You are currently viewing مشرقی ومغربی تانیثیت :جدید تنقیدی تناظرات

مشرقی ومغربی تانیثیت :جدید تنقیدی تناظرات

غوثیہ سلطانہ نوری

شکاگو، امریکہ

مشرقی ومغربی تانیثیت :جدید تنقیدی تناظرات

Feminist  Movement

         تنقیدادب کی تقویم وتشریح ، ادبی وغیر ادبی معیار کا تجزیہ ہے جس میں کھوٹے ،کھرے کی پہچان گویا ’’حالی اورکل دار‘‘ کو سمجھنے کا اعلیٰ میزان ہوتا ہے ۔ بقول ٹی ایس ایلیٹ :’’ یہ فنکار کی فنکارانہ صلاحیتوں اور نگاہِ بصیرت کا رابطۂ اتحاد ہے ۔‘‘ جس میں قوتِ مشاہدہ ،عمیق نگاہی ،متن سے قاری تک پہنچنے کا راستہ، تخیلات کے تانے بانے سے جو رخِ پرواز ملتی ہے وہ ایک لمحۂ احسا س ہوتا ہے جو دل کو اکساتا ہے ۔ اس سے محض ایک نئی تخلیق ہی نہیں بلکہ ایک صحت مند تنقید جو کسی اکابر کے کہنے کے مطابق ’’وہ کسی روشندان سے کم نہیں ہوتی ‘‘ جس سے علم وحکمت کے نہ صرف چراغ جلتے ہیں بلکہ چشمے بھی پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادب کی قوت نے انسانوں کو ستاروں کے آگے کی تلاش پر اکسایا ہے ، یہ دنیا امکانات سے بھری ہوئی ہے ہر خطۂ زمین پر نئے امکانات کی ذہنی پناہ گاہ موجود ہے ۔ جہاں ترقی پسندی کی تلاش ، تجربات اور قدروں کی اساس ، روایات کا احساس ، مشاہدات، سرمایہ دارانہ تمدن ، نئی تاریخیت ، جس میں مارکسی تنقید،جدید تنقید کی جمالیات، ساختیاتی تنقید ،اکتسابی تنقید یا تانیثی تنقید غرضیکہ اردو تنقید کے نئے رجحانات ومیلانات سے ہمکنار ہوتی ہے ۔ اس کے متن کو وجود میں لانے والا نقاد، ادب کی ہمہ جہتی اور ادیب کی آگہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی وضعی کیفیات کو اجاگر کرے جو ہر ایک خاموش حرف میں کندہ ہے ۔ اس کے لیے نقاد کو اپنے ذاتی عمل سے اوپر اٹھ کر معروضی یا موضوعی رویوں کو بناء تقسیم کیے سماجی ماحول کے درمیان جدلیاتی عمل کا سلسلہ رکھنا ضروری ہے ۔

         افلاطون سے لے کر ۱۸؍ویں صدی عیسوی تک ادب میں صرف زندگی کا عکس پیشِ نظر رہا کرتا تھا ۔ اس کے بعد رومانی تحریک سے جمالیات وشعریاتِ عملی کا تنقید میں اضافہ ہوا۔ ایک نیا ڈھنگ سکھایا ۔اتفاق پر کسی کو اختیار نہیں ہے اور یہ تمام بدلتی رتوں کی اختراع مغرب سے ہوئی ہے۔ تنقید کی تعریف مشرق ومغرب دونوں میں ایک جیسی ہے ۔ مغربی نئی تنقید کے خیالات کو جدید اردو تنقید نے نہ صرف قبول کیا بلکہ یہ مغربی نسلی رویہ اردو تنقید میں قائم ہے ۔ فن تنقید میں عالمگیرآفاقی قدروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

         فن تنقید اپنے معاصر تنقیدی مواد کے اعتبار سے مقامی ماحول یا تقاضوں کے ساتھ خاص رنگ رکھتی ہے جس میں تنقید کے محتویات خود عمل کے مشتملات ومحتویات کا عکس بن جاتے ہیں ۔ادب چاہے طلسمی موتی کہلائے یا پرستان کی پری جو ہرانسان کو جدا گانہ نظرآتی ہے ۔ جیسے محمد مظفر حسین کو ’’نکاتِ ادب ‘‘ میں نظر آتی ہے ۔

