You are currently viewing ایک منفرد سفرنامہ ” زبان یارمن ترکی”

ایک منفرد سفرنامہ ” زبان یارمن ترکی”

کومل شہزادی، پاکستان

ایک منفرد سفرنامہ ” زبان یارمن ترکی”

سفر زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جو تجربات اور نقطہ نظر کو وسیع کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔  یہ ہمیں مختلف ثقافتوں کو دریافت کرنے، نئے لوگوں سے ملنے اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں بہتر تفہیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔  سفر ہمیں اپنے اور دنیا میں اپنے مقام کے بارے میں مزید جاننے کے مواقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔مشہور کہاوت ہے:

 “The journey is the reward.”

 آپ اپنے سفر میں جو کچھ بھی کرتے ہیں، دیکھتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں اس سے آپ کو اپنے بارے میں اسباق اور بصیرت سے نوازا جاتا ہے۔سفر نئی منزلوں کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے اور دنیا کو مختلف طریقے سے دیکھنے کا طریقہ سیکھنے کا ایک موقع ہے۔  دنیا کے بارے میں آپ کا نظریہ ہر اس جگہ کے ساتھ بدل جاتا ہے جہاں آپ جاتے ہیں اور نئے فرد سے آپ ملتے ہیں۔تجربات جیسے کہ کسی نئے ملک کا سفر کرنا یا اپنے شہر کو نئے انداز میں دریافت کرنا، طویل مدتی سفر کرنا، یا کام کے لیے کسی غیر ملک میں جانا۔  راستے میں آپ جو چیزیں سیکھتے ہیں وہ دنیا اور اپنے بارے میں  کے انداز کو بدل دیتے ہیں۔سفر آپ کو اپنے کمفرٹ زون سے باہر مجبور کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، آپ کو اپنے آپ کا ایک مضبوط، بہتر ورژن بننے کی ترغیب دیتا ہے۔  یہ صرف نئی ثقافتوں، نئے حالات، اور یہاں تک کہ نئے مسائل کے تجربے کے ذریعے ہی ہے کہ لوگ ترقی کر سکتے ہیں- مولانا رومی اس حوالے سےلکھتے ہیں:

“Travel brings power and love back into your life.”

سفر آپ کی ذاتی ترقی اور فلاح و بہبود پر بھی مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔  اپنے آپ کو نئی ثقافتوں اور تجربات میں غرق کر کے، آپ اپنے افق کو وسعت دے سکتے ہیں اور دنیا کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر حاصل کر سکتے ہیں۔  سفر دنیا کو دریافت کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے جبکہ ماحول اور مقامی کمیونٹیز پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔

ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن لکھنا ان کا شوق ہے۔یہ شوق محض لکھنے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ پائلٹ بننے کا شوق بھی انہوں نے پورا کیا۔آسٹریلیا میں ہوابازی کی باقاعدہ تربیت لی اور پی پی ایل پرائیویٹ پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ان کو لکھنے میں کس حد تک مہارت حاصل ہے اور یہ جنون ان کی کتاب “زبان یارمن ترکی “میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔یہ کتاب صنف کے اعتبار سے سفرنامہ ہے۔اس حوالے سے مجھے سقراط کا قول یاد آتا ہے۔سقراط کہتا ہے،زندگی ایک سفر ہے۔دل کہتا ہے سیر کردنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں۔یہ ضخیم سفرنامہ ٦۵٧ صفحات پر مشتمل ہے جو بک کارنر جہلم سے شائع ہوا ہے۔

سفرنامے کو تین حصوں میں منقسم کیاگیا ہے۔پہلا حصہ جس میں ترکی کی نیلی مسجد،آبنائے ہاسفورس،حضرت ابوایوب انصاری،استنبول کی سرزمین مسجد وغیرہ کو الگ الگ باب میں تذکرہ کیا گیا ہے۔حصہ دوم میں پریوں کے دیس میں،روئی کے قلعے،حضرت مریم کا گھر،قونیہ ،رومی اوراقبال وغیرہ کے ابواب میں ترکی کی اہم جگہوں کا ذکر ملتا ہے۔حصہ سوم جس میں برصہ ،علی اوراسکا گاوں،عثمان غازی،جامعہ اولی جیسے ذیلی ابواب کو بیان کیا گیا ہے۔ڈاکٹر تصور نے سفرنامہ لکھنے اور ترکی کے مقام کو جس مہارت سے تذکرہ کیا ہے اس سے انکی محنت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔انہوں نے ترکی کے مقامات کو جس انداز میں بیان کیا ہے وہ قاری کے دل کو موہ لیتی ہے۔ترکی کی تاریخ کو نئے انداز میں  پیش کیا ہے۔ان کے ہر باب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے گہری تحقیق کے بعد یہ سفرنامہ قلمبند کیا ہے۔اب تک میں نے جتنے بھی سفرناموں کا مطالعہ کیا ہے ان میں فرخ سہیل گوئندی کے بعد ڈاکٹر تصور کا یہ سفرنامہ مجھے علمی اور تاریخی حوالے سے بھی دلچسپ لگا۔

