You are currently viewing اردو نعت گوئی میں ذکرِ مدینہ

اردو نعت گوئی میں ذکرِ مدینہ

ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ

ایسو سی  ایٹ پروفیسرشعبۂ اردو،سمرات پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج۔اجمیر

اردو نعت گوئی میں ذکرِ مدینہ

(نمائندہ شعراء کے حوالے سے)

         نعت گوئی ایسی صنفِ سخن ہے جس میں موضوعات کے اعتبار سے وسعت اور ہمہ گیری موجود رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نعت گو شعراء نے عرش و فرش اور کُل کائنات کا تذکرہ اپنی نعتیہ تخلیقات میں خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی ہے۔زیر نظر مضمون صرف اور صرف نعت میں ذکرِ مدینہ سے متعلق ہے، راقم اس حوالے سے اپنی بات کہنا چاہتا ہے۔

         حضورﷺ کو سرتاج الانبیاء،نبیٔ آخر الزماں،رحمت اللعالمین،وجۂ تخلیقِ کائنات جیسی لفظیات کے حوالے سے عقیدتاً یاد کیا جاتا ہے۔تاہم جب کوئی نعت گو ان کے صفات بیان کرتا ہے تو کسی خاص موضوع تک محدود نہیں رہتا۔آنحضرت کی تعلیمات،آپ کا کردار و سیرت،اخلاق و عادات، وغیرہ کا تذکرہ حدیث و قرآن کی روشنی میں کرنے کی کوشش تمام زبانوں کے شعراء کرام نے اپنی نعت گوئی میں کی ہے۔

         جب کوئی شاعر نعت کہتا ہے تو آ نحضرت کے اندامِ مبارک،لباس،رہن سہن اور اہم لوزمات کا تذکرہ کرتا ہے۔اور دو اہم مراکز مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا ذکر بھی موقع بہ موقع کرنے سے نہیں چوکتا۔ان دونوں مراکز کی سر زمین آب و ہوا،بہار و فضا،خاک و اشجار،کلی کوچوں اور بعض دیگر متبرک اشیاء کا تذکرہ بھی بر محل ہوتا ہے۔زیر نظر مضمون میں مدینہ منورہ کی اصطلاح کے پیش نظر گفتگو مقصود ہے۔تاہم مذکورہ موضوعات کے تناظر میں سب سے پہلے مرزا غالب اسکول کے ایک شاعر یوسف علی خاں عزیزؔ کے نعتیہ اشعار پیش کرنا چاہوں گا،جو آگاہ دہلوی کے شاگرد تھے۔

یہ پاؤں ہوں اور دامنِ صحرائے مدینہ            یہ ہاتھ ہوں اور دامنِ مولائے مدینہ

اے چشم ِ تصور مجھے اتنا تو دکھا دے               جس سمت نظر جائے نظر آئے مدینہ

اللہ رے کس رتبہ کی ہے جائے مدینہ            ہے عرش کے دل میں بھی تمنائے مدینہ

فردوس سے اعلیٰ درجۂ گلشنِ طیبہ                طوبیٰ سے فزوں رتبہ شجر ہائے مدینہ

رشکِ فلک العرش ہے وہ روضۂ عالی              اعلیٰ ہے بہت گنبدِ خضرائے مدینہ

         بہزادؔ لکھنوی جنھیں میدان نعت گوئی میں اس لئے مقبولیت حاصل ہوئی کہ انھوں نے ہر ایک موضوع کو سلیقہ سے اپنی نعت میں سمو کر پیش کیا ہے۔اپنی ایک نعت میں ذکر ِ مدینہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں،

مدینے کو جائیں یہ جی چاہتا ہے          مقدّر بنائیں یہ جی چاہتا ہے

مدینے کے آقا، دو عالم کے مولا         تیرے پاس آئیں یہ جی چاہتا ہے

پہنچ جائیں بہزادؔ جب ہم مدینے میں     تو خود کو نہ پائیں یہ جی چاہتا ہے

         جگرؔ مراد آبادی سے متعلق ایک روایت زبانی چلی آ رہی ہے کہ اجمیر شریف کے ایک آل انڈیا نعتیہ مشاعرے میں کمیٹی کے اراکین نے انھیں مد عو کرلیا۔لیکن اہل اجمیر نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ جگرؔ بغیر شراب پئے مشاعرہ نہیں پڑھتے ،ہمیں یہ گوارہ نہیں کہ ایک شرابی ،حضورِ اکرمؐ کی تعریف میں مئے نوشی کی حالت میں کرے۔جگرؔ کو بھی اپنے کردار پر ندامت ہوئی۔اور یہ اعلان کیا کہ اگر اسی وقت شراب چھوڑ دوں تو؟اس پر سب نے ایک آواز میں کہا ’’لبّیک‘‘۔اور پھر جونعت رو رو کر جگرؔ نے پڑھی ہے وہ مشہورِ زمانہ ہوگئی۔اس نعت سے چند اشعار ملاحظہ کریں،

ایک رند ہے اور مد حتِ سلطان مدینہ             ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطانِ مدینہ

