You are currently viewing اردو میں لوک ادب:تصور اور اہمیت

اردو میں لوک ادب:تصور اور اہمیت

غلام مصطفیٰ اشرفی

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

اردو میں لوک ادب:تصور اور اہمیت

        کسی بھی زبان کے لوک ادب کی تاریخ اس زبان کی تاریخ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ۔اگر زبان کی ابتدائی شکل کی بات کریں تو وہ بولی کی صورت میں پہلے گلی کوچوں میں پنپتی نظر آتی ہے ،اور آہستہ آہستہ یہ بولی سڑکوں اور بازاروں کا سفر کرتی ہوئی محلوں اور دیوان خانوں تک رسائی حاصل کرتی ہے ۔ اگر ادب کو ایک درخت مان لیا جائے تو  اس کی جڑوں کو ہم لوک ادب کہیںگے اور درخت کا جو حصہ ہمارے سامنے تنے کی شکل میں ہوتا ہے اس کو ادب عالیہ یا اشرافیہ ادب کہیں گے ،اسی طرح اس کی شاخوں کو اصناف ادب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس زبان کے ساتھ المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اس کے ارتقا تک پہنچ کر زبان کی تشکیل میں ان عوامی کرداروں کو فراموش کر دیا جاتا ہے جو اس کی پیدائش میں خاص کردار ادا کر چکے ہوتے ہیں نتیجے میں زبان اپنی جڑوں کو نظر انداز کر دیتی ہے  اوریہی کچھ اردو زبان و ادب کے ساتھ بھی ہوا ۔

       ہم نے اردو زبان و ادب کو صرف تحریری شکل میں اپنایا ہے ،حالانکہ اس زبان و ادب کا بے شمار حصہ جو کہ زبانی روایات کے ساتھ ہم تک پہچا تھا اس کو ہم نے فراموش کر دیا  ۔اردو کی ابتدا بھی گلی کوچوں میں ہوئی شائد اسی لیے میر تقی میر بھی جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان کو ہی سند مانتے ہیں ۔ کئی صدیوں تک اردو کے لوک ادب کو قابل توجہ بھی نہیں سمجھا گیا اور اسے ریختہ کا نام دیا گیا ۔حد تو یہاں تک بھی ہو گئی تھی کہ اٹھارہویں صدی کے عوامی شاعر نظیر اکرآبادی کو شاعر ماننے سے بھی اردو ادب والے کترانے لگے ۔ان تمام کی یہ وجہ تھی کہ اردو چونکہ سن بلوغ کو پہچنے کے بعد شہروں تک ہی محدود ہو گئی  جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں لوک ادب کی روایت آج بھی بہت مضبوط ہے ۔

    ادب کے حوالے سے ایک اور شبہ جو کہ ادب کے طالب علموں کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے اس کا ازالہ بھی یہاں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ : اکثر زبان و ادب کو تحریر کے ساتھ جوڑا جاتا ہے،یہ الگ بات ہے کہ فنون لطیفہ کی کسی بھی اصناف کی تعریف ایک جملے میں پیش کرنا نہایت ہی مشکل  اور کافی حد تک ناممکن بھی ہوتا ہے ۔ ایک ناقد نے ادب کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا ہے:

    ’’ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں روزمرہ کے خیالات سے بہتر خیالات ،اور روزمرہ کی زبان سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے ۔ادب انسانی تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔‘‘ (ادب کا مطالعہ ص ۳۰)

        اس اقتباس میں میں آپ کا دیھان لفظ’’ تحریر ‘‘ پر لانا چاہتا ہوں ۔اس تعریف میں تحریر کا لفظ ادب کو محدود کر دیتا ہے کیوں کہ ادب کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ محفوظ چلا آرہا ہے اور جس کا کوئی حصہ تحریری شکل میں نہیں ملتا ہے ۔اگر ہم تحریر کی پابندی لگائیں تو ہمیں ہزاروں کہانیوں اور گیتوں کو ادب سے خارج کرنا ہو گا ۔دوسری بات اس تعریف میں جو بیان کی گئی ہے کہ ادب روزمرہ کے بہتر سے بہتر خیالات اور بہتر سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے ، تواگر ایسا ہوگا تو ادب ایک محدود طبقہ کی عکاسی کرے گا جبکہ ادب زندگی کی لا محدود تصویر کشی کا نام ہے  ۔

