You are currently viewing ”اقبالؔ:عہد ساز شاعر اور مفکر“

”اقبالؔ:عہد ساز شاعر اور مفکر“

زیبا گلزار

ریسرچ اسکالر(جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ)

سی۔ٹی۔آئی فکلٹی شعبہ اردو،گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج سمبڑیال

”اقبالؔ:عہد ساز شاعر اور مفکر“

کچھ شاعر ایسے ہوتے ہیں جو کسی عہد یاصدی کے سبب پہچانے جاتے ہیں لیکن بعض  ایسے عظیم تر کہ عہد ہی کو ان کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے کہ یہ فلاں  شاعر یا ادیب کی صدی ہےان ہی میں سے ایک نمایاں نام اقبال کا ہے۔جن کے سبب بیسویں صدی کو پہچانا گیاہےاور بیسویں صدی کو اقبال ؔ کی صدی کہا جاتا ہے۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے لیکن جو کارنامہ اقبال نے اپنے فکر ونظر اور  شاعری ہی کی بنا پر انجام دیا  نہایت  قابلِ فخر ہےانہوں نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے لیے بالکل منفرد راستہ اختیار کیا۔ان کی شاعری کے اعلیٰ وارفع خیالات نے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ آئندہ  شعر وادب پر بھی دورس اثرات مرتب کیے اور یہی وجہ ہے کہ آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ صرف اقبال کو پڑھاجا رہاہے ہیں بلکہ اس عالمگیر  شاعر کے افکارو خیالات پر کام تحقیق وادب کا ایک مستقل شعبہ بن چکا ہے جو ا”قبالیات “کے نام سے موسوم ہے ۔برصغیر پاک وہند میں ان کی مقبولیت کی بات کریں تو اقبال کو سب سے پہلے مفکرِ پاکستان اور قومی و ملی شاعری ہی کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے اور یہی ان کی خاصیت و انفرادیت بھی تھی ،کہ نفسا نفسی اور پُر آشوب ماحول میں ۹نومبر۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اس عظیم مفکر اقبال نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو بیداری کا درس دیااور انہیں اپنا کھویا ہوا وقار بحا ل کرنے کی ترغیب دی ۔اچھی بات یہ تھی کہ مسلمانوں نے بھی اس آواز پر لبیک کہا ،اپنے آپ کو منوانے اورحصول حقوق   کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اقبالؔ  شاعری کے ساتھ ساتھ  مضامین ،مقالہ جات،خطبات،لیکچرز وغیرہ میں اہم موضوعات و رحجانات سےمتعلق اپنی رائے بھی دیتےہیں جسے ثابت کرنے لیے وہ ہرممکن حربہ و دلائل پیش کرتے ۔انہوں نے  اپنے عہد کے علاوہ اوربھی جو اہم  نظریات محسوس ہوئے ان کی وضاحت وصراحت کی ۔اسی لیے اقبال کی فکر وفن پر بھی کئی کتب ہر دور میں لکھی جاتی رہی ہیں اور ان کی سوچ،شخصیت اور ارتقاء کو ابھارنے کے لیے بھی کئی لوگوں نے  اہم کردار اد کیا۔انہی کتب میں سے ایک  کتاب  ڈاکٹر اسلم صاحب کی ”اقبال:عہد ساز شاعر اور مفکر“ بھی ہے۔ اس میں علامہ اقبال ؔکی شاعری اور افکارو نظریات سے متعلق جامع و مختصر لیکن نہایت سہل انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے  جس سے ادب اور خصوصاً اقبالیاتی ادب میں اہم اضافہ  ہوا ، طالب علموں کے لیےیہ گراں مایہ اثاثہ ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری  ملتان سے تعلق رکھنے والے شاعر،ادیب اور محقق ہیں اردو ،فارسی میں شاعری اور سرائیکی  میں بھی کام کیا۔وہ ایک علمی وادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے ،اورینٹل کالج لاہور سے ایم۔اے اردو امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔سید عبداللہ کے چہیتے شاگردوں میں سے ایک تھے۔محکمہ تعلیم کے علاوہ ان کی وابستگی آرٹس کونسل سے بھی رہی۔حکومتِ پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔اسلم صاحب کی تصانیف میں شعری مجموعوں سمیت ناول وغیرہ بھی شامل ہیں۔خواجہ فریدؒ کی کافیوں کےترجمے اور اقبالیات پر کیے گئے اپنے کام پر قومی اعزازت حاصل چکے ہیں ۔ان کے شعروفکر پرعلامہ اقبالؔ کے واضح اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک جگہ بذاتِ خودیہ تحریر کرتے ہیں کہ میں نےاپنی عمر کا ایک حصہ اقبالؔ کے فکر وفن کو سمجھنےاور اس کی تشریح کرنے میں صرف کیا ہے۔معلم کی حیثیت سے بھی اقبال ان کے شعور کا تکمیلی عنصررہا ہےبقول موصوف  اقبالیات پر کتب میں ”اقبال عہد آفریں،شعرو فکرِ اقبال،فیضانِ اقبال(منظوم اقبالیات)،اقبال۔عہد ساز شاعر اور مفکر“اہم  ہیں۔ ان کی کتاب ”اقبال:عہد ساز شاعر اور مفکر“ اپنی نوعیت اور طریقہ کار کے سبب اہمیت کی حامل ہے۔۱۵۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار۲۰۱۱ءمیں اور دوسری مرتبہ ۲۰۱۸ء میں اقبال اکادمی پاکستان سے شائع ہوئی۔جس میں ۱۳ ابواب اردو جب کہ۳ انگریزی کے ملا کر کل ۱۶ ابواب ہیں۔  ہر باب نہ صرف مقالے کا درجہ رکھتا ہے بلکہ زیادہ تر کسی موقع یا مقابلے کے لیے تحریر کیا گیاہے باب کے اختتام پرثبوت کے طور پر ماخذات درج ہیں۔اس لیے یہ کتاب قدروقیمت میں دیگر کتب سےبڑھ جاتی ہے۔

آغاز ہی میں  ”اقبال کے تصورِ شاعری کا ارتقاءاور حرفِ شیریں کی بحث“کے عنوان سے ہے۔جو اسلم انصاری کی اقبالیاتی ادب سے دلچسپی اور اس سے دیرینہ  واسطے سے  متعلق ہے۔مصنف   اسی  حوالے سے اپنے استادپروفیسرعبدالغنی کا ذکر کیا ہےجو فلسفے کے معلّم ہونے کے ساتھ  سا تھ اقبالیاتی ادب سے بھی خاص شغف رکھتے تھے۔اس باب میں ایک استادپیر زادہ احمد اعجازکے مکتوب کی اقتباس سے اقبال کے اشعار میں موجود ابہام کو سامنے لایا گیا ہےجو کہ ان اشعار کے انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے پیدا ہو گیا ہے۔ایک شعر میں موجود نکتے پر بحث کی ہے جو درج ذیل ہے:

؎محمدبھی ترا،جبریل بھی،قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا(۱)