         مغربی نقاد George Watsonنے Legislativeتنقید کا نام دے کر اسے درسی مزاج کا حامل بنادیا۔Drydonنے اس کو سچ کے میزان کے ساتھ حسن کا میدان بھی دیا۔ ایک اضافہ کے طورپر Longinesلان جنس کے طریقہ کار نے تنقید میں عارفانہ کیفیت کی تلاش کی ۔ بعد ازاں آسکر وائلڈOscar Wildکالن ووڈ Collin Woodآئی اے رچرڈI.A. Richardکے دور میں تنقید کے دو مکاتیب نکل آئے جس میں ایک فرانسیسی اور دوسرے جرمن مکتب تھا۔ مغرب میں ایک تیسرا نام جان لاک John Lockeکا ہے جسے Father of Liberalismکہاجاتا ہے ۔ اس نے عقلیت اور تجربیت Empericismکو فروغ دیا۔ ایلیٹ اور رچرڈ کے تجرباتی طریقۂ کار کو میتھو آرنلڈ Mathew Arnoldنے بسروچشم قبول کیا ۔ ان تمام باتوں کے پیش ِ نظر مشرق کے نامور نقادڈاکٹر وزیر آغا نے کیا خوب بات کہی کہ’’تنقید کے گھر میں شورشرابہ لگا رہتا ہے ۔‘‘

         لفظ تانیث عربی لفظ سے مشتق ہے ۔لاطینی اصطلاح Feminaکا مترادف ہے ۔ لفظ Feminismحقوقِ نسواں، آزادیٔ نسواں کی اصطلاح کہلانے لگا ہے ۔ Feminismکا آغاز اور ارتقا مغربی حوالوں کے بغیر ناممکن ہے۔تانیثیت کے خاص فلسفے کو سمجھنا سخت ضرور ی ہے ۔ ورنہ یہ تحریکِ نسواں دور کے ڈھول کی سہانی تھاپ کہلائے گی ۔ کائنات کے تمام شعبہ جات میں عورت کا مقام اور مرتبے کی بازیافت نے قدیم فرسودہ روایات کو لے کر سماج کے دو اہم ترین رویوں پر ضرب لگائی ۔

’’عورت کی تلاشِ ذات سے اظہارِ ذات تک کی نئی جہت نے تہلکا مچادیا۔‘‘ یہی تانیثی تحریک ہے ۔ یہی تانیثی حسیت جسے Feminist Movementکہا جاتا ہے ۔ A Theory Against Violence on Womanمساوات کے سلوک کی نشاندہی جس کا مقصد مرد سماج dominatingدنیا میں عورت کو حیاتیاتی ،لسانی ، تحلیل نفسی ، کلچرل آزادی دلانا تھا لیکن تحریکِ نسواں کے سلسلے میں مشرق سے کوئی علمبردار نہیں ملتا ۔ عورت پرانے ریتی روایات کے مطابق افزائش ِ نسل اور امور خانہ داری تک محدود تھی ۔عورت کے لیے Justificationکی راہیں منظم کرنا اور ایسے ظلم وتشدد سے چھٹکارا دلانے کا خیال اس کے حق کو منوانے کا دھمال ۱۸۲۸ء سے مغرب میں شروع ہوا اور آج ۲۰۲۱ ء تک جاری ہے ۔حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی تحریک ،مرد اساس رویے میں تبدیلی خصوصاً شادی کے ذریعہ زندگی کے ہر موڑ پر برابر شریکِ حیات سمجھنا مغرب کی دین ہے حالانکہ اسلام نے عورت سے مساوات کی نشاندہی کی ہے ۔ اس کے باوجود مرد کی بالادستی جاری رہی ۔ فرسودہ رسم وروایات کے ساتھ خصوصاً مشرق میں عورت کا جینا دوبھر رہا ۔ صدیوں کے سنگھرش میں صرف ایک روایت سے نجات ملی اور وہ لڑکی کی پیدائش پر اسے زندہ دفنا دینا!   ؎

پر انکے کاٹ کر کب تک قفس میں رکھوگے

پرندوں کو پروں کے بن اڑانا چاہتے ہیں ہم

         ۱۸۴۸ء میں تانیثی تحریک کا آغاز برطانیہ اور امریکہ میں ہوا تھا تاکہ عورت کو مردوں کی طرح آزادانہ عمل وحرکت کا موقع ملے ۔ جیو اور جینے دو کا خیال جاگا تھا۔ بعدازاں براعظم ایشیا میں موجودہ تمام ممالک اور اس میں بسنے والے باشندوں نے عورت کی آزادی اور حقوق کی پاسبانی میں حامی بھرنا شروع کیا۔ بیشتر یوروپی عورتوں نے مرد بیزاری کے تحت تحریکِ نسواں کو بڑھاوا دیاجس میں در حقیقت سماجی طورپر عورت کے حقوق اور آزادی کے علاوہ مساوات اور بھلائی کو عام کرنے والی یوروپی مہم رفتہ رفتہ عروج پر آتی گئی تاکہ عورت کو سماج میں اعلیٰ مقام ملے ۔ اُس وقت مغرب میں بھی عورتوں کو محض سوت کاتنے ،کپڑا بننے یالانڈری کرنے سے زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا تھا۔ عورت کی اجرت میں کمی کے بحران کا نتیجہ جسم فروشی پر آمادہ کردیا۔ اس تحریک پر مردوں کی کھلی آزادی، ستم ظریفی اور تشدد کے خلاف کئی ادیبوں نے مغرب میں اپنے قلم کی طاقت دکھائی اور روشن خیالی کا ثبوت دیا۔ قلم کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں ۔لہٰذا ۸؍مارچ ۱۹۱۱ء میں تحریک ِنسواں کا جنم ہوا اور ۱۹۷۷ء سے عالمی یوم خواتین دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔ابھی تک بھی مشرق سے اس تحریک کا کوئی علمبردار نظر نہیں آتا۔

