ڈاکٹرمحمد شاہد زیدی
اسسٹنٹ پروفیسر اردو
گورنمنٹ کالج سوائی مادھوپور ، راجستھان
اقبال مجید بحیثیت افسانہ نگار
اقبال مجید ہمارے عہد کے ان افسانہ نگاروں میں ہیں جن کے ذکر کے بغیر عہد حاضر کے افسانوی ادب کی کوئی تاریخ مکمل نہیں کی جا سکتی ۔ وہ ادب گاہ میں تقریبا ساٹھ سال سرگرم ہی نہیں رہے بلکہ اپنے بہت واضح اور روشن نقوش بھی ثبت کرتے رہے۔ اقبال مجید کی پیدائش مرادآباد یوپی میں عبد المجید صاحب کے گھر ۱۲ جولائی ۱۹۳۴ء کو ہوئی۔اسکولی تعلیم وہیں حاصل ہوئی ۔ ۱۹۵۶ء میں بی۔اے۔ کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی بعد ازاں ۱۹۵۸ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی۔ایڈ۔ اور ۷۰۔۱۹۶۹ء میں کانپور یونیورسٹی سے سیاست میں ایم۔ اے۔ کیا۔ ۷۵۔۱۹۶۰ء تک یوپی گورنمنٹ کے محکمہ تعلیم میں تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ ۱۳ مارچ۱۹۷۵ء میں پروڈیوسراردو پروگرام آل انڈیا ریڈیو بھوپال میں تقرری ہوئی ۔ دوران ِملازمت انھیں کئی شہروں (سیتاپور ،لکھنؤ، بھوپال) میں رہنا پڑا۔ مالوہ کی پر فضا سرزمین بھوپال میں ان کی ملازمت کا آخری پڑاؤ تھا۔ جہاں آل انڈیا ریڈیو میں اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائیریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوش ہونے کے بعد مدھیہ پردیش اردو اکادمی میں اکتوبر ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۳ء تک بحیثیت سکریٹری تقرر ہوا۔ بلا آخر بھوپال ہی میں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کی اور وہی رہتے ہوئے ۱۸ جنوری ۲۰۱۹ء کو داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔
اقبال مجید کا تعلق اس نسل سے ہے جو ۶۰۔۱۹۵۵ء کے بعد پروان چڑھی ۔ اقبال مجید نے نئے طرز کے کئی افسانے لکھے جن میں آج کے انسان کی داخلی اور روحانی الجھنوں کو موضوع بنایا۔ ساتھ ہی افسانوی تکنیک میں بھی بعض اہم تجربے کئے تاہم کہانی میں کہانی پن کے عنصر کو برقرار رکھا۔ اقبال مجید نے ۱۹۵۳ء میں اپنے استاد محترم پروفیسر احتشام حسین کے اثر سے ترقی پسند نظریے کے زیر سایہ لکھنا شروع کیا ۔ اس وقت لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک تنظیم سرگرم تھی۔
اقبال مجید کا پہلا افسانہ ـ’’عدو چاچا‘‘ ۱۹۵۶ء میں ’’شاہراہ‘‘ دہلی میں شائع ہوا جس کے مدیر ظل حسین انصاری تھے۔ یہ افسانہ ایک کردار کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ۔ اقبال مجید نے ۱۹۶۰ء کے بعد شائع ہونا شروع کیا اور اس کے بعد تو یہ سلسہ چل نکلا ۔ اقبال مجید نے اردو افسانہ کی فہرست میں کئی لازوال افسانوں کا اضافہ کیا اور تا حال ان کے چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
(۱) ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ ۔ لکھنؤ ۱۹۷۰ (۱۵ افسانے)
(۲) ’’ایک حلفیہ بیان ‘‘ لکھنؤ ۱۹۸۰ (۱۶ افسانے)
(۳) ’’ شہر بد نصیب‘‘ دہلی ۱۹۹۷ (۱۵ افسانے)
(۴) ’’ تماشا گھر‘‘ دہلی ۲۰۰۳ (۱۲ افسانے)
(۵) ’’ آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ دہلی ۲۰۱۰ (۱۳ افسانے)
(۶) ’’ خاموش مکالمہ‘‘ ممبئی ۲۰۱۷ (۱۲ افسانے)
چھ افسانوی مجموعوں کے علاوہ اقبال مجید نے ’’ قصئہ رنگ شکستہ ‘‘ میں اپنے ہر دور کے منتخب کل ۲۱ افسانوں کو بھی یکجا کیا ہے۔ جو ۲۰۱۱ء میں کراچی پاکستان سے شائع ہوا۔
اقبال مجید چھٹی دہائی کے اوائل کی افسانوی دنیا میں متعارف ہوئے۔ اقبال مجید نے جس وقت لکھنا شروع کیا اس وقت سعادت حسن منٹو کا انتقال ہو چکا تھا لیکن ہندوستان میں کرشن چندر ، عصمت چغتائی ، راجندر سنگھ بیدی ، حیات اللہ انصاری ، قرۃ العین حیدر اور جوگیندر پال وغیرہ افسانے کو بلند یوں سے آشنا کرا رہے تھے۔ اقبال مجید نے افسانوی دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں سے جلد ہی بلند مقام حاصل کرلیا ۔ حالانکہ ان کے کئی ہم عصر افسانہ نگار جن میں جوگیندر پال ،عابد سہیل ، قاضی عبد الستار ،انور سجاد ، جیلانی بانو، خالدہ حسین، سریدندر پرکاش ،غیاث احمد گدی ، رتن سنگھ ، بلراج مینرا وغیرہ افسانوی دنیا میں اپنا لوہا منواچکے تھے۔ مگر اقبال مجید افسانوی دنیا میں اپنے افسانوں کی وجہ سے اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں رومانیت ، حقیقت اورنفسیات سبھی کچھ موجود ہے۔اس کے علاوہ نظریاتی فکر بھی موجود ہے۔ غرض کے اقبال مجید ہر طرح کی کہانی لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ وہ کسی اصول و قواعد کے پابند نہیں بلکہ کھلے ذہن اور آزاد قلم کے مالک ہیں۔ سماجی و سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات کی منظر کشی نہایت دلکش انداز میں کرنے کا فن ان کے پاس موجود ہے۔ نیر حسین نے اقبال مجید کی انفرادیت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’اقبال مجید نئے کی تلاش میں اپنی مشرقی شناخت کو ختم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ۔ وہ علامتی کہانیاں لکھتے ہیں۔ مگر چیستان نہیں بننے دیتے ۔عام طور پر کہانی اختتام کو پہنچ کر خود ایک علامت بن جاتی ہے۔اقبال مجید کا یہ انداز انھیں ہم عصر افسانہ نگاروں سے جدا کرتا ہے۔‘‘
(نیر حسین ۔ہندوستان میں اردو افسانہ ۔ گل بوٹے پبلیکیشنز ، ممبئی ۲۰۱۰ء صفحہ نمر۱۷۸)
اقبال مجید کے افسانوں کا ایک اہم موضوع پچھلی صدی کی آٹھوی دہائی کے بعد پھیلی فرقہ واریت بھی ہے۔ جس کی بنیاد پر اقلیت کے فرقے سے تعلق رکھنے والے شہری بے بسی اور تشدد کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہیں ۔ ان کا شاہکار طویل افسانہ ’’ جنگل کٹ رہے ہیں ‘‘ میں نئے ہندوستان میں سیاسی جوڑتوڑ ،کرپشن، فرقہ پرستی اور تشدد کے شانہ نشانہ فروغ پانے کے منفی عوامل کو و ضاحت سے فوکس کیا گیا ہے۔
اقبال مجید کے افسانوں میں کردار ہمارے ہی عہد اور ماحول میں سانس لیتے نظر آتے ہیں ۔ اقبال مجید ان کرداروں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری اسے اپنی کہانی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اقبال مجید کو کردار نگاری پر پوری مہارت حاصل ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کردار کے خدو خال کو بہت خوبصورتی کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کون سے کردار کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی مناسبت سے مکالمے کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔
’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ ، ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ ، ’’ شہر بد نصیب‘‘ ، ’’ تماشا گھر‘‘ ، ’’ آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ اور ’’ خاموش مکالمہ ‘‘ افسانہ نگاری کے مختلف دور کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں کسی طرح کی یکسانیت و مماثلت نہیں نظر آتی یہاں تک کہ موضوع اور اسلوب بیان بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ ان کے عنوان میں ہی افسانے کا موضوع چھپا ہوتا ہے۔ اقبال مجید کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہر دور میں اپنے آس پاس کے ماحول سے ہی نہ صرف کہانی نکالی بلکہ پوری فنی مہارت اور پر اثر بیانیہ سے زندگی کا مکالمہ بنا دیا ۔ اقبال مجید کے فکشن کا بیانہ ترقی پسند تحریک سے لے کر جدیدیت اور مابعد جدیدیت تک ہر موڑ پر ایک منفرد اور طاقتور بیانیہ رہا ہے ۔اقبال مجید کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ تاریخ کے ملبے سے نئی عمارت تعمیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ انھوں نے براہ راست تاریخی افسانے شاید ہی لکھے ہوں ۔ لیکن تاریخی شخصیات ، واقعات اور حادثات سے وابستہ پر اثراریت کو عہد حاضر کے منظر نامے میں اس طرح سمو دیا کہ موجودہ معاشرے کے سارے داغ دھبے نمایاں ہوجائیں۔
اقبال مجید ’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ لیکر میدان میں آئے اور عوام و خواص کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔’’ دو بھیگے ہوئے لوگ ‘‘کی اشاعت نے ان کی ادبی حیثیت میں چار چاند لگائے اور پھر پہلا افسانوی مجموعہ اسی عنوان سے ۱۹۷۰ء میں چھپا جسے قدر شناسوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ یہی وہ دور تھا جب جدیدیت کی تھیوری ادب کی نئی تفہیم کر رہی تھی اور افسانہ زندگی کی روشن حقیقتوں کے بجائے علامت اور گنجلک مفاہیم میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ اقبال مجید نے اس نئی تھیوری کے علامتی اور استعارتی گورکھ دھندے سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی راہ الگ بنائی۔انھوں نے اپنے افسانوں میں ترقی پسند ی اور جدیدیت دونوں کے باہمی ربط کا راستہ اختیار کرتے ہوئے افسانے کو وضاحت و مانوس لب و لہجہ سے از سر نو تعارف کرایا۔آٹھوی دہائی کے درمیان پہنچتے پہنچتے ان کا افسانوی تخیل نئی زندگی سے سرشار نظر آتا ہے۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ ایک حلفیہ بیان‘‘ ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں ان کو بھی اپنے معاصرین کی طرح احترام کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ’’شہر بد نصیب‘‘ ۱۹۹۷ء تک آتے آتے وہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئے، انھوں نے ان مجوعوں میں کہانی کے جوہر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا جبکہ وہ علامت،استعارے اور حکایتی اسلوب کو بھی نہایت سلیقے سے برتتے ہیں ۔بقول مہدی جعفر:
’’اقبال مجید کے یہاں بیانیہ کو طرح طرح سے آزمانے کا واضح رجحان ہے ایک طرف وہ بیانیہ کہانی
کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف تمثیلی اور علامتی افسانوں کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سیدھی سادھی کہانی کہی (شرمندگی) اور ڈرامائی طرز تحریر بھی اختیار کیا (ایک حلفیہ بیان)”
(مہدی جعفر ۔اقبال مجید کے افسانوں کا اپنا مختلف منظر نامہ (مضمون) مشمولہ تمثیل ۔بھوپال ۔۲۰۱۹صفحہ نمبر ۱۳۔)
اقبال مجید کے افسانوں میں سچی تڑپ جلوہ گر ہے۔ وہ اپنے عہد کے آشوب اور انسانی قدروں کے
زوال سے فکر مند رہتے ہیں مثال کے طور پر افسانہ ’’شہر بد نصیب ‘‘ میں اس اجتماعی آشوب اور انسانی زوال کو اس طرح علامتی انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔
’’پھر یہ ہوا کہ ایک دن غصے کے گودام سے بو آنا شروع ہوگئی ۔ اسے کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ سارا غصہ رکھے رکھے سڑ چکا تھا اور شہر کے باسی،تازہ غصہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔کیونکہ انسان کو نئی برتری سے روشناس کرانے میں پرانا اور سڑا ہوا غصہ کام نہیں کر رہا تھا‘‘
( اقبال مجید ۔شہر بد نصیب۔ صفحہ نمبر ۸۱)
اقبال مجید نے نئی طرز کی علامت اور پرانے قسم کے بیانیہ دونوں تکنیک پر افسانے تخلیق کئے ہیں ۔ ’’شہر بد نصیب ‘‘ ان کا معروف علامتی افسانہ ہے۔ جس میں ایک مقام کا تصور کیا گیا ہے جہاں انسان فلاح مقصد حیات ہو اور زندگی استحاصل اور تشدد سے پاک ہوں ۔
’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ اتفاقا یکجا ہوجانے والے دو کردار وں کی مختلف نفسیاتی و ذہنی ساخت کو اجاگر کرتاہے۔افسانے میں اقبال مجید نے نازک تفصیلات سے کام لیا ہے۔ ’’شرمندگی‘‘ ان کا ابتدائی دور کا افسانہ ہے جب وہ جدیدیت کی طرف زیادہ مائل ہوگئے تھے۔ یہاں دو کردار نہ معلوم کس بنا پر ایک دوسرے سے ملاقات کے خواہش مند ہیں لیکن بمشکل ہی مل پاتے ہیں۔ ’’قصئہ نازیبا‘‘ جدید مسلم معاشرے میں نئی نسل اور پرانی اقدار کی آویزش کے اظہار کا افسانہ ہے ۔جہاں ایک طرف برقعہ پوش خواتین یونیورسٹیوں میں ریسرچ کر رہی ہیں۔ اور دوسرے سرے پر نئی نسل ہے جو فلموں کے طرز پر زندگی گزارنے کی تگ و دو میں مبتلا ہے۔ ’’حکایت ایک نیزے کی‘‘ داستانوی طرز کا افسانہ ہے جہاں ایک مجرم عورت کا ضمیر اسے خود کشی پر مجبور کردیتا ہے۔
اقبال مجید نے علامت اور تجربہ کی ہنگامہ آرائی کے دوران’’پوشاک ‘‘ جیسا اہم افسانہ تحریر کیا جس کا موضوع سیاسی و سماجی تھا۔ لیکن اس کے کرافٹ میں علامت کو واضح اور صاف ڈھنگ سے استعمال کیا گیا تھا۔یہ افسانہ ۱۹۷۵ء میں ملک میں لگائی گئی ایمرجینسی کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔’’ نازی گاہ‘‘ ہندوستان میں قبائلی باشندوں کو ان کی پشتینی زمینوں سے نکالے جانے اور ان کے گاوؤں میں کارخانے اور ڈیم بنائے جانے کے موضوع پر لکھ گیا ہے جس کے پہلو بہ پہلو بد عنوانی اور سرکاری تشدد بھی جاری ہے۔ اقبال مجید نے
’’پیشاب گھر آگے ہے‘‘ اور ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ جیسے کمزور افسانے بھی لکھے ۔
۲۰۰۳ء میں اقبال مجید کا مجموعہ ’’تماشہ گھر ‘‘ شائع ہوا۔ یہاں تک آتے آتے اردو افسانے میں علامت اور ابہام کم ہونے لگا تھا۔ اور یہی صورت حال اقبال مجید کے یہاں بھی نظر آنے لگی۔ ان کے افسانوں ’’الو کا گھر‘‘ ،’’ہم گریہ کریں گے‘‘ ،’’بے صورتی کی صورتیں ‘‘ اور ’’ سوختہ ساماں‘‘ وغیرہ میں آج کے ہندوستان کی روزمرہ زندگی کی چمک دمک کے پس پشت پھیلے ہوئے خوف اور تشدد کے عکس جگہ جگہ نظرآتے ہیں ۔’’ چیلیں‘‘ میں ملک کی تقسیم ہجرت اور کراچی میں جاری موجودہ تشدد کو موضوع بناگیا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ’’ آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ میں جدید شہروں میں دلت سماج کے اندر پلنے والی نفرت کو پیش کیا گیا ہے۔اس مجموعے میں شامل افسانہ ’’اضطراب‘‘ کشمکش کے ایک ایسے مثلث پر قائم ہے جو آج کی زندگی کے بہت سنجیدہ مسائل ہیں۔افسانہ ’’ پیاسے رہنے والے‘‘ میں اقبال مجید کے طاقتور بیانیہ کی جھلک ہے جس میں گئے زمانوں اوران میں بسنے والے انسانوں کو زندہ کرکے دوبارہ ہماری آنکھ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے ۔کہانی ’’چراغ آرزو‘‘میں اقبال مجید کی کردار نگاری کی صلاحیتیں اپنے عروج پر پہنچتی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں ۔ ابھی حالیہ برسوں میں تخلیق کی گئی ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’ خاموش مکالمہ ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۷ء میں منظر عام پر آیا ہے جس میں شامل کہانیاں عصری حیثیت کی روشن مثالیں ہیں۔’’خاموش مکالمہ‘‘ جو اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے اس میں سوشل میڈیا کی ذریعہ اٹھائے جانے والے سنجیدہ مسائل کے درمیان اشتہاریت کی غیر سنجیدہ آمیزش اور نتیجے میں بے مقصد مکالمات کو موضوع بنایا گیا ہے اس طرح ’’کتابوں پر موتنے والی‘‘ ،’’ سوئیاں اور شیر‘‘ اور ’’حنوط کی ہوئی تلوار‘‘ جیسی کہانیاں کرپٹ اور بے حس سماج کا آئینہ دار ہیں ۔ ان میں خارجی دنیا کے بدلتے رنگ بھی ہیں اور داخلی حسیات کے نقوش بھی ۔ اس طرح ’’خاموش مکالمہ‘‘ میں موجود افسانے اقبال مجید کے ہم عصر افسانہ نگاروں اور روایتی افسانہ نگاروں سے مختلف ہیں۔ ان میں مختلف انداز اپنائے گئے ہیں کہیں علامتیں ، کہیں استعارے ، کہیں واقعہ تو ،کہیں کہانی ، کہیں سادگی ، تو کہیں پیچیدگی وغیرہ ۔
اقبال مجید کے افسانوں کا تکنیکی تنوع دیکھنا ہو تو ’’ ایک حلفیہ بیان‘‘ ،’’ پیٹ کا کیچوا ‘‘ ،’’ پوشاک ‘‘ ،’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ ،’’ مدافعت ‘‘ وغیرہ پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ جس میں تکنیکی اختلاف کے علاوہ داخلیت اور خارجیت ، مشاہدہ اور انوالمنٹ والے افسانے عموما یکسانیت کا شکا ر ہو سکتے ہیں ۔ البتہ اقبال مجید کے یہاں تجربوں میں فنکار شمولیت کے باوجود افسانوں کی رنگا رنگی قائم ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو اقبال مجید نے علامت نگاری سے نئی سماجی حقیقت نگاری تک کے سفر کو کامیابی سے طے کیا ہے**