جب اقبال کی شاعری میں ”حرفِ شیریں“کی ترکیب کا جائزہ لینے لگیں تو اس تصور کی تہہ تک پہنچنے کے لیےان  کے تصورِ شاعری میں ارتقاء پر نظر دوڑانا بھی بہت ضروری ہے۔یہاں مصنف کے مطابق اقبال کی ”حرفِ شیریں“سے مراد وہ خود ہیں جب کہ ان کے دوست استاد پیرزادہ اعجاز کے نزدیک” قرآن مجید“۔اس حوالے سے جب اقبال کی اردو شاعری کا جائزہ لیاجائےتو ان کے ہاں صیغہ واحد متکلم(میں)سے مراد وہ خود ہی ہوتے ہیں۔کسی نظم میں منظر کشی کرتے ہوئے اپنی ذات کو شاملِ حال کر لیتے ہیں تو کبھی وہ مختلف عناصر کی گفتگو اور مکالمے میں خود بھی سوال جواب کرتے نظر آتے ہیں۔مثلاً ”بانگِ درا“میں دیکھیں تو  نظموں میں ایک اہم نام ”شمع اور شاعر“ہے اس میں پہلی بارانہوں  نے شمع اور شاعر کا کردار تخلیق کرکے زندگی کے بعض ضروری اور اہم مسائل کو اجاگر کیا۔یہ نظم دراصل شمع (اقبال)اور شاعر (اُمتِ مسلمہ)کا مکالمہ ہے۔جس میں  علامتی واستعاراتی اندازمیں حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی تجویز کردیا گیا ہے۔ شمع اپنا فرض سمجھتے ہوئے شاعر کو مخاطب کرکےنہ صرف اپنانقطۂ نظر بتاتی ہے بلکہ اسے بہت سی نصیحتیں بھی کرتی ہے۔جس کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:

؎خیمۂ زن ہو وادیِ سینا میں مانندِ کلیم

شعلۂ   تحقیق    کو   غارت    گر    کاشانہ     کر

کیوں چمن میں بے صدامثلِ رمِ شبنم ہے تو

لب  کشا    ہو    جا  ،  سرودِ   بربط   عالم   ہے  تو    (۲)

اقبال ؔنے اردو شاعری کے ایک طویل دور کے بعد جب فارسی میں شاعری کی توشاعر کا تصور اور اس ضمن میں ان کا رویہ بھی بڑا ہچکچاہٹ اور معذرت خواہانہ سا ہوگیا تھا۔اس کا ایک سبب شایدان کی اردو شاعری اور فارسی مثنویات پر ہونے والی بے جا تنقید تھی جس نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ شاعری ہی ان کے لیے سب کچھ نہیں بلکہ کسی بلند مقصد کی تکمیل کی خاطراس کا ساتھ نبھانا بہت ضروری ہے۔فارسی میں شاعری کرنا ان کو زیادہ عزیز تھا اسی لیے ایک جگہ کہتے ہیں:

 ؎گرچہ   ہندی     در   عذوبتِ     شکر     است

طرزِ   گفتارِ      دری    شیرین      تر     است(۳)

غالبؔ کی طرح وہ بھی اپنی شاعری کی اصل روح ،اس کا نچوڑ اور حسن فارسی ہی کو سمجھتے ہیں،اور ”پیامِ مشرق”میں کہیں کنایاتی اور کہیں استعاراتی انداز میں اپنی شاعری کو نغمۂ داؤدبھی قرار دیاہے۔اس سب کے برعکس”گلشنِ رازِ جدید“میں خود کو شاعرکہلانے سے بھی کتراتے نظرآتے ہیں۔اقبال کی شاعری اور خصوصاًاردو شاعری کی ”بالِ جبریل“میں ایک غزل جو خصوصی اہمیت کی حامل ہے اسی کا درج بالا شعر ہے جو حرف شیریں کے حوالے سے زیر بحث ہے۔

اس تمام ارتقائی سفر پر نظر ڈالنے کے بعد بھی اسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہےکہ شعر میں تو ان کی مراد اپنی شاعری تھی جس کے متعلق ان کا یہ

قدرتی طور پر عقیدہ  تھا کہ وہ ان کی ترجمان ہے۔لیکن جب ہم یہ دیکھیں کہ نبوت ورسالت اور قرآن ِکریم توخدا کےترجمان ہیں یہاں یہ سوال بھی قابلِ غور ہے کہ یہ شاعری ان کی اپنی ہی ذات کی عکاس ہے۔اور یہی زیادہ تر قریب بھی معلوم ہوتا ہے۔

” اقبال عہدساز شاعراور مفکر “میں قابل محقق نےاقبال کی شاعرانہ عظمت اور عہد آفرینی کو موضوع بنایا ہے ۔ پہلےشعروادب کی اہمیت اورارتقاء پر انتہائی جامع اندازمیں نگاہ ڈالی گئی ہےاور مشرق وعربی روایت کے ساتھ ساتھ انگریزی پس منظر کو بھی بیان کیا ہے اردو شاعری اور دیگر ادبیات میں ایسے کم ہی شعراء ہیں جنہیں عہدآفریں کہا جاسکے۔سراج الدین علی خاں آرزوؔ،میرؔ،سوداؔ،غالبؔ جیسے بڑے شعراء کے ذکر کے بعد اقبال کے متعلق بات کی گئی ہےکہ اقبال نے آغاز میں غالبؔ اور داغؔ جیسے اساتذہ کی تشبیہات واستعارات سے کسی طور  اکتسابِ فیض ضرورکیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات نظرانداز نہیں جاسکتی اقبال کہ فکری منابع بہت زیادہ ہیں کہ انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔اور  جلد ہی اپنا ایک الگ اسلوب متعارف کرایا ۔اسلامی فکر اور معاشرتی مشرقی ایشیائی تمدن کے حوالے سے بہت کام کیا اور روایت پرستی و اندھی تقلید سے ہٹ کر ایسا انداز  اختیار کیا جسے اردو شاعری میں ”طرز ِجلیل “یا ”طرز ِرفیع “کی عمدہ و واحد مثال کہا جاسکے۔صرف ایسا ہی نہیں بلکہ صنائع  بدائع سے ہٹ کر اردو شاعری کو فطری طور پر قوت عطا کی ۔اقبال نےزبان،ادب تاریخ پر ثقافت پر اپنے فکر و فن  اور شخصیت کے  ان مٹ نقوش چھوڑے اس ضمن میں اسلم انصاری رقمطراز ہیں کہ:

۔۔۔”۔ اردو شاعری جس آفاق گیر تخیل ،جس وسعتِ تفکراوررفعت ِبیان کی منتظر

تھی وہ اسے اقبال ہی کی شاعری میں میسرآسکی۔ دنیا کے معدودے  چند عظیم اور آفاقی

شاعروں میں اقبال واقعی ایک  ا یسے شاعر ہیں جنہیں بجا طور پر عہد ساز عہد آفریں کہا

جاسکتا ہے۔“(۴)

 بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ورثے میں ملنے والی روایات کی من و عن پیروی کرنے کی بجائے انہیں یکسر منقلب کر کے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلی لاتے ہیں اقبال ؔبھی ان عظیم مجددین کی صف میں شامل ہیں کیونکہ کہ انہوں نے اپنے عہد کو رجحان ساز عہد بنا دیا۔

اسی باب کے دوسرے حصے میں شعر کے عنوان سے یہ بتایا گیا ہے کہ اقبال کی کی ماضی پرستی کیسی تھی شعر کی تشریح و توضیح موجود ہے۔

؎ میں  کہ میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگذشت  کھوئے ہوؤں کی جستجو(۵)

اقبال نے اپنے عہد کے تقاضوں کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا اور وسعت نظر سے انہوں نے مسلمانوں کے سامنے علمی و سماجی ،سیاسی  اور معاشرتی طور پر ماضی کو  زندہ کر کے سامنے لا کھڑا کیا اور مسلمانوں کو نئی زندگی اور نئی تخلیقی جست کا پیغام دیا۔ اس ضمن میں  انہوں نے جو اہم کام سرانجام دیا یا وہ یہ تھا کہ جو لوگ مرگ ِ ماضی کا شکار ہو رہے تھے انہیں حیات ِنو بخشی ۔ دراصل اقبال مسلمان کے  اندر چھپی آتشِ رفتہ کا سراغ لگانے کی مسلسل کوشش کرتے رہےکہ  جس نے ماضی میں شاندار حکمرانی ، باد شا ہت اور فتوحات حاصل کی تھیں ۔وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ مسلمان مشرقی اقدار کے ساتھ مغربی  علوم اور تحریکیں جو فرد کی ذات اس کی انا ، خودی  اور شخصیت کی تعمیر کے لئے از حدضروری ہے ہیں  کو بھی اپنانے کی کی کوشش کریں ۔ علامہ اقبال کی ایک تقریر کا اقتباس جو انہوں نے علی گڑھ یونورسٹی کے طلبا ءکے سپاس نامےکےجواب میں کی تھی ان کے ماضی کے تصور یا رحجان کو سمجھنے میں کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے:

