ابن مریم
جمال پورہ مؤ ناتھ بھنجن یوپی
ارودو میں خواتین کی خاکہ نگاری ایک جائزہ
انسانی شخصیت کو میزان پر تولنے کے فن کو اگر خاکہ نگاری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کے ذریعہ شخصیت کے تقریباً ہر ایک پہلو کا مطالعہ کیا جاتا ہے مختلف زاویوں سے مطالعہ کرنے کا فن ہوتا ہے۔ ظاہری کیفیات کا اندازہ تو بخوبی لگایا جا سکتا ہے لیکن باطن میں چھپے ہوئے شخص کا مطالعہ دیر پا اور نا مکمل بھی ہو سکتا ہے۔باطنی خصوصیات کا جائزہ اس شخص کے فکری اور فنی خیالات و احساسات اس کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان تمام پیمانوں کو اکٹھا کر کے محققین اور ناقدین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار شخصیت کے خصوصی دائرے میں کیا ہے۔
اردو کی غیر افسانوی نثری صنف میں خاکہ نگاری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ دیگر نثری اصناف کی طرح اس نے بھی بہت کم عرصے میں اپنی جڑوں کو مضبوط کیا ہے اور دل کشی کے مختلف نمونے پیش کیے ہیں۔ سوانح کی طرح خاکے میں شخصیت کی تخصیص نہیں ہوتی۔ سوانح میں عموماً قابل ذکر شخصیتوں کو ہی موضوع قلم بنایا جاتا ہے۔ سوانح نگار کی زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ کو تفصیلی و اجمالی طور پر ضبط تحریر میں لایا جاتاہے جب کہ خاکہ نگاری کو کسی بھی معمولی یا غیر معمولی انسان کی زندگی میں کوئی ایسی خوبی یا اچھائی نظر آ جائے، جو اسے لکھنے کے لیے مجبور کر دے تو خاکہ نگار اسے صفحہ قرطاس پر اتار دیتاہے۔ خاکے میں افسانہ و غزل کی طرح اشارے و کنائے سے کام لیا جاتا ہے
غیر افسانوی نثر کی ایک اہم اور مستقل صنف خاکا ہے اس میں خاکا نگار کسی بھی شخصیت کی خوبیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر بیان کرتا ہے۔بیشتر لغات میں خاکہ کے مغنی ‘خد وخال کی نقل جو اصل سے مشابہ یعنی تصویر کا ڈھانچہ یا چربہ’ بیان کئے گئے ہیں۔ خاکہ کے لئے انگریزی میںsketch کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ادبی اصطلاح میں خاکہ کسی شخصیت کی قلمی تصویر کو کہتے ہیں۔ اس قلمی تصویر میں خاکہ نگار طنز وظرافت کے پیرائے میں زیرِ قلم شخصیت کی اچھائیوں اور برائیوں کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار خاکہ نگار اس اندازے سے کرتا ہے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ یہ محض تعریفی تحریر ہے یا تضحیکی۔دراصل خاکا نگار اسی شخصیت کا خاکا قلمبند کرتا ہے جسے بہت قریب سے جانتا ہے۔جس کی ہر نقل و حرکت کا اسے علم ہوتا ہے۔کیونکہ کاغذ پر الفاظ کے ذریعہ اتاری گئی بولتی تصویر ہی کو خاکہ کہتے ہیں۔ عام طور پر خاکہ نگار خاکہ نگار ابتدا میں شخصیت کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔پھر مختلف واقعات کو جوڑ جوڑ کر شخصیت کے محاسن و مصائب بیان کرتے ہیں۔اس طرح اس شخص کی چلتی پھرتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ خاکہ میں خاکہ نگار کا اسلوب نگارش یا انداز بیان ہی اہم ہوتا ہے۔کسی شخص کی صورت و سیرت کو الفاظ کا ایسا پیکر عطا کرنا کہ آنکھوں کے سامنے ہو بہو اس کی تصویر ابھر آئے خاکہ نگار کی کامیابی ہے۔
