ہی یکسانیت کی بنا پر ڈرامہ نگار کے طور پر عصمت کو تسلیم کرنے سے شاید قاصر ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی عصمت چغتائی کے ڈراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے لکھتی ہیں:

’’عصمت اپنی ہی صنف کی اچھائیوں اور برائیوں کو حقیقت پسندی سے سامنے لاتی ہیں اس وقت کے حالات اور معاشرتی تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر ان کا تجزیہ کرتی ہیں۔ اس میں سارا کمال ان کی قوت مشاہدہ اور طرز بیان کا ہے۔ ان کے فن کی سب سے بڑی خوبی جرأتِ اظہار ہے۔ ڈراما ’’بنے‘‘ بچپن کی معصوم محبت کی کہانی ہے جو جوانی میں انسیت میں بدل جاتی ہے۔ ’’ انتخاب‘‘ ایک نفسیاتی ڈراما ہے جس میں ایک بیوہ کے لاشعور کی گتھی کو واضح کیا گیا ہے، ڈراما ’’سانپ‘‘ میں ایک نئے خیالات رکھنے والی بے باک لڑکی رفیعہ کا کردار ہے جو پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے معاشرتی پابندیوں اور خاندانی بندشوں کو نا پسند کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا شریک حیات ذہنی طور پر اس کے برابر ہو۔ وہ اپنے منگیتر غفار کو اسی لیے پسند نہیں کرتی کہ وہ ذہنی اور تعلیمی لحاظ سے اس سے کمتر ہے۔ عصمت کی آزاد خیال اور نئے زمانے کی لہر رفیعہ کے کردار میں بے با کی بھر دیتی ہے۔ عصمت کہیں کہیں طنز و مزاح سے بھی کام لیتی ہیں۔ ان کے مکالموں میں برجستگی ، چستی ایجاز واختصار، برمحل روزمرہ کا استعمال جان بھر دیتا ہے۔ ان مکالموں میں عصمت الفاظ کا انتخاب بھی اس طرح کرتی ہیں کہ ماحول کی بدلتی ہوئی کیفیات سامنے آجاتی ہیں۔‘‘۱۴؎

بہر حال عصمت چغتائی نے ڈراما نگاری کے میدان میںبلا کسی توقع اور پذیرائی کے متعدد ڈرامے صفحہ قرطاس کئے۔ عصمت کے بیشتر ڈرامے ان کے افسانوی مجموعے میں ہی شائع ہوئے۔ جیسے ’’عورت اور مرد ‘ ‘افسانوی مجموعہ’’ چوٹیں‘‘ میںشائع ہوا۔ جبکہ افسانوی مجموعہ’’کلیاں‘‘ میں ان کے تین ڈرامے بعنوان’’ انتخاب‘‘،’’سانپ‘‘ اور ’’فسادی‘‘ شامل ہیں۔علاوہ ازیں ڈراموں کے انتخاب پر ایک افسانوی مجموعہ بھی ’’شیطان ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں شامل ڈراموں کا نام ’’شیطان‘‘، ’’خواہ مخواہ‘‘، ’’ تصویریں‘‘، ’’دلہن کیسی ہے؟‘‘، ’’ شامت اعمال ‘‘، ’’دھانی بانکپن‘‘ ہے۔

ناول اور افسانہ نگاری کے طرز پر بھی عصمت چغتائی نے ڈراما میں بھی حقیقت نگاری پر زور دیاہے۔ انھوں نے رشید جہاں کے ذریعہ قائم کردہ اصولوں پر نہ صرف خود کو ثابت قدم رکھا بلکہ وہ ان اصولوں کی امین بھی رہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار اور موضوعات ہمارے گرد و پیش کے ہیں جن سے ہم بجا طور پر واقف ہیں اور روزانہ خود بھی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