”۔۔۔ہمارا انکشاف ماضی ہے۔میں ان لوگوں میں سے نہیں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے

ہیں۔میں تو مستقبل کا معتقد ہوں۔مگر ماضی کی ضرورت مجھے اس لیے ہے کہ میں حال کوسمجھوں۔

اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سرچشمۂ تہذیب وشائستگی کو سمجھا جائےتاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ

آج دنیائے اسلام میں کیا ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ ماضی کو سمجھیں۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظرڈالیں جن کے ذریعے سے ہم ماضی ومستقبل سے

وابستہ ہیں۔۔۔۔“(۶)

اس تمام بحث کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے ہاں جو ماضی پرستی ہے وہ مریضانہ ماضی پرستی کی بجائے صحت مند رحجان کی صورت  احتیار  کر لیتی ہے۔اس ضمن میں وہ اندھی تقلید کرنے کی بجائے ان عناصر کو اخذ کرتے ہیں جو ہمارے حال کو  متحرک و بہتر بنانے کے لئے ہو ں اسی لیے اقبال مسلمانوں کوان کا شاندار ماضی یاد کرواتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تشبیہات و استعارات کے ذریعے  ایسی علامتیں نظموں میں پیش کی ہیں  جن سے  اس فکر کی  مکمل تجسیم ہو سکے۔

 ”اقبال کے تصورِ تاریخ “ میں پہلے تاریخ کے معنی ومفہوم  مختلف لغات اور  قرآن میں تاریخ سے جو معنی مراد لیے جاتے ہیں اس کی وضاحت وصراحت کی گئی ہے۔اقبال کا تصورِ تاریخ پہلی بار ”رموزِ بے خودی“ میں مربوط انداز سے سامنے آیا۔ جس کا نچوڑ یہ تھا کہ تاریخ محض افسانہ یا قصہ خوانی نہیں بلکہ خود آگاہی کا ایک ذریعہ ہے۔اس کے مطالعے ہی سے انسان اپنی منزل سے آگاہ ہوتاہے۔یہ اقوام کے لیے ایک  روشن ستارے کی مانند ہے۔یہ ایک ایسی ہمہ بیں آنکھ ہے جو مسلسل دیکھتی ہے اور ماضی کو ہمارے سامنے مجسم کردیتی ہے۔تاریخ کو محفوظ کرنا بہت ضروری ہے کہ ہمارا حال ماضی سے ابھرتا ہے اور مستقبل حال سے ابھرنے والا ہوتا ہے۔ یوں ظاہرہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک تاریخ،اقوام کے اجتماعی تشخص کے احساس میں تسلسل کی ضامن ہے۔اور قوموں کی بقا   وتاریخی اقدار وعلامات کو محفوظ کرنے ہی میں مضمر ہے۔اقبال کا تاریخی شعور بہت گہرا تھا وہ اردو ادب  کے پہلے بڑےشاعر بھی ہیں جنہوں نے  اپنی ذات کو تاریخ سے وابستہ کیا۔اس  کی کچھ مثال ان کی نظم ”ہمالہ“ میں نظر آتی ہے۔

؎ ہاں دکھادے اے تصور!پھر وہ صبح و شام تو

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو(۷)

لیکن  وہ اپنےآپ کو اسلامی تاریخی سے جوڑتے نظر آتے ہیں اقبال کی نظمیں” مسجدِ قرطبہ،ذوق وشوق“سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ سے ان کی مراد تاریخِ اسلام ہے۔اقبال نے اپنے عہد کے جس مفکرِ تاریخ کا بغائر مطالعہ کیا وہ جرمن مؤرخ شپنگلر ہے۔اس نے مغرب کے بارے میں جو رائے دی کہ وہ مادیت کا جس قدر شکار ہے ختم ہونےکے قریب ہے۔اقبال اس بات سے تو متفق تھےمگر اسلام سے متعلق اس کے بعض غلط تصورات ونظریات کی شدت سے مخالفت بھی کی۔ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ اقبال کا تعلق پوری انسانی تاریخ سے ہےاور ان کا بنیادی موضوع انسان ہے۔جو زمان و مکان ،تاریخ ہر چیز کو پیچھے چھوڑ کر اپنا جہاں آپ پیدا کرسکے۔۔ماضی سے متعلق ان کے ہاں بازیافت کا عنصر اس حد تک نمایاں ہے کہ اقبال کو تاریخی شعور کا شاعر قرار دینا غلط نہ ہوگا۔

”زندہ رود ۔شعرِ اقبال میں علامتِ ذات“اس علامت کی اقبال کی ذات سے مماثلت اوراستعمال کی مختلف توجیہات کے ساتھ ساتھ معنی ومفہوم واضح کرتا ہوانظر آتاہے۔چوں  کہ انہوں نے اپنے لیے یہ لفظ (زندہ رود) فارسی کتاب ”جاوید نامہ“ میں استعمال کیا تھا جو دراصل اقبال ؔنے ہفت افلاک کی سیر سے متعلق تجربات و مشاہدات اور وہاں ہونے والے واقعات کے ذکرسے  مزین کی تھی۔اور انہوں نے یہاں اپنے لیے ”زندہ رود “کا لفظ استعمال کیا ہے۔

در دلِ او یک جہان ِ سوز و درد                     ؎گفت رومیؔ-ذر ۂ گردوں نورد!

         چشم      جز  بز    خو    یشتن                    نکشادۂ   دل  بکس  نا     دادۂ   ،    آزادۂ

تند      سیر   اندر فراخائے وجود

من ز شوخی گویم اورا     زندہ رُود“ (۸)

گویا اقبال کو یہ لقب روحانی سفر کے دوران مولانا روم نے عطاکیا۔”زندہ رود“کے معنی ہیں ”ہمیشہ رواں رہنے والا،دریا جو کبھی خشک نہ ہوں۔پھر اس لفظ کی پوری تاریخ اور توضیح کو بیان کی گئی ہے۔۔۔ اقبال کی  اپنے لیے یہ علامت استعمال کرنے کی جو توضیح یہاں پیش کی گئی ہے وہ یہ کہ شاید ا س کی ایک وجہ یہ ہو کہ اقبال نے جرمن شاعر اور مفکر گوئٹے جو اسلام اور نبی کریمﷺ سے بے حد متاثر تھا کی نظم  ”جوئے آب” موسوم بہ ”نغمۂ محمدﷺ“کا آزاد ترجمہ کیا جو ”پیامِ مشرق“میں شامل ہے۔اس نظم میں گوئٹے نے حضورﷺکو ایک رواں دواں جوئے آب سے تشبیہ دی ہےجو بہت جلد دریا میں بدل جاتی ہے اور چلتےچلتے مزید وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کے بعد مصنف اس  بات پر قیاس کرتاہے کہ اقبال کے ذہن میں ”زندہ رود“کا خیال اور اس لفظ کی ترکیب استعمال کرنے کی سوجھی جو گوئٹے کے نزدیک آنحضرتﷺکی ذات کا استعارہ ہے۔اور اقبال نے بھی اسی کے متبادل علامتی نام ”زندہ رود “اختیارکیا جو دراصل عشق رسولﷺ کا مظہر ہے۔