خاکا نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔ایجاد اختصار اس کی بنیادی شرط ہے۔خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجا گر ہو جاتی ہیں اور جیتی جاگتی تصویر قاری کے پیش نظر ہوجاتی ہے۔اردو میں باقاعدہ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ کے ‘نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی’ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جن ادیبوں نے بھی خاکے لکھے اُن میں آغا حیدر حسن،مولوی عبد الحق، خواجہ محمد شفیع،سید عابد حسین،سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، عبد الرزاق کانپوری، رشید احمد صدیقی، فکر تونسوی، اشرف صبوحی،رئیس احمد جعفری،شاہد احمد دہلوی، اخلاق احمد دہلوی،یوسف ناظم،مجتبٰی حسین و غیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ چند خواتیں خاکا نگاریں ہیں اس میں عصمت چغتائی،صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ خاکہ نگاری کی روایت میں یہ چار خواتیں یعنی عصمت چغتائی،صالحہ عابد حسین،رضیہ سجاد ظہیر،قرۃ العین حیدر اپنے اپنے فنی کمالات دکھائے ہیں۔وہ لوگ اپنے عہد کے معروف شخصیات کے خاکے لکھے وہ سب قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ چند خواتیں خاکانگاریں ہیں۔ ان لوگوں کی ادبی خدمات بالخصوصاً خاکا نگاری اس مقالہ میں بحث کیے ہیں۔
کیونکہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے۔ خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اس طرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں و خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں اور ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں دوڑنے لگتی ہے۔خاکے کی دلکشی کا راز یہ ہے کہ جس کا خاکہ لکھا جائے اس کی کمزوریاں قاری کے دل میں نفرت کے بجائے ہمدردی و محبت پیدا کر دیں اور خاکہ پڑھ کر وہ بے ساختہ کہے کہ کاش اس شخص میں یہ کمزوریاں بھی نہ ہوتیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے ‘‘نام دیو مالی’’ اور رشید احمد صدیقی نے ‘‘کندن’’ پر خاکہ لکھ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خاکے کا موضوع عظیم شخصیتیں ہی نہیں معمولی انسان بھی ہو سکتے ہیں۔ اچھا برا، چھوٹا بڑا، امیر غریب، خوب صورت، بد صورت ہر طرح کا انسان خاکے کا موضوع بن سکتاہے۔ بشرطیکہ خاکہ نگار نے ہر رنگ و روپ میں اس کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خاکہ نگار امیجری، پیکر تراشی اور مردہ جسم میں روح ڈالنے کے فن سے واقف ہو۔ عموماً خاکہ نگاروں نے ایسی شخصیتوں پر لکھا ہے، جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
خاکہ کو شخصی مرقع یا شخصیہ بھی کہتے ہیں اور خاکہ نویسی کو شخصیت نگاری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک اچھے خاکے میں ہم کسی شخص کے بنیادی مزاج، اس کی افتاد طبع، انداز فکر و عمل اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہوتے ہیں۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے، جس کے لیے خاکہ نگار کی قوت مشاہدہ، فہم و ادراک اور غیر جانبداری کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اور پُر اثر اندازِ بیان کا حامل ہونا ضروری ہے۔خاکہ کسی فرد یا شخص کی مکمل زندگی کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اس کی نمایاں خصوصیات کا اظہار لیے ہوتا ہے۔ خاکہ نگار عموماً شخصیت کی زندگی کے ان گوشوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے، جو نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور بسا اوقات کئی شخصیت انھیں خود بھی چھپا کر رکھتی ہیں لیکن ایک اچھے خاکے کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ شخصیت کے محاسن و معائب کو ناقدانہ رویے کے بجائے ہمدردانہ رویے کے طفیل ہر طرح سے سامنے لے آئے، کیوں کہ خاکہ میں بنائی جانے والی تصویر کی اصل شخصیت سے مطابقت ضروری ہوتی ہے، اگر تصویر اصل شخصیت سے ذرا سی بھی مختلف ہوگی تو خاکہ ناقص قرار پائے گا۔ خاکہ صرف اس شخصیت کا لکھا جاسکتا ہے، جس کی شخصیت سے خاکہ نگار کو کسی طرح کی دلچسپی ہو۔ خاکہ کسی پر بھی لکھا جاسکتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، تاجر ہو یا آمر، استاد ہو یا شاگرد، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، پروفیسر ہو یا چپراسی، ولی ہو یا ظالم وغیرہ۔
اردو میں باقاعدہ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ کے ‘نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی’ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جن ادیبوں نے بھی خاکے لکھے اُن میں آغا حیدر حسن،مولوی عبد الحق، خواجہ محمد شفیع،سید عابد حسین،سعادت حسن منٹو، شوکت تھانوی، عبد الرزاق کانپوری، رشید احمد صدیقی، فکر تونسوی، اشرف صبوحی،رئیس احمد جعفری،شاہد احمد دہلوی، اخلاق احمد دہلوی،یوسف ناظم،مجتبٰی حسین و غیرہ شامل ہیں۔
یہاں یہ صراحت بھی ضروری ہے کہ جہاں ایک طرف اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں مردوں کی ایک لمبی فہرست ہے، وہیں اس صنف خاکہ کو چند خواتین خاکہ نگار کو ایک نئی سمت اور رفتار، وقار و بلندی سے روشناس کرانے اور پرچم لہرانے کا کام کیا ہے۔ ان میں قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، صغرا مہدی، جیلانی بانو، بیگم انیس قدوائی، صالحہ عابد حسین، عفت آراء، پروفیسر شمیم نکہت، ادا جعفری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ عصمت چغتائی نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ‘دوذخی’ کے نام سے لکھا اور اس کی ادبی و علمی اہمیت و عظمت آج بھی دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ہے۔
قرۃ العین حیدر نے چند ہی خاکے لکھے مگر ان کے خاکوں میں ان کی عالمانہ و دانشورانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ ملتا ہے۔ صالحہ عابد حسین نے کئی شاہکار اور دلچسپ خاکے لکھے۔ جو آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ ہند و پاک کی کئی نامور خواتین نے نہایت ہی خوبصورت اور دلکش خاکے لکھے ہیں۔ میں یہاں بطور خاص ایک ایسی خاتون خاکہ نگار کا تذکرہ کرنا ضروری تصور کرتی ہوں جن کا نام عفت آرا ہے۔ آپ عالمی شہرت یافتہ اردو و انگریزی کے ادیب و ناقد پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی صاحبزادی ہیں اور آپ کا تعلق بھی شعبہ انگریزی سے رہا ہے اور اب سبکدوش ہوچکی ہیں۔
عصمت چغتائی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔وہ بدایوں میں ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئیں۔عصمت کی انتقال کا انتقال بمبئی میں ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو ہوا۔عصمت کی عرف چنّی بیگم تھی۔ان کا والد کا نام مرزا اقسیم بیگ تھا اور والدہ کا نام نصرت خانم تھی۔عصمت کے والدیں کی بارہ اولاد ہوئی تھیں جن میں دوکا انتقال بچپن ہی میں ہوگیاتھا عصمت دسویں اولاد تھیں۔