محمودہ قریشی
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی
اِقبال کا پیغام خواتین کے نام
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی جاندار یا بے جان مخلوق پیدا کی ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنی ایک بنیادی صفت یا جوہر رکھتی ہے۔اگر اس سے وہ جوہر نکال لیا جائے تو وہ شے دیکھنے میں تو وہ شے ضرور ہوگی لیکن حقیقت میں کچھ اور بن جائے گی مثال کے طور پر آگ کا بنیادی جوہر حرارت اور جلانا ہے۔اگر اس سے یہ صفت چھین لی جائے تو وہ دیکھنے میں آگ ہوگی حقیقت میں آگ نہیں رہے گی۔ اسی طرح عورت کا بھی ایک بنیادی جوہر ہے۔ اور وہ اس کی صفت عورت پن ہے۔جو اس کی حیا پر مبنی ہے۔ انیسویں صدی میں مغرب کا جو تیز و تند سیلاب آیا تھا اس میں فاعدے کے ساتھ قوم کے بہک جانے کا سامان بھی موجود تھا۔چنانچہ خواتین نے مغربی تعلیم و تہذیب کے اثرات کے نتائج میں ایک جھوٹی نخوت پسندی کا ایک خول اپنے اوپر چڑھا لیا ہے۔جس سے ایک نظریہ قائم ہو گیا کہ عورت مغربی تعلیم یافتہ تو بن گئی لیکن مشرقی تہذیب و تمدن کو کم تر سمجھنے لگی ہے ۔ اور اس اندھی تقلید کے پیروں کاروں نے عورت کی تعلیم پر پابندی کا لیبل لگا دیا۔شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال مغربی اثرات سے ملت کو آگاہ کرنے کے لئے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر میں جذبہ خودی، خوداری اور مشرقی تہذیب کی اہمیت کا شعور پیدا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے مشرقی تہذیب و تمدن کی خوشبو سے اپنی شاعری کی دنیا آباد کی اور تمام عمر مسلمانوں میںبیداری اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششں جاری رکھی یہی وجہ تھی کہ انہیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
علامہ محمد اقبال نے اسلامی قانون کی روشنی میں مسلیم خواتین کو ایک نئی سوچ اور فکر دی اور ان میں بیداری کا جذبہ پیدا کیا۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری مسلم خواتین کے لئے بلکہ عالم اِسلام کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا۔انھوں نے قوم کو خواب گراں سے بیدار کیا چونکہ ان کی نظر میں ملت اسلامیہ کی مٹی بہت زرخیز ہے۔اور ان کا یہی یقین،ان کے الفاظ براہ راست دل پر اثر کر جاتے ہیں۔چونکہ وہ اپنی بات کہنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یو تو اقبال نے خودی،خودداری، حب الوطنی، عورت مرد، مذہبی رہنما قومی یکجہتی وغیرہ پر نظمیں لکھی ہیں۔ لیکن زیر بحث ان کے مجموعۂ کلام’’ضرب کلیم‘‘میں شامل عورت کے تصّور سے متعلق نظمیںعورت،مرد فرنگ، پردہ، خلوت،آزادی نسواں،عورت کی حفاظت،عورت اور تعلیم۔اقبال کے نزدیک عورت ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ، ہستی ہے۔جسے بوالہوسوں کی نظر بد سے بچائے رکھنے کی ضرورت ہے۔جوآج کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔بس یہی سبب تھا کہ مغربی تہذیب کی رو میں بہہ کر مشرقی عورت کا جلوت پسند ہوجانا اقبال کو ناپسند تھا۔
اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں۔ عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے۔وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاء پذیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک عورت کو ایک دائرے تک خلوت کی ضرورت ہے۔لیکن وہی عورت کو زندگی کا سوزدروں اور اس عظیم کائنات کا حسین ترین رنگ قرار دیتے ہیں۔ اقبال عورت کو اس کے اصل کردار میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ساتھ ہی عورتوں کی تعلیم و ترقی کے دوش بدوش ان کی اخلاقی تربیت کو بھی اقبال بے حدضروری سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف سے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں ہے
اقبال نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا بلکہ علم کو عورت کو بیش بہا زیور قراردیا ہے۔اپنے ایک مضمون بعنوان ’قومی زندگی‘ میں جو ماہنامہ ’مخزن‘ (لاہور) کے 1904کی فائل میں شامل ہے تحریر فرمایا تھا :
’’پس ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دیناہے۔‘‘
اقبال کے نظریات و تصورات میں عورت کی تعلیم کو لے کر کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور وہ ان خیالات کا اظہار بڑی بیباکی اور جرأت کے ساتھ کرتے رہے۔ لیکن خواتین کا مغربی تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد انفرادی اور آزادنہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔اس لیے ان کو عورت کی حفاظت کی فکر ستاتی ہے کہتے ہیں۔
ایک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
وہ عورت کو کائنات کا اہم جزو قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد واحد فرد کی ترقی نہیں بلکہ عالم انسان کی ترقی میں ہی قوم کی ترقی ہے۔اقبال مشرقی تہذیب کے خیالات کی روشنی میں ایک فکر مند لہجہ رکھتے ہیں۔ وہ عورت کا محافظ مرد کو بتاتے ہیں۔ لیکن عورت کی ایک دوسری صفت خودی کو بلند کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں عورت بھی مرد کی طرح اپنی خودی کو بلند کرسکتی ہے۔شاید اسی لیےوہ موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ آزادی نسواں عورتوں کی آزادی پر وہ کچھ فیصلہ نہیں کرتے بلکہ خواتین پر ہی اس فیصلے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ فیصلہ دینے کے اہل نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے جو راز ہے اس کا ذکر اس دوسرے شعر میں موجود ہے۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کرنہیں سکتا
گوخوب سمجھتاہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند
وہ چاہتے ہیں کہ اس راز کو عورت خود اپنی دانائی سے ظاہر کرے کہ کون سی چیز صحیح اور پسندیدہ ہے اور کون سی غلط اور ناپسندیدہ۔اب عورت کو خود حق ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ قوتوں کومستحکم کر اپنا مثالی کردار قائم کرے۔ ان کو یقین ہے کہ بے پردگی عورتوں میں اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے۔ اور وہ ترقی، ترقی نہیں جس سے عورت کی تقدیس خطرے میں پڑجائے،عورت کے لئے آزادی کی قیمت زیادہ ہے۔یا زینت کا وہ ہار جو عورت کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔اس لئے پردہ کی اہمیت ضروری قرار دیتے ہوئے خواتین سے کہتے ہیں کہ پہلے وہ اپنے دین کی بنیاد کو مضبوط کریں تاکہ مغربی علوم ان سے گمراہ اور غلط عمارت تعمیر کرنے پر مجبور نہ کر سکیں۔
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ موت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہنے دیں اسے مدرسہِ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
مشرقی عقائد کی روشنی میں وہ کہتے ہیں کہ مرد کو اپنی ذات ظاہر کرنے کے لئے کسی دوسرے شے کی ضرورت درکار نہیں ہوتی۔ جب کہ عورت کو جس کی سب سے بڑی صلاحیت عورت پن ہے۔ جسے بروئے کارلانے کے لئے دوسرے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی احساس کے تحت علامہ نے فرمایا تھا۔
آتشیں لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بودو نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود
اس تیسرے شعر میں وہ اپنی بات رکھ دیتے ہیں کہ:
’’میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت ‘‘
یعنی عورت کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا جس میں اصل قصور نہ عورت کا ہے نہ فیصلہ کرنے والے اہل دانش کا۔بلکہ فساد کی جڑ اہل مغرب کا معاشرہ ہے۔اس لئے علامہ اقبال عورت کی حقیقت اس کے اصل وجود کو قائم کرنے کے لئے اسلامی نظریہ کے حامی نظر آتے ہیں۔
پردہ عورت کا زیور ہے۔یہ حدود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے لئے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے۔جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کر سکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے۔ اس لئے علامہ اصل پردہ اس ظاہری پردے کو ہی نہیں مانتے بلکہ وہ عورت اور مرد سے اس ظاہری پردے سے اوپر اٹھ کر خود شناسی اور خود معرفتی کی بات کرتے ہوء ہوئے فرماتے ہیں:
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
چونکہ وہ جانتے ہیں کہ:
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکار نہیں ہے
عورت کے بارے میں اقبال کے خیالات کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد یہ الزام بے بنیاد ثابت ہوجاتا ہے کہ انھوں نے عورت کے متعلق تنگ نظری اور تعصب سے کام لیا ہے۔دراصل ان کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے۔ اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں۔ عورت کا دائرہ مرد کی نسبت مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔لیکن وہ اپنی خودی کو بلند کر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ بلکہ اپنی بنیادی صفت کو نبھاتے ہوئے باوقار مقام حاصل کر اپنے فرض کی ادائیگی اسلامی تعلیم کی روشنی میں کر سکتی ہے۔اگر خودی معرفت عورت میں زندہ ہے تو وہ اسے وہاں پہنچاسکتی ہے جہاں پہنچنے کی وہ خواہش رکھتی ہے۔اور علامہ سر محمد اقبال نے عورت کی جس فلسفی کو ظاہر کیا، خواتین سے جو ان کی امیدیں تھیں وہ آج اکیسویں صدی کی تعلیم یافتہ خواتین نے پوری کر دیں ہیں۔ جس کے ایک ہاتھ میں ٹکنالوجی ہے تو دوسرے ہاتھ میں قراں اور گھر کی زمیداریاں جس کو وہ بہ حسن خوبی نبھا رہی ہیں۔آج اگر ہم دیکھیں تو مسلم خواتین ہر جگہ بازاروں، آفیسوں، بنکوں اور دیگر اِداروں میں کام کرتی نظر آئیں گی اور اب کسی بھی سوسائٹی کی تہذیب کو ناپنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤکرتے ہیں۔ یعنی خواتین کا سماج میں کیا کردار ہے۔ دراصل، اس سے آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کا معاشرہ اور آپ کتنے ترقی یافتہ اورمہذب ہیں۔اور علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خواتین میں خودی مستحکم کر ایک ترقی یافتہ مہذب معاشرے کی بنیاد رکھنے کا پیغام دیا ہے۔بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرق ہو یا مغرب۔ ابھی عورت کو بحیثیت انسان خود کومنوانے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پریاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پریان و حریر
ملے گا منزل مقصد کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
***
حواشی:
کلیات اقبال،ضربِ کلیم
شرح کلیات اِقبال(شیخ محمد بشیر اینڈ سنز اردو بازار لاہور )
مسلمان عورت و حقوق (رازق الخیری )