 ”اقبال،زُروان اور زُروانیت“ میں  اقبال سے متعلق ایک خاص ایرانی مابعدالطبیعات کی علامت جوکہ انہوں نے ”جاوید نامہ “میں استعمال کی ہے سے متعلق ہے۔لغت کی رو سے ”زروان“اور زرہون آپس میں متبادل لفظ ہیں اور اس کے معانی عام طور پر بزرگ  وغیرہ کے ہیں۔مگر اس کے متفقہ اور تسلیم شدہ معنی ”وقت اور لازماں“کے لیے جاتے ہیں۔اقبال کو وقت کی قدر اور اس کی اہمیت کے پیش نظر جو  خاص دلچسپی تھی انہوں نے نظریہ زمان ومکاں بھی پیش کیا اور اسی ضمن میں وہ لفظ ”زروان“ کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ یہ لفظ بھی سفرِ معراج کے دوران استعمال کیا گیا ہے۔یہ شعر اس طرح ہے۔

؎زُروان کہ رُوحِ زمان و مکان است

مسافر را بسیا حتِ عالم ِعلوی می برد(۹)

دراصل اس لفظ  (زُروان) کو ”روحِ زمان و مکان“قرار دیا ہے۔اگر اس تصور یا تفصیل کی بات کریں تو ”زرتشتیت“ایک ایرانی مابعدالطبیعاتی تاریخ میں تصور تھاجس  کے مطابق دو خدا تھے ایک خدائے شر اور دوسرا خدائے خیر  دونوں کے اپنے اپنے معتقدین تھے لیکن ایک تیسرا خدا

ا تھا جو کہ ”خدائے وقت“ تھا۔اور ان دونوں کا باپ تھا۔ ان کے درمیان ثنویت کے تحت  ہونے والے تصادم کو زُروان یا زروانیت کا نام دیا گیا۔

اقبال نے اس لفظ کو صرف  زماں (وقت )کے لیے نہیں بلکہ روحِ زمان ومکاں کے طور پر لیا ہے۔اور یہ لفظ   ُزروان عربی زبان کے لفظ ‘دھر’کے بھی کافی قریب ہے۔اس سے مراد ”زمانہ ” لیا جاتا ہے۔جسے اقبال نے اپنے سفر افلاک کے دوران  فرشتے کی صورت میں پایا ۔اقبال کہ ہاں ُزروان ہی    زندگی کا اصل اصول ہے۔زندگی موت،جزا سزا سب اس کے ہاتھ میں ہے۔اس کی حیثیت ایک دیوتا ہی کی ہے یعنی( وقت )اگر اسے کوئی شکست دے سکتا ہے تو وہ سوائے کوئی صاحبِ ایمان اور اس کا مضبوط عقیدہ ہے اس کےبرعکس وہ سب پر  حاکم وقابض ہے۔اس باب میں اقبال کو  زُ روان کے ایرانی تصور سے ملانے والے نظریات کی تردید بھی کی گئی ہےکہ اقبال کبھی بھی دہریت کے قائل نہیں رہے اور ان کا فلسفۂ زمان و مکان اپنا ہے۔بہر حال اقبال نے محض زُروان کی ایک علامت استعمال کی ہے زُروانیت سے ان کادور دور تک کوئی  علاقہ   نہیں۔

”مسجدِ قرطبہ۔فکری اور فنی مطالعہ“ میں سب سے پہلےاس مقالے کو لکھنے کا محرک بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک مقالہ جات کے لیے ہونے والے مقابلہ تھا جس میں طلباء کی ہمت افزائی کے لیے انعامات بھی تھے۔یہ مصنف کے زمانہ طالب علمی کی کاوش ہے جو معمولی ترمیم وتنسیخ کے ساتھ موجود ہےاس  کے بعداقبال کی شاعری کا مختصر پس منظر اور اس میں نظموں کی اہمیت و خصوصیات پر بات کرتے ہوئے ”مسجدِ قرطبہ“کا ذکر موجودہے۔مقالے میں نہاہت مختصر انداز میں نظم کی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔اورپھرنظم  کا فکری وفنی جائزلیتے ہوئے صوتی آہنگ ،فکرو جذبے کا امتزاج،زمانے کی وحدت،ماضی کی بازیافت،احیائے اسلام کی آرزو جیسے اقبال کے افکار کو بلندیوں پر پہنچانے والی نظم کی خصوصیات بیان کی ہیں۔

؎آنی     و   فانی   تمام   معجزہ  ہائے   ہنر

کارِ جہاں بے ثبات،کارِ جہاں بے ثبات

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام

جس   کو کیا     ہو کسی  مردِ خدا    نے       تمام(۱۰)

اقبال نے نظم ”مسجدِقرطبہ“ لکھ کر ایک خارجی اور جامد مظہر جو صدیوں سے موجود تھی لیکن  انہوں نے پہلی بارافکار کی بلندی اور جمالیاتی ومعنوی تفہیم اس طرح سے کرانا چاہی کہ اس عظیم تعمیری شاہکار کو شاندار ماضی کی علامت بنا کر سامنے لاکھڑا کیا۔ دراصل اس سے اقبال کا نظریۂ فن بھی سامنے آتا ہے۔ جلال وجمال کے امتزاج کا جو نمونہ اقبال برصغیر کی اسلامی تعمیرات میں دیکھنا چاہتے تھے وہ انہیں مسجدِ قرطبہ میں نظر آیا۔مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے  ت تجسیمی اظہار کے لیے ”مسجدِ قرطبہ“کو تعمیراتی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔اور مجموعی طور پر یہ نظم اقبال کے نظریۂ فن،تاریخ اور زمان و مکان کی عکاسی کرتی نظر آتی۔ نورالحسن نقوی اقبال کی اس نظم کے متعلق کہتے ہیں کہ:

”اس نظم کا مرکزی نقطہ دراصل ایک خواب ہے۔اسلام کی سرفرازی کا خواب جسے اقبال

نے فکر،جذبہ اور تخیل کے امتزاج سے تراشا ہے۔بے شک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو

سکالیکن اس لافانی نظم کے سانچے میں ڈھل کرشاعر کا یہ خواب اردو شاعری کی تاریخ میں

امر ضرور ہوگیا۔“(۱۱)

” اقبال اور فنونِ لطیفہ“ کے نام سے اقبال کے نظریۂ فن سے متعلق ہے تمہید میں فنونِ لطیفہ کی اہمیت وافادیت اور انسانی زندگی وادب پر اثرات ،اس سائنسی ومادی زندگی میں فنونِ لطیفہ ہی فرد کی روحانیت اور معاشرتی افادیت کے لیےضروری ہیں یہ بات باور کرائی گئی ہے۔اگر دنیا ئے ادب کے بڑے بڑے شاہکار ہیں نہ ہوتے تو دنیا میں کمی ضررور ی ہوتی۔فنونِ لطیفہ اور مذہب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مختلف مذاہب میں ان سے متعلق رائج نظریات اور خاص طور پر اسلام میں میں ان کی ممانت یا اجازت کے متعلق شرائط و ضوابط اور اصولوں پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات ہی سے ایسے حوالے مصنف  نےد رج کیے ہیں جن سے اچھے اور بامقصد فنون کو اختیار کرنے یا ان سے استفادہ کرنے میں کوئی ممانت نہیں۔اقبال کے تصور فن کو سمجھنے کے لیے ان کے دیگر تصورات اور خاص طور پر نظریۂ خودی ذہن میں ہونا بہت ضروری ہے۔بہر حال اقبال کے لیے  فنون لطیفہ  تخلیقی سرگرمیوں میں فائدہ مند ہیں۔ان  کےنزدیک آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر خفیہ قوتِ ارادی کو بیدار کرے تاکہ ہم زندگی کی مشکلات کاکامیابی سےمقابلہ کرسکیں۔اقبال ہر اس چیز کو پسند کرتے ہیں  جو انسانی شخصیت وخودی کو بلند رکھنے و کرنے میں معاون ثابت ہو۔

؎سرودوشعروسیاست،کتابودین و ہُنر     گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ!

ضمیربندۂ خاکی سے ہےنمودان کی   بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ!

