You are currently viewing دبستان دکن پر ایک نظر

دبستان دکن پر ایک نظر

ڈاکٹر فیاض فاروقی

اسسٹنٹ پروفیسرشعبئہ اردو ، ڈاکٹر رفیق زکریا سینٹر فار ہائر لرنینگ اینڈ ایڈوانسڈ ریسرچ

 اورنگ آباد۔مہاراشٹر۔

دبستان دکن پر ایک نظر

         اردو زبان کی ترقی اورترویج میں دکن کا اہم حصہ رہاہے، علائو الدین خلجی کے ناکام حملوں کے بعد محمد بن تغلق نے تہذیب و تمدن کو ڈھالنے میں نمایاں رول ادا کیا ،دولت آباد کو پائے تخت بنانے کے بعد مدرسے اوردینی درس گاہوں کی بنیاد رکھی۔ اس دورکی قدیم ہندی اور فارسی آمیزش سے ایک نئی زبان وجود میں آئی ۔ اس نئی زبان کو ولی اورنگ آبادی نے سب سے پہلے ر یختہ کے طور پر استعمال کیاحالانکہ ولی عام صنف غزل کے شاعر تھے لیکن اس سے قبل دکن میں نثر کی ابتداء ہو چکی تھی، بقول نصیرالدین ہاشمی :

         ’’گلستان ہند کے شمالی چمن میں مغریبی دروازوں سے باغبانو ں آکر اردو کا بیج بویا، گنگا اور جمنا نے ابیاری کرکے چھوٹے پودے کو اگایا۔اسی کے قریب قریب گلزاردکن میں بھی انہیں ہاتھوں نے اس بیج کو زمین میں ڈالا ۔ کرشنا اور گوداوری و موسیٰ درخت کے اگانے میں معاون ہوئیں۔‘‘

(دکن میں اردو ۔ نصیرالدین ہاشمی ۔ترقی اردو بیورو ، نئی دہلی۔ ۱۹۸۵ء؁۔ ص۲۷۔)

         اس زبان کی سرپرستی صاحب حال و قال اوردرویشیوں نے کی تھی یہ اس وقت کے مسلمانان قوم تھے بقول نورالحسن نقوی:

         ’’لیکن اس زبان پر سب سے بڑا احسان بزگان دن کا ہے جنھوں نے اپنا پیغام عوام و خواص کے دلوں تک پہچانے کے لیے اپنی وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں اس کا استعمال کیا۔‘‘

 (تاریخ ادب اردو۔نورالحسن نقوی۔ص۲۰۔ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ۔ ۲۰۰۱ء؁۔)

          ان کے مریدوں کی کثیرتعداد تھی جو مختلف شہروں میں مقیم تھے مرشید اپنے مریدوں کی تلقین اور تبلیغ کی غرض سے خط و کتابت کرنے لگے آگے چل کر رسالہ قلمبند کئے گئے تحقیقات کی رو سے نثر کی ابتداء حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے کی انہوںنے معراج العاشقین اور ہدایت نامہ وغیرہ مرتب کئے اس کے بعد نظم کا سلسلہ شروع ہوا اس میں پہلی بار مثنوئی کہی گئی اس کے بعد رباعی، غزل اور قصیدے کا آغاز ہوا۔

         اردو ادب کا پہلا دور:۔        ۱۳۴۷ء؁   تا    ۱۴۹۵ء؁۔         ۷۴۷ ھ  تا    ۹۰۰ھ

         دکن کی خو د مختار بہمنی سلطنت کا آغاز ۴۷ ۱۳ ء؁ میں ہو الیکن سلطان محمد تغلق کے زمانے میں باہم اتفاق سے امراء دکن نے بغاوت کردی اس بغاوت سے ایک بہمنی سلطنت کے بجائے پانچ خود مختار حکومتیں قائم ہوگئیں۔ بہمنی دور کے جن اردو شعراء اور نثر نگاروں کا پتہ چلتاہے ان میں(۱) حضرت سید محمد حسین گیسودراز (۲)سید اکبر (۳)نظامی(۴)مشتاق لطفی اور (۵)شاہ میران جی شمس العشاق وغیر ہ قابل ذکرہیں۔