عصمت کے نانا مرزا امراؤ علی مشہور ناول نگار تھے۔عصمت کے بڑے بھائی عظیم بیگ چغتائی مشہور طنز م مزاح نگار تھے۔ شریر بیوی،کولتار،خانم اور قرآن اور پردہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔عصمت نے دوزخی کے عنوان سے جو خاکہ لکھا ہے وہ اسی بھائی یعنی عظیم بیگ چغتائی کاخاکہ ہے۔عصمت نے ابتدائی تعلیم آگرہ میں حاصل کی تھیں اور بچپن جودھ پور میں گزرا تھا۔ عصمت نے ہائی اسکول اور ایف اے علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے عبداللہ گرلز کالج سے پاس کیا تھا۔بی اے لکھنوسے اور بی ٹی علی گڑھ سے پاس کیا تھا۔وہ اسلامیہ گرلس اسکول بریلی میں ہیڈ مسٹریس ۷۳۹۱ء میں ہوئی تھیں۔انسپکٹر آف اسکولس کی حیثیت سے بمبئی ۱۹۴۲ء میں گئی تھی۔عصمت کی شادی ۱۹۴۲ء کو شاہد لطیف سے ہوئی تھی جس سے دو بیٹیاں سیما اور منی پیدا ہوئی تھیں۔عصمت کو روسی ناول اور افسانے سے گہری دلچسپی رہی تھی ان کا محبوب افسانہ نگار چیخوف تھا۔ہندو ستانی ادیبوں میں پریم چند،رشید جہاں اقبال اور ٹیگور سے بے حد متاثر تھیں۔
عصمت نے اپنے ادبی زندگی کی ابتدا ڈراما نگاری سے کی تھی اور ان کی پہلی تحریر ان کا ڈراما ‘فسادی’ تھا جو ۱۹۳۸ء میں ساقی میں شائع ہوا تھا۔ عصمت جارج برناڈشاہ کے ڈراموں سے متاثر تھیں۔ عصمت کا پہلا مطبوعہ افسانہ ‘کافر ۱۹۳۸ء’اور پہلا مطبوعہ ناول ضدی ۱۹۴۱ء ہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘کلیاں ۱۹۴۱ء’ ہے۔ عصمت کی پہلی فلم ‘چھڑ چھاڑ’ہے۔وہ فلم ‘جنون’میں خاص رول ادا کیا تھا جنون کی کہانی ۱۹۸۷ء کے عوامی انقلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کو فلم ‘گرم ہوا’ کی کہانی لکھنے پر بہتریں کہانی کارکا ایوارڈ ملا تھا۔ عصمت کا پہلا مضمون ‘بچپن’ہے۔عصمت پر افسانہ لحاف کے لیے فحاشی کا الزام ۱۹۴۲ء میں لگایا گیا تھا اور مقدمہ چلا تھا۔عصمت نے جنسی موضوعات سے ہٹ کر واقعات کربلا پر ایک ناول ‘ایک خطرہ خون’ لکھا تھا۔عصمت نے وصیت کی تھی کہ انتقال کے بعد ان کو دفن کرنے کے بجائے نذر آتش کر دیا جائے۔عصمت کے فکشن کا موضوع متوسط مسلمان گھرانوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کی زندگی ہے۔ ان کو ناول ‘ٹیڑی لیکر’ پر غالب ایوارڈ ۱۹۷۴ء میں ملا تھا۔اس کے علاوہ سودیت لینڈ نہرو ایوارڈ،پدمشری، مخدوم لٹریری ایوارڈ،اقبال سمان وغیرہ ملا تھا۔ ضدی،معصومہ،عجیب آدمی،تین اناڑی،کاغذی ہے پیرہن،سودائی،جنگلی کبوتر،ایک قطرہ خون،ٹیڑھی لیکر،دل کی دنیا،باندی،نقلی رجکمار وغیرہ ان کے اہم ناولیں ہیں۔کلیاں،چوٹیں،ایک بات،چھوئی موئی،دوہاتھ،شیطان،بدن کیخوشبو،دھانی بانکپن،امر بیل،تھوڑی سی پاکل،آدھی عورت آدھا خواب،دوزخی وغیرہ ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔‘بمبئی سے بوپال تک’ یہ ان کے مشہور رپوتاژ ہے۔
عصمت نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ‘دوزخی’ کے عنوان سے لکھا ہے۔اس خاکے کا شمار اردو کے بہترین خاکوں مییں ہوتا ہے۔اس خاکے کا طرز اسلوب بہت دلچسپ ہے۔اس میں انھوں نے قول محال کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ ایک بچپن سے بیمار شخص کیسے نفسیاتی طورپر اذنت پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ان کا طرز اسلوب ایسا ہے کہ اس کے کردار کی تمام تر خامیوں اور انسانی کمزوریوں کے باوجود وہ قاری کے دل میں محبت و ہمدردی کا جزبہ کر لیتاہے۔‘نئے ادب کے معمار’کے تحت عصمت نے مجاز کا خاکہ لکھا ہے یہ بھی ان کے یاد گار خاکہ ہے۔اس کے علاوہ منٹو،پطرس،خواجہ احمد عباس اور جانثار اختر پر بھی خاکے لکھے ہیں۔