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات   نہ کرسکیں تو سراپا فسون و افسانہ(۱۲)

اقبال کے ہاں جن اشیاء سے فنونِ لیفہ میں کوئی فائدہ یا بہتری حاصل ہوسکتی ہے وہی اہم ہیں  باقی  نہیں۔مثلاًان کے مطابق موسیقی جب تک آوازوں اور خوبصورت سازوں کا مجموعہ ہےاس وقت  تک وہ نقصان دہ ہے لیکن اگر اس کی معنوی تفہیم  سے اس کا مقصد ومنصب مقرر  ہو جا ئے تو وہی سود مند چیز میں بدل جاتی ہے۔اقبال کے نزدیک فن یہ ہےبقول عزیز احمد:

”اقبال کے نزدیک آرٹ پر اگرچہ اس کا اصلی محرک عشق یا وجدان ہی روشن بین

فکرکا پرتو پڑنا ضروری ہے کیوں کہ اس صورت میں آرٹ سماجی زندگی اور خاص سما

جی حالات میں عمل کا رہبر بن سکتا ہے۔یہی نہیں بلکہ زندگی اور اس کی ضرورتیں 

ہی آرٹ کی سچائی کا اصلی معیار ہیں جو فن یا ادب زندگی کے ارتقاء اس کی اصلاح اور

اس کی بہتری میں مدد نہیں کرتا ناقص ہے۔“(۱۳)

رقص کو اقبال فنونِ لطیفہ میں شمار ہی نہیں کرتےکہ اس میں کسی قسم کا کوئی فائدہ  یا تعمیری مقصد کارفرما نہیں ہوتا۔لیکن روح کی تڑپ اور رقص افادیت کی حامل ہے۔اسی طرح اگر کوئی مصور کا شاہکار محض موت یا جمود کی تصویر کشی کرتا ہے اور اس میں زندگی کی کوئی حرارت نہیں تو وہ بھی بے وقعت ہے مبادا یہ کہ وہ حقیقی تصویر کشی کی طرف لوٹ آئے۔اس ضمن میں اقبال کی ”فنونِ لطیفہ “کے عنوان سے نظم بہت اہمیت کی حامل ہے:

؎اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن    ،جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!

                    مقصود  ِ ہنر      سوزِ     حیات  ابدی              ہے    یہ    ایک    نفس  یا  دو  نفس  مثلِ     شرر    کیا           !        

                   شاعر کی      نوا   ہو   کہ   مغنی   کا   نفس    ہو    جس  سے   چمن   افسردہ ہو وہ    با دِ     سحر  کیا                                               

بے          معجزہ       دنیا     میں      ابھرتی  نہیں    قومیں                                                                                                                                  جو     ضربِ کلیمی نہیں    رکھتا      وہ    ہنر        کیا(۱۴)                                

اسی طرح فنِ تعمیر میں بھی اگر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی سی تعمیرات والا جلال وجمال ہو جو فنِ تعمیر کا ایسا شاہکارہو کہ جو کوئی بھی دیکھے اس میں محو ہو کر رہ جاتا ہے کہ ان میں مسلمانوں کا جذبۂ ایمان و ایقان بھی موجود تھااور اس دور میں تعمیر کی گئی عمارتیں آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔اسی نظریے کے تحت ان کی نظم ”مسجدِ قرطبہ“ہے۔بہر حال اس تمام بحث کے بعد اقبال کا یہ شعر ان کے اس تصور کی بھرپور نمائندگی کرتا نظرآتا ہے۔

؎گر                  ہُنر                         میں                    نہیں                    تعمیرِ                           خودی                                                  کا                                                           جوہر

وائے صورت گری وشاعری و نائے و سرود!                     (۱۵)

”اقبال،رینان اور جمال الدین افغانی“میں دراصل انیسویں صدی کے مستشرق موسیو رینان اور اقبال ،سید جمال الدین افغانی کے متعلق لکھا ہے۔ رینان جس کے علمی کارناموں کی گونج اقبال کے دور میں کافی زیادہ تھی ابنِ رشد جیسے بڑے فلسفی پر اس  کی طرف سے کیے گئے تحقیقی کام کے سبب  قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس نے فلسفے  اور عیسائیت کے آغاز و اتقاء کے حوالے سے اسچ مگر تلخ باتیں کیں  جو کہ عیسائیت کے  پیروکاروں کو ناگوار گزریں۔لیکن اسلامی فکر کےحوالے سے اس کے ہاں جو مغالطے اورتعصبات پائے جاتے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا  جاسکتا۔اقبال کے باب میں رینان کا ذکر اس لیے کہ انہوں نے  بھی رینان کے افکارو خیالات کا مطالعہ کیا تھا اور کئی مقام پر اس سے متفق بھی تھے انہوں نے اپنے خطبات میں کئی جگہ اس کا حوالہ بھی دیا لیکن اس کی خالص مادی وسائنسی فکراور اسلام مخالف ذہنیت سے اقبال کو سخت اختلاف تھا۔

رینان اور جمال الدین افغانی کا تعلق کچھ اس طرح تھا کہ اس نے تمام عمر جو مطالعات مشاہدات سے نتیجہ اخذ کیا تھا اسلام اس کےنزدیک سائنسی ترقی میں رکاوٹ تھااور اسی بارے میں یورپ کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر دیا جو بعداازاں وہیں مقامی جریدے میں شائع بھی ہوا جمال الدین افغانی بھی ان دنوں پیرس میں قیام پذیر تھے انہوں نےاس کے مضمون کے جواب میں مقالہ اسی جریدے میں شائع کروایااور اس کے بے جا تعصابانہ نظریات کی منطقی توضیحات پیش کیں جس کے جواب میں رینان نے علامہ صاحب کے اعتراضات کوقبول کیا اور انہیں علمی و نظری کاوش پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔

”اقبال اور رجال پرستی“میں اقبال سے منسوب ایک غلط تاثر اور نظریے کومثالوں اور دلیلوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس میں جو درج ہے اس کاخلاصہ کچھ یوں ہے کہ:اقبال نے چوں کے اپنے ابتدائی ادوار ہی میں انہوں نے اپنے تصورِ خودی کے ذریعے انسان کی شخصیت اور ذات کو مرکز بنایااور ”خود شعوری”اور شخصیت کو باہم مترادف قرار دیا۔وہ انسانی شخصیت ہی کو زندگی کا نقطۂ عروج قرار دیتے ہیں۔لیکن اقبال کے ہاں ایک عام انسان اور خوددار سے آگے بڑھ کرتمام صفات سے بھرپور انسان اور شخصیت کا کردار آجاتا ہے۔یہ وہی تصور ہے جسے لوگوں نے کہا کہ جرمن شاعرنطشے کے ”فوق البشر“سے لیا۔ اس کی اقبال کئی بار تردید بھی کرچکے تھے۔بہر حال وہ اپنے دور میں بڑے بڑے مفکرین سے متاثر ضرور ہوئے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی ایک خاص شخص سے متاثر تھے یا یہی ان کا منبع ومرکز تھا کسی نے دعویٰ کیا کہ وہ مہدی سوڈانی بزرگ کو ہی مردِ مومنہ کے طور پر دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔لیکن اگر اقبال کے تمام افکار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو انہیں ”رجال پرست” کی بجائے ”رجال پسند” کہنا مناب ہوگا کیوں کہ وہ کسی ایک شخص اور اور اسی کی شخصیت سے متاثر نہیں تھے بلکہ ان کے ا پہلوؤں اور خصوصیات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں جو انسانیتِ کبریٰ کی بلند ترین اقدار ہیں۔اسی لیے وہ ایک طرف تو قراۃ العین طاہرہ سے متاثرہیں تو دوسری طرف منصور حلاج کی خود رفتگی وبےباکی نے انہیں متاثر کیا۔اسی طرح وہ غالبؔ کی فنی عظمت کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی شاعری میں بائرن،شیکسپئیر ، گوئٹے ،رومی وغیرہ کے نام باربار آتے ہیں۔جن شخصیات کے کچھ شخصی عناصر انہیں مناسب معلوم نہیں ہوئے ان پر شدید  نکتہ چینی بھی اس کی مثال حافظ شیرازی سے متعلق ان کے خیالات ہیں۔وہ کسی ایک شخص کو اپنے سامنے شخصیت کا معیار بناکر نہیں رکھتے۔لیکن اگر پوری انسانیت کی تاریخ میں کوئی ایک ہستی جو ان کے لیےانسانی زندگی کا معیار ہے اور جو انہیں اتہائی شدت سے متاثر کرسکی  تو وہ سرورِ کونینﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے جو مسلّمہ طور پر انسانی زندگی کا مکمل نمونہ ہے۔