ساجدہ زیدی اردو ادب میں کئی معنوں میں خواتین قلمکاروںمیں اہم مقام پر فائز ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب سے بھر پور طور پر استفادہ کرتے ہوئے اردو کے دامن میں اضافہ کرنے کا کام کیا ہے۔ انھوں نے اردو میں شاعری بھی کی اور ڈرامے بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تنقیدی مضامین لکھ کر بھی ادب کے تعلق سے اپنے نظریہ کا برملا اظہار کیا۔ ساجدی زیدی کی ادبی خدمات میں جوئے نغمہ (شاعری ) 1952، آتش سیال (شاعری) 1972، سیل وجود ( شاعری ) 1980، آتشِ زیرِ پا ( شاعری) 1995، پردہ ہے ساز کا (شاعری ) 1995، موج ہوا پیچاں ( ناول)1994، مٹی کے حرم (ناول)2000، تلاشِ بصیرت ( تنقیدی مضامین )1993، گزرگاہ خیال (تنقیدی مضامین ) 2007، سرحد کوئی نہیں (ڈرامے)2007، چاروں موسم (ترجمہ و ماخوذ ) 1992، شخصیت کے نظریات – 1984، انسانی شخصیت کے اسرار و رموزوغیرہ قابل ذکر ہیں۔

شعر و ادب سے دلچسپی نے بہت جلد ساجدہ زیدی کو علمی و ادبی دنیا میں متعارف کرانے کا کام کیا۔ انھوں نے ادب سے اس وقت وابستگی اختیار کی جب ترقی پسندتحریک کا ہر سو بول بالا تھا ۔ قلم سنبھالتے ہی وہ عملی طور پر ترقی پسند تحریک کی حمایتی بن کر ابھری۔ یہی سبب ہے کہ لکھنؤ میں حکومت مخالف مظاہرہ کے دوران دیگر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ساتھ انھیں بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ساجدہ زیدی کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ انھیں کیا لکھنا اور کیسے لوگوں کیلئے لکھنا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں مظلوم طبقہ کی داد رسی کی اور ظالم کے خلاف محاذ چھیڑا۔ ساجدہ زیدی کے ڈراموں کا مجموعہ ـ’’سر حد کوئی نہیں‘‘ تین طبع زاد ڈراموں ـ’’سر حد کوئی نہیں‘‘ ، ’’ مجھے ڈرائیونگ سکھا دو‘‘ اور ’’ حسرت تعمیر‘‘ پر مشتمل ہے ۔پہلا ڈرامہ ’’ سر حد کوئی نہیں ‘‘ ایک منظوم شعری ڈراما ہے۔ یہ تینوں ڈرامے ٹیکنیک ،زاویہ نظر، اور انداز پیش کش کے لحاظ سے مختلف تجربات رکھتے ہیںیہ تینوں ڈرامے پس پردہ کار فرما نفسیاتی عوامل اور سماجی منظر نامہ کے لحاظ سے بھی بہت مختلف ہیں۔

ساجدہ زیدی کی پرورش اگرچہ اردو ادب کی آنگن میں ہوئی تھی لیکن وہ انگریزی ادب سے نہ صرف متاثر تھیں بلکہ مغربی ادب کی دلدادہ بھی تھیں۔ انھوں نے انگریزی سمیت دیگر مغربی زبانوں کے ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس کو اردو ادب میں برتنے کی بھی کوشش کی تھی۔ انھوں نے ’سرحد کوئی نہیں‘کے پیش لفظ میں اس بات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اپنے رجحانات کو بھی واضح کیا ہے:

’’میرے شوق مطالعہ میں مغربی ڈرامے کا بہت اہم حصہ رہا ہے، جس میں روسی، انگریزی، آئرش، فرانسیسی، اطالوی، اسپینش، جرمن، یونانی، امریکن وغیرہ کلاسیکی(کسی حد تک) اور جدید (بڑی حد تک) سب ہی شامل ہیں۔ اور اس ضمن میں مغربی ٹھیٹر کی مختلف تحریکوں سے بھی شناسائی رہی ہے۔ ڈراما سے میری اس دیرینہ وابستگی کا تعلق پیشہ وارانہ نہیں بلکہ محض شوقیہ ہے، اور بڑی حد تک مطالعہ پر مبنی ہے، اداکاری وغیرہ پر نہیں۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ان ڈراموں پر براہ راست کسی مخصوص ڈراما نگار یا مخصوص تحریک کا اثر ہے۔ ‘‘ ۱۵؎

