ڈاکٹر سمیع الدین
بیدر کرناٹک
آزادی ہند میں اردو شاعری کا کردار
جنگ آزادی کا بگل یوں تو 1857 ء میں ہی بج چکا تھا مگر اس میں کامیابی 1947ء کو حاصل ہوئی ۔یعنی پورے 90 سال بعد آزادی جیسی نعمت ہم ہندوستانیوں کے حصے میں آئی ۔آزادی کے لیے ہندوستان میں اگر کسی زبان نے فروغ دیا تو وہ اردو زبان اور اردو کے شاعر نے کلید کردار ادا کیا۔ اردو شاعر ی نے سوتے ہوئے جذبات کو بیدار کرکے انگریز حکومت کے خلاف کروڑوں کی تعداد میں آزادی کے متوالوں کو مجتمع کیا۔ اپنی نغمگی، چاشنی اور سحر انگیز کے باعث ہر ہندوستان کی یہ آواز بن کررہ گئی تھی۔ اردو کے جن شعراء نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ آزادی کی اس لڑائی میںصور پھونکا ان میں مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر، مصحفی،مرزاقادر بخش صابر، واجد علی شاہ اختر، جرأت، راجا رام نرائن ، سہرور جہاں آبادی، حکیم آقا جان عیش، بسمل الہ آبادی، داغ دہلوی ، پنڈت برج نرائن چکبست وغیرہ کے نام آتے ہیں ان کے علاوہ مذہبی علماء،اسکالرس،طلبہ،دانشوران غرض ہر ایک نے اپنی بسات کے مطابق اپنا کردار ادا کیامگر ،ان تمام میں’’ جذبئہ حریت ‘‘کو پروان چڑھانے میں ’’اردو شعر و ادب ‘‘نے جو کردار ادا کیا۔اس کی نظیر دنیا کی کسی بھی زبان میں آج تک نہیں ملتی۔سیکڑوں کی تعداد میں شعر اء اردو نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ آزادی کے شمع کو منور کیا۔،انقلاب زندہ باد سے لے کر تم مجھے خون دو ، میں تمہیں آزادی دونگا،آزا دی میرا پیدائشی حق ہے۔علامہ اقبال نے اپنی تخلیقات کا ایسا پرچم لہرایا کہ بس دنیاان کو دیکھتی رہ گئی۔ نطم “جذبہ حریت”کا یہ شعر ملاحظہ ہوں جس میں شاعر ہندوستان سے اپنی وفا داری کا ثبوت کس جذبۂ صداقت کے ساتھ دے رہا ہے۔
دکھادوں گا اے ہندوستان رنگ وفا سب کو
کہ اپنی زندگی کو تجھ پہ قرباں کرکے چھوڑوں گا
اس نظم کے علاوہ انہوں نے جلیا ن والا باغ، ترانۂ ہندی ، نیا ستوالہ، شعاع امید وغیرہ نظموں میں اتحاد و اتفاق ، ملک کی عظمت، شوکت و رفعت کو عمدگی سے بیاں کیا۔ ہے ترانہ ہندی تو آج بھی ہمارے ملک کے قومی گیت کے بعد قومی نغمہ کے طور بلالحاظ مذہب و ملت گایا جاتا ہے۔ سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے ۔جیسے انقلابی ’’سلوگنس ‘‘اردو زبان کی ہی دین ہیں۔اس دوران علامہ اقبال کا ترانہ ہندی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا نے بھی آزادی کے متوالوں میں جوش پیدا کیا۔
تحریک آزادی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ آزادی میں تقریباً375 اردو شعرا ء ایسے رہے جنہوں نے آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ اس شعرا میں امام بخش صہبائی،شیخ محمد ابراہیم ذوق، صدر الدین آزاد، مرزا اسد اللہ خان غالب، مصطفی خاںشیغتہ،حکیم آغاںجاں بخش اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہیں دوسری جانب آزادی،حالی،بخش صابر،شہاب الدین ثاقب،سالک،مجروح،مرزا نور،باقر علی کامل وغیرہ مبتدی شعراء تھے جو جوش و جذبہ سے سرشار تھے۔آزادی کی اس ابتدائی جدوجہد میں کے شاعر امام بخش صہابی اور ان کے جواں سال فرزند عبدالکریم سوز شہیدوں میں’’ خشت اول ‘‘کا درجہ رکھتے ہیں یہ تو رہے بزرگ شعراء اور مبتدی ۔۔۔
ان کے علاوہ اردو شاعری کی ایک بڑی تعداد ہمیں ایسی بھی ملتی ہے جن کے یہاں بڑی شدو مد کے ساتھ ملک کی بربادی اور گھٹن کا احساس نمایاں ہوا۔ساتھ ہی قید و بند کی اذیتیںان کے حصے میں آئیں لیکن اپنے عزائم سے پیچھے نہیںہٹے بعد کی نسلوں میں مشور شعراء مخدوم محی الدین،فیض احمد فیض اورا سرار الحق مجاز نے بڑی شدت کے ساتھ آزاد ی کی آرزوئوں اور امنگوں کو اپنے کلام کو موضوع بنایا۔ اس سلسلہ میں مخدوم کی نظم، ’’چاند تاروں کا بند‘‘ اور فیض احمد فیض کی نظم ’’صبح آزادی‘‘ نے دھوم مچا دی۔ مخدوم کی نظم ’’چاند تاروں کا بند‘‘ملاحظہ ہوںجس میں وہ کس طرح آزادی کے شیدائیوں کو مخاطب کر رہے ہیں:
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سر شار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظرمرد و زن
مستیاں ختم ،مدہوشیاں ختم تھیںختم تھا بانکپن
اسی طرح فیض احمد فیض کی نظم ’’صبح آزادی ‘‘مختلف مگر آزادی کے جذبے سے پر رہی نظم ملاحظہ کیجئے :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب برگزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ صحرا تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیںنہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبرخواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
“قومی یکجہتی اور ملک کی آزادی “کے جذبات کو پروان چڑھانے پر مبنی رہا۔ جس میں پرانے اور نئے نئے شعراء کی تخلیقات جذبۂ حریت ، ملک کی سلامی ، شہدائے وطن سے دلی ہمدردی جیسے رنگ و آہنگ سے لیس رہیں ۔ محمد حسین آزاد، اشفاق اللہ خاں، علامہ اقبال، ظفر علی خاں، فراق گورکھپوری، تلوک چند محروم و دیگر اپنے فن کا جادو جگایا۔ان کے علاوہ شہید اشفاق اللہ خاں سے کون واقف نہیں ۔ جنھوں نے خوش دلی سے اپنے آپ کو آزادی کی خاطر دار پرپیش کیا۔ کہتے ہیں ۔
بہار آئی شورش جنون فتنہ ساماں کی
الہی خیرکرناتو مرے ذیب و گریباں کی
صحیح جذبات حریت کہیں مٹے سے مٹتے ہیں
عبث ہیں دھمکیاں دار ورسن کی اور زنداں کی
اسی نظم کے ایک شعر میں ہندو و مسلم کو وہ متحد کی دعوت بھی دے رہے ہیں ۔
یہ جھگڑے اور بکھیڑے میٹ کر آپس میں مل جاؤ
یہ تفریق عبث ہے تم میں ہندو اور مسلمان کی
اتفاق سے نظم مذکورہ کو شہید کاکوری اشفاق اللہ خاں نے اپنی گرفتاریوں سے پانچ دن قبل کہی تھی جو ان کی زندگی کی آخری نظم ثابت ہوئی۔
آزادی ہند کے اس باب میں مجاز کے احساسات بھی ملاحظہ ہوں دیکھئے کس بے پاکی کے ساتھ وہ انقلابی اشعار کہہ رہے ہیں :
جلال ِآتش برق وشہاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیداکر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود انقلاب پیدا کر
اردو شعر و سخن میں آزادی ہند میں اپنا کلیدی کردارادا کیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اہل ہند کو بتائیں کہ اردو اور مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی و وقار کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ،مگر ہمیں ہی اس ملک کا غدار کیوں بتایا جاتا ہے۔یہ ایسا سوال ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنے اثرات کو پوری شدت کے ساتھ یہاں کی معصوم عوام کے ذہن میں ایک زہر کی طرح پھیلا رہا ہے اس کا تریاق وقت کا اہم تقاضہ ہے۔
آزادی کا جو خواب ہمارے اجداد نے دیکھا تھا وہ راسماًتو مل چکی ہے ،مگر ہم اب بھی حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں ۔آئے دن وطن عزیزی میں فرقہ وارانہ فسادات، لوٹ مار،گھپلے، سیاست دانوں کی ریشہ دوانیاں جمہوری ملک میں مذہب کا بے جا استعمال ، ذات پات ایسے مسائل میں جن کے گھیرے میں ہر سال’’ ہم جشن آزادی‘‘ مناتے آئے ہیں مگر ان مسائل کے حل کے لئے ہمیں جدوجہد کی سخت ضرورت ہے جس طرح آزادی کے لئے ہم نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا اسی طرح حقیقی اور مکمل آزادی کی حصولیابی کے لئے ہمیں پھر سے متحد ہونا ہوگا کہ تبھی ’’ہم آزادی جیسے نعمت ‘‘سے بھر پور مستند ہو سکیں گے کہ یقینا یہ دور ضرور آئے گا۔
***