         اردو ادب کا دوسرا دور:۔     ۱۴۹۵؁ء  تا   ۱۶۹۰؁ء           ۹۰۰ھ  تا   ۱۱۰۰ھ

         بہمنی حکومت میں بغاوت کے بعدوجود میں آئی پانچ خود مختار حکومتوں میں گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت میں اردو زبان و ادب کو بے حد فروغ ملا۔ سلطان قلی قطب شاہ، تخلص قطب شاہ ،معانی تھا ان کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھے اور ہر موضوع پر نہایت کامیاب طبع آزمائی کی۔ معانی نے متعدد عنوانوں پر منثویاں لکھیں،کسی میں رسم و رواج، تہواروں اور شاہی محلوں کا ذکر کیا تو کسی میں عید ، نوروز ،بسنت، مِرگ ،موسم برسات تو کسی میں پھلوں اور ترکاریوں کا ذکر ہے۔ ان کے کلام میں فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی کی آمیزش بھی کا فی ہے ،فارسی کے برخلاف انہوںنے ہندی کے اسلوب بیان کو اختیار کیا ہے۔

         ’’اسی امتزاج یعنی فارسی اور ہند ی کے شیر و شکر ہوجانے سے ان کے کلام میںایک خاص ادبی شان پیدا ہوگئی ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ان کے کلام پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محمد قلی قطب شا ہ کا کلام چارسو برس پہلے کا ہے لیکن موجودہ زمانے کی عشقیہ شاعری کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف زبان میں تھوڑا سا فر ق ہے ورنہ وہی باتیں ، وہی بحریں ، وہی مضمون اور وہی طرز ادا۔‘‘(تاریخ اردو ادب ۔ نورالحسن نقوی ۔ ایجوکیشن بک ہاوس، علی گڑھ۔ ص۷۲۔)

         قطب شاہ، قطب شاہی دور کے پانچویں حکمراں تھے  ۱۶۱۱؁ء میں ان کا انتقال ہوا تب ان کی عمر اڑتالیس سال تھی ان کے بعد ان کا بھتیجا و داماد سلطان محمد جانشین ہوئے وہ علم وفضل ،پاکیزہ زندگی اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے مشہور تھے ۔ان کے دور میں اردو کی ترقی ہوئی وہ خود بھی شاعر تھے اور  تخلص ظل اللہ تھا ۔ اس دور کے شعراء میں وجہییؔ، وجہی مشہور شاعر گذرے ہیں۔ تخلص وجہی اور وجہیی قرار دیا تھا ایک عرصہ تک عُسرت کی زندگی بسر کی۔ زمانے کی گردش کے ساتھ تقرب شاہی حاصل ہوا ۔ قطب شاہی دورکے چار بادشاہوں یعنی ابراہیم قطب شاہ، سلطان محمد ، قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور سلطان عبد اللہ کے دور کو نہ صرف دیکھا بلکہ تصنیف بھی کیا ۔ ان کی مشہور مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ہے اس مثنوی کا ہیرو محمد قلی قطب شاہ ہے وجہی کی دو کتابیں مشہور ہیں ان میں ’’قطب مشتری‘‘ اور’’ سب رس ‘‘،قطب مشتری مثنوی ہے اور ’’سب رس ‘‘اردو نثر کی پہلی داستان ہے۔ وجہی نے ایک اور کتاب ’’تاج الحقائق ‘‘کے نام سے لکھی جو تصوف پر مشتمل ہے ۔اس عہد کا دوسرا شاعر غواصیؔ ہے سلطان محمد قطب شاہ کے دور میں انہوں دو مثنویاں ’سیف الملک و بدیع الجمال‘‘ اور دوسر ی ’’طوطی نامہ ‘‘لکھیں، ان کے علاوہ قطب شاہی دور کا ایک اورمشہور شاعرا بن نشاطی ہے ۔ ’’پھول بن ‘‘ان کی مشہور مثنوی ہے۔چنانچہ قطب شاہی دور میں دکنی زبان میں مثنوی اور داستان کی ابتداء کے ذریعہ فروغ حاصل ہوا ۔قطب شاہی دور کا آخری شہنشاہ سلطان ابوالحسن تانہ شاہ کے دور حکومت میں جنگ وجدل کے باوجود اردو ادب کی ترقی ہوئی ۔قطب شاہی دور کے دوسوسالہ حکومت میں اردو ادب کی گراں بہا خدمت انجام دی گئی اور باغ اردو کی آبیاری میں حصہ لے کر اس کو سرسبز و شاداب کیا گیا۔