میاں بیوی کا رشتہ بہت ہی مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے۔ اس رشتے میں جتنی محبت اور انسیت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ اس رشتے میں ایک دوسرے کی کھینچ تان ہوتی ہے جو رشتے کو مزید خوبصورت اور مضبوط بنانے کا کام بخوبی طور پر انجام دیتا ہے۔ ’سرحد کوئی نہیں‘ مجموعہ میں شامل دوسرا ڈرامہ ’’مجھے ڈرائیونگ سکھا دو‘‘ ہے۔ یہ ڈرامہ میاں بیوی کی تلخ و شیریں نونک جھونک پر مبنی ہے۔ ’مجھے ڈرائیونگ سکھا دو‘کو اگر ہم مزاحیہ ڈرامہ کے زمرہ میں شمار کریں تو بیجا نہ ہوگا۔ ڈرامے کے تمام مکالمے لطیف پیرایہ جاذب اسلوب میں ہے۔ جنھیں پڑھ کر قاری زیر لب مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے مکمل ڈرامہ میں ساجدہ زیدی نے میاں بیوی کے درمیان بحث و تکرار اور آپسی نوک جھونک کو پیش کیا ہے۔

اردو ادب میں جہاں نثر میں اپنی مثال آپ اور شاہکار ڈرامے نثر میں لکھے گئے وہیں نظم میں بھی ڈرامے تخلیق کیے گئے۔ بعض ڈراموں کو عوام میں خوب پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ ساجد زیدی کا ڈرامہ ’’سر حد کوئی نہیں‘‘ ڈراما ’’گوتم ‘‘اور ’’زہرا‘‘ دو کردار اور چار ایکٹ پر مشتمل منظوم ڈرامہ ہے۔ڈرامہ کے دو مرکزی کردار زہرا اور گوتم ہیں۔ ڈرامہ ’’سر حد کوئی نہیں‘‘ ایک منفرد ڈرامہ ہے ۔ اس ڈرامہ کے ذریعہ ساجدہ زیدی نے داخلی اور کیفیات اور جذبات سے پیدا ہونے والے ڈرامے کے مبہم ترین پہلوؤں اور تاریک ترین گوشوں سے پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے ڈرامے کے خارجی حالات و واقعات کو کم نہیں بلکہ اس کوبالکل ہی ختم کردیا ہے۔ ڈرامہ میں ایکشن کی خامی بننے کے بجائے خوبی بن کر ابھری ہے۔ ساجدہ زیدی نے اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ زہرا اورگوتم میرے تخیل میں جیتے جاگتے کرداروں کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ کسی مفرد خیال کی علامتیں نہیں ہیں۔اس ڈرامے  میں ا نھوں نے گوتم  اور زہرا کی  نا ہی پوری زندگی اور نا ان کے سیاسی ،سماجی معاشی وغیرہ حالاتوغیرہ کا احاطہ کیا ہے۔

 زاہدہ زیدی نے اپنے قلمی سفر کا آغاز نظم اور غزلوں سے کیا۔زاہدہ زیدی کے کل پانچ شعری مجموعے ’شعلۂ جاں‘ (۱۹۶۹)، ’زہرِ حیات‘  (۱۹۷۰)، ’دھرتی کا لمس،’سنگ جاں‘(۲۰۰۰) اور’ شام تنہائی‘(۲۰۰۸)ہیں۔ آپ کا ایک شاہکار ناول ’انقلاب کا ایک دن‘ اور ایک تنقیدی مضامین پر مشتمل تصنیف’رموز فکر و فن ‘ بھی موجود ہیں۔ زاہدہ زیدی نے متعددجدیدمغربی ڈراموں کے تر جمہ کیے ہیں۔’ مسدود راہیں‘ پانچ جدید ڈراموں کا مجموعہ اور’کیوں کراس بت سے رکھو ںجان عزیز ‘ وغیرو ڈراموں کا آپ نے اردو میں تر جمہ کیا ہیں۔ زاہدہ زیدی کا دو طبع زاد ڈراموں کے مجموعے ’دوسرا کمرہ‘ اور ’صحرا ئے اعظم‘ بھی ہیں۔انھوں نے انتون چیخوف کے تین شاہکار ڈراموں کا ترجمہ اردو میں ’ انتون چیخوف کے شاہکار ڈرامے ۱۹۹۲‘ کے نام سے کیا۔ اسی طرح بارتول بریخت کی تصنیف ’انصاف کا دائرہ‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ جبکہ دو انگریزی کی دیگرکتابوں کا اردو میں’چیری کا باغ ‘‘ اور’انسان اپنی تلاش‘ کے نام سے ترجمہ کر چکی ہیں۔زاہدہ زیدی کے طبع زاد ڈراموں کا پہلامجموعہ ’’ دوسرا کمرہ‘‘ کے نام سے۱۹۹۰ میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں چار مختصر ڈرامے ـ چٹان، دل نا صبودارم، دوسرا کمرہ، اور صبح کبھی تو آئے گی، یہ چاروں ڈرامے سطور، تناظر، جواز، اور عصری ادب جیسے نامور رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔اور  جنگل جلتا رہا ڈراما غیر مطبوعہ ہے۔زاہدہ زیدی نے یہ پانچوں ڈرامے ۱۹۷۶ اور ۱۹۸۷ کے درمیان تخلیق کیے ہیں۔