 ــ                اسی طرح ادب کی بھی کوئی متعین تعریف بیان کرنا تقریباََ ناممکن ہے ۔ادب کی تعریف کرتے ہوئے بعض ناقدین نے اسے ’’ لطف اندوزی ‘‘ کا ذریعہ بتایا ہے ،اور بعض نے اس کی بنیاد منطقی اور سانٹیفک اصولوں پر  رکھی ہے ۔ادب کی تعریف میں ان دونوں نظریات کو بیان تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر بس نہیں کیا جا سکتا ۔ادب در اصل زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے اور زندگی پر لطف بھی ہے اور خشک بھی  ۔اس لیے صرف یہ کہ دینا کہ :لطف اندوزی ہی ادب کا بنیادی مقصد ہے یہ صحیح نہیں ہے ۔جس طرح زندگی مختلف طبقات میں منقسم ہے اسی طرح ادب کو بھی تقسیم کرنا ہو گا ۔ایک وہ ادب جو  تحریری شکل میں ملتا ہے اور ایک خاص طبقہ میں پڑھا جاتا ہے جسے ادب عالیہ کہا جاتا ہے اور دوسرا وہ ادب جس کی کوئی تحریری شکل دستیاب نہیں ہے ،وہ لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے جسے عوامی ادب ،لوک ادب یا لوک ورثہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔لوک ادب ہر دور میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہر زمانے اور ماحول میں مقبول رہتا ہے ۔اس کا مصنف گمنام ہوتا ہے اور اس کانام پکی سیاہی سے نہیں چھپتا ۔

            لوک ادب ادبی اصطلاح میں  ’فوک لور ‘کو کہتے ہیں ۔اس انگریزی ترکیب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۱۸۸۴ میں ولیم جان تھامس نے یہ ترکیب وضع کی یعنی اس کو پہلی بار استعمال کیا ۔فوک لور کا تعلق جسے ہم اردو میں لوک ادب یا عوامی ادب کہتے ہیں ۔راست طور پر عوامی کلچر سے مراد انسانی سماج کے رہن سہن ،کھان پان،اور زندگی بسر کرنے کے طریقوں میں رونما ہونے والے حالات و کلچر ہیں ۔اور اس طرح اس لوک ادب کے دائرے میں تمام نغمے، گیت، کہاوتیں ،کہانیاں اور انسانی زندگی کے رویوں سے متعلق تمام تصورات شامل سمجھے جاتے ہیں ۔

          قاموس یعنی  انسائکلو پیڈیا میں کہا گیا ہے کہ لوک ادب میں توہم پرستانہ قصے ،جادو ٹونے بھوت پریت ،دیو مالائی حکایتیں اور داستانیں یعنی دیوی دوتائوں کے قصے بھی شامل ہیں ۔اور یہی نہیں بلکہ اس کے دائرے میں عوامی رسم و رواج ،عوامی تہوار، عوامی کھیل ،رقص،پہیلیاں،عوامی دلچسپی کے چٹکلے اور لطیفے وغیرہ بھی اس کے دائرے میں آجاتے ہیں۔