         زمانۂ قدیم میں مشرقی ماورا نہ نظام کے تحت اور عورت چونکہ تخلیق کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی اس لیے بھی مرکزیت کے تئیں سماج کا جھکاؤ فطری رہا ہوگا۔ تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے اس مرحلے میں جب کاشتکاری کے لیے سماج میں عورت کے مقابلے میں مرد کی طاقت کو استحکام بخشا۔ اس طرح سماج کی زمام عورت کے ہاتھ سے نکل کر مرد کے ہاتھوں میں چلی گئی اوریہ تھی مشرق میں ترقی کی پہلی کروٹ، جس میں پدری نظام کو تقویت مل گئی اور عورتوں کو غلامی کی زنجیریں!!!!۔ ڈپٹی نذیر احمد کے دورمیں (۱۸۳۱ء سے ۱۹۱۲ء) انہوں نے اپنی وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے ’’عورت کو سماج کا محور کہا تھا‘‘۔

         لیکن اس وقت مغرب یا مشرق میں عورت اپنی مرضی سے بینک اکاؤنٹ کھولنا تو ایک طرف وہ اپنی مرضی سے زندہ بھی نہیں رہ سکتی تھی ۔

         ۱۹۰۳ء میں Annie BesantاورMargretمارگریٹ نے مشرق میں ویمن سوشل اور پولیٹکل یونین ’’Woman Social and Political Union‘‘ کی بنیاد رکھی جس سے سماج میں جارحانہ وباغیانہ لہر دوڑ گئی ۔ مغرب میں اس تحریک کو نئی سمت ورفتار Keat Melletاور فرائڈن نے دی ۔ غرضکہ نسائی تحریک نے دنیا میں عورت کو مرد کے مساوی مقام دلانے اور ان کے حقوق کو پامالی سے بچانے کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ عورت ہی کائنات کی اہم ضرورت ہے ۔ عورت روزاول سے مردوں کی ناانصافی کا شکار ہوتی آ رہی ہے ۔ درحقیقت مغربی ممالک کی خواتین کی رہنما یانہ کوشش سے تانیثیت کو تحریک ملی ۔ عورت صنفِ نازک اپنے اندر خاص طاقت رکھتی ہے۔

         ادبی اعتبار سے تانیثیت کی پہلی آواز رشید جہاں اور عصمت چغتائی نے بلند کی ۔ یہ رجحان بڑھتا گیا ۔ کسان مزدور عورتوں کی ہتھیلیوں کے چھالے بچپن کی شادیاں ،وفادار بیوی ، فرما نبردار بیٹی ، جہیز کی لعنت ، فرسودہ رسومات میں عورت کو زندہ جلادینا ، نسائی حقوق تلفی کی تفصیل بشریٰ رحمان کے فکشن میں ملتی ہے ۔ غرضیکہ عورت نے’’ اگنی پریکشا‘ـ‘ سے لے کر ستی کی رسم کو بھی نبھایا اور زندہ جلتی رہی ۔لیکن ہمت اور استقلال کا دامن نہیں چھوڑا۔

         ۱۹۹۷ء میں امریکہ کی ایک مشرقی اوریجن خاتون کلپنا چاولہ نے Spaceکا رخ کیا۔

۱۹۳۷ء کے نامساعد حالات میں بھی ایک مغربی عورت Amelia Earhartکو سب سے پہلی ہوائی جہاز اُڑانے والی خاتون بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ اس نے اٹلانٹک کر اس کیا تھا ۔لیکن واپس نہیں آئی اور نہ کہیں نام ونشان ملا؟ آج بھی اگر عورت کوئی Standلیتی ہے تو سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہاں تک کہ حصول علم کے لیے نہ صرف ممنوعیت بلکہ گولی کا نشانہ بننا پڑا ہے جس علم کو حاصل کرنے کی ممانعت تھی وہ آج اسی علمی کتاب کا سرورق بن گئی ۔ حالانکہ علم کی اہمیت قرآنی نقطۂ نظر سے بھی ہے ۔لیکن کیا فرق پڑتا ہے!۔ عورت نے راج نیتی بھی سنبھالی۔ بے مثال ، بے نظیر بن کے دکھایا۔Namira Salimنے حال ہی میں نارتھ پول سے ساوتھ پول پہنچ کر اسی بہادری کا ثبوت دیاہے۔