خاکہ نگار کی روایت میں خواتین قلم کاروں میں عصمت چغتائی کے بعد اہم نام صالحہ عابدحسین کی ہے۔وہ ناول اور افسانہ نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری میں بھی اپنے فنی کمالات دکھائے ہیں۔مولانا الطاف حسین حالی کی ایک نواسی مشتاق فاطمہ جن کی شادی خواجہ غلام الثقلین سے ہوئی تھی۔ان دونوں ایک بیٹی تھیں جن کا نام تھا مصداق فاطمہ تھا۔ یہ مصداق فاطمہ صالحہ عابد حسین نام سے مشہورہے۔وہ ۱۹۱۳ء کو پانی پت،پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ا ن کے بھائیوں بھی بہت مشہور ہیں ایک ماہر ِ تعلیم خواجہ غلام السیدین اور دوسرا بھائی مشہور ادیب،افسانہ نگار،اور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس ہے۔صالحہ عابدہ حسین نے ادب فاضل اور میڑک کا امتحان پنجاب یونورسٹی سے کیا۔۱۹۳۳ء کو بیس برس کی عمر میں ان کی شادی ڈاکٹر سید عابد حسین سے ہوئی۔شادی کے بعد انہوں نے اپنے بھائی غلام السیدین اور اپنے شوہر عابد حسین کے ساتھ ملکر اردو ادب کا مطالعہ کیا اپنی محنت اور ذاتی دلچسپی سے اپنے مطالعہ کو بامِ ِ عروج تک پہنچایا۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان،نئی دہلی کے مرتب کردہ جامعہ انسائیکلوپیڑیا میں میں تحریر ہے کہ ‘صالحہ عابد حسین’نے آٹھ ناول لکھے ہیں جن میں عذرا،آتشِ خاموش،راہ عمل،قطرہ سے گُہر ہونے تک،یادوں کی چراغ،اپنی اپنی صلیب،الجھی ڈور،گوری سوئے سیج پر اور ساتواں آنگن شامل ہیں۔صالحہ عابد حسین نے دو جلدوں میں ‘انیس کے مرثیے’ مرتب کیے ہیں۔نراس میں آس، دردودرماں،تین چہرے تین آوازیں،سازِ ہستی اور ٹونگے ان کے مجموعوں کے نام ہیں۔اس کے علاوہ ‘نقشِ اوّل’ کے نام سے ان کی کہانیوں اور دراموں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔انہوں نے اپنے سفر نامہ ‘سفر زندگی کے لئے سوز وساز’ بھی لکھاہے۔بچوں کے لئے بھی چند تحریر کیے ہیں ان میں حالیؔ،بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے،امتحان اور بنیادی حق وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ترجمہ بھی کئے میں ان میں کثرت میں وحدت،باپو،بڑا پاپی:مجمودار وغیرہ شامل ہیں۔انہوں نے پچاس زیادہ کتابیں لکھیں۔صالحہ عابد حسین بیک وقت مصنفہ،مترجمہ،سوشل ورکر اور تعلیم ِنسوان کی علمبردار بھی تھیں۔ان کی مختلف کتابوں کو ہندوستان کی مختلف اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔ہندوستانی حکومت کا پدم شری ایوارڈ تفویض کیا گیا۔وہ۱۹۸۸ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔
صالحہ عابد حسین نے ناول اور افسانہ نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری میں بھی اپنے فنی کمالات دکھائے ہیں۔‘جانے والوں کی یاد آتی ہے’اور ‘بزم دانشوراں’ ان کے خاکوں کے مجموعہ ہیں۔وہ اپنے عہد کی معروف شخصیات کے خاکے لکھے،جن میں خواتیں بھی شامل ہیں۔ ان کی زبان سادہ و سلیس اور انداز مخلصانہ ہوتا ہے۔ خواتین سے متعلق خاکوں میں ان کی نسائی حسیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔وہ ان خاکوں میں مختلف حوالوں سے عورت کی عظمت کو پیش کرتی ہیں۔وہ اندرا گاندھی کے بارے میں بھی خاکہ لکھا۔