استنبول کے ساتھ قونیہ اور برصہ کے سفر کی روداد بھی بیان کی گئی ہے جو بہت عمدہ ہے۔یہ ترکی پر تحریر کردہ ایک اہم سفرنامہ ہے۔

طیب اردگان کی مسجد کے حوالے سے سفرنامہ نگار نے انتہائی اہم پہلووں کا انکشاف کیا ہے۔

” یہ مسجد ہماری ثقافتی ڈپلومیسی ہے اور دنیا پر ترکی کی حکومت کا شاندار مظہر بھی ۔ اس مسجد کو بنانے کی منصوبہ بندی اور تعمیر ٢٠٠٠ ء میں شروع ہوگئی تھی اسے مکمل ہونے میں انیس سال لگے۔”

انہوں نے ترکی کو ہر پہلو سے دیکھ کر اسے اپنے انداز سے صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔ڈاکٹر تصور نے سفرنامہ انتہائی دلچسپی سے لکھا ہے جو ہر ورق ورق سے عیاں ہوتا ہے محض سفرنامہ تحریر کرکے صفحے ہی کالے نہیں کیے بلکہ گہری تحقیق اور اشتیاق ہر ورق سے ظاہر ہوتا ہے۔سفرنامہ نگار نے ترکی کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا ہے جس کے لیے یہ داد کے مستحق ہیں۔انہوں نے ترکی کے ہراس مقام سے پردہ اٹھایا ہے جو اس سے قبل کسی سفرنامے میں بیان نہیں ہوا۔مصنف اپالو کے شہر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

” یہ شہر سات سوسال قبل مسیح میں Lycian قوم نے بسایا۔اس سارے علاقے میں جابجا  لیسئین قوم کی باقیات بکھری نظر آتیں ہیں۔اس کا پرانا نام تلموس تھا۔”

یہ محض سفرنامہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک معلوماتی تاریخی کتاب بھی ہے۔شہزادوں کے اہم جزیروں کے متعلق بھی انہوں نے تذکرہ کیا ہے۔تمام جزیروں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

سفرنامہ وہی قاری کو اپنی جانب مائل کرتا جو سادہ زبان میں لکھا گیا ہویہ ہی وجہ ہے کہ ان کا سفرنامہ بھی قاری کے لیے دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔سفرنامہ انتہائی دلچسپ اور منفرد ہے۔میں نے اس سے قبل بھی ایک ترکی پر تحریر کردہ سفرنامہ کا مطالعہ کیا ہے لیکن اس سفرنامے کا جواب نہیں جس شاندار طریقے سے اس کے ہر گوشے گوشے کو بیان کیا گیا ہے۔ان کی سفرنامے میں جو زبان اور لفظی جادوگری ہے وہ قاری کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔کتاب پراہم علمی وادبی شخصیات اوریا مقبول ،ڈاکٹرمحمد امجد ثاقب،عطاالحق قاسمی ،سہیل ورائچ اور خالد مسعود وغیرہ شامل ہیں۔  کی رائے سے بھی  کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔بقول اوریا مقبول جان:

” انہوں نے جس خوبصورتی سے اس خطے کی ثقافت ،تہذیب اورروایت کو اپنے سفرنامے کے جادو میں پرویا ہےاور جس شاندار طریقے سے بیان کیا ہے یہ ان کا کمال ہے۔”

ڈاکٹر امجد ثاقب کی رائے ملاحظہ کیجیے:

” ترکی کی تاریخ ،ثقافت اوراقدار۔یہ سب کچھ کمال دلکشی اور مہارر سے پیش کیا گیا ہے۔”

***

Leave a Reply