 زاہدہ زیدی نے دوران تعلیم ہی ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا اس وقت وہ نئے نئے تجربات سے آشنا ہوئیں تو اردو اور انگریزی کے معیاری ڈراموںکی پیش کش کے علاوہ ان پر اکثر اپنے پسندیدہ ادبی شہ پاروں کو بھی ڈرامائی رنگ دے کر اسٹیج پر پیش کرنے کی دھن سوار ہو چکی تھی۔ زاہدہ زیدی کا ڈرامے سے حد درجہ لگائو کا لازمی نتیجہ تھا چونکہ دوران تعلیم انگریزی لٹریچر کی طالب علم اور استاد کی حیثیت سے زاہدی زیدی نے ڈرامے پر خاص توجہ دی اور یونانی ڈرامائی ادب کا  بغور مطالعہ کیا۔ انھوں نے شیکسپیر کو شروع سے لے کر آخری تک کچھ اس قدر گہرائی اور ذوق و شوق سے پڑھا کہ ایک مدت تک یہ عظیم اور لا ثانی ڈرامہ نگار زاہدہ زیدی کے دل و دماغ ہر حاوی رہا۔وہ شیکسپیر کے ڈراموں میں اس قدر کھو گئی کہ خود کو خواب میں بھی ڈرامے کے کسی کردار سے ہم کلام پا تیں۔زاہدہ زیدی کا یہ شوق پیشہ ورانہ بنتا چلا گیا اور اسی نقطہ نظر سے جدید ڈرامے کو خاص طور سے اپنایااور اس میں بر طانوی اور امریکی ڈرامے کے علاوہ یوریپن ڈرامے بھی شامل ہو چکے۔

زاہدہ زیدی جدید ڈرامے کے اولین امام ہنرک البسن،اوگست سٹرنڈ برگ،  برنا ڈو شا اور انتوںچیخوف جیسی عظیم شخصیتوں سے بہت زیادہ متاثر تھی۔ان جدید ڈراموں اور ڈرامہ نگاروں کے فکر وخیالات نے زاہدی زیدی کے ڈراموں کے تصور میں بھی انقلاب پیدا کر دیا۔اور کیمبرج یو نیورسٹی کے قیام کے دوران انھیں لندن، کیمبرج، پیرس،ماسکو، یورپ کے دوسرے شہروں میں مغربی ڈرامے کے شاہکاروں کی بہترین اسٹیج پیش کش دیکھنے کا موقع ملا جس نے زاہدہ زیدی کے ڈرامائی شعور کو مزید نکھارنے کا کام کیا۔ کیمبرج سے ہندوستان واپسی کے بعد زاہدہ زیدی کو ایک اچھا اردو ڈرامہ اسٹیج  پر پیش کرنے کی شدید خواہش ہوئی تو اس وقت ان کو اردو کا کو ئی بھی ڈرامہ انھیں متاثر نہ کر سکا۔اس وقت زاہدہ زیدی کی نظر انتون چیخوف کے خوبصورت ڈرامے پر پڑی جسے انھوں نے اردو زبان میں ہندوستانی رنگ و روپ دے کر ـ’’ حبیب ماموں‘‘ کے نام سے اسٹیج کرنے کے لئے تحریر کیا۔ ڈرامہ ’’ حبیب ماموں‘‘ زاہدہ زیدی کی پہلی کاوش تھی۔اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے وہ ترجمے کی تخیل آفریںکاوش اور ذہنی آسودگی کے تجربے سے آشنا ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی جدید مغربی ڈراموںکے آٹھ دس شاہکاروں کا جس میں چیخوف ،سارتر،بریخت،ایو نیسکو،پراندیلوکے ڈرامے شامل تھے اردو میں تر جمے کیے۔ ڈرامہ نگاری کا آغاز تو انھوں نے مغربی ڈراموں کے ترجموں سے کیا لیکن یہ تجربات کے سفر کی اگلی منزل انکی قدرتی طور پر ڈرامہ نگاری ہی تھی، انھوںنے  بغیر کسی شعوری کوشش یا منصوبے کے اس میدان میں پہلاقدم رکھا۔

