You are currently viewing اشفاق احمد کا افسانوی مجموعہ’’ایک محبت سو افسانے‘‘:ایک جائزہ

اشفاق احمد کا افسانوی مجموعہ’’ایک محبت سو افسانے‘‘:ایک جائزہ

آصفہ زینب

ریسرچ اسکالرشعبۂ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

اشفاق احمد کا افسانوی مجموعہ’’ایک محبت سو افسانے‘‘:ایک جائزہ

عشق عربی زبان کا لفظ ہے۔عربی زبان میں گہری چاہت اور پیار ومحبت کے بلند تر درجے کو عشق کہتے ہیں ،جبکہ اس کی عقلی توجیہ کچھ اس طرح کہ عشق نام ہے بے لگام جذباتی تڑپ کا جو کسی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں ۔عشق نصب العین ہے جس کے حصول کے لیے انسان کسی مصلحت کا قائل نہیں رہتا ۔ کسی جسمانی آزار سے نہیں گھبراتا اور مشکلات کے ہجوم میں بھی کوہِ وَقار کی طرح ڈٹا رہتا ہے۔اس تڑپ کا تعلق مخصوص وجدان سے ہوتا ہے جبکہ انسانی شعورعشق کا متحمل نہیں کیونکہ انسانی شعور اپنی عملی صورت میں کسی نہ کسی قاعدے یا قانون کا پابند ہوتا ہے اور عشق ان تمام قواعد کا پابند نہیں۔

عشق کی دو اقسام ہیں ،عشق حقیقی اور عشق مجازی۔عشق مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل و جود یا کسی ایک حصے سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا جبکہ عشق حقیقی  محبوب کے وجود سے ماوراء ہوکر اس کی روح کا طالب بن جانا ہے،اس صورت میں محبوب کا وجود موجود ہونا لازم نہیں کیونکہ یہاں وجود کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔عشق کے اسی نظریے نے وحدت الوجودکا مسئلہ پیدا کیااور صوفیوں نے خدا کی ذات کے ساتھ اتحاد پیدا کرنا چا ہا،لیکن جسم کا اتحاد روح سے نہیں ہوتا بلکہ روح کا اتحاد روح سے ہوتا ہے اور خدا چونکہ ہمہ تن روح ہے اس لیے اس سے اتحاد پیدا کرنے کے لیے جسم کو فنا کرنا ضروری ہے۔صوفیوں کی’’ ریاضت‘‘ اور’’ مجاہدے‘‘کی بنیاد اسی نظر یہ عشق پر ہے۔

اشفاق احمد اردو ادب کے منفرد افسانہ نگار تھے،جنہیں اردواور پنجابی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا اور دونوں زبانوں میں لکھتے

تھے۔اشفاق احمدافسانہ نگار کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار،شاعر،مدیراورمترجم کی حیثیت سے اردو ادب میں متعارف ہوچکے ہیں لیکن دو حیثیتیں روشن ہیں ،ایک افسانہ نگار کی دوسری ڈرامہ نویس کی۔ان کی شخصیت میں دورنگ موجود تھے ایک اداسی اور تنہائی کا ،دوسرا ایک باغ و بہارطبعیت کا۔اداسی اور تنہائی کا تعلق اس محبت سے ہے جو اشفاق احمدکونوسال کی عمرمیں اپنی کزن غزالہ سے ہوئی اوراس کا احساس اشفاق احمدکواس وقت ہواجب غزالہ اشفاق احمدکے یہاں ایک ماہ کا عرصہ گزار کراپنے گھر واپس گئی۔ممتاز مفتی سے گفتگوکے دوران اشفاق احمداپنی اس محبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزالہ کی رفاقت کے یہ دن بڑے رونق افروز اور مسرت بخش تھے لیکن اس کے جانے کے بعد دفعتہ ایسا محسوس ہوا جیسے پورا گھر خالی ہوگیا ہو:

                  ’’گھر بالکل خالی ہوگیا ،بالکل ،اتنا خالی ہوگیا جیسے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔‘‘

          (الکھ نگری،ممتاز مفتی ص ۲۶۹)

اس محبت کو اشفاق احمدکی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا عکس ان کے افسانوں میں بھی موجودہے۔ان کے افسانوں میں رومانی جذبات کی جو تصویریں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ معصومیت سے بھر پور ہیں ۔ان افسانوں کے کردار بھی محبت کے احساس میں ہر دوسری چیز سے بے نیاز نظرآتے ہیں ۔

