You are currently viewing اکبر الہٰ آبادی کی مستقبل شناسی

اکبر الہٰ آبادی کی مستقبل شناسی

کرن اسلم

لیکچرار شعبہ اُردو، لاہور لیڈز یونیورسٹی، لاہور

اکبر الہٰ آبادی کی مستقبل شناسی

مُلخّص:

 اکبر الہ آبادی کی بصیرت ، ان کی حساس طبیعت اور دُور اندیشی کے تحت مستقبل کے ایسے نقشے پیش کرتی ہے جو آج کے زمانے میں اس طور حقیقت بن کر سامنے کھڑے ہیں جیسے اکبر الہ آبادی نے واقعتاً آج کے عہد کو اپنی چشم ِ بینا سے دیکھ رکھاہو۔ ان کی شاعری میں بیان کردہ سو سال پہلے کے حقائق آج اپنا آپ منوا چکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر الہ آبادی جو بظاہر اپنے انفرادی نظریات بیان کر رہے تھے در حقیقت انھوں نے اجتماعی اور شخصی روایت اور دور رس معاشرتی وسوسوں پر مبنی امکانات کا پورا خاکہ گہرے اخلاقی ملال کی بنیاد پر مرتب کیا ۔ان کی حقیقت پسندی اور گہری حکیمانہ بصیرت ہی تھی کہ ایک صدی بعد آنے والے حالات اور معاشرتی، تہذیبی، لسانی، مذہبی امکانات کو شاعری کے لبادے میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔

کلیدی الفاظ:  اکبر الہٰ آبادی ،  اُنیسویں صدی،  مستقبل شناس،    معاشرتی، تہذیبی  اور لسانی پیش گوئی،  عصری رجحانات، نئی تہذٰیب، مغربی آویزش،  طنز و مزاح

روزِ ازل سے ہی انسان  اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کا خواہاں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عہد کا انسان اپنے عصری حالات اور واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آ ئندہ زمانوں کے بارے میں اندازہ لگانے اور پیش گوئیاں کرنے میں مصروفِ عمل دکھائی دیا۔ذاتی حالات ہوں یا اجتماعی، ملکی صورت ِ حال ہو یا سیاسی، معیشت کی اُڑان ہو یا عالمی منڈیوں کے اُتار چڑھاؤ حتیٰ کہ موسمی تغیر و تبدل کی پیش گوئی؛  انسان ،زندگی کے ہر شعبے میں مستقبل شناس بن جاتا ہے؛ لیکن زندگی کے معاملات جب قومی سطح پر تنزلی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آئیں تو قوم کا دانا و فلسفی طبقہ سب سے پہلے اسے محسوس کرتاہے اور پوری قوم کے لیے فکر مند ہو جاتا ہے۔

بیسویں صدی کے  نصف اوّل کی آخری دہائی میں مستقبل شناسی نے ایک با قاعدہ علم کی صورت اختیار کر لی تھی۔ جس کے لیے انگریزی اصطلاح “ Futurology” استعمال کی گئی جسے اُردو میں ” علم المستقبل” کہا جا سکتا ہے۔  اس علم کی باقاعدہ تعریف کچھ اس طرح بیان کی گئی  “ A study that deals with future possibilities based on current trends.” 1؎ یعنی موجودہ معاشرتی حالات و رجحانات کی روشنی میں مستقبل کے امکانات بیان کرنے کا مطالعہ۔ لیگزیکو ویب سائٹ کے مطابق: 2؎“Systematic forecasting of the future, especially from present trends in society.”

فیوچرولوجی کی اصطلاح کی ابتدا کے بارے میں  انسائکلو پیڈیا آن لائن ڈکشنری لکھتی ہے۔3؎

The “futurology” was coined in 1943 by the German sociologist O. Flechtheim.” “

اس کے بعد یہ اصطلاح عمرانی علوم میں ایک علم کا اضافہ ثابت ہوئی۔اس علم کا ماہر Futurist اور Futurologist کہلایا۔جس کے لیے اُردو میں “مستقبل شناس ” کی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔

         مستقبل شناس ہونا ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے فلسفی آئے، دانش ور گزرے، کتنے ہی شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں نے نام کمایالیکن ان میں کتنے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے مستقبل کی جھلک پیش کی ہو،  سوائے چند ایک کے۔ اُنیسویں صدی بر صغیر کے لیے ملکی، قومی، سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، لسانی غرضیکہ ہر سطح پر بہت اہم اور فیصلہ کن صدی تھی۔انگریز ی تہذیب، انگریزی زبان، انگریزی لباس، انگریزی تعلیم اور انگریز حکمرانی، ان حالات میں مسلمانوں کی تہذیب، روایات، زبان، تعلیم یعنی سبھی کچھ داؤ پر لگ چکا تھا۔ اس صورت ِ حال میں ایک طرف سر سیّد احمد خان کی دور اندیشی تھی جس کے تحت اُنھوں کے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا اور دوسری جانب اکبر الہ آبادی کی وہ مستقبل شناسی جسے ہم عصروں کے ساتھ ساتھ ادوارِ ما بعد میں بھی ناقدین نے سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کیے بِنا ہی  اکبر الہ آبادی کو  تنگ نظر،ماضی پرست، رجعت پسند ، تضادات کا شکار اور سطحی نگاہ کا حامل  وغیرہ جیسے  القابات سے نوازا۔ آلِ احمد سرور لکھتے ہیں:

“موجودہ نسل ،اکبر کی ادبی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے یہاں انبساط ِ ذہنی کی

جو چاشنی ہے ، اس کے حسن کو ماند ہوتے ہوئے، ان کی تمدنی  اور  تہذیبی مصوری

 کے قائل ہوتے ہوئے بھی اُن کے نقطہ نظر اور ان کے پیام کو مان نہیں سکتی۔”4؎

ناقدین کے اس رویے کے بارے میں ڈاکٹر شوکت سبزواری لکھتے ہیں:

                           ” اکبر کو ہمارے نقادوں نے سمجھا نہیں۔کسی نے انھیں معمولی انسان  بتایا،  کسی  نے

                           قدامت پرست اور رجعت پسند۔کسی کو ان کے یہاں ابتذال  اور عامیانہ پن نظر آیا۔

                           کسی کو دل لگی اور چٹکلے بازی۔ اکبر کی عظمت ان کی فکر کی عظمت میں ہے۔ان  کے

                           نقطہ نگاہ کی بلندی میں ہے۔ان کے اس مشن میں ہے جس نے اقبال کو جنم دیا۔اکبرؔ

                           نہ ہوتے تو شاید اقبالؔ بھی نہ ہوتے۔5؎

شمس الرحمٰن فاروقی نے اکبر الہ ٰ آبادی کے ساتھ ناقدین کے نا روا سلوک کی دو وجوہات بتائی ہیں۔ ایک ادبی اور ایک غیر ادبی۔ادبی وجہ یہ کہ ناقدین  کی فہرست استناد میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری پست مقام کی حامل ہے  کیوں کہ وہ میتھیو آرنلڈ کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اعلیٰ سنجیدگی  شاعری کا جُز ِ  لاینفک ہے۔6؎

اکبر الہ ٰ آبادی  نے اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، اور اخلاقی زندگی کے نہ صرف عصری رجحانات کو زبان دی بلکہ آنے والے زمانے کی تصویر کشی  کا کام بھی انجام دیا۔جس جذبے اور قوت کے ساتھ اُنھوں نےسیاسی معاملات اور عصری حالات کے علاوہ  پیش بینی کا مظاہرہ کیا، وہ ان کے اُس مقام کے تعین کے لیے نا کافی سمجھا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔وہ فکر انگیز باتیں جنھیں بعد  میں علامہ محمد اقبال ؔنے اپنی شاعری کا حصّہ بنایا، وہی باتیں اکبر الہ ٰ آبادی کے کلام میں انھیں وہ مقام دلانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کی وجہ غالباً یہی یہ ہے کہ اقبال کا پیرایہ اظہار طنزو مزاح پر مبنی نہیں تھا۔