اردو ڈراما نگاری، ترجمہ نگاری اور شاعری کے حوالہ سے بلقیس ظفیر الحسن اردو ادب میں خاص مقام رکھتی ہیں۔ انھوں اردو ادب میں ایک درجن کے قریب کتابیں تحریری کی ہیں۔ بلقیس ظفیر الحسن کی تصانیف ’گیلا ایندھن‘ دسمبر ۱۹۹۴ء ، شعری مجموعہ ’شعلوں کے درمیان‘ ۲۰۰۴ء ، افسانوی مجموعہ ’ویرانے آباد گھروں کے ‘ ۲۰۰۸ ء میں اور ’مانگے کی آگ‘ڈراموں کا مجموعہ ’تماشہ کرے کوئی‘ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ’دلچسپ‘ منظر عام پر آچکی ہے۔

’تماشہ کرے کوئی‘ بلقیس ظفیر الحسن کے ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں ان کا ایک طبع زاد ڈراما ’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چراغ‘ شامل ہے، اس کے علاوہ ٹینیسی ولیم کے ڈرامے گلاس مناجری اور کے انتون چیخوف کے ڈرامے دی بروٹ سے متاثر ہوکرلکھے گئے ہیں، دو ڈراموں کا ترجمہ کیا گیا ہے، جس میں ڈیوڈ کیمپٹن کا ڈراما اس اینڈ دیم جو بہت ہی دلچسپ ہے، اور ششر کمار داس کا ڈرامہ باگھ شامل ہے، جو بنگلہ ڈرامہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ انگریزی ترجمہ سے کیا گیا ہے۔ ان ڈراموں میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے، عورتوں کی زندگی کے مشکلات و مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے، بیٹیوں کے کے مناسب رشتے تلاش کرنا، اور رشتہ ازدواج سے منسلک کرنا کتنا مشکل کام ہے، اس پہلو کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے، سماج میں عورتوں کی صورت حال اور نفسیاتی کیفیت بھی ڈراموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔

ڈرامہ ’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چراغ‘کا موضوع ہندوستان میں آئے دن رونما ہونے والے فسادات کی کہانی ہے۔ انھوں نے مختلف کرداروں کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ کس طرح فسادات کے ذریعہ غریبوں کا گھر تباہ و برباد ہوتا ہے لیکن اس سے ہمارے ملک کے لیڈروں کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی وہ عوام کے فلاح و بہبود سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں۔ لیڈروں کو صرف اور صرف اپنی سیاست کی حوس ہوتی ہے اور وہ اس کو ہر حال میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

اردو ادب میں آمنہ نازلی نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ادبی گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں بلکہ زندگی بھر ان کو ادبی ماحول میسر ہوا۔ آمنہ نازلی کی ادبی خدمات میں دولت پر قربانیاں (افسانے)، ہم اور تم (افسانے)،ننگے پاوں (افسانے)، دوشالہ (ڈرامے)، عقل کی باتیں، تاریخی لطیفے (1946)،خواتین کی دستکاریاں،عصمیدسترخوان،مشرقی ومغربی کھانے،بیماروں کے کھانے،مذاقیہ کھانے، عصمتی کشیدہ کاری، ہنڈکلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی آمنہ نازلی کے ڈراموں کے مجموعہ ’دوشالہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