’’ایک محبت سو افسانے‘‘ ۱۹۲ صفحات پر مشتمل اشفاق احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ۱۹۵۱ء میں مکتبہ جدید ‘ سے لاہور نے شائع کیا۔اس مجموعے میں تیرہ افسانے شامل ہیں اور اس کا انتساب’ صاحب ‘کے نام ہے۔اس مجموعے کے تمام افسانوں میں انھوں نے ایک ہی موضوع  یعنی عشق و محبت کو منتخب کرکے اسے مختلف فضاؤ ں میں مختلف صورتیں اختیار کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ان کے افسانوں میں ایک فطری  محبت کی کار گزاری پائی جاتی ہے۔ان کاکوئی بھی افسانہ اس جذبے کی عکاسی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

                  محبت کی جو تصویریں ہمیں اشفاق احمدکے افسانوں میں ملتی ہیں ان کا رنگ عام محبت سے ذرا ہٹ کر ہے۔انھوں نے محبتوں کے ساتھ دبی ہوئی خواہشات کے اظہار میں کہیں رومانی فضا پیدا کی توکہیں ماضی کی حسین یادوں کے سہارے اپنے رومانی جذبات کو سامنے لاتے ہیں۔اس مجموعے میں شامل افسانوں میں ’’محبت‘‘ کا جذبہ قاری کو باطنی سطح پر سرشار کرتا ہے۔ان کے یہاں بنیادی نکتہ خیر اور نیکی کی فضا کو تعمیر کرنا ہے،اس لیے وہ افسانوں میں تحیر اور معصومیت سے بھی کام لیتے ہیں۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا محور عشق ومحبت ہے لیکن محبت کا تصور ان کے یہاں اتنا لطیف اور کثیرالجہت ہے کہ کہیں بھی یکسانیت یا اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ۔وہ محبت کو زندگی کی ایک اہم حقیقت کی شکل میں پیش کرتے ہیں اورتصوراتی دنیا آبادکرنے کے بجائے عملی زندگی ہی میں محبت کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے رومانی افسانوں میں بھی انتہا پسندی یا جذبات کی فراوانی کے بجائے محبت کا ایک صحت مند نقطۂ نظر ملتا ہے۔ان کی رومانی کہانیوں میں مسرت اور غم کا فنی امتزاج پایا جاتا ہے جو کہانی میں ایک خاص قسم کاتاثرپیداکردیتاہے۔’’توبہ‘‘،’’رات بیت رہی ہے‘‘،’’توتاکہانی‘‘،’’تنکہ‘‘،’’حقیقت نیوش‘‘،اور’’سنگ دل ‘‘ان کے کامیاب رومانی افسانے ہیں۔

وہ اپنے افسانوں میں محبت کے کسی ایک پہلو کو بیان نہیں کرتے بلکہ محبت کے سبھی رنگوں کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرتے ہیں ۔یہ محبت صرف مرد اور عورت کی محبت تک محدودنہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر رشتے میںاس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ان کے یہاں عشق کا یہ جذبہ سماجی اور اجتماعی نوعیت کا ہے۔اس میں انسانی قدروں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ زندگی کی پیچیدگیوں کا بھی گہرا شعور ملتا ہے۔افسانہ  ’’توتاکہانی‘‘ میں بھی رومانیت کا عنصر شامل ہے لیکن اس افسانے میں دوسرے افسانوں میں پیش کی گئی رومانیت سے الگ ہٹ کراس ازلی محبت کو پیش کیا گیا ہے جو عورت اور مرد کے درمیان ابتدائے آفرینش سے موجود ہے۔کہانی کے مرکزی کردار حامداور خجستہ اس جذبۂ عشق کی نمائندگی کرتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کی محبت میں قنوطیت،جنون یا دیوانگی کے بجائے ایک دوسرے کے لیے عزت کا جذبہ موجود ہے۔مثلاً،خجستہ اپنی رسوائی کے خوف سے موت کو اپنا لینا چاہتی ہے لیکن حامد خجستہ کی عزت کی حفاظت کی خاطر خود مینار کی بلندی سے نیچے کود جاتا ہے۔بظاہر یہ ایک عشقیہ کہانی ہے جس کو داستانی انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن کہانی کے غائر مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف حامد اور خجستہ کی محبت نہیں بیان کی گئی ہے بلکہ ان کے ذریعے بابا آدم اور حّوا سے لے کر آج تک جتنے بھی انسان اس جذبۂ عشق سے گزرے ہیں ان کی محبت کو آفاقی سطح پر پیش کیا گیا ہے۔کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:۔