رضیہ سجاد ظہیر بھی خواتیں خاکا نگاروں میں مشہور ہے۔وہ ۱۹۱۷ء کو اجمیر،راجستھان میں خان بہادر سید رضا حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئیں،جو اجمیر اسلامیہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ان کے دادا سید امام حسین آثم صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ وہ لوگ تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے منسلک ایک روشن خیال ماحول کے پروردہ تھے،لہذا رضیہ سجاد ظہیر کو بھی تعلیم کیے لیے کسی جدو جہد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انہوں نے میٹرک۔ایف اے اور بی اے تک کی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی۔ پھر شادی کے بعد الہ آباد یونورسٹی سے ایموا۔اے کی ڈگری فرسٹ ڈویژن سے حاصل کی۔ ان کو تین بھائیوں اور دو بہنیں تھیں۔ ان کا نام شادی سے قبل رضیہ دلشاد تھا۔۱۹۳۸ء میں ۱۲ برس عمر میں سجاد ظہیر سے شادی کے بعد رضیہ سجاد ظہیر بن گئیں۔
رضیہ سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر کی شریک حیات تھیں۔ان دونوں کے مزاج اور دہنیت یکساں تھے۔رضیہ سجاد ظہیر بھی ترقی پسند ادیبوں کے صفِ اوّل میں شمار کی جاتی تھیں وہ اشتراکی خیالات کی ہمنوا تھیں اور ان کے افسانوں کی کردار بھی اسی ہمنوائی کے مرہوں ن منت تھے۔رضیہ سجاد ظہیر نے شادی کے قبل بھی چھوٹی موٹی تحریریں رقم کیا کرتی تھیں شادی کی بعد ان کے قلم کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔پھول،تہذیب نسوان، اور عصمت و غیرہ رسالوں میں ان کے افسانہ شائع ہوتے رہے۔ انہوں نے افسانے،ناول،ناولٹ تحریر کرنے کے علاوہ بے شمار کتابوں کے ترجمے کیے ہیں۔ انکی مشہور ناولٹ‘سرشام’ ۳۵۹۱ء میں شائع ہوا۔ناول ‘کانٹے’اور ‘سمن اور ‘اللہ میگھ دے’ اور ان کے خطوط مجموعہ نقوش زندان میں شائع ہوا۔ ۹۸۹۱ء کو دہلی میں وفات ہوئی۔ان کی وفات کے بعد ان کی صاحب زادی نور ظہیر نے ان کے افسانوں کے دو مجموعوں کی صورت میں شائع کیا گیا۔پہلا مجموعہ ‘زرد گلاب’ دوسرا ‘اللہ دے اور بندہ لے’کے عنوان سے شائع ہوا۔رضیہ سجاد ظہیر کو ہندوستان کی مختلف اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔
رضیہ سجاد ظہیر کے خاکوں میں سے اکثر کردار ایسے ہیں جنھیں ہم زبان ِ عام میں عام آدمی کہتے ہیں۔ان خاکوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر عام انسان میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہوتی ہے،لیکن اسے دیکھنے
اور سمجھنے کے لیے بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت درکار ہے جو رضیہ سجاد ظہیر میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ان کی انسان دوستی،روشن خیالی،وسیع النظری،انسان کو دولت،شہرت،طبقے،مذہب اور سماجی رتبے سے پرے دیکھتی ہے۔وہ انسانیت اور اعلٰی اقدار کو افضل تصور کرتی ہیں۔ ان کے خاکے نہایت سادہ اور دلکش ہوتے ہیں۔تکلف اور تصنع سے پرے یہ خاکے انسان کی ان بنیادی خصوصیات اور صاف پیش کرتے ہیں جو ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتے ہیں۔خاکوں میں اصحابِ خاکے سے ان کا خلوص اور وابستگی ان خاکوں میں موثر بناتی ہے۔ شرافت،نیل نفسی،قلندرانہ صفت،بے نیازی،وفاداری،جزبۂ ایثار،اپنے کام سے بے انتہا شغف،قناعت،بے لوث محبت،احساسِ ذمہ داری،وسیع النظری،فراخ دلی،دوسروں کے دکھ درد کا احساس،دردِ دل،احترامِ انسانیت جیسے اوصاف کے حامل ان کے خاکے انسان دوستی کے آفاقی تصور کو پیش کرتے ہیں۔ رضیہ سجاد ظہیر کی دو تصانیف ‘‘اللہ دے بندہ لے’’ اور ‘‘زرد گلاب’’ ایسی ہیں جن میں افسانے اور خاکے دونوں شامل ہیں۔رضیہ سجاد ظہیر کے خاکے مختصر مگر جامع ہوتے ہیں۔تاثراتی نوعیت ان خاکوں میں وہ شخصیت کی پہچان بن جاتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر اردو کی پہلی افسانہ اور ناول نگار ہیں جنھوں نے انگریزی فکشن کے جدید تریں ہیئتی تجربوں سے استفادہ کیا۔ ان کہانیوں میں جیمس جوائس اور ورجینا دولف کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔اپنی تخلیق میں وہ اعلٰی طبقے کی زندگی کو پیش کیا ہے۔اس لیے ترقی پسند ادیبوں کا طبقے قرۃ العین حیدر کو جاگیر داری معاشرے کا نمائندہ قرار دیتا تھا۔وہ رومانی نقطۂ نظر کی حامل تھیں۔اپنے ادبی سفر کی اغاز سات سال عمر میں ‘کارٹون’نامی کہانی لکھ کر کیا تھا جو رسالہ پھول کے سالنامے میں شائع ہوا تھا۔ قرۃ العین حیدر کا پہلا افسانہ ‘ایک شام ہے’جسے وہ طنزیہ اسکرپٹ کہتی ہیں۔فرضی نام لال رخ سے ‘ادیب’ ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا تھا۔دوسرا افسانہ ‘یہ باتیں’بنت سجاد حیدر یلدرم کے نام سے ‘ہمایوں’ میں شائع ہوا تھا۔تیسرا افسانہ ‘ادارے’ قرۃ العین حیدر کے نام سے ۱۹۴۴ء کے ‘ادیب’ میں شائع ہوا تھا۔میرے بھی صنم خانے،آگ کا دریا،آخری شب کے ہم سفر،کار جہاں درازے،گردش رنگ چمن،چاندنی بیگم یہ سب ان کے مشہور ناولیں ہیں۔ان کے سبھی ناولوں کے عنوانات بجز چاندی بیگم کسی نہ کسی شعر کے ٹکرے پر ہیں۔ناول کے علاوہ چند ناولٹ بھی ملتے ہیں ان میں سے سیتا ہرن،چائے کے باغ،ہاوسنگ سوسائٹی،اگلے جنم مو ہے بیٹا نہ کیجو،دلربا،فصل گل آئی یا جل آئی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔قرۃ العین حیدر نے کل گیارہ رپوتاژ لکھے ہیں وہ دو رپوتاژ مجموعے میں شامل ہیں جو مجموعے ‘کوہِ دماوند’او‘ر‘ستمبر کا چاند’ ہیں۔ستاروں سے آگے،شیشے کے گھر،پت جھڑ کی آواز،روشنی کی رفتار،جگنوؤں کی دنیا وغیرہ ان کے اہم افسانوی مجموعہ ہیں۔کلیات قرۃ العین حیدر کو تین جلدوں میں آئینہ جہاں کے نام سے جمیل اختر نے مرتب کیا ہے۔حکومتِ ہند ۱۹۹۰ء میں گیان ایورڈ سے نوازا گیا تھا۔اس کے علاوہ ہندوستان کی مختلف اردو اکادمیوں نے انعامات اور پدم شری اور پدم شری وغیرہ سے نوازا۔
قرۃ العین حیدر نے کچھ خاکے لکھے۔‘پکچر گیلیری’ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔پکچر گیلری میں چھہ خاکے ہیں۔جن میں سے سجاد حیدر یلدرم،داستان طراز(رودلوہ محمد علی)،مولانا مہر محمد خان،شہاب مالیر کوٹلوی،پکچر گیلری کی ایک تصویر(شاہد احمد دہلوی)،کچھ عزیز کے بارے میں چاند نگر کا جوگی(ابن انشاء)خاکے شامل ہیں۔خاکہ نگاری کی روایت میں یہ چار خواتیں یعنی عصمت چغتائی،صالحہ عابد حسین،رضیہ سجاد ظہیر،قرۃ العین حیدر اپنے اپنے فنی کمالات دکھائے ہیں۔وہ لوگ اپنے عہد کے معروف شخصیات کے خاکے لکھے وہ سب قابلِ ذکر ہیں۔
حوالہ جات
٭ اردو ادب میں خاکہ نگاری ۔ ڈاکٹر صابرہ سعید مکتبہ شعر و حکمت،حیدر آباد ۱۹۷۸
٭ خاکہ نگاری(فن و تنقید) ۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نزیر سنز پبلشرز ۲۰۱۳
٭ بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب۔ ترنم ریاض ساہتیہ اکادمی ۲۰۰۴
٭ آب حیات، محمد حسین آزاد، ص:۴
٭ نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی،مرزا فرحت اللہ بیگ، ص:۶
٭ دیباچہ گنجے فرشتے،سعادت حسن منٹو
***