’’آمنہ نازلی کا ’’دوشالہ‘‘ ان کے تیرہ بہترین ڈراموں اور خاکوں کا مجموعہ ، ۱۹۴۴کے درمیان شائع ہوا، ان کے یہ ڈرامے رسالہ عصمت میں پہلے شائع ہوئے تھے۔ آمنہ نازلی بیگماتی زبان بلا تکلف استعمال کرتی ہیں۔ دوشالہ اور ’’انا‘‘ اس مجموعے کے بہترین ڈرامے ہیں۔ یہ دونوں ڈرامے معاشرے کے المیہ واقعات کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ آمنہ نازلی کی نکتہ چیں اور ظریفانہ نگاہیں بڑے مختلف انداز میں دنیا پر پڑتی ہیں۔ان کے کردار ’’ کوچہ چیلاں‘‘ کی گلیوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ ہندوستان کے غریب اور امیر طبقے دونوں کے تضادات کو پیش کرتی ہیںایک ہی واقعہ امیر کے نقطہ نظر میں کیا اہمیت رکھتا ہے اور غریب کی نظر اسے کس زاویے سے دیکھتی ہے۔‘‘۱۶؎

بہر حال اردو ادب بالخصوص ڈراما نگاری کے میدان میں بھی خواتین نے ناقابل  فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح مختلف میدانوں میں خواتین کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح ڈراما نگاری کے میدان میں بھی خواتین کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور بحیثیت ڈراما نگار خواتین ڈراما نگاروں کا امتیاز قائم کیا جائے۔

===

حواشی:

۱۔       اردو ادب کی ڈرامہ نگار خواتین، از ڈاکٹر نزہت عباسی، مشمولہ: امتزاج۵، ص:۱۲۰

۲۔      شعلہ،جوالہ افسانے از رشید جہاں

۳۔      قمر رئیس (مقدمہ) وہ اور دیگر افسانے، ڈرامے دہلی 1977۔ ص۔26

۴۔      اردو ادب کی ڈرامہ نگار خواتین، از ڈاکٹر نزہت عباسی، مشمولہ: امتزاج۵، ص:۱۲۱

۵۔      صالحہ عابد حسین نمبر:صالحہ عابد حسین کا فن نقادوں کی نظروں میں، شائستہ اکرام اللہ۔ص:۹۳

۶۔      صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار، نزہت فاطمہ، ص:66

۷۔      قدسیہ زیدی، مرتب بشیر حسین زیدی، مضمون قدسیہ: از مالک رام، ص: ۲۲-۲۳

۸۔      قدسیہ زیدی، مرتب بشیر حسین زیدی، مضمون ایسی چنگاری بھی یارب، از آل احمد سرور، ص: ۵۰

۹۔      تم زندہ ہو، عصمت چغتائی، مشمولہ قدسیہ زیدی، مرتب، بشیر حسین زیدی،ص: ۷۵

۱۰۔     قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ آپا۔اطہر پرویز، ص۔۵۵

۱۱۔      اردو میں فکشن نگاری، تنقیدی اشاریے، از آل احمد سرور، ص:۳۶

۱۲۔     عصمت کی تحریروں میں مسائل نسواں، از حامد رضا صدیقی،

         مشمولہ اردو دنیا شمارہ ۸، سن۲۰۱۵، ص:۳۳

۱۳۔      اردو ادب میں ڈراما نگار خواتین، ڈاکٹر نزہت عباسی، مشمولہ امتزاج ۵، ص: 125

۱۴۔     اردو ادب میں ڈراما نگار خواتین، ڈاکٹر نزہت عباسی، مشمولہ امتزاج ۵، ص: 125

۱۵۔     سرحد کوئی نہیں، ساجدہ زیدی، ص: ۹

۱۶۔     اردو ادب کی ڈرامہ نگار خواتین، از ڈاکٹر نزہت عباسی، مشمولہ: امتزاج۵، ص۱۲۸

SANA BANO

D/o Mohammad Khizar

Add: Madina Masjid Main Road Kamptee,

District Nagpur, Maharashtra- 441002

E-Mail: sanakhizar65@gmail.com

Leave a Reply