ارشا د احمد سکند ر احمد
فتحپو ری دہلی
اکیسویں صدی میں تر جمے کی صور ت حا ل اور ادب
تلخیص: اکیسو یں صدی کئی جہتو ں سے متعد د معا ملو ں میں منفر د شنا خت اور امتیا زی شا ن رکھتی ہے ۔اکیسویں صدی انفا رمیشن ٹکنا لو جی کے لیے انقلا بی صدی ثا بت ہو ئی ہے ۔ اس صد ی میں تر اجم کی اہمیت کو سمجھتے ہو ئے برّصغیر کے ادبا نے نہ صرف متعد د مشر قی اور مغربی زبا نو ں کی کتا بو ں کو اردوزبا ن و ادب کا جا مہ عطا کیا ہے بلکہ اردو زبا ن و ادب کومزید مستحکم بنا یا ہے،حا لا ں کہ اس صد ی سے قبل اردو میں جتنے بھی تر ا جم ہو ئے ان تر جمو ں میں معر فت ،ہیئت،تکنیک اور ادبی لحا ظ سے آشنا ئی بہت کم نظر آتی ہے ،جب کہ اکیسو یں صدی میں اردو زبا ن و ادب نے تر جمو ں کی بد ولت الفا ظ ،اصطلا حا ت علمیہ،صر ف و نحو ، اسا لیب بیا ن اوراصنا ف ادب یہا ں تک کہ ہر شعبے میں کلیدی کردار اداکیا ہے۔اس صد ی میں تر اجم کے مید ان میں اہم کا رنامہ انجام دینے والے اداروں میں قو می کو نسل برائے فروغ اردو زبان اور ساہتیہ اکا دمی کا شما ر صف اوّل میں کیا جا تا ہے ۔ اس کے علاو ہ ہندوستا ن کی مختلف ریا ستو ں میں موجو د اردو ادارے اور ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ نے بھی ترا جم کے با ب میں گر انقد ر اضا فہ کیا ہے ۔
تر جمہ ایک ایسا فن ہے، جس کی تاریخ جتنی قدیم ہے اتنی شاندار بھی ہے۔اور اس کی روایت کئی صد یو ں پر محیط ہے ،اس نے ہر دور میں اپنا لو ہا منو ایا ہے ،اسی لیے ہمیشہ سے اس فن کی طر ف خا صی تو جہ دی گئی ہے ۔
اکیسو یں صد ی میں سا ئنسی ایجا دات اور جد ید ٹکنا لو جی کی بد ولت دنیا کی مختلف زبا نیں بو لنے وا لو ں میں ارتبا ط اور اختلا ف اس قد ر بڑھ گیاکہ ایک دوسر ے کو سمجھنے اور سمجھا نے کے لیے ضرو رتا ایک دوسر ے کی زبا ن سیکھنی پڑی اور ملو کیت میں وہ افر اد یا وہ طبقے ہمیشہ سے ممتا ز رہے ہیں، جنھو ں نے حا کمو ں کی زبا ن سیکھنے میں سبقت حا صل کی اور حا کمو ں کو بھی اس با ت کا ادراک ہے کہ امن و استحکام کے لیے صرف زور با زو اور ایٹمی ہتھیا ر ہی کا فی نہیں بلکہ عو ام النا س کے دلو ں کو مسخّر کر نے کے لیے ان کی زبا ن اور ثقا فت سے بھی آشنا ئی ضرور ی ہے ۔
اس ضمن میں اجنبیت اور مغا ئر ت کو کم کر نے کے لیے تر جمو ں کا بہت بڑا کر دا ر رہا ہے ۔اسی لیے گزشتہ ادوار کی طر ح اکیسویں صد ی میں بھی تر جمو ں کی اہمیت و افا دیت کو سمجھتے ہو ئے برّصغیر کے ادیبو ں نے متعدد مشر قی اور مغر بی زبا نو ں کی کتا بوں کو اردو کے قا لب میں ڈھالا۔ حا لا نکہ جب ہم مشر قی اور مغر بی زبانو ں کے اردو میں ادبی تر ا جم کا جا ئزہ لیتے ہیںتو یہ با ت سا منے آتی ہے کہ ان تر ا جم نے اردو زبان و ادب میں وسعت اور تکنیکی سطح پر گہرا ئی و گیر ا ئی عطا کر نے میں اہم کر دا ر عطا کیا ہے ۔ مثلا یہ کہ ان تر ا جم نے نئے نئے اسالیب بیا ن کو جنم دیا نئے طرز احسا س کو ابھا ر ا ، پیر ا ئے بیا ن میں مضبو طی عطا کی اور استدلا ل کو بڑھا وا دیا اور پیر ائے اظہا ر کے لیے نئے سا نچے ایجا د کئے ، اسی لیے اردو ادب میں تذکر ہ کی جگہ تنقید ، داستا ن کی جگہ نا ول ، رہس اور نو ٹنکی کی جگہ ڈراما اور کہا نی کی جگہ افسا نہ جیسی جد ید اصنا ف نے لے لی اور ادبیا ت عا لم کے سا تھ قد م سے قد م ملا کر چلنے کا خو اب ہم نے پہلی با ر دیکھا ۔ اور یہ سب اس وقت ہو ا ،جب ہما رے ادیبو ں نے سو سے زائد آپ بیتیا ں ، ڈیڑھ سو افسانو ی مجمو عے ، درجنو ں ادبی تا ریخ کے حو ا لے سے کتا بیں ڈھا ئی سو ڈرا مے کی کتا بیں اور متعد د ناول اور سفر نامے کی کتا بو ں کو نہ صر ف اردو میں تر جمہ کیا بلکہ ان تما م کتا بو ں کو شا ئع بھی کر ا یا ۔
اکیسو یں صد ی میں دنیا کی دوسر ی تر قی یا فتہ زبا نوں کی طر ح اردو کا دا من بھی تر جمو ں کے بد و لت نہ صر ف دوسر ی ادبی و علمی زبا نو ں کے ہم پلہ نظر آتی ہےبلکہ اس زبا ن نے الفا ظ ، اصطلا حا ت علمیہ ، صر ف و نحو ، اسا لیب بیا ن ، اصنا ف ادب بلکہ ہر شعبہ میں تر جمو ں کی مدد سے حظ وافر حا صل کیا ہے ۔ اگر یہ کہا جا ئے تو حر ج نہیں ہو گا کہ اردو زبا ن نے اپنی ابتدا سے لے کر نشو ونما کے تمام مر ا حل اور علمی و ادبی زبا ن بننے تک دوسری زبا نو ں کی تحقیقا ت ،تجر با ت ، لفظی و معنو ی محا سن اور بدلتی ہو ئی ادبی قد رو ں کا قدم قد م پر سہا را لیا ہے ۔اسی لیے اردو زبا ن و ادب کے حوا لے سے یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کے کہ اس زبا ن کا بیشتر سر ما یہ دوسر ی زبا نو ں کے علمی و ادبی ذخیر وں کے ترا جم سے پر نظر آتاہے ۔ بقول ظ انصاری ’’اردو تو ایک با قا عدہ زبا ن بنی ہی تر جمو ں کی بدولت ورنہ وہ جب تک کھڑی بولی کے روپ میں تھی اسے کسی بڑے قلمکا ر نے ادبی تصنیف کے قا بل نہ سمجھا۔ بولی زبان تک کا طویل فا صلہ ایک صدی کے اندر طے کر لینے میں تر جمو ں کا بڑا ہا تھ ہے‘‘۔ (اکیسو یں صدی میں اردو کا سما جی و ثقا فتی فروغ ، ص ۳۷۰ مرتب خواجہ اکرا م الدین ، شا ئع کر دہ قو می کو نسل برائے فروغ اردو زبان 2014 )
اکیسو یں صد ی سے قبل اردو میں جو ترا جم ہو ئے ان تر جمو ں میں ادبی سطح پر معر فت ہیئت ، تکنیک اور مو ضو عی کر و ٹو ں سے آشنا ئی بہت کم نظر آتی ہے اور مغر بی روایت کا شعو ر تقر یبا نا پید دکھا ئی دیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تر اجم تو بہت ہو ئے لیکن ان میں انتہا ئی بے سلیقگی کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ایسے تر ا جم کا بڑا نقص یہ ہے کہ غیر معتبر ہو نے کے سا تھ وہ مستند اور اہم کتا بو ں کے تر جمے نہیں تھے ۔ مثلا جارج ولیم ایم رینالڈز کے کتا بی صو رت میں تقر یبا ًپچا س سے زائد تر جمے ہو ئے اور مختلف متر جمین نے تر جمے کئے ،لیکن دراصل ہو ا یہ کہ یہ سا رے تر ا جم نقل در نقل ہو ئے اور چندمتر جمین نے اصل متن دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی۔