      اردو لوک ادب کی مختصر سی واقفیت سے یہ بات صاف طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق عام و خاص سے معنیٰ کے اعتبار سے ہے ۔جب ہم اردو کا مطلب تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی زبان جس میں سبھی طرح کے لوگوں کی شمولیت پائی جاتی ہو ،یعنی انداز زندگی اور جدا گانہ طرز تکلم کے باوجود جب ایسے الفاظ اور ایسے انداز اختیار کیے جائیں جو اکثریت میں وحدت کی شہادت پیش کریں تو وہ اردو تہذیب یا اردو لوک ورثہ کہلاتے ہیں ۔لوک سے مراد عام طبقے یا عالم سے ہے ،یعنی وہ زمرہ جس میں مجموعی اکثریت کی ایک انفرادی شناخت ہو ،لیکن اس اکثریت میں شامل افراد کی جداگانہ شناخت ذاتی حیثیت سے سامنے نہ آتی ہو ۔ بعض کتابوں میں اس کی وضاحت کے لیے اندر لوک ،پرتھوی لوک  اور پرلوک وغیرہ کے مرکبات کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ۔لہٰذا اندر لوک وہ طبقہ یا عالم کہلاتا ہے جہاں اندر دیو کی حکومت ہو ،اس طرح لوک ادب سے مراد اس ادب سے ہے جو کہ عوام کا تخلیق کردہ ہو یا ان کی زندگی کے نشیب و فراز کے مختلف مدارج و مداخل سے ظاہر ہوتا ہو ۔یا ان میں عوامی زندگی کی ترجمانی ایسے انداز سے کرتا ہو کہ پچھلی نسلیں اسے اختیار کرتی رہی ہوں اور آنے والی نسلیں اس کی تقلید کا جذبہ رکھتی ہوں ۔ اس مفہوم سے یہ معلوم ہتا ہے کہ عوامی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرنے والا یہ لوک ادب انسان کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے آخری سفر تک کی روداد میں کس کس طرح سامنے آتا ہے ۔

      ہندوستان میں لوک ادب کا استعمال صدیوں پہلے سے ملتا ہے بلکہ اس کے سوتے سنسکرت کی تاریخ کے ارتقا میں پیوست ہیں لہٰذا لوک ادب ہندوستانی زبانوں میں زیادہ قدیم ہے اور لوک ادب کی اصطلاح بھی ہمارے یہاں قدیم دور سے رائج ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اردو والے لوک ادب کی تلاش میں دیگر زبانوں کے مقابلے تقریباََ سب کے بعد متحرک ہوئے ،لیکن یہ بات کوئی اچنبھے والی بھی نہیں کیوں کہ اردو وہ زبان ہے جس کے ارتقا کی تاریخ بھی دنیا کی دوسری زبانوں کے مقابلے کم وقفے یعنی مختصر مدت کو محیط ہے ۔لہٰذا جو زبانیں پہلے وجود میں آئیں ان کے ادب کی شناخت اور تلاش بھی پہلے ہوئی اور جو زبانیں بعد میں وجود میں آئیں ان کے ادب کی شناخت بھی بعد میں عمل میں آئیں ۔

      لوک ادب کی تعریف کرتے ہوئے ادب کے عالموں کے نظریات و خیالات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں۔

(۱) عوام کے دلوں سے ضطراری یا اضطرابی حالت میں کسی خاص جذبے کے تحت بے اختیارانہ طور پر نکلنے والے وہ الفاظ جو کسی المناک یا طربناک جذبے و کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوں لوک ادب کے زمرے میں آتے ہیں ۔

        لوک ادب کے تعلق سے مارکسی اسکالر جی۔وی۔پلکھانو  نے اپنی کتاب’’ آرٹ اینڈ سوشل لائف‘‘ میں عوام اور ادب کے تعلق سے بشری تاریخ میں پائے جانے والے سر چشموں پر روشنی ڈالی ہے اس کا کہنا ہے کہ : ابتدائی زراعی نظام ہو یا سرمادارانہ جاگیردارانہ نظام ہو ، ہر جگہ عوام کی تخلیقی محنت ہی عوامی ادب کو جنم دیتی چلی آرہی ہے ،یعنی ایسا ادب جس میں عوام کی جد و جہد ،ان کے سماجی رشتے ہی نہیں بلکہ جمالیاتی احساس بھی کار فرما رہتا ہے ۔