تو صبحِ ازل آئینہ حسنِ ازل بھی                   اے صلِّ علیٰ صورتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تیری گلیوں کے تصدّق          تو خلد ہے تو جنتِ سلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت        دیکھوں میں درِ دولت سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا دردِ شفاعت                  دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ؎

کچھ اور نہیں کام جگرؔمجھ کو کسی سے               کافی ہے بس اک نسبتِ سلطان مدینہ

         شکیل بدایونی کو بحیثیت غزل گو اور فلمی نغمہ نگار شہرت ملی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے جو نعتیہ تخلیقی یادگاریں چھوڑی ہیں ان کی اہمیت اردو کے نعتیہ ادب میں مسلّم ہے۔ذکر ِ مدینہ کے تعلق سے ان کی نعوت سے دو مثالیں پیش خد مت ہیں،

مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں         درِ خیر الورا ہے اور میں ہوں

مری ہستی ہے اور خاکِ مدینہ          جنوں کی انتہا ہے اور میں ہوں

شکیل ؔ اپنے سخن پر کیوں نہ ناز ہو        ثنائے مصطفیٰ ہے اور میں ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت ہی نہ آ جائے کاش ایسے جینے سے            عاشقِ نبی ہو کر دور ہوں مدینے سے

اے حسین بطحا ،سن ہے یہی خوشی میری          عمر بھر لگا کرکھوں تیرے غم کو سینے سے

آنکھ بند کرتے ہی ہم تو اے شکیلؔ اکثر             چل دئے مدینے کو آگئے مدینے سے

         حمیدؔ لکھنوی نے مختلف طریقوں سے اپنی نعوت کے توسط سے اپنا نذرانۂ عقیدت بحضور محسن انسانیت ﷺ پیش کیا ہے۔جب ان کا مجموعہ کلام ’’گلبانگِ حرم‘‘(نامی پریس،لکھنو،۱۹۳۴ء)منظر عام پر آیا تو اس پر مولانا عبدالماجد دریا بادی،علامہ سلیمان ندوی،جگر مراد آبادی،امجد حیدرآبادی،مناظر احسن گیلانی،پروفیسر رشید احمد صدیقی،اور شہید انصاری فرنگی محلی جیسی با برکت شخصیات نے تقاریظ اور تبصرہ جات سپرد قلم کئے تھے۔اس مجموعے میں متعدد ایسی تخلیقات ہیں جو فضائے مدینہ و ارضِ مدینہ کے موضوع پر انفرادیت رکھتی ہیں۔یہاں بطور نمو نہ چند مثالیں اس مجموعے سے ملاحظہ کیجئے،

نہ ذکرِ نبی ہے نہ یادِ مدینہ               یہ جینا بھی ہے کوئی جینے میں جینا

جو ہو نورِ عرفاں سے معمور سینہ         تو بن جائے یہ کعبۂ دل مدینہ

وہ کیا خوب ہوگا مبارک مہینہ          کہ جب میرا رخ ہوگاسوئے مدینہ

حمیدؔ اڑ کے پہنچے دیارِ نبی میں            بحقّ ِدرِ حضرتِ شاہ مینا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الٰہی نظر میرے ذوقِ طلب پر          مدینے کو پھر دیکھنا چاہتا ہوں

حمیدؔ اور کوئی تمنا نہیں ہے              دیارِ حبیبِ خدا چاہتا ہوں

۔۔۔۔۔۔

مدینے کی ہر رات یاد آرہی ہے          وہ ہر شے،وہ ہر بات یاد آ رہی ہے

سبب میرے رونے کاکیا پوچھتے ہو      مدینے کی برسات یاد آ رہی ہے

وہ اہلِ مدینہ کی مہمان نوازی           وہ خاطر مدارات یاد آ رہی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھینی بھینی پھرشمیمِ جانفزا آنے لگی              ٹھنڈی ٹھنڈی پھر مدینے کی ہوا آنے لگی

کیوں نہ ہو اپنا مشامِ جاں معطّر اے حمیدؔ           باغِ طیبہ سے نسیمِ دلکشا آنے لگی

         حضرت اکبر وارثی ان شعراء میں ہیں جنھوں نے عاشق رسول کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ان کی متعدد تخلیقات اس سلسلے میں پیش کی جا سکتی ہیں ۔زیر نظر موضوع سے متعلق ان کا قصیدہ بعنوان ’’قصیدہ مدینہ شریف‘‘سے چند اشعار پیش ہیں۔