         ’’آسمان پرجب میری روح نے تمہاری روح سے کہا کہ زمین پرپہنچ کر ہم ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو نگی تو تمہاری روح ،روح القدوس کے پروں کی طرح پھڑ پھڑائی اور تم مجھے لنکا کی پہاڑیوں میں ڈھونڈتی رہیں اور آج جب اس مینار پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں تو تم مجھے پہچاننے سے معذوری ظاہر کر رہی ہو۔۔۔۔۔تمہی تو جہانگیرہو جس نے اپنی سلطنت اپنی محبوبہ کے ہاتھوں شراب کے ایک پیالے اور پاؤ بھر کبابوں کے عوض بیچ دی تھی۔لیکن تمہاری محبوبہ کو یہ سودا کس قدر مہنگا پڑا۔اُدھر دیکھو! وہاں تمہاری محبوبہ اسی سودے میں گھاٹا کھاکر اتنی ملول اور اس قدرپریشان ہے کہ اس کے تعویذ کی خاک تک اس تجارت کی نذر ہوچکی ہے۔۔۔اب تم اس کے نام کو بھی خاک میں ملانے پر اُتر آئی ہو اور اتنی بلندی پر چڑھ کر بولی دے رہی ہو۔‘‘(ص ۱۰۲،۱۰۳ ایک محبت سو افسانے)

پھر کہانی کے آخر میں واحد متکلم کے یہ الفاظ :۔

’’ایک عصمت مآب لڑکی کی عفت اورعزت برقرار رکھنے کے لیے میں مینار کی بلندی سے نیچے کود گیا۔‘‘

         اس اقتباس کے ذریعے اس حقیقی محبت کو پیش کیا گیا ہے جس میں ایثار و قربانی کا جذبہ بھی موجود ہوتا ہے اور ابتدائے

عشق سے ہی یہ جذبہ کار فرما ہے لہذٰااس جذبے کی وضاحت کے لیے کہانی فلیش بیک میں بیان کی گئی ہے۔اشفاق احمد کے یہاں ’’محبت‘‘ زندگی کا بنیادی مسئلہ بن کر جلوہ گر ہوتی ہے۔وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بے مثال حسنِ بیان سے سنوارتے اور نکھارتے ہیں اور پھر افسانے کو کسی بڑی معاشرتی قدر سے ہم آہنگ کرکے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کی بصیرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔وہ ’’عشق و محبت‘‘ کو مرکز بناکر زندگی کے رومانی پہلو اور دیگر لوازمات کا بیان کرتے ہیں۔

افسانہ  ’’فہیم‘‘ میں اشفاق احمد نے ایک معصوم بچے کے احساس و جذبات اور ذہنی کشمکش کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔جیسے عام طور پر اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ساتھ ہی اس میں انھوں نے ایک جانور سے محبت کی عمدہ مثال پیش کیا ہے۔کیوں کہ ان کے افسانوںمیںمحبت صرف مرد اور عورت کے درمیان ہی نہیں ہر ذی روح میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اقتباس ملاحظہ ہوجس میں ایک پپ نامی کتے کی موت پر افسوس اور ملال دکھایا گیا ہے:۔

         ’’جس دن پپ مرا اور وہ کھانا کھانے بیٹھے تو دیر تک انتظارکرتے رہے مگروہ دم ہلاتاان کے پاس نہ آیا۔حالانکہ وہ خودہی اسے دفن کرکے آئے تھے۔روٹی زہر مار کرکے اٹھے توزمین پرکچلوندوں کاڈھیر دیکھ کربے اختیاررونے لگے۔اس رات بھی بارش اسی شدت سے ہوئی چند گھنٹے ژالہ باری بھی ہوتی رہی تھی۔موسم اس قدر خنک تھا کی رضائی سے دم بھرکو منہ باہرنہ نکلتا تھا۔مگر تحصیلدار صاحب ساری رات صحن میں گھومتے رہے اور اونچی آواز میں فارسی کے شعر پڑھتے رہے۔میںنے باورچی خانہ کی کھڑکی میں سے دیکھا۔ان کے کپڑے بھیگ کر جسم سے چپک گئے تھے۔داڑھی پر پانی کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔اور سر کے بالوں سے چھوٹے چھوٹے چشمے جاری تھے۔دوسرے دن آپ بیمار ہوگئے اور میں نے تار دے دیا۔یہ کہہ کر باورچی پھر رونے لگا۔‘‘

(ایک محبت سو افسانے ص ۲۰)