        کیلریس انسائکلو پیڈیا کے حوالے سے لوک ادب اور لوک گیت ان کے مخصوص عالموں اور مخصوص طریقہ کار ،کام کے اوزاروں اور ان کی خصوصیات کو تاریخی تناظر  اور سماجی سیاق میں سمجھنا اور بیان کرنا لوک ادب کہلاتا ہے ۔ایک اور انسائکلو پیڈیا لیکسیکین کے حوالے سے لوک سنگیت ایک ایسا سنگیت ہے جو اورل ٹریڈیشن (زبانی روایت ) میں زندہ رہتا ہے ،جس کا ادراک فہم ، شعور اور سماعت سے کیا جاتا ہے ۔یہ بغیر لکھا ہوا سنگیت بنیادی طور پر دہی کلچر کا حصہ ہوتا ہے ۔

      تکنیکی طور پر اگر بات کی جائے تو اس حوالے سے لوک گیت بہت سادہ اور عام فہم ہوتا ہے ۔یہ ادب سوسائٹی اور سماج کے کم و بیش سارے لوگوں کے حافظے میں محفوظ رہتا ہے اور اسے وہ عملاََ گا سکتے ہیں ۔اس طرح کا سنگیت گیت کار بھی ایسے با معنیٰ انداز میں نہیں گا پاتے ،اور نہ ہی یہ اسکولوں اور گرجوں و دیگر عبادت گاہوں میں پیش کیا جاتا ہے ،بلکہ یہ قبائلی رواجوں  اور چھوٹی چھوٹی دیہپاتی آبادیوں میں زندہ رہتا ہے ،کیوں کہ اکثر یہ لوک سنگیت ،سماجی رسم و رواج ،اجتماعی محنت کے کاموں اور ناچ کی پیشکش میں کام آتا ہے۔  اگر لوک ادب کے خالق کی بات کریں تو وہ ایک گاوں  ایک کا فرد ہوتا ہے ۔اس کی تخلیق کردہ قصے کہانی جب سنائے جاتے ہیں تو اسے دوسرے بھی سیکھتے ہیں اور سنتے سناتے اور گاتے ہیں ۔اس عمل میں ان کے آپسی آہنگ میں تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ مثال کے طور پر دادی یا نانی جب بچے کو چڑا چڑے یا پریوں کی کہانی سناتی ہیں تو وہ یہ نہیں کہتیں کہ اس کہانی کا تخلیق کار کون ہے وہ خود اس کو اس طرح کہتیں ہیں کہ جیسے وہ خود اس کی تخلیق کار ہیں ۔وہ اپنی مرضی اور ماحول کے مطابق اس کہانی میں تبدیلیاں بھی کر دیتیں ہیں ۔ اس طرح اس زبانی ورثے کے تعلق سے یہ کہنابہت مشکل ہے کہ سیکڑوں برس پہلے اس کا اصل تلفظ کیا تھا یا اس کا متن کس طرح کا تھا ۔لوک ادب کا تخلیق کار نا معلوم ہوتا ہے اور جس پر اس سماجی گروہ کے کردار کا نشان رہتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے ۔یہ اس سماجی گروہ کی زبانی روایت کو محفوظ رکھتا ہے ۔بقول پروفیسر قمر رئیس:

      ’’ لوک ادب المیہ اور خزنیہ بھی ہوتا ہے اور طربیہ بھی ۔ یہ عوام کی ذہانت کا تخلیقی اظہار بھی ہوتا ہے اور ان کی تفریح و تفن کا ذریعہ بھی ۔اس میں ہنسی مزاق،  طنز و تعریض  ،  مذہبی عقیدت ، دشمنوں سے نفرت  ، وطن دوستی ،مظاہر فطرت سے محبت ،جنسی جبلت الغرض   ہر طرح کے جذبات و احساسات اور واردات کا احساس ہوتا ہے ‘‘     (اردو میں لوک ادب  ص ۷  )

    مذکورہ اقتباس سے لوک ادب کے متعلقات و معروضات کے علاوہ یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ ادب عالیہ ہو یا عوامی ادب یہ انسانی تجربات اور تجربات سے پیدا ہونے والے احساسات کا آئنہ دار ہے ۔اور یہ بات  بڑے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انسانی جذبات کا جس فراخ دلی سے بیان لوک ادب میں ہوتا ہے وہ ادب اشرافیہ میں نظر نہیں آتا ہے ۔