         اردو کا تیسرا دور:۔

         بہمنی سلطنت کے بعد وجود میں آئی پانچوں حکومتوں کو مغلوں نے، اپنی قلم رومیں شامل کرلیا اور یہاں صوبہ دار مقرر کئے گئے اس دور میں شعراء اردو کے ساتھ بے حد مراعات کی جاتی ۔ ان کی تصانیف کا معقول صلہ دیا جاتا ،نہ صرف سلاطین امراء دکن میں اردو کی سرپرستی کرتے بلکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اس کے باوجود مغلیہ دور میں کسی قدر،قدر دانیوں میں کمی آگئی تھی۔جبکہ عالمگیر نے شعراء کی قدر کی۔ فتح بیچا پور کے بعد اورنگ آباد کو اورنگ زیب نے اپنا صدر مقام بنایا پہلے قطب شاہی دور میں گولکنڈہ اور اب مغلیہ دور میں اورنگ آباد شاعری کامرکز بنا چنانچہ اور نگ آباد اس دور میں مغلیہ سلطنت کا مرکزبنا بلکہ دہلی کے شعراء و رئو سا علما کا مرکز بن گیا اس طرح اردو شاعری کے بھی قدم یہاں اچھی طرح جم گئے۔ اس دور کے اہم شاعر ولی اور نگ آباد ی ہیں چونکہ اس زمانے میں صرف دکن کے علاقے میں اردو زبان ربط تحریر میں تھی جسے ریختہ کہا گیا، ولیؔ نے اس زبان میں مرثیہ اورغزلوں کے دیوان مکمل کیا اس کے بعد ولی خالص اردو شاعری کے بابا آدم تسلیم کئے گئے۔ ولیؔ کا مسمے نام ولی محمد تھا، عالمگیر کے زمانے میں دہلی گئے ولی کے بعد صحیح معنوں میں اردو شاعری کا آغازہوا اوراب تک جو شاعری دکن میں مروج تھی اس کی بھی اصلاح ہوئی۔ مثنوی کی بجائے غزلوں کی طرف زیادہ توجہ کی گئی۔ ولی کی حیثیت مجدد کی سی ہے انہوں نے عربی اورفارسی کے جو الفاظ استعمال کئے ہیں ان کو گویا اردو میں اسی حیثیت سے مستقل کرلیا گیا۔  ولیؔ کے زمانہ میں تصوف کے خیالات عام ہورہے تھے اورخودولی ؔنے صوفیانہ مسلک اختیار کرلیاتھا ان کا کلام عشق حقیقی و مجازی کا سرچشمہ ہے ۔ان کے کلام میں سلاست و متانت پائی جاتی ہے۔ دیگر شعراء میں محمود بحری کی مثنوئی ’’بھنگ نامہ‘‘ دوسری تصنیف’’ من لگن‘‘ ہیں۔ان کے علاوہ اس دو رکا ایک شاعر ذوقیؔ سید شاہ حسین ان کی مثنویوں میںوصال العاشقین،غوث نامہ، وفات نامہ، منظور نامہ، ماں باب نامہ شامل ہیں ۔ وجدیؔ ان کا نام وجیہہ الدین تھااگر چہ کہ صوفی منش شاعر تھے مگر بالکلیہ صاحب عرفان نہیں تھے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں اور اوررومانی زندگی سے واقف تھے وجدی خوشحال، خوش فکر شاعر تھے اس زمانے کے تمدن اور تہذیب رسم و رواج پر انہوںنے روشنی ڈالی ان کی تین مثنویاں تحفہ عاشقاں ، پنچھی باچھہ اور مخزن عشق ہے۔ پنچھی باچھہ کو فارسی سے دکنی نظم کی شکل دی یہ شیخ عطاء کی مثنوی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اورشاعر عاشق شاہ عشق اللہ نام شاہ نظام الدین ثانی اورنگ آبادی کے مریدو خلیفہ تھے ان کی ایک تصنیف ’اشارت الغافلین‘ ہے یہ ضخیم مثنوی اخلاق تصوف کے مضامین میں منظوم کی گئی اس میں فضیلت وضو، نماز بد کاری، سخاوت، حرام، عورت ،قیامت، بہشت، تصور عقل اورعقل کے واقعات پیش کئے ان کے علاوہ دیگر شعراء نے عالمگیر کے عہد میں اردو کی ترقی میں حصہ لیا۔