ان کے افسانوں میں کرداروں کے ارد گرد محبت کا خوبصورت اور دلکش دائرہ ہوتا ہے۔اس محبت میں سادگی اور بچوں کی سی معصومیت ہے جس میں نرمی اور شیرینی ہے اور کبھی کبھی گہری سنجیدگی بھی پیداہوجاتی ہے۔اسی طرح ان کا ایک افسانہ ’امی‘ہے ۔اس افسانے میں یوں تو والدین کی محبت سے محرومی کے سبب بچوں میں پیدا ہونے والی بُرائیوں کو دکھایاگیاہے۔لیکن دوسری طرف دوست گلریز کی امی سے ملی بے پناہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے۔حالانکہ امی کی بے پناہ محبت بھی مسعود کو بُرائیوںسے باز نہیں رکھ پاتی ہیں جو اس کی فطرت میں والدین کی بد سلوکی سے پیدا ہوئی ہیں۔اس افسانے میں امی کے کردارکے ذریعے دوسروں سے بھی اولادجیسی محبت اور مسعود کے ذریعے ماں جیسی محبت پاکراپنے دوست گلزار اوراس کی امی کی مجبوری اور ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنی جان تک دینے کا جذبہ دکھایا گیا ہے۔مثال کے طور پر اقتباس ملاحظہ ہو:۔

         پھونس سے گزرکر اس نے تازہ ہوامیں ایک سانس لیا اور اندھیرے کی گود میں مڑتی ہوئی بے جان گلی کو دور تک محسوس کیا۔پھر وہ اپنے گریبان کے بٹن کھولتے ہوئے آہستہ آہستہ چلنے لگا اورسوچنے لگا کہ یہ تو کل اٹھارہ سوہوئے اور گلریز نے دوہزار مانگے ہیں۔باقی دوسو کا بندوبست کیونکر ہوگااوروہ ابھی ان باقی دوسوکے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے اس کے گلے میں صافہ ڈال کراسے زمین پر گرا دیا۔گرتے ہی ایک تیزدھار چاقوکا لمبا پھل اس کے سینے سے گذرکردل میں اتر گیا۔ـــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسعود نے زور لگا کرچاقو باہر نکالااور اسے پرے پھینک۔پھر اس نے خون آلودہ نوٹوں کی گڈی جیب سے نکالی اور اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ اُٹھ نہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مٹھی میں پکڑے ہوئے نوٹوں کودیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔’’امی۔۔۔۔می۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔امی۔۔۔‘‘لہو کی آخری بوندزمین پر گری اور اس کی مٹھی ڈھیلی ہوگئی۔امی نے ٹھنڈے پانی میں انگلی ڈبوکرایک قطرہ کٹ کیٹ پرٹپکاتے ہواپنے آپ سے سے کہا۔’’ابھی تک آیا نہیں!‘‘

(ایک محبت سو افسانے ص ۱۴۵،۱۴۶)

 مندرجہ بالا اقتباسوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے افسانوں میں محبت کرنے والے کردار دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہوکرصرف عشق و محبت کی دی ہوئی لذٌت اور درد کے سہارے زندہ رہنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔لہذٰا ’’ایک محبت سو افسانے ‘‘ کے مطالعے کی روشنی میں بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ محبت کے مختلف اور انوکھے جذبات کو جس فنی چابکدستی اور کمالِ خوبی کے ساتھ برتا گیا ہے وہ اشفاق احمد کو اردو افسانہ نگاری میں ایک منفردمقام عطا کرنے اور اس کا ایک اہم ستون قرار دینے کے لیے کافی ہے۔

مجموعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عشق کائنات کو ہم رنگی بخشتا ہے،خاک و افلاک سب عشق سے مالامال ہیں،عشق ہی ساری کائنات کی رونق ہے اورحیات انسانی کی ساری ہنگامہ آرائیاں اسی کی رہنِ منت ہیں۔ عشق انسانیت کے لیے اعلیٰ ترین قدر ہے۔عشق قدرت کی ایک بیش بہا عطا اور نعمت ہے۔عشق کی عظمت ہی میں انسان اور انسانی زندگی کی عظمت ہے ۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عشق نہ ہو تو انسان اپنی تمام انسانی خصوصیات اور صفت سے عاری و محروم ہوجائے،انسان کا مادی و جود،اس کی فکر و نظر،اس کے جذبات و محسوسات اس کے نطق و اظہار سب پہ جمود طاری ہوجائے۔

***

Leave a Reply