جدید دور میں نئی ٹکنا لو جی اور سا ئنس کے نئے نئے منکشف ہو تے ہو ئے گو شے ، معا شی سما جی علو م کے نئے نئے روپ جد ید دنیا کی ترقی کے لیے نا گزیر حقیقت بن گئے ہیں ، اور ان علو م وفنو ن کو جا نے بغیرکو ئی بھی قو م آگے بڑھنے کا تصور نہیں کر سکتی، چنا نچہ آج کی تر قی پذیر اقو ام کے سا منے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ جدید علو م وفنو ن کو کس طر ح اپنے مما لک میں عا م کیا جا ئے اور اس کو اپنی زبا ن کے قالب میں ڈھا ل کر کیسے فا ئد ہ اٹھا یا جا سکے ۔ترجمے کی اسی ضرورت ،اہمیت وافا دیت کو پیش نظر رکھتے ہو ئے اکیسو یں صد ی میں بھی ہندوستا ن میں متعد د ایسے ادارے اور لو گ مو جو د ہیں ،جو تر ا جم کی طر ف خا صی تو جہ دے رہے ہیں ۔ ان اداروں میں نما یا ں طو ر پر قومی کونسل برا ئے فروغ اردو زبا ن کا نا م سب سے پہلے آتا ہے اس ادارے کے تحت مختلف زبا نو ں کی کئی سو کتا بو ں کو اردوکا جا مہ پہنا یا گیا اور انھیں شا ئع کر کے ترا جم کی روایت کو مزید مستحکم کیا گیا۔ مثلا خواجہ احمد عبا س کی کتاب’’ جزیرہ نہیں ہو ں میں‘‘ کو ڈاکٹر نر یش نے اردو میں ترجمہ کیااسی طر ح ’’دیو ان دارا شکو ہ ‘‘کو پروفیسر شا ہد نو خیز نے، رسالہ حق نما سلطا ن محمد دارا شکو ہ کو عر ا ق رضا زید ی نے، شر یمد بھگو ت گیتا کو حسن ا لد ین نے ،مثنو ی مو لا نا روم کو ایک سے چھ جلدوں تک سید احمد ایثا رنے، ناول اور عو ام کو سید محمو د کاظمی نے اور دارا شکو ہ کی شا ہکا ر تصنیف مجمع البحر ین کو پر وفیسر طلحہ رضو ی بر ق نے ارود میں منتقل کیا ہے ۔ اس کے علا وہ تا ریخ کے موضوع پر بھی اکیسو یں صد ی میں اس ادارے کے تحت متعددکتا بیں تر جمہ ہو کر شا ئع ہو ئی ہیں ، مثلا مشیر الحسن کی تصنیف اتحاد سے انتشا ر کی طر ف کلو نیل اودھ کے قصبات کو مسعود الحسن نے انگر یزی سے اردو میںتر جمہ کیا ،اسی طر ح رضو ا ن قیصر کی تصنیف استعما ریت اور فر قہ وارانہ سیا ست کی مزاحمت مولا نا آزاد اور ہندوستا نی قو م کی تعمیر کو سہیل احمد فارو قی نے ، تا ج الد ین حسن نظا می کی تصنیف تا ج الما ثرکو سید احسن الظفر نے ، تارا چند کی تصنیف تاریخ تحر یک آزادی ہند کو غلام رباّنی تا با ں نے ، ملا عبد القا در بدا یو نی کی تصنیف منتخب التواریخ کی تین جلدو ں کو علیم اشر ف خا ں نے، سر مو ر کی تصنیف وادی سندھ اور اس کے بعد کی تہذیبیں کو زبیر رضوی نے ، گلبدن بیگم کی تصنیف ہما یو ں نا مہ کو عثما ن حیدر مر زا نے ، محب ا لحسن کی تصنیف ہند و ستا نی دور کے مو ر خین کو مسرور علی ہا شمی نے ، محمد یسین کی تصنیف ہندو ستا ن کے عہد مغلیہ کی سما جی تا ریخ کو اے اے ہاشمی بدا یو نی نے اور شہزادہ محمد دارا شکو ہ کی تصنیف ’’سّرِ اکبر‘‘ جو پچا س اپنشدوں پر مشتمل ہے اس کا اردو تر جمہ آزرمی دخت صفو ی نے کیا ہے۔یہ تما م تراجم اکیسویں صدی کے نہا یت اہم تر جمے ہیں ۔ ان تراجم کے علاوہ اس ادارے کے تحت مختلف مو ضو عا ت پر مثلا تعلیم وتدریس، حیات وخدما ت ، زبا ن و لسا نیا ت ،لغات سا ئنس ،سماجیات ، سیا ست ، صحا فت ، طب و معا لجا ت ، فلسفہ اور بچو ں کے ادب کے حوالے سے سینکڑو ں کتا بو ں کو ارود کا جا مہ پہنا یا گیا ہے۔
