پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاوید شیخ ابراہیم
پروفیسر و صدر شعبہ اردو
شیواجی کالج ہنگولی،مہاراشٹر
آزادی کے بعد مراٹھواڑہ میں اُردو غزل
ہمارے ادب میں اردو غزل کو جو اہمیت اور مقام حاصل ہے وہ کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ادب کی اس صنف میں فکر بھی اور فن بھی موجود ہے۔ہم تمام ہی اس سے واقف ہیں کہ غزل کے معنی حسن و عشق کی باتیں کرنا۔عورتوں سے باتیں کرنا ۔عورتوں کی باتیں کرنا بیان کئے جاتے ہیں۔
پروفیسر مسعود حسن رضوی کے خیالا ت بھی قابل توجہ ہیں۔
’’ وہ غزل کی مروجہ تعریف’’سخن از زنان گفتن‘‘ کا ترجمہ عورتوں سے باتیں کرنے کے بجائے عورتوں کی باتیں کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور اس طر ح فارسی اہل زبان کے محاورے کی تطبیق کے علاوہ غزل کے معنی میں ایک غیر محدود وسعت اور رومانیت پیدا کر دیتے ہیں۔” ( اردو غزل کے ۵۰ سال ،صفحہ ۳۴)
حدائق الشعر اور العجم کے اقتباسات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
’’لفظ غزل کے معنی عورتوں کا ذکر کرنا،ان کے عشق کا دم بھرنا اور ان کی محبت میں مرنا بعض اہل معنی نسیب اور غزل میں فرق کرتے ہیں اور زیادہ تر باکمال شعراء جمال معشوق کا ذکر اور احوال عشق و محبت باہمی کے بیان کو غزل کہتے ہیں۔ اور ان غزلوں کو جن میں کوئی اور حال بیان کیا جائے یا جو کسی مدح کا مقدمہ ہوں، نسیب کہتے ہیں۔ اس بیان سے رشید و اطواط کی تائید ہوتی ہے۔ اور اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کے بعض بڑے شاعر مضامین کے اعتبار سے غزل اور نسیب میں فرق کرتے تھے مگر وہ بھی نسیب کو غزل ہی کی ایک قسم سمجھتے تھے۔‘‘( اردو غزل کے ۵۰ سال ،صفحہ ۳۴)
غزل کے اس تعارف کے بعد ہم اپنی گفتگو کا رخ مراٹھواڑہ میں اردو غزل آزادی کے بعد اس کی طرف کرتے ہیں مراٹھواڑہ میں اردوغزل کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے اردو غزل کی تاریخ ،لیکن ہمیں یہاں ہمیں صرف آزادی کے بعد اردو غزل کی سمت و رفتار سے متعلق گفتگوکرنی ہے۔ چونکہ غزل ہمارے تہذیبی و سماجی شعور کا پتہ دیتی ہے۔ گویا وہ ہمارے تہذیب اور سماج کی آئینہ دار ہے۔ روز اوّل سے آج تک غزل نے ہمارے ادبی، لسانی و جمالیاتی، تہذیبی و تمدنی تمام تقاضوں کو پورا کرنے قریضہ بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی سے لے کر تمام موضوعات چا ہے وہ سیا سی، سماجی، مذہبی ہو۔ تمام کو اپنے دامن میں سمویا ہے۔ یوں کہا جائے کہ غزل ہماری تہذیبی و سماجی زندگی کا پر توہے تو بے جا نہ ہوگا۔
چونکہ آزادی کے فوری بعد تقسیم کامر حلہ در پیش آیا تھا۔ جس میں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ عصمتیں تار تار کی گئیں۔ آزادی کے بعد کا منظر نامہ غزل کے لئے ساز گار نہیں تھا۔ اس وقت کے سارے حالات اور انتشار کی کیفیت ہمیں غزل میں دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں تک مراٹھواڑہ میں اُردو غزل کی بات ہے، یہاں اس کا منتظر قدرے مختلف نظر آتا ہے۔ اور اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ غزل یہاں اپنے ابتدائی زمانے سے رہی ہے۔ ولی اورنگ آبادی سے اسکی روایت شروع ہوتی ہے۔ مراٹھواڑہ کے غزل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ہر دور میں ہررنگ سے متاثر شعراء اپنی اپنی شعری کائنات آباد کئے نظر آتے ہیں۔ جن میں یعقوب عثمانی، صدق جائسی، متین سروش اور درد کا کوروی، ہریشچندردکھی جالنوی ،محمد شرف الدین فیضی اور اظہر جالنوی جبکہ ترقی پسند تحریک کے علمبردارلالہ بندہ پرسادسریواستوخیال اور امام الدین یقین نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی کلاسیکی شعراء کی حیثیت سے اخترالزماں ناصر اور سکندر علی وجد کے نام قابل ذکر ہیں۔
جوں جوں یہ قافلہ آگے بڑھتا ہے اس کی تابناکی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور ایک ایسا نام ہمارے سامنے آتا ہے جسے بشر نواز کے نام سے جانا جاتا ہے۔بشر نواز کی غزل میں روایت ارضیت اور تاریخ و ثقافت کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک سے لے کر جدیدیت کی تحریک تمام تحریکات کا زمانہ دیکھا لیکن اپنے آپ کو کسی تحریک سے وابستہ نہیں کیا۔ اپنی انفرادی شناخت بنائی اور اسے برقرار رکھا۔
دوسرا اہم نام حمایت علی شاعر کا ہے جو بے پناہ تخلیقی سوتوں کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کو پیش کرنے کے لئے بیش تر شعری ونثری اصناف کو برتا ہے۔
میر ہاشم بھی ابتداء میں ترقی پسند رہے اور ایک عرصہ تک اس کے زلف کے اسیر رہے۔ ’’ بھٹک گیا انقلاب یارو‘‘ کا نعرہ لگانے والے مراٹھواڑہ کے پہلے شاعر ہیں۔
وحید اختر مراٹھواڑہ میں جدید غزل کے اہم نمائندہ ہیں۔ اور ان کے ہم عصر شعراء میں احسن یو سف زئی ، محمود عشقی اور عروج احمد بھی اپنی غزل میں ندرت خیال اور عزت اظہار کی خوبصورت مثالوں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اور اسی دہائی میں اختر الزماں ناصر اور سکندر علی وجد جو آزادی سے قبل ہی بحیثیت شاعر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ کلاسیکی غزل کی شمع جلائے نظر آتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے نئے لکھنے والوں میں جے پی سعید، مقتدر نجم اور ڈاکٹر عصمت جاوید شیخ بھی ان دونوں کے ہمراہ کلاسیکی غزل کے قافلے میں شامل نظر آتے ہیں۔
بشر نواز کی غزل روایت کے وقار اور جدت کے اعتبار کی جاندار علامت ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا وہ مراٹھواڑہ کی غزل کے اہم نمائندہ ہیں۔ غزل اور نظم دونوں میں انھیں یکساں مہارت حاصل ہے۔ کمیونسٹ پارٹی سے عملاََ وابستگی کے باوجود انھوں نے ترقی پسند تحریک کے اثر سے اپنے شعر وادب کو پاک رکھا۔ بشر نواز کی غزل ہی موجودہ نسل تک شعر وادب پہنچانے کا
ذریعہ ہے۔
آتے ہیں غول غول سلگتے ہوئے خیال
ہم ہی اسیر لذت طرز ادا کے ہیں
بشر نواز کے جغرافیائی اعتبار سے مراٹھواڑہ کی حدتک سمٹ دینا ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ ان کا شمار رحجان ساز شاعر و نقاد کاہے۔ ترقی پسند تحریک سے جدیدیت تک اور جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک بشر نواز نے تمام تحریکات کے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور وہ کسی بھی تحریک سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اپنی انفرادی شناخت بنائی ۔
بے سمت منزلوں کا سفر درمیان ہے
رستوں کے سب نشان اڑا لے گئی ہے
عمریوں گزری ہے جیسے سر سے
سنسناتا ہوا پتھر گزرے
آنکھ کے سچ کا یقیں کیجئے تو کیسے کیجئے
اپنی پرچھائیں خود اپنے سے بڑی دیکھتی ہے
بشر نواز کا رہنما صرف اور صرف ان کا یقین تھا اور ہم سفر ان کا خمیر جوسائے کی مانند ان کے ساتھ تھا۔
مہتاب بکف رات کے ڈھونڈ رہی ہے
کچھ دور چلو آؤ ذرا تم بھی تو دیکھو
حمایت علی شاعر مراٹھواڑہ کی غزل کی ترقی پسند آواز ہیں۔ بقول ڈاکٹر ارنگار افضل:-
’’حمایت علی کے شعری سفر کی شناخت وہ مشترک ورثہ ہے جس نے پوری ایک نسل کے شعور کی تربیت کی اور جس کی جڑیں ہجرت کی زمین میں پیوست ہیں۔ شاعر اسی نسل کے شعوراور کرب شعور کی نمائندگی کرتا ہے جس نے ایک زمین سے کٹ کر دوسری زمین سے درد کا رشتہ باندھا ہے اور جس کی اکائی ذو الارضی تجربہ سے تشکیل پائی ۔‘‘
(مراٹھواڑہ میں اردو غزل،از: ڈاکٹر سلیم محی الدین ،ص۱۲۲ )
اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ایک پوری نسل کے اجتماعی تاریخی تجربے اور تہذیبی شکست اور ریخت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اپنی زمین سے کٹ جانا اپنے آپ میں ایک بڑا ذہنی نفسیاتی اور تہذیبی صدمہ ہے۔ اس عمل کے دوران شاعر نے دراصل اپنے عہد کی ایک پوری نسل کوزندگی کرنے کے حوصلے سے نوازا ہے۔
اے رہ گزار سندھ، ترا چاند بجھ نہ جائے
آئے ہیں اس کی چاہ میں ارض دکن سے ہم
احسن یوسف زئی مراٹھورہ کے وہ شاعر ہیں جو پہلے تجربہ پسند اور تحریکی شاعر ہیں۔ وہ جدیدیت کی تحریک سے وابستہ رہے۔ فکر کی گہرا ئی اور اظہار کی سادگی کا ایسا انوکھا امتزاج اردو غزل میں شاید ہی کسی اور کے حصّے میں آیا ہو۔
اس کے چہرے کی دھنک جھوٹی ہوئی
جھیل کے پانی میں کنکر سچ ہوا
شب رنگ پرندے رگ در یشے میں اتر جائیں
کہسار اگر میری جگہ ہوں تو بکھر جائیں
میر ہاشم کی غزل ولیؔ، سراجؔ اور وجدؔ کی روایت کی توسیع بلکہ اضافہ ہے ۔وہ اس سلسلے کی درمیانی اور اہم کڑی ہیں۔ ان کا ذہنی تقلید سے انکار کرتا ہے اور اجتہاد کا قائل معلوم ہوتا ہے۔
کچھ اور تقاضے ہیں اب دست حنوں کے
کافی نہیں یہ جیب و گریبان گزشتہ
داخلیت اور خارجیت کا یہ خوبصورت امتزاج در اصل میر ہاشم کی شخصیت اور مزاج کے توازن باعث ہے۔ عشق میر ہاشم کی غزل کا محور ہے۔ ان کے پاس عشق کے کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ خوبصورت ۔
ایک تم ہی نہیں سارا جہاں ہے میرا
اب مری ذات سے رشتہ ہی کہاںہے میرا
آگئی ساعت دیدار جمال محبوب
ابر کی اوٹ سے مہتاب چھلکتا ہے ابھی
قاضی غوث محی الدین صدیقی عرف جیلانی پا شاعرف جے۔پی۔ سعید مراٹھواڑہ میں غزل کے حوالے سے اہم نام ہے۔ وہ روایت پسندی اور کلاسیکیت کے پرستار ہیں۔
جدیدیت کا زمانہ ہے اے سعیدمگر
ہے رنگ اوروں کا کچھ آپ کی صدا ہے الگ
بقول حمایت علی شاعر
“جے پی سعید کی شاعری کا خمیر روایت سے اٹھا ہے۔ وہ غزل کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں غزل ان کے مزاج سے ہم آہنگ بھی ہے۔ وہ زندگی جس قرینے سے گزار رہے ہیں غزل میں بھی وہی قرینہ بر تتے دکھائی دیتے ہیں۔ الفاظ کے دروبست سے لیکر مضامین غزل تک ان کی شاعری میں روایت کا فیضان جاری ہے۔‘‘ (مراٹھواڑہ میں اردو غزل، از :ڈاکٹر سلیم محی الدین،صفحہ ۱۵۷)
ان کے بعد ڈاکٹر عصمت جاوید شیخ کا اسم گرامی آتا ہے۔ جو ایک نقاد اور ماہر لسانیات کے کافی مشہور و مقبول ہیں۔ لیکن ان کے اندر ایک اچھا شاعر بھی موجود تھا۔ انہیں کئی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔’’ اکیلا درخت‘‘ ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں میں واردات قلبی اور عصری احساسات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
راز دل کھل کر سنانے سے جو خوف آنے لگا
چھوڑ کر اصناف دگر ہم غزل کہنے لگے
تم کو ہوجائے اگر عشق تو مجبوری ہے
شوق سے اپنے مگر روگ یہ پالانہ کرو
ڈاکٹر عصمت جاوید کی غزل کا انداز و اسلوب روایتی ہے لیکن موضوعات عصری ہیں ۔ہمہ گیر موضوعات کا احاطہ ان کی غزلوں میں ملتا ہے۔
تم مجھ کو قتل نہ کر سکو گے یہ سوچ لو
لوگوصدائے حق ہے،سردار میں نہیں
شیشے کا سارا شہر تھا کتنا شکستنی
لیکن میں احتجاج کا پتھر نہ بن سکا
درمیان میںاور بہت سارے شعراء مطلع غزل کے افق پر نمودار ہوتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان میں عبدالروف عروج،مقتدر نجم،عروج احمد عروج وغیرہ اپنی اپنی شناخت بناکر غزل کے گیسو سنوارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
عرفان پربھنوی کی شکل میں کلاسیکی اقدار کے حامل اپنے عہد کے مزاج داں،اپنے عہد کی روایت کا عکس ہمیں ان کے کلام میں نظر آتا ہے۔ بقول بشر نواز:
“ان کے یہاں غزل گوئی کی فنی روایت کو بحسن و خوبی برتنے کا خاص التزام ملتا ہے۔ چھوٹی بحریں بڑی بات کہنا عرفان صاحب کا ہی حق ہے۔‘‘
(مراٹھواڑہ میں اردو غزل،از :ڈاکٹر سلیم محی الدین،صفحہ ۱۶۶)
سادگی اور پرکاری ان کے غزل کا خاصہ ہے۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے حادثات ،تجربات اور واقعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔
گھر کا بٹوارہ کیا ہوگیا
ہر خوشی در بدر ہوگئی
اور تو کوئی مل نہ سکا
مفلسی ہمسفر ہوگئی
نیز ان کے کلام میں زندگی کا گہرا فلسفہ بھی ملتا ہے۔
حرف حق کہئے مگر یوں کہ ہو امرت جیسے
اپنے شکوے کا بھی معیار نہ گرنے پائے
زمانے کے تغیر اقدار میں انقلابی تبدیلی اور جہاں صرف سنبھل سنبھل کر ہی چلنے میں عافیت ہے۔اس کا احساس ان کی غزل میں ہوتا ہے۔
وہ زمانے تھے الگ قدر تھی سچ کی جن میں
آج سچ کہنے میں رسوائی ہی رسوائی ہے
ستر کی دہائی کے آتے آتے اردو غزل کی دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں سب کچھ بدلا ہوا ہے۔ دنیائے غزل نئے نئے رنگ و آہنگ سے واقف ہوتی ہے۔
جہاں تک مراٹھواڑہ کا تعلق ہے، ستر کی دہائی کی غزل قمر اقبال سے منسوب ہے۔ولیؔ ،سراجؔ ،وجدؔ اور بشر نوازؔ کے بعد غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایک ایسا نام ہمارے ادب کے افق پر طلوع ہوتا ہے جو قمر اقبال کے نام سے جانا ہے۔روایت پسندی کے ساتھ نئی جہت کی تلاش میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
قمر اقبال کو اردو شاعری میں استاذی کا درجہ حاصل ہے۔ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے۔ جن میں فاروق شمیم ،قمر اعجاز،رزاق رہبر،شیام کمار ندیم،وحید کلیم،وارث عادل،جاوید امان،شمیم جوہر،انور رفیق اور سلیم محی الدین کا شمار ہوتا ہے۔ان کے دو شعری مجموعہ’’تتلیاں ‘‘ اور ’’موم کا شہر‘‘ ہیں۔
قمر اقبال جدیدیت کے قائل ہیں لیکن تقلیدی جدیدیت کے نہیں بلکہ تخلیقی جدیدیت کے حامی ہیں۔
ہم کو لوٹادے ہمارا وہ پرانا چہرہ
زندگی تیرے لیئے روپ کہاں تک دھاریں
ملی ہے راہ میں اس طرح زندگی ہم سے
اڑا کے گرد جیسے کوئی شہسوار گیا
قمر اقبال نے زندگی کو ہر رنگ سے جانا ،بوجھا اور برتا ہے۔ ان کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ ایک حساس فنکار ہیں۔
احساس کا یہ کرب نہ بینائی چھین لے
آنکھوں پہ مری قرض کئی منظروں کا ہے
سیاسی و سماجی عدم مساوات کی وجہ سے معاشرہ میں فسادبرپا ہوتا ہے اور جسکے نتیجے میں تعصب کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔اور تعصب کا احساس بھی ان کے کلام میں جھلکتا ہے۔
وگھروں میں آسکیں مکتب سے بچے
کم از کم شہر میں تب تک اماں رکھ
بجھاتے کیوں ہو جلتی مشعلوں کو
ابھی بستی میں اک گھر رہ گیا ہے
بہر حال انھیں اس بات کا احساس اور افسوس رہا ہے کہ انھیں ان کے شایانِ شان قدر نہیں کی گئی، وہ خود کہتے ہیں۔
غزل کو اک نیا لہجہ دیا ہے
غزل نے مجھ کو لیکن کیا دیا ہے
بہر حال ایک طویل سلسلہ ہے مراٹھواڑہ میں اردو غزل کو آزادی کے بعد نشوونما دینے میں اسے نیا لب لہجہ ، رنگ، آہنگ میں اسلوب عطا کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہیں جن میں قابل ذکر رؤف انجم،شاہ حسن نہری،سحر سعیدی ،اسلم مرزا،صغیر کوثر، یوسف عثمانی، یونس فہمی، سہیل احمد رضوی،رئیس احمد خان شاکر، جاوید ناصر، عتیق اللہ صادق،فہیم احمد صدیقی ،عارف خورشید، رؤف صادق،عبدالرحیم کوثر، عظیم الدین ساحل کلمنوری،فاروق شمیم وحید کلیم،سجاد اختر،فیروز رشید،جاوید امان،شمیم جوہر،سلیم محی الدین وغیرہ،
مراٹھواڑہ میں اردو غزل کی اپنی روایت رہی ہے جو اردو شعر و ادب کی دیرینہ روایتوں میں سے ایک اور جس کے آغاز کے نشانات سولھویں صدی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔مراٹھواڑہ کی جدید ترین روایت میں تسلسل اور ارتقاء کا عمل بتدریج جاری ہے۔ اور مزید ترقی و توسیع کے امکانات روشن و تابناک ہیں۔ بقول ولی اورنگ آبادی ۔
راہِ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے باب سخن
***