       اگر لوک ادب کی روایت کی بات کریں تو وہ انسانی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے ۔جب پہلی بار کسی انسان نے اپنے ارد گرد لوگوں کا دل بہلانے کے لیے یا کسی ماں نے پہلی بار اپنے بچے کو بہلانے اور سلانے کے لیے لوری گا کر سنائی ہو گی اور قصہ سنایا ہو گا اسی وقت سے لوک ادب کا آغاز ہوا ہو گا ۔قدیم دیوی دیوتائوں کے قصے ،پریوں کی داستانیں ،شادی بیاہ کے گیت اور دیگر خوشی یا غمی میں انسان کی زبان سے اضطراری و اضطرابی کیفیت میں نکلنے والے الفاظ جو کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ،یہ تمام لوک ادب کی اصناف و اقسام ہیں ۔جب بھی ہم اردو لوک ادب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس ادب کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں اردو اور ہندی زبان کے لوک ادب مشترکہ طور پر رائج رہے ہیں ۔یعنی کہ جو گیت ہندی میں گایا جاتا تھا اسی کو تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اردو زبان کے لوک گیتوں میں بھی شامل کر دیا جاتا ہے :مثال کے طور پر  امیر خسرو سے جو گیت ہندی زبان میں منسوب تھے وہی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اردو میں بھی رائج ہوگئے جیسے :

آج پیدا ہوئے نند لال                   برج میں دھوم مچی

    چندا ماما دور کے                         بڑے پکائیں بور کے

   آپ کھائیں تھالی میں                  منے کو دیں پیالی میں

پیالی گئی ٹوٹ                 منا گیا روٹھ

پیالی آئی اور                 منا آیا دوڑ

٭٭٭

 للا للا لوری                 دودھ کی کٹوری

دودھ میں پتاشا            منا کرے تماشا

٭٭٭

      اسی طرح بچے کا کھیلنے کا وقت آتا ہے تو وہ اس طرح اپنی ایک ٹولی بنا کر پڑھتے ہیں :

اکڑ بکڑ بمبے بو              اسی نوے پورے سو

سو میں لگا  تاگا            چور نکل کے بھاگا

     کبھی کبھی وہ بھجرت ایک دوسرے سے کہتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھانا ہوتا ہے ۔

ایک تھال موتیوں سے بھرا                سب کے سر پر اوندھا دھرا

چاروں اور وہ تھال پھرے              موتی اس سے ایک نہ گرے

وہ کیا ہے تو اس کا جواب ہے:  ’’آسمان کے تارے ‘‘

       اسی طرح جب ایک نو جوان کالج میں پہنچ جاتا ہے تو کچھ فلمی انداز میں اشعار پیش کرتا ہے ۔

بھیگا  بھیگا  ہے سماں                   ایسے میں ہے تو کہاں

ٹیکا ( بندی)  لایا ہوں تجھے            جھومر لایا ہوں تجھے

جھومر کی جھلک دکھلا جا                کالج کے بہانے آجا

                 اسی طرح بہن کی شادی پر:

میری پیاری بہنیا                     بنے گی دلہنیا

سج کے آئیں گے دولہے راجا           بھیا بجائے گا باجا

                 اسی طرح ایک بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے:

جھوٹ بولے کوا کاٹے             کالے کوے سے ڈریو

میں میکے چلی جائوں گی               تم دیکھتے رہیو

          در اصل سماج میں ایک انسان کی زندگی اس کی پیدائش سے کر موت تک اس انسان کے اندر بے شمار اتار چڑھئو لاتی رہتی ہے اور اس دور میں مختلف گیت اور کہانیاں انسان کے ساتھ جڑی رہتی ہیں ۔انسان کی زندگی میں بہت سارے ایسے وقعات آتے ہیں جہاں اپنی خوشی یا غمی کا اظہار لوک گیتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔آج اردو زبان کی تازگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ زبان عوام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔آخر میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کے فروغ میں لوک ادب کی اصناف نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ،اور آنے والے دور میں بھی اس زبان کا عوام سے رشتہ یقیناََ ایسا ہی برقرار رہے گا جس سے اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے نئے راستے ہموار ہوں گے ۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply