سدرہ کرن
افسانہ ’گنبد کی تلاش‘ کاتنقید و تجزیہ
اردو میں مختصر افسانہ کو سوا صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن ریاست جموں کشمیر میں 1980 تک کسی خواتین افسانہ نگار کا نام نہیں ملتا ۔ترنم ریاض جموں کشمیر کی پہلی افسانہ نگار ہیں جنھوں نے افسانہ جیسی صنف کی بنیاد ڈالی ۔ترنم ریاض نے 1983 ء کے بعد اردو افسانہ نگاری میں قدم رکھا ،جس کے بعد خواتین افسانہ نگاروں نے افسانہ جیسی صنف کی طرف توجہ دی۔مسرت آراء جن کا تعلق جموں کشمیر سے ہے ۔اردو افسانہ کی روایت کو مزید آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔مسرت آراء ایک نئی اور جدید عہد سے تعلق رکھنے والی افسانہ نگار ہیں ۔ان کا تعلق وادی کے خوبصورت علاقے سے ہے جہاں قدرت نے بے شمار خوبصورتی عطا فرمائی ،جہاں میٹھے پانی کے ذخیرے ہیں اور جہاں کی آب و ہوا کو تازگی بخشی گئی ہے وہیں سماج میں ہونے والے ظلم ،خون خرابہ ،غربت ،افلاس ،انسانی دشمنی کی برمار ہے ۔جس سے متاثر ہوئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا ،مسرت آراء بھی اپنی اردگرد کی زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔مصنفہ نے اپنے اردگرد کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل واقعات و حادثات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ۔مسرت آراء کے افسانوں میں کشمیر کے سیاسی ،سماجی اور معاشرتی مسائل کی عکاسی ملتی ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نے رشتوں کی ناہموار ی اور پدرانہ سماج میں عورت کے استحصال کو افسانوں کا موضو ع بنایا ۔گنبد کی تلاش مسرت آراء کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے ۔ مسرت آراء نے بہت سے افسانے ہندو پاک کے رسائل وجرائد میں اشاعت کروائی ۔
“آس” گنبد کی تلاش میں پہلا افسانہ ہے ، آس ایک سادہ اور مختصر افسانہ ہے جس میں ہمارے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کو بیان کیا گیا ہے ۔مسرت آراءنے اپنے افسانے آس میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔مصنفہ نے سماج میں عورت کو پیش آنے والے مسائل کی عکاسی کی ہے ۔عورت پر ہمیشہ ظلم ڈھائے جاتے ہیں سماج میں پدرانہ نظام حکومت کی بنا پر عورت پر ہمیشہ ظلم ڈھائے گئے ہیں ۔ عورت کو زندگی میں پیش آنے والے ہر دکھ درد ،تکالیف و مصائب کو صبروتحمل سے برداشت کرنا پرتا ہے ۔ مصنفہ نے اپنے اس افسانے “آس” میں ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کی ہے جس کے شوہر کا قتل ہوجاتا ہے اور شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اپنی زندگی صرف کردیتی ہے۔ مسرت آرا ء نے اپنے افسانے اس میں بیوہ عورتوں کے مسائل کو پیش کیا ہے ۔ کہ مرد کی وفات کے بعد سماج میں کن مشکلات سے دوچار ہو نا پڑتا ہے ۔ عورت کو ہی زندگی کے ہرمعاملے میں قربانی دینی پڑتی ہے ۔ عورت کو کبھی شوہر کی خاطر اور کبھی اپنے گھر اور والاد کی خاطر اور عزت و آبرو کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔
“اچانک جیسے بادل پھٹنے کی آواز آئی ،صاحبہ دوری اور اس نے دیکھا کہ شبیر خون میں لت پت فرش پر پڑاترپ رہا ہے ،اس کا شوہر دم توڑ رہا تھا،اور اسی حالت میں شبیر نے بلک بلک کر صاحبہ کو آخری وصیت سنائی کہ تم اپنی زندگی اب جی لینا ،میرے بچوں اور والدین کا سہارا بننا ،یہ کہہ کر اس کی زندگی اختتام پزیر ہوئی اور صاحبہ کی زندگی کا سفر شروع ہوا۔”(1)
مرداور عورت کے درمیان تعلقات کو مسرت آراء نے پیش کیا ہے ۔اور مرد جو ہمیشہ سماج میں ظالم اور طاقتور رہا ہے اور عورت کو حقیر گردانتا ہے ۔ مسرت نے اپنے افسانے اس میں مرد کی بے وفائی اور ظلم کی انتہا کو واضع کیا ہے۔
“ساحل کو گئے پانچ مہینے بیت گئے تھے ان پانچ مہینوں میں صاحبہ نے خوف کے مارے دل پر پتھر رکھ کر اس سے بات کرنا بھی چھوڑ دی ۔۔۔۔۔۔تبھی کسی کا فون آیا ،ہلو کیا آپ ساحل شبیر کے گھر سے بول رہے ہیں ،جی ہاں آپ کون ہیں ،صاحبہ نے پوچھا جی پولیس انسپیکٹر ہوں پاس والے تھانےسے جی وہ گر پر نہیں ہیں میں ان کی والدہ ہوں،محترمہ اب وہ نہیں آ پائیں گے ہم نے اسے غیر قانونی طوائف خانے سے پکڑا ہے ۔کافی عرصہ سے اس کی تلاش تھی ،اس نے پوری داستان سنائی مگر صاحبہ کہاں ہوش میں تھی جو کچھ بولتی۔”(2)
مسرت آراء نے اپنے افسانے بنت حوا میں عورت اور مرد کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ مسرت نے اپنے اس افسانے میں عورتوں کو پیش آنے والے تمام مسائل کو سمیٹ دیا ہے ۔ عورت جس کو سماج میں کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے ،وہ جب خود پر ہونے والے ہر ظلم جبر تشدد کو برداشت نہیں کر پاتی تو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے ، مسرت آراء کے اس افسانے میں بھی ایک ایسی کہانی پیش کی گئی ہے جس میں ایک عورت مخالف جنس کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑتی ہے۔ عورت کو سماج میں پیش آنے والے تمام مسائل کو جج کے سامنے پیش کرتی ہے کہ مردوں کو عورت پر برتری کیوں دی جاتی ہے ، مرد کیوں اپنی طاقت کے بل بوتے پر عورت پر ظلم ڈھاتا ہے آخر کار سماج میں مرد کو ہمیشہ عورت پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے ۔ ایک بڑی عدالت میں خاتون رادی کے حق میں آواز بلند کرتی ہے ۔ اور عدالت میں اپنے حقوق منوا بھی لیتی ہے اور مر د کومات بھی دیتی ہے ۔
“جج صاحبان اللہ نے انسانوں کو دو ذاتوں میں تقسیم کردیا مرد اور عورت مرد کو جسمانی طاقت دی اور عورت کو خوبصورتی دی ،مگر دنیا کے اصول الگ تھے وہاں طاقت کی چلی اور خوبصورتی چار دیواری میں قید کردی ۔عورت کو وقت گزاری کے سامنے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور جب دل بھر جاتا تو اسے نوکر بنا دیا جاتا ہے ۔برداشت کا جو مادہ اللہ نے عورت کو عطا کیا وہ شاید اسی لیےہوگا کہ اسے دنیا میں بہت سے ظلم برداشت کرنا ہوں گے ۔۔۔۔جج صاحبان عورت کمزور اور لاچار پیدا ہوئی اور پیدا ہوتے ہی مرد اساس طبقے میں دب گئی۔”(3)
اس طرح مسرت آراء اپنے افسانوں میں اپنی ذات کو اہمیت نہیں دی بلکہ وواپنے ارد گرد میں ہر نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں ۔ مسرت آراء مردوں کے حق میں بھی لکھتی ہے کہ مرد جن کو سماج میں صرف ظالم ہی سمجھا جاتا ہے ۔ مرد کو بھی سماج میں بہت سے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ مرد طاقتور ہونے کی وجہ سے ہر دکھ درد کو خود صبر سے برداشت کرتا ہے وہ کسی عدالتوں میں یا تحریکوں میں اپنے مسائل اور حقوق کو پیش نہیں کرتا مرد کو سماج میں مختلیف طرح کے حالات کا مقابلہ کرناپر تا ہے ، عورت ذات کی حفاظت کی خاطر وہ عورت کو چار دیواری تک ملحوظ رکھتا ہے اور وہ سماج میں ہر طرح کے گھٹن مشکل مراحل کا مقابلہ خود کرتا ہے۔
“جج صاحبان ہم نے عورت کو اپنی عزت سمجھا ہے اور ہمیشہ محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے ،ہماری یہی حفاظت عورت کے لیے اب قیدی بن گئی ہے اس لیے اب ہمارے خلاف احتجاج ہو رہا ہے ۔ہم نے عورت کو محلوں میں رکھا اور ان کی عیش و عشرت کا سارا سامان وہیں میسر کیا ،ہم تپتی دھوپ میں محنت مزدوری کرتے ہیں مگر اسے گھر باہر جانے کی تکلیف نہیں دیتے ہم نے عورت کو عزیز رکھا اس سے عشق کیا اس کے باوجود یہ احتجاج کرتی ہے ۔”(4)
اندھیرے کار از مسرت آراء کا افسانہ ہے ، جس میں انہوں نے بے بس مجبور عورت کی کہانی بیان کی ہے ، حلیمہ جود وسال سے پیار ہوتی ہے اس کی وفات ہو جاتی ہے جس کے جانے کے بعد اس کی بیٹی آمنہ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا باپ بیٹی کے شباب ہونے سے بہت پریشان ہوتا اور اسے گھر کی چاردیواری تک محدود رکھتا ہے اور وہ اس چہار دیواری میں قیدی کی طرح زندگی گزارتے مر جاتی ہے ۔ مسرت آراء کے اس افسانے میں عورتوں پر کیے جانے والے ظلم کو بیان کیا جاتا ہے عورت کو پیدا ہوتے ہی کمزور اور لاچار سمجھا جاتا ہے ، جب کہ سماج کا نظام درہم برہم کرنے والے بھی یہی مر وذات ہے ۔ جس طرح مرداپنی عورت کی عزت آبرو کی حفاظت کرتا ہے اگر سماج میں موجود ہر عورت کی عزت پامال نہ کرے تو ہر عورت کو آزادی حاصل ہو ۔ مگر عورت کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتارہا ہے ، پہلے باپ اور بھائی اپنی عزت کی خاطر عورت کا استحصال کرتے ہیں پھر شوہر کے گھر جاکر بھی عورت کو ہر طرح کی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے ،اسے نوکر بنا کر رکھا جاتا ہے کوئی بھی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی ، مرو جب چاہے دل بڑھ جانے پر عورت کو چھوڑ دیتا ہے مگر عورت کو ہر طرح کے حالات میں اس کے ساتھ زندگی بسر کرتا پڑتی ہے ۔اس کے بر عکس اگر عورت پر ظلم و جبر کو صبر سے برداشت کرتی ہے تواسے عظیم سمجھا جاتا ہے اگروہ مرد کی طرح بہادری دیکھا کر حقوق کے لیے آواز بلند کرے تو اسے بد کردار سمجھا جاتا ہے۔ اس افسانے میں بھی ایک باپ کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنی بیٹی کو دنیا کی غلیظ نظروں سے بچانے کے لیے گھر تک محدود کر دیتا ہے۔
“منصور اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا تھا ۔کیوں کہ بن ماں کی لڑکی کا ایک ہی مضبوط سہارا وہ تھا اس کا پہاڑ جیسا مضبوط باپ جس کے کاندھوں پر اب سینکڑوں ذمہ داریاں تھیں جن میں سے ایک کوکم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو چاروں پہر گھر میں بٹھا دیا۔کیونکہ اسے پیٹ کی خاطر گھر سے باہر جانا تھا اس خیال سے ٹھٹک جاتا کہ اس کی بیٹی کا شبا کہیں لوگوں کی نظروں میں نہ آجائے۔”(5)
گنبد کا تلاش میں مسرت آراکا ایک علامتی افسانہ ہے جس میں جدید عہد کے ترقی یافتہ دور میں اسلام کی منتی تہذ یوں کی عکاسی کی گئی ہے ۔اس افسانے میں آج کے ترقی یافتہ دور کو پیش کیا گیا ہے ۔ جدید عہد جتنی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ، زندگی کے ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کی بنا پر بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔اس انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اسلام جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے دنیا کے ہر کونے میں اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے اتناہی تیزی سے اسلامی تاثرات کم ہو رہے ہیں۔ اس جدید دور میں جس تیزی سے اسلام کی طرف راغب کیا جارہاہے اور اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اتناہی لوگ عمل کم کر رہے ہیں ۔ لوگوں کے دلوں سے مذہب کی محبت ختم ہوتی جارہی ہے ۔
“ترقی کی وجہ سے شہر کا نقشہ کا بدل چکا تھا وہ اندازے سے کوئی پانچ عمارتوں کو پار کر کے ایک چوک میں پہنچا۔مسجد کی تلاش کے لیے چاروں طرف دیکھا ۔اچانک اس کی نظریں ایک بڑے گنبد سے ٹکڑائیں ۔گنبد دیکھ کر اس کے اندر خوشی کی لہڑ سی دو ڑ گئی۔اس نے جلدی سے مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑی اور پھر دروازہ کھولا ۔اس کی نظریں اچانک مسجد میں رکھےایک بڑے بت پر پڑی ،وہ وہیں کھڑے حیرانگی سے سوچنے لگا یہ پرانی دنیاہے یا میرا نیا جنم ۔”(6)