         لسان العصر کا لقب اور خان بہادر کا خطاب پانے والے سیّد اکبر حسین المعروف اکبر الہ آبادی کا نام اُردو ادب میں ایک خاص مقام اور شناخت کا حامل ہے۔کہنے کو اکبر الہ آبادی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک صدی بیت گئی لیکن اُن کا کلام آج بھی اپنے زندہ ہونے کی گواہی دیتے ہوئے اکبر کو امر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اکبر الہ  آبادی نے اپنی شاعری میں جہاں مسلمانوں کے تہذیبی اور اخلاقی زوال کا اظہار نہایت غمگین جذبات کے ساتھ طنزیہ انداز اپنا کر کیا ہے وہیں اُنھوں نےاپنے ارد گرد کی معاشرت ، تہذیب، ثقافت اور  لسانی تغیرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  آنے والے وقت کے حالات کے بارے میں پیش گوئیاں بھی کی، جو آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد حقیقیت کا روپ دھار کر دنیاکے سامنے موجود ہیں۔

اکبر الہٰ آبادی نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں مغربیت اپنا تسلط قائم کر چکی تھی۔ذہنی غلامی ایک ایسا عارضہ ہے جس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔ حاکم قوم ہمیشہ محکوم کو اپنے رنگ میں  اس طور رنگنا چاہتی ہے کہ محکوم قوم اپنی تہذیب اور قومی نظریات سے مُتنفر ہو جائے اور آخر ایسا وقت آئے کہ محکوم اپنی تہذیبی و سماجی شناخت سے نا واقف ہونے لگے۔طویل غلامی کے زیر ِ اثر محکوم اپنے حاکم کی نقالی پر فخر کرتے ہوئے اپنی روایات کو تمسخر کا نشانہ بنانے لگتا ہے۔کم و بیش ایسی ہی صورت ِ حال ہندوستان میں پیدا ہوئی۔1857 کے ہنگامے نے انگریز کو یقیناً یہ باور کرا دیا تھا کہ ہندوستانی متحد ہو کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔چناں چہ ہندوستانیوں کے دوبارہ سر اُٹھانے کی ہمت کرنے کے امکانات ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ نئی نسلوں کو آبا و اجداد کی روایات سے دُور کر دیا جائے۔

اکبر کو مسلمانوں کی اپنی روایات سے دوری اور تہذیبی بگاڑ پریشان کرتا تھا۔وہ دیکھ رہے تھے کہ ہندستانی معاشرت کا خانگی شیرازہ  بکھر رہا ہے کیوں کہ خاندان کی کائنات عورت کے گرد گردش کرتی ہے اور عورت کو نئی تہذیب اور تعلیم کے نام پر گھر کی کائنات سے نکال کر شمع محفل بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔  جس کا نتیجہ مثبت نہیں  نکلے گا۔

         ؎                  صورت ِ برگ ِ خزاں دیدہ پھریں گے             نہ بہار آئے گی پھر ہو گا نہ گلشن پیدا

اکبر نہ صرف ایک بالغ نظر شاعر تھے بلکہ ان کا دماغ دور کی کوڑی لانا جانتا تھا۔بنتے بگڑتے حالات پر وہی نظر رکھ سکتا ہے جس میں علم ونظر کی پختگی ہو۔اُن کی قیافہ شناسی انھیں با خبر کر رہی تھی کہ  انگریز جو تعلیم دے رہا ہے اس میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کی ترقی نہیں بلکہ اُمور ِ سلطنت میں آسانی کی خاطر اُنھوں نے یہ تعلیم پھیلائی جس میں صرف انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیا گیا۔

تہذیب و ثقافت کو قائم رکھے بغیر کوئی بھی قوم اپنی ہستی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ بر صغیر میں نئی تہذیب اور ترقی کے اس انقلاب میں مشرق اور مغرب کی آویزش کا قِصّہ نہاں تھا۔ روایات کا انہدام تھا، جس نے اکثریت کی آنکھوں کے سامنے ایسی گرد تان دی تھی کہ وہ سامنے کے حالات و واقعات پر غور کرنا ہی نہ چاہتے تھے۔اکبر کو تہذیب ِ حاضر کے مظاہرے پریشان کر رہے تھے کہ جن کا ظہور آنے والے وقتوں میں ہونے والا تھا۔ جن کا تعلق مستقبل کی مادیت پرست تہذیب سے تھا۔

بزم ِ تہذیب سے ہو جائیں گے قطعاً خارج                  حِس ہی باقی نہ رہے گی ، کہ ہو شیون پیدا

                  خالق کی عبادت سے حجاب آنے لگے گا                     شرماؤ گے ، کرتے ہوئے اِسلام کا اظہار

                  آپس میں بھی تم لوگ موافق نہ رہو گے                   ایک، ایک کو دیکھے گا بہ اِکراہ  و بہ اِنکار

                  آخر کو رہو گے نہ اِدھر کے، نہ اُدھر کے                    انگریز بھی کھینچتے رہیں گے، قوم بھی بیزار

اکبر الہ آبادی ہندو مسلم تہذیب کا مثالی نمونہ تھے۔انھیں اپنی مذہبی روایات اور تہذیب سے بے حد لگاؤ تھا۔ترقی کے نام پر ہندستانی تہذیب پر جو کاری ضرب لگائی جا رہی تھی وہ انھیں صاف دکھائی دہے رہی تھی۔ نئی تہذیب کو اپنانے کو جوش و خروش  ہندوستانیوں کو اپنا طرز ِ حیات تبدیل کرنے پر اُکساتا رہے گا، اپنی تہذیب، زبان، لباس، مذہبی روایات اور تعلیمی نظام میں خرابیاں دکھائی دینے لگیں گی حالاں کہ نئی تعلیم بھی ہندوستان میں صرف محدود سطح پر انگریز کے ملازم پیدا کرے گی۔ انگریزی تعلیم ، سائنسی میدان میں نہیں دی جا رہی تھی اور اس کے نتائج اکبر کو واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ تعلیمی نظام کی جن خرابیوں اور کھوکھلے پن کے بارے میں آج تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے، اکبر ایک صدی پہلے اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ       ”    دِل بدل جائیں گے، تعلیم بدل جانے سے”

اکبر  الہ آبادی کی دور اندیش طبیعت کی جھلک  ان کی شاعری سے پہلے ایک حقیقی واقع میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ خان بہادر سید رضا حسین کے بیان کردہ  ایک واقع کچھ یوں ہے:

         1912 یا 1913 کا ذکر ہے۔چنگھائی  کے اسٹیشن پر میں نے دیکھا، حضرت ایک سیکنڈ کلاس گاڑی کے برتھ پر تکیے کے سہارے لیٹے ہیں۔میں گاڑی میں داخل ہوا۔ جھک کر سلام کیا اور سامنے کے برتھ پر بیٹھ گیا۔شفقت ِ بزرگانہ سے پیش آئے، اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ تکیہ بائیں ہاتھ کی کہنی کے نیچے رکھ لیا۔۔۔ جب گاڑی چل پڑی تو فرمانے لگے، ایک مزے کا قصّہ سُناؤں تم کو، عشرت (بیٹا)کے ولایت سے آنے پر ان کے احباب کی دعوت کی گئی۔عشرت جب چھوٹے تھے تو انھیں ایک گیند کی بڑی خواہش تھی۔ایسا گیند جو نیلے رنگ کا ہواور اس پر ایک طرف گھوڑا بنا ہو۔میں نے بازار میں بہت تلاش کرایا، گیند تو ملتے تھے  مگر ان تمام شرائط کے ساتھ نہ ملے۔جب عشرت بڑے ہوئے اور ولایت چلے گئے  تو ایک دن اس قسم کا گیند مل گیا۔میں نے لے کر رکھ لیا۔ان کی واپسی میں کچھ غیر متوقع دیر ہوئی لیکن گیند حفاظت سے رکھا رہا۔چناں چہ جب مہمان رخصت ہونے لگے تو میں  نے گیند لے کر سب کے سامنے عشرت کو دیا، کہ میاں! تم کسی وقت ایسے گیند کے مشتاق تھے۔مل گیا تو میں نے رکھ لیا تھا کہ گیند دیکھ کر تمھارا دل باغ باغ ہو جائے گا۔عشرت کے احباب تحیر سے میری طرف دیکھنے لگے  کہ ابھی تو اچھّے خاصے مہمان نواز بزرگ معلوم ہوتے تھے۔یکایک ان کا دماغ جادہ اعتدال سے کیوں ہٹ گیا۔

عشرت میاں بھی محجوب کہ میں اپنی حرکت سے ان کی پوزیشن خراب کر رہا ہوں۔۔۔ ایک صاحب فرمانے لگے ” اولاد کی محبت بھی عجیب چیز ہے۔” مطلب شاید یہ تھا کہ اولاد کی محبت میں آدمی باؤلا ہو جاتا ہے۔ ۔ یہاں تک قصّہ پہنچا تھا کہ میری طرف عینک لگی ہوئی آنکھ اُٹھی۔میرے بُشرے سے سمجھ گئے کہ  میں(خان بہادر سید رضا حسین) بھی بات کی گہرائی کو نہیں پہنچا، فرمانے لگے۔دیکھا تم نے، میں تو سمجھانا چاہتا تھا کہ زمانہ جذبات کو اس طرح کچل دیتا ہے۔کل جو چیز محبوب تھی آج وہی چیز آپ کو محجوب کر رہی ہے۔تمھاری پانچ برس کی عمر کی آرزو آج پچیس برس کی عمر میں آرزو سے آزردگی بن گئی ۔ لہٰذا تمھیں  نہایت غور سے اپنے مقاصد متعین کرنے چاہیئں تا کہ جب تمھاری عمر پچاس سال کی ہو تو آج پچیس برس کی  عمر کی آرزوئیں تمھیں محجوب نہ کریں۔” 7؎

اکبر الہٰ آبادی، ہواؤں کا رُخ پہچانتے تھے۔ان کے ہاں تغیر کے احسا س کی تصویر کشی ملتی ہے۔ان کا تخیل مستقبل کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ انھوں نے اسی تخیل کی مدد سے مستقبل کی معاشرت کا نظارہ کیا تھا۔ ان کی مستقبل شناسی کے حوالے سے ایک نظم”نئی تہذیب”  بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جس کا عنوان کچھ جگہ پر ” مستقبل” بھی دیا گیا ہے جو کہ نظم کے موضوع سے سو فی صد مطابقت رکھتا ہے۔

یہ موجودہ طریقے راہیِ  ملکِ عدم ہوں گے

نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی

نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی

نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے

بدل  جائے   گا  انداز  طبائعِ  دورِ  گردوں  سے

نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے

نہ  پیدا  ہوگی  خط ِ نسخ  سے  شانِ   ادب  آگیں

نہ نستعلیق حرف اس طور سے زیبِ رقم ہوں گے

خبر  دیتی  ہے تحریک  ہوا  تبدیلِ  موسم  کی

کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے کم ہوں گے

عقائد  پر  قیامت  آئے  گی  ترمیمِ  ملت  سے

نیا   کعبہ  بنے  گا  مغربی  پتلے  صنم  ہوں  گے

بہت   ہوں  گے  مغنی  نغمۂ  تقلید ِ یورپ  کے

مگر بے جوڑ ہوں گے اس لیے بے تال و سم ہوں گے

ہماری  اصطلاحوں  سے  زباں  نا  آشنا  ہوگی

لغاتِ  مغربی  بازار  کی  بھاشا  سے ضم ہوں گے

بدل  جائے  گا  معیار ِشرافت  چشم ِدنیا  میں

زیادہ تھے جو اپنے زُعم میں وہ سب سے کم ہوں گے

گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے

کتابوں  ہی  میں دفن  افسانۂ  جاہ  وحشم ہوں گے

کسی  کو  اِس تغیر  کا  نہ حس ہوگا  نہ غم  ہوگا

ہوئے جس ساز سے پیدا اِسی کے زِیر و بم ہوں گے

تمہیں  اِس انقلاب ِدہر  کا  کیا  غم  ہے اے اکبرؔ

بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے

اس نظم کےتمام الفاظ آج کی حقیقت  بن کر ہمارے سامنے کھڑےہیں۔ جو کہ اکبر کی بصیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مشرقی تہذیب، رسم و رواج، اُردو زبان ، لسانی تغیرات، رسم الخط،علم وہنر، معیار ِ شرافت، نہ حِس اور نہ غم، کون سے حقائق ہیں جو بیان نہ کیے ہوں۔اس  نظم کے ہر ایک شعر کی تشریح اور اس کی وضاحت میں آج کے دور سے مثالیں دینا شروع کروں تو ختم نہ ہوں گی۔

اکبر الہٰ آبادی کی ظریفانہ شاعری نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ ان کی سنجیدہ شاعری کی طرف اکثر لوگوں کی توجہ ہی نہ جا سکی۔وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کی آراء ٹھیک تھیں اور وہ وقت کی نبضیں پہچانتے تھے۔ان کی دُور رس نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ آنے والے دور میں تہذیبی حالات کیسے  ہوں گے۔اخلاقی زوال کی کیا صورت ِ حال ہو گی۔اکبر نے جس عہد میں آنکھ کھولی تھی آج اُس عہد کی معاشرت ڈھونے سے بھی نہ ملے گی۔ ان  کی دور اندیشی ،حقیقت پسندی اور معنویت کو طنز و مزاح کا لیبل لگا دینے کی وجہ سے ناقدین شاید سمجھنا ہی نہیں چاہا اور طنز و مزاح کی  حدود میں  قید کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا؛ جب کہ اکبر کی شاعری زمانی او رمکانی بُعد کے با وجود  ، ہر عہد سے مکالمہ کرتی  ہوئی محسوس ہو تی ہے۔اُنھوں نے اپنے ز مانے کے معاشرتی اور ثقافتی مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ زمانوں کو اپنے شاعرانہ تخیل کے جام ِ جہاں نما میں باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور شعر کے پیراہن میں پیش کر تے ہوئے مستقبل  کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے آشوب کو بھی سمجھا۔بقول شمیم حنفی” شہر ِ آشوب لکھنے والوں سے کہیں زیادہ گہرزئی کے ساتھ اکبر نے اپنے عہد کے آشوب کو سمجھا ہے۔” 8؎

اکبر الٰہ آبادی نے اپنی  شان دار تاریخ کو فراموش نہیں کیا تھا۔ اپنے دور کی نبضوں پر بھی ہاتھ تھا اور مستقبل پر بھی گہری نظر  رکھے ہوئے تھے۔ سیّد محمد محمود رضوی اور مخمور اکبر آبادی اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:

                  ” اس کے کلام کا مفصّل اور دقیق مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ حکیم اور نبّاض تھا اور معاشرت کے

                  روز  بالمرّہ تغیّرات کا جائزہ لیتا تھا۔وہ کیوں کر زندگی کو جامد اور ساکت سمجھ لیتا۔ اس کا قلب

                  آلہ زلزلہ پیما سے اس خصوص سے افضل تھا کہ زلزلہ درج بھی کرتا تھا اور زلزلے کی پیش

                  گوئی بھی کرتا تھا۔”9؎

اکبر الہٰ آبادی کی مستقبل شناسی کو عیاں کرتی ہوئی شاعری، “فیوچرلوجی” کی با قاعدہ اصطلاحی آمد سے کہیں پہلے کی ہے۔ان کی حکیمانہ بصیرت اور شخصیت کے بارے میں شمس الرحمٰن فاروقی  لکھتے ہیں کہ :”وہ محض روز کا اخبار نہیں بلکہ زندہ دستاویز ہیں۔ اس دستاویز کا متن اتنا اکہرا نہیں کہ چند عمومی بیانات میں نپٹا دیا جائے۔” 10؎

قوموں کے عروج و زوال کی نشانیوں میں لسانی تغیر بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے کئی جگہ اکبر نے تذکرہ کیا۔ اُردو زبان کے لیے اکبر کے احساسات  کچھ یوں تھے۔

         ؎         فارسی اُٹھ گئی اُردو کی وہ عزّت نہ رہی             ہے منھ میں زباں مگر اس کی وہ قوّت نہ رہ

اکبر کی مستقبل شناسی کے حوالے سے چند  اوراشعار ملاحظہ کیجیے:

یہ بُت جو دل کش ہیں آج  اِتنے یہ روح پر کل عذاب ہوں گے

نہیں سمجھتے جو حضرت ِ دل تو آپ اک دن  خراب  ہوں  گے

ہمارے  حالات  کی  حقیقت  کسی  پہ  بھی  منکشف  نہ  ہو گی

جو کوئی سوچے گا، وہم ہوں گے جو کوئی دیکھے گا خواب ہوں گے

بگاڑ  میں  بھی  بنے  رہیں  گے  ، جو مُستند طرز پر  ہیں  قائم

جو بے اُصولی کے ہیں مقلّد وہ  ہو  کے  ابتر  خراب  ہوں  گے

حوالہ جات

  1. https://www.merriam-webster.com/dictionary/futurology
  2. 2. https://www.lexico.com/definition/futurology
  3. 3. https://encyclopedia2.thefreedictionary.com/Futurology

4۔آل ِ احمد سرور، ” اکبر کی ظرافت اور اس کی اہمیت” مشمولہ   ” تنقید کیا ہے؟” نئی دہلی: مکتبہ جامعہ، 1972، ص ،  72

5۔ڈاکٹر شوکت سبزواری، ” نئی پرانی قدریں” کراچی: مکتبہ اسلوب،  اشاعت اوّل، 1961، ص، 136

6۔شمس الرحمٰن فاروقی، ” اکبر الہٰ آبادی :نئی تہذیبی سیاست اور بدلتے ہوئے اقدار”  نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی، فروری 2002ء، ص ، 4

7۔۔ محمد رحیم دہلوی، ” حضرت اکبر کے شب وروز” کراچی: مکتبہ رضیہ، ص، 10،11

8۔ شمیم حنفی، سہیل احمد ” سر سیّد سے اکبر تک” دہلی: مکتبہ جامع دہلی، 2011، ص، 189

9۔ سیّد محمد محمود رضوی، مخمور اکبر آبادی” کیا اکبر رُجعت پسند تھا” مشمولہ ” اکبر اس دور میں” مرتبہ : اختر رضا انصاری، کراچی: بزم ِ اکبر،  1952، ص، 65

10۔ شمس الرحمٰن فاروقی، “اکبر،بعض بینادی باتیں” دیباچہ اوّل، ” کلیات ِ اکبر” جلد اوّل(غزلیات)، مرتبہ : احمد محفوظ، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ ِ اُردو زبان، نومبر 2002

***

Leave a Reply