شمیمہ صدیق شمی ؔ
شوپیان کشمیر
ان کہی باتیں ،ان کہے سچ
نہ جانے کتنی ایسی باتیں ہوتیں ہیں جو ہم خود کو کہنے سے ڈرتے ہیں ۔ہم لوگ خود کو اُلجھائے رکھیں گے ،کرب سے دوچار ہوتے رہیں گے مگر تنہا بیٹھ کر خود سے ان کہی باتیں نہیں کریں گے ،چاہیے یہ ان کہی باتیں ہمیں زہریلی ناگن کی طرح ہی ڈھستی کیوں نہ رہیں ۔نہ جانے کتنے ان کہے سچ ہوتے ہیں جو ہم خود کو کہنے سے ڈرتے ہیں ۔ہم لوگ خود کو فریب دیتے رہتے ہیں اور خود فریبیوں کے سلسلےاِس قدر طویل ہوجاتے ہیں کہ ان کہے سچ کا بوجھ اُٹھانا مشکل ہوجاتا ہے اور یہی ان کہے سچ پھر بِچھو کی طرح ڈنک مارتے رہیں گے ۔ نہ جانے ہم لوگ اذیت پسند ہیں یا پھر ڈرپوک ؟ ہم لوگ تلخ حقائق سے کس قدر دور بھاگتے رہتے ہیں ،آنکھیں چُراتے رہتے ہیں تلخ حقائق سے ،ان کہی باتوں سے یا پھر ان کہے سچ سے دور بھاگنے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔سکونِ قلب نہیں ملتا ۔اُلجھنیں اِس طرح سُلجھائی نہیں جاسکتی ۔اِس طرح مشکلیں کم نہیں ہوتیں بلکہ مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔دِل بےچین اور خیالات منتشر ہوجاتے ہیں ۔انسان ساری دُنیا سے دور بھاگ سکتا ہے مگر خود سے کبھی بھی دور نہیں بھاگ سکتا ۔ان کہی باتیں سائے کی طرح ہمیشہ ہی انسان کا پیچھا کرتیں رہتیں ہیں ۔خود سے دور بھاگنے سے مسائل تو بڑھ ہی جاتے ہیں ساتھ میں انسان دھیرے دھیرے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی کھونے لگتا ہے ۔انسان تھک کر نڈھال ہوجاتا ہے اپنی ذات سے دور بھاگتے بھاگتے ۔خود اذیتی اور خود فریبی کا شکار ہوجاتا ہے ۔میرے خیال میں خود سے دور بھاگنے سے بہتر ہے کہ انسان خود کو تیار کرے خود سے ملنے کے لئے ،اور وہ تمام ان کہی باتیں خود کو کہہ ڈالے ،وہ تمام ان کہے سچ اپنی ذات سے کہہ ڈالے جن کا بوجھ اُٹھائے اُٹھائے تھک کر نڈھال ہوگیا ہے ۔خود فریبی انسان کو کم ہمت بنادیتی ہے ۔انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر کو مطمئن رکھے ۔خود کو تسلی دے کہ سب بہتر ہی تو ہورہا ہے ،اور سب بہترین ہی بہترین ہوگا ۔دعا ،صبر ،یقین اور محنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے ۔خود کو سمجھائے کہ میرے رب العالمین نے ہمیشہ مجھے مشکلات سے نکال کر میرے لئے آسانیاں پیدا کیں۔اپنی پچھلی زندگی کی طرف اک نظر دیکھے کہ کس قدر اللہ رب العزت نے اِس پر بےشمار کرم فرمائے ہیں ،احسان کیے ہیں ۔اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر رب العزت سے سچے دل سے معافی مانگے۔ خود کو خود فریبی سے دور چار کر کے خود اذیتی کا شکار ہوکر خود کو کرب سے دوچار کرنا چھوڑ دے۔ زندگی کے تلخ حقائق کو قبول کرے نہ کہ حقائق سے کترا کر نظر چُرائے۔ آنکھیں موندھنے سے خطرے بھلا کب ٹلتے ہیں ۔گھبرا کر خود کو فریب نہیں دینا ہے بلکہ مشکلات کا ڈھٹ کا مقابلہ کرنا چائیے ۔ انسان کو چاہیے کہ وقت نکال کر ،تنہا بیٹھ کر خود سے وہ تمام باتیں کہہ ڈالے جو کہنے سے وہ ہمیشہ سے ڈرتا تھا ۔وقت جتنا گزرتا جائے گا ،تکلیفیں بھی بڑھ جائیں گی اور زخم بھی گہرے ہوتے جائیں گے ،اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم اپنی ذات سے ملاقات کریں ۔سارے ان کہے سچ کہہ ڈالیں ،ساری ان کہی باتیں کہہ ڈالیں ۔اپنی مشکلات کا حل خود ہی ڈھونڈیں ۔خود کو حوصلہ دے کر بلندیوں کو چھوئیں ۔ زندگی کے میدان میں صرف ہم خود ہی اپنے ہوتے ہیں ۔ہم خود ہی خود کے لئے سب سے بڑا حوصلہ ہیں ،بڑی تسلی ہیں،سہارا ہیں ۔دوسروں کا انتظار کبھی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہماری مشکلات کا حل ڈھونڈیں گے ،ہمارے دل کو اپنی باتوں سے مطمئن کریں گے یا پھر ہمیں حوصلہ دیں گے ،ہمت بڑھائیں گے۔جب تک ہم خود اپنے اندر ہمت پیدا نہیں کریں گے ،کوئی دوسرا ہماری مدد نہیں کرسکتا ،جب تک نہ ہم خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کریں گے کوئی بھی دوسرا انسان ہمارے سکونِ قلب کے لئے کچھ نہیں کرسکتا ۔ہم خود ہی اپنے لئے بہترین حوصلہ ہیں ۔اپنے سچے دوست ہیں ،اپنے ہمدرد ہیں ،اپنے غمخوار ہیں اور سب سے بڑے منصف ۔اس دنیا میں اللہ رب العزت اور اپنے سوا کوئی اپنا نہیں ہوتا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ خود کو قدم قدم کے لئے مضبوط بنائیں نہ کی گھبرائیں ۔کربِ مسلسل اور ڈراونے خوابوں سے جتنا جلدی ہوسکے انسان کو کنارہ کشی کرلینی چاہیے ورنہ انسان سوچنے ،سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔سوچوں کی پرتیں جب کھُلنے لگتیں ہیں تو درد کے دروازے بھی کھُل جاتے ہیں ۔کبھی کبھی ہمارا درد ،ہماری تکلیف اتنی بڑی نہیں ہوتی ہے جتنا کہ ہم اپنی جگہ محسوس کررہے ہوتے ہیں ،تصور کررہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم لوگ خود ہی اپنے درد کو بڑا بنا کر اسے کربِ مسلسل بناکر ذہن پر سوار کرلیتے ہیں اور کرب سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انجانی الُجھنوں اور من میں اُٹھتے ہوئے سوالات سے ہم لڑتے رہتے ہیں ،کرب سے دوچار ہوتے رہتے ہیں مگر وقت نکال کر خود سے ملاقات نہیں کرتے ،اپنے سوالات کا خود کو جوابات دینا گوارا نہیں کرتے اور تو اور اُلجھنوں کو سُلجھاتے بھی نہیں ،ہاں مگر انہی سوالوں اور اُلجھنوں کی وجہ سے کرب سے دوچار ہوتے رہیں گے ،تکلیف میں رہیں گے ۔میں سوچتی ہوں کہ انسان کو تکلیف اور کرب سے گزرنے کے بجائے خود سے مل کر اپنی مشکلات کا خود ہی حل ڈھونڈنا چاہیے ،خود کو اندر سے مطمئن کرنا چاہیے ۔،خود اذیتی سے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اُبلتے ہوئے درد،اُٹھتے ہوئے سوالات اور اُلجھنوں کا حل ڈھونڈیں ،مداوا کرے اپنے درد کا ،اپنے اندر بڑھتی ہوئی اداسی کو روک کر اپنے دل کو یہ دلاسہ دلائے کہ سب بہتر ہوگا ،سب ٹھیک ہوگا ،یہ ساری مشکلیں تو بہت چھوٹی سی ہیں اور میرے اللہ رب العزت کی رحمت بہت بڑی ہے ۔اور بھلا مجھے غم کرنے کی کیا ضرورت ہے میرا اللہ ہے نا سب ٹھیک ہوجائے گا،اگرچہ میرے بس میں کچھ نہیں مگر اللہ رب العزت تو دوجہاں کا مالک ہے ،خالق ہے ،ہر شئے پہ قادر ہے ،بھلا پھر کیوں غم کیا جائے ۔
***