ڈاکٹر طاہرہ غفور
( لیکچرر اُردو ) گورنمنٹ گریجویٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی
محمد ساجد اقبال
لیکچر ر( شعبہ انگریزی) اوپی ا یف بو ا ئز کالج، اسلام آباد
ڈاکٹر محمد سہیل اقبال
” امراؤ جان ادا ” کی فلمی تشکیل: تقابلی تجزیہ
Umrao Jaan Ada: Comparative study of novel to film adaptation
Abstract:
Film adaptation is the Process of transferring a story into a film form. In this process care is taken to bring the characters of the novel to through dialogues and scenes, should be done so that they appear in front of the audience in the best possible way. The process of making a film based on a novel is called film adaptation, in which an attempt is made to present the novel as it is or better than the film. In film adaptation, the transfer of a literary masterpiece to a film is discussed and in this regard, the plot and narrative of the novel is taken into consideration. There are three methods of film adaptation of a novel. Adaptation is an inter relative thing between literature and film. The history of cinema is replete wtth adaptaions of novels into films. It seems that almost every movie lends itself to borrowing from literary sources. The paper analyses the novel “Umrao-Jan-Adda” by Mohammad Hadi Ruswa with relation to it’s adaptation the 2006 Bollywood film directed by J.P. Dutta. The analysis tries to shed a Light on the inter relationship between this film and novel especially in the context of Dudely Andrew’s theory of film adaptation from Novel.
Key Word: Adaptation, Inter relative, Literary soruses. Context.
کلیدی الفاظ:تواخذ ، اَدبی زرائع ، متن ، تضمینی طریقہ ،انقطاع طریقہ، پیرویانہ طریقہ ۔
فلمی اخذیت کسی کہانی کو فلمی صورت میں منتقل کرنے کا عمل ہے اور جب ناول سے فلم میں منتقلی کی بات کرتے ہیں تو اس عمل میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مکالموں اور منظر نگاری کے ذریعے ناول کے کرداروں کو جاندار انداز میں پیش کیا جائے تاکہ وہ ناظرین کے سامنے بہترین انداز میں آئیں۔ ہماری فلمیں معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں ۔ ان کے ذریعے معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ فلم میں کیمرے کے ذریعےعکس بندی کی جاتی ہے ۔ ناول کو ماخذ بنا کر فلم بنانے کا عمل فلمی تو اخذ کہلاتا ہے ، جس میں ناول کو جوں کا توں یا اس سے بہتر بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔فلمی تواخذ میں کسی ادبی شہ پارے کی فلم میں منتقلی پر بحث کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں ناول کے پلاٹ اور بیانیہ کی ترتیب کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ فلم میں واقعات کی پیش کش میں جتنا تسلسل پایا جائے گا کہانی کا پلاٹ ا تنا ہی شاندار ہو گا ، بیانیہ ہی واقعات و مکالمات کی تعمیر کرتا ہے۔
فلمی تواخذ کے حوالے سے ڈیوڈ لی۔ اینڈ ریو نے اپنی کتاب فلمی تھیوری (Concept in Film Theory) میں نظریہ تواخذ پیش کیا۔ اسں تھیوری کے مطابق جب ناول کو فلم کے لیے بنیاد بنا یا جاتا ہے تو فلم میں ناول کو بنیاد بنا کر ناظرین کو بہتر ین معلومات کے ساتھ تفریح فراہم کرتی ہے۔ اینڈریو کا یہ بھی کہنا ہے کہ “تقریباً آدھی سے زیادہ کمرشل فلمیں کسی نہ کسی ناول کو بنیاد بنا کر بنائی گئیں ۔ “(1)
فلم ساز ناول کے پلاٹ کو اہمیت دیتا ہے ۔یہ تواخذی عمل کے استحکام کا سبب ہے ۔ فلم ساز کو اپنی ذاتی رائے سے ناول میں موجود نظریات کوتقویت بخشنی چاہیۓ۔ تہذیبی پہلو کو بھی نمایاں انداز میں پیش کرے ۔ اگرچہ فلم ناول پر مبنی ہوتی ہے لیکن ناظرین کو اس میں حقیقت کے ساتھ ساتھ کچھ نیا پن بھی محسوس ہوتا ہے۔ اینڈریو تواخذی عمل کی وسعت پر زور دیتا ہے اور کہ یہ محدود یت سے دور ہو ۔ ناول اور فن میں ہم آہنگی کہانی یا پلاٹ میں متاثر کن تجسس کی تخلیق کا ضامن ہے ۔ واقعات کی ترتیب ، کرداروں کی پیش کش ، منظر کشی اور ماحول کی بہترین انداز میں پیش کش ہی فلم کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اینڈ ریو کے مطابق فلمی تواخذ کو تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر عمل پیرا ہو کر عمل میں لایا جاتا ہے ۔ان تین طریقوں میں پہلا طریقہ تضمینی طریقہ ہے جس میں فلم ساز ناول کی ہیٔت اور خیالات کو مستعار لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ اس کا فن جدت کی وجہ سے شہرت حاصل کرے۔دوسرا طریقہ تقاطعی طریقہ ہے ۔اس طریقہ کا ر میں اصل متن کو کسی حد تک برقرار رکھا جاتا ہے۔ لیکن شعوری طور پر تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تا کہ ناظرین زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو سکیں۔
تیسرا طریقہ پیر ویانہ طریقہ ہے جس میں اصل متن کو جوں کا توں فلمایا جاتا ہے اور اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ ناول میں کردار ،واقعات اور ثقافتی معلومات کو اس طرح سے فلمایا جائے کہ بنیادی ماخذ کا بیانیہ برقرار ر ہے۔
امراؤ جان ادا پر اب تک تین فلمیں بن چکی ہیں جن میں پہلی فلم ۱۹۷۲ء میں پاکستانی ہدایت کار حسن طارق نے بنائی ۔ اس فلم کمرشل ضروریات کی بنا پر کافی تبدیلیاں کی گئیں، اینڈریو کی تھیوری کے مطابق اس فلم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ طریقہ انقطاع کی بہترین انداز میں نمائندہ فلم ہے کیونکہ اس میں مرکزی خیال کی یکتائی کو بر قرار رکھا گیا ہے لیکن فلمی تقاضوں کی خاطر آخر میں تمام کہانی بدل دی گئی۔
ناول پر مبنی دوسری فلم ہندوستان کے ہدایت کارو مصنف مظفر علی نے ۱۹۸۱ء میں بنائی۔ انھوں نے ناول کے اصل متن کی اولیت کا بہت خیال رکھا اور اس بات کی بھرپور کو شش کی گئی کہ کمرشل تقاضے ناول کے بیانیے پر اثر انداز نہ ہوں۔ فلم میں ناول کی کہانی کو جوں کا توں بیان کر دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے یہ کام ہدایت کار کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ قطع وبرید کے بغیر کہانی کو جوں کا توں پیش کیا جائے اور کمرشل تقاضوں پر بھی پورا اترا جائے ۔ یہ فلم اینڈریو کے پیر ویانہ طریقہ کے اصولوں پر پورا اترتی ہے، جس میں زیادہ کانٹ چھانٹ کے بغیر کہانی کو اس طرح سے ناظرین کے سامنے پردہ سکرین پر پیش کیا جائے کہ وہ ناول کے پلاٹ کی بھی بھرپور عکاسی کرے۔
امراؤجان ادا ناول پر تیسری فلم ہندوستان کے ہدایتکار جے۔پی۔ دتہ نے ۲۰۰۶ء میں ریلیز کی۔ فلم میں امراؤ جان ادا کی کہانی فلیش بیک تکنیک میں ہے ۔یہ تکنیک ناول میں بھی موجود ہے لیکن فلم کو شائقین نے غیر ضروری طوالت کے سبب نا پسند کیا۔ فلم میں بنیادی متن کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ کمرشل تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ لہٰذا فلم میں بنیادی متن سے کافی حد تک انحراف کیا گیا۔ اینڈریو کی تھیوری کے مطابق یہ فلم تضمینی طریقہ کی نمائندگی کرتی ہے ۔ جس میں بنیادی متن کے خیالات و ہیٔت کو بنیاد بنایا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ کانٹ چھانٹ سے اسے موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ فلم ناظرین میں زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی کیونکہ فلم میں ناول کے متن سے انحراف اس حد تک کیا گیا کہ پلاٹ کی ہئیت متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ناظرین جو کہانی سے واقفیت رکھتے ہیں فلم ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔
ڈاکٹر احسن فاروقی رسوا کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
“فیلڈنگ سے لے کر ٹھیکرے تک سبھی واقعیت نگاروں نے اپنے ناولوں کو تاریخ ہی کہا ہے اور رسوا بھی ان کے ہم نواہیں۔ وہ سرشار سے آگے یوں نکل گئے کہ سرشار زندگی کو دھندلی اور یک طرفہ نظر سے دیکھتے ہیں اور شرر سے آگے یوں بڑھ جاتے ہیں کہ شرر ناول کو داستان سمجھتے رہے اور تاریخ کو بھی داستان بنا لیا ۔ اس طرح وہ واقعیت میں تمام ناول نگاروں سے بڑھ جاتے ہیں ۔ “(2)
رسوا کے اس شہر ہ آفاق ناول کا شمار آج بھی اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے ۔ ان کا اسلوب، کردار نگاری اور منظر نگاری فنی محاسن کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ امراؤ جان ادا کا اسلوب نیم ڈرامائی ہے جس پر اب تک تین فلمیں بن چکی ہیں۔ مقالے میں ناول پر مبنی فلم امراؤجان اد (۲۰۰۶ء) کا تجزیہ ناول کے متن سے کیا گیا ہے ۔ فلم کے ہدایت کار جے۔ پی۔ دتہ کا نام فلم سازی میں بہت شہرت کا حامل ہے وہ جے ۔پی۔ فلمز میں ہدایت کاری کی خدمات انجام دی ہیں۔
۱۹۹۸ء میں انہوں نے نیشنل بیسٹ فلم ایوارڈ حاصل کیا ۔جے۔ پی۔ دتہ کے مطابق امراو ٔجان ادا فلم کا سکرپٹ ان کے والد او۔ پی ۔ دتہ نے لکھا۔ فلم “جے پور” میں فلمائی گئی۔ فلم کی پروڈکشن کے دوران مختلف وجوہات کی بنا پر کرداروں میں تبدیلی آتی رہی۔ فلم باکس آفس پر زیادہ شہرت حاصل نہ کرسکی اور صرف ۶۴۹۰۰۰۰۰ کا بزنس کر سکی۔ نقادوں نے اس فلم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس فلم میں جے۔ پی۔ دتہ ہدایت کاری کے فرائض ٹھیک طرح انجام دینے سے قاصر رہے۔ فلم کا طویل دورانیہ جو تین گھنٹے پر مشتمل تھا اسے بھی فنی نا کامی تصور کیا گیا ۔ اس فلم کا موازنہ ۱۹۸۱ء میں بننےوالی ہندستانی فلم “امراؤجان ادا ” سے کیا جائے تب بھی فلم میں جھول محسوس ہوتا ہے فلم ناظرین کو جذباتی لحاظ سے متاثر کرنے میں ناکام رہی۔اس فلم کے بارے میں یہ تاثر بھی ہے کہ یہ صرف محبت کی داستان کے طور پر دکھائی گئی جسے انیسویں صدی کے پس منظر میں فلمایا گیا۔
ناول کے متن اور فلم کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اشتراکات سے زیادہ اختلافات کی فہرست مرتب ہوتی ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ ناول سے فلم میں منتقلی کی جائے تو اصل کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک ذرائع ابلاغ سے دوسرے ذریعہ ابلاغ کے تقاضوں کے مطابق ردبدل کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ بنیادی ماخذ اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے اور تواخذی عمل میں اسے فلمی تقاضوں کے مطابق زیادہ بہتر انداز میں منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جے۔ پی۔ دتہ کی فلم اور ناول کے بنیادی ماخذ میں کافی فرق محسوس ہوتا ہے ۔ یہاں بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ناول کے متن کو ہو بہو فلمانا فلم ساز کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں جدید دور کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے ۔فلم امراؤ جان ادا ۲۰۰۶ء کا ناول کے ماخذ سے موازنہ کرکے انحرافات کو سامنے لایا گیاہے۔ تقابلی تجزیہ میں ڈیوڈاینڈریو کی وضع کردہ تھیوری کا فریم ورک معاون و مدرگار ثابت ہوا ہے ۔ اینڈریو کے مطابق تواخذ کے عمل میں تین ڈھانچے استعمال ہوتے ہیں جن میں تضمینی ڈھانچہ، تقاطعی ڈھانچہ اور پیر ویانہ ڈھانچہ بھی شامل ہے ۔ مقالے میں تضمینی ڈھانچے کےحوالے سے ناول کے متن اور فلم کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔ اس ڈھانچے میں تخلیق کا رناول کے مرکزی خیال کی پیروی کرتے ہوئےکام کرتا ہے ۔ تضمینی ڈھانچے کے مطابق ناول کےکرداروں کا بھی فلم کے کرداروں سے موازنہ کیا گیا ہے اور یہ کہ ناول کے مرکزی خیالات و احساسات کا فلم کے مرکزی خیالات و احساسات کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا ہے۔
پلاٹ کے لحاظ سے ان فلمی انحرافات کا جائزہ لیا گیا تو سامنے آیا کہ او ۔پی ۔دتہ نے پلاٹ میں کافی تبدیلیاں کی ہیں اور بعض مقامات پر ضرورت سے زیادہ تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں اور فلم کے سکرپٹ رائٹر نے زیادہ تر کہانی کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔بلاشبہ فلم سازی میں تخلیقی صلاحیتوں کابھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اینڈریو کے تضمینی ڈھانچے کے مطابق جب فلم ساز ایسا کرتا ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ پلاٹ کی اصل ہیٔت میں بہت زیادہ فرق نہ پڑے۔ناول امرا ؤ جان اداکا فلم امراؤ جان ادا ۲۰۰۶ءسے تقابل کرتے ہوئے پلاٹ میں ہونے والے بہت سارے انحرافات سامنے آئے ۔ ان میں ناول میں موجود مشاعرہ، امراؤ جان ادا کے خط کی عدم موجودگی اور نواب سلطان اور رام دئی کے واقعہ سے انحراف، بسم اللہ اور نواب چھپن کی کہانی سے پہلو تہی شامل ہے۔ بسم اللہ اور نواب چھبن کی کہانی ناول میں سب پلاٹ(Subplot) کے طورپر ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن فلم کے مصنف نے اس سب پلاٹ کو مین پلاٹ (Main plot) میں خلط مسلط کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے فلم کے پلاٹ میں جھول محسوس ہوتا ہے۔ فیض آباد سے واپسی پر امراؤ سے پیش آنے والے حالات سے بھی یکسر پہلو تہی برتی گئی ۔ اگر فلم ساز ناول کی ٹھوس حقیقتوں کو فلماتا تو ان واقعات سےانحراف نہ برتتا۔ اس صورت میں اس فلم کو کامیاب تواخذ سمجھا جاتا لیکن درج بالا ان انحرافات کی وجہ سے کہانی کا پلاٹ بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے تواخذ کا مطلب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
یہاں کرداری حوالے سے بھی انحرافات کا جائزہ لیا گیا ۔رسواؔ نے ناول میں ان تمام چھوٹے بڑے کرداروں کو جگہ دی جن سے وہاں کی تہذیب کے پرت کھل سکیں ۔ جن کرداروں سے فلم میں انحراف برتا گیا۔ ان میں اہم کردارمنشی احمد حسین (رسوا کے دوست) ہیں جن کی فرمائش پر امرا ؤ اپنی سرگزشت سناتی ہے۔ میر بخش کے سسرالی کردار (جہاں) امراؤ کو اغوا کر کے لے جایا گیا۔رام دئی کا کردار ( جو نواب سلطان کی بیگم کے روپ میں سامنے آتی ہے)اور نواب چھبن کا کردار،یہ اتنے ہم کردار ہیں کہ فلم میں ان سے انحراف برتنے کی وجہ سے تواخذی عمل موثر نہیں رہتا ہے ۔ ان ہی کرداروں کی کی موجودگی میں امراؤ کا کردار پنپتا ہے اور ناول کا مرکزی خیال ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ او ۔ پی ۔ دتہ نے مکالمہ نگاری میں زیادہ تر کہانی کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اور بنیادی متن کے مکالموں کی ترتیب کو بدل دیا ۔ مثلاً ناول امراؤ جان ادا میں نواب چھبن اپنے والد کے ٹھکرائے ہوئے خانم کے نگار خانے میں ٹھہرتے ہیں تو خانم عیاری سے انھیں نکالنے کے لیے دو شالہ خریدنے کا ناٹک کرتی ہے ۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
“خانم: اوئی سخی سے شوم بھلا جو جلدی دے جواب کچھ تو اشارہ کیجیے سکوت سے تو بند ی کو تسکین نہ ہوگی ۔۔۔
نواب (چھبن): (آبدید ہ ہو کر ) خانم صاحب اس دو شالے کی کوئی اصل نہیں ہے مگر تم کو شاید میرا حال معلوم نہیں۔۔۔
خانم: خیر میاں اس لائق نہیں رہے۔۔۔ تو پھر لونڈی کے مکان پر آنا کیا فرض تھا ۔ حضور کو نہیں معلوم کہ بیسوائیں چار پیسے کی میت ہوتی ہیں ۔ “(3)
یہی واقعہ فلم میں نواب چھبن کے بجائے نواب سلطان اور خانم کے درمیان دکھایا گیا۔ فلم کے سین سے ڈائیلاگ ملاحظہ ہوں :
“خانم: یہ دیکھیں دو شالے آئے ہیں آپ پرورش کریں تو آپ کی بدولت اس بڑھاپے میں ایک دوشالہ لے لوں۔۔۔
نواب (سلطان) : اگر آپ شال کے لیے ہماری طرف دیکھ رہی ہیں تو ہم معذور ہیں۔
خانم: شرم کی بات تو تمام اودھ کے نوابین کے لیے ہے۔”(4)
بلاشبہ فلم ایک الگ ذریعہ ابلاغ ہے اور فلم ساز اس کی تخلیق میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کرتا ہے ۔ لیکن اینڈریو کے نظریہ تواخذ کے مطابق ایک ذریعہ ابلاغ سے دوسرے ذریعہ ابلاغ میں منتقلی کے دوران فلم ساز کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اصل پلاٹ کی ہیئت پر کوئی فرق نہ پڑے ۔ اس مکالمے میں اصل کرداروں کو بدل کر رکھ دیا گیا ہے اور اس متن کے بہت سے حصوں کو حذف کیا ہے۔
فلم ساز نے ناول کے خیالات و احساسات میں کافی تبدیلیاں کی ہیں۔ اگرچہ فلم ساز نے ایسا کمرشل تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا، لیکن ایسا کرتے ہوئے انھیں اس بات کاخیال رکھناچاہیے تھا کہ ناول میں پیش کیے جانےوالے مرکزی خیال پر فرق نہ پڑے ۔فلم کے مصنف نے بہت سے ایسے سین بھی فلم میں شامل کئے ہیں جن کا ناول میں ذکر تک نہیں ۔ جس میں مولوی صاحب کا امرا ؤجان کی ذہانت کو دیکھتےہوئے انعام کے طورپر اپنی انگوٹھی عنایت کرنا اور نواب سلطان کا پہلی ملاقات میں ہی امرا ؤ جان کو تحفے کے طور پر انگوٹھی پہنانا، یہ واقعات ناول میں شامل نہیں ہیں ۔اس کے علاوہ فلم میں گوہر مرزا کی رقابت دکھائی گئی جب کہ ناول میں ہمیں کہیں بھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ناول میں موجود بسم اللہ اور مولوی صاحب کی دل لگی کا واقعہ جس سے طوائف کی فطرت کا پتہ چلتا ہے اسے بھی فلم میں حذف کر دیا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کا بسم اللہ پر ایک ہی وقت میں فریفتہ ہونا ایسا جذباتی واقعہ ہے جس سے لکھنو ٔکی معاشرت کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی ہے۔ فلم میں ان تمام واقعات سے انحراف کیا گیا ہے ۔ اگرچہ تواخذی عمل میں واقعات کی منتقلی تو آسان ہے لیکن جذبات کی منتقلی انتہائی پیچیدہ کام ہے پھر بھی بھرپور محنت سے ایسا ممکن بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم ۱۹۸۲ء کی امرا ؤ جان ادا فلم میں دیکھتے ہیں۔مقالے میں فلم امراؤ جان ادا (۲۰۰۶ء) کے ناول کے ماخذ سے اشتراکات کے بارے میں حقیقتوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ سب سے اہم مشترک پہلو جو فلم اور ناول دونوں میں موجود ہے ۔ وہ ناول کے مطابق فلم میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال ہے ۔یعنی ناول میں امراؤ جان ادا اپنے ماضی کا حال بذاتِ خود ٹکڑوں میں بیان کرتی ہے اور جے۔ پی۔ دتہ نے بھی اپنی فلم اسی تکنیک کے ذریعے ناظرین تک پہنچائی۔
پلاٹ کے حوالے سے اشتراکات کا جائزہ لیا جا ئے تو ناول میں موجود واقعات جن میں امیرن کی منگنی، اغوا، خانم کے ہاں بکنا شامل ہے ۔ ناول میں خانم امیرن پر ترس کھا کر ایک جگہ کہتی ہے :
“خانم :۔۔۔۔ خدا جانے کس کی لڑکی ہے ہائے ماں باپ کا کیا حال ہوگا ۔ خدا جانے کہا ں سے موئے پکڑ لاتے ہیں ۔ ذرا بھی خوف ِ خدا نہیں ۔
بوا حسینی : ہم لوگ بالکل بے قصور ہیں ۔ عذاب ثواب انھیں موؤں کی گردن پر ہوتا ہے ہم سے کیا ۔آخر یہاں یہ بکتی کہیں اور بکتی ۔
حسینی: خانم: یہاں پھر اچھی رہے گی آپ نے سنا نہیں ۔ بیویوں میں لونڈیوں کی کیا گتیں ہوتی ہیں ۔”(5)
فلم میں ان مکالموں کو ہو بہو پیش کر دیا گیا ۔ فلم کے ڈائیلاگ ملاحظہ ہوں :
“خانم: خدا جانے کس کی لڑکی ہے کیا حال ہوگا اس کے ما ں باپ کا ۔ موئے پتہ نہیں کہاں سے اُٹھا لاتے ہیں ۔ ذرا بھی خدا کا خوف نہیں ۔ خد ا جھوٹ نہ بلوائے ہم تو بے قصور ہیں ۔ یہاں نہ بکتی کہیں اور بکتی ۔
بوا : خانم صاحب ۔ یہاں پھر سہی رہے گی ۔ آپ نے سنا نہیں اور کوٹھوں پر لونڈیوں کی کیا گت بنتی ہے۔ “(6)
بواحسینی کا پرورش کے لیے اپنی تحویل میں لینا، مولوی صاحب کی شفقت ، امراؤ جان کی ذہانت ، گوہر مرزا کی چھیڑ چھاڑ ، نواب سلطان سے رسم و راہ، خان صاحب کا جھگڑا، فیض علی ڈاکو کی آمد ایسے واقعات ہیں جو ناول کے مطابق فلم میں شامل کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح کردار نگاری کے حوالے سے مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو ناول کے تقریباً بہت سے اہم کردارایسے ہیں جن میں امیرن، اس کے والدین ، دلاور ڈاکو اور اس کا دوست پیر بخش ، خانم ، بواحسینی، مولوی صاحب ، گوہر مرزا، خورشید، بسم اللہ، نواب سلطان ، فیض علی ڈاکو اور دیگر بہت سے ایسے کردار ہیں جنھیں ناول کے مطابق فلم میں شامل کیا گیا اور ان کرداروں نے بھی اپنے اپنے کردار کو ناول کے مطابق احسن طریقے سے نبھایا ہے ۔
ناول میں املی کے درخت کو ایک خاموش ہم کردار کے طور پر متعارف کروایا گیا۔جس سے امراؤ کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ رسوا امراؤ جان ادا کی زبانی لکھتے ہیں :
“خانم : محلے کا نام یاد نہیں۔ مکان کے پاس ایک بہت بڑا املی کا درخت تھا ۔ اس کے نیچے تمبگیر تانا گیا ۔۔۔ اس مقام کو دیکھ کے وحشت سی ہوتی تھی ۔ دل امڈا چلا آتا تھا کہ یہیں میرا مکان ہے ۔ یہ املی کا درخت وہی ہے جس کے نیچے میں کھیلا کرتی تھی ۔ “(7)
ناول سے مستعار لیے گئے تقریباً تمام کرداروں نے اپنے کردار سے انصاف کیا ہے۔جذبات و احساسات کے حوالے سے بات کی جائے تو بہت سے ایسے سین ہیں جو جذباتی لحاظ سے فلم اور ناول میں مشترک ہیں مثلاً امیرن کا بچپن میں اپنے والد سےبتاشوں کی فرمائش کرنا ناول میں قارئین کو متاثر کرتا ہے اور امراؤ کا بتاشوں سے جذباتی لگاؤ فلم میں بھی پورے احساسات کے ساتھ دکھایا گیا۔ بواحسینی اور مولوی صاحب کی شفقت، گوہر مرزا کی خود غرضانہ طبیعت اور غدر کے بعدخانم کی اپنی نوچیوں کو بچانے کی کوشش،ایسے سین ہیں جو ناول کے مرکزی خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
“امراؤجان ادا” کی داستان پہلی نظر میں صرف ایک طوائف کی زندگی کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ تاہم گہرائی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان اس مقولے کی ترجمان لگتی ہے کہ عورت پہلے اپنے والد ، پھر شوہر اور پھر بیٹے کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اس کی اپنی خود مختاری معاشرتی اقدار میں دب کر رہ جاتی ہے ۔امراؤ جان جو اپنے والد کی دشمنی کا خمیارہ بھگتتی ہے اور جب قسمت اسے پھر سے اپنے عزیزوں کے قریب رہنےکا موقع فراہم کرتی ہے تو اس کابھائی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔ امراؤ کی والدہ جو بیٹی کی محبت میں تڑپ تو رہی ہےلیکن اتنی بے بس ہے کہ بیٹے کے فیصلے سے منحرف نہیں ہو سکتی اور دل ہی دل میں تڑپتی رہتی ہے اور بھائی جسے تمام حقیقت سے آگہی ہے پھر بھی امراؤ کوہی قصور وار بنا کر اسے دوبارہ گندگی میں دھکیل دیتا ہے اور عزت کی خاطر وہ اپنی بہن کو اپنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بے قصور بہن کتنےلوگوں کے ہاتھوں میں نیلام ہو گی۔
آن لائن رائے کے مطابق فلم میں رومانوی تعلقات کو پنپنےکے لیے وقت نہیں دیا گیا۔ امراؤ جان اور نواب سلطان کا تعلق جلدی کی وجہ سے بہترین تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا۔ نواب سلطان امراؤ سے تخلیہ میں جب پہلی ملاقات کرتے ہیں تو دونوں پہلی ملاقات میں ہی انگوٹھی کا تبادلہ کرتے ہیں۔ فلم میں انیسویں صدی کی ثقافت کو پیش کیا گیا اور اس دور کی ثقافت کے مطابق یہ جلد بازی مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ رومانوی تعلقات کو پنپنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ یہ سین موجودہ زمانے کے رویوں کی عکاسی کرتا ہے ۔جہاں جتنی جلدی تعلقات بنتے ہیں اتنی ہی جلدی ختم ہو جاتے ہیں ۔ فلم میں موجودہ موسیقی بھی موقع محل سے مناسبت نہیں رکھتی ۔ اور بعض اوقات تو رومانوی و جذباتی سلسلہ شروع ہونے کو ہے اور درمیان میں موسیقی کا دور شروع ہو جاتا ہے اس طرح بے محل گانوں کی وجہ سے فلم کا ربط متاثر ہوتا ہے۔(8)
جے۔ پی۔ دتہ نے فلم میں جو فلیش بیک تکنیک استعمال کی ہے اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اگرچہ دتہ نے پرانی فلموں کے انداز کو اپنایا جس میں لمبے لمبے سین دکھائے جاتےتھے۔ کلوز اپ اور گانوں کے انداز میں بھی نیا پن نہیں تھا جن کی وجہ سے موجودہ دور کے حاضر ین کی فلم میں دلچسپی کم ہوگئی۔ امراؤ جان کی زندگی جن تین مردوں سے منسلک رہی وہ تعلق بھی اپنا بھرپور تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ تین کرداروں کو ایک دھاگے سے باندھ دیا گیا ہے۔ گوہر مرزا اور امراؤ جان کے جذباتی تعلق کو فلم میں کہیں بھی جگہ نہیں دی گئی۔ بلکہ فلم میں گوہر مرزا کی حیثیت ایک رقیب سے زیادہ کچھ نہیں ۔ حالانکہ ناول میں امراؤ بذات خود اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ لڑکپن میں وہ گوہر مرزا کی طرف مائل رہی۔ اسی طرح امراؤ کی زندگی پر دوسرا اہم تاثر نواب سلطان کاتھا۔ ناول میں اس بات کا اظہار ضرور ہے کہ دونوں میں مزے کی محبت رہی لیکن نواب سلطان کی امراؤ سے عشق کی حد تک وابستگی ناول میں نہیں ملتی ۔ فلم میں اتنی وابستگی دکھانے کے بعد نواب سلطان کا امراؤ پر الزام تراشی کر کے واپس بھیج دینا ناظرین پر برا تاثر چھوڑتا ہے۔
اگرچہ جے۔ پی۔ دتہ نے فلم کی سیٹنگ اور لباس میں اٹھارہویں صدی کےرجحانات کا خاصا خیال رکھا ہے جس سے ناظرین پر اچھا تاثر پڑا۔میرے خیال میں فلم کی ناکامی کی ایک وجہ فلم کی ناقص ایڈیٹنگ بھی تھی۔ جس میں پیشہ ورانہ تقاضوں کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ فلم کا بیانیہ شناخت کی طرف اشارہ ہے اور اس المیے کو پیش کرتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عورت کی شناخت کیسے بدل رہی ہے۔ امیرن جب خانم کے نگارخانے میں پہنچتی ہے تو اس کانام بدل کر امراؤ رکھا جاتا ہے ۔ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اب اسے ایک نئی شناخت کے مطابق زندگی گزارنا ہے ۔ معاشرہ ایک عورت سے توقع کرتا ہے کہ وہ بہترین بیٹی، بہن ، بیوی اور ماں کے کردار نبا ئے ، معاشرتی اقدار کی عزت کرتی ہو، امیرن سے امراؤ بننے کے بعد وہ نہ آئیدیل بیٹی رہی اور نہ ہی بیوی۔ بھائی بھی اسے قبول کرنے سے انکار ی ہے اور نواب سلطان بھی الزام لگا کر اپنانے سے انکار ی ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ امراؤ پڑھی لکھی ، ادب آداب سے آشنا بھر پور کردار کی حامل خاتون تھی لیکن معاشرتی لحاظ سے اس کو کوئی عزت حاصل نہ تھی۔ یہ سب معاشرے کی اس منافقت کی طرف اشارہ ہے کہ عورت کو صرف اور صرف نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کاذریعہ بنایا ہوا ہے۔سماج معاشرے کی دو دھاری تلوار سے عورت سے عزت کی چادر چھین کر اپنے آپ کو باعزت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے یہی رویے معاشرے کے زوال کا باعث بنتے ہیں۔
جے۔ پی۔ دتہ نے اگرچہ تو اخذ میں بہت سے اضافے کیے اور بہت سی بنیادی باتوں سے انحراف برتا ہے۔ مگر اعتراضات وہیں نظر آتے ہیں جہاں بے وجہ حذف کرنے کی وجہ سےمقصد واضح نہ ہو سکا۔ غیر ضروری باتیں جن کو ایک جملے میں بیان کیا جا سکے، ان کو مختصراً بیان کر دینا چاہیےتھا مگر یہاں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ فلم ساز کا اپنا جداگانہ انداز نمایاں ہو۔ تو اخذی عمل میں ایک حد تک انحراف کرنا غلط نہیں لیکن اصل ماخذ سے دست و گریبان ہونا بھی تو اخذی عمل کے منافی ہے ۔کیونکہ کسی بھی مقام کا ادب وہاں کی تہذیب اور خیالات و احساسات کا عکس پیش کرتا ہے۔
ناول میں بھی ہم اس عکس کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں لیکن فلم میں اصل متن کی چاشنی کم ہی نظر آتی ہے۔ فلم میں ایک مشینی انداز نظر آیا۔ مرزا رسوانے پلاٹ کو منفرد انداز سے تخلیق کیا ، جس میں کرداروں کی زبان سے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ دلاور خان کی زیادتی کی کہانی اس کی سزا پر ختم ہوتی ہے جس میں کرداروں کا ارتقا واضح ہوتا ہے ۔جسے جے۔ پی ۔دتہ نے اپنے انداز میں اضافے اور انحراف کے ساتھ فلمی تشکیل کی ہے۔ اس حقیقت سے نظر یں نہیں چرا سکتے کہ فلم سازی ایک تخلیقی کام ہے جس میں لفظیات اور جملے فلمی تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے پڑتے ہیں جس سے فلم ساز کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جو اس کی تخلیقی طاقت کا امتحان ہے۔ ناول کے متن کی کھال اتار کر ہی سکرپٹ رائٹنگ میں قریب ترین معانی حاصل کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ سکرپٹ رائٹر نے مکالموں کو ہو بہو نہیں لکھنا بلکہ کرداروں کی روح میں بس کر کیفیات کو بیان کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم میں کافی جگہ پر وہ تاثر قائم نہ رہ سکا جو ناظر کو آخر تک باندھ کر رکھے ۔ ناول کے متن اور فلم کے موازنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ناول سے فلم میں تبدیلی میں بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ناول کے پلاٹ کا بہترین انداز میں موجود ہونا ضروری ہے یہی بہترین تواخذی فلم کی خوبی ہوتی ہے۔
تواخذی عمل پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ناول امراؤ جان ادا منفرد تخلیقی شا ہکار اور یہ خوبصورتی اس کے پلاٹ کی ہیئت اورکرداروں کے احساسات سے واضح ہوتی ہے۔ فلم امراؤ جان ادا میں جے۔پی۔دتہ کی کوششوں کے باوجود وہ تہذیب نظر نہیں آتی جولکھنؤ کا خاصہ تھی۔ مکالمہ نگاری میں بھی بہت زیادہ ردوبدل کی وجہ سے یہ گمان گزرتا ہے کہ شائد فلم ساز اس طرح کی کوششوں سے اپنا طرزِ تخیل نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ فلم کو اصل کے ہم پلہ بنانے کے لیے کرداروں کی نفسیات کو لے کر چلنا چاہیے لیکن جے۔پی۔دتہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ لفظیات اور مکالموں کی تبدیلی سے کردار ایک الگ انداز میں نظر آئے ۔ منظرنگاری کا جائزہ لیں تو جے۔پی۔دتہ نے کچھ مناظر بڑی عمدگی سے فلمائے۔ بہت سی جگہوں پر تبدیلیوں کا سہارا لینے کی وجہ سے لکھنوی تہذیب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مکالموں میں تبدیلیاں متن سے تضاد رکھتی ہیں جس کی وجہ سے مبالغہ آمیزی حد سے بڑھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ناول میں تمام واقعات و کردار نظم و ضبط سے ہیں جب کہ فلم میں بے ترتیبی کا عنصرنمایاں ہے۔
جے۔پی۔دتہ کی فلم امراؤ جان ادا (۲۰۰۶ء) اگرچہ دورِ حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جانے والی فلم ہے لیکن تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلم ساز نے ناول کے متن سے بہت زیادہ انحراف کیا ہے جس کی وجہ سے وہ کہانی کی اصل روح کو ناظرین تک پہنچانے میں ناکام نظر آئے۔جے۔پی۔دتہ کی فلم نہ صرف ناول سے واقفیت رکھنے والے ناظرین کی توجہ حاصل نہ کر سکی بلکہ وہ ناظرین جو محض تفریح طبع کے لیے فلم سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان کی توجہ کھینچنے میں بھی ناکام رہی۔ اپنے تئیں فلم ساز نے پوری محنت سے کام کیا۔ لیکن بے جا انحراف فلم کی ناکامی کا باعث بنی ۔ لہٰذا کوشش کرنی چاہیۓ کہ تواخذ کے ضابطوں پر عبور حاصل کرنے کےبعد ہی کسی ادبی شہ پارے کو فلمایا جائے۔
حوالہ جات:
1۔ اینڈر یو جے ڈیوڈلی ۔ فلمی نظریات (Conceptsim Film Theory) ۔(آکسفورڈ :
آکسفور ڈ یونی ورسٹی پریس ، 1984ء)،ص: 99
2۔ محمد احسن فاروقی ۔ اُردو ناول کی تنقیدی تاریخ ۔ (لکھنو : ادارہ فروغ اُردُو ، 1962ء) ، ص : 131
3۔ مرزا محمد ہادی رسوا ۔ امراؤ جان ادا ۔ (لاہور : یسونتھ سکائی پبلی کیشنز ، 2013ء)،ص: 119
4۔ او ۔ پی ۔ دتہ ۔ مکالمہ جات ماخوذ فلم امراؤ جان ادا ۔ جے ۔ پی ۔ دتہ ، جے پور ، انڈیا : جے پور
فلمز ۔ ریس انٹرٹینمنٹ ، 2006ء
5۔ مرزا محمد ہادی رسوا ۔ امراؤ جان ادا ۔ ص: 55
6۔ او۔ پی ۔ تہ ۔ مکالمہ جات ماخوذ فلم امراؤ جان ادا ، جے ۔ پی ۔ دتہ
7۔ مرزا محمد ہادی رسوا۔ امراؤ جان ادا ۔ ص:202
8۔ IMDB: Reviws and Ratings for Amrao-Jan-Adda. (Online). (Cit2005-12-01 http://www.imdb.com/title/tt0078672/reviews?ref=ttovrt
By, Dr. Tahira Ghafoor
(Lecturer Urdu) Government Graduate College Satellite Town Rawalpindi
Muhammad Sajid Iqbal
Lecturer (English) OPF Boys College, Islamabad.
Dr. Muhammad Sohail Iqbal.