لیکن اس کے باوجود اقبال کا کلام کسی ایک خاص شخصیت کے گرد نہیں گھومتا۔ان کی شاعری ایک خاص نظامِ فکر کی ترجمان ضرور ہے لیکن کسی خاص فرد کی نہیں یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ انہوں نےجن عظیم انسانوں کو خراجِ عقیدت پیش کیاان میں جمال الدین افغانی،سلطان ٹیپو،مولانا روم کے بعد شاید مہدی سوڈانی ہی وہ شخصیت ہے جو ایک مومن کے کردار کی رمزیت کو بیان کرسکتی تھی لیکن واحد نہیں  ۔یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے ہاں ”رجال  پرستی” نہیں بلکہ ”رجال پسندی”کا عنصر موجود ہے۔

”جدید دنیائے اسلام اور اقبال کا فلسفۂ خودی“میں قابل مصنف نے اقبال کے تصورِ خودی پر وضاحت وصراحت سے روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس فلسفہ کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ہے۔بیسویں صدی  کے تمام تصورات میں سب سے اہم اور تہلکہ خیز تصور فلسفۂ خودی تھا۔یہ ایک ایسا تصور تھا جس کی وجہ سے انہوں نے شکست خوردہ امت کو نیا نصب العین  دیا۔ان کا نظریۂ خودی  تصورِ بے خودی سے مل کرمکمل ہوتا ہے جس پر بہت زیادہ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔یہ ایک ایسا نظریہ ہے  جسے    مسلمان آج بھی اپنا  کر اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں جس کا خدا نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔جس دور میں اقبال نے یہ نظریات پیش  کیےتب جنگِ عظیم دوّم کے بعد کا دور تھا ۔انسانیت تباہی وبربادی کا سامنا کرنے کے بعد خاص طور پر عالمی جنگ میں مسلم اقوام پرانتشار،انحطاط اور غیر ملکی استعماریت کو مسلط کردیا گیا تھا۔یہ مسلمانوں کی تاریخ کا نازک مرحلہ تھا جب اقبال نے ان کے ہاں تعمیرِ نو ااور نشاۃِ ثانیہ پر زور دیا۔جس کے لیے سب سے مضبوط تصور ان کے ہاں خودی کا موجود ہے۔اقبال کے نظامِ فکر میں اپنی ذات یا اناتخلیقی صلاحیت سے بہرہ مند ہوکرفرد کے لیے ترقیوں کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔انا بالذات ایک نکتۂ نور ہے جس سے فرد پر کئی امکانات روشن ہوتے ہیں۔مثنوی اسراو رموز میں ذات یا خودی کی تعریف:

؎نقطۂ نورےکہ نامِ او خودی ست

زیر ِ        خاکِ                                                                   ما شرار                                      ِزند گی                                                     ا ست

از                                محبت                                  می                                              شود                                            پایندہ                                               تر

زندہ تر،سوزندہ تر،تابندہ تر(۱۶)

اسلم صاحب اقبا ل کے تصورِ خودی کی بنیادیں اسلام سے مربوط کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کیوں کہ ان کی مراد خودی سے ایک فرد کی بجائے پوری قوم کی خودی ہےاور اس ”انا”کی تشکیل وتکمیل امت کے لیے ناگزیزہے۔اقبال کے مطابق قوم کے ارتقا کے لیے بنیادی شرط ”خودی” کا صحیح طور پر ادراک ہے۔پھر ہی کوئی تہذیب یاقوم بحثیت مجموعی ترقی کرسکتی ہے۔

خودی اور آج کی مسلم دنیا کے زیرِ نظر  مسلمانوں کو یہ  سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی ذات،اپنی اہمیت اور قدر کو پہچانا جائے اوریہاں خودی کسی غرور یا انا کے معنوں میں نہیں بلکہ انسان کی ذات اورغیرانا عاجزی وانکساری کا مفہوم اختیار کرجاتی ہے۔بقو ل ڈاکٹر ریاض توحیدی:

”۔۔علامہ اقبال کے نزدیک خودی نام ہے احساسِ غیرت مندی کا،جذبۂ خودداری کا،

اپنی ذات وصفات کے پاس واحساس کا،اپنی انا کو جراحت وشکست سے محفوظ رکھنے کا،

حرکت وتوانائی کو زندگی کے ضامن سمجھنے کا،مظاہرہ فطرت سے برسرِ پیکار رہنے کا اور

دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔۔“(۱۷)

یہ تصور اور اقبال مسلم اُمہ سے اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک حیاتیاتی کل کی شکل میں ڈھال کر،تاریخی حالات و واقعات کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اپنے مقصد کے لیے پر عزم ہوجائیں۔اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ آج مسلم اُمہ پر وحدت  و یگانگت کی غرض وغائیت واضح کی جائے تاکہ وہ پھر اپنے مقصد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔اس وقت امتِ مسلمہ کے پاس واحد راستہ اتحاد ویگانگت،اجتماعیت وکلیت پسندی کا ہی انہیں منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔اور اسی مقصد  کے لیے اقبال نے بار بار خودی پر زور دیااور جب یہ بیدار ہوجاتی ہے اور پھر بے  خودی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ تمام افراد اپنی نفرادیت کوبھلا کرملک وقوم کے لیے یک جانا ہوجائیں یہی بے خودی ہے۔کہ وہ سارےملک اور قوم کی خودی بن جائے اور اسلام کی روح بھی تب ہی مجسم شکل میں ہمارے سامنے آسکتی ہےجب تمام انسان اور خاص طور پر مسلمان آپس میں انصاف،مساوات،حریت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیں۔یہی خودی   و بے خودی کی معراج ہے۔بقول اقبالؔ:

؎نہ افغانیم و نےترک و تتاریم

چمن  زادیم و ازیک شاخساریم

تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است

کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم(۱۸)

بقول عبدالرحمان :

”اقبال کے فلسفۂ خودی کا نقطۂ عروج خودی کی نشوونما کے ذریعے افراد کے کردارکی تعمیر

ہے۔اقبال کا واضح مقصد فوق البشر کی ایک ایسی نسل تیار کرنا ہےجو عقل کے ذریعے عنا

صر پر لا محدود غلبہ و اقتدار حاصل کرلےاور ساتھ ہی یہ وسیلۂ وجدان یا تعلق باللہ خدائی

مقاصد سے بھی سرشار ہو۔۔۔۔“(۱۹)