ہے مرنے پہ بھی آرزوئے مدینہ                 مری خاک ہو خاکِ کوئے مدینہ

نہیں بھاتیں واعظ مجھے اور باتیں                 کئے جا فقط گفتگوئے مدینہ

گریباں میں منھ اپنا ڈال کر دیکھے                 ہے فردوس کیا رُوبروئے مدینہ

ہے دل تیرے صدقے نظرتیرے قرباں        حبیبِ خدا ماہِ روئے مدینہ

مبارک ہو لے کر مجھے کس ادا سے               مدینہ چلی آرزوئے مدینہ

دکھا بلبل روحِ اکبرؔ کو یا رب                     بہار گلستانِ کوئے مدینہ

         علامہ شارقؔ ایرا یانی مرحوم نے بھی نعت گوئی میں خوب طبع آزمائی کی ہے ۔جب آپ حضور اکرم کو سلام پیش کرتے ہیں تب بھی ذکرِ مدینہ کا پہلو نکل آتا ہے۔آپ کے تخلیق کردہ سلام’’محبوب کبریا سے میرا سلام کہنا‘‘کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے،اسی سے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں،

تجھ پر خدا کی رحمت اے عازمِ مدینہ              نور محمدی سے روشن ہو تیرا سینہ

جب ساحلِ عرب پر پہنچے تیرا سفینہ              اُس وقت سر جھکا کر للہ با قرینہ

سلطانِ انبیاء سے میرا سلام کہنا

ہو جانبِ مدینہ جب کارواں روانہ                صلّی علیٰ محمد کا لب پہ ہو ترانہ

وردِ زباں ہو جس دم اشعارِ عاشقانہ               جب رحمتِ خدا کا لٹنے لگے خزانہ

سرچشمۂ عطا سے میرا سلام کہنا

         مرحوم شاداںؔ اندوری کو ہر صنف میں شعر گوئی پر قدرت حاصل تھی،یہاں ان کی نعت گوئی اور تذکرہ مدینہ سے متعلق ایسی نعت ہدیۂ ناظرین کی جا رہی ہے جو زبان و بیان اور عقیدت و محبت کا بہترین سنگم ہے۔مثلاً

پڑے ہوئے ہیں سرِ رہگزر مدینے میں             ہزاروں شمس، ہزاروں قمر مدینے میں

جوابِ خلد ہیں سب بام و در مدینے میں           سنور گیا میرا ذوقِ نظر مدینے میں

سمندروں سے رکوں گانہ کوہ و صحرا سے           بلائیں گے جو شہِ بحر و بر مدینے میں

ستالے جتنا بھی جی چاہے اے غمِ دوراں          نکال لوں گا میں ساری کسر مدینے میں

میرا نصیب مجھے دن دکھائے وہ شاداںؔ            پڑھوں میں نعت نبی عمر بھر مدینے میں

         خمار بارہ بنکوی نے اپنی نعتیہ شاعری کو تغزل کے رنگ و آ ہنگ میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا ہے کہ اہلِ علم و ادب کے منھ سے بے ساختہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں،گویا:

میں نے جو چھیڑی نعتِ رسول         چھا گئے بادل کھل گئے پھول

بات مدینے جیسی کہاں                کون کرے فردوس قبول

پیش نظر روضہ ہو خمارؔ                 اور پڑھوں میں نعت رسول

         جدید شاعری میں اپنا انفرادی مقام ومرتبہ رکھنے والے ڈاکٹر بشیر بدر کے یہ اشعار جو حمد و نعت سے متعلق ہیں،اس لئے قابل توجہ ہیں کہ موصوف نے اللہ سے کیا خوب مطالبہ کیا ہے،

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے            کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

میں اشکوں سے نامِ محمد لکھو            قلم چھین لے روشنائی نہ دے

مجھے ایسی جنت نہیں چاہئے             جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے

         علامہ سیماب اکبر آبادی نے جس صنف سخن کو چھوا اسے کندن بنا دیا۔مذہبی شاعری کے ذیل میں آپ نے حمد،نعت،منقبت،مرثیہ،نوحہ اور سلام وغیرہ میں ایسے جوہر دکھائے کہ جس کی مثالیں مذکورہ اصناف کو اعتبار اور استحکام بخشتے ہیں۔نعت گوئی میں بھی علمائے وقت نے سیمابؔ اکبر آبادی کا لوہا مانا ہے۔ایک نعت شریف سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،

پیام لائی ہے باد صبا مدینے سے                   کہ رحمتوں کی اٹھی ہے گھٹا مدینے سے

حساب کیسا نکیرین ہو گئے بے خود                جب آئی قبر میں ٹھنڈی ہوا مدینے سے

فرشتے سینکڑوں آتے ہیں اور جاتے ہیں           بہت قریب ہے عرشِ خدا مدینے سے

خدا کے گھر کا گدا ہوں فقیرِ کوئے نبی             مجھے تو عشق ہے مکّے سے یا مدینے سے

         مذکورہ جائزے کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نعت گوئی کے تناظر میں ذکرِ مدینہ متنوع موضوع ہے۔جس پر ہر شاعر نے اپنے مخصوص اسلوب میں اظہار خیال کیا ہے۔اور خوش گوار حیرت تب ہوئی کہ کسی کا خیال کسی کے خیال سے ٹکراتا ہوا نظر نہیں آیا۔اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں محض مقصدِ شعر گوئی نہیں بلکہ جذبۂ عشقِ رسول کی فضا ہموار نظر آتی ہے۔بقول اقبال،

خیرہ نہ لگا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ                  سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

***

Leave a Reply