You are currently viewing اردو شاعری کا ایک نمایاں وگمنام ستارہ” عرشؔ صہبائی”

اردو شاعری کا ایک نمایاں وگمنام ستارہ” عرشؔ صہبائی”

ڈاکٹر راکیش کمار

چھنی ہمت، جموں کشمیر

اردو شاعری کا ایک نمایاں وگمنام ستارہ” عرشؔ صہبائی”

کسی بھی قلمکار کی شہرت کے لئے ایک شعر بھی کافی ہوتا ہے بشرطیکہ شعر میں اتنی قوت و توانائی ہو کہ اجتمائی سائیکی کا حصہ بن جائے۔ہماری تاریخ میں ایسے شعراء کی کمی نہیں ہے ۔موقع کوئی بھی ہو کوئی نہ کوئی شعر بجلی کی طرح ذہن میں کوندنے لگتا ہے ۔ایسے کتنے ہی شعراء ہیں جن کے اشعار ہمارے ذہنوں میںگونجتے رہتے ہیں اور ہماری تحریروں کا حوالہ بھی بنتے ہیںلیکن ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان اشعار کے خالق کون ہیں۔ایسے بے شمار قلمکار ادبی دنیا میں ایڈیاں رگڑتے رگڑتے اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیںلیکن تاریخی کتابوں میں ان کا نام سر سری بھی موجود نہیں ہے۔ اسے ہماری بد قسمتی کہیے یا بزدلی کہ ہم بعض اوقات ایسے ایسے لوستاروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ادب کی خدمت میں سرف کی ہوتی ہے۔ ایسے قلمکاروں کی فہرست میں سے ایک نام ریاست جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے عظیم شاعر عرشؔ صہبائی کا بھی لیا جا سکتا ہے ۔ وہ اردو دنیا میں ایک عظیم شاعر کے طور پر جانے ضرور جاتے ہیں لیکن میرے مطالعے سے کوئی ایسی تنقیدی و تاریخی کتاب نہیں گزری جس میںدوسرے بڑے شاعروں کے ساتھ ان کے کلام کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہو۔ ریاست جموں و کشمیر میں لکھی گئی چند کتابوں میں ان کا سرسری نام ضرور دیکھنے کو ملتا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً ۷۰ برس اردو زبان و ادب کی خدمت میں صرف کئے ہیں۔ اس باوجود انہیں ادب میں وہ مقام حاصل نہیںہوا جس کے وہ مستحق تھے۔اسی سبب سے میںنے انہیںنمایاں اور گمنام ستارہ کہا ہے۔ ہنس راج ابرول ان کا صلی نام تھا ،قلمی نام عرشؔصہبائی اور عرشؔ تخلص کرتے تھے۔ان کی ولادت 4؍دسمبر 1930 ء کو تحصیل اکھنور قصبہ سیری پلائی بٹل باختن میں ان کے نانہال میں ہوئی،لیکن دستاویزاتی غلطی کی وجہ سے3 دسمبر درج ہو گئی ہے۔ان کے مطابق3؍دسمبر ہی کو حرف آخر سمجھنا چاہیے۔عرشؔ صہبائی 91؍برس اور22؍دن کی طویل عمراس دنیائے فانی میں گزارنے کے بعد 25؍دسمبر 2020ء کو انتقال کرگئے تھے۔

عرشؔ کے تقریباً 20؍ شعری مجموعے ان کی حیات میں ہی منظر عام پر آکر ادبی دنیا میں ان کے نام کو روشن کر چکے تھے۔ان میں’’شکست جام (1958) ‘‘ ، ’’شگفت گل (1961) ‘ ‘ ، ’’صلیب (1971)‘‘ ، ’’یہ جھونپڑے یہ لوگ‘ (1976)‘  ،’’اسلوب (1991) ‘ ‘ ،’’ ریزہ ریزہ وجو د( 1995) ‘‘، ’’اساس(2001) ‘‘ ، ’’نایاب (2002) ‘‘ ، ’’توازن (2005) ‘‘ ، ’’ دسترس (2007) ‘‘ ، ’’چشم نیم باز (2007) ‘‘ ، ’’عکس جمال (2007)‘‘ ، ’’خدوحال(2007)‘‘ ، ’’تجھ بن چین کہاں (2009) ‘ ‘، ’’خوشبو تیرے بدن کی (2009) ‘‘ ، ’’سائے تیری یادوں کے (2010) ‘‘ ، ’’جواز (2011) ‘‘ ، ’’شبنم تیری یادوں کی (2013) ‘‘ ’’آگہی (2016) ‘‘ ، ’’تیرا زیر لب تبسم( 2019) ‘‘اور ’’تیری پر فسوں نگاہیں (2019) ‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 2021 ء میںان کے انتقال کے بعد ان کا ایک شعری مجموعہ ’’اعجازغزل ‘‘ کے نام سے شائع ہواجس میں ان کی تین طویل غزلیں شامل ہیں ۔حیرت ہوگی کی صرف تین غزلوں پر مشتمل ایک مجموعہ کیسے ممکن ہے لیکن عرشؔنے یہ کر دکھایا ہے۔ ان غزلوں میں ایک غزل کے 351 ؍ اشعار ، دوسری کے153؍اشعار اور تیسری کے55؍اشعار شامل ہیں۔ اس طرح وہ موجودہ دور میں سب سے طویل غزل کہنے والوں میں سر فہرست آ گئے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ابھی زیر اشعاعت ہے جس میں ان کا غیر شائع شدہ تمام کلام شامل کیا جا رہا ہے۔انہوں نے دو تذکرے ’’انجم کدہ (1963) ‘ ‘ اور ’’ یہ جانے پہچانے لوگ (1966) ‘‘ بھی لکھے ہیں جن میں انہوں نے اردو کے کئی اچھے شاعروں کے مختصر حالات اور ان کا منتخب کلام تبصرے کے ساتھ شامل کیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک کتاب ’’ سدھا جین انجمؔاپنے کلام کے آئینے میں‘‘ ان کی نثری تخلیق ہے جس میں انہوں نے ریاست کی ایک اہم شاعرہ سدھا انجمؔ کے کلام پر بہترین تبصرہ کیا کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبے کا تعین کیا ہے۔یہ تصنیف ان کے تحقیقی و تنقیدی شعور کا بہترین نمونہ ہے۔ ایسے عظیم قلمکار کو تاریخ داں نظر انداز کریں تو حیرت واجب ہے کیوں کہ ان کا شعری سفر 1955میں شروع ہوا ہے گویاتب سے لیکر موجودہ دور تک کئی لوگوں نے ادبی تاریخیں مرتب کی ہیںجن میں ان نام اور کلام درج کیے جانے کا مستحق تھا۔ان کے ادبی کارناموں نے ان کا نام ہند و پاک دونوں ملکوں مشہور کیا ہے لیکن تاریخ دانوں تک شاید اب بھی ان کا کلام نہیں پہنچا ہے۔میں نے جب بطور موضوع عرشؔ صہبائی کی شخصیت کا انتخاب کیا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ عرشؔ تقسیم وطن سے بعد کے اہم شعراء میں شمار ہوتے ہیں ۔1971ء میں جب ہندو پاک کے درمیان حالات نازک ہو گئے تھے اسدوران ہندوستان اور پاکستان دونوں کی عوام دستوں کی صورت میں ہندو و پاک کی باگا سرحد پر جمع ہوئے تھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عر ہندوسات کے شاعر ہیں لیکن پاکستان کی جنب سے جو دستہ سرحد پر موجود تھا اس میں ایک جھنڈے پر عرشؔ یہ شعر تحریر تھا۔

دل تو کیا چیز ہے ہم روح میں اترتے ہوتے

تم نے چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح

عرشؔ کا یہی شعر کشمیر سرینگر میں واقع باڈر سیکورٹی فورس کے کیمپ میں ایک بورڈ پر بھی درج ہے ۔یہی غزل پچھلے 50 سال سے لاہور ریڈیوں سے بسارت علی کی آواز میں کائی جا رہی ہے ۔عرشؔکے کلام کی ہی بھی ایک اہم خصوصیت ہے کہ بہت سے اردو سے محبت رکھنے والے لوگ اپنی پرسنل ڈائری میں ان کی اشعاررکھتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عرشؔ کی تربیت غزل میں ہوئی ہے اور غزل ہی پر انہوں نے زیادہ توجہ صرف کی ہے۔اس صنف میں انہیں ایک مقام حاصل ہے بلکہ انہیں اردو غزل کے اہم شاعروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔فیض احمد فیضؔ ،فراقؔ، نریش کمار شادؔ،ناصرؔ کاظمی،قتیلؔ شفائی،ساحر ؔ لدھیانوی جیسے عظیم قلمکاروں کی ہمعصری کے باوجود ان کی شاعری کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے۔ان غزل گو شعرا کے درمیان عرشؔ کسی طرح بھی کم تر درجے پر نہیں رہتے۔عرشؔ کی اہمیت مسلم ،لیکن سر زمین جموں و کشمیر سے تعلق کی بنا پر ان کی شاعری اور شخصیت اس توجہ سے محروم رہی ہے،جس کے وہ اصل مستحق ہیں۔عرشؔ کی غزل روایت کے اس سلسلے سے تعلق رکھتی ہے جس کی پہلی کڑی میر ؔ تقی میرتھے۔اردو غزل گوئی کے میدان میں وہ ’’پاسدار میر ‘‘ کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔اس لئے کہ ان کی غزل میں وہی سوز و گداز ،وہی درد ہی سادگی،وہی گداختگی، وہی داخلیت اور جذبے کی سچائی کی وہی آنچ ہے جو میرؔ کی غزل کی خصوصیت ہے لیکن افسوس ہے کہ زمانے کی ناشناس آنکھیں ان کی قدر و منزلت سے نا واقف ہیں۔وہ غزل کے آداب وــلوازم سے پوری طرح واقف ہیں اور اظہار کے اسالیب پر بھی انہیں اچھی قدرت حاصل ہے۔میرؔ،دردؔ،مومنؔ،غالبؔاور اقبالؔ جیسے عظیم شاعروںکی غزلوں کے مزاج اور رویوں کو عرشؔ صہبائی نے بڑی گہرای سے دیکھا بھی ہے اور اپنی غزلوں میں برتا بھی ہے ۔ ان کی شاعری ادب میںتہذیب و شائستگی کی وہ مثال ہے جو جدید اردو غزل کے لئے نئی تو نہیں لیکن کامیاب ضرور ہے۔ عبد القادر سروری اپنی تخلیق ’’کشمیر میں اردو ‘ ‘ حصہ تیسرا میںعرشؔ کی غزل گوئی کے متعلق لکھتے ہیں:

 ’’مترنم بحریں اور شگفتہ زمینیں،عرشؔ کی شاعری کی خصوصیت ہے لیکن محض صوری محاسن ہی ان کی شاعری کی اہم خصوصیت نہیں۔وہ زبان ،محاورے ، طرز ادا اور شعری محاسن کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ معنی کی خوبیوں کا بھی دھیان رکھتے ہیں ۔حیات اور کردار حیات کے بارے میں ان کے اپنے کچھ تجربات اور مشاہدات ہیں ۔ یہ موضوع غزل کی شاعری کے لئے نئے نہیں لیکن شاعر کا ذاتی احساس اس کو دہراتا ہے تو وہ نئے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ‘ ‘ ۱؎

عرشؔ کی غزل کی اہم خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کہیں غزل کو غزل رہنے دیا ہے کہیں اسے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت بھی عطا کی ہے۔ اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ ساٹھ کی دھائی ہر صنف میں تجربات کا ایک اہم طوفان لئے ہوئے ظاہر ہوئی تھی۔ چوک میں تانگہ الٹ جانے سے لے کر گاہک کا کال دیکھ کر دھندا بدل دینے تک سبھی تجربے اور مشاہدے اپنے تمام تر اسلوبی اور موضوعاتی اعتبار سے اردو غزل میں در آئے تھے۔ایسے میں وہ تمام موضوعات جو ابتدا سے غزل کا حصہ رہے ہیں عرشؔ کی غزل میں بھی موجود ہیںلیکن کہیںہلکی معنوی تبدیلی کے ساتھ ۔ان کی غزل کا مر کزی مو ضوع عشق ہے۔لیکن وہ نئے عہد کے غزل گو ہیں اس لئے نئے تصو رات اور نیا انداز فکر ان کی غزلوں میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ان کی غزل عاشقانہ، صوفیانہ، عارفانہ، حکیمانہ، رندانہ،آزادانہ،مسرتانہ،حسرتانہ اور خادمانہ ہر طرح کے مضامین ادا ہوئے ہیں اور نہایت عمدگی اور خوبی سے ادا ہوئے ہیں ۔عرشؔ کی غزل استعاراتی رنگ لئے ہوئے ہے۔ان کی غزل میں سیاسی نشیب و فراز کا بھی گہرا شعور ملتا ہے۔ان کی غزل اسلوبی لحاظ سے روایتی غزل سے زیادہ منسلک نہیں ہے لیکن انہوں نے کلاسیکی انداز سے گریز بھی نہیں کیا ہے۔آسان زبان ،سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔ان کی غزل کا دلنشیںلہجہ بڑی سے بڑی بات بالکل عام انداز میں کہہ دینے کا فن کہ قاری پہلے سرسری گزر جاتا ہے پھر سوچتا ہے تو پھر حیران ہو جاتا ہے کہ یہ خیال اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔اعجاز و اختصار ، نغمگی،لطیف انداز بیان اور مترنم طرز ادا ان کی غزل کے خاص وصف ہیں۔غرض اس باب میں عرشؔ کے تخلیقی عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی غزل میں پائے جانے والے نئے شعری امکانات و رجحانات کا بھر پور تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اور یہ دیکھنے اور جانچنے کی کوشش کی ہے کہ عرشؔ کی غزل کہاں تک جدید تقاضوں کو پوراکرتی ہے اور اس میں موجود وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے عرشؔ کی شاعری کو بقائے دوام بخشا ہے ۔چند اشعار بطور حوالہ ملاحظہ کریں۔

تم جو چھو لوگے تو پڑ جائے کی قیمت میری

گیلی مٹی ہوں کھلونا ہی بنا لو مجھ کو

کس قدر دلچسپ ہیں یہ رنگ و بو کے سلسلے

آرزو کے بعد خون آرزو کے سلسلے

اس کے ہر منظر پہ مٹ جا اس کا پس منظر نہ دیکھ

زندگی اک خول ہے اس خول کے اندر نہ دیکھ

کون سا وہ زخم دل تھا جو تر وتازہ نہ تھا

زندگی میں اتنے غم تھے جن کا اندازہ نہ تھا

ہم نکل سکتے بھی تو کیونکر حصار ذات سے

صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں جن کا اندازہ نہ تھا

عرشؔ ان کی جھیل سی انکھوں میں اس کا کیا قصور

ڈوبنے والوں کو گہرائی کا اندازہ نہ تھا

 ہر چند کے عرشؔ صہبائی کی شہرت بحیثیت غزل گوئی ہے لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انہوں نے غزل کے علاوہ بھی جن صناف میں طبع آزمائی کی ہے ان کا بھی حق ادا کیا ہے ۔ان کی نظم جدید اردو نظم کے ادبی ارتقا میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ان کی غزل کی طرح نظم میں بھی موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔حالات و واقعات ،واردات و کیفیات،جذبات و احساسات کی ترجمانی،مناظر فطرت کی عکاسی اور حسن و عشق کے رازو نیاز کی کیفیتیں وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔ عرشؔ نے زیادہ تر پابند نظمیں لکھی ہیں جو کلا سکی روایت کا احساس دلاتی ہیں ۔ان کے یہاں نظم معرااور نظم آزاد بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض نظمیں ایسی بھی ہیں جو ہیئت کے اعتبار سے مسلسل غزل قرار دی جا سکتی ہیں لیکن مصنف نے انہیں نظم کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ان کے یہاںنظم کی ہیت کے اعتبار کو کوئی نیا تجربہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ ان کی نظموں میں انحراب موضوع کی بنیاد پر ہے۔بقول مشتاق احمد وانی :

’’عرشؔ صہبائی ہمہ جہت شعری انصاف میں طبع آزمائی کر چکے ہیں ۔ غزل ،قطعہ ،ربائی ، نعت و سلام،گیت ، سانٹ اور نظم ان تمام اصناف میں انہوں نے اپنی شعری صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔وہ قدیم و جدید شعری مزاج رکھتے ہیں ۔عصر حاضر کے بزرگ اور نامور شعرا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن ان کی نظمیں بھی پر سوز اور دل گداز ہوتی ہیں۔ ان کی حالص نظموں کا مجموعہ ’’یہ جھونپڑے یہ لوگ‘‘ محبت،وطن کی محبت،سیاست و معاشرت کے علاوہ زندگی کے کئی تلخ حقائق کو آشکار کرتی ہیں۔ کئی نظموں میں ہمارے ملک کے عظیم علمی ،ادبی اور سیاسی شخصیات کو موضوع بنایاگیا ہے ‘ ‘۲؎

 عرشؔ کی نظموں میں نصیحت آموز نقاط بھی کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔ان کی نظم نگاری میں کہیں کہیں ترقی پسند خیالات کے ساتھ ساتھ ہلکے انقلابی خیالات بھی ملتے ہیں۔ان کی نظموں میں نعمت مخصوص ،سقراۃ،ایک سوال، کھوکھلے جسم بے تاب روحیں،مشورہ،احساس، جان وفا، انجام ،تجدید وفا،شکوہ،خواب،نغمہ، یاد، دل ،یہ تیری مست و سیا فام غزل خواں آنکھیں،وہ دو آنکھیں،یادرفتہ،میں بنگلہ دیش ہوں ٹیگور کے نغموں کی دھرتی ہوں، ایکتا، اے میرے وطن ! میرے حسین خوابوں کی تعبیر، نڈر اور ہندوستانی سپاہیوں کے نام ،سرزمین وطن ،قطعہ، جہد،ہم لوگ، الیکشن نامہ ،آدمی،رابندر ناتھ ٹیگور اور یہ جھونپڑے یہ لوگ اہم نظمیں ہیں۔ان کی نظموں کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ آپ ان نظموں کی چند سطریں یا مصرعے نکال کر الگ سے پڑھیں تو ان کا قاری پر زیادہ اثر نہیں ہوتا مگر جب ان نظموں کو پورے کا پورا پڑھا جائے تو یہ اپنے وحدت تاثرکے باعث پڑھنے والوں کو خوب متاثر کرتی ہیں ۔پروفیسر عبدالقادر سروری نے اپنی کتاب کشمیر میں اردو (تیسرا حصہ)کے صفحہ 85 میں عرشؔ کی نظموں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی نظم ’’وہ دو آنکھیں‘‘جدید عہد کی اچھی نظموں میں شمار ہو سکتی ہے۔نظم کا ایک بند ملاحظہ کریں۔

وہ دو آنکھیں جو اکثر اجنبی انداز سے مجھ کو

برابر دیکھتی ہیں اور کچھ اقرار کرتی ہیں

نہ جانے کون سے ارمان پنہاں ہیں ان آنکھوں میں

نہ جانے کون سے جذبات کا اظہار کرتی ہیں

عرشؔ کی نظمیں ہی نہیں ان کے دوہوں میں بھی ان کی فنی و فکری دانشمندی کا اظہار ملتا ہے ۔ان کے دوہوں میں  ان کا طرز بیان نیا سا ہے اور اظہار و اسلوب کی تازہ کاری موجود ہے جو عصری غزل کا خاصہ ہے۔ان خوبیوں نے دوہوں میںمعنوی تبو تابش بھی پیدا کر دی ہے۔انہیں لہجاتی تہذیب،فکری توانائی اور لطافت انگیز کیفیت سے بھی آراستہ کر دیا ہے لہٰذا بجا طور پر ان میں تغزل کی خوبی اور ندرت خیزی پیدا ہو گئی ہے۔ان دوہوں میں یقیناً شگفتگی،،گداختگی،محویت،خستگی اور رنجوری کی روایتی باتیں ہیں لیکن انداز اظہار کی جدت نے ان میں تغزل کا رچائو پیدا کریا ہے۔عرشؔ نے بعض ایسے دوہے بھی کہے ہیںجو مابعد جدید روئیے اور نئی حقیقت پسندی (New Realism) کے غماز ہیں۔ان کے چند دوہے ملاحظہ کریں۔

افشا ہوگا راز یہ جب ہوگی تحقیق

میں اس کی تخلیق ہوں یا وہ میری تخلیق

اور بھی صوبوں میں ابھی بٹے کا ہندوستان

جگہ جگہ بے کار ہیں کئی سیاست دان

کتنا گہرا زلزلہ کوئی نہیں آواز

جب انسان کے جسم سے روح کرئے پرواز

 عرشؔ نے اپنے دوہوں میں بھی کمال فن کا بہترین مظاہرہ کیا ہے ۔ جہاں اردو میں دوہے کی صنف کو اپنانے میں جمیل الدیں عالیؔ،نادم ؔ بلخی،وزیرؔ آغا،حفیظ ؔ ہو شیار پوری، ڈاکٹر فراز حامدی کے نام لئے جائیں گے وہیں دوہے کی تاریخ میں ایک نام عرشؔ صہبائی کا بھی درج ہوگا۔عرشؔ کے یہاں خالص ہندی دوہے بھی موجود ہیںجو دوہے کی روایت کا خاصہ ہیں ۔ ان کے دوہوں میں نئے موضوعات پر خالص اردو دوہے بھی ملتے ہیں ۔عرشؔ صہبائی یہاںکئی ایسے موضوعات پر بھی دوہے ملتے ہیں جن تک ان سے پہلے کسی کی رسائی ممکن نہ ہو سکی ہو یا جوکسی شاعر کے یہاں سرسری طور پر استعمال میں لائے گئے ہوں۔عرشؔ صہبائی کے یہاںصرف غزل ،نظم اور دوہا ہی نہیںبلکہ قطعات بھی شامل ہیں جو رہتی دنیاتک ان کے نام کو زندہ رکھنے کی حقدار ہیں۔ان کے قطعات اپنے اختصارجامعیت اور وحدت کے تاثر کے اعتبار سے پڑھنے والوں کو چونکادیتے ہیں۔عرشؔ نے جس طرح ان کی غزلیات و منظومات میںمختلف موضوعات و مضامین کو پیش نظر رکھا ہے اسی طرح قطعات میں بھی انہوں نے مختلف موضوعات کا استعمال کیا ہے ۔کہیں وہ اپنے دور کی اخلاقی پستی کی بات کرتے ہیں تو کہیں ملک و سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔کہیں کہیں سیاست اور سیاست دانوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ان کے چند قطعات ملاحظہ کریں۔

بہر پرشس اگر چلے آتے

اس بہانے سے دید ہو جاتی

آپ کا اس میں کیا بگڑ جاتا

ہم غریبوں کی عید ہو جاتی

بے بسوںاور بے سہاروں پر

ستم بے پنا کرتا ہے

اقتدار و وقار کی حاطر

آدمی ہر گناہ کرتا ہے

عرش ؔ صہبائی کا شعری زمانہ ایک ایک لمبے عرصے پر محیط ہے۔ان کا تمام شعری سرمایہ ان کے زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کا آئینہ ہے۔عرشؔنے جس زمانے میں شعر و شاعری سے راہ و رسم پیدا کی اس وقت ابھی تقسیم کی ہو لناکیوںکے سائے منڈلا رہے تھے ۔فضا پر چھایا ہوا جمود ابھی پوری طرح چھٹا نہیں تھا ۔خوف کی وحشت کے سائے چاروں طرف منڈلا رہے تھے ۔ برصغیر ہندو پاک نفرت و بربریت کی آگ میں بری طرح جھلسنے کے بعدنیم جانی کی کیفیت سے دوچار تھے اور یہ خوف ابھی ذہنوں پر مسلط تھا کہ نہ جانے کب اور کہاں ایک بار پھر ادھ بجھی راکھ میں دبی ہوئی کوئی چنگاری دہک کر پوری فضا کو آگ اور دھویںکی لپیٹ میں لے گی۔ اسی صورت حال میں عرشؔ اور ان کے کچھ ساتھیوں نے ریاست جموں و کشمیر کے ادبی ماحول پر چھائے ہوئے ادبی جمود کو توڑنے کی کوشش کی اور وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔عرشؔ صہبائی کے آبا و اجداد میں سے کوئی بھی شخص شاعر نہیں گزرا۔اس کئے انہوں نے جو کچھ قابلیت بہم پہنچائی ہے یہ ان کی شخصی کوشش اور انتساب کا نتیجہ ہے ۔ اردو ادب میں اتنا کام کرنے کے باوجودان کے فن اور شخصیت پر صر ف ایک ادبی نمبرریاست جموں کا کشمیر کی اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجز کی جانب سے ’’عرشؔ صہبائی نمبر‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ان کی ادبی و شعری تخلیقات کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ ان پر کئی اعلیٰ معیار کے شمارے شائع کئے جانے کے بعد بھی نئے گوشے نکالے جا سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ عرشؔ دور جدید کے ایک اہم غزل گو شاعرگزرے ہیں جنہوںنے نہ اپنے عہد کے کسی مروج نظریے کو اپنایا اور نہ ہی کسی ادبی یا سیاسی رجحان کی تقلید کی جس کے باعث وہ منفرد تو رہے لیکن انہیںقبول عام حاصل کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔یہی وہ قیمت ہے جو اپنی انفرادیت کی بنا پر ہر سچے اور کھرے فنکار کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔

حواشی:

۱۔  عبدالقادر سروری ، کشمیر میں اردو تیسرا حصہ ،سرینگر،جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجر،۲۰۱۸، ص:۸۱

۲۔  شیرازہ معاصر اردو نظم نمبر،جلد ۵۳،شمارہ ۸تا۱۰،جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لیگویجر،ص:۹۲

***

Leave a Reply