”اقبال اور اخلاقیات کی نئی فکری اساس“کے نام سے لکھاگیا مضمون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔کیوں کہ جب ہم اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے افکاروخیالات کا بڑا حصہ اخلاقی تصورات پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔کیوں کہ وہ فلسفے کے طالبِ علم تھے اس لیے اس مضمون سے د لچسپی لازمی امرتھا۔مضمون کا ابتدائی حصہ اخلاقی فلسفے کے تعارف واقسام پر مشتمل ہے۔یہ روایت جوزیادہ تر فارسی سے چلی جدید دور تک آتے آتے سب سے اہم نام اس سلسلے میں اب اقبال ہی کا ہے۔اس مضمون میں انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب میں اخلاقی فکراور اس دور کے بڑے بڑے مفکرین کا ذکربھی ہے ۔اور مشرق کے تمام اخلاقی نظریات کے حامل مفکرین کا ذکر بھی مضمون میں  موجود ہےیعنی  اس تمام پس منظر کا احاطہ کیا ہے جس میں اقبال کا اخلاقی تصور پروان چڑھا۔جب اقبال کے فلسفۂ اخلاق کی بات کی جائے تواس کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے اخلاقی شعور کو انفرادی واجتماعی زندگی دو نوں کے لیے لازم قرار دے دیا۔لیکن یہا ں بھی اخلاقی فلسفے کو اقبال کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ جس طرح پہلے روایتی اخلاقی فکر چاہے مشرقی ہو یا مغربی اس میں فرد کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ، علامہ اقبال نے پہلی بار روایت سے انحراف کرتے ہوئے”شخصیت یا خودی”کو مرکزی حیثیت عطاکی۔جس کاسب سے بڑا مقصدفرد کی ذات کی تکمیل ہے اس کے بعد ہی کوئی چیز اہم ہے۔انہوں نےاخلاقیاتی فکر کومابعدالطبیعات سے مربوط کردیااور نیابتِ الہٰی کو اپنی خودی کی آخری منزل قراردے کر اخلاقی و مابعد الطبیعاتی اساس کو مزید مستحکم کردیا۔یوں اقبال نے اخلاقی فکر کی نوعیت کو یکسر بدل دیا۔انہوں نے اپنے اس فلسفہ کی رو سےفضائل و رزائل کی مکمل فہرست فراہم کی فضائل میں(خود شناسی،ضبطِ نفس،جدو جہد،مقاصد آفرینی،فقرو استغنا،آزادی،حریت،حق گوئی،عشق وآگہی،علم وحکمت،وغیرہ)جب کہ رزائل میں(دستِ سوال دراز کرنا،سستی ،کاہلی،احساسِ کمتری،نفی ذات،یاس وقنوطیت،جمود جیسے اجزاء شامل ہیں۔)

بقول اسلم انصاری:

”اقبال کاعالمگیر پیغام ،انسانیت کےلیے علم وعمل کے نئے آفاق روشن کرتا ہے۔اس لیے

اسے عصرِ حاضر کا سب سے حیات افروز اور عمل انگیز فلسفۂ اخلاق قراردیا جانا کسی طرح بھی

خلافِ حقیقت نہ ہوگا۔یہ کہنے کو فلسفہ ہے لیکن حقیقت میں ایک مکمل نظامِ عمل ہے۔“(۲۰)

ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح یورپ میں کئی جامعات اور اداروں میں اخلاقیات بطور  مضمون موجود ہے ہمار ے ہاں بھی اس کومنطبق کیا جائے تاکہ ہماری نسلیں اقبال کے اس مفید فلسفۂ فکر سے بھی بہرہ ور ہوسکیں۔

مذکور بالا مضامین و ابواب کے بعد تین مقالات انگریزی کے درج ہیں جن کے عنوانات بالترتیب یہ ہیں:

1.Iqbal’s Concept of History and Man

2.Relevence of Iqbal’s Philosophy of “Self” to The Modern world of Islam

3.Iqbal’s Philosophy of Self and its Import in Education of Modern/Muslim Youth and Integration  of Personality

اب ابواب بالترتیب  میں اقبال کے تصورِ تاریخ اور انسان پر بحث کی گئی ہے۔جو انہوں قرآن سے اخذ کیا۔یہ غالباً بیسویں صدی میں پہلی بار تھا کہ اس تصور کو قرآن پاک سے جوڑا جارہاتھا کہ جس نے علم کے تین شعبوں میں سےایک تاریخ بتایا ہے اور دوسرا اپنے آپ کی معرفت اور تیسرا مظاہرِ فطرت دنیا کا مشاہدہ ۔اقبال کے تصورِ خودی  کے فلسفے کی تشکیل میں ایک بڑی دین یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلامی نکتۂ نظر کو فراموش نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو ان کا تابناک ماضی بار بار یا دکروایا۔اور اقبال کے ہاں جدید انسان وہی ہے جس کی سوچ نئی ہے۔

اقبال کے فلسفۂ خودی اور اس کی جدید نوجوان مسلمانوں کی تعلیم اور فلسفے کا انضمام(شرکت،شمولیت،الحاق)

یہ اس کتاب کا آخری لیکن بہت اہم مضمون ہے۔جو فلسفۂ خودی کی تعلیمی میدان اور خاص طور پر نوجوان مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کے میدان میں  عملی تطبیق سے متعلق ہے۔اقبال چوں کہ خود بھی استاد تھے کئی سال اور فلسفے سے وابستہ ہونے کے سبب ان کے ہاں تعلیمی نظریات بھی کافی اہم ہو جا تے ہیں۔ اقبال نے ایک استاد کے ساتھ ”قوم کے استاد“کا رول بھی اداکیا۔ اپنے دور کےتعلیمی نظریات پر ان کی گہری نظرتھی۔اقبال کا نظریہ تعلیم اور اس کی خصوصیات بھی اس طرح کے افراد کی تشکیل وتعمیر ہے جوزندگی میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔فرد کی شخصیت کو بنانا ،نکھارنا،سنوارنا یہ سب ان کے نزدیک تعلیم کے بنیادی اہداف میں سے ہیں۔تاکہ انسان تعلیم پا کر اپنے آپ کو پہچانے ،محسوس کرےاور وہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہےکہ اپنے آپ میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کی جائیں۔اقبال ؔ پنےنظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح حس اور محسوس کرنے کا احساس زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہےاسی طرح ہمارے ذہنی،سماجی نظام اور زندگی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ اپنے تجربات بعد میں آنے والوں تک منتقل ہوتے رہیں جس سے ایک سلسلہ مسلسل قائم رہے۔یہی تعلیم ہےاور اس کا مقصد بھی۔

اقبال کا نظریۂ تعلیم بھی خودی کی بنیاد پر استوار ہے۔اور دوسرا ان کے تصور میں بنیادی عنصر انسان کے اندر وہ ضمنی کردار کی تشکیل ہےجو اپنے لیے خود مواقع پیدا کرسکے۔بہر حال اقبالیاتی نقطۂ نظر  سے تعلیم کا مقصد انسانی خودداری اور انا کو مضبوط کرےاور ایسا ماحول و مواقع فراہم کرےجس سے انسانی  شخصیت کی بہتر نمو ہوسکے۔یعنی اس میں خودی ہی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔وہ شخص جو اپنے آپ اور ذات کی تکمیلیت کے لیے کوشاں رہے۔زندگی کی تمام مشکلات و پریشانیوں سے گزر کر اپنے آپ کو مضبوط کرے۔تعلیم فرد کا معاشرے سے تعلق مزید گہرا کرتی ہے۔اوریہ  معاشرے و فرد کے درمیان ایک اہم ذمہ داری ہے۔ایک اہم بات یہ کہ اقبال کے مردِ خود شناس کواور پوری امت کے  لوگوں کو اپنے آ پ عد ل ،مساوات اور  اتحاد پیددا کرکے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔یہ بات بھی  قابلِ غور ہے کہ اتنی کاوشوں اور کام کی بدولت بھی  معاصر نوجوان آج کے طالبِ علم بالکل  ابتدائی مراحل میں  ہیں ان میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔اس تصور کے بعد جو تعلیمی اور خاص کرمعاصر تعلیمی اداروں  اور مسلمان طالب علموں کو درپیش ہیں ان کا ذکر بھی کردیا گیا بے (روز گاری،بے  مقصد ی ، گمنامی کا احساس)وغیرہ شامل ہیں۔ اور یہی اقبال کے اس تصور کا منبع بھی ہے۔

