You are currently viewing اقبال مجید کا  ناول :کسی دن کاتجزیاتی مطالعہ

اقبال مجید کا  ناول :کسی دن کاتجزیاتی مطالعہ

  اعظم  علی

اقبال مجید کا  ناول :کسی دن کاتجزیاتی مطالعہ

اقبال مجید کا پہلا ناول  “کسی دن”  جنوری 1998 میں  نیا  سفر پبلیکیشز الہ آباد سے شائع ہوا ۔ اقبال مجید کا یہ ناول115   صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ ناول کتابی شکل میں شا ئع ہونے سے قبل  اپنے مختلف نامون سے شائع ہو چکا تھا۔ یہ ناول اقبال مجید نے اپنے افسانوی مجموعے  “دوبھیگے ہوئے لوگ” میں” جنگل کٹ رہے ہیں” کے نام سے  بھی شامل کیا  ہے، اس ناول کو اقبال مجید نے ” سڑی ہوئی مٹھا ئی”  کے عنوان سے”  رسالہ سوغات  بنگلورـ” سے شمارہ نمبر  10 اور ” شب خون”  میں شمارہ203  میں

 ”   تیرا اور اس کا سچ” کے عنوان سے  فروری 1997 میں شائع ہوا  ناول کسی دن جب کتابی صورت میں شائع ہوا تو اس کی ابتدا میں پروفیسر علی احمد  فاطمی نے عرض ناشر کے عنوان سے  جو نوٹ لکھا اس میں لکھتے ہیں۔

“ناول کسی دن آج کے ہندوستان کی کہانی ہے وہ ہندوستان جو صرف شہر تک محدود نہیں بلکہ دہیات و قصبات کے وسیع و عریض  اور زمین و جائدات سیاست اور طاقت کی صورتوں میں ہے ۔ لیکن یہ سب مقامات کل کے  نہیں بلکہ آج کے ہیں جہاں کے سیاسی وسماجی تہزیبی اور اخلاقی  اقدار بدل چکے ہیں  جہاں  پوری ایمانداری سے بے ایمانی ہو رہی ہے  پوری بے شرمی سے سیاست  اور  تشدد کا برہنہ کھیل ہو رہا ہے ۔جہان رشتوں کا تقدس ۔ نیکی کی قوتیں انسانی و اخلاقی قدریں سب پامال ہوکر طاقت دولت اور صارفیت کا حصہ بن رہی ہے یا بن چکی ہیں اور ان سب کا شکار ہے عام آدمی” ۔۔۔۔ (ناول کسی دن)

 ناول کسی دن ہے تو ایک کہانی لیکن اس ناول مین اقبال مجید نے حقیقت  بیانی سے کام لیا ہے اس ناول میں ملک کی سیاست اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی  کو اقبال مجید نے موضوع  بنایا ہے  ۔ ناول میں اقبال مجید نے ایک مسلمان  لڑکی شوکت جہان جو کہ ناول کا مرکزی کراد ہے  اس کے ساتھ کم  عمری میں اشفاق  کے  ذریعہ  زنا بالجبر  کا شکار ہو جاتی ہے  ۔اس سے کہانی کا  آغاز کیا ہے  ۔

اس ناول میں اقبال مجید نے مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی  استحصال کو بیان کیا ہے  اقبال مجید  نے  اس ناول کے ذریعے  سمجھانے کی کوشش کی ہے  کہ حکوت چاہیں  وہ کسی بھی سیاسی  جماعت کی ہو ملک کی ہر سیاسی جماعت مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ اور جو بھی سیاسی جماعت حکومت کرتی ہے بھلے ہی وہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی رہے لیکن مسلمانوں کے فائدے کے لئے کچھ نہیں کرتی ۔ اس ناول میں اقبال مجید نے عورت کے استحصال اور عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی۔ عورت  کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر جو کہ معاشرے میں ہوتا ہے اس کو بھی اپنے ناول میں موضوع بنایا ہے ۔

ناول کی کہانی اس طرح ہے قدرت اللہ اور شوکت جہاں  دونوں  سوتیلے  بھائی بہن ہیں۔  انکے والد نے ایک سیکولر پارٹی کی خدمت میں اپنی پوی زندگی گزار دی  اور وہ چاہتاتھا کہ اپنے سیاست میں ہونے کا کچھ فائدہ  اپنی اولادکو پہنچا سکے  لہٰذا  وہ اپنے بیٹے قدت اللہ کو سرکاری سستے  راشن کی دوکان کا  لائسنس  دلوانے کے لئے آخری وقت تک کوشش کرتا ہے  لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتا  اور آخر میں اس کا  انتقال ہو جاتا ہے۔باپ کے مرنے کے بعد شوکت جہاں تو اپنے باپ کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھانے  کے لئے اسی سیکولر پارٹی  میں شامل ہو جاتی ہے لیکن قدرت اللہ اپنے باپ کی مخالف پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے ۔قدرت اللہ جس پارٹی میں شامل ہوتا ہے  اس پارٹی کو آر۔ایس۔ایس کی حمایت حاصل ہے اور قدرت اللہ اپنی روزی روٹی  چلانے  کے لئے اس پارٹی  کے لئے  کام کرتا ہے جو کہ مسلمانوں کی مخالف پارٹی ہے  اور قدرت اللہ بھی مسلمانوں کے خلاف اخبار میں بیان بازی کرتا ہے  جبکہ قدرت اللہ ایک حافظ قرآن او ر  روزہ  نماز کا پابند  مسلمان ہے لوگوں کو اس بات  پر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ  ایک حافظ  اور روزہ نماز کا  پابند بھی ہے  وہ ہندو فرقہ پرست پارٹی کی تنخواہ دار  کی حیثیت سے مسلمانوں کے خلاف  اخبار میں زہر کیوں انڈیلتا ہے ۔

ایک دن جب قدرت اللہ  عبدل بکر قصاحب کی دوکان پر گوشت لینے جاتا ہے تو  عبدل قصائی سے  جو قدرت اللہ کی بات ہوتی ہے  اس میںاقبال مجید نے بہترین مکالمہ نگاری سے کام لیا ہے۔

 “میاں آپ  اب  بھی اس اخبار کا  کام کر رہے ہو ۔۔؟”

 “ہاں:۔”

“عبدل کا خیال تھا کہ قدرت اللہ جیسے سیدھے سادھے آدمی کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے تھا اور اگر آہی گئے تھے تو کم سے کم ایسی پارٹی سے دور ہی رہنا چاہئے تھا۔۔۔۔”

 “ارے  میاں  عبدل نے چٹکی لی  اپنے مالک سے کہئے  شیروانی پر پورے بٹن لگانے  کے تو پورے   پیسے دے دیا کریں  ۔قدرت اللہ نے سنی اور ا ن سنی کر دی ۔عبدل منھ پھٹ تھا  بھڑاک  سے   بولا۔۔۔”

 “ایک بات سمجھ میں نہیں آتی میاں “

 “کیا؟ قدرت نے کہا ۔”

  “یہ جو آپ کر رہے ہیں نا ۔”

“کیا کر ہے ہیں ؟ قدرت نے  استفسار  کیا ۔”

 “یہی اخبار  میں جو آپ کر رہے  ہیں کیا اس پر آپ کو سچے دل سے ایمان ہے ۔”

“یعنی ؟”

” یہ کہ  اللہ کو گواہ کرکے کہ سکتے ہیں آپ کی ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔؟”  )ناول کسی دن صفحہ 13-12  (

دور  حاضر میں کچھ نام نہاد  مسلمان اپنے ذاتی مفاد  کی خاطر ایسی سیاسی پارٹیوں  یا تنظیموں  میں  کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے  جہاں  مسلمانوں کے خلاف  منصوبہ  بندی  کی جاتی ہے  یا مسلمانوں  کو گالی دی جاتی ہے  اسی کا بیان اقبال مجید نے قدرت اللہ جیسے  حافظ اور نمازی شخص کے کردار  کے ذریعے کیا ہے ۔ قدرت اللہ اور عبدل قصائی کے بیچ یہ باتیں ہوتی ہیں تو آس پاس اور بھی لوگ موجود ہوتے ہیں  اس وقت تو قدرت اللہ گھر چلا جاتا ہے ۔لیکن بعدمیں عبدل بکر قصاب اپنی پوری قصائی برادری کو جمع کر لیتا ہے  بات اتنی آگے  بڑھ جاتی ہے کہ  سبھی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف  اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے لگتی ہیں اور قدرت اللہ کو سامنے آکر  معافی مانگنا پڑتی ہے

یہ بات اس کی بہن شوکت جہاں کو بہت ناگوار گزرتی ہے اور شوکت جہاں اپنی پارٹی کے ودھایک  پرتاپ شکلا سے  عبدل بکر قصاب کے خلاف  کاروائی کرنے کی مانگ کرتی ہے  لیکن پرتاپ شکلا قریشی  برادری کے وو ٹ کے  لالچ کی وجہ سے  عبدل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا اور قدرت اللہ کی پارٹی بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرتی۔

شوکت جہاںان مسلمان خاتون کی نماندگی کرنا چاہتی ہے جو  قدم قدم پر زیادتی اور زنا بالجبر  کا شکار ہو چکی ہیں ۔ جو  خود  کم عمری میں ہی اشفاق کے ذریعے  زنابالجبر  کا شکار ہو چکی ہے  اور وہ مرد ذات سے ہمیشہ خوف ذدہ رہتی ہے  وہ شادی کرنے کا ارادہ بھی  ترک کر دیتی ہے  شوکت جہاں ایک    خوبصورت  تعلیم یافتہ اور غیر شادی شدہ  خاتون ہے۔وہ  قوم کی فلاح و بہود   کے لئے کوئی نہ کوئی کام کرتی رہنا چاہتی ہے  جس سے قوم  ترقی کرے لیکن موجودہ سیاست میں ودھایک  پرتاپ شکلا جیسے لوگوں کا دبدبہ قائم ہے جن کا کوئی نظریہ نہیں  اور خاص کر مسلمانوں سے انہیں نفرت ہے۔ سیکولرزم  وغیرہ سے  ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

قومی مسائل ہوں یا ملک کے  انہیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں  وہ ہر حال میں صرف اپنی ترقی کرنا چاہتے ہیں ۔

 شوکت جہاں  کا پارٹی کے کاموں سے پرتاپ شکلا کے یہاں  آنا جانا لگا رہتا ہے  جب شوکت جہاں پرتاپ شکلا سے کہتی ہے کہ  اس کے بھائی قدرت اللہ کی کوئی اچھی نوکری لگوا دیجئے  وہ آر ۔ایس۔ایس کی حمایت والی پارٹی  کی نوکری چھوڑ دے گا  تب پرتاپ شکلا کہتا ہے ۔

”    شوکت یہ نہ دیکھے کہ کانگریس ہی نہیں بلکہ کوئی بھی پارٹی کیا کررہی ہے اور مسلمانوں کو اس کیا توقعات  تھیں اور وہ توقعات کتنی پوری ہو رہی ہیں اور کتنی نہیں اور وہ کتنی سیکولر ہے  اور کتنی فرقہ پرست ؟ اور ملک کے مسائل کیا ہیں اور انہیں سلجھانے کے سلسلے میں کو ن کتنا ایماندار ہے اور کون کتنی قربانی دے رہا ہے ؟ اور کتنا سچا اور کتنا جھوٹا ہے ؟ ایسی باتوں سے وہ مطلب نہ رکھے  اور اوپر اوپر سے پارٹی کی کاریہ کرتا بنی رہے ۔)”ناول کسی دن صفحہ (19

شوکت جہاں اور  پرتاپ  شکلا کے درمیان ہونے والی گفتگو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ  پرتاپ شکلا  کا  نہ کوئی  سیاسی نظریہ ہے اور نہ کوئی  اصول  و ضوابط ہیں  عیش و آرام حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے  پرتاپ شکلا چاہتا ہے شوکت جہاں  اس کی رکھیل بن کر رہے  اور وہ پرتاپ شکلاکے اشاروں پر چلے  اور مسلمانوں کے خلاف تقریر کرے جیسا  کہ پرتاپ شکلا اور شوکت جہاں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے کچھ  اس طرح ہے ۔ شوکت جہاں غصہ میں پرتاپ شکلا سے کہتی ہے ۔

        ” آپ  کو  منتری بننے کے لئے  اردو اور علی گڑھ کو گالی دینا ضروری ہے؟  میرے لئے نہیں پرتاپ بھڑک اٹھا تھا  ،تمھارے لئے ضروری ہے ۔ مین اسٹریم میں شامل ہونے کے لئے  یہ باتیں ہندو تمھارے  منھ سے سننا چاہتے ہیں لیکن تم سمجھنا چاہو تب نا۔۔۔!”

یہ نہروکاسیکولرزم تو نہیں ہے ۔شوکت نے ٹھنڈی سانس لی تھی۔

سیکولرزم کسی گھرانے کی جاگیر  ہیں۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ  کانگریس تو ایکتا میں انیکتاکو مانتی ہے ۔ ٹھیک ہے پرتاپ نے چڑھ کر جواب نہیں دیا  تھا۔ تو کانگریسی نہیں ہوں میں ۔

گھس آیا ہوں کانگریس  میں؟

کیا مطلب ہے ؟

مطلب یہ کہ میں پہلے آر ۔ایس۔ایس میں رہا  ہونگا ۔ ان لوگوں نے گھسیڑ دیا مجھے کانگریس میں۔ تم بھی سب سے یہی کہو۔ نہرو  آزاد  اور جانے ، کو ن کون  سب اپنی اپنی قبروں  میں سو رہے ہیں ۔ ہم سے کیا بات کریں گے وہ ؟New Political Cumpulsions   ہمیں جھیلنا پڑ رہے ہیں انہیں نہیں۔ وہ سب تو اسکرو ڈرائیور  ٹکنالوجی کی طرح اسکرو ڈرائیور  ڈیماکریسی  جس کے الگ الگ حصے  ہم نے باہر سے منگا  کر  اپنے یہاں جوڑ لئے تھے ۔ ہم کو پکڑاکر کھسک لئے ہیں ۔اور ان سالوں مسلمانوں کے لئے  کیا کہوں وہی  مثل ہے کہ بدن پر نہیں لتہ اور پان کھائے البتہ ۔۔۔۔

مسلمانوں کو روٹی تو مل نہیں رہی ۔ اردو بولنے کی عیاشی میں مرے جا رہے ہیں۔

ارے بھائی پہلے چوتڑ ڈھنے کا پربندھ تو کر لو

پھر اردو بولتے ہوئے اچھی بھی لگے گی ۔

شوکت نے پرتاپ سے غصّہ میں کہا۔

اگر میں یہ پارٹی چھوڑ دوں تو۔۔۔؟

اور پرتاپ نے جیسے پورا خنجر اس کے سینے میں اتار دیا  تھا ۔

تمہاری مرضی ۔۔۔۔ کسی پارٹی میں بھی جاؤ استعمال عیش و آرام  کے لئے ہی جاؤگی ۔۔۔(ناول کسی دن صفحہ(42-40

مندرجہ بالا طویل اقتباس کے ذریعے  پرتاپ شکلا کے ذہن و نظریہ کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔ وہ اپنے سیاسی فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ لیکن شوکت جہاں  ایک شریف کردار میں نظر آتی ہے وہ سیاست میں رہ کر اپنی قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہے ۔ اس کا ضمیر اسے قوم اور خود  کو دھوکا  دینے کی اجازت نہیں دیتا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ پرتاپ شکلا جیسے سیاسی بھیڑیے  سے خود کو بچا لیتی ہے  ۔ اور ایک نیا راستہ بنا لیتی ہے اور سماجی کا رکن کی حثییت سے  عائشہ اور شہباز خاںکے ساتھ کا م کرنے لگتی ہے  ۔ پرتاپ شکلا کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے  وہ چاہتا تھا کے شوکت جہاں اس کی رکھیل بن کر رہے  اور کسی کے ساتھ کام نہ کرے ۔اور پھر عبدل بکر قصاب اپنی   بے عزتی کا بدلا لینے کے لئے  پرتاپ شکلا کو شوکت جہاں کے  خلاف بھڑکا دیتا ہے ۔ پرتاپ شکلا اکثر شوکت جہاں کو علی گڑھ  اور اردو کو گالی دینے کے لئے مجبور کرتا تھا۔ممو خاںجس نے شوکت جہاں کو شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا  لیکن شوکت یہ کہ کر منع کر دیا کہ وہ شادی نہیں  کرنا چاہتی  اور ساری زنگی بنا شادی کئے خدمت خلق کرنا چاہتی ہے ۔  شوکت جہاں شادی سے اس لئے بھی گھبراتی  ہے  کہ وہ کم عمری میں ہی اپنے  پڑوسی اشفاق کے ذ ریعے  زنا بالجبر کا شکار بن چکی تھی ۔ اس لئے شوکت جہاں ہمیشہ مرد ذات سے  خوف ذد ہ  رہتی تھی   اور شادی سے گھبراتی تھی۔

اور اپنے اس خوف کا ذکر  ایک دن  شوکت جہاں شہباز میاں کی بیوی  اور اپنی منھ بولی باجی سے ذکر کرتی ہے  اور عائشہ نے شوکت جہاں کو  لڑکیوں کے ہیلتھ کلب میں جوڈو کراٹے سیکھنے کے لئے داخل کر دیا تھا ۔

شوکت جہاں جلوس اور جلسوں میں صرف اس لئے جاتی تھی  کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا  بڑے بڑے سیاست دانوں کے ساتھ ہو  اور ان کے ساتھ  اس کی بھی تصویر  بڑے بڑے اخباروں میں چھپے  لیکن پرتاپ شکلا جس طرح شوکت جہاں کی طرف بڑھ رہا تھا  او ر اسے اپنی باتوں سے متاثر کرنا چاہتا تھا  شوکت جہاں ڈر جاتی تھی   اور اس کے پرانے زخم تازہ ہو جاتے تھے  ۔ اسے محسوس ہوتا تھا پرتاپ شکلا بھی  اشفاق کی جگہ لینا چاہتا ہے  اور شوکت جہاں کا ذہن اور دل اس کے لئے تیار نہیں تھا ۔

پرتتاپ شکلا  فون پر بھی شوکت جہا ں  کو  چھیڑتا تھا پرتاپ شکلا  اور شوکت جہاں کے درمیان فون پر  ہونے والی گفتگو کو اقبال مجید  نے بہترین ازنداز میں بیان کیا ہے۔

   “میں تم سے شادی کرنا چا ہوں تو آج ہی مسلمان ہو سکتا ہوں

اچھا؟

ہاں اخباروں میں تصویر  چھپواکر اعلان کر سکتا ہوں کہ  پرتا پ  جی مشرف بہ  اسلام ہو گئے۔

کیاواقعی ؟

بالکل !  پھر تم کو اپنی منکوحہ بیوی بنا کر کسی شریف زادے کی طرح تمہاے کھونٹے سے بندھا بھی رہ سکتا ہوں ۔ پر میں یہ آسان کام نہ کروں گا۔”

اس دن شوکت جہاں پر ہنسی ہنسی میں یہ راز کھلا کہ ودھایک پرتاپ شکلا گڑ توکھانا چاہتے ہیں  گلگلوں سے پرہیز بھی ہے ۔ کیونکہ پرتاپ شکلا نے اسے صاف بیا دیا تھا کہ  وہ شوکت جہاں کی تھوڑی سی ملائی کھا کر  ساری زندگی اس کی کھرچن  نگلنے کو تیار نہیں ہے۔) ناول کسی دن  صفحہ  (18

 شوکت جہاں پرتاپ شکلا کی عیاری  اور چالاکی کو بر وقت بھانپ لیتی ہے اور اس سے الگ ہو جاتی ہے  بلکہ شہباز خاں کے کہنے پر وہ اس کے منھ پر تھوک بھی دیتی ہے۔

جب شوکت جہاں  پرتاپ  شکلا کے منھ پر تھوک  کر چلی جاتی  ہے تو پرتاپ کھل کر شوکت جہاں کا دشمن بن جاتا ہے  اور عبدل قصائی جس سے شوکت جہاں کے بھائی کا جھگڑا ہوا  تھا  وہ بھی  شوکت جہاں کا مخالف ہوجاتا ہے اوہر وقت  موقعہ  کی  تلاش میں رہتا ہے وہ پرتاپ شکلاکے  کان بھر دیتا ہے  اور شوکت جہاں کو شہباز خاں کی رکھیل  بنا کر پرتاپ شکلا کے سامنے پیش کرتا ہے ۔

جب شوکت جہاں  شہبازخاں سے  مل کر  ممو خاں کے ذریعے عبدل بکر قصائی  کی پٹائی کروا دیتی ہے  اس کا بدلا لینے کے لئے  وہ پرتاپ شکلا سے جا ملتا ہے  اور کہتا ہے۔

ََََ’’یہ سارا کام جوتے والے شہباز میاں کا ہے ۔”

“شہباز میاں ؟ پرتاپ شکلا نے دہرایا۔”

“جی سرکار ، ممو خاں باغبان  ان کے یار ہیں۔ کس کے ذریعے ہوا ہے یہ بھی سن لیجئے ۔”

کس کہ ذریعے ؟ پرتاپ شکلا نے پوچھا ۔ “

یہ چال شہباز خاں کی رکھیل نے چلوائی ہے” ۔

“رکھیل کون۔”

آپ تو سب جانتے ہیں حضور مجھ سے کیا پوچھتے ہیں ۔

“مجھے کیا پتا , تم بتاؤ”

“حافظ قدرت کو تو آپ جانتے ہیں ، کانگریس کو گالیاں لکھتا رہتا ہے “

“تو اس سے کیا. ؟”

“اس کی بہن شوکت ۔ پورا محلّہ جانتا ہے حضور ۔”

“کیا۔۔۔؟ “پرتاپ کی آنکھیں پوری کھل گئیں ۔”

“یہی کہ وہ شہباز کی رکھیل ہے ۔۔۔۔(ناول کسی دن صفحہ ۷۳)

عبدل بکر قصائی کی زبانی یہ باتیں سن کر  پرتاپ کی ذہنی کیفیت بدل جاتی ہے  اور وہ غصّہ میں آگ  بگولہ ہو جاتا ہے  پھر وہ ماضی کی باتیں یاد کرنے  لگتا ہے  اس نے جو بھی کام شوکت جہاں کے کہنے پر کئے تھے  سب کو یاد کرتا ہے  ۔ اسے شوکت جہاں کے نخرے دیکھانا  اور ہنسی مذاق کرنا  جو بھی یا دیں وابستہ تھیں  سب اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگتی ہیں  ۔ اس کی ذہنی کیفیت کو اقبال مجید نے اپنے فن کی مہارت سے پیش کیا  ہے  اور اقبال مجید نے سیاست کے اس جال کو بھی بے نقاب کر دیا ہے  جس میں اگر کوئی سیاست داں کوئی کام  کرتا ہے تو وہ  نیکی یا ثواب کی نیت سے نہیں کرتا ہے  اور نہ ہی کام  کر نا وہ  اپنا فرض سمجھتا  ہے  بلکہ کام کرنے کے پیچھے کو ئی نہ کو ئی مقصد پوشیدہ  ہوتا ہے ۔پرتاپ شکلا کی حالت اس وقت ایک جنگلی جانور جیسی ہو چکی تھی ۔  اس حالت میں وہ صرف شوکت جہاں سے انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اور وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا  وہ شوکت جہاں کا قتل کروا دیتا ہے  اور اس کی لاش کو  شہباز خاں کے گھر  میں پھینکوا  دیتا ہے۔  اگلے دن اخباروں میں خبر چھپی پولس کی تفتیش  بھی ہوئی  لیکن اثر و رسوخ  اور سیاست کے دباؤ  میں پولس نے کوئی ٹھونس  کاروائی نہیں کری  اور اس طرح انصاف کی امید بھی دم توڑ دیتی ہے ۔

 پرتاپ شکلا کے ذریعہ شوکت جہاں کا قتل کروانا اور پولس کی کاروائی نہ کرنا  اس سے اقبال مجید  نے سماج میں رہنے والے  غریب آدمی  کی مجبوری اور بے بسی  کو دکھیا  ہے  جس کی سماج میں کوئی اہمیت نہیں  اور نہ ہی اس کی  کوئی ضرورت ہے  بلکہ اس کی جان کی بھی   کوئی قیمت نہیں  اور نہ ہی اس کے قتل پر کسی کو افسوس ہوتا ہے  بلکہ دنیا صرف غریب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

ناول کسی دن میں قدرت اللہ جو کہ شوکت جہاں کا بھائی ہے  اس کی بیٹی جس کا نام کمو ہے  اس کی شادی ایک سمگلر سے ہو جاتی ہے  جو  کہ لندن میں غیر قانونی  دواؤں کے کاروبار میں  ملوث ہے لہٰذا  کمو بھی اس غیر قانونی  کاروبار میں  شریک ہوتی ہے  اور اس کام کے ذریعے  وہ  بہت سی دولت کما لیتی ہے  اور پھر وہ اپنے شوہر  سے طلاق  لیکر واپس  ہندوستان آجاتی ہے  ہندوستان میں آکر  وہ پسماندہ  مسلمان طبقے کے لئے  کام کرنا چاہتی ہے  لیکن اس کا باپ  جوکہ حافظ ہے وہ  کہتا ہے  نا جائز پیسے سے قوم کی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔

کمو کی ملاقات اشوک نامی نوجوان  شخص  سے ہوتی ہے  جو کہ سرسید پر فلم بنا رہا ہے  اس کا ایک کردار سر سید کے مزار پر جاکر  کہتا ہے۔

 “سرسید صاحب ! میں آپ کی یونیورسٹی کی سیاست  سے اور سیاست میں  تفرقے سے اور تفرقے میں انتشار  اور انتشار میں اسٹرا ئکوں  اور اسٹرائکوں میں  جوتم پیزار  سے بچتا بچاتا  بس ایک سوال کرنے آیا ہوں ۔جواب دیجئے کہ پورے ملک کے  آئی ۔اے ۔ایس   افسران کے دو ہزار نو سو انچاس  ناموں کی فہرست میں صرف ساٹھ  نام مسلمانوں کے کیوں تھے  جب کہ ملک کی پوری  آبادی میں مسلمانوں  کا تنا  سب ۱۲ فیصد ہے۔

 سرسید دادا کیا آپ کو معلوم  ہے کہ پبلک سروس کے امتحانوں  میں آپ کی یونیورسٹی  کے جب اکتالیس طلباء بیٹھتے ہیں تو دوسری یونیورسٹیوں  کے طالب علموں کی تعداد سیکڑوں اور  ہزاروں میں ہوتی ہے۔

اشوک کو مسلمانوں سے بہت  ہمدردی   ہے۔ اس لئے وہ مزید کہتا ہے  ۔ نوجوانوں کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ اعلا ملازمتوں کے امتحانوں کی تیاریاں کیسے کی جاتی ہیں  اور مقابلے کی دنیا میں جینے کے طور طریقے کیا ہیں ۔ مسلمانوں کا نہ کو ئی بینک ہے نہ کوئی تجارتی تنظیم  نہ کوئی ہسپتال ہے اور نہ کوئی صنعتی تربیت  کا مرکز  ۔ اگر میں یہ کہوں کہ بغل میں ایک سپارہ  ہاتھ میں ایک بدھنی  ور کندھے پر ایک جا نماز لٹکا لینے سے ہی مسلمان کے مسائل  حل نہ ہونگے  تو آپ کا  مولوی میری ٹانگیں  چیر کر  پھینک دے گا  (کسی دن  صفحہ(112-111

مندرجہ بالا اقتباس کی سچائی سے  انکار نہیں کیا جا سکتا  دور  حاضر میں مسلمانوں کا جو حال ہے  وہ اقبال مجید نے اپنے ناول  کے کردار اشوک کے ذریعے بیان  کیا ہے  موجودہ دور میں علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی کی خدمات پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں ۔سرسید نے  جس مقصد کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی  آج یونیورسٹی اپنے مقصد سے بھٹکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

سول سروس ہو یا دیگر مقابلہ جاتی  امتحانات  یونیورسٹی کے طلبہ کی  تعداد بہت کم نظر آتی ہے  اور پھر آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   جس انتشار کا شکار ہے ۔اس سے بھی ہم انکار نہیں  کر سکتے ۔

 ناول کسی دن کے مطالعے سے اندازہ لگایا جا سکتا  ہے اقبال مجید  کے  دل میں عورتوں کی عزت اور  ان کی آزاد دلی کا جذبہ  تو ہے لیکن وہ آج  کے ماحول سے  خوف ذدہ بھی  نظر آتے ہیں ۔آج کل اخباروں میں ہم آئے دن  پڑھتے رہتے ہیں کہ  عورت کا بلاتکار کر دیا جاتا ہے  اور کچھ بدمعاش لڑکیوں  کو اغوا کرکے  جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیتے ہیں  اور سیاست اور سماج میں موجود   ودھایک پرتاپ شکلا  جیسے لوگ عورت کو صرف  عیش و آرام اور استعمال  کی چیز سمجھتے ہیں ۔ اس لئے اقبال مجید نے عائشہ کے ذریعہ  شوکت جہاں جیسی سماج کی تمام  مظلوم  عورتوں کے لئے جوڈو کراٹے کی تعلیم  کو بھی ضروری قرار دیا  ہے۔

ناول  کسی دن  کا تھیم آج کی سیاست  اور سماج و معاشرت ہے ۔ دیکھا جائے تو اس ناول میں اقبال مجید نے  جو کہانی پیش کی ہے وہ  حقیقت میں ہمارے معاشرے کی سچائی ہے اقبال مجید نے علامت یا  ابہام سے کام نہیں لیا ہے  بلکہ اپنے بیانہ انداز سے قاری  تک اپنی بات پہچانے کی سعی کی ہے۔ اس ناول میں اقبال مجید نے  ہندوستان میں اقلیتی طبقہ کی اور خاص کر مسلمان قوم کی نمایندگی کی ہے  اور یہ نال ہندوستانی سیاست کی  اس سچائی کو بھی بیان کرتا ہے جو کہ آج کی سیاسی جماعت  مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے لئے   استعمال کرتے ہیں  باقی ان کے مسائل سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے  اس ناول کے ذریعہ اقبال مجید  نے غریب مظلوم طبقہ کی عکاسی کی ہے  جس  کا سماج میں  اپنا  کوئی مقام نہیں ہے  بلکہ وہ سیاست دانوں کے  ذریعہ ہر قدم  پہ خود کو ٹھگا سا محسوس کرتا ہے  جب تک ہندوستانی سماج سے   یہ  برائی ختم نہیں ہو جاتی  ایک خوشحال ملک نہیں بن سکتا  اور اقبال مجید نے ناول کسی دن کے ذریعہ  اس برائی کو ختم کرنے پر غور  و فکر کیا ہے  اور اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ناول  نگار نے دور جدید کے تمام  رحجانات اور امکانات کو  بہت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے  ۔ اقبال مجید نے ناول کے لئے  جو زبان و بیان استعمال کیا ہے اس اعتبار سے بھی ایک  کامیاب ناول ہے  اقبال مجید نے ناول کسی دن کے ذریعہ  عوام کو جاگروک کرنے کا کام کیاہے  اور ناول نگاری میں کسی دن  ایک بہترین اضافہ ہے۔

Aajam ALI (Research scholar) Govt. Raza P.G College Rampur

Professor Syed Mohd.Arshad Rizvi(supervisor)

Head  of Dept.Govt Raza P.G college Rampur

Leave a Reply