اکیسو یں صد ی میں تراجم کے معا ملے میں سا ہتیہ اکادمی سے بھی صر ف نظر نہیں کیا جا سکتا ، یہ ایک ایسا ادارہ ہے ،جونہ صر ف ہندوستان میں رائج مختلف زبا نو ں کے ادب کی تر قی کے لیے فعا ل کر دار ادا کر رہاہے ،بلکہ اس ادارے نے اردوزبا ن و ادب کی تر قی کے لیے بھی کا ر ہا ئے نما یا ں انجام دیے ہیں۔ تراجم کے میدا ن میں اس ادارے کا دائر ہ بہت وسیع ہے اس ادارے کے تحت مختلف زبا نو ںکی سینکڑوں کتا بوں کواردو کا جا مہ عطا ہوا ہے ،اس ادارے کی سب سے اہم خصو صیت یہ بھی ہے کہ اس ادارے میں ہر سا ل مختلف زبانوں کے بہتر ین تر اجم کو جن میں اردو بھی شا مل ہے انعا م واکر ام کے لیے منتخب کیا جا تا ہے ،جس سے نہ صر ف متر جمین کی حو صلہ افزا ئی ہو تی ہے بلکہ ان کے اندر تراجم کے میدان میں بڑھ چڑھ کر کا م کر نے کا جذبہ بھی بیدار ہو تا ہے ۔
اکیسو یں صد ی میں اس ادارے سے شا ئع ہو نے والے چند اہم ترا جم کچھ اس طر ح سے ہیں ، جیسے جتیدر کما رکا ہند ی ناول مکتی بو دھ کو شہزاد انجم نے ،انّا را م سدا ما کا نا ول میو ے کے پیڑکو شا ہینہ تبسم نے ، بھا بھنی بھٹا چا ریہ کا نا ول لداخ کا سا یہ کوذکیہ مشہد ی نے، اشو ک پوری گو سو ا می کا نا ول کنو اں کو شموئل احمد نے اور ناول پشت قا مت کو سہیل احمد فاروقی نے اردو میں منتقل کیا ،اسی طر ح شعر ی مجموعوں میں سر جیت پا تر کا مجمو عہ اندھیر ے میں سلگتے حروف کو بلر اج کو مل نے ، امریتا پر یتم کاپنجا بی شعر ی مجمو عہ سفر کو اسما ں سلیم نے، پدما سچد یوا کا مجمو عہ میر ی نظمیں میر ے گیت کو نعیم انصاری نے اور ارون کو مل کا ہندی شعر ی مجمو عہ نئے علا قے میں کو امام اعظم نے اردو کا جا مہ پہنا یا ۔ اس کے علا وہ اکیسو یں صد ی میں اس ادارے کے تحت متعد د افسا نو ی مجمو عے بھی مختلف زبا نو ں سے اردو میں تر جمہ ہو کر شا ئع ہو ئے ۔ مثلا گلزا ر سنگھ کا پنجا بی افسا نو ی مجمو عہ امر کتھا کو نر نجن شا ہ نے ، کملیشور کا افسا نو ی مجمو عہ آزاد ی مبا رک اور دوسری منتخب کہا نیا ں کو خو رشید عا لم نے اور رامینیکا گپتا کا افسا نو ی مجمو عہ منتخب دلت کہا نیا ں کو ایف ایس اعجا ز نے اردو میں تر جمہ کیا ۔ اسی طر ح مو جو دہ وقت میں سا ہتیہ اکادمی انعام یا فتہ تر ا جم میں اہم نا م را نا نیّر کا انگر یزی زبا ن میں مختصر کہا نیو ں کا مجمو عہ آنے والے کل کی کہا نیا ں ہے، جس کو شائستہ یو سف نے اردو میں تر جمہ کیا ، اس کے علاو ہ سد ھا اروڑاکے مختصر کہا نیو ں کا مجمو عہ ایک عو رت کی نو ٹ بک کو ظفر عا لم نے ، چتر ا مدگل کاہند ی نا ول پو سٹ با کس نمبر ۲۰۳ نا لا سپارا کو احسن ایو بی نے ، زدّو کر شنا کا انگر یزی مکا لما ت کا مجمو عہ مکالمات جے کر شنا مو رتی کو یعقو ب یا ور نے اور ستیندراکما رتنیجا کا ہندی ڈراما ستم کی انتہا کیا ہے کو محمد کا ظم نے اردو کے قا لب میں ڈھالا ہے ۔