بہ حیثیتِ مجموعی اس کتاب کے مطالعے سے قارئین پررفکرِ اقبال کے چند اہم گوشے آشکار ہوتے ہیں۔جن میں زندہ رود کی  علامتیت ہو یا پھر حرفِ شیریں کی بحث،اقبال کی عہد ساز مفکرانہ شاعری کا جائزہ ہویا پھرتصورِ تاریخ،زروان یا زروانیت،اقبال رینان اور جمال الدین افغانی،مسجدِ قرطبہ کی فکری وفنی جائزہ؛اقبال کا نظریۂ فن ہویا پھر خودی اور فلسفۂ اخلاق کی تعلیم،جدید دنیائے اسلام میں ان کے فلسفہ کی اہمیت تمام موضوعات کا احاطہ نہایت بلیغ انداز میں کیا گیا ہے۔ایک چیزجو پوری کتاب لکھتے ہوئے مدِ نظر رکھی گئی ہے تسلسل ،روانی اور سب سے بڑھ کر محققانہ اور منطقی انداز اسلم انصاری کوئی بھی نکتہ جو ان کے نزدیک روایت سے ہٹ کر یا کوئی بات اس ضمن میں نئی ہو دلائل سے قارئین کو قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مضامین کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر مقالے کے آخر میں اس کا محرک یا وہ کب لکھا گیا درج ہے۔تمام نہیں تو زیادہ تر مضامین کے آخر میں خواشی درج ہیں۔اس طرح یہ ایک تحقیقی وتنقیدی کتاب کا درجہ رکھتی ہے جس میں اقبالیات سےمتعلق چند اہم مباحث پر تحقیق کے بعد اس پر مصنف نے تنقیدی نقطۂ نظر کا اظہار بھی کیا ہے یوں  اس کی ادبی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

کتاب کا اسلوب انتہائی جانداراور خوبصورت ہےکہیں بھی بوجھل پن کا احساس نہیں ہونے پاتا اور نہ ہی یہ کہ  دیگر کتب کی طرح مشکل وثقیل الفاظ کا استعمال کیا بلکہ ہربات نہایت ہی سادہ اور آسان زبان میں بیان کی گئی ہے قارئین تک ان کی تفہیم ہر صورت ممکن ہوسکے۔مشکل الفاظ وتراکیب کا استعمال کرکے عبارت آرائی کی کوشش دیکھنے کو نہیں ملتی۔بہرحال اسلم انصاری کی یہ مختصر مگر جامع کتاب عام قاری جو کہ ادب سے تعلق نہ بھی رکھتا ہو اور خصوصاً طالب علموں کے لیے انتہائی مفید ہے کہ اس میں تمام نکات نہایت مختصر مگر جامع انداز میں بیان کیے گئے کہ زیادہ تفاصیل سے قاری کا ذہن الجھاؤ کا شکار نہ ہو اقبالیات میں اس کتاب کی اہمیت وافادیت مسلّم ہےاور یوں ہی جیسے کوزے میں دریا بند کردیا ہو۔لیکن  خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک کمی جو کھٹکتی ہے وہ اکثر اشعار خصوصاً فارسی اشعار کا اندراج زیادہ تر غلط کیا گیا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔مثلاً اقبال ؔ کا زندہ رود کے حوالے شعر بھی کتاب میں درست نقل نہیں کیا گیا۔المختصر یہ کہا جا سکتاقبال کے بنیادی اور بعض کم ذکر میں آنے والے تصورات کو آسان الفاظ میں سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔اور جو چیز ہمیں سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اقبالؔ کا کوئی بھی تصور،نظریہ یا فکر ہو جب اس کی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اس کی بنیادیں فلسفۂ خودی ہی پر استوار نظر آتی ہیں ۔اس لیے اس کو پہلی فرصت میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہماری قوم اور موجودحالات میں مسلمانوں کے لیے ازبس ضروری ہے۔

حوالہ جات:

۱۔کلیاتِ اقبال اردو (بالِ جبریل )،غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور شیخ غلام علی اینڈ سنز،سن ندارد،ص۱۰،۱۱۔

۲۔ کلیاتِ اقبال اردو (بانگِ درا )، غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنزسن ندارد، ۳۲۸،۲۹  ۔

۳۔ اقبال ،کلیاتِ اقبال فارسی ،ا (اسرارورموز)، لاہور:شیخ غلام اینڈ سنز،  اشاعت سوّم مارچ ۱۹۷۸ء۔ص۱۱۔

۴۔ اسلم انصاری ،ڈاکٹر،اقبال۔عہد ساز شاعر اور مفکر،پاکستان:اقبال اکادمی،سن اشاعت ،طبع دوّم ۲۰۱۸ءص،۲۲۔

 ۵۔ کلیاتِ اقبال اردو (بالِ جبریل)، غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز،  سن ندارد،ص۲۱۲۔

 ۶۔محمد رفیق افضل(مرتبہ)،گفتارِ اقبال،لاہور:نفیس پرنٹرز،سن اشاعت طبع دوّم نومبر ۱۹۷۷ء،ص۱۰۴۔

۷۔ کلیاتِ اقبال اردو (بانگِ درا) غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز سن ندارد،ص۲۸۔

 ۸۔ اقبال ،کلیاتِ اقبال فارسی ، (جاوید نامہ) ،لاہور:شیخ غلام اینڈ سنز،  اشاعت سوّم مارچ ۱۹۷۸ء ،ص ۶۱۔

۹۔ایضاً۔ص۲۵۔

 ۱۰۔ کلیاتِ اقبال اردو (بالِ جبریل )،غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز ،سن ندارد،ص۱۶۷۔

۱۱۔نورالحسن نقوی،اقبال:شاعرومفکر،علی گڑھ:ایجوکیشنل بُک ہاؤس،سن اشاعت ۲۰۰۰ء ،ص۲۱۵  ۔

۱۲۔ کلیاتِ اقبال اردو ،(ضربِ کلیم)، غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)،لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ،سن ندارد،ص۱۴۷۔

 ۱۳۔عزیز احمد،طاہر تونسوی(مرتب)،اقبال اور پاکستانی ادب،لاہور:مکتبۂ عالیہ،سن اشاعت ۱۹۷۷ء،ص۸۹تا۹۰۔

 ۱۴۔کلیاتِ اقبال اردو ، (ضربِ کلیم)، غلام رسول مہرؔ،(ترجمہ وشرح)لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ،سن ندارد،ص۱۷۱۔

 ۱۵۔ایضاً۔،ص ،۱۶۵۔

۱۶۔ اقبال ،کلیاتِ اقبال فارسی ، (اسرار ورموز)، لاہور:شیخ غلام اینڈ سنز،  اشاعت سوّم مارچ ۱۹۷۸ء ،ص۱۸ ۔

۱۷۔ریاض توحیدی،ڈاکٹر،جہانِ اقبال،سرینگر:میزان پبلشرز،سن اشاعت۲۰۱۰ء،ص۱۹۰۔

۱۸۔اقبال ،کلیاتِ اقبال فارسی ، (،پیامِ مشرق)،لاہور:شیخ غلام اینڈ سنز،  اشاعت سوّم   مارچ۱۹۷۸ء،ص۵۶۔

۱۹۔عبد الرحمان،اقبال کا فلسفۂ خودی مشمولہ:فلسفۂ اقبال،بزمِ اقبال(مرتبہ)لاہور: بزمِ اقبال،سن اشاعت بار سوّم۱۹۷۰ء،ص۳۱۴۔

۲۰۔اسلم انصاری، ڈاکٹر،اقبال۔عہد ساز شاعر اور مفکر،پاکستان:اقبال اکادمی،سن اشاعت ،طبع دوّم ۲۰۱۸ء،ص۱۲۳۔

***

Leave a Reply