خاموش جہلم افسانے میں مسرت آراء نے کشمیر کے حالات و واقعات کو بیان کیا ہے ۔ اس افسانے میں جہاں کشمیر کی خوبصورتی اونچے پہاڑ ان پر برف کی چادر میں ، پر فضا آب و ہوا ، پھلوں کے سر سبز و شاداب پیروں کی قطار میں دیکھائی گئی ہیں اس میں کشمیر کے سیاسی حالات کا تزکر و بھی کیا گیا ہے۔ کشمیر میں رہنے والے لوگوں پر جو ظلم کیے جاتے ہیں ان سب کو بیان کیا گیا ہے ۔
“وہ آرام کرنے والے ہی تھے کہ باہر ماحول بدل گیا،ہر طرف شوروغل سنائی دے رہا تھا سارے لوگ اپنے اپنے مکانوں میں چھپ رہے تھے ،عرفان کی ماں یہ سارا منظر دیکھ کر بہت پریشان ہوئیوہ بار بار ایک بات کہہ رہی تھی ہم اتنی دور مرنےکیوں آئے تھے ۔”(7)
صدر کا قتل افسانے میں ملک میں زیاد و عیاشی اور امن کو قوم کا زوال اور بر بادی قرار دیا گیا ہے۔ کسی ملک میں بے جا آزادی اور کسی قوم کے زوال کا سبب بن سکتی ہے ۔ جو قوم کے ذہنوں کو پسماند داور زنگ آلود کر دیتی ہے ۔ اور یہ لوگ برائیوں کی طرف گامزن ہوں گے ۔اس طرح کی بے جا آرائش وزیبائش اور عیاشی کسی قوم کھوکھلا کر دیتی ہے ۔
“ہاں سن میں نے ایک ایک ملک اور اس کی پبلک کو بچانے کے لیے کوشش کی جہاں عیاشی اس قدر عروج پر تھی کہ انسانیت ،مذہب ،اخلاق ،فکر ،قدریں سب مٹ چکی تھیں ،انسان مشینوں میں تبدیل ہو چکے تھے ،پھر وہ خاموش ہو گیا ۔”(8)
صدر کا قتل اس افسانے میں سیاست کوزیر بحث بنایا گیا ہے کہ سیاسی حالات سماج پر برا اثر قائم کرتے ہیں اور سیاسی عوامل میں پیش آنے والے مسائل کا غریب عوام کو سامنا کرناپڑتا ہے۔ اگر کسی بڑے عہدے پر فائز آفیسر کو کسی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے تو اس کا خمیاز و عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
“پورے شہر میں شوروغل برپا ہو گیا۔فوج نے جب لوگوں کو گھروں میں دن کو سوتے اور آرام کرتے دیکھا ان کا غصہ آسمان کو پہنچ گیا ۔۔۔خوب پٹائی ہوئی یہاں تک کے خواتین کی پٹائی کے لیے خصوصا خواتین اہلکاروں کو لایا گیا تھا چند ہی لمحوں میں فوج کی سختی نے اس قدر اثر کیا کہ پورا فلک شگاف چیخوں سے گونج اٹھا ۔”(9)
ایک شام کی بات مسرت آراکا دلچسپ افسانہ ہے جس میں انہوں نے ایک گاؤں کے شریف لوگوں کی زندگی کو پیش کیا ہے اور انہی شریف لوگوں کی نقلی اداکاری کو موضوع بنایا ہے کہ کچھ لوگ جو ظاہری طور پر شریف اور معصوم ہوتے ہیں وہی لوگ باطنی طور پر بری فطرت کے مالک ہوتے ہیں ۔اس افسانے میں تعلیم پر توجہ بھی دی گئی کہ کسی قوم ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم اہم کر دار ادا کر تی ہے ۔اچھے برے کی تمیز سکھنے اور دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے جس کی بناپر کوئی قوم ملک ترقی کر سکتی ہے۔
“دنیا بدل گئی ہے اس بدلتی دنیا کے ساتھ ہمیں بھی گھل مل جانا ہے کسی سے بات چیت کرنی ہے گاؤں سے باہر نکلنا ہے باہری دنیا سے رابطے کے لیے ہمارے پاس تعلیم کا ہونا ضروری ہے جو اچھے اور برے میں تمیز سکھائے ،”(10)
پوسٹ مارٹم مسرت آراء کا افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ و ہائی فضا کورونا کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ کورونا کے دور ان لوگوں پر جو خوف طاری تھا۔ اس وبائی امراض کی وجہ سے بہت سی اموات ہوئی ۔اس وباء کے دوران لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ لوگ اس وباء سے محفوظ رہنے کے لیے اپناگھر ، ملک چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو رہے تھے ۔ اور اپنی جانوں کی حفاظت کے لیےبہت سے حربے آزماۓ۔ اس وباء کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ لوگوں پر ایک خوف اور کپکپی طاری تھی۔