سا ہتیہ اکا دمی کے علا وہ ہند وستا ن کے طو ل و عر ض میںپھیلے ہو ئے متعد د ایسے ادارے آج بھی مو جو د ہیں ،جہا ں مختلف زبانو ں کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا جا رہا ہے ان اداروں میں ا نجمن ریسر چ انسٹی ٹیو ٹ ممبئی ، بہا ر اردو اکادمی ،دہلی اردو اکا دمی ، اتر پر دیش اردو اکا دمی ، غالب اکیڈمی، مدھیہ پر دیش اردو اکا دمی ، کر نا ٹک اردو اکا دمی ، را جستھا ن اردو اکا د می ،مغر بی بنگا ل اردو اکا دمی وغیر ہ کے نا م کا فی اہم ہیں۔
مو جو دہ دور میں انفر ادی طو ر پر جو تر ا جم ہو ئے اس کی طرف جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو اس دور میں ہمیں کئی متر جمین کے نا م سا منے آتے ہیں ، جنھو ں نے مختلف زبا نو ں کی کتابو ں کونہ صر ف اردو میں بلکہ دیگر مختلف زبا نو ں میں تر جمہ کیا ہے ۔ مثلا پر وفیسر ارجمند آرا نے اروندھتی رائے کے شا ہکار ناول کا’’ اردو میں بے پنا ہ شادما نی کی مملکت‘‘ کے نا م سے اس کے علاوہ طیب صا لح کے انگر یزی نا ول کو شما ل کی جا نب ہجر ت کا مو سم کے نام سے اور رالف رسل کی خود نو شت سوا نح کا کچھ کھو یا کچھ پا یا کے نام سے اردو میں تر جمہ کیا ہے ، اسی طر ح لیو ٹا لسٹا ئی کی تصنیف جنگ اور امن کو فیصل اعوان نے ، عبدالر زاق گر نا ہ کا نا ول یاد مفا رقت کے نام سے سعید نقو ی نے ، کر شنا سو بتی کا نا ول زند گی نا مہ کو حیدر جعفر ی سید نے ، امر کا نت کے ہندی زبان میں نا ول انھیں ہتھیا رو ں سے کے نام محمد ہا دی رہبر نے ، ایچ جی ویلس کی تصنیف غیر مر ئی انسان کو عا بد سہیل نے ،ادبی سما جیا ت کے مو ضو ع پر مینیجر پا نڈے کی تصنیف کو ادب کی سما جیا ت: تصور اور تعبیر کے نام سے سرور الہدی نے ، نرمل بر ما کا ہند ی زبا ن میں نا ول آخر ی بیا با ں کے نام سے شا ئستہ فا خری نے ، طا ہر بن جلون کا انگر یزی زبان میں دو نا ول رخصت اور کر پشن کے نام سے محمد عمر میمن نے اور صا دق ہدا یت کے فا رسی نا ول بو ف کور کو اجمل کمال نے اردو میں تر جمہ کر کے اردو ادب کے دا من کومزید وسعت بخشی ہے ۔اسی طر ح سے حا ل ہی میں پر وفیسر خا لد جا وید کے شاہکار نا و ل نعمت خا نہ کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جسے انگر یزی میں با را ں فا روقی نے منتقل کیا ہے ۔ اس نا ول کی اہمیت و افا دیت کا اندازہ اس با ت سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ اسے جے سی بی جیسا بڑا ادبی انعا م ملا ۔ اس کے علا وہ مو جودہ دور میں متر جمین کی ایک لمبی قطا ر نظر آتی ہے ، جو تر جمے کے فن کو مزید مستحکم کر نے کے سا تھ سا تھ اس کی روا یت کو آگے بڑھا نے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔
مند رجہ با لا تراجم کی روشنی میں یہ با ت بڑے و ثو ق کے سا تھ کہی جا سکتی ہے کہ اکیسو یں صدی میں مو جو د اداروں اور متر جمین نے فورٹ ولیم کا لج ،دلّی کا لج اور دارالتر جمہ عثما نیہ کے طر ز پربہت بڑا کا رنا مہ تو انجا م نہیں دیا ، با وجود اس کے ان ادا رو ں نے تر جمو ں کی روا یت کو آگے بڑھا یا اور اردو زبا ن و ادب میں وسعت و گیر ائی عطا کی ، یہی وجہ ہے کہ مو جو دہ دور میں اردو کا دا من بہت و سیع ہو چکا ہے ، اس کا ادبی ذوق اور ثقا فتی اثر دنیا ئے ادب کی مختلف چھو ٹی بڑی زبا نو ں سے بہت مر بو ط ہے ، لہذا اب یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم تر ا جم کے میدا ن میں ایشیا ء کی دوسر ی زبا نو ں کے مقا بلے با لکل بھی پیچھے نہیںہیں ۔ آج فا رسی ادب کے عظیم شعر ا جن میں مولا نا روم ، عمر خیا م ، حا فظ اور فر دوسی دنیا کے تقر یبا ہر ملک میں تر جمو ں کی بدو لت پڑ ھے جا تے ہیں ، تو بّر صغیر کے عظیم شعر ا میر ،غا لب ،اقبا ل و فیض بھی دنیا کے بیشتر ادیبوں ودا نشور و ں کے درمیان اپنا مقا م رکھتے ہیں ۔ پھر بھی ترجمے کے فن کو مزید مستحکم کر نے کے لیے ہمیں تر جمے ، تجزیے ، پر نٹ اور ڈیجیٹل کے جدید تجر بو ں سے استفا دہ کر نا بے حد ضرو ری ہے ۔کیو نکہ تر جمے کے بغیر آ ج کے دور میں کو ئی بھی زبا ن جدید اور تر قی پذ یر ہونے کا دعو ی نہیں کر سکتی اور تر جمو ں نے ہی نسلو ں اور قو مو ں کے درمیا ن حا ئل بہت سی دیواروں کو نہ صر ف تو ڑا ہے بلکہ اس نے ہر عہد میں نئے نئے افکار و نظر یا ت کو ایک قو م سے دوسر ی قو م تک پہنچا یا ہے ۔ ایک تہذیب کو دوسر ی تہذیب سے رو شنا س کر ایا ہے ۔ تر جمے کے ذریعہ ایک زبا ن دوسری زبا ن کے اظہا رات ، اس کے مزاج اور اس کی نحو ی سا خت سے متعا رف ہو کر اپنا رنگ و رو پ بد لتی اور وسعت گہر ائی و گیرا ئی حا صل کر تی ہے ۔ بقو ل انیس نا گی
’’ترا جم کا عمل انسا نی تمد ن ،مزاج اور تا ریخ کی دریا فت اور شنا خت کا ایک بھر پو ر ذریعہ ہے ، انسان جو رنگو ں اور جغر افیا ئی بند شو ں اور سیاسی تفر قات کی بد ولت انسا ن ہو تے ہو ئے بھی ایک دوسر ے کے لیے اجنبی ہے، تر جمے کے ذریعے ایک زبا ن کو اپنی زبا ن کے حرو ف تہجی میں ڈھا لنے سے انسا نی سطح پر ایک دوسر ےسے تعا رف حا صل کر تا ہے ‘‘۔ ( ترجمہ : روایت اور فن ، مرتب نثار احمد قر یشی ، ص ۳۳، شائع کردہ مقتدرہ قو می زبان اسلام آباد 1985)
مو جو دہ دور میں تر ا جم ہما ری تہذیبی نشو و نما کے لیے بھی بے حد ضرو ری ہیں، کیو نکہ ہما ری تہذیبیں ایک مد ت کے بعد اپنے سر چشموں کو خشک کر دیتی ہیں ، اس طر ح وہ ذہنی علا حد گی اور یکطر فہ تہذیبی رویے کا شکا ر ہو جا تی ہیں ، اس کا حل صر ف تر جمے کا عمل ہی دور کر سکتا ہے ، کیو نکہ کئی ایک دوسری سر گر میو ں کی طر ح تر جمے کا عمل بھی انسا ن کو انسا ن کے قر یب تو لا تا ہے اور ذہن کے بند دریچو ں کو کھو لتے ہو ئے کہتاہے کہ زبا نیں مختلف سہی،ملک دور دور سہی ،مگر انسان ایک غیر منقسم صدا قت ہے اور اس سے رشتہ رکھنا بے حد ضروری ہے۔
***