واحدؔنظام آبادی
امجدؔ حیدرآبادی
امجدؔ حیدرآبادی’ حیدرآباد دکن کے ایک مشہورومعروف ادیب، مترجم اور صوفی شاعر تھے۔ اُن کی شاعری قرآن وحدیث اور تصوف و طریقت کے مضامین سے عبارت ہے۔ اردو کے مشہور رباعی گو شاعر کی حیثیت سے انہیں خصوصی طور پر شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان کی رباعیات مختلف مدارس اور جامعات کے نصاب میں شامل ہیں اور بعض رباعیات تو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔شعرو ادب میں اُن کے مقام و مرتبہ اور اعتباری شان کے پیش نظر تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی ایک اسکیم کے تحت شاعروں کو ‘‘حضرت امجدؔحیدرآبادی ایوارڈ’’ عطا کرتی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔
نام اور تخلص :
اصلی نام سید امجد حسین اور تخلص ‘‘امجدؔ حیدرآبادی’’ تھا ۔ امجدؔ حیدرآبادی اپنی علمی و ادبی صفات کی جامعیت کی بنا پر حکیم الشعراء ، شہنشاہِ رباعیات ، سعدئ دکن ، حسان الہند اور سرمدِ ثانی وغیرہ القاب سے نوازے گئے ۔انہوں نے اپنی ایک رباعی میں اپنے نام اور لقب کا اس طرح اظہار کیا ہے
سید احمد حسین ہوں امجدؔ ہوں
حسان الہند ثانئ سرمد ہوں
کیا پوچھتے ہو حسب نسب کو مرے
میں بندۂ لم یلد ولم یولد ہوں
ولادت :
19؍مارچ1878ء کو امجدؔ حیدرآبادی کی پیدائش ہوئی ۔ صغر سنی بلکہ ولادت کے ابتدائی40 دن ہی ہوئے تھے کہ امجدؔ حیدرآبادی کے سر سے والد ماجد کا سایہ اٹھ گیا اور ان کی والدہ محترمہ صوفیہ صاحبہ نے امجدؔ حیدرآبادی کی پرورش و پرداخت میں خصوصی طور پر حصہ لیا ۔ پھر1908ء میں حیدرآباد میں رودِ موسیٰ کی طغیانی کا المناک سانحہ پیش آیا جس میں امجدؔ حیدرآبادی کا خاندان ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہوکر لقمۂ اجل ہوگیا ۔ رودِ موسیٰ کی طغیانی کے روح فرسا احوال کو امجدؔ حیدرآبادی نے ‘‘قیامت ِ صغریٰ’’ کے نام سے ایک نظم میں درد انگیز لہجہ میں بیان کیا ،جیسے
وہ رات کا سناٹا وہ گھنگھور گھٹائیں
بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں
گرنا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں
وہ مانگنا ہر ایک کا رو رو کے دعائیں
پانی کا وہ زور اور وہ دریا کی روانی
پتھر کا کلیجہ ہو جسے دیکھ کے پانی
رودِ موسیٰ کی طغیانی کی نذر ہونے والوں میں خود امجدؔ حیدرآبادی کی والدہ ، شریک حیات اور شیر خوار و معصوم بیٹی بھی تھی ، رودِ موسیٰ کی ہلاکت خیزی ایسی رہی کہ امجدؔ کو پھر کسی کا پتہ نہ ملا اسی لئے کہا ہے
مادر کہیں اور میں کہیں بادیدۂ پرنم
بیوی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم
عالم میں نظر آتا تھا تاریکی کا عالم
کیوں رات نہ ہو ڈوب گیا نیر اعظم
سب سامنے آنکھوں کے نہاں ہوگئے پیارے
وہ غم تھا کہ دن کو نظر آنے لگے تارے(1)
ملازمت :
ملازمت کے سلسلہ میں یوں تو امجدؔ حیدرآبادی نے بنگلور وغیرہ کا سفر بھی کیا تھا اور وہاں مختصر عرصہ قیام پذیر رہے مگر بنیادی طور پر ریاست حیدرآباد کے محکمہ محاسبی سے ہی ان کا تعلق رہا ۔اس سلسلہ میں ماہرؔ القادری نے اپنے ایک مضمون ‘‘ حضرت امجدؔ حیدرآبادی ’’ میں یوں روشنی ڈالی ہے :
‘‘امجدؔ مرحوم کے سب سے زیادہ قدر شناس سر اکبر حیدری مرحوم تھے ۔ امجدؔ کی ملازمت کا تعلق دفتر صدر محاسبی سے تھا اور سر اکبر حیدری فینانس کے وزیر تھے ۔ انہوں نے حضرت امجدؔ کو تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کئی ترقیاں دیں ۔ انہیں دنوں یہ بھی سننے میں آیا کہ سراکبر حیدری امجدؔ مرحوم سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر جایا کرتے ہیں ۔ (2)
علمی و ادبی خدمات :
امجدؔ حیدرآبادی شہرت گریز اور گوشہ نشین واقع ہوئے تھے اسی لئے مشاعروں میں بطورِ خاص جانا اور کلام سنانا انہیں پسند نہ تھا ۔ ملازمت کے اوقات کے علاوہ وہ نہایت یکسوئی سے لکھنے پڑھنے اور تصنیفی و تالیفی کام میں مصروف و مشغول رہا کرتے یا کسی اہم شخصیت سے ملاقات کے لئے وقت نکالتے ۔یہی وجہ ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی نے اپنے علمی و ادبی سلسلہ کو برقرار رکھا۔ چنانچہ انہوں نے نظم و نثر میں کمال حاصل کیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حیدرآباد دکن بلکہ ملک و بیرون ملک کے مختلف اہل علم و فضل نے ان کے علمی و ادبی کمالات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ درج ذیل سطور میں ان کی کتابوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جس سے ان کی علمی و ادبی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے:
1) جمال امجد ۔مطبوعہ1348ھ ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد ۔دکن
2) نذر امجد ( میاں بیوی کی کہانی) سن اشاعت ندارد ۔ اعجاز پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد دکن
3) حج امجد ۔مطبوعہ1379ھ ۔اعجاز پرنٹنگ پریس ۔ حیدرآباد
4) حکایات امجد ۔ بارِ دوم ۔1383ھ م1963ء ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس ۔حیدرآباد ۔
5) ریاض امجد(2؍ حصے )2011ء ۔ ملک بک ڈپو ۔ دہلی
6) خرقۂ امجد۔ 1923۔ جدید ایڈیشن2011ء ۔ ملک بک ڈپو ۔ دہلی ۔
7) گلستان امجد1381ھ (بارِ چہارم) اعجاز پریس ۔ چھتہ بازار ۔ حیدرآباد
8) رباعیات امجدؔ (3 حصے)مطبع و سن ندارد
امجد ؔ حیدرآبادی کی مذکورہ بالا کتابیں متعدد مرتبہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں اور عصر حاضر میں ان کی بعض کتابوں کو عادل اسیرؔ دہلوی نے ازسر نو مرتب کرکے دہلی سے شائع کیا ہے ۔ مذکورہ بالا فہرست کتب سے اندازہ ہوتا ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی نے نظم و نثر دونوں اصناف میں لکھا ہے اسی لئے مولانا مناظر احسن گیلانی (جو علم و تحقیق کے ایک اہم فرد ہیں) نے ان کے بارے میں یوں لکھا ہے :
‘‘اب ان کی دلکش نثر کے متعلق اپنی آزادانہ رائے کو پابند کرکے صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ مولانا عبدالباری ندوی لکھنوی جیسے نقاد اور نکتہ چیں بزرگ بھی حضرت امجدؔ کی نثاریت پر دیر تک جھومتے رہے ۔ میں نے شاید دو ایک مرتبہ پہلو بدلے بھی ہوں گے مگر مولانا ئے ممدوح الصّدر نے دو سو صفحے کی کتاب ایک ہی بیٹھک میں ختم کردی ۔ کتاب ختم کرنے سے پیشتر اس کا مطالعہ ختم نہ ہوسکا۔ وہ امجد جواب تک شاعر مشہور تھا دیکھو کہ اب انشاء کے ایک جدید اسلوب اور قالب میں کس طرح کامیاب ہوکر نمایاں ہوتا ہے ۔ فالحمد للہ ربّ العالمین ۔ (3)
امجدؔ حیدرآبادی کا فارسی ذوق :
امجدؔ حیدرآباد چونکہ دکن کی دانش گاہ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل تھے اور اُس زمانے میں درس نظامی کے نصاب میں خصوصیت کے ساتھ فارسی کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ۔(4) اس لئے امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی کی ابتدائی اور اہم کتابیں پڑھنے کا موقع ملا جس سے ان کی فارسی دانی کو تقویت ملی ۔ علاوہ ازیں امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی زبان سے کچھ زیادہ ہی علاقہ رہا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تعلیمی زمانے ہی میں فارسی کی ایک مشہور کتاب ‘‘اخلاقِ جمالی ’’ کااُردو ترجمہ کیا تھا جو اب نایاب ہے اوراُس زمانے کے استاد علامہ شوستری نے اس کی تعریف بھی فرمائی تھی ۔
امجدؔ حیدرآبادی کے احوال کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے فارسی شاعری کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا تھا ۔چنانچہ مثنوی مولانا روم۔ کلیاتِ بیدل اور اسی طرح گلستاں نامی کتابیں اکثر ان کے زیرمطالعہ رہتی تھیں ۔ چنانچہ ‘‘گلستان’’ پڑھتے پڑھتے فارسی میں بھی انہوں نے ایک شعر موزوں کیا ۔ اُن کا پہلا فارسی شعر یوں ہے
بسانِ سایۂ نصف النہارم پیش پا افتد
اگر خورشید محشر را نظر برداغِ ما افتد
دنیا و انسان ان کی پہلی نظم ہے جو20سال کی عمر میں لکھی گئی ۔ انہوں نے اپنی فارسی کی چند غزلیں ترک علی شاہ ترکی کو اور اُردو کی چند غزلیں حبیب کنتوری کو دکھائیں ۔ (5)
گلستانِ امجد کے شروع میں وہ خود یوں رقم طراز ہیں :
‘‘ ایک مدت سے تین کتابیں ہمارے زیرنظر تھیں ،گلستانِ سعدیؔ ، مثنوی مولوی رومی ؔ،کلیاتِ بیدلؔ ۔ ہم چاہتے تھے کہ گلستاں کا اُردو ترجمہ اور مثنوی اور کلیاتِ بیدلؔ کاانتخاب معہ ترجمہ کریں ’’ ۔ (6)
غرض سطور بالا میں ان کی فارسی دانی سے متعلق جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ امجدؔ حیدرآبادی کو فارسی زبان، اس کی نظم اور اثر اور اس سے ترجمہ نگاری کا خصوصی ذوق تھا ، اسی لئے امجدؔ حیدرآبادی نے فارسی کی مشہور کتاب گلستانِ سعدی کا اُردو ترجمہ گلستانِ امجدؔ کے نام سے کیا جو یقینا لائقِ مطالعہ ہے۔
قدر شناسی :
٭ حیاتِ امجدؔ : امجد حسین امجدؔ حیدرآبادی کی سوانح حیات ہے جس کو محمد جمال شریف ایم ۔ اے نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب کل148 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بنیادی طور پر اس کتاب میں امجدؔ حیدرآبادی کے حالاتِ زندگی اور ان کی ادبی خدمات کا جائزہ موجود ہے ۔
٭ 1987ء میں محمد عثمان علی نے امجدؔ حیدرآبادی حیات اور کارنامے کی موضوع پر پروفیسر ابوالفضل سید محمود قادری کی زیرنگرانی اُردو میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جو کل 260صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ مقالہ کل 3 ؍ابواب پر مشتمل ہے جس کا پہلا باب حالاتِ زندگی ، دوسرا باب حضرت امجدؔ کی نثرنگاری اور تیسرا باب ان کی شاعری سے متعلق ہے ۔ اس مقالہ پر جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی ہے ۔
٭ 1891ء میں محمد عثمان علی نے امجدؔ حیدرآباد ی کے نثری کارنامے کے موضوع پر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ میں تحقیقی کام انجام دے کر ڈگری حاصل کی۔
٭ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کے زیراہتمام ہندوستان کے مایہ ناز شاعر ادیب مترجم ، مفکر ، فلسفی و حکیم ، دانائے راز ہائے انفس و آفاق سرمد ثانی سید احمد حسین امجدؔ کا جشن الماس 31؍ جنوری 1955ء کو نہایت تزک و اہتمام سے منایا گیا ۔ اس موقع پر پڑھے گئے مضامین ہندوستان بھر کے دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں اور سیاست دانوں کے بھیجے ہوئے پیامات وغیرہ ماہنامہ سب رس حیدرآباد کے ایک خصوصی نمبر میں خواجہ حمیدالدین شاہد نے مرتب کرکے ارمغانِ امجدؔ کے نام سے پیش کیا ۔
مکتوباتِ امجدؔ:۔ دکن کے مشہور محقق جناب مولوی نصیر الدین صاحب ہاشمی نے کلیم الشعراء سید امجد حسین امجدؔ حیدرآبادی کے مکتوبات کو مکتوباتِ امجد کے نام سے مرتب کرکے 1354 ء میں شمس المطابع حیدرآباد دکن سے شائع کیا۔ اس کتاب کے شروع میں عالی جناب نواب جیون یار جنگ بہادر (رکن مجلس عالیہ عدالت) کا پیش لفظ ہے اور مولوی نصیر الدین ہاشمی کا قدرے تفصیلی مقدمہ ہے۔ اس کتاب میں حضرت امجدؔ کے قیمتی اور نایاب خطوط جمع ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں مولوی نصیر الدین ہاشمی نے ‘‘حضرت امجدؔ کے کلام کی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور نمونۂ کلام بھی پیش کیا ہے۔
ایک کتاب ‘‘یاد گارِ امجد’’ کے نام سے بھی ملتی ہے جس کو 1961 ء میں محمد اکبر الدین صدیقی نے شائع کیا ہے۔
امجدؔحیدرآبادی اور ویمنا کا تقابلی مطالعہ: از۔محمد امین اللہ۔ تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی۔ زیر نگرانی پروفیسر بشیر احمد ۔ ایس وی یونیورسٹی، تروپتی۔ 2004ء
اس کتاب میں امجدؔ حیدرآبادی کی حیات، شخصیت اور شاعری پر اربابِ قلم کے تبصرے، منظوم خراجِ عقیدت اور قطعاتِ تاریخ شامل ہیں۔
امجدؔ حیدرآبادی کی ترجمہ نگاری: مصنف واحدؔ نظام آبادی۔ چوں کہ امجدؔ حیدرآبادی نے شیخ سعدی کی گلستان کا اُردو بامحاورہ ترجمہ گلستانِ امجد کے نام سے کیا تھا، ترجمہ کے اصول وفن کی روشنی میں امجدؔ حیدرآبادی کی ترجمہ نگاری کا مفصل جائزہ اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔جس کے صفحات 196 ہیں۔ یہ کتاب 2018ء میں دارالاشاعت مصطفائی، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔
کلیاتِ امجدؔ حیدرآبادی: مرتب ڈاکٹرعطاء اللہ خان۔ شائع شدہ 2020ء
رباعیاتِ امجدؔ حیدرآبادی کا موضوعی تناظر : ڈاکٹر قطب سرشار۔ شائع شدہ 2016ء
علاوہ ازیں اور بھی مختلف مضامین ملتے ہیں جو امجدؔ حیدرآبادی کی رباعیات اور فکروفن سے متعلق خاصے وقیع اور اہم ہیں۔
علاوہ ازیں دکن میں شعر و ادب سے متعلق تحقیقی و تاریخی کتابوں نیز متعدد تحقیقی مقالوں میں ان کی شخصیت اور فکر و فن سے متعلق تقریباً ہر پہلو پر سیر حاصل لکھا جاچکا ہے اور ہندوپاک کی مؤقر و معتبر اور مستند اہل علم و فضل شخصیات نے ان کی ادبی و شعری خدمات کا بھرپور اعتراف کیا ہے جن میں علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا مناظر احسن گیلانی وغیرہ شامل ہیں ۔
وفات :
29؍ مارچ 1961ء کو امجدؔ حیدرآبادی کا انتقال ہوگیا ۔ اور محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندیؒ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور احاطہ درگاہ حضرت شاہ خاموش میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ (7)
لو ختم ہوا آج کلامِ امجدؔ
امجدؔ کی جگہ رہ گیا نامِ امجدؔ
اب آپ اس پر عمل کریں یا نہ کریں
پہونچا دیا امجدؔ نے پیامِ امجدؔ
٭٭٭٭٭
حوالہ جات :
(1) جمال امجدؔ ۔ امجدؔ حیدرآبادی ۔ نیشنل فائن پرنٹنگ پریس حیدرآباد ۔1384ھ ۔ صفحہ نمبر 76
(2) امجدؔ سے شاذ تک ۔ مطبوعہ ادارہ ٔ سیاست حیدرآباد 1988ء صفحہ نمبر
(3) گلستانِ امجدؔ ۔ امجدؔ حیدرآبادی ۔ صفحہ نمبر (ابتدائی مضمون)
(4) فرزندان جامعہ نظامیہ کی علمی و ادبی خدمات ۔ فصیح الدین نظامی ۔ سری سائی گرافکس حیدرآباد ۔ 1999ء ،صفحہ نمبر 51
(5) دبستانِ نظامی ۔ فصیح الدین نظامی ۔ (غیر مطبوعہ) ۔ صفحہ نمبر427
(6) جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے منتخب ادباء و شعراء کے فکر و فن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ۔محمد عظمت اللہ خان۔2004ء
(7) روزنامہ سیاست حیدرآباد مورخہ دوشنبہ 10؍ نومبر2003ء
٭٭٭
Wahid Nizamabadi
H.No: 9-2-128
Mustaid pura. Nizamabad
Pin No: 503001, Telangana
Cell No: 6281636641