“پچھلے سال کی طرح یہ کوئی ہرتال نہیں ہے کہ یہاں سے بھاگ کر کہیں چلے جائیں عالمی وبا ہے عالمی وبا اپنے گھر میں رہیں گے تو کچھ نہ سہی پر اپنے آپ کو محفوظ کرسکیں گے ۔پروین نے سب کو فردا فردا سمجھایا ۔مگر کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا ۔وہ سب یہاں سے دور نئے گھر میں منتقل ہونے کی تیاری میں تھے ۔”(11)
افسانہ گھائل پرند و مسرت آراء کا افسانہ ہے ، جس میں افغانستان کی سیاسی حالات کی عکاسی کی مہاتی ہے افغانستان میں جو جنگ چل رہی ہے ان تمام حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے یہ ایک بین الاقوامی طور کا فسانہ ہے جس میں مسلمانوں کو ایک ہونے کا سبق بھی دیا گیا ہے ۔
“جہاز جیسے ہی گاؤں کے ایک کونے میں پہنچاتو بم گھرانے شروع کردیے ،بموں کے پھٹنے کی آوازوں نے ہمارے کانوں کے پردے ہلا دیےبموں کے ان دھماکوں کے ساتھ زمین پرہلچل مچ گئی۔پورے گاؤن میں چیخ وپکار کا قہر مچ گیا ۔” (12)
بہر حال مصنفہ نے اپنے افسانوں میں ارد گرد کی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو پیش کیا ہے ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں کہیں خدا کے نام پر بت پرستی دیکھائی اور کہیں معصوم جانیں ناس ہوتی دیکھائی دیتی ہیں ۔ عورت پر کیے جانے والے ظلم کو دیکھایا گیا ہے اور کہیں کشمیر کے حالات وواقعات سے آگاہ کیا گیا ہے ،اسلام کی متی اقدار کے زوال کو پیش کیا گیا ہے ۔ گنبد کی تلاش، خاموش جہلم ، بنت حوا، محافظ ، صدر کا قل ما یک شام کی بات ، تجانسا، اس پوسٹ مارٹم ، اند ھیرے کار از ایسے افسانے ہیں جو موضوعاتی تنوع کے حامل ہونے کے ساتھ بیانہ ہیں ۔ محافظ ، ڈی این اے ، اند میرے کار از ان افسانوں میں خواتین کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ گنبد کی تلاش ، گھائل پرندہ بنت حوا ، جھانسا، ان افسانوں کے موضوعات موجودہ عہد کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مسرت آراء کے افسانوں میں بیانیہ اسلوب پایا جاتا ہے ے۔ مسرت آر او نے اردوافسانے کی روایت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
***
حوالہ جات:
1:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(آس)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص28
2:۔ایضاء،ص30
3:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(بنت حوا)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص38
4:۔ایضاء،ص40
5:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(اندھیرے کا راز)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص32
6:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(گنبد کی تلاش )،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص48۔49
7:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(خاموش جہلم )،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص65
8:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(صدر کا قتل)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص75
9:ایضاء،ص69
10:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(ایک شام کی بات)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص78
11:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(پوسٹ مارٹم)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص91
12:۔مسرت آراء ،گنبد کی تلاش ،(گھائل پرندہ)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی :2021ء۔ص103