         چوتھا عہد اردو :۔

         اورنگ زیب عالم نے ان کے فرزند کام بخش کو دکن کا صوبہ دار مقرر کیا تھا لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی اس کے بعد شاہ عالم بہادر شاہ کو دہلی کا تخت و تاج نصیب ہوا۔ دکن بھی اس کے زیر نگیںتھا اس کے بعد دار شاہ اور فرخ سیریکے بعد دیگرے حملہ ا ٓور ہوئے، فرخ سیر کے عہد میں نواب نظام الملک آصف جاہ دکن کے صوبہ دار مقرر ہوئے اس دور میں مغلیہ حکومت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور مرہٹے اورراجپوت سر اٹھا چکے تھے۔ اس کے باوجود آصف جاہی حکومت کا قائم رہی ان کے خاندان کے دس اشخاص نے دکن پر حکومت کی ان میں نواب آصف جاہ اول سے لیکر میر محبوب علی خان اورآخری نواب سید عثمان علی خان شامل ہیں۔

         اس دورکے اہم شاعر سراج اورنگ آبادی ہیں درویش منش صوفی تھے ۱۱۲۷؁ء میںپیدا ہوئے اور ۱۱۷۷ء؁ میں انتقال کیا ان کے دیوان میں پانچ ہزار اشعار ردیف وارغزلیں، مخمس ترجیع بند ،رباعیات وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی مثنوئی ’’بوستان خیال‘‘ ان کی یادگار تصنیف ہے ۔

         سراج کی غزل

خبر تخیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی ۔

                                             ایک مشہور غزل ہے ۔

         سراج کے علاوہ اس دور کے شعراء میں فضلی، شاہ فضل اللہ اورنگ آباد ی ، کلام قصہ ’’پریمالوکا‘‘ اور’’ قصہ ببرہ‘‘ بیوکا اردو مثنویاں ہیں۔ ان کے علاوہ لطفیؔ ، میر لطیف علی، کی مثنوی بہلول صادق مشہور ہے تمنا، اسد علی خان نام اورنگ آبادی تھے، شوق اور نگ آبادی ،آشفتہ اورنگ آبادی ان کے شاگرد تھے۔ غزل کے علاوہ حمد ، نعت مناجات جیسی اصناف سخن ور تھے۔

         آصف جاہی دور میں ہر صنف سخن، مثنوی، قصیدہ ، غزل ،رباعی اور مرثیہ وغیرہ کا انداز معلوم ہو چکا تھاایک اور بڑی خصوصیت یہ تھی ۔ ولی کی پیروی میں غزل کی طرف زیادہ توجہ کی گئی اور کمال شاعری کااظہار غزلوں میں ہونے لگا۔ چونکہ ولی کی تقلید کی جاتی تھی اور ولی کا کلام تصوف کے رنگ میں تھا مقلدین نے بھی اسی رنگ میں طبع آزمائی کی کوشش کی ۔ قصیدہ کے علاوہ مرثیہ بھی لکھے گئے حالانکہ دکن میں نہیں لیکن اردو زبان میں خوصاََ کلام میں سادگی اپنائی جارہی تھی تشبیہ اور استعارہ کا غیر ضروری استعمال سے گریز کیاگیا۔

         عہد عالمگیر کے بعد آصف جاہی حکومت کے نویں بادشاہ نواب سید محبوب علی خان تک کے زمانے میں دکن میں حالانکہ مختلف ادوار آتے رہے لیکن اسی درمیان اردو ادب کی بتدریج ترقی ہوتی رہی ۔آصف جاہی خاندان کے دور حکومت میں 1857؁ء کا غدر رئو نما ہوا، حکومت برطانیہ کے قدم ہندوستان میں بڑ رہے تھے اسی دور میں شمالی ہند کے جنگ و جدل سے متاثررہا بعدادب نواہ دکن میں داخل ہوئے اسی دور میںآصف جاہی حکومت کاآخری بادشاہ نواب سید عثمان علی خان ۱۹۱۱ ؁ء میں مسند حکومت آصفیہ پر ساتویں آصف جاہ کی حیثیت سے متمکن ہوئے ان کے دور حکومت میں تاریخ درخشاں رہی اور تاریک بھی تابناک بھی افسوس ناک بھی ان کے دور میں جامع عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا جہاں اردو اد ب کے ذریعہ تمام علوم ادب اور سائنس کا انتظام کیا گیا حیدر آباد میں عالیشان کالج ، کتب خانے قائم کئے گئے لیکن ملک میں اسی وقت حکومت برطانیہ کے خلاف بغاوت کادور دورہ تھا ۱۹۴۷؁ء میں آزادی کے ایک سال بعد ۱۹۴۸؁ء میں دکن میںپولیس ایکشن کے بعد آصفیہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔ ۱۹۵۲؁ء تک سیدعثمان علی خان حکومت حیدر آباد کے صدر کی حیثیت سے حکمراں تھے، صوبوں کی تقسیم سے وہ بھی علیحدہ ہو کررہ گئے تھے۔ لسانی حیثیت سے علاقائی تقسیم کی گئی اور آندھرا پردیش کی ریاست قائم ہوئی تیلگو بولنے والے آندھرا میں شامل ہوگئے۔ سلطنت آصفیہ کی سرحد پہلے پورہ تلنگانہ علاقہ مہاراشٹر اور کرناٹک تک پھیلی ہوئی  تھی۔ نظام کے بعد مہاراشٹر کا بڑا حصہ مرہٹوں کے متعلق ہوگیا۔ سید عثمان علی کے دور ہی میں اردو زبان پورے دکن میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ لیکن آزادی کے بعد لسانی اعتبار سے ریاستوں کی تقسیم کے بعد اس زبان کی اہمیت کم ہوگئی۔

         اردو ادب کا پانچواں دور:۔

         قطب شاہی دور میں محمد قلی قطب شاہ اور عہد عالمگیری میں ولی اور آصف جاہی حکومت میں سراج اورنگ آبادی کے بعد دکن کے سلطان میر عثمان علی کے زمانے تک آتے آتے دکنی زبان اردو بام عروج تک پہنچ چکی تھی اس زمانے کے مشہور ادباء میں مولوی عبد الحق کا نام سرفہرست ہے۔ مولوی عبد الحق ایک محقق اور نقاد تھے اردو ادب کے باغ کو سجانے اور سنوارنے میں انہوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں، اسی دور میں سراجؔ کے بعد سکندر علی وجد ؔجیسا شاعر پیدا ہوا وجد خود کہہ گئے کہ :

دوسو برس میں وجدؔ، سراجؔ و ولی ؔکہ بعد           اٹھے ہیں جھومتے ہوئے خاک دکن سے ہم

         وجدؔ دکن ہی نہیں پوری اردودنیا میں ممتاز اور منفرد شاعر تھے انہیں نظم اور غزل دونوں میںماہرانہ قدرت حاصل تھی۔ وجد نے اپنا پہلا مشاعرہ انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ۱۹۳۰ ء؁ میں پڑھا یہ مشاعرہ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی نگرانی میں مہاراجہ کشن پرشاد کی صدارت میں منعقد ہواتھا۔ وجد کی تصانیف میں’’اوراق مصور‘‘دوسری کتاب بیاض مریم (پہلی کتاب رونمائی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کی دوسری کتاب کا اجراء وزیر اعظم اندراگاندھی نے کیا تھا۔)وجد کو ادبی خدمات کے عوض حکومت کی جانب سے ’’پدم شری‘‘ اعزاز سے نوازہ گیا انکی ابتدائی تصنیفات میں ایک نظم مزدوروں کا پیغام جو عثمانیہ یونیورسٹی کے مکمل تعمیر ہونے کے بعد مزدوروں کی عظمت کا اعتراف میں کہی تھی۔ جس کا ایک شعر

ہم نے نقش چھوڑا نام نہیں چھوڑا

کام چھوڑا ہے نام نہیں چھوڑا

         وجدؔکی نظمیں’’ اجنٹا ‘‘اور’’ ایلورہ‘‘ ماضی کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی زندگی کا بیانیہ

ہیں۔ وجد کے علاوہ اس دور کے دیگر شعراء میں یعقوب عثمانی کے دو مجموعے کلام شعر و نغمہ اور سنگ میل نے شہرت حاصل کی اس دور کے ایک بڑے شاعر حمایت علی مشہور شاعر گذرے ہیں۔ ان کی شاعری کا خمیر بھی دکن کے شہر اورنگ آباد سے اٹھتاہے حمایت علی کے کلام میں جذبات ، تجربات اور احساسات کے علاوہ عصری زندگی کے تمام مسائل جن سے وہ خود بھی دوچار ہوئے شامل ہیں۔ وہ ۱۴ جولائی ۱۹۲۶؁ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ان کے مجموعے کلام میں آگ میں پھول، مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، ہارون کی آواز، حرف حرف روشنی اور ثلاثی ایک صنف سخن وغیرہ قابل ذکر ہیں اس دور کی خاتون شاعرہ شفیق فاطمہ شعریٰ دکن اورنگ آباد کی معروف شاعرہ گذری ہیں جنہوںنے اپنی شاعری کے ذریعہ نسائی جذبات اور محسوسات کو پیش کیا۔ ان کا مجموعہ کلام ’’گل صفورہ‘‘، نسائی جذبات وخیالات کا اہم دستاویز ہے۔ اسی دور کو اگر ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھے تو پتہ چلتاہے کہ ۱۹۴۷؁ء میں آزادی ملی اور ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸؁ء میں فوج کشی کے بعد دکن کا صوبہ اورنگ آباد، عثمان آباد وغیرہ مملکت عثمانیہ سے الگ ہوگیا ۔ حیدرآباد سے جو اضلاع لڑائی کے بعد الگ ہوئے انہیں مراہٹواڑہ کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ اسی دور کے بعد کے اردو ادب میں تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئی۔ آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد ترقی پسند تحریک سے متاثرشعراء دکن میں روایتی شاعری کو ترک کر چکے تھے یہاں تک کہ اردو زبان جس میں فارسی عربی کے الفاظ شامل تھے ہندی الفاظ بھی شامل ہونے لگے ایسے ہی الفاظ کو اپنی نظموں میں برتنے والے اسی دور کے ایک شاعر قاضی سلیم ہیں جو علاقے میں سیاسی اثر بھی رکھتے تھے۔ قاضی سلیم کو نظم گو شاعر کی حیثیت سے جاناجاتاہے۔ ان کے دومجموعہ کلام میں ایک نجات سے پہلے اوردوسرا رستگاری ہے اس دور کے دیگر ادباء و شعراء میں ڈاکٹر عصمت جاوید شیخ ہیں وہ شاعر، نقاد ،محقق اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ان کی تصنیفات میں لسانیاتی جائزے ، نئی اردو قواعد، اردو فارسی کے لسانیاتی اثرات نثر میں قابل ذکر ہیں ان کے شعری مجموعہ’ اکیلا درخت ‘ہے۔ ان کے علاوہ دکن کے علمی و ادبی حلقوں میں مولوی اختر الزماں ایک جانا پہچانا اورمعتبر نام ہے مولوی صاحب انگریزی پر بھی دسترس رکھتے تھے ان کا شعری مجموعہ’ برگ و بار‘ہے۔ اسی زمانے کے ایک اور شاعر قمر اقبال ہیں ’’تتلیاں‘‘ثلاثی کا مجموعہ اور’’ مو م کا شہر‘‘ ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ ان کے بعد غضنفر علی راجہ جو دکنی ادب میں مزاح نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں ان کے مجموعہ کلام کا نام غائب تکلم ہے۔ اس دور کے مراہٹواڑہ کے مایا ناز شاعر بشر نواز بشارت نواز خان بشر نواز کے نام سے مشہور ہوئے ۱۲/اگست ۱۹۳۵؁ء اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ۔ نو عمری میں شاعری کی ابتداء کی ترقی پسند شعراء میں ان کا شمار کیا جاتاہے۔ انہوںنے بہت قلیل مدت میں شہرت حاصل کی اور فلم انڈسٹری میں جگہ بنائی۔ بشر نواز نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنی راہ بنائی اپنی غزلوں میں ان خیالات کو احساسات اور جذبات کو پیش کیا جیسا انہوںنے محسوس کیا ان کی نظم ’’ اورنگ آباد‘‘نے شہر ت حاصل کی ان کا پہلا مجموعہ کلام’ رائیگاں ‘اور دوسرا ’اجنبی سمندر ‘ہیں۔بشرنواز مراہٹواڑہ کے اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ایک نقاد بھی اردو ادب میں ان کے تنقید ی مضامین کی کتاب’’نیا ادب نئے مسائل‘‘ اہمیت کا حامل ہیں ۔ بشر نواز کے ہم عصروں میں جے پی سعید کا آتانام ہے روایتی طرز کو انہوںنے اپنے کلام میں برتا ہے۔ان کا مجموعہ کلام ’گلشت‘ اور دوسرا ’شاخ گل‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس عہد کے شعراء میں میرہاشم بھی ہیں انہوں نے آزاد نظموں کے پیرائے میں حمد و نعت اور نظمیں کہیں ان کے مجموعے کلام کا نام ’’درد نارسا‘‘ اس مجموعہ میں توسیع کرکے انہوںنے بعد دشت شب وروز کے نام سے مجموعہ کلام پیش کیا ہے۔

         عہد جدید کے دکنی شعراء میں دو اہم نام قابل ذکر ہے ان میں ایک خان شمیم خان ا

ور دوسرے سلیم محی الدین ہے جو قدیم اور جدید رنگ و آہنگ لب و لہجے کی بنا پر اردو شاعری میں اپنا منفر د مقام بنا چکے ہیں۔ان کے علاوہ شمس جالنوی ، فہیم صدیقی اور ارتقاز افضل و دیگر زبان وادب کی آبیاری میں سرگردہ ہیں۔

***

Leave a Reply