         مغربی عورت جفاکش اور نڈر ہوتی ہے ۔ رسم ورواج کی زندگی نہیں ہے مشرق ومغرب کے کلچر میں بہت فرق ہے ۔مشرق میں لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں مغرب میں عورت بر سراقتدار ہونہ ہو ذمہ داری خوب نبھاتی ہے ۔ مغربی زندگی کی خوبیاں اپنی جگہ قابلِ ستائش ہیں مثلاً وقت کی پابندی ۔زن وشوہر کی آپسی وفاداری ، انسانیت پسندی ، خودکفیلی Independentلائف اسٹائل وغیرہ ۔

         زمانہ قدیم میں مغرب کے لوگ مشرق کو حصول تعلیم کے لیے جایا کر تے تھے ۔سینٹرل ایشیا بخاراکا مشہور نام  ابن سینا فلاسفر الجبرا کا موجد کہلاتا ہے ۔ ریاضی میں ’’زیرو‘‘ آریہ بھٹا چاریہ کی Discoveryتھی غرضیکہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک طاقتور عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔

’’Behind Every Successful Man , There is a Strong Woman‘‘

         آج حیات کے ہر شعبے میں عورت موجود ہے ۔ عورت ڈاکیہ ہے ، بس ڈرائیور ہے ۔ امریکہ میں کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھا جاتا ۔ تصنع بالکل نہیں ہے ۔

         ہر سال ماہ مارچ میں I.W.Dانٹرنیشنل ویمن ڈے منایا جاتا ہے ۔ تانیثی تحریک پر بحث و مباحثے ، تبصرے جس میں مردوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے اور بقا پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ ہر سال نیا Hashtag#دیا جاتا ہے مثلا #Press for Progress۲۰۲۱ء کے ہیاش ٹیاگ کا نام #choosetochallengeتھا۔تانیثی تحریک نے خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارا ہے ۔ بشریات ، عمرانیات ،معاشیات ، ادب وفلسفہ ، جغرافیہ یا نفسیات کے ہر شعبے میں نسائی حقوق کو مساوات حاصل ہوں تاکہ انسانیت تذلیل ہونے سے بچ جائے ۔ تانیثی تحریک انٹرنیشنل مشن ہے۔ اس کو ننگِ انسانیت اور وحشیوں کے خبیث کردار سے بچانا ہے ۔ تاکہ عورت اپنے مضبوط حوصلے اور اعتماد کے ساتھ راستے ہموار کرسکے ۔آج کی عورت مرد کی مکا ر سازشوں سے آگاہ ہے اور عورت میں awarenessآچکا ہے ۔ نئی نسل کو بھی نسائیت کی جہت سے روشناس کرایا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنا بچاؤ کرسکے۔بارود کے ڈھیر پر بیٹھی اس دنیا کو آج عورت ہی بچا سکتی ہے۔

         مغربی مرد Happy Life with My Wifeکہتا ہے ۔اسے زن مرید نہیں سمجھا جاتا ۔ راستہ چلتے وقت بیوی پیچھے پیچھے نہیں شانہ بشانہ چلتی ہے ۔مغرب میں بیوی کو مساوات کا پورا حق حاصل ہے ۔ ویسے عورت اپنی بقا ء کی جنگ زندگی کے ہر لمحہ میں لڑتی آرہی ہے ۔ مردوں کی جو پہچان تھی وہ آج خواتین کی بن رہی ہے ۔ بیوی کو آگے بڑھتا دیکھ کر مغربی شوہر فخر محسوس کرتا ہے ۔جب کہ مشرقی مرد احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔مغربی مرد احساسِ کمتری کا شکار قطعی نہیں ہوتا بلکہ وہ معاون ثابت ہوتا ہے ۔ آج ایک مشرقی اوریجن خاتون Kamala Harrisکی US  Vice-Presidentہے ۔ مغرب کو Land of Immigrantsکہا جاتا ہے ۔ ہمیں مہاجرین کوئی نہیں کہتا بلکہ شہریت دے کر ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔

         تانیثی فکر کی لہریں اُردو ادب میں ریختہ ، غزل اور ناول فکشن میں مل جائینگی۔ تانیثی مطالعہ احتجاج یا نعرے بازی نہیں بلکہ حق وانصاف دینے کا دوسرا نام ہے آج کی عورت یوں آواز اٹھاتی ہے    ؎

آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں

مجھکو میری دانش میرے افکار میں دیکھیں         (فاطمہ